110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 136525
ڈاؤنلوڈ: 5556

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136525 / ڈاؤنلوڈ: 5556
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۱۰۲ ۔ ایمان نہ رکھنے والی اقوام کیوں عیش و عشرت میں ہیں؟

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:( وَلَوْ اٴَنَّ اٴَهْلَ الْقُرَی آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَکَاتٍ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ ) (۱) ”اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کر لےتے تو ہم ان کے لئے زمین وآسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے“۔

اس آیت کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایمان اور تقویٰ ،رحمت الٰہی اور برکات کا موجب ہے تو پھر ان قوموں کے پاس بہت زیادہ نعمتیں کیوں پائی جاتی ہیں جن کے پاس ایمان نہیں ہے! ان کی زندگی بہترین ہوتی ہے،اور ان کو پریشانی نہیں ہوتی، ایسا کیوں ہے؟

اس سوال کا جواب درج ذیل دو نکات پر توجہ کرنے سے روشن ہوجائے گا:

۱ ۔یہ تصور کرنا کہ بے ایمان قوم و ملت نعمتوں سے مالا مال ہے؛ ایک غلط فہمی ہے، جو ایک دوسری غلط فہمی کا نتیجہ ہے اور وہ مال و دولت ہی کو خوش بختی سمجھ لیناہے۔

عام طور پر عوام الناس میں یہی تصور پایا جاتا ہے کہ جس قوم و ملت کے پاس ترقی یافتہ ٹیکنیک ہے یا بہت زیادہ مال و دولت ہے وہی خوش بخت ہے، حالانکہ اگر ان اقوام میں جاکر نزدیک سے دیکھیں تو ان کے یہاں نفسیاتی اور جسمانی بے پناہ درد اور مشکلات پائی جا تی ہیں اور اگر نزدیک سے دیکھیں تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ان میں سے متعدد لوگ دنیا کے سب سے ناچار افراد ہیں، قطع نظر اس بات سے کہ یہی نسبی ترقی ان کی سعی و کوشش، نظم و نسق اور ذمہ داری کے ا حساس جیسے اصول پر عمل کا نتیجہ ہیں، جو انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں بیان ہوئے ہیں۔

ابھی چند دنوں کی بات ہے کہ اخباروں میں یہ بات شایع ہوئی کہ امریکہ کے شہر ”نیویورک“ میں (جو مادی لحاظ سے دنیا کا سب سے مالدار اور ترقی یافتہ شہر ہے)اچانک (طولانی مدت کے لئے) بجلی چلی گئی اور ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا:” بہت سے لوگوں نے دکانوں پر حملہ کردیا اور دکانوں کو لوٹ لےا، اس موقع پر پولیس نے تین ہزار لوگوں کو گرفتار کرلیا“۔

یہ بات طے ہے کہ لٹیروں کی تعدادان گرفتار ہونے والوں سے کئی گنا زیادہ ہوگی جو موقع سے فرار نہ کرسکے اور پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے، اور یہ بھی مسلم ہے کہ یہ لٹیرے کوئی تجربہ کار نہیں تھے جس سے انھوں نے ایک پروگرام کے تحت ایسا کیا ہو کیونکہ یہ واقعہ اچانک پیش آیا تھا۔

لہٰذا ہم اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس ترقی یافتہ اور مالدار شہر کے ہزاروں لوگ چند گھنٹوں کے لئے بجلی جانے پر ”لیٹرے“ بن سکتے ہیں، یہ صرف اخلاقی پستی کی دلیل نہیں ہے بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس شہر میں اجتماعی نا امنی کس قدر پائی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ اخباروں میں اس خبر کا بھی اضافہ کیا جو در اصل پہلی خبر کا ہی تتمہ تھا کہ انھیں دنوں ایک مشہور و معروف شخصیت نیویورک کے بہت بڑے ہوٹل میں قیام پذیر تھی، چنانچہ وہ کہتا ہے: بجلی جانے کے سبب ہوٹل کے ہال اور راستوں میں آمد و رفت خطرناک صورت اختیار کر چکی تھی کیونکہ ہوٹل کے ذمہ دار لوگوں نے آمد و رفت سے منع کردیا تھا کہ کوئی بھی اکیلا کمرے سے باہر نہ نکلے، کہیں لٹیروں کا اسیر نہ ہوجائے، لہٰذا مسافروں کی کم و بیش دس دس کے گروپ میں وہ بھی مسلح افراد کے ساتھ آمد و رفت ہوتی تھی اور مسافر اپنے اپنے کمروں میں پہنچائے جاتے تھے ! اس کے بعد یہی شخص کہتا ہے کہ جب تک شدید بھوک نہیں لگتی تھی کوئی بھی باہر نکلنے کی جرائت نہیں کرتا تھا!!

لیکن پسماندہ مشرقی ممالک میں اس طرح بجلی جانے سے اس طرح کی مشکلات پیش نہیں آتیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ان ترقی یافتہ اور مالدار ممالک میں امنیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

ان کے علاوہ چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ وہاں قتل کرنا پانی پینے کی طرح آسان ہے، اور قتل بہت ہی آسانی سے ہوتے رہتے ہیں، اور ہم یہ جانتے ہیں کہ اگر کسی کو ساری دنیا بھی بخش دی جائے تاکہ ایسے ماحول میں زندگی کرے تو ایسا شخص دنیا کا سب سے پریشاں حال ہوگا، اور امنیت کی مشکل اس کی مشکلات میں سے ایک ہے۔

اس کے علاوہ اجتماعی طور پر بہت سی مشکلات پائی جاتی ہیں جو خود اپنی جگہ دردناک ہیں، لہٰذا ان تمام چیزوں کے پیش نظر مال و دولت کو باعث خوشبختی تصور نہیں کرنا چاہئے۔

۲ ۔ لیکن یہ کہنا کہ جن معاشروں میں ایمان اور پرہیزگاری پائی جاتی ہے وہ پسماندہ ہیں، تو اگر ایمان اور پرہیزگاری سے مراد صرف اسلام اور تعلیمات ا نبیاء کے اصول کی پابندی کا دعویٰ ہو تو ہم بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایسے افراد پسماندہ ہیں۔

لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایمان اور پرہیزگاری کی حقیقت یہ ہے کہ ان کا اثر زندگی کے ہر پہلو پر دکھائی دے، صرف اسلام کا دعویٰ کرنے سے مشکل حل نہیں ہوتی۔

نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج اسلام اور انبیا الٰہی کی تعلیمات کو بہت سے اسلامی معاشروں میں یا بالکل ترک کردیا گیا ہے یا آدھا چھوڑ دیا گیا ہے، لہٰذا ان معاشروں کا حال حقیقی مسلمانوں جیسا نہیں ہے۔

اسلام، طہارت، صحیح عمل، امانت اور سعی و کوشش کی دعوت دیتا ہے، لیکن کہاں ہے امانت اور سعی و کوشش؟

اسلام، علم و دانش اور بیداری و ہوشیاری کی دعوت دیتا ہے، لیکن کہاں ہے علم و آگاہی؟ اسلام، اتحاد اور فدارکاری کی دعوت دیتا ہے، لیکن کیا اسلامی معاشروں میں ان اصول پر عمل کیا جارہا ہے؟ جبکہ پسماندہ ہیں؟! اس بنا پر یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ اسلام ایک الگ چیز ہے اور ہم مسلمان ایک الگ چیز، (ورنہ اگر اسلام کے اصول اور قواعد پر عمل کیا جائے تو اسلام اس نظام الٰہی کا نام ہے جس کے اصول پر عمل کرتے ہوئے مسلمان خوش حال نظر آئیں گے)(۲)

____________________

(۱) سورہ اعراف ، آیت۹۶

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۲۶۸

۱۰۳ ۔ مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب کیا ہیں؟

قرآن مجید کی آیات سے بخوبی یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر طرح کی ناکامی اور شکست جس سے ہم دو چار ہوتے ہیں ، دو چیزوں میں سے کسی ایک چیز کی وجہ سے ہے: یا تو ہم نے جہاد (و کوشش) میں کوتاہی کی ہے یا ہمارے کاموں میں خلوص نہیں پایا جاتا، اور اگر یہ دونوں چیزیں باہم جمع ہوجائیں تو خداوندعالم کے وعدہ کی بنا پر کامیابی اور ہدایت یقینی ہے۔ اگر صحیح طور پر غور و فکر کیا جائے تو اسلامی معاشرہ کی مشکلات اور پریشانیوں کا سبب معلوم ہوسکتا ہے۔

کیوں مسلمان آج تک پسماندہ ہیں؟

کیوں سب چیزوں میںغیروں کی طرف ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں یہاں تک کہ علم و ثقافت اور قوانین کے سلسلہ میں بھی دوسروں کی مدد کے محتاج ہیں؟ کیوں سیاسی بحران، فوجی حملوں کے طوفان میں دوسرے پر بھروسہ کیا جائے؟

کیوں اسلام کے علمی اورثقافتی دسترخوان پر بیٹھنے والے آج مسلمانوں سے آگے نکل گئے ہیں؟

کیوں غیروں کے ہاتھوں اسیر ہوچکے ہیں اور ان کی زمینوں پر اغیار کا قبضہ ہے؟! ان تمام سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ یا تو وہ جہاد کو بھول گئے ہیں یا ان کی نیتوں میں خلوص نہیں رہا اور ان کی نیتوں میں فتور آگیا ہے؟

جی ہاں! علمی، ثقافتی ، سیاسی، اقتصادی اور نظامی میدان میں جہاد (اور کوشش) کو بھلا دیا گیا ہے، حبّ نفس، عشق دنیا، راحت طلبی، تنگ نظری اور ذاتی اغراض کا غلبہ ہوگیا ہے یہاں تک کہ مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل ہونے والی تعداد غیروں کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے!

بعض مغرب اور مشرق پرست افراد کا ہمت ہار جانا، بعض ذمہ دار لوگوں کا سیم و زر کے بدلے بِک جانا اور دانشوروں ومفکرین قوم کا گوشہ نشین ہوجانا، یہ سب ایسی وجوہات ہیں جس کی بنا پر جہاد و کوشش ہمارے یہاں سے جاتی رہی اور اخلاص بھی رخصت ہوگیا۔

اگر ہمارے درمیان تھوڑا بھی اخلاص پیدا ہوجائے اور ہمارے مجاہدین میں جوش وجذبہ پیدا ہوجائے تو پھر یکے بعد دیگرے کامیابی ہی کامیابی ہوگی۔

اسیری کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی، مایوسی امید میں ،شکست کامیابی میں، ذلت عزت و سر بلندی میں، اختلاف ونفاق وحدت و یکدلی میں تبدیل ہوجائیں گے، اور واقعاً قرآن مجید کس قدر الہام بخش ہے جس نے ایک چھوٹے سے جملہ(۱) میں تمام مشکلات اور پریشانیوں کا راہ حل بیان کردیا!

جی ہاں جو لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں، ہدایت الٰہی ان کے شامل حال ہوتی ہے،اور

( وَالَّذِینَ جَاهَدُوا فِینَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِینَ ) (اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا ہے ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقینا اللہ حسنِ عمل والوں کے ساتھ ہے (مترجم)

یہ بات واضح ہے کہ جس کو خدا کی طرف گمراہی سے ہدایت مل جائے تو اس کے یہاں شکست کا تصور ہی نہیں پایا جاتا۔

بہر حال جو شخص اس قرآنی حقیقت کو اپنی کوششوں اور کاوشوں کی روشنی کو اس وقت محسوس کرتا ہے، جب وہ خدا کے لئے اور اس کی راہ میں جہاد اور کوشش کرتا ہے تو رحمتِ خدا کے دروازے اس کے لئے کھل جاتے ہیں اور اس کے لئے مشکلات آسان اور سختیاں قابل تحمل ہوجاتی ہیں۔(۲)

____________________

(۱)سورہ عنکبوت ، آیت نمبر ۶۹ کی طرف اشارہ ہے، جہاں ارشاد ہوتا ہے:

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۶، صفحہ ۳۵۰

۱۰۴ ۔ واقعہ فدک کیا ہے؟

”فدک “ اطراف مدینہ میں تقریباً ایک سو چالیس کلو میٹر کے فاصلہ پر خیبر کے نزدیک ایک آباد قصبہ تھا۔

جب سات ہجری میں خیبر کے قلعے یکے بعد دیگرے اسلامی فو جو ں نے فتح کرلئے اور یہودیوں کی مرکزی قوت ٹوٹ گئی تو فدک کے رہنے والے یہودی صلح کے خیال سے خدمتِ پیغمبر میں سرتسلیم خم کرتے ہوئے آئے اور انہوں نے اپنی نصف زمینیں اور باغات آنحضرت (ص) کے سپرد کردئیے اور نصف اپنے پاس رکھے رہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے حصہ کی زمینوں کی کاشتکاری بھی اپنے ذمہ لی، اپنی کاشتکاری کی زحمت کی اجرت وہ پیغمبر اسلام سے وصول کرتے تھے،(سورہ حشر ، آیت ۷) کے پیش نظر یہ زمینیں پیغمبر اسلام (ص) کی ملکیت تھیں ، ان کی آمدنی کو آپ اپنے مصرف میں لاتے تھے یا ان مقامات میں خرچ کرتے تھے جن کی طرف سورہ حشر ، آیت نمبر ۷ میں اشارہ ہوا ہے ۔

پیغمبر اسلام (ص)نے یہ ساری زمینیں اپنی بیٹی حضرت فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا کوعنایت فرمادیں، یہ ایسی حقیقت ہے جسے بہت سے شیعہ اور اہل سنت مفسرین نے صراحتکے ساتھ تحریر کیا ہے، منجملہ دیگر مفسرین کے تفسیر در منثور میں ابن عباس سے مروی ہے

جس وقت آیت( فاتِ ذَا القُربیٰ حَقّهُ ) (۱) نازل ہوئی تو پیغمبر نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو فدک عنایت فرمایا:(اقطَعَ رَسُول الله فا طمةَ فَدَکاً )(۲)

کتا ب کنزالعمال، جو مسند احمد کے حاشیہ پر لکھی گئی ہے،میں صلہ رحم کے عنوان کے تحت ابوسعید خدری سے منقول ہے کہ جس وقت مذکورہ بالاآیت نازل ہوئی تو پیغمبر (ص) نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو طلب کیا اور فرمایا: ” یا فاطمة لکِ فدک“”اے فاطمہ فدک تمہاری ملکیت ہے“۔(۳)

حاکم نیشاپوری نے بھی اپنی تاریخ میں اس حقیقت کو تحریرکیا ہے۔(۴)

ابن ابی الحدید معتزلی نے بھی نہج البلاغہ کی شرح میں داستان فدک تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے اور اسی طرح بہت سے دیگر مورخین نے بھی۔(۵۰)

لیکن وہ افراد جو اس اقتصادی قوت کو حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کے قبضہ میں رہنے دینا اپنی سیاسی قوت کے لئے مضر سمجھتے تھے،انہوں نے مصمم ارادہ کیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے یاور وانصار کو ہر لحاظ سے کمزور اور گوشہ نشیں کردیں، جعلی حدیث (نَحْنُ مُعَاشَرَ الاٴنْبِیَاءِ لَا نُورِّث ) (ہم گروہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے) کے بہانے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور باوجود یکہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا قانونی طور پر اس پر متصرف تھیں اور کوئی شخص ”ذوالید“(جس کے قبضہ میں مال ہو)سے گواہ کا مطالبہ نہیں کرتا،جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے گواہ طلب کئے گئے ، بی بی نے گواہ پیش کئے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے خود انہیں فدک عطا فرمایا ہے لیکن انہوں نے ان تمام چیزوں کی کوئی پرواہ نہیں کی، بعد میں آنے والے خلفا میں سے جو کوئی اہل بیت علیہم السلام سے محبت کا اظہار کرتا تو وہ فدک انہیں لوٹا دیتا تھا لیکن زیادہ دیر نہیں گزرتی تھی کہ دوسرے خلیفہ اسے چھین لیتا تھا اور دوبارہ اس پر قبضہ کرلیتا تھا، خلفائے بنی امیہ اور خلفائے بنی عباس نے بارہا ایسا ہی کیا ۔

واقعہ فدک اور اس سے متعلق مختلف واقعات جو صدر اسلام میں اور بعد میں پیش آئے،زیادہ دردناک اورغم انگیز ہیں اور وہ تاریخ اسلام کا ایک عبرت انگیز حصہ بھی ہیں جو محققانہ طور پر مستقل مطالعہ کا متقاضی ہے تا کہ تاریخ اسلام کے مختلف واقعات نگاہوں کے سامنے آسکیں۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت کے نامور محدث مسلم بن حجاج نیشاپوری نے اپنی مشہور و معروف کتاب ”صحیح مسلم“ میں جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا خلیفہ اول سے فدک کے مطالبہ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے، اور جناب عائشہ کی زبانی نقل کیا ہے کہ جب خلیفہ اول نے جناب فاطمہ کو فدک نہیں دیا تو بی بی ان سے ناراض ہوگئیں اور آخر عمر تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ (صحیح مسلم، کتاب جہاد ، جلد ۳ ص ۱۳۸۰ حدیث .۵)(۶)

____________________

(۱)سورہ روم ، آیت ۳۸ (۲)در منثور ، جلد ۴صفحہ ۱۷۷

(۳)کنز العمال ، جلد ۲صفحہ ۱۵۸ (۴) دیکھئے: کتاب فدک صفحہ ۴۹ کی طرف

(۵)شرح ابن ابی الحدید ، جلد ۱۶، صفحہ ۲۰۹ /اور اس کے بعد

(۶) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۳، صفحہ ۵۱۰

۱۰۵ ۔ کیا جناب ابوطالب مومن تھے؟

تمام علمائے شیعہ اور اہل سنت کے بعض بزرگ علمامثلاً ”ابن ابی الحدید“شارح نہج البلاغہ اور”قسطلانی“ نے ارشاد الساری اور ”زینی دحلان“ نے سیرہ حلبی کے حاشیہ میں حضرت ابوطالب کو مومنین اور اہل اسلام میں سے بیان کیا ہے،اسلام کی بنیادی کتابوں کے منابع میں بھی ہمیں اس موضوع کے بہت سے شواہد ملتے ہیں جن کے مطالعہ کے بعد ہم گہرے تعجب اور حیرت میں پڑجاتے ہیں کہ حضرت ابوطالب پرایک گروہ کی طرف سے اس قسم کی بے جا تہمتیں کیوں لگائی گئیں ؟!

جس نے اپنے تمام وجود کے ساتھ پیغمبر اسلام کا دفاع کیا اور بار ہا خوداپنے فرزند کو پیغمبراسلام کے مقدس وجود کو بچانے کے لئے خطرات کے مواقع پر ڈھال بنادیا !!یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس پر ایسی تہمت لگائی جائے؟!۔

یہی سبب ہے کہ تحقیق کرنے والوں نے دقت نظر کے ساتھ یہ سمجھا ہے کہ حضرت ابوطالب کے خلاف، مخالفت کی لہر ایک سیاسی ضرورت کی وجہ سے ہے جو ”شَجَرةُ خَبِیثَةٌ بَنِي اٴُمیّه “ کی حضرت علی علیہ السلام کے مقام ومرتبہ کی مخالفت سے پیداہوئی ہے۔

کیونکہ یہ صرف حضرت ابوطالب کی ذات ہی نہیں تھی جو حضرت علی علیہ السلام کے قرب کی وجہ سے ایسے حملے کی زد میں آئی ہو ،بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو تاریخ اسلام میں کسی طرح سے بھی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے قربت رکھتا ہے ایسے ناجو اں مردانہ حملوں سے نہیں بچ سکا، حقیقت میں حضرت علی علیہ السلام جیسے عظیم پیشوائے اسلام کے باپ ہونے کے علاوہ حضرت ابوطالب کا کوئی گناہ نہیں تھا ! ہم یہاں پر ان بہت سے دلائل میں سے جو واضح طور پر ایمان ابوطالب کی گواہی دیتے ہیں کچھ دلائل مختصر طور پر فہرست وار بیان کرتے ہیں تفصیلات کے لئے اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کریں ۔

۱ ۔ حضرت ابوطالب پیغمبر اکرم (ص)کی بعثت سے پہلے اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کا بھتیجا مقام نبوت تک پہنچے گا، مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت ابوطالب قریش کے قافلے کے ساتھ شام گئے تھے تو اپنے بارہ سالہ بھتیجے محمد کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے، اس سفر میں انہوں نے آپ کی بہت سی کرامات کا مشاہدہ کیا ۔

ان میں ایک واقعہ یہ ہے کہ جو نہی قافلہ ”بحیرا“نامی راہب کے قریب سے گزرا جو قدیم زمانہ سے ایک گرجا گھر میں مشغول عبادت تھا اور کتب عہدین (توریت و انجیل) کا عالم تھا اور تجارتی قافلے اپنے سفر کے دوران اس کی زیارت کے لئے جاتے تھے، توراہب کی نظریں قافلہ والوں میں سے حضرت محمد (ص)پر جم کررہ گئیں، اس وقت آپ کی عمر بارہ سال سے زیادہ نہ تھی ۔

بحیرانے تھوڑی دیر کے لئے حیران وششدر رہا، پھر گہری اور پُرمعنی نظروں سے دیکھنے کے بعد کہا:یہ بچہ تم میں سے کس سے تعلق رکھتا ہے؟لوگوں نے ابوطالب کی طرف اشارہ کیا، انہوں نے بتایا کہ یہ میرا بھتیجا ہے۔” بحیرا“ نے کہا : اس بچہ کا مستقبل بہت درخشاں ہے، یہ وہی پیغمبر ہے جس کی نبوت ورسالت کی آسمانی کتابوں نے خبردی ہے اور میں نے اسکی تمام خصوصیات کتابوں میں پڑھی ہیں۔(۱)

ابوطالب اس واقعہ اور اس جیسے دوسرے واقعات سے پہلے دوسرے قرائن سے بھی پیغمبر اکرم کی نبوت اور معنویت کو سمجھ چکے تھے ۔

اہل سنت کے عالم شہرستانی (صاحب ملل ونحل) اور دوسرے علماکی نقل کے مطابق: ”ایک سال آسمان مکہ نے اہل مکہ سے اپنی برکت روک لی اور سخت قسم کی قحط سالی نے لوگوں کوگھیر لیاتو ابوطالب نے حکم دیا کہ ان کے بھتیجے محمد کو جو ابھی شیر خوارہی تھے لایاجائے، جب بچے کو اس حال میں کہ وہ ابھی کپڑے میں لپیٹا ہوا تھا انہیں دیا گیا تو وہ اسے لینے کے بعد خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور تضرع وزاری کے ساتھ اس طفلِ شیر خوار کو تین مرتبہ اوپر کی طرف بلند کیا اور ہر مرتبہ کہتے تھے: پروردگارا! اس بچہ کے حق کا واسطہ ہم پر بابرکت بارش نازل فرما ۔زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ افق سے بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا اور مکہ کے آسمان پر چھا گیا اور بارش سے ایسا سیلاب آیا جس سے خوف پیدا ہونے لگا کہ کہیں مسجد الحرام ہی ویران نہ ہوجائے “۔

اس کے بعد شہرستانی کا کہنا ہے کہ یہی واقعہ جوابوطالب کی اپنے بھتیجے کے بچپن سے اس کی نبوت ورسالت سے آگاہ ہونے پر دلالت کرتا ہے ان کے پیغمبر پر ایمان رکھنے کا ثبوت بھی ہے اور ابوطالب نے بعد میں درج ذیل اشعار اسی واقعہ کی مناسبت سے کہے تھے :

وَ ابیض یستسقي الغَمَامَ بوجهِهِ

ثَمَالَ الیتامٰی عُصمة للاٴرَاملِ

” وہ ایسا روشن چہرے والا ہے کہ بادل اس کی خاطر سے بارش برساتے ہیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ہیں “

یَلُوذُ به الهَلاک مِن آلِ هَاشِمِ

فَهُمْ عِنْدَه فِی نِعمَةٍ وَ فَوَاضلِ

” بنی ہاشم میں سے جوچل بسے ہیں وہ اسی سے پناہ لیتے ہیں اور اسی کے صدقہ میں نعمتوں اور احسانات سے بہرہ مند ہوتے ہیں ،،

ومِیزانُ عَدلِه یخیس شَعِیرة

وَوِزانّ صدقٍ وَزنه غیرُ هائلِ

” وہ ایک ایسی میزان عدالت ہے جو ایک جَوبرابر بھی ادھرادھر نہیں کرتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ہے جس کے وزن کرنے میں کسی شک وشبہ کا خوف نہیں ہے “ ۔

قحط سالی کے وقت قریش کا ابوطالب کی طرف متوجہ ہونا اور ابوطالب کا خدا کو آنحضرت کے حق کا واسطہ دینا شہرستانی کے علاوہ اور دوسرے بہت سے عظیم مورخین نے بھی نقل کیا ہے ، مرحوم علامہ امینی نے اسے اپنی کتاب ”الغدیر“ میں” شرح بخاری“ ،”المواہب اللدنیہ“، ”الخصائص الکبریٰ“، ” شرح بہجتہ المحافل“ ،”سیرہ حلبی“، ” سیرہ نبوی“ اور ” طلبتہ الطالب“ سے نقل کیا ہے(۲)

۲ ۔اس کے علاوہ مشہور اسلامی کتابوں میں ابوطالب کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جو ہماری دسترس میں ہیں جس کے مجموعہ کا نام ”دیوان ابو طالب“ رکھا گیا ہے، ہم ان میں سے کچھ اشعار ذیل میں نقل کررہے ہیں :

وَالله لَن یَصِلُوا إلَیکَ بِجَمعِهم

حَتّٰی اٴوسدَ فِی التُّرَابِ دَفِیْناً

”اے میرے بھتیجے! خدا کی قسم جب تک ابوطالب مٹی میں نہ سوجائے اور لحد کو اپنا بستر نہ بنالے دشمن ہرگز ہرگز تجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے“ ۔

فَاصدّعْ بِاٴمرِکَ مَاعلیکَ غَضَاضَة

وَابْشِر بِذَاکَ وَ قرمنک عیوناً

”لہٰذا کسی چیز سے نہ ڈراور اپنی ذمہ داری اور ماموریت کا ابلاع کردو، بشارت دو اور آنکھوں کو ٹھنڈا کردو“۔

وَدَعوتني وَعلِمتُ اٴنَّکَ نَاصِحِي

وَلَقَد دَعوتَ وَ کُنتَ ثُمَّ اٴمِیناً

”تونے مجھے اپنے مکتب کی دعوت دی اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تیرا ہدف ومقصد صرف پندو نصیحت کرنا اور بیدار کرنا ہے، تو اپنی دعوت میں امین ہے“۔

وَ لَقَد عَلِمْتَ اٴنْ دِینُ مُحَمَّد(ص)

مِنْ خَیرِ اٴدیَانِ البَریَّة دِیناً(۳)

” میں یہ بھی جانتا ہوں کہ محمد کا دین تمام ادیان میں سب سے بہتردین ہے“۔

اور یہ اشعار بھی انہوں نے ہی ارشاد فرمائے ہیں :

اٴلَمْ تَعْلَمُوْا إنَّا وَجَدنَا مُحَمَّد اً

رَسُولاً کَمُوسیٰ خَط فِی اوّلِ الکُتُبِ

” اے قریش ! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ محمد( (ص))موسیٰ (علیہ السلام) کی مثل ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کے مانند خدا کے پیغمبر اور رسول ہیں جن کے آنے کی پیشین گوئی گزشتہ آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے اور ہم نے اسے پالیاہے“۔

وَ إنَّ عَلَیه فِی العِبَادِ مَحبة وَلاحَیفَ فِی مَن خَصّهُ اللّٰهُ فِی الحُبِّ (۴)

” خدا کے بندے اس سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں اور جسے خدا وندمتعال نے اپنی محبت کے لئے مخصوص کرلیا ہو اس شخص سے یہ لگاؤبے جا نہیں ہے۔“ ابن ابی الحدید ،جناب ابوطالب کے کافی اشعار نقل کرنے کے بعد (جن کے مجموعہ کو ابن شہر آشوب نے ” متشابہات القرآن“ میں تین ہزار اشعار کہا ہے) کہتا ہے : ”ان تمام اشعار کے مطالعہ سے ہمارے لئے کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ ابوطالب اپنے بھتیجے کے دین پر ایمان رکھتے تھے“۔

۳ ۔ پیغمبر اکرم (ص)سے بہت سی ایسی احادیث بھی نقل ہوئی ہیں جو آنحضرت (ص)کی ان کے فدا کار چچا ابوطالب کے ایمان پر گواہی دیتی ہیں منجملہ ” ابوطالب مومن قریش“ کے مولف کی نقل کے مطابق ایک یہ ہے کہ جب ابوطالب کی وفات ہوگئی تو پیغمبر اکرم (ص)نے ان کی تشیع جنازہ کے بعد اس سوگواری کے ضمن میں جو اپنے چچا کی وفات کی مصیبت میں آپ کررہے تھے آپ یہ بھی کہتے تھے: ”ہائے میرے بابا! ہائے ابوطالب ! میں آپ کی وفات سے کس قدر غمگین ہوں میں کس طرح آپ کی مصیبت کو بھول جاؤں ، اے وہ شخص جس نے بچپن میں میری پرورش اور تربیت کی اور بڑے ہونے پر میری دعوت پر لبیک کہی ، میں آپ کے نزدیک اس طرح تھا جیسے آنکھ خانہ چشم میں اور روح بدن میں“۔(۵)

نیز آپ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے :”مَا نَالت مِنِّي قُرِیش شیئًا اٴکرهُه حَتّٰی ماتَ اٴبُوطَالِب(۶)

”اہل قریش اس وقت تک میرے خلاف کوئی ناپسندیدہ اقدام نہ کرسکے جب تک ابوطالب کی وفات نہ ہوگئی“۔

۴ ۔ ایک طرف سے یہ بات مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)کو ابوطالب کی وفات سے کئی سال پہلے یہ حکم مل چکا تھا کہ وہ مشرکین کے ساتھ کسی قسم کا دوستانہ رابطہ نہ رکھیں ،اس کے باوجود ابوطالب کے ساتھ اس قسم کے تعلق اور مہرو محبت کا اظہار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پیغمبر اکرم انھیں مکتب توحید کا معتقد جانتے تھے، ورنہ یہ بات کس طرح ممکن ہوسکتی تھی کہ دوسروں کو تو مشرکین کی دوستی سے منع کریں اور خود ابوطالب سے عشق کی حدتک محبت رکھیں۔

۵ ۔ اہل بیت پیغمبر علیہم السلام کے ذریعہ سے ہم تک پہنچنے والی احادیث میں حضرت ابوطالب کے ایمان واخلاص کے بڑی کثرت سے مدارک نظر آتے ہیں، جن کو یہاں نقل کرنے سے بحث طولانی ہو جائے گی ،یہ احادیث منطقی استدلال کی حامل ہیں ان میں سے ایک حدیث چوتھے امام علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے اس میں امام علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ابوطالب مومن تھے؟ جواب دینے کے بعد ارشاد فرمایا:

”إنَّ هُنَا قَوماً یَزْعَمُونَ اٴنَّهُ کَافِرٌ “ اس کے بعد فرمایا:” تعجب کی بات ہے کہ بعض لوگ یہ کیوں خیال کرتے ہیں کہ ابوطالب کافرتھے،کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ اس عقیدہ کے ساتھ پیغمبر اور ابوطالب پر طعن کرتے ہیں کیا ایسا نہیں ہے کہ قرآن کی کئی آیات میں اس بات سے منع کیا گیا ہے (اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ ) مومن عورت ایمان لانے کے بعد کافر کے ساتھ نہیں رہ سکتی اور یہ بات مسلم

ہے کہ فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا سابق ایمان لانے والوں میں سے ہیں اور وہ ابوطالب کی زوجیت میں ابوطالب کی وفات تک رہیں۔“(۷)

۶ ۔ان تمام باتوں کے علاوہ اگرانسان ہر چیز میں شک کرے تو کم از کم اس حقیقت میں تو شک نہیں کرسکتا کہ ابوطالب اسلام اور پیغمبر اکرم (ص)کے صف اول کے حامی ومددگار تھے ، انھوں نے اسلام اور رسول کی جو حمایت کی ہے اسے کسی طرح بھی رشتہ داری اور قبائلی تعصبات سے منسلک نہیں کیا جاسکتا ۔

اس کا زندہ نمونہ شعب ابوطالب کی داستان ہے،تمام مورخین نے لکھا ہے کہ جب قریش نے پیغمبر اکرم (ص)اور مسلمانوں کا ایک شدید اقتصادی، سماجی اور سیاسی بائیکاٹ کیا اور ان سے ہر قسم کے روابط ان سے منقطع کرلئے تو آنحضرت (ص)کے واحد حامی اور مدافع، ابوطالب نے اپنے تمام کاموں سے ہاتھ کھینچ لیا اور برابر تین سال تک ہاتھ کھینچے رکھا اور بنی ہاشم کو ایک درہ میں لے گئے جو مکہ کے پہاڑوں کے درمیان اور ”شعب ابوطالب“ کے نام سے مشہور تھا وہاں پر سکونت اختیار کر لی۔

ان کی فدا کاری اس مقام تک جا پہنچی کہ قریش کے حملوں سے بچانے کےلئے کئی ایک مخصوص قسم کے برج تعمیرکرنے کے علاوہ ہر رات پیغمبر اکرم (ص) کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور ان کے آرام کے لئے دوسری جگہ مہیا کرتے اور اپنے فرزند دلبند علی کو ان کی جگہ پر سلادیتے اور جب حضرت علی کہتے: ”بابا جان! میں تو اسی حالت میں قتل ہوجاؤں گا “ تو ابوطالب جواب میں کہتے :میرے پیارے بچے! بردباری اور صبر ہاتھ سے نہ چھوڑو، ہر زندہ شخص موت کی طرف رواںدواں ہے، میں نے تجھے فرزند عبد اللہ کا فدیہ قرار دیا ہے ۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جو حضرت علی علیہ السلام باپ کے جواب میں کہتے ہیں کہ بابا جان میرا یہ کلام اس بناپر نہیں تھا کہ میں محمد کے لئے قتل ہونے سے ڈرتاہوں، بلکہ میرا یہ کلام اس بنا پر تھا کہ میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کو یہ معلوم ہوجائے کہ میں کس طرح سے آپ کی اطاعت اور احمد مجتبیٰ کی نصرت ومدد کے لئے آمادہ ہوں۔(۸)

قارئین کرام ! ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص بھی تعصب کو ایک طرف رکھ کر غیر جانبداری کے ساتھ ابوطالب کے بارے میں تاریخ کی سنہری سطروں کو پڑھے گا تو وہ ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ کا ہم آواز ہوکر کہے گا :

وَلَولَا اٴبُوطَالب وَ إبنَهُ لِما مثَّل الدِّین شَخْصاً وَقَامَافَذَاکَ بِمَکَّةِ آویٰ وَحَامٰی وَ هَذا بِیثْربَ حَسّ الحِمَامَا (۹)

” اگر ابوطالب اور ان کے فرزند نہ ہوتے تو ہرگزمکتب اسلام باقی نہ رہتا اور اپنا قدموں پر کھڑا نہ ہوتا، ابوطالب تو مکہ میں پیغمبر کی مدد کےلئے آگے بڑھے اور علی یثرب (مدینہ) میں حمایت اسلام کی راہ میں گرداب موت میں ڈوب گئے“۔

اگر جناب ابو طالب اور ان کے فرزند ارجمند نہ ہوتے تو دین اسلام بھی نہ ہوتا، اگر یہ نہ ہوتے تو اسلام کے لئے کوئی سہارا نہ تھا، جناب ابو طالب نے مکہ میں پیغمبر اکرم (ص) کی مدد کی اور حضرت علی علیہ السلام نے مدینہ میں، اور اسلام کی حمایت میں عظیم قربانیاں پیش کیں۔(۱۰)

____________________

(۱)تلخیص از سیرہ ابن ہشا م ، جلد۱صفحہ ۱۹۱، سیرہ حلبی ، جلد ا، صفحہ۱۳۱/وغیرہ

(۲) خزانة الادب،تاریخ ابن کثیر ،شرح ابن ابی الحدید ،فتح الباری،بلوغ الارب، تاریخ ابی الفدا، سیرہ نبوی وغیرہ، الغدیر ، جلد ۸ کی نقل کے مطابق

(۳) خزانة الادب۔ تاریخ ابن کثیر ۔شرح ابن ابی الحدید ۔فتح الباری۔بلوغ الارب۔ تاریخ ابی الفدا، سیرہ نبوی وغیرہ، الغدیر ، جلد ۸ کی نقل کے مطابق

(۴) شیخ الاباطح ، ابو طالب مومن قریش سے نقل کے مطابق

(۵)طبری ، ابو طالب مومن قریش کی نقل کے مطابق

(۶) کتاب الحجہ ، درجات الرفیعہ ، الغدیر ، جلد ۸ کی نقل کے مطابق

(۷) الغدیر ، جلد ۸

(۸)الغدیر ، جلد ۸

(۹) تفسیر نمونہ ، جلد ۵ صفحہ ۱۹۲

۱۰۶ ۔ گناہان کبیرہ کا معیار کیا ہے؟

گناہان کبیرہ کی طرف قرآن مجید میں چند آیات میں اشارہ ہوا ہے(۱) جن کے بارے میں مفسرین، فقہا اور محدثین نے طولانی گفتگو کی ہے۔

بعض مفسرین تمام گناہوں کو ”گناہان کبیرہ“ مانتے ہیں، کیونکہ صاحب عظمت خدا ہر گناہ بڑا ہے۔

جبکہ بعض علمانے ”کبیرہ“ اور ”صغیرہ“ کو نسبی امر بتایا ہے، اور ہر گناہ کو دوسرے اہم گناہ کے مقابل صغیرہ قرار دیا ہے اور اس سے چھوٹے گناہ کی نسبت کبیرہ قرار دیا ہے۔

بعض مفسرین نے ان گناہوں کو کبیرہ قرار دیا ہے جن پر قرآن مجید میں عذاب الٰہی کا وعدہ کیا گیا ہے۔

نیز بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ گناہ کبیرہ وہ گناہ ہے جس کے ارتکاب کرنے والے پر ”حدّ شرعی “ جاری ہوتی ہے۔ لیکن سب سے بہتر یہ ہے کہ ہم یوں کہیں کہ بعض گناہ کو ”کبیرہ“کہنا خود اس کے عظیم ہونے پر دلالت کرتا ہے، لہٰذا جس گناہ میں درج ذیل شرائط میں سے کوئی ایک شرط پائی جائے تو وہ گناہ کبیرہ ہے:

الف۔ جن گناہوں پر عذاب الٰہی کا وعدہ کیا گیا ہے۔

ب۔ جن گناہوں کو قرآن و سنت میں اہم قرار دیا گیا ہے۔

ج۔ جن گناہوں کو شرعی منابع میں گناہ کبیرہ سے بھی عظیم قرار دیا گیا ہے۔

د۔ جن گناہوں کے بارے میں معتبر روایات میں کبیرہ ہونے کی وضاحت کی گئی ہے۔

اسلامی روایات میں ”گناہان کبیرہ“ کی تعداد مختلف بیان ہوئی ہے، بعض روایات میں سات گناہوں کو کبیرہ قرار دیا گیا ہے: (قتل نفس، عقوق والدین، سود خوری، ہجرت کے بعد دار الکفر کی طرف پلٹ جانا، پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا، یتیموں کا مال کھانا اور جہاد سے فرار کرنا)(۲)

بعض دیگر روایات میں (بھی) ”گناہان کبیرہ“ کی تعداد سات ہی بیان کی گئی ہے صرف اس فرق کے ساتھ کہ اس میں عقوق والدین کی جگہ یہ جملہ بیان ہوا ہے کہ”کُلَّمَا اٴوْجَبَ اللهعلَیه النَّار “ (جن چیزوں پر خدا نے جہنم کو واجب قرار دیا ہے)

جبکہ بعض دوسری روایات میں ”گناہان کبیرہ“ کی تعداد ۱۰ ، بعض میں ۱۹ ، اور بعض میں ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی گئی ہے۔(۳)

گناہان کبیرہ کی تعداد کے سلسلہ میں اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ تمام گناہان کبیرہ برابر نہیں ہیں، بلکہ ان میں سے بعض کی بہت زیادہ اہمیت ہے، یا بالفاظ دیگر ”اکبر الکبائر “ (کبیرہ سے زیادہ بڑا) ہے، لہٰذا ان کے درمیان کوئی تضاد اور ٹکراؤ نہیں ہے۔(۴)

____________________

(۱) سورہ نساء ، آیت ۳۱ سورہ شوریٰ ، آیت ۳۷، اور آیات محل بحث(سورہ نجم ، آیت ۳۱ و ۳۲)

(۲) وسائل الشیعہ ، جلد ۱۱، (ابواب جہا د بالنفس، باب ۴۶،حدیث۱)

(۳) اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے وسائل الشیعہ (باب ۴۶، از ابواب جہاد بالنفس) پر رجوع فرمائیں، اس باب میں گناہان کبیرہ کی تعداد کے حوالہ سے ۳۷ حدیث نقل ہوئی ہیں

(۴) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۲، صفحہ ۵۴۱