110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 136608
ڈاؤنلوڈ: 5568

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136608 / ڈاؤنلوڈ: 5568
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۹۹ ۔ کیا تمام اصحاب پیغمبر (ص)نیک افرادتھے؟

”پہلے مہاجرین“ کے لئے قرآن کی بیان کردہ عظمت کے پیش نظر بعض برادران اہل سنت یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ لوگ آخری عمر تک کوئی خلاف(شرع) کام نہیں کرسکتے، لہٰذا کسی چون و چرا کے بغیر سب کو قابل احترام شمار کیا جائے، اس کے بعد اس موضوع کو تمام ”اصحاب“ کے لئے عام کردیا چونکہ ”بیعتِ رضوان“ میں اصحاب کی مدح کی گئی ہے، لہٰذا ان کی نظر میں اصحاب کے متعلق کوئی تنقید قابلِ قبول نہیں ہے چاہے ان کے اعمال کیسے ہی ہوں!۔

جیسا کہ مشہور مفسر مولف المنار شیعوں پر شدید اعتراض کرتے ہیں کہ یہ لوگ مہاجرین پر کیوں انگلی اٹھاتے ہیں، اور ان پر کیوں تنقید کرتے ہیں!! جبکہ وہ اس بات پر توجہ نہیں کرتے کہ صحابہ کرام کے بارے میں اس طرح کا عقیدہ اسلام اور تاریخ اسلام کے برخلاف ہے۔

(قارئین کرام!) بے شک ”صحابہ“ خصوصاً پہلے مہاجرین کا ایک خاص احترام ہے، لیکن یہ احترام اسی وقت تک ہے جب تک وہ صحیح راستہ پر قدم بڑھاتے رہیں، لیکن جب بعض صحابہ اسلام کے حقیقی راستہ سے منحرف ہو جا ئیں تو پھر اصولی طور پر قرآن مجید کا کچھ اور ہی نظریہ ہوگا۔

مثال کے طور پر ہم کس طرح ”طلحہ“ اور ”زبیر“ سے یونہی گزر سکتے ہیں جبکہ انھوں نے پیغمبر اکرم (ص) کے جانشین اور خود اپنے انتخاب کردہ خلیفہ رسول کی بیعت کو توڑ دیا، ہم کیسے ان کے دامن پر لگے جنگ جمل کے سترہ ہزار مسلمانوں کے خون کو نظر انداز کرسکتے ہیں؟! اگر کوئی شخص کسی ایک بے گناہ کا خون بہائے تو وہ خدا کے سامنے کوئی جواب نہیں دے سکتا، اتنے لوگوں کا خون تو بہت دور کی بات ہے، کیا اصولی طور پر جنگ جمل میں ”حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے ساتھی“ اور ”طلحہ و زبیر اور ان کے ساتھی دیگر صحابہ “ دونوں کو حق پر مانا جاسکتا ہے؟

کیا کوئی بھی عقل اور منطق اس واضح تضا د اورٹکراؤکو قبول کرسکتی ہے؟! اور کیا ہم”صحابہ کی عظمت“ کی خاطر اپنی آنکھوں کو بند کرلیں اور پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد پیش آنے والے تاریخی حقائق کو نظر انداز قرار دے دیں اور اسلامی و قرآنی قاعدہ( إنَّ اٴکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اٴتقَاکُم ) (۱) کو پاؤں تلے روند ڈالیں؟! واقعاًکیا یہ غیر منطقی فیصلہ ہے؟!

اصولی طور پر اس چیزمیں کیا ممانعت ہے کہ کوئی شخص ایک روز بہشتیوں کی صف میں اور حق کا طرفدار ہو، لیکن اس کے بعد دشمنان حق اور دوزخیوں کی صف میں چلا جائے؟ کیا سب معصوم ہیں؟! اور کیا ہم نے اپنی آنکھوں سے بہت سے لوگوں کے حالات بدلتے نہیں دیکھے ہیں؟!

”اصحاب ردّہ“ (یعنی رحلت پیغمبر کے بعد کچھ اصحاب کے مرتد (وکافر) ہوجانے) کا واقعہ شیعہ اور سنی سب نے نقل کیا کہ خلیفہ اول نے ان سے جنگ کی اور ان پرغلبہ حاصل کرلیا، کیا ”اصحاب ردّہ“ کو کسی نے نہیں دیکھا کیا وہ صحابہ کی صف میں نہیں تھے؟!

اس سے کہیں زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس تضاداو رٹکراؤ سے بچنے کے لئے بعض لوگوں نے ”اجتہاد“ کا سہارا لیا اور کہتے ہیں کہ ”طلحہ، زبیر اور معاویہ“ نیز ان کے ساتھی مجتہد تھے اور انھوں نے اپنے اجتہاد میں غلطی کی، لیکن وہ گناہگار نہیں ہیں بلکہ اپنے ان اعمال پر خدا کی طرف سے اجر و ثواب پائیں گے!!

واقعاً کتنی رسوا کن دلیل ہے؟ جانشینِ رسول کے مقابلہ میں آجانا، اپنی بیعت کو توڑ دینا، اور ہزاروں بے گناہوں کا خون بہانا اور وہ بھی جاہ طلبی اور مال و مقام کے لالچ میں یہ سب کچھ کرنا کیا کوئی ایسا موضوع ہے جس کی برائی سے کوئی بے خبر ہو؟ کیا اتنے بے گناہوں کا خون بہانے پر خداوندعالم اجر و ثواب دے سکتا ہے؟! اگر کوئی شخص اس طرح بعض اصحاب کے ظلم و ستم سے ان کو بَری کرنا چاہے تو پھر دنیا میں کوئی گناہگار باقی نہ بچے گا اور سبھی قاتل و ظالم و جابر اس منطق کے تحت بَری ہوسکتے ہیں۔ اصحاب کااس طرح سے غلط دفاع کرنا خود اسلام سے بد ظن ہونے کا سبب بنتا ہے۔

اس بنا پر ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم سب کے لئے خصوصاً اصحاب پیغمبر (ص) کے احترام کے قائل ہوں، لیکن جب وہ حق و عدالت کی راہ اور اسلامی اصول سے منحرف ہوجائیں تو پھر ان کا کوئی احترام نہیں ہوگا۔(۲)

اہل سنت کے متعدد مفسرین نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ” حمید بن زیاد“ کا کہنا ہے: ”میں محمد بن کعب قرظی کے پاس گیا اور کہا: اصحاب پیغمبر کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ تو اس نے کہا: ”جَمِیْعُ اصْحَابِ رَسُولِ اللهِ (ص) فِی الجَنّةِ مُحْسِنُھُمْ وَ مُسِیئھُم!“ (یعنی تمام اصحاب پیغمبر جنّتی ہیں چاہے وہ نیک ہوں یا گنہگار!) میں نے کہا: یہ بات تم کیسے کہہ رہے ہو؟ تو اس نے کہا: اس آیت کو پڑھو:( وَالسَّابِقُونَ الْاٴَوَّلُونَ مِنْ الْمُهَاجِرِینَ وَالْاٴَنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ ) یہاں تک کہ ارشاد ہوتا ہے:( رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ) (۳) ،اس کے بعد کہا کہ تابعین کے لئے صحابہ کی صرف نیک کاموں میں اتباع اور پیروی کرنے کی شرط کی گئی ہے، (صرف اسی صورت میں اہل نجات ہیں، لیکن صحابہ کے لئے اس طرح کی کوئی شرط نہیں ہے)(۴)

لیکن ان کا یہ دعویٰ متعدد دلائل کی وجہ سے باطل اور غیر قابل قبول ہے، کیونکہ: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آیہ شریفہ میں مذکورہ حکم تابعین کے لئے بھی ہے، تابعین سے وہ مسلمان مراد ہیں جو پہلے مہاجرین اور انصار کی پیروی کریں، اس بنا پر بغیر کسی استثنا کے پوری امت کو اہل نجات اور جنتی ہونا چاہئے۔

اور جیسا کہ محمد بن کعب کیحدیث میں اس چیز کا جواب دیا گیا کہ خداوندعالم نے تابعین میں ”نیکی کی شرط“ لگائی ہے یعنی صحابہ کے نیک کاموں میں پیروی کریں، ان کے گناہوں کی پیروی نہیں، لیکن یہ گفتگو بہت ہی عجیب ہے۔ کیونکہ اس کا مفہوم اضافہ ”فرع“ بر ”اصل“ کی طرح ہے یعنی جب تابعین اور صحابہ کے پیروکاروں کے لئے نجات کی شرط یہ ہے کہ اعمال صالحہ میں ان کی پیروی کی جائے تو پھر بطریق اولیٰ یہ شرط خود صحابہ میں بھی ہونی چاہئے۔

بالفاظ دیگر: خداوندعالم مذکورہ آیت میں فرماتا ہے: میری رضایت اور خوشنودی پہلے مہاجرین و انصار اور ان کی پیروی کرنے والوں کے شامل حال ہوگی جو ایمان اور عمل کے لحاظ سے صحیح تھے،نہ یہ کہ سب مہاجرین و انصار چاہے نیک ہوں یا گناہگار اپنے کو رحمت الٰہی میں شامل سمجھیں، لیکن تابعین میں خاص شرط کے تحت قابل قبول ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ موضوع عقلی لحاظ سے بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ عقلی لحاظ سے صحابہ اور غیر صحابہ میں کوئی فرق نہیں ہے، ابو جہل اوراسلام لاکر پھر جا نے والے میں کیا فرق ہے ؟!

پیغمبر اکرم (ص) کے برسوں اور صدیوں بعد اس دنیا میں جو افراد پیدا ہوئے اور انھوں نے اسلام کی راہ میں بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں اور جن کی قربانی پہلے مہاجرین و انصار سے کم نہیں ہے، بلکہ ان کا یہ بھی امتیاز ہے کہ انھوں نے پیغمبر اکرم (ص) کو دیکھے بغیر پہچانا اور آنحضرت (ص) پر ایمان لائے، تو کیا ایسے افراد رضایت و خوشنودی الٰہی کے حقدار نہیں ہیں؟!

جو قرآن کہتا ہو کہ تم میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک وہ شخص معزز و محترمہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگارہو، تو پھر قرآن اس غیر منطقی امتیاز کو کیسے پسند کرسکتا ہے؟! جس قرآن کی مختلف آیات میں ظالمین اور فاسقین پر لعنت بھیجی گئی ہے اور ان کو عذاب الٰہی کا مستحق قرار دیا گیا ہو تو پھر صحابہ کے سلسلہ میں اس غیر منطقی معصومیت کو کیونکر قبول کرسکتا ہے؟ اور کیا اس لعنت اور چیلنج میں استثنا کی کوئی گنجائش ہے؟ تاکہ کچھ (صحابہ) اس سے الگ ہوجائیں؟ کیوں؟ او رکس لئے؟

ان سب کے علاوہ کیا اس طرح کا حکم کرنا صحابہ کو ہری جھنڈی دکھانا نہیں ہے جس سے ان کا کوئی بھی کام گناہ اور ظلم شمار نہ ہو؟

تیسری بات یہ ہے کہ ایسا حکم کرنا، اسلامی تاریخ کے بر خلاف ہے، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے تھے جو پہلے مہاجرین و انصار میں تھے لیکن بعد میں راہ حق سے منحرف ہوگئے اور پیغمبر اکرم (ص) ان پر غضبناک ہوئے (جبکہ پیغمبر اکرم (ص) کا غضبناک ہونا خدا کے غضب اور عذاب کا موجب ہے) کیا ”ثعلبہ بن حاطب انصاری“ کا واقعہ نہیں پڑھا کہ وہ کس طرح دین سے منحرف ہوگیا اور پیغمبر اکرم (ص) اس پر غضبناک ہوئے۔

واضح طور پر یوں کہا جائے کہ اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ تمام اصحاب پیغمبر (ص) کسی بھی طرح کے گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے، وہ معصوم تھے اور معصیت سے پاک تھے ، تو یہ بالکل وا ضح چیزوں کے انکار کی طرح ہے۔

اور اگر ان کا مقصد یہ ہو کہ انھوں نے گناہ کئے ہیں اور خلاف (دین)کام انجام دئے ہیں لیکن پھر بھی خداوندعالم ان سے راضی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گناہگاروں سے بھی (نعوذ باللہ) خدا راضی ہوسکتا ہے!

”طلحہ و زبیر“ جن کا شمار پہلے اصحاب پیغمبر (ص) میں ہوتا تھا اسی طرح زوجہ پیغمبر (ص) جناب ”عائشہ“ کو جنگ جمل کے سترہ ہزار بے گناہ مسلمانوں کے خون سے کون بری کرسکتا ہے؟ کیا خداوندعالم اس خون کے بہنے سے راضی تھا؟۔

کیا خلیفہ پیغمبر اکرم حضرت علی علیہ السلام کی مخالفت اگر بالفرض یہ بھی مان لیں کہ رسول خدا نے ان کو خلیفہ معین نہیں کیا تھالیکن کم سے کم اس بات کو تو اہل سنت بھی قبول کرتے ہیں کہ آپ کی پوری امت کے اجماع کے ذریعہ خلیفہ بنایا گیاتھا، توا گرجانشین رسول (ص) اور ان کے وفادار ساتھیوں کے مقابلہ میں تلوار کھینچ لی جائے تو کیا اس کام سے خداوندعالم راضی اور خوشنود ہوگا؟۔ حقیقت یہ ہے کہ ”صحابہ کو بے گناہ“ ماننے والوں کے اصرار اور اس بات پر بضد ہونے کی وجہ سے پاک و پاکیزہ اسلام کو بد نام کردیا ہے، وہ اسلام جس کی نظر میں لوگوں کی عظمت ایمان و اعمال صالحہ ہے۔

اس سلسلہ میں اخری بات یہ ہے کہ مذکورہ آیت میں جس رضا اور خوشنودی الٰہی کی بات کی گئی ہے وہ ایک عام عنوان کے تحت ہے، اور وہ ”ہجرت“، ”نصرت“، ”ایمان“، اور ”عمل صالح“ ہے، لہٰذا تمام صحابہ اور تابعین اگر ان عناوین کے تحت قرار پائیں گے تو رضائے الٰہی ان کے شامل حال رہے گی، لیکن اگر وہ ان عناوین سے خارج ہوجائیں تو پھر رضایت اور خوشنودی الٰہی سے بھی خارج ہوجائیں گے۔

(قارئین کرام!) ہماری مذکورہ گفتگو سے بخوبی روشن ہوجاتا ہے کہ متعصب مفسر صاحب المنار کے قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ہے کہ موصوف تمام صحابہ کو گناہوں سے پاک نہ ماننے پر شیعوں پر حملہ آور ہوتے ہیں،لیکن ہم کہتے ہیں کہ شیعوں کی کیا خطا ہے؟ یہی کہ انھوں نے اس سلسلہ میں قرآن، تاریخ اور عقل کی گواہی کو ماناہے، اور بیہودہ اور غلط امتیازات کے آگے تسلیم نہیں ہوئے ہیں!!(۵)

____________________

(۱) سورہ ، حجر، آیت ۱۳، ”بے شک تم میںسے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے“۔

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد۷، صفحہ ۲۶۳ (۳) سورہ توبہ ، آیت۱۰۰ ”اور مہاجرو انصار میں سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ہے ،ان سب سے خدا راضی ہوگیا ہے اور یہ سب خداسے راضی ہیں“۔

(۴) تفسیر المنار اور تفسیر فخر رازی مندرجہ بالا آیت کے ذیل میں رجوع فرمائیں

(۵) تفسیر نمونہ ، جلد ۸، صفحہ ۱۰۸

۱۰۰ ۔ ذوالقرنین کون تھے؟

جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:( وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ قُلْ سَاٴَتْلُوا عَلَیْکُمْ مِنْهُ ذِکْرًا ) (۱)

” اور اے پیغمبر! یہ لوگ آپ سے ذو القرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں عنقریب تمہارے سامنے ان کا تذکرہ پڑھ کر سنادوں گا“۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذوالقرنین کون تھے؟

جس ذوالقرنین کا قرآن مجید میں ذکر ہے،تاریخی طور پر وہ کون شخص ہے،تاریخ کی مشہور شخصیتوں میں سے یہ داستان کس پر منطبق ہوتی ہے،اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے،اس سلسلے میں بہت سے نظریات پیش کئے گئے ہیں، ان میں سے یہ تین زیادہ اہم شمار ہوتے ہیں:

پہلا نظریہ :بعض کا خیال ہے کہ”ا سکندر مقدونی“ ہی ذوالقرنین ہے۔

لہٰذا وہ اسے اسکندر ذوالقرنین کے نام سے پکارتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ اس نے اپنے باپ کی موت کے بعد روم،مغرب اور مصر پر تسلط حاصل کیا، اس نے اسکندریہ شہر بنایا، پھر شام اور

بیت المقدس پر اقتدار قائم کیا،وہاں سے ارمنستان گیا،عراق و ایران کو فتح کیا،پھر ہندوستان اور چین کا قصد کیا وہاں سے خراسان پلٹ آیا، اس نے بہت سے نئے شہروں کی بنیاد رکھی،پھر وہ عراق آگیا،اس کے بعد وہ شہر” زور“ میں بیمار پڑا اور مرگیا، بعض نے کہا ہے کہ اس کی عمر چھتیس سال سے زیادہ نہ تھی، اس کا جسد خاکی اسکندریہ لے جاکر دفن کردیا گیا۔(۲)

دوسرا نظریہ:مورخین میں سے بعض کا نظریہ ہے کہ ذوالقرنین یمن کاایک بادشاہ تھا۔

اصمعی نے اپنی تاریخ” عرب قبل از اسلام“ میں،ابن ہشام نے اپنی مشہور تاریخ ”سیرة“ میں اورا بوریحان بیرونی نے”الآثار الباقیہ“میں یہی نظریہ پیش کیا ہے۔

یہاں تک کہ یمن کی ایک قوم”حمیری“کے شعرا اور زمانہ جاہلیت کے بعض شعرا کے کلام میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس بات پر فخر کیا ہے کہ ذوالقرنین ہم میں سے ہیں۔

تیسرا نظریہ: جو جدید ترین نظریہ ہے جس کو ہندوستان کے مشہور عالم ابوالکلام آزاد نے پیش کیا ہے،ابوالکلام آزاد کسی دور میں ہندوستان کے وزیر تعلیم تھے،اس سلسلے میں انہوں نے ایک تحقیقی کتاب لکھی ہے۔(۳)

اس نظریہ کے مطابق ذوالقرنین،”کورش کبیر“ ”بادشاہ ہخامنشی “ہے۔(۴)

لیکن چونکہ پہلے اور دوسرے نظریہ کے لئے کوئی خاص تاریخی منبع نہیں ہے، اس کے علاوہ قرآن کریم نے ذو القرنین کے جو صفات بیان کئے ہیں ان کا حامل سکندر مقدونی ہے نہ کوئی بادشاہِ یمن۔

اس کے علاوہ اسکندر مقدونی نے کوئی معروف دیوار بھی نہیں بنائی ہے، لیکن رہی یمن کی ”دیوارِ مارب“ تو اس میں ان صفات میں سے ایک بھی نہیں ہے جو قرآن کی ذکر کردہ دیوار میں ہیں، جبکہ ”دیوار مارب“ عام مصالحہ سے بنائی گئی ہے اور اس کی تعمیر کا مقصد پانی کا ذخیرہ کرنا اور سیلاب سے بچنا تھا، اس کی وضاحت خود قرآن میں سورہ سبا میں بیان ہوئی ہے۔

لہٰذا ہم تیسرے نظریہ پر بحث کرتے ہیں یہاں ہم چند امور کی طرف مزید توجہ دینا ضروری سمجھتے ہیں :

الف: سب سے پہلے یہ بات قابل توجہ ہے کہ ذوالقرنین کو یہ نام کیوں دیا گیا؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ”ذوالقرنین“ کے معنی ہیں ”دوسینگوں والا“، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہیں اس نام سے کیوں موسوم کیا گیا؟ بعض کا نظریہ ہے کہ یہ نام اس لئے پڑا کہ وہ دنیا کے مشرق و مغرب تک پہنچے جسے عرب”قرنی الشمس“(سورج کے دوسینگ)سے تعبیر کرتے ہیں۔

بعض کہتے ہیں کہ یہ نام اس لئے پڑا کہ انہو ں نے دوقرن زندگی گزاری یا حکومت کی ، اورپھر یہ کہ قرن کی مقدار کتنی ہے،اس میں بھی مختلف نظریات ہیں۔

بعض کہتے ہیں کہ ان کے سر کے دونوں طرف ایک خاص قسم کا ابھار تھا ا س وجہ سے ذوالقرنین مشہور ہوگئے ۔

بعض کا یہ نظریہ ہے کہ ان کا خاص تاج دوشاخوں والا تھا۔

ب۔ قرآن مجیدسے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین ممتاز صفات کے حامل تھے خدا وند عالم نے کامیابی کے اسباب ان کے اختیار میں دئے تھے،انہوں نے تین اہم لشکر کشی کی، پہلے مغرب کی طرف،پھر مشرق کی طرف اور آخر میں ایک ایسے علاقے کی طرف گئے جہاں ایک کوہستانی درّہ موجود تھا، ان مسافرت میں وہ مختلف اقوام سے ملے۔

وہ ایک مرد مومن،موحد اور مہربان شخص تھے، وہ عدل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے، اسی بنا پر خدا وند عالم کا خاص لطف ان کے شامل حال تھا۔

وہ نیک لو گوں کے دوست او رظالموں کے دشمن تھے،انہیں دنیا کے مال و دولت سے کوئی لگاؤ نہ تھا، وہ اللہ پر بھی ایمان رکھتے تھے اور روز جزا پر بھی۔ انہو ں نے ایک نہایت مضبوط دیوار بنائی ہے،یہ دیوار انہوں نے اینٹ اور پتھر کے بجائے لوہے اور تانبے سے بنائی(اور اگر دوسرے مصالحے بھی استعمال ہوئے ہوں تو ان کی بنیادی حیثیت نہ تھی)، اس دیوار کے بنانے سے ان کا مقصد مستضعف اور ستم دیدہ لوگوں کی یاجوج و ماجوج کے ظلم و ستم کے مقابلے میں مدد کرنا تھا۔

وہ ایسے شخص تھے کہ نزول قرآن سے قبل ان کا نام لوگوں میں مشہور تھا،لہٰذا قریش اور یہودیوں نے ان کے بارے میں رسول اللہ (ص) سے سوال کیا تھا، جیسا کہ قرآن کہتا ہے:( وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ ) ” اور اے پیغمبر! یہ لوگ آپ سے ذو القرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں، حضرت رسول اللہ (ص) اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے بہت سی ایسی روایات منقول ہیں جن میں بیان ہواہے کہ: ”وہ نبی نہیں تھے بلکہ اللہ کے ایک صالح بندے تھے“۔(۵)

ج۔تیسرا نظریہ (ذو القرنین کورش ہی کو کہتے ہیں) اس کی دو بنیاد ہیں:

۱ ۔اس مطلب کے بارے میں سوال کرنے والے یہودی تھے، یا یہودیوں کے کہنے پر قریش نے سوال کیا تھا، جیسا کہ آیات کی شان نزول کے بارے میں منقول روایات سے ظاہر ہوتا ہے، لہٰذا اس سلسلہ میں یہودی کتابوں کو دیکھنا چاہئے۔ یہودیوں کی مشہور کتابوں میں سے کتاب ”دانیال“ کی آٹھویں فصل میں تحریر ہے:

”بل شصّر“ کی سلطنت کے سال مجھے دانیال کو خواب میںدکھایا گیا، جو خواب مجھے دکھایا گیا اس کے بعد اور خواب میں ،میں نے دیکھا کہ میں ملک ”عیلام “ کے ”قصر شوشان“ میں ہوں، میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ”دریائے ولادی“ کے پاس ہوں،میں نے آنکھیں اٹھاکر دیکھا کہ ایک مینڈھا دریا کے کنارے کھڑا ہے، اس کے دو لمبے سینگ تھے، اور اس مینڈھے کومیں نے مغرب، مشرق اور جنوب کی سمت سینگ مارتے ہوئے دیکھا، کوئی جانور اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتا تھا اور کوئی اس کے ہاتھ سے بچانے والا نہ تھا وہ اپنی رائے پر ہی عمل کرتا تھا اور وہ بڑا ہوتا جاتا تھا۔(۶)

اس کے بعد اسی کتاب میں دانیال کے بارے میں نقل ہوا ہے جبرئیل اس پر ظاہر ہوئے اور اس کے خواب کی تعبیر یوں بیان کی:

”تم نے دو شاخوں والا جو مینڈھا دیکھا ہے وہ مدائن اور فارس (یا ماد اور فارس) کے بادشاہ ہیں۔

یہودیوں نے دانیال کے خواب کو بشارت قرار دیا وہ سمجھے کہ ماد و فارس کے کسی بادشاہ کے قیام اور بابل کے حکمرانوں میں ان کی کامیابی سے یہودیوں کی غلامی اور قید کا دور ختم ہوجائے گا، اور وہ اہل بابل کے چنگل سے آزاد ہوجائیں گے۔

زیادہ زمانہ نہ گزرا تھا کہ ”کورش“ نے ایران کی حکومت پر غلبہ حاصل کرلیا اس نے ماد اور فارس کو ایک ملک کرکے دونوں کو ایک عظیم سلطنت بنا دیا، جیسے دانیال کے خواب میں بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے سینگ مغرب، مشرق اور جنوب کی طرف مارے گا، کورش نے تینوں سمتوں میں عظیم فتوحات حاصل کیں۔

اس نے یہودیوں کو آزاد کیا، اور فلسطین لوٹنے کی اجازت دی۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ توریت کی کتاب اشعیاء فصل ۴۴ ، نمبر ۲۸ میں بیان ہوا ہے: ”اس وقت خاص طور سے کورش کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ میرا چرواہا ہے اس نےمیری مشیت کو پورا کیا ہے اور شیلم سے کہے گا تو تعمیر ہوجائے گا۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ توریت کے بعض الفاظ میں ”کورش“ کے بارے میں ہے کہ عقابِ مشرق اور مردِ تدبیر جو بڑی دور سے بلایا جائے گا۔ (کتاب اشعیاء فصل ۴۶ ، نمبر ۱۱)

دوسری بنیاد یہ ہے کہ انیسویں عیسوی صدی میں دریائے” مرغاب “کے کنارے تالاب کے قریبکورش کا مجسمہ دریافت ہوا، یہ ایک انسان کے قد وقامت کے برابر ہے،اس میں کورش کے عقاب کی طرح دو پَر بنائے گئے ہیں اور اس کے سرپر ایک تاج ہے، اس میں مینڈھے کے سینگوں کی طرح دو سینگ نظر آتے ہیں۔

یہ مجسمہ بہت قیمتی اور قدیم فن سنگ تراشی کا نمونہ ہے، اس نے ماہرین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے جرمنی ماہرین کی ایک جماعت نے صرف اسے دیکھنے کے لئے ایران کا سفر کیا۔

توریت کی تحریرکو جب اس مجسمہ کی تفصیلات کے ساتھ ملایا گیا تو ابو الکلام آزاد کو مزید یقین ہوا کہ کورش ذو القرنین (دو سینگوں والا) کہنے کی وجہ کیا ہے، اس طرح یہ بھی واضح ہوگیا کہ کورش کے مجسمہ میں عقاب کے دو پر کیوں لگائے گئے ہیں، اس سے دانشوروں کے ایک گروہ کے لئے ذو القرنین کی تاریخی شخصیت مکمل طور پر واضح ہوگئی۔

اس کے علاوہ اس نظریہ کی تائید کے لئے کورش کے وہ اخلاقی صفات ہیں جو تاریخ میں لکھے ہوئے ہیں:

یونانی مورخ ہر ودوٹ لکھتا ہے: کورش نے حکم جاری کیا کہ اس کے سپاہی جنگ کرنے والوں کے علاوہ کسی کے سامنے تلوار نہ نکالیں اور اگر دشمن کا سپاہی اپنا نیزہ خم کردے تو اسے قتل نہ کریں، کورش کے لشکر نے اس کے حکم کی اطاعت کی ، اس طرح سے ملت کے عام لوگوں کو مصائب جنگ کا احساس بھی نہ ہوا۔

ہرو دوٹ کو رش کے بارے میں لکھتا ہے: کورش کریم، سخی، بہت نرم دل اور مہربان بادشاہ تھا، اسے دوسرے بادشاہوں کی طرح مال جمع کرنے کا لالچ نہ تھا، بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ کرم و بخشش کا شوق تھا، وہ ستم رسیدہ لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف سے کام لیتا تھا اور جس چیز سے زیادہ خیر اور بھلائی ہوتی تھی اسے پسند کرتا تھا۔

اسی طرح ایک دوسرا مورخ ”ذی نوفن“ لکھتا ہے: کورش عاقل اور مہربان بادشاہ تھا، اس میں بادشاہوں کی عظمت اور حکماء کے فضائل ایک ساتھ جمع تھے، وہ بلند ہمت تھا اس کا جود و کرم زیادہ تھا اس کا شعار انسانیت کی خدمت تھا ا ور عدالت اس کی عادت تھی وہ تکبر کے بجائے انکساری سے کام لے لیتا تھا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ کورش کی اس قدر تعریف و توصیف کرنے والے مورخین غیر لوگ ہیں کورش کی قوم اور وطن سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے جو کہ اہل یونان ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یونان کے لوگ کورش کی طرف دوستی اور محبت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے کیونکہ کورش نے ”لیدیا“ کو فتح کرکے اہل یونان کو بہت بڑی شکست دی تھی۔

اس نظریہ کے طرفدار کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں ذو القرنین کے بیان ہونے والے اوصاف کورش کے اوصاف سے مطابقت رکھتے ہیں۔

اس تمام باتوں کے علاوہ کورش نے مشرق، مغرب اور شمال کی طرف سفر بھی کئے ہیں اس کے تمام سفر کا حال (اور سفر نامہ) اس کی تاریخ میں تفصیلی طور پر ذکر ہوا ہے، یہ قرآن میں ذکر کئے گئے ذو القرنین کے تینوں سفر سے مطابقت رکھتے ہیں۔

کورش نے پہلی لشکر کشی ”لیدیا“ پر کی ،یہ ایشائے صغیر کا شمالی حصہ ہے یہ ملک کورش کے مرکز حکومت سے مغرب کی سمت میں تھا۔

جس وقت آپ ایشائے صغیر کے مغربی ساحل کے نقشہ کو سامنے رکھیں گے تو دیکھیں گے کہ ساحل کے زیادہ تر حصے چھوٹی چھوٹی خلیجوں میں بٹے ہوتے ہیں، خصوصاً ”ازمیر“ کے قریب جہاں خلیج ایک چشمہ کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔

قرآن کا بیان ہے کہ ذو القرنین نے اپنے مغرب کے سفر میں محسوس کیا کہ جیسے سورج کیچڑ آلود چشمہ میں ڈوب رہا ہے، یہ وہی منظر ہے جو کورش نے غروب آفتاب کے وقت ساحلی خلیجوں میں دیکھا تھا۔

کورش کی دوسری لشکر کشی مشرق کی طرف تھی جیسا کہ ہرو دوٹ نے کہا ہے کہ کورش کا یہ مشرقی حملہ ”لیدیا“ کی فتح کے بعد ہوا خصوصاً بعض بیابانی وحشی قبائل کی سرکشی نے کورش کو اس حملہ پر مجبور کیا۔

چنانچہ قرآن میں بھی ارشاد ہے:

( حَتَّی إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَی قَوْمٍ لَمْ نَجْعَلْ لَهُمْ مِنْ دُونِهَا سِتْرًا ) (۷) ”یہاں تک کہ جب طلوع آفتاب کی منزل تک پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایک ا یسی قوم پر طلوع کررہا ہے جن کے پاس سورج کی کرنوں سے بچنے کے لئے کوئی سایہ نہ تھا“۔

یہ الفاظ کورش کے سفر مشرق کی طرف اشارہ کررہے ہیں جہاں اس نے دیکھا کہ سورج ایسی قوم پر طلوع کر رہا ہے جن کے پاس اس کی تپش سے بچنے کے لئے کوئی سایہ نہ تھا، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ قوم صحرا نوردتھی اور بیابانوں میں رہتی تھی۔

کورش نے تیسری لشکر کشی شمال کی طرف ”قفقاز“ کے پہاڑوں کی طرف کی یہاں تک کہ وہ دو پہاڑوں کے درمیان ایک درّے میں پہنچا،یہاں کے رہنے والوں نے وحشی اقوام کے حملوں اور غارت گری کو روکنے کی درخواست کی اس پر کورش نے اس تنگ درے میں ایک مضبوط دیوار تعمیر کردی۔ اس درّہ کو آج کل درّہ ”داریال“ کہتے ہیں، موجودہ نقشوں میں یہ ”ولادی کیوکز“ اور ”تفلیس“ کے درمیان دیکھا جاتا ہے وہاں اب تک ایک آہنی دیوار موجود ہے، یہ وہی دیوار ہے جو کورش نے تعمیر کی تھی، قرآن مجید نے ذو القرنین کی دیوار کے جو اوصاف بتائے ہیں وہ پوری طرح اس دیوار پر منطبق ہوتے ہیں۔

اس تیسرے نظریہ کا خلاصہ یہ تھا جو ہماری نظر میں بہتر ہے۔(۸)

یہ صحیح ہے کہ اس نظریہ میں بھی کچھ مبہم چیزیں پائی جاتی ہیں، لیکن عملاً ذو القرنین کی تاریخ کے بارے میں ابھی تک جتنے نظریات پیش کئے گئے ہیں اسے ان میں سے بہترین کہا جاسکتا ہے۔(۹)

____________________

(۱) سورہ کہف ، آیت ۸۳

(۲) تفسیر فخر رازی، محل بحث آیت میں اور کامل ابن اثیر ، جلد اول صفحہ ۲۸۷ میں اور بعض دوسرے مورخین اس بات کے قائل ہیں کہ سب سے پہلے اس نظریہ کو پیش کرنے والے شیخ ابو علی سینا ہیں جنھوں نے اپنی کتاب الشفاء میں اس کا ذکر کیا ہے

(۳)المیزان ، جلد ۱۳، صفحہ ۴۱۴

(۴)فارسی میں اس کتاب کے ترجمعہ کا نام”ذوالقرنین یا کورش کبیر“ رکھا گیا ہے، اور متعدد معاصر مورخین نے اسی نظریہ کی تائید کرتے ہوئے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے

(۵)دیکھئے تفسیر نو رالثقلین ، جلد ۳صفحہ ۲۹۴/اور ۲۹۵

(۶) کتاب دانیا ل ،فصل ہشتم ،جملہ نمبر ایک سے چار تک

(۷) سورہ کہف ، آیت ۹۰

(۸) اس سلسلہ میں مزید وضاحت کے لئے کتاب ”ذو القرنین یا کورش کبیر“ اور ”فرہنگ قصص قرآن“ کی طرف رجوع فرمائیں

(۹) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۵۴۲

۱۰۱ ۔ کیوں بعض ظالم اور گناہگار لوگ نعمتوں سے مالا مال ہیں اور ان کو سزا نہیں ملتی؟

قرآن مجید کی آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خداوندعالم گناہوں میں زیادہ آلود نہ ہونے والے گناہگاروں کو خطرہ کی گھنٹی یا ان کے اعمال کے عکس العمل یا ان کے اعمال کی مناسب سزا کے ذریعہ جگا دیتا ہے، اور ان کو راہ راست کی ہدایت فرمادیتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کے یہاں ہدایت کی صلاحیت پائی جاتی ہے ، ان پر لطف خدا ہوسکتا ہے، در اصل ان کی سزا یا مشکلات ان کے لئے نعمت حساب ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:( ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیقَهُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ ) (۱) ” (لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی بنا پر) فساد خشکی اور تری ہر جگہ غالب آگیا ہے تاکہ خداان کو ان کے کچھ اعمال کا مزا چکھا دے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستہ پر آجائیں“۔

لیکن گناہ و معصیت میں غرق ہونے والے باغی اور نافرمانی کی انتہا کو پہچنے والے لوگوں کو خداوندعالم ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے ، ان کو مزید موقع دیتا ہے تاکہ وہ گناہوں میں مزید غرق ہوجائیں، اور بڑی سے بڑی سزا کے مستحق بن جائیں، یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پیچھے کے تمام پلوں کو توڑ دیا ہے اور پیچھے پلٹنے کا کوئی راستہ باقی نہیں چھوڑا، انھوں نے حیا و شرم کے پردوں کو چاک کر ڈالااور ہدایت کی صلاحیت کو بالکل ختم کردیا ہے۔

قرآن مجید کی ایک دوسری آیت اسی معنی کی تائید کرتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:( وَلاَیَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا اٴَنَّمَا نُمْلِی لَهُمْ خَیْرٌ لِاٴَنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِی لَهُمْ لِیَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِینٌ ) (۲) ”اورخبردار یہ کفارنہ سمجھیں کہ ہم جس قدر راحت وآرام دے رہے رہیں وہ ان کے حق میں بھلائی ہے ہم تو صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ جتنا گناہ کرسکیں کرلیں اور ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے“۔

اسلام کی شجاع خاتون جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نے شام کی ظالم و جابر حکومت کے سامنے ایک بہترین خطبہ دیا جس میں اسی آیہ شریفہ سے ظالم و جابر یزید کے سامنے استدلال کیا اور یزید کو ناقابل بازگشت گناہگاروں کا واضح مصداق قرار دیا ،آپ فرماتی ہیں:

”تو آج خوش ہورہا ہے، اور سوچتا ہے کہ گویا دنیا کو ہمارے اوپر تنگ کردیا ہے اور آسمان کے دروازہ ہم پر بند ہوگئے ہیں، اور ہمیں اس دربار کے اسیر کے عنوان سے در بدر پھرایا جارہا ہے، تو سوچتا ہے کہ میرے پاس قدرت ہے، اور خدا کی نظر میں قدر و منزلت ہے، اور خدا کی نظر میں ہماری کوئی اہمیت نہیں ہے؟! تو یہ تیرا خیال خام ہے، خدا نے یہ فرصت تجھے اس لئے د ی ہے تاکہ تیری پیٹھ گناہوں کے وزن سے سنگین ہوجائے، اور خدا کی طرف سے درد ناک عذاب تیرا منتظرہے“

ایک سوال کا جواب:

مذکورہ آیت بعض لوگوں کے ذہن میں موجود اس سوال کا جواب بھی دے دیتی ہے کہ کیوں بعض ظالم اور گناہگار لوگ نعمتوں سے مالا مال ہیں اور ان کو سزا نہیں ملتی؟

قرآن کا فرمان ہے: ان لوگوں کی اصلاح نہیں ہوسکتی، قانون آفرینش اور آزادی و اختیار کے مطابق ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے، تاکہ تنزل کے آخری مرحلہ تک پہنچ جائیں اور سخت سے سخت سزاؤں کے مستحق ہوجائیں۔ اس کے علاوہ قرآن مجید کی بعض آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خداوندعالم اس طرح کے لوگوں کو بہت زیادہ نعمتیں عطا کرتا ہے اور جب وہ خوشی اور غرور کے نشہ میں مادی لذتوں میں غرق ہوجاتے ہیں تو اچانک سب چیزیں ان سے چھین لیتا ہے، تاکہ اس دنیا میں بھی سخت سے سخت سزا بھگت سکیں، چونکہ اس طرح کی زندگی کا چھن جانا ان لو گوں کے لئے بہت ہی ناگوار ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:( فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اٴَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُوا بِمَا اٴُوتُوا اٴَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ ) (۳) ” پھر جب ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انھیں یاد دلائی گئی تھیں تو ہم نے امتحان کے طور پر ان کے لئے ہر چیز کے دروازے کھول دئے یہاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں سے خوش حال ہوگئے تو ہم نے اچانک انھیں اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ مایوس ہوکر رہ گئے“۔

در اصل ایسے لوگ اس درخت کی طرح ہیں جس پر نا معقول طریقہ سے انسان جتنا بھی اوپر جاتا ہے خوش ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس درخت کی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے اچانک طوفان چلتا ہے اور وہ زمین پر گر جاتا ہے اور اس کی تمام ہڈی پسلیاں چور چور ہوجاتی ہیں۔(۴)

____________________

(۱) سورہ روم ، آیت ۴۱

(۲) سورہ آل عمران ، آیت ۱۷۸

(۳) سورہ انعام ، آیت ۴۴/ ۴) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۳