110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 136523
ڈاؤنلوڈ: 5556

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136523 / ڈاؤنلوڈ: 5556
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۱۰۷ ۔ کیا دنوں کو سعد و نحس ماننا صحیح ہے؟

عوام الناس کے درمیان یہ بات مشہور ہے کہ کچھ دن سعد اور نیک ہوتے ہیں اور کچھ نحس ہوتے ہیں، اگرچہ اس میں شدید اختلاف ہے کہ کون کون سے دن سعد یا نحس ہیں؟یہاں بحث یہ ہے کہ عوام الناس کا یہ عقیدہ اسلام کی نظر میں کہاں تک قابل قبول ہے؟ یا یہ نظریہ اسلام ہی سے لیا گیا ہے؟ اگرچہ عقلی لحاظ سے زمان اور ایام میں فرق کا پایا جانا محال نہیں ہے، کہ بعض ایام نحوست کی علامت رکھتے ہوں اور بعض دن سعد اور نیک ہوں، اگرچہ ہمارے پاس ایسی کوئی عقلی دلیل نہیں ہے جس کے ذریعہ ان کو ثابت کیا جائے یا اس کی نفی کی جائے، ہم تو صرف اتنا کہتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہے لیکن عقلی لحاظ سے ثابت نہیں ہے۔

لہٰذا اگر اس سلسلہ میں شرعی دلائل موجود ہوں تو ان کو قبول کیا جاسکتا ہے بلکہ ان کو ماننا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں صرف دومقامات پر ”نحوستِ ایام“ کی طرف اشارہ ہوا ہے،ایک سورہ قمر ، آیت نمبر ۱۹ میں اور دوسرا سورہ فصلت ، آیت نمبر ۱۶/ میں جہاں قوم عاد کے واقعہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:( فَاٴَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیحًا صَرْصَرًا فِی اٴَیَّامٍ نَحِسَاتٍ ) (۱)

”تو ہم نے بھی ان کے اوپر تیز اور تند آندھی کو ان کی نحوست کے دنوں میں بھیج دیا“۔(۲)

اس کے مد مقابل بعض آیات میں دنوں کے لئے لفظ ”مبارک“ آیا ہے، جیسا کہ شب قدر کے بارے میں ارشاد ہے:( اِنَّا اَنْزَلْنَاهُ فِی لَیْلَةٍ مُبَارَکَةٍ ) (۳) ”ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے “۔

”نحس“ اصل میں افق کی بہت زیادہ سرخی کو کہتے ہیں جس کو ”نحاس“ (یعنی ایسا شعلہ جس میں دھواں نہ ہو ) کی شکل میں لاتے ہیں، لیکن بعد میں اس کو ”شوم “(یعنی بُرے) کے معنی میں استعمال کیا جانے لگا۔ اس لحاظ سے قرآن مجید میں صرف اس مسئلہ کی طرف مجمل اشارہ ہے، لیکن دنوں کے ”سعد و نحس“ کے سلسلہ میں اسلامی منابع میں بہت سی روایات موجود ہیں، اگرچہ ان میں سے متعدد روایات ضعیف ہیں، یا بعض روایات خرافات سے ملی جلی ہیں، لیکن سب ایسی نہیں ہیں، بلکہ ان کے درمیان متعدد روایات معتبر اور قابل قبول ہیں، جیسا کہ مذکورہ آیات کی تفسیر میں بہت سے مفسرین نے ان روایات کو صحیح قرار دیا ہے۔ محدث بزرگوار مرحوم علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بھی اس سلسلہ میں بہت سی احادیث ”بحار الانوار“ میں بیان کی ہیں۔(۴)

ہم یہاں چند مطالب مختصر طور پر بیان کرتے ہیں:

الف۔ متعدد روایات میں تاریخوں کو سعد و نحس ان تاریخوں میں واقع ہونے والے واقعات کی بنا پر سعد و نحس کہا گیا ہے، مثال کے طور پر حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ ایک شخص نے امام علیہ السلام سے درخواست کی کہ جس میں ”چہارشنبہ“ کے بارے میں سوال کیا جس کو عوام الناس کے درمیان اچھا نہیں سمجھا جاتا اور اس کو بار سمجھا جاتا ہے، امام سے سوال کیا کہ وہ کونسا چہار شبہ ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اس سے مراد مہینہ کا آخری چہار شنبہ ہے، جس میں بہت سے واقعات رونما ہوئے ہیں، اسی روز قابیل نے اپنے بھائی ”ہابیل“ کو قتل کی اور اسی روز چہار شنبہ میں خداوندعالم نے قوم عاد پر تیز آندھی کے ذریعہ عذاب نازل کیا“۔(۵)

لہٰذا متعدد مفسرین نے اس طرح کی بہت سی روایات کی پیروی کرتے ہوئے ہر مہینہ کے آخری چہار شنبہ کو روز ”نحس“ قرار دیا، اور اس کو ”اربعاء لا تدور“ قرار دیا، (یعنی ایسا چہار شنبہ جس کی تکرار نہیں ہوتی)

اسی طرح بعض دوسری روایات میں بیان ہوا ہے کہ ہر ماہ کی پہلی تاریخ نیک اور مبارک ہے، کیونکہ اس میں جناب آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی طرح ہر ماہ کی ۲۶ تاریخ کو نیک شمار کیا ہے کیونکہ خداوندعالم نے اس تاریخ میں جناب موسیٰ علیہ السلام کے لئے دریا میں راستہ بنایا۔(۶)

اسی طرح ہر ماہ کی ۳ تاریخ کو نحس قرار دیا کیونکہ اس تاریخ میں جناب آدم و حوا علیہما السلام کو جنت سے نکالا گیا اور ان کے بدن سے جنتی لباس جدا ہوگیا۔(۷)

یا ہر مہینہ کی سات تاریخ کو نیک مانتے ہیں کیونکہ اس تاریخ میں جناب نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہوئے (اور غرق ہونے سے نجات پاگئے)(۸)

یا جیسا کہ نو روز کے سلسلہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول حدیث میں بیان ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: یہ ایک مبارک روز ہے جس میں جناب نوح علیہ السلام کی کشتی جودی نامی پہاڑی پر رکی، جناب جبرئیل پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوئے، اسی روز حضرت علی علیہ السلام نے دوش پیغمبر اکرم (ص) پر سوار ہوکر خانہ کعبہ سے بتوں کو توڑا، اور واقعہ غدیر خم بھی اسی نو روز میں واقع ہوا ہے(۹)

المختصر : اس طرح کے الفاظ بہت سی روایات میں بیان ہوئے ہیں جن میں بعض اچھے واقعات اور بعض ناگوار واقعات کی بنا پر تاریخوں کو سعد یانحس قرار دیا ہے، خصوصاً روز عاشورہ کے سلسلہ میں جس کو بنی امیہ اہل بیت علیہم السلام پر کامیابی کے گمان سے اس دن کو ایک مبارک روز شمار کرتے تھے، لہٰذا روایات میں اس دن کو مبارک ماننے سے نہی کی گئی ہے بلکہ اس روز کاروبار اور تحصیل رزق کی تعطیل کے لئے کہا گیا ہے، تاکہ عملی طور پر بنی امیہ کے اس کام سے دوری اختیار کریں، لہٰذا اس طرح کی روایات کے پیش نظر بعض علمانے سعد و نحس کی اس طرح تفسیر کی ہے کہ اسلام نے ان واقعات کی طرف توجہ دی ہے تاکہ انسان خود کو عملی طور پر تاریخی مثبت واقعات کے مطابق قرار دے ، اور بُرے اور غلط واقعات، نیز اس طرح کے واقعات کو رونما کرنے والوں سے دوری اختیار کریں۔

ممکن ہے کہ یہ تفسیر بعض روایات کے سلسلہ میں صادق اور صحیح ہو لیکن تمام روایات کے سلسلہ میں مسلم طور پر صادق نہیں ہے کیونکہ انھیں بعض روایات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ بعض دنوں میں مخفی تاثیر پائی جاتی ہے جس سے ہم آگاہ نہیں ہیں۔

ب۔ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ بعض لوگ سعد و نحس کے سلسلہ میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے تاریخ کے سعد و نحس ہونے کی جستجو کرتے ہیں، جن کی وجہ سے بعض کاموں کو چھوڑ دیتے ہیں، اور اس سنہری موقع کو گنوا بیٹھتے ہیں۔

یا یہ کہ اپنی یا دوسروں کی کامیابی یا ناکامی کے اسباب و علل کی جستجو کرنے اور اپنی زندگی کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہر طرح کی ناکامی کو تاریخ اور دنوں کی گردن پر یہ کہہ کر ڈال دیتے ہیں کہ ہم کیا کریں تاریخ ہی نحس تھی، اور اسی طرح کامیاب ہونے پر نیک اور مبارک تاریخ ہونے کی علت سمجھتے ہیں!

لیکن یہ ایک طرح حقیقت سے فرار اور اس مسئلہ میں زیادہ روی سے کام لینا اور حوادث زندگی کی فضول توضیح و تفسیر ہے جس سے ہمیں پرہیز کرنا چاہئے، ان مسائل میں عوام الناس میں شایع شدہ مسائل پر دھیان نہیں دینا چاہئے اور نہ ہی منجمین کی باتوں پر عمل کرنا چاہئے اورنہ ہی فال نکالنے والوں کی باتوں پر عمل کیا جائے، اگر اس سلسلہ میں کوئی چیز معتبر حدیث کے ذریعہ ثابت ہوجائے تو اس کو قبول کیا جائے ، اگر ثابت نہ ہو توہر کس و نا کس کی بات پر تو جہ نہ کرتے ہو ئے اپنی زندگی کو آگے بڑھایا جائے، سعی و کوشش کرتے ہوئے اپنے قدم بڑھائے، انسان خدا پر بھروسا کرے اور اسی کی نصرت و مدد طلب کرے۔

ج۔ تاریخوں کے سعد ونحس کے مسئلہ پر توجہ ، غالباً انسان کو تاریخی مثبت واقعات کی طرف رہنمائی کے علاوہ سبب ہوتی ہے کہ انسان خداوندعالم کی ذات مقدس کی طرف متوجہ ہو اور اس کی ذات پاک سے نصرت ومدد طلب کرے،لہٰذا ہم متعدد روایات میں پڑھتے ہیں: جن تاریخوں کو نحس قرار دیا گیا ہے اس میں صدقہ دے کر، یا دعا پڑھ کر، خداوندعالم کے لطف و کرم سے نصرت ومدد طلب کرکے، قرآن کی بعض آیات کی تلاوت کرکے اور خداوندمنّان کی ذات پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے اپنے کاموں کو انجام دے تا کہ اپنے کاموں میں کامیاب ہوجاؤ۔

جیسا کہ ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے دوستوں میں سے ایک شخص منگل کے روز امام کی خدمت میں حاضر ہوا، امام علیہ السلام نے فرمایا کہ تم کل نہیں آئے ؟ اس نے عرض کیا:کل پیر کا دن تھا، میں پیر کے دن گھر سے باہر نکلنے کو اچھا نہیں مانتا! اس وقت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: ”جو شخص پیر کے دن کے شر سے محفوظ رہنا چاہتا ہے اسے نماز صبح کی پہلی رکعت میں سورہ ”ہل اتی“ پڑھنی چاہئے، اس کے بعد امام علیہ السلام نے سورہ ہل اتی کی اس آیت کی تلاوت فرمائی (جو شر اوربلا کے دور ہونے کے لئے مناسب ہے):( فَوَقَاهُمْ اللهُ شَرَّ ذَلِکَ الْیَوْمِ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا ) (۱۰) ”تو خدا نے انھیں اس دن کی سختی سے بچالیا اور تازگی و سرور عطا کر دیا“۔۱۱)

اسی طرح ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک شخص نے امام علیہ السلام سے سوال کیا: کیا روز چہار شنبہ جس کو نحس قرار دیا گیا یا اس کے علاوہ دوسرے نحس دنوں میں سفر کرنا مناسب ہے؟ امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا: صدقہ دے کر سفر کا آغاز کرو، اور نکلتے وقت آیة الکرسی کی تلاوت کرو (اور جہاں چاہو سفر کرو)(۱۲)

نیز ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ امام علی نقی علیہ السلام کے دوستوں میں سے ایک شخص کہتا ہے: میں امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، حالانکہ راستہ میں میری انگلی زخمی ہوگئی تھی،چو نکہ ایک سواری میرے پاس سے گزری جس کی وجہ سے میرا شانہ زخمی ہوگیا، جس کی بنا پر کچھ لوگوں سے نزاع ہوگئی اور انھوں نے میرے کپڑے تک پھاڑ ڈالے، میں نے کہا: اے دن !خدا تیرے شر سے محفوظ رکھے، کتنا برا دن ہے! اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: تو ہماری محبت کا دعویٰ کرتا ہے اور اس طرح کہتا ہے؟! اس دن کی کیا خطا ہے جو تو اس دن کو گناہگار قرار دیتا ہے؟ چنانچہ وہ شخص کہتا ہے کہ میں امام علیہ السلام سے یہ گفتگو سن کر ہوش میں آیا اور میں نے اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے عرض کی: اے میرے مولا و آقا! میں توبہ و استغفار کرتا ہوں، اور خدا سے بخشش طلب کرتا ہوں۔اس موقع پر امام علیہ السلام نے فرمایا: ”دنوں کا کیا گناہ ہے؟ کہ تم ان کو بُرا اور نحس مانتے ہو جب کہ تمہارے اعمال ان دنوں میں تمہارے دامن گیر ہوتے ہیں“؟!

راوی کہتا ہے: ”میں نے عرض کی میں خدا سے ہمیشہ کے لئے استغفار کرتا ہوں، اے فرزندِ رسول !میں توبہ کرتا ہوں“۔

اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا:”اس سے کوئی فائدہ نہیں، جس چیز میں مذمت نہیں ہے اس کی مذمت کرنے پرخدا تمہیں سزا دے گا ، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ خداوندعالم ثواب و عذاب دیتا ہے، اور اعمال کی جزا اس دنیا اور آخرت میں دیتا ہے، اس کے بعد مزید فرمایا: اس کے بعد اس عمل کی تکرار نہ کرنا، اور حکم خدا کے مقابل دنوں کی تاثیر پر عقیدہ نہ رکھنا“۔(۱۳)

(قارئین کرام!) یہ پُر معنی حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر دنوں کا کوئی اثر ہے بھی تو وہ حکم خدا سے ہے، لہٰذا ان کے لئے مستقل طور پر تاثیر کا قائل نہ ہونا چاہئے، اپنے کو خدا کے لطف وکرم سے بے نیاز نہیں جاننا چاہئے، ان واقعات کو جو اکثر اوقات انسان کے بُرے اعمال کا کفارہ ہوتے ہیں ؛ دنوں کی تاثیر نہیں جاننا چاہئے اور اپنے کو بری الذمہ نہیں قرار دینا چاہئے، اس سلسلہ میں ان مختلف روایات کو جمع کرنے کے لئے شاید یہ بہترین راستہ ہو۔ (غور کیجئے )(۱۴)

____________________

(۱)سورہ فصلت ، آیت ۱۶

(۲) توجہ رہے کہ مذکورہ آیت میں ”نَحِسَاتٍ“ کا لفظ آیا ہے جو ایام کی صفت ہے، یعنی وہ دن نحس تھے، جبکہ آیات محل بحث<فی یوم نحس مستمر>میںیوم ”نحس“ کی طرف مضاف ہوا ہے اور صفت کے معنی میں نہیں ہے، لیکن مذکورہ آیت کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ یہاں پر موصوف ،صفت کی طرف اضافہ ہوا ہے

(۳)سورہ دخان ، آیت ۳

(۴) بحارالانوار ، جلد ۵۹ کتاب ”السماء والعالم “صفحہ ۱تا۹۱،اور کچھ روایات اس کے بعد بیان کی ہیں

(۵) تفسیر نور الثقلین ، جلد ۵، صفحہ ۱۸۳، (حدیث ۲۵) (۶) تفسیر نور الثقلین ، جلد ۵، صفحہ ۱۰۵

(۷) تفسیر نور الثقلین ، جلد ۵، صفحہ ۵۸

(۸) تفسیر نور الثقلین ، جلد ۵، صفحہ ۶۱ (۹) بحار الانوار ، جلد ۵۹، صفحہ ۹۲

(۱۰) سورہ دہر ، آیت۱۱ (۱۱) بحار الانوار ، جلد ۵۹، صفحہ ۳۹، حدیث۷

(۱۲) بحار الانوار ، جلد ۵۹، صفحہ ۲۸

(۱۳) تحف العقول ، بحا رالانوار ، جلد۵۹، صفحہ ۲کی نقل کے مطابق، (مختصر فرق کے ساتھ)

(۱۴)تفسیر نمونہ ، جلد ۲۳، صفحہ ۴۱

۱۰۸ ۔ کیا اصحاب کہف کا واقعہ سائنس سے مطابقت رکھتا ہے؟

شہر ”افسوس“ کے طولانی مدت تک سونے والوں (یعنی اصحاب کہف) کی نیند کے بارے میں بعض لوگ شک و تردید کرسکتے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ اس کو سائنس کے علمی اصول سے موافق نہ سمجھیں، لہٰذا اس کو ”قصہ اور کہانیوں“ کی صف میں قرار دے دیں، کیونکہ:

۱ ۔ بیدارر ہنے والوں کے لئے سیکڑوں سال تک زندہ رہنا مشکل ہے ، سوتے ہوئے لوگوں کے لئے تو بہت دور کی بات ہے!

۲ ۔ بیداری کے عالم میں تو بافرض محال یہ مانا بھی جاسکتا ہے کہ اتنی طویل عمر ہوسکتی ہے ، لیکن جو شخص سویا ہوا ہو اس کے لئے ناممکن ہے، کیونکہ کھانے پینے کی مشکل پیش آئے گی، انسان اتنی مدت تک بغیر کھائے پئے کیسے زندہ رہ سکتا ہے، اور اگر فرض کریں کہ انسان کے لئے ہر روز ایک کلو کھانا اور ایک لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو اصحاب کہف کی عمر کے لئے دس کونٹل کھانا اور ایک ہزار لیٹر پانی ضروری ہے جس کو بدن میں ذخیرہ کرنا معنی نہیں رکھتا۔

۳ ۔ اگر ان سب سے چشم پوشی کرلیں تو یہ اعتراض پیش آتا ہے کہ بدن کے ایک حالت میں اتنی طولانی مدت تک باقی رہنے سے انسانی جسم کے مختلف اعضا خراب ہوجاتے ہیں۔اس طرح کے اعتراضات کے پیش نظر ظاہری طور پرکوئی راہ حل دکھائی نہ دیتی، جبکہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ:الف: طولانی عمر کا مسئلہ کوئی غیر علمی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ (سائنس کے لحاظ سے) ہر زندہ موجود کے لئے کوئی معین معیار نہیں کہ اس وقت اس کی موت یقینی ہو۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ انسان کی طاقت کتنی بھی ہو آخر کار محدود اور ختم ہونے والی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کا بدن یا کوئی دوسرا جاندار اس معمولی مقدار سے زیادہ زندگی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، مثال کے طور پردرجہ حرارت سو تک پہنچنے پر پانی کھول جاتا ہے اور درجہ حرارت صفر ہونے پر پانی برف بن جاتا ہے، لہٰذا انسان کے سلسلہ میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ جب انسان سو سال یا ڈیڑھ سو سال کا ہوجائے تو انسان کی حرکت قلب بند ہوجائے اور وہ مرجائے۔

بلکہ انسان کی عمر کا معیار زیادہ تر اس کی زندگی کے حالات پر موقوف ہے اور حالات کو بدلنے سے اس کی عمر میں تبدیلی آسکتی ہے، اس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر کے دانشوروں نے انسان کے لئے کوئی خاص عمر معین نہیں کی ہے، اس کے علاوہ متعدد دانشوروں نے بعض جانداروں کی عمر کو بعض مخصوص لیبریٹری میں رکھ کر دو برابر، چند برابر اور بعض اوقات ۱۲ برابر تک پہنچا یاہے، یہاں تک کہ محققین اور دانشوروں نے ہمیں امید دلائی ہے کہ مستقبل میں سائنس کے جدید طریقوں کے ذریعہ انسان کی عمر اس وقت کی عمر سے چند برابر بڑھ جائے گی، یہ خود طولانی عمر کے سلسلہ میں ہے۔

ب: اس طولانی نیند کے بارے میں کھانے پینے کا مسئلہ اگر معمولی نیند ہو تو اعتراض وارد ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ سائنس سے ہم آہنگ نہیں ہے، اگرچہ سوتے وقت کھانے پینے کی ضرورت کم ہوتی ہے لیکن چند سالوں کے لئے یہ مقدار بہت زیادہ ہونی چاہئے، لیکن اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ جہان طبیعت میں ایسی بھی نیند پائی جاتی ہیں جن میں کھانے پینے کی ضرورت بہت ہی کم ہو تی ہے، اس کے لئے جانوروں کی مثال دی جاتی ہے جو موسم سرما میں سوجاتے ہیں۔ سردیوں کی نیند بہت سے جانور ایسے ہیں جو پوری سردیوں کے موسم میں سوتے رہتے ہیں اسے سائنس کی اصطلاح میں ”سردیوں کی نیند“ کہا جاتا ہے۔

ایسی نیند میں زندگی کے آثار تقریباً ختم ہوجاتے ہیں، زندگی کا معمولی سا شعلہ روشن رہتا ہے، دل کی دھڑکن تقریباً رک جاتی ہے، اور اتنی خفیف ہوجاتی ہے کہ بالکل محسوس نہیں ہوتی۔

ایسے مواقع پر بدن کو ایسے بڑے بھٹے سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جو بجھ جاتا ہے اور چھوٹا سا شعلہ بھڑکتا رہتا ہے، واضح ہے کہ آسمان سے باتیں کرتے ہوئے شعلوں کے لئے بھٹے کو ایک دن کے لئے جتنے تیل یا گیس کی ضرورت ہوتی ہے ایک خفیف سے شعلہ کے لئے اتنی خو راک برسوں یا صدیوں کے لئے کافی ہے، البتہ اس میں جلتے ہوئے بھٹے کی مقدار اور خفیف سے شعلہ کی مقدار کے لحاظ سے فرق ہوسکتا ہے۔

جانوروں کی سردیوں کی نیند کے بارے میں دانشورں کا کہنا ہے: ”اگر کسی مینڈک کو سردیوں کی نیند سے اس کی جگہ سے باہر نکالیں تووہ مردہ معلوم ہوگا، اس کے پھیپھڑوں میں ہوا نہیں ہوتی، اس کے دل کی حرکت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ پتہ نہیں چلایا جاسکتا، سرد خون جانوروں ( Cool Blooded ) میں بہت سے جا نورسردیوں کی نیند سوتے ہیں، اس سلسلہ میں کئی طرح کے کیڑے مکوڑے، حشرات الارض، زمینی سیپ (صدف) اور رینگنے والے جانوروں کے نام لئے جاسکتے ہیں، بعض خون گرم جانور ( Warm Blooded ) بھی سردیوں کی نیندسو تے ہیں اس نیند کے عالم میں حیاتی فعالتیں بہت سست پڑجاتی ہیں اور بدن میں ذخیرہ شدہ چربی آہستہ آہستہ صرف ہوتی رہتی ہے۔(۱)

مقصد یہ ہے کہ ایک ایسی بھی نیند ہے جس میں کھانے پینے کی بہت کم ضرورت ہوتی ہے اور حیاتی حرکتیں تقریباً صفر تک پہنچ جاتی ہیں، اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہی صورت حال اعضا کو فرسودگی سے بچانے اور جانوروں کو ایک طولانی مدت تک جینے میں مدد دیتی ہے، اصولی طور پر جو جاندار احتمالاً سردیوں میں اپنی غذا حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ان کے لئے سردیوں کی نیند بہت غنیمت شئے ہے۔

یوگا کے ماہرین؛ ایک اور نمونہ یوگا کے ماہرین کے بارے میں دیکھا گیا ہے کہ ان میں سے بعض کو یقین نہ کرنے والے حیرت زدہ افراد کی آنکھوں کے سامنے بعض اوقات تابوت میں رکھ کر ہفتہ بھر کے لئے مٹی کے نیچے دفن کردیتے ہیں اور ایک ہفتہ کے بعد انھیں باہر نکالتے ہیں ان کی مالش کی جاتی ہے اور مصنوعی سانس دی جاتی ہے اور وہ رفتہ رفتہ اصلی حالت پر پلٹ آتے ہیں۔

اتنی مدت کے لئے اگر کھانے پینے کا مسئلہ کوئی اہم نہ ہو تو بھی آکسیجن کا مسئلہ بہت اہم ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں دماغ کے خلیے آکسیجن کے معاملہ میں اتنے حساس اور ضرورت مند ہوتے ہیں کہ اگر چند سیکنڈ بھی اس سے محروم رہیں تو تباہ ہوجائیں، لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک یوگا کرنے والا پورا ہفتہ کس طرح آکسیجن کی اس کمی کو برداشت کرلیتا ہے۔

ہماری مذکورہ گفتگو کے پیش نظر اس سوال کا جواب کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے، بات یہ ہے کہ یوگا کرنے والے کے بدن کی حیاتی حرکت اس عرصہ میں تقریباً رک جاتی ہے اس دوران خلیے کو آکسیجن کی ضرورت اور اس کا مصرف بہت کم ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہی ہوا جو تابوت کے اندرونی حصہ میں ہوتی ہے بدن کے خلیوں کی ہفتہ بھر کی غذا کے لئے کافی ہوجاتی ہے!!۔

زندہ انسان کے بدن کو منجمد کرنا

جانوروں بلکہ انسانی بدن کو منجمد کرکے ان کی عمر بڑھانے کے بارے میں آج کل بہت سے نظریات پیش کئے گئے ہیں جن پر بحثیں ہورہی ہیں ان میں سے بعض تو عملی جامہ پہن چکے ہیں۔

ان تھیوریوں کے مطابق یہ ممکن ہے کہ ایک انسان یا حیوان کے بدن کو ایک خاص طریقہ کے تحت صفر سے کم درجہ حرات پر رکھ کر اس کی زندگی کو ٹھہرا دیا جائے جس سے اس کی مو ت واقع نہ ہو پھر ایک ضروری مدت کے بعد اسے مناسب حرارت دی جائے اور وہ عام حالت پر لوٹ آئے!!

بہت دور دراز کے فضائی سفر جن کے لئے کئی سو سال یا کئی ہزار سال کی مدت درکارہے، ان کے لئے کئی منصوبے پیش کئے جاچکے ہیں ان میں سے ایک یہی ہے کہ فضا نورد کے بدن کو ایک خاص تابوت میں رکھ کر اسے جما دیا جائے اور جب سالہا سال کی مسافت کے بعد وہ مقررہ کرّات کے قریب پہنچ جائے تو ایک ایٹو میٹک نظام کے تحت اس تابوت میں حرارت پیدا ہوجائے اور فضا نورد اپنی حیات کو ضا ئع کئے بغیر حالت معمول پر لوٹ آئے ۔

ایک سائنسی جریدہ میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ حال ہی میں انسانی بدن کو لمبی عمر کے لئے منجمد کرنے کے بارے میں برابرٹ نیلسن نے کتاب لکھی ہے، سائنس کی دنیا میں یہ کتاب بہت مقبول ہو ئی ہے اور اس کے مندرجات کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔

جریدہ کے اس مقالہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ حال ہی میں اس عنوان کے تحت ایک خاص سانئسی شعبہ قائم ہوگیا ہے، چنانچہ مذکورہ مقالہ میں لکھا ہے: ہمیشہ سے انسانی تاریخ میں ”حیات جاویدانی“ انسان کا سنہرا خواب رہی ہے، لیکن اب یہ خواب حقیقت میں بدل گیا ہے، یہ امر ایک نئے علم کی خوشگوار اور حیرت انگیز ترقی کا مرہونِ منت ہے اس علم کا نام ”کریانک“ ہے، (یہ علم انسانی بدن کو منجمد کرکے زندہ رکھنے کے بارے میں ہے، اس کے مطابق انسان کے بدن کو منجمد کرکے اسے بچا یا جاسکتا ہے یہاں تک کہ سائنسداں اسے پھر سے زندہ کردیں)

کیا یہ بات قابل یقین ہے؟ بہت سے ممتاز دانشوراس مسئلہ پر غور و فکر کر رہے ہیں ، اس کے بارے میں متعدد کتابیں چھپ چکی ہیں مثلاً ”لائف“ اور ”اسکوائر“ ، پوری دنیا کے اخبارات پورے زور و شور سے اس مسئلہ پر بحث کر رہے ہیں، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سلسلہ میں اب تجربات شروع ہوچکے ہیں۔(۲)

کچھ عرصہ ہوا کہ اخبار میں یہ خبر چھپی تھی کہ برفانی قطبی علاقے سے چند ہزار سال پہلے کی ایک منجمد مچھلی ملی ہے جسے خود وہاں کے لوگوں نے دیکھا ہے اس مچھلی کو جب مناسب پانی میں رکھا گیا تو سب لوگ حیرت زدہ رہ گئے کہ وہ مچھلی پھر سے جی اٹھی اور چلنے لگی۔

واضح رہے کہ حالت انجماد میں علامات حیات ،موت کی طرح بالکل ختم نہیں ہوتی کیونکہ اس صورت میں تو زند ہ ہو نا ممکن نہیں ہے بلکہ اس عالم میں حیات کی فعالتیں اور حرکتیں بہت سست رفتار ہوجاتی ہیں۔

ان تمام باتوں سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ انسانی زندگی کو ٹھہرایا یا بہت ہی سست کیا جاسکتا ہے، اور سائنس کی مختلف تحقیقات اس امکان کی متعدد حوالوں سے تائید کرتی ہیں، اس حالت میں غذا کا مصرف بدن میں تقریباً صفر تک پہنچ جاتا ہے اورانسان کے بدن میں موجود غذا کا تھوڑا سا ذخیرہ اس کی سست زندگی کے لئے طولانی برسوں تک کافی ہوسکتا ہے۔ اس چیز میں غلط فہمی نہ ہو کہ ہم ان باتوں کے ذریعہ اصحاب کہف کی نیند کے اعجازی پہلو کاانکار نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ سائنس کے اعتبار سے اس واقعہ کو ذہنوں کے قریب کردیں کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ اصحاب کہف ہماری طرح نہیں سوئے، جیسا کہ ہم معمول کے مطابق رات کو سوتے ہیں ان کی نیند ایسی نہیں تھی بلکہ وہ استثنائی پہلو رکھتی تھی، لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کہ وہ ارادہ الٰہی کے تحت ایک طولانی مدت تک سوتے رہے، اس دوران نہ انھیں غذا کی کمی لاحق ہوئی اور نہ ان کے بدن کے ارگانیزم (اجزا) کو کوئی نقصان پہنچا۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ سورہ کہف کی آیات سے ان کی سرگزشت کے بارے میں یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ ان کی نیند عام طریقہ کی نیند اور معمول کی نیند سے بہت مختلف تھی، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:

( وَتَحْسَبُهُمْ اٴَیْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْیَمِینِ وَذَاتَ الشِّمَالِ وَکَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْهِ بِالْوَصِیدِ لَوْ اطَّلَعْتَ عَلَیْهِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا ) (۳)

”اور تمہارا خیال ہے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ عالمِ خواب میں ہیں اور ہم انھیں داہنے بائیں کروٹ بھی بدلوا رہے ہیں اور ان کا کتا ڈیوڑھی پر دونوں ہاتھ پھیلائے ڈٹا ہوا ہے اگر تم ان کی کیفیت پر مطلع ہوجاتے تو الٹے پاؤں بھاگ نکلتے اور تمہارے دل میں دہشت سما جاتی“۔

یہ آیت اس بات کی گواہ ہے کہ ان کی نیند عام نیند نہ تھی بلکہ ایسی نیند تھی جو حالت موت کے مشابہ تھی اور ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔

اس کے علاوہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے: ”سورج کی روشنی ان کے غار کے اندر نہیں پڑتی تھی“ نیز اس امر کی طرف توجہ کی جائے کہ ان کی غار احتمالاً ایشائے صغیر کے کسی بلند اور سرد مقام پر واقع تھا تو ان کی نیند کے استثنائی حالات مزید واضح ہوجاتے ہیں۔دوسری طرف قرآن کہتا ہے:( وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْیَمِینِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ) (۴) ”اور ہم انھیں داہنے بائیں کروٹ بھی بدلوا رہے ہیں “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالکل ایک ہی حالت میں نہیں رہتے تھے ایسے عوامل جو ابھی تک ہمارے لئے معمہ ہیں ان کے تحت شاید سال میں ایک مرتبہ انھیں دائیں بائیں پلٹاجاتا تھا تاکہ ان کے بدن کے ارگانیزم ( Organism )میں کوئی نقص نہ آنے پائے۔اب جبکہ اس سلسلہ میں کافی واضح عملی بحث ہوچکی ہے اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے معاد اور قیامت کے بارے میں زیادہ گفتگو کی ضرورت نہیں رہتی، کیونکہ ایسی طویل نیند کے بعد بیداری، موت کے بعد کی زندگی کے غیر مشابہ نہیں ہے، اس سے ذہن معاد اور قیامت کے امکان کے قریب ہوجاتا ہے۔(۵)(۶)

____________________

(۱)اقتباس از کتاب فرہنگنامہ (دائرة المعارف جدید فارسی) مادہ زمستانخوابی

(۲) مجلہ دانشمند ، بہمن ماہ ۱۳۴۷ئھ ش ، صفحہ ۴

(۳) سورہ کہف ، آیت ۱۸

(۴) سورہ کہف ، آیت ۱۸

(۵) اس سلسلہ میں مزید وضاحت کے لئے کتاب ”معاد و جہان پس از مرگ“ کی طرف رجوع فرمائیں

(۶) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۴۰۶