110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 136536
ڈاؤنلوڈ: 5556

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136536 / ڈاؤنلوڈ: 5556
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۸۴ ۔ زنا کی حرمت کا فلسفہ کیا ہے؟

۱ ۔ زنا کے ذریعہ خاندانی نظام درہم و برہم ہوجاتاہے، ماں باپ اوراولادکے درمےان رابطہ ختم ہوجاتاہے جبکہ یہ وہ رابطہ ہے جو نہ صرف معاشرے کی شناخت کا سبب ہے بلکہ خود اولاد کی نشو ونما کا موجب بھی ہے، یہی رابطہ ساری عمر محبت کے ستونوں کو قائم رکھتا ہے اور انہیں دوام بخشتاہے۔

المختصر : جس معاشرے میںغیر شرعی اور بے باپ کی او لاد زیادہ ہواس کے اجتماعی روابط سخت متزلزل ہوجاتے ہیں کیونکہ ان روابط کی بنیاد خاندانی روابط ہی ہوتے ہیں۔

اس مسئلہ کی اہمیت سمجھنے کے لئے ایک لمحہ اس بات پر غور کرنا کافی ہے کہ اگر سارے انسانی معاشرے میں زنا جائز اور مباح ہوجائے اور شادی بیاہ کا قانون ختم کردیا جائے تو ان حالات میں غیر معین اور بے ٹھکانہ اولاد پیدا ہوگی، اس اولاد کو کسی کی مدد اور سر پرستی حاصل نہ ہوگی، اسے نہ پیدائش کے وقت کوئی پوچھے گا اور نہ بڑا ہونے کے بعد۔

اس سے قطع نظر برائیوں، سختیوں اور مشکلات میں محبت کی تاثیر تسلیم شدہ ہے جبکہ ایسی اولاد اس محبت سے بالکل محروم ہوجائے گی، اور انسانی معاشرہ پوری طرح تمام پہلوؤں سے حیوانی زندگی کی شکل اختیار کرلے گا۔

۲ ۔ یہ شرمناک اور قبیح عمل ہوس باز لوگوں کے درمیان طرح طرح کے جھگڑوں اور کشمکش کا باعث ہوگا، وہ واقعات جو بعض افراد نے بد نام محلوں اور غلط مراکز کی داخلی کیفیت کے بارے میں لکھے ہیں ان سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جنسی بے راہ روی بدترین جرائم کو جنم دیتی ہے۔

۳ ۔ یہ بات علم اور تجربہ نے ثابت کردی ہے کہ زنا طرح طرح کی بیماریاں پھیلانے کا سبب بنتا ہے، چنانچہ اسی بنا پر اس کے بُرے نتائج کی روک تھا م کے لئے آج کے دور میں بہت سے اداروں کی بنا رکھی گئی ہے اور بہت سے اقدامات کئے گئے ہیں، مگر اس کے باوجود اعداد وشمار نشاندہی کرتے ہیں بہت سے افراد اس راستہ میں اپنی صحت و سلامتی کھو بیٹھے ہیں۔

۴ ۔ اکثر اوقات یہ عمل اسقاط حمل، قتل ِ اولاد اور نسل کے قطع ہونے کا سبب بنتا ہے کیونکہ ایسی عورتیں ایسی اولاد کی نگرانی کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوتیں، اصولاً اولاد ان کے لئے ایسا منحوس عمل جاری رکھنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہوتی ہے، لہٰذا وہ ہمیشہ اسے پہلے سے ختم کردینے کی کوشش کرتی ہیں۔

یہ فرضیہ بالکل خیال خام ہے کہ ایسی اولاد حکومت کے زیر اہتمام چلنے والے اداروں میں رکھی جاسکتی ہے کیو نکہ اس فرض کی ناکامی عملی طور پر واضح ہوچکی ہے اور ثابت ہوچکا ہے کہ اس صورت میں بن باپ کی اولاد کی پرورش کس قدر مشکلات کا باعث ہے، اور نتیجتاً بہت ہی نامطلوب اور غیر پسندیدہ ہے، ایسی اولاد سنگدل، مجرم، بے حیثیت اور ہر چیز سے عاری ہوتی ہے۔

۵ ۔ اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ شادی بیاہ کا مقصد صرف جنسی تقاضے پورے کرنا نہیں ہے بلکہ ایک مشترکہ زندگی کی تشکیل ، روحانی محبت، فکری سکون، اولاد کی تربیت اور زندگی کے ہر موڑ پر ایک دوسرے کی ہر ممکن مدد کرنا شادی کے نتائج میں سے ہیں، اور ایسا بغیر اس کے نہیں ہوسکتا کہ عورت اور مرد ایک دوسرے سے مخصوص ہوں اور عورتیں دوسروں پر حرام ہوں۔

حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں: ”میں نے پیغمبر اکرم سے سنا کہ آپ نے فرمایا: زنا کے چھ بُرے اثرات ہیں، ان میں سے تین دنیا سے متعلق ہیں اور تین آخرت سے:

دنیاوی برے اثراث یہ ہیں کہ یہ عمل ،انسان کی نورانیت کو چھین لیتا ہے، روزی منقطع کردیتا ہے اور موت کو نزدیک کر دیتا ہے۔

اور اُخروی آثار یہ ہیں کہ یہ عمل پروردگار کے غضب ، حساب و کتاب میں سختی اور آتش جہنم میں داخل ہونے (یا اس میں دوام) کا سبب بنتا ہے۔(۱)(۲)

____________________

(۱)مجمع البیان ، جلد ۶، صفحہ ۴۱۴

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۰۳

۸۵ ۔ ہم جنس بازی کی حرمت کا فلسفہ کیا ہے؟

اگرچہ مغربی دنیا میں جہاں جنسی بے راہ روی بہت زیادہ رائج ہے ایسی برائیوں سے نفرت نہیں کی جاتی ، یہاں تک کہ سننے میں آیا ہے کہ بعض ممالک مثلاً برطانیہ میں پارلیمنٹ نے اس کام کو انتہائی بے شرمی سے قانونی جواز دے دیا ہے، لیکن ان برائیوں کے عام ہونے سے ان کی برائی اور قباحت میں ہرگز کوئی کمی نہیں آتی، اور اس کے اخلاقی، نفسیاتی اور اجتماعی مفاسد اپنی جگہ پر ثابت ہیں۔

بعض اوقات مادی مکتب کے بعض پیرو جو اس قسم کی آلودگیوں میں مبتلا ہیں اپنے عمل کی توجیہ کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ اس میں طبی نکتہ نظر سے کوئی خرابی نہیں ہے لیکن وہ یہ بات بھول چکے ہیں کہ اصولی طور پر ہر قسم کا جنسی انحراف انسانی وجود کے تمام ڈھانچے پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کا اعتدال درہم و برہم کردیتا ہے۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ انسان فطری اور طبیعی طور پر صنف مخالف کی طرف زیادہ میلان رکھتا ہے اور یہ میلان انسانی فطرت میں بہت مضبوط جڑیں رکھتا ہے اور انسانی نسل کی بقا کا ضامن ہے، ہر وہ کام جو طبیعی میلان سے ہٹ کر انجام پذیر ہوتا ہے وہ انسان میں ایک قسم کی بیماری اور نفسیاتی انحراف پیدا کرتا ہے۔

وہ مرد جو جنسِ موافق کی طرف میلان رکھتا ہے اور وہ مرد جو اپنے کو اس کام کے لئے پیش کرتا ہے ہرگز کامل مرد نہیں ہے، جنسی امور کی کتاب میں ہم جنس بازی کو ایک اہم ترین انحراف قرار دیا گیا ہے۔

اگر یہ سلسلہ جاری رہے تو انسان میں جنس مخالف کا میلان آہستہ آہستہ ختم ہوجاتا ہے اور اس کام کے مفعول میں آہستہ آہستہ زنانے احساسات پیدا ہونے لگتے ہیں اور دونوں میں بہت زیادہ جنسی ضعف پیدا ہوتا ہے جسے اصطلاح کے مطابق ”سرد مزاجی“ کہا جاتا ہے، اس طرح سے کہ ایک مدت کے بعدوہ (جنس مخالف سے) طبیعی اور فطری ملاپ کرنے پر قادر نہیں رہتے۔

اس چیز کے پیش نظر کہ مرد اور عورت کے جنسی احساسات جہاں ان کے بدن کے ارگانیزم ( Organism )میں موثر ہیں وہاں ان کے روحانی اور مخصوص اخلاقی پہلوؤں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، یہ بات واضح ہے کہ طبیعی اور فطری احساسات سے محروم ہوکر انسان کے جسم اور روح پر کس قدر ضرب پڑتی ہے، یہاں تک کہ ممکن ہے کہ اس طرح کے انحراف میں مبتلا افراد اس قدر سرد مزاجی کا شکار ہوجائیں کہ پھر اولاد پیدا کرنے کی طاقت سے بھی محروم ہوجائیں۔

اس قسم کے افراد عموماً نفسیاتی طور پر صحیح و سالم نہیں ہوتے اور اپنی ذات میں اپنے آپ سے ایک طرح کی بیگانگی محسوس کرتے ہیں اور جس معاشرہ میں رہتے ہیں اس سے خود کو لاتعلق سا محسوس کرنے لگتے ہیں، ایسے افراد قوت ارادی جو ہر قسم کی کامیابی کی شرط ہے آہستہ آہستہ کھو بیٹھتے ہیں اور ان کی روح میں حیرانی و سرگردانی آشیانہ بنالیتی ہے۔

ایسے فراد اگر جلد اپنی اصلاح کا ارادہ نہ کریں بلکہ لازمی طور پر جسمانی اور روحانی طبیب سے مدد نہ لیں اور یہ عمل ان کی عادت میں شامل ہوجائے تو اس بُری عادت کا ترک کرنا مشکل ہوجائے گا، بہر حال اگر مصمم ارادہ کرلیا جائے تو کسی بھی حالت میں اس عادت کو ترک کرنے میں دیر نہیں لگتی، بہر صورت مستحکم ارادہ ہونا ضروری ہے۔

بہر حال نفسیاتی سرگردانی انھیں آہستہ آہستہ منشیات اور شراب کی طرف لے جاتی ہے اور ایسے لو گ مزید اخلاقی انحراف کا شکار ہوجاتے ہیں، یہ ایک اور بڑی بد بختی ہے۔

یہ بات جاذبِ نظر ہے کہ اسلامی روایات میں مختصر اور پُر معنی عبارات کے ذریعہ ان مفاسد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان میں ایک روایت حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے، کسی نے امام علیہ السلام سے سوال کیا: خدا نے لواط کو کیوں حرام کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”اگر لڑکوں سے ملاپ حلال ہوتا تو مرد عورتوں سے بے نیاز ہوجاتے (اور ان کی طرف مائل نہ ہوتے) اور یہ چیز نسلِ انسانی کے منقطع ہونے کا باعث بنتی، اور جنس مخالف سے فطری ملاپ کے ختم ہونے کا باعث بنتی، اور یہ کام بہت سی اخلاقی اور اجتماعی خرابیوں کا سبب بنتا۔(۱)

یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ اسلام ایسے افراد کے لئے جن سزاؤں کا قائل ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ فاعل پر مفعول کی بہن، ماں اور بیٹی سے نکاح حرام ہے یعنی اگر یہ کام نکاح سے پہلے ہوا ہو تو یہ عورتیں اس کے لئے ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہیں۔(۲)

____________________

(۱) وسائل الشیعہ ، جلد ۱۴، صفحہ ۲۵۲

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۹، صفحہ ۱۹۴

۸۶ ۔ شراب کی حرمت کا فلسفہ کیا ہے؟

انسان کی عمر پرشراب کا اثر

ایک مغربی دانشور کا کہنا ہے کہ ۲۱/ سے ۲۳/ سالہ جوانوں میں ۵۱/ فی صد شراب کے عادی مرجاتے ہیں جبکہ شراب نہ پینے والوں میں سے ۱۰ / افراد بھی نہیں مرتے۔

ایک دوسرے مشہور دانشور نے کہا: بیس سالہ جوان جن کے بارے میں ۵۰/ سال تک زندہ رہنے کی توقع کی جاتی ہے وہ شراب کی وجہ سے ۳۵/ سال سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے۔

بیمہ کمپنیوں کے تجربات سے ثابت ہوچکا ہے کہ شرابیوں کی عمر دوسروں کی نسبت ۲۵/ سے ۳۰/ فیصد کم ہوتی ہے۔ ایک دوسرے اعداد و شمار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شرابیوں کی اوسط عمر ۳۵/ سے ۵۰/ سال ہے، جبکہ اصول صحت کا یہ اوسط ۶۰/ سال سے زیادہ ہے۔

انسانی نسل میں شراب کی تاثیر

انعقاد نطفہ کے وقت اگر مرد نشہ میں تو ”الکلسیم حاد “ ( Alcoalism ) کی ۳۵/ فیصد بیماریاں بچہ میں منتقل ہوتی ہیں اور اگر مرد اور عورت دونوں نشہ میں ہوں تو ”الکلسیم حاد “ ( Alcoalism )کی سو فیصد بیماریاں بچہ میں ظاہر ہوتی ہیں، اس بنا پر اولاد کے بارے میں شراب کی تاثیر پر زیادہ توجہ دینا ضروری ہے، ہم یہاں کچھ مزید اعداد و شمار پیش کرتے ہیں:

طبیعی وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں میں ۴۵/ فیصد ماں باپ دونوں کی شراب نوشی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، ۳۱/ فیصد ماں کی شراب نوشی کے باعث ہوتے ہیں اور ۱۷/ فیصد باپ کے شرابی ہونے کی وجہ سے، پیدائش کے وقت زندگی کی توانائی سے عاری سو بچوں میں ۶ شرابی باپ کی وجہ سے اور ۴۵/ فیصد شرابی ماں کی وجہ سے ایسے ہوتے ہیں، شرابی ماں کی وجہ سے ۷۵ فیصد اور شرابی باپ کی وجہ سے ۴۵ فیصد بچے پست قد پیدا ہوتے ہیں شرابی ماؤں کی وجہ سے ۷۵ فیصد اور شرابی باپ کی وجہ سے بھی ۷۵ فیصد بچے کافی عقلی اور روحانی طاقت سے محروم ہوتے ہیں۔

اخلاق پر شراب کا اثر شرابی شخص گھروالوں سے ہمدردی اور اہل و عیال سے کم محبت کرتا ہے بارہا دیکھا گیا ہے کہ شرابی باپ نے اپنی اولاد کو قتل کردیا ۔

شراب کے اجتماعی نقصانات

ایک انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر کے مہیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۶۱ ءء میں ”نیون“ شہر کے شرابیوں کے اجتماعی جرائم کچھ اس طرح ہیں:

عام قتل : ۵۰ فی صد مار پیٹ اور زخم وارد کرنے کے جرائم ۸/۷۷ فیصد

جنسی جرائم ۸/۸۸ فیصد۔

ان اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے جرائم زیادہ ترنشہ کی حالت میں انجام پاتے ہیں۔

شراب کے اقتصادی نقصانات

نفسیاتی امراض کے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے: ” افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ حکومتیں شراب کے ٹیکس اور منافع کا حساب تو کرتی ہیں لیکن ان اخراجات کو نظر میں نہیں رکھتی جو شراب کے بُرے اثرات کی روک تھام پر ہوتے ہیں، نفسیاتی بیماریوں کی زیادتی، ایسے بُرے معاشرہ کے نقصانات، قیمتی اوقات کی بربادی، حالت نشہ میں ڈرائیورنگ حادثات، پاک نسلوں کی تباہی، سستی، بے راہ روی، ثقافت و تمدن کی پسماندگی، پولیس کی زحمتیں اور گرفتاری، شرابیوں کی اولاد کے لئے پرورش گاہیں اور ہسپتال، شراب سے متعلقہ جرائم کے لئے عدالتوں کی مصروفیات، شرابیوں کے لئے قید خانے مختصر یہ کہ اگر شراب نوشی سے ہونے والے دیگر نقصانات کو جمع کیا جائے تو حکومتوں کو معلوم ہوگا کہ وہ آمدنی جو شراب سے ہوتی ہے وہ مذکورہ نقصانات کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے۔

ان کے علاوہ شراب نوشی کے افسوسناک نتائج کا موازنہ نہ صرف ڈالروں سے نہیں کیا جاسکتا بلکہ احساسات کی موت، گھروں کی تباہی، آرزوؤں کی بربادی اور صاحبان فکر افراد کی دماغی صلاحیتوں کا نقصان، یہ سب کچھ پیسے کے مقابل نہیں لائے جاسکتے۔

خلاصہ یہ کہ شراب کے نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ ایک دانشور کے بقول اگر حکومتیں یہ ضمانت دیں کہ وہ شراب خانوں کا آدھا دروازہ بند کردیں تو یہ ضمانت دی جاسکتی ہے کہ ہم آدھے ہسپتالوں اور آدھے پاگل خانوں سے بے نیاز ہوجائیں گے۔

اگر شراب کی تجارت میں نوعِ بشر کے لئے کوئی فائدہ ہو یا فرض کریں کہ چند لمحوں کے لئے انسان اس کی وجہ سے اپنے غموں سے بے خبر ہوجاتا ہے تب بھی اس کا نقصان کہیں زیادہ، بہت وسیع ہے کہ اس کے فوائد اور نقصانات کا آپس میں موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔(۱)

ہم یہاں پر ایک اور نکتہ کا ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں، یہ نکتہ مختلف اعداد و شمار کا ایک مجموعہ ہے جن میں سے ہر ایک تفصیلی بحث کا محتاج کرتا ہے جس سے شراب کے نقصانات کا اندازہ ہوتا ہے۔

۱ ۔ برطانیہ میں شرابیوں کے دیوانہ پن کے سلسلہ میں ایک اعداد و شمار کے مطابق اس جنون کا دوسرے جنونوں سے مو ازنہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۲۲۴۹/ دیوانوں میں سے صرف ۵۳ دیوانے دوسری وجوہات کی بنا پر دیوانگی کا شکار ہوئے ہیں، اور باقی سب شراب کی وجہ سے دیوانہ ہوئے ہیں۔(۲)

۲ ۔ امریکہ کے ہسپتالوں کے ایک اعداد و شمار کے مطابق نفسیاتی بیماروں میں ۸۵ فی صد صرف شرابی تھے۔(۳)

۳ ۔ برطانوی دانشور ”بنٹم“ لکھتا ہے: شراب ؛ انسان کے اندر شمالی ممالک میں کم عقلی اور بے وقوفی اور جنوبی ممالک میں اس کے اندر دیوانہ پن پیدا کرتی ہے، اس کے بعد کہتا ہے کہ اسلامی قوانین نے ہر طرح کی شراب کو حرام قرار دیا ہے اور یہ اسلام کا ایک امتیاز ہے۔(۴)

۴ ۔ اگر ان لوگوں کے اعداد و شمار کو جمع کیا جائے جنھوں نے نشہ کی حالت میں خود کشی، ظلم و جنایت،گھروں کی بربادی اور عورتوں کی عصمت دری کی ہے تو واقعاً انسان کے ہوش اڑ جائیں گے۔(۵)

۵ ۔ فرانس میں ہر روز ۴۴۰/ لوگ شراب پر اپنی جان قربان کرتے ہیں۔( ۵)

۶ ۔ امریکہ کے ہسپتالوں میں نفسیاتی بیماریوں کی وجہ سے ایک سال میں مرنے والوں کی تعداد”دوسری عالمی جنگ“ کے دو برابر ہے، امریکہ میں ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق نفسیاتی بیماریوں میں ”شراب“ اور ”سگریٹ“ بنیادی وجہ ہے۔( ۶)

۷ ۔ ”ماہنامہ علوم ابزار“ کی بیسوی سالگرہ کی مناسبت سے”ہوگر“ نامی دانشور کے اعداد و

(۱) کتاب سمپوزیوم الکل ، صفحہ ۶۵ (۲) کتاب سمپوزیوم الکل، صفحہ ۶۵

( ۳) تفسیر طنطاوی ، جلد اول، صفحہ ۱۶۵ (۴) دائرة المعارف ،فرید وجدی ، جلد ۳ ، صفحہ ۷۹۰

( ۵) بلاہای اجتماعی قرن ما، صفحہ ۲۰۵ (۶) مجمو عہ انتشارات جوان

شمار کے مطابق : ۶۰/ فی صد عمدی قتل، ۷۵/ فی صد مار پیٹ اور زخمی کرنا، ۳۰/ فیصد اخلاقی جرائم (منجملہ ماں بہن کے ساتھ زنا!) ۲۰/ فی صد چوری شرابی پینے والوں سے متعلق ہیں، اور اسی دانشور کی تحقیق کے مطابق ۴۰/ فیصد مجرم بچوں میں شراب کا سابقہ پایا جاتا ہے۔(۱)

۸ ۔اقتصادی لحاظ سے صرف برطانیہ میں شراب پینے والے ملازمین کی غیر حاضری کی وجہ سے ۵۰ ملین ڈالر (۲۲۵.۰۰۰.۰۰۰روپیہ) کا نقصان ہوا ہے، جس رقم سے بچوں کے لئے ہزاروں اسکول اور کالج بنائے جا سکتے ہیں۔( ۲)

۹ ۔ فرانس میں ایک اعداد و شمار کے مطابق شراب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی شرح اس طرح ہے: شراب کی وجہ سے ۱۳۷ / ارب فرانک فرانس کے بجٹ میں اضافہ کرنا پڑا: ۶۰/ ارب فرانک ، کورٹ اور قید خانوں کا خرچ۔

۴۰/ ارب فرانک ، عمومی فا ئد ہ مند امورکے لئے تعاون۔

۱۰/ ارب فرانک ، شرابیوں کے ہسپتالوں کا خرچ۔

۷۰/ ارب فرانک ، اجتماعی امنیت کے لئے خرچ۔

اس لحاظ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رو حا نی بیماروں ، ہسپتالوں، قتل و غارت، لڑائی جھگڑوں، چوری اور ایکسیڈنٹ وغیرہ کی تعداد براہ راست شراب خانوں کی تعداد سے متعلق ہے۔(۳)(۴)

____________________

(۱) تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ ۷۴

۲) کتاب سمپوزیوم الکل، صفحہ ۶۶

(۳) مجموعہ انتشارات نسل جوان ، سال دوم صفحہ ۳۳۰

(۴) نشریہ مر کز مطالعہ پیشرفتہای ایران (دربارہ الکل و قمار)

(۵) تفسیر نمونہ ، جلد ۵، صفحہ ۷۴

۸۷ ۔ محارم سے شادی کی حرمت کا فلسفہ کیا ہے؟

جیسا کہ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں:

( حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اٴُمَّهَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَاٴَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالاَتُکُمْ وَبَنَاتُ الْاٴَخِ وَبَنَاتُ الْاٴُخْتِ وَاٴُمَّهَاتُکُمْ اللاَّتِی اٴَرْضَعْنَکُمْ وَاٴَخَوَاتُکُمْ مِنْ الرَّضَاعَةِ وَاٴُمَّهَاتُ نِسَائِکُمْ وَرَبَائِبُکُمْ اللاَّتِی فِی حُجُورِکُمْ مِنْ نِسَائِکُمْ اللاَّتِی دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَکُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَحَلاَئِلُ اٴَبْنَائِکُمْ الَّذِینَ مِنْ اٴَصْلاَبِکُمْ وَاٴَنْ تَجْمَعُوا بَیْنَ الْاٴُخْتَیْنِ إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللهَ کَانَ غَفُورًا رَحِیمًا ) (۱)

”تمہارے اوپر تمہاری مائیں، بیٹیاں ،بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، وہ مائیں جنھوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے تمہاری رضاعی (دودھ شریک) بہنیں، تمہاری بیویوں کی مائیں، تمہاری پروردہ عورتیں جو تمہاری آغوش میں ہیں اور ان عورتوں کی اولاد جن سے تم نے دخول کیا ہے، ہاں اگر دخول نہیں کیا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے، اور تمہارے فرزندوں کی بیویاں جو فرزند تمہارے صلب سے ہیں اور دو بہنوں کا ایک ساتھ جمع کرنا سب حرام کردیا گیا ہے، علاوہ اس کے جو اس سے پہلے ہوچکا ہے کہ خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے“۔

اس آیہ شریفہ میں یہ بیان ہوا کہ محرم عورتیں کون کون ہے جن سے شادی کرنا حرام ہے، اور اس لحاظ سے تین طریقوں سے محرمیت پیدا ہوسکتی ہے:

۱ ۔ ولادت کے ذریعہ، جس کو ”نسبی رشتہ“ کہا جاتا ہے۔

۲ ۔ شادی بیاہ کے ذریعہ، جس کو ”سببی رشتہ“ کہا جاتا ہے۔

۳ ۔ دودھ پلانے کے ذریعہ ، جس کو ”رضاعی رشتہ“ کہتے ہیں۔

پہلے نسبی محارم کا ذکر کیا گیا ہے جن کی سات قسمیں ہیں، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

( حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اٴُمَّهَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَاٴَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالَا تُکُمْ وَبَنَاتُ الْاٴَخِ وَبَنَاتُ الْاٴُخْتِ)

”تمہارے اوپر تمہاری مائیں، بیٹیاں ،بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں حرام ہیں“۔

یہاں پر یہ توجہ رہے کہ ماں سے مراد صرف وہ ماں نہیں ہے جس سے انسان پیدا ہوتا ہے، بلکہ دادی ، پردادی، نانی اور پر نانی کو بھی شامل ہے، اسی طرح بیٹیوں سے مراد اپنی بیٹی مراد نہیں ہے بلکہ ، پوتی اور نواسی اور ان کی بیٹیاں بھی شامل ہیں، اسی طرح دوسری پانچ قسموں میں بھی ہے۔

یہ بات یونہی واضح ہے کہ سبھی اس طرح کی شادیوں سے نفرت کرتے ہیں اسی وجہ سے تمام قوم و ملت (کم لوگوں کے علاوہ) محارم سے شادی کو حرام جانتے ہیں، یہاں تک کہ مجوسی جو اپنی کتابوں میں محارم سے شادی کو جائزما نتے تھے، لیکن آج کل وہ بھی انکار کرتے ہیں۔

اگرچہ بعض لوگوں کی کوشش یہ ہے کہ اس موضوع کو ایک پرانی رسم و رواج تصور کریں، لیکن ہم یہ بات جانتے ہیں کہ تمام نوعِ بشر میں قدیم زمانہ سے ایک عام قانون کا پایا جانا اس کے فطری ہونے کی عکاسی کرتا ہے، کیونکہ رسم و رواج ایک عام اور دائمی صورت میں نہیں ہوسکتا۔

اس کے علاوہ آج یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے کہ ہم خون کے ساتھ شادی کرنے میں بہت سے نقصانات پائے جاتے ہیں یعنی پوشیدہ اور موروثی بیماریاں ظاہر اور شدید ہوجاتی ہیں، (نہ یہ کہ خود ان سے بیماری پیدا ہوتی ہے) یہاں تک کہ بعض محارم کے علاوہ دیگر رشتہ داری میں شادی کو اچھا نہیں مانتے جیسے دو بھائیوں کی لڑکی لڑکا شادی کریں، دانشوروں کا ماننا ہے کہ اس طرح کی شادیوں میں ارثی بیماریوں میں شدت پیدا ہوتی ہے(۱)

لیکن یہ مسئلہ دور کی رشتہ داریوں میں کوئی مشکل پیدا نہیں کرتا (جیسا کہ معمولاً نہیں کرتا) البتہ قریبی رشتہ داری (یعنی ایک خون )میں بہت سی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ محارم کے درمیان معمولاً جنسی جذابیت اور کشش نہیں پائی جاتی کیونکہ غالباً محارم ایک ساتھ بڑے ہوتے ہیں، اور ایک دوسرے کے لئے عام طریقہ سے ہوتے ہیں، مگر بعض نادر اور استثنائی موارد میں جن کو عام قوانین کا معیار نہیں بنایا جاسکتا، اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ جنسی خواہشات شادی بیاہ کے برقرار رہنے کے لئے ضروری ہے، لہٰذا اگر محارم کے ساتھ شادی ہو بھی جائے تو ناپائیدار اور غیر مستحکم ہوگی۔

اس کے بعد رضاعی محارم کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:( وَاٴُمَّهَاتُکُمْ اللاَّتِی اٴَرْضَعْنَکُمْ وَاٴَخَوَاتُکُمْ مِنْ الرَّضَاعَةِ ) ”وہ مائیں جنھوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے، اور تمہاری رضاعی (دودھ شریک) بہنیں تم پر حرام ہیں“۔

اگرچہ آیت کے اس حصہ میں صرف رضاعی ماں اور بہن کی طرف اشارہ ہوا ہے لیکن متعددروایات معتبر کتابوں میں موجود ہیں جن میں بیان ہو ا ہے کہ رضاعی محرم صرف انھیں دو میں منحصر

(۱) البتہ اسلام نے چچا زاد بھائی بہن میں شادی کو حرام قرار نہیں دیا ہے، کیونکہ ان کی شادی محارم سے شادی کی طرح نہیں ہے، اور اس طرح کی شادیوں میں خطرہ کم پایا جاتا ہے، اور ہم نے اس طرح کی بہت سی شادی دیکھی ہیں جن کے بچے صحیح و سالم ہیں اور استعداد و صلاحیت کے لحاظ سے بھی کوئی مشکل نہیں ہے

نہیں ہے بلکہ پیغمبر اکرم (ص) کی مشہور و معروف حدیث کے پیش نظر دوسرے افراد میں شامل ہیں، جیسا آنحضرت (ص)نے ارشاد فرمایا: ”یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب“ (یعنی تمام وہ افراد جو نسب کے ذریعہ حرام ہوتے ہیں (رضاعت) دودھ کے ذریعہ بھی حرام ہوجاتے ہیں)

البتہ محرمیت ایجاد ہونے کے لئے کتنی مقدار میں دودھ پلایا جائے اس کی کیفیت کیا ہونی چاہئے اس کی تفصیل کے لئے فقہی کتابوں (یاتوضیح المسائل وغیرہ) کا مطالعہ فرمائیں۔

رضاعی محارم کی حرمت کا فلسفہ یہ ہے کہ دودھ کے ذریعہ انسان کے گوشت اور ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں لہٰذا اگر کوئی عورت کسی بچہ کو دودھ پلاتی ہے تووہ اس کی اولاد جیسی ہوجاتی ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی عورت کسی بچہ کو ایک مخصوص مقدار میں دودھ پلائے تو اس دودھ سے اس بچہ کے بدن میں رشد و نمو ہوتا ہے جس سے اس بچہ اور اس عورت کے بچوں میں شباہت پیدا ہوتی ہے، در اصل دونوں اس عورت کے بدن کا ایک حصہ شمار ہوں گے جس طرح دو نسبی بھائی۔

اس کے بعد قرآن مجید نے محارم کی تیسری قسم کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کو چند عنوان کے تحت بیان کیا ہے:

۱ ۔ وَ امِّہَاتُ نِسَائِکُمْ: ”تمہاری بیویوں کی مائیں“ یعنی جب انسان کسی عورت سے نکاح کرتا ہے اور صیغہ عقد جاری کرتا ہے تو اس عورت کی ماں اور اس کی ماں کی ماں اس پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہیں۔

۲ ۔( وَرَبَائِبُکُمْ اللاَّتِی فِی حُجُورِکُمْ مِنْ نِسَائِکُمْ اللاَّتِی دَخَلْتُمْ بِهِنَّ ) ”تمہاری پروردہ لڑکیاں جو تمہاری آغوش میں ہیں یعنی تمہاری ان بیویوں کی اولاد جن سے تم نے دخول کیا ہے، وہ تم پر حرام ہیں“ گویا اگرکسی عورت سے صرف نکاح کیا ہے اور اس کے ساتھ ہمبستری نہیں کی اور اس عورت کی پہلے شوہر سے کوئی لڑکی ہو تو وہ حرام نہیں ہوگی،مگر اس بیوی سے ہمبستری کی ہو تو اس صورت میں وہ لڑکی بھی حرام ہوجائے گی، یہاں اس قید کا ہونا اس بات کی تائید کرتا ہے کہ ساس (خوش دامن)کے سلسلہ میں یہ شرط نہیں ہے (کیونکہ خوشدامن اس صورت میں حرام ہوتی ہے کہ جب بیوی کے ساتھ ہمبستری کی ہو) لہٰذا وہاں حکم مطلق ہے یعنی چاہے اپنی بیوی سے ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو ہر صورت میں ساس حرام ہے۔

اگرچہ ”فِی حُجُورِکُمْ“ کی ظاہری قید (یعنی تمہارے گھر میں ہو) سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اگر بیوی کے پہلے شوہر سے لڑکی ہو ، اور وہ تمہارے گھر میں پرورش نہ پائے تو وہ اس صورت میں حرام نہیں ہے، لیکن دوسری روایات کے قرینہ اور اس حکم کے قطعی ہونے کی بنا پر یہ ”قید احترازی“ نہیں ہے ، ( یعنی یہ قید موضوع کو محرز اور معین کرنے کے لئے نہیں ہے) بلکہ اس سے حرمت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس جیسی لڑکیوں کی عمر کم ہوتی ہے جن کی مائیں دوبارہ شادی کرتی ہیں اور وہ معمولاً سوتیلے باپ کی گھر میں اس کی لڑکیوں کی طرح پرورش پاتی ہیں، آیہ شریفہ کہتی ہے کہ در اصل یہ تمہاری بیٹیوں کی طرح ہیں، کیا کوئی اپنی بیٹی سے شادی کرتا ہے؟! چنانچہ اسی وجہ سے انھیں ”ربیبہ“ کہا گیا ہے جس کے معنی پرورش پانے والی ہے۔

اس حصہ میں اس کی مزید تاکید ہوتی ہے کہ اگر اس زوجہ سے ہمبستری نہ کی ہو تو ان کی لڑکیاں تم پر حرام نہیں ہیں،( فَإِنْ لَمْ تَکُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْکُمْ )

۳ ۔( وَحَلاَئِلُ ( ۱ ) اٴَبْنَائِکُمْ الَّذِینَ مِنْ اٴَصْلاَبِکُمْ ) ”اور تمہارے فرزندوں کی بیویاں جو فرزند تمہارے صلب سے ہیں “

در اصل ”مِنْ اَصْلاَبِکُمْ “ (تمہارے صلب سے ہو نے ) کی قید دور ِجاہلیت کی ایک غلط رسم کو ختم کرنے کے لئے ہے کیونکہ اس زمانہ میں رائج تھا کہ بعض افراد کو اپنا بیٹا بنا لیتے تھے، یعنی اگر

(۱) ”حلائل “جمع” حلیلہ“مادہ ”حل“سے ہے اور اس سے وہ عورت مراد ہے جو انسان پر حلال ہے ،یا مادہ” حلول “ سے ہے جس سے مراد وہ عورت ہے جو ایک انسان کے پاس ایک ساتھ زندگی گزارتی ہو اور اس سے جنسی تعلقات رکھتی ہو

کوئی کسی دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنالے تو اس پر حقیقی بیٹے کے تمام احکام نافذ کیا کرتے تھے، اسی وجہ سے منھ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح نہیں کرتے تھے، لیکن اسلام نے منھ بولے بیٹے کو بیٹا قرار نہیں دیا اور اس غلط رسم و رواج کو بے بنیاد قرار دیدیا۔

۴ ۔( وَاٴَنْ تَجْمَعُوا بَیْنَ الْاٴُخْتَیْنِ ) ”اور تمہارے لئے دو بہنوں کا ایک ساتھ جمع کرنا حرام کردیا گیا ہے“، یعنی ایک وقت میں دو بہنوں کا رکھنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر دو بہنوں سے مختلف زمانہ میں اور پہلی بہن کی جدائی کے بعد نکاح کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔کیونکہ دور جاہلیت میں دو بہنوں کو ایک ساتھ رکھنے کا رواج تھا اور چونکہ بعض لوگ ایسا کئے ہوئے تھے لہٰذا قرآن مجید میں اضافہ کیا گیا:( إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ ) ”علاوہ اس کے جو اس سے پہلے ہوچکا ہے “ ، یعنی یہ حکم (دوسرے احکام کی طرح) گزشتہ پر عطف نہیں کیا جائے گا اور جن لوگوں نے اس حکم کے نازل ہونے سے پہلے ایسا کیا ہے ان کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی اگرچہ اب ان دونوں میں سے ایک بیوی کا انتخاب کرے اور دوسری کو آزاد کردے۔اور شاید اس طرح کی شادی سے روکنے کا راز یہ ہو کہ دو بہنیں نسبی لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت زیادہ محبت اور تعلق رکھتی ہیں، لیکن جس وقت ایک دوسرے کی رقیب ہوجائیں تو پھر اس گزشتہ رابطہ کو محفوظ نہیں رکھ سکتیں، اس طرح ان کی ”محبت میں تضاد“ پیدا ہوجائے گا جو ان کی زندگی کے لئے نقصان دہ ہے، کیونکہ ”محبت“ اور ”رقابت“ میں ہمیشہ کشمکش اور مقابلہ پایا جاتا ہے۔(۲)

____________________

(۱)سورہ نساء آیت۲۳

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۳۲۶