110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 136537
ڈاؤنلوڈ: 5556

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136537 / ڈاؤنلوڈ: 5556
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۲۰ ۔ کیا روزی کے لحاظ سے لوگوں میں موجودہ فرق ، عدالت الٰہی سے ہم آہنگ ہے؟

قرآن کریم کے سورہ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:( وَاللهُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ ) (۱) ”خداوندعالم نے تم میں سے بعض لوگوں کو روزی کے لحاظ سے بعض دوسرے لوگوں پر برتری دی ہے“۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانوں کے درمیان رزق و روزی کے لحاظ سے فرق قرار دینا ؛ کیا خداوندعالم کی عدالت اور معاشرہ کے لئے ضروری مساوات سے ہم آہنگ ہے؟

(قارئین کرام!) اس سوال کے جواب میں دو نکتوں کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:

۱ ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مادی اسباب اور مال و دولت کے لحاظ سے انسانوں کے درمیان پائے جانے والے فرق کی اہم وجہ خودانسانوں کی استعداد اور صلاحیت ہے، انسان میں موجودہ جسمی اور عقلی یہی فرق ہی باعث ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کے پاس بہت زیادہ مال و s دولت جمع ہوجائے اور بعض دوسروں کے پاس نسبتاً کم رہے۔

البتہ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ بعض لوگ اتفاقات کی بنا پر مالدار بن جاتے ہیں جو کہ خود ہمارے نظریہ کے مطابق صرف ایک اتفاق ہوتا ہے لیکن ایسی چیزوں کومستثنیٰ شمار کیا جاسکتا ہے، ہاں جو چیز اکثر اوقات قاعدہ و قانون کے تحت ہوتی ہے تو وہ استعداد وصلاحیت اور انسان کی کارکردگی کا فرق ہے (البتہ ہماری گفتگو ایسے سالم معاشرہ کے بارے میں ہے جس میں ظلم و ستم نہ ہو اور نہ ہی استثمار، اور نہ ہی ایسا معاشرہ جو قوانین خلقت اور انسانی نظام سے بالکل دور ہو)

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ کبھی کبھی ہم جن لوگوں کو اپاہج (لولا او رلنگڑا) اور کم اہمیت سمجھتے ہیں وہ بہت زیادہ مال و دولت جمع کرلیتے ہیں اور اگر ان کے جسم و عقل کے بارے میں مزید غور و فکر کریں اور ظاہری طور پر فیصلہ کرنے کے بجائے گہرائی سے سوچیں تو ہمیں یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ ان کے اندر کچھ ایسی طاقتور چیزیںپائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے وہ اس مقام تک پہنچے ہیں، (ایک بار پھر اس بات کی تکرار کرتے ہیں کہ ہماری بحث ایک سالم اور ظلم و ستم سے دور معاشرہ کے بارے میں ہے)۔

بہر حال استعداد اور صلاحیت کی وجہ سے آمدنی میں فرق ہوتا ہے، اور استعداد خداوندعالم کی عطا کردہ نعمت ہے، ہوسکتا ہے بعض مقامات میں انسان سعی و کوشش کے ذریعہ کسب کرلے، لیکن دیگر مواقع پر انسان کسب نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ ایک سالم معاشرہ میں بھی اقتصادی لحاظ سے درآمد میں فرق پایا جانا چاہئے، مگر یہ کہ ایک جیسے انسان، ایک جیسی استعداد اور ایک جیسے رنگ کے انسان بن جائیں کہ جن میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق نہ ہو، جو خود مشکلات اور پریشانیوں کی ابتدا ہے!

۲ ۔ کسی انسان کے بدن، یا کسی درخت یا کسی پھول کو مد نظر رکھیں ، کیا یہ ممکن ہے کہ ان تمام چیزوں کے جسم کے تمام اعضا ہر لحاظ سے ایک جیسے ہوجائیں؟

تو کیا درختوں کی جڑوں کی طاقت نازک پتوں کی طرح یا انسان کے پیر کی ایڑی ،آنکھ کے نازک پردہ کی طرح ہوسکتی ہے؟ اگر ہم ان کو ایک جیسا بنادیں تو کیا ہمارے اس کام کو صحیح کہا جاسکے گا؟! (اگر یہ نازک آنکھ، ایڑی کی طرح سخت یا ایڑی ،آنکھ کی طرح نرم ہوجائے تو انسان کتنے دن زندہ رہ سکتا ہے؟!!)

اگر جھوٹے نعرے اور شعور سے خالی نعروں کو دور رکھ کر فرض کریں کہ اگر ہم نے کسی روز تمام انسانوں کو ایک طرح بنادیا جو ہر لحاظ سے ایک جیسے ہوں ، اور دنیا کی آبادی پانچ ارب فرض کریں اور وہ سبھی ذوق، فکر اور صلاحیت بلکہ ہر لحاظ سے ایک جیسے ہوں، بالکل ایک کارخانہ سے بننے والی سگریٹ کی طرح۔

تو کیا اس وقت انسان بہتر طور پر زندگی گزار سکے گا؟ قطعی طور پر جواب منفی ہوگا، یہی نہیں بلکہ دنیا ایک جہنم بن جائے گی، سب لوگ ایک چیز کی طرف دوڑیں گے، ایک ہی عہدہ کے طالب ہوں گے، سب کو ایک ہی کھانا اچھا لگے گا، اور سب ایک ہی کام کرنا چاہیں گے!

یہ بات مکمل طور پرواضح ہے کہ اس طرح زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی، اور اگر یہ گاڑی چلی بھی تو واقعاً بور کرنے والی ، بے مزہ اور ایک طرح کی ہوگی، جس کا موت سے کوئی زیادہ فرق نہیں ہوگا۔

اجتماعی زندگی کی بقا بلکہ مختلف استعداد کی پرورش کے لئے نہایت ضروری ہے کہ استعداد اور صلاحیت میں فرق ہو، جھوٹے نعرے اس حقیقت پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔

لیکن اس بات سے کوئی یہ مطلب نہ نکالے کہ ہم طبقاتی نظام یا استعماری نظام کو قبول کرتے ہیں، نہیں ، ہرگز نہیں، ہماری مراد طبیعی فرق ہے نہ کہ مصنوعی، اور وہ فرق مراد ہے جو ایک دوسرے کے تعاون کا باعث ہو، نہ کہ ایک دوسرے کی ترقی میں رکاوٹ بنے، اورجس سے ایک دوسرے پر ظلم و ستم کیا جائے۔

طبقاتی اختلاف (توجہ رہے کہ طبقات سے مراد وہی استثماری نظام اور استثماری نظام کو قبول کرنے والے لوگ ہیں) نظام خلقت کے موافق نہیں ہے ، بلکہ نظام خلقت سے موافق استعداد اور صلاحیت اور سعی و کوشش کا فرق ہے، او ران دونوں کے درمیان زمین تا آسمان فرق ہے۔ (غور کیجئے )

دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ استعداد اور لیاقت کے فرق سے اپنی اور معاشرہ کی فلاح و بہبود کے راستہ میں مدد لی جائے، بالکل ایک بدن کے اعضا کے فرق کی طرح، یا ایک پھول کے مختلف حصوں کی طرح، جو اپنے فرق کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے مددگار ہیں نہ کہ ایک دوسرے کے لئے باعث زحمت و پریشانی۔

المختصر : استعداد اور صلاحیت کے فرق سے غلط فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے ، اور نہ ہی اس کو طبقاتی نظام بنانے میں بروئے کار لانا چاہئے۔

اسی وجہ سے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:( اٴَفَبِنِعْمَةِ اللهِ یَجْحَدُون ) (۲) ”کیا خداوندعالم کی عطا کردہ نعمتوں کا انکار کرتے ہو؟“۔

اس آیت میں طبیعی طور پر فرق (نہ کہ مصنوعی اور ظالمانہ فرق) خداوندعالم کی ان نعمتوں میں سے ہے جس کو معاشرہ کی بقا کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔(۳)

____________________

(۱) سورہ نحل ، آیت ۷۱

(۲) سورہ نحل ، آیت ۷۱

(۳) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۱، صفحہ ۳۱۲

۲۱ ۔ انسان کو پیش آنے والی پریشانیوں اور مصیبتوں کا فلسفہ کیا ہے؟

یسا کہ سورہ شوریٰ آیت نمبر ۳۰ میں ارشاد ہوا:( وَمَا اٴَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِیکُمْ ) ”جو مصیبت بھی تم پر پڑتی ہے وہ تمہارے کئے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے“۔

مذکورہ آیت کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم پر پڑنے والی مصیبتوں کا سرچشمہ کیا ہے؟

اس آیت سے متعلق چند نکات کے بارے میں غور کرنے سے بات واضح ہوجاتی ہے:

۱ ۔ آیہ کریمہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان پر پڑنے والی مصیبتیں ایک طرح سے خدا کی طرف سے سزا اور ایک چیلنج ہوتی ہیں، (اگرچہ بعض مقامات جدا ہیں جن کی طرف ہم بعد میں اشارہ کریں گے) اس وجہ سے دردناک حادثات اور زندگی میں آنے والی پریشانیوں کا فلسفہ سمجھ میں آجاتا ہے۔

جیسا کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول حدیث میں آیا ہے کہ آپ پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا:

یہ آیہ شریفہ( وَمَا اٴَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ ) قرآن کریم کی بہترین آیت ہے، یا علی! انسان کے جسم میں کوئی خراش نہیں آتی، اور نہ ہی کسی قدم میں لڑگھڑاہٹ پیدا ہوتی مگر اس کے انجام دئے گناہوں کی بنا پر آتی ہے، اور جو کچھ خداوندعالم اس دنیا میں معاف کردیتا ہے اس سے کہیں زیادہ قیامت کے دن معاف فرمائے گا، اور جو کچھ اس دنیا میں عقوبت اور سزا دی ہے تو خدا اس سے کہیں زیادہ عادل ہے کہ روز قیامت اس کو دوبارہ سزا دے“۔(۱)

لہٰذا اس طرح کے مصائب اور پریشانیاں نہ صرف یہ کہ انسان کے بوجھ کو کم کردیتی ہیں بلکہ آئندہ کے لئے بھی اس کو کنٹرول کرتی رہتی ہیں۔

۲ ۔ اگرچہ آیت کے ظاہر سے عمومیت کا اندازہ ہوتا ہے یعنی تمام مصیبتوں اور پریشانیوں کو شامل ہے، لیکن مشہور قاعدہ کے مطابق تمام عموم میں ایک مستثنیٰ ہوتا ہے، جیسا کہ انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کو بہت سے مصائب اور پریشانیاں پیش آئی ہیں، جن کی وجہ سے ان حضرات کا امتحان ہوا ہے جس سے ان کا مقام رفیع و بلند ہواہے ۔

اسی طرح جن مصائب سے غیر معصومین دوچار ہوئے ہیں ان میں بھی امتحان اور آزمائش کا پہلو رہا ہے۔

یا جو مصائب جہالت کی بنا پر یا غور و فکر اورمشورہ نہ کرنے کی وجہ سے یا کاہلی اور سستی کی بناپر پیش آتے ہیں وہ خود انسان کے اعمال کا اثر ہوتا ہے۔

بالفاظ دیگر: قرآن مجید کی مختلف آیات اور معصومین علیہم السلام سے منقول روایات کے پیش نظر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مذکورہ آیت کی عمومیت سے بعض مقامات مستثنیٰ ہیں، اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ بعض مفسرین نے اس سلسلہ میں مستقل باب میں بحث وگفتگو کی ہے۔

خلاصہ یہ کہ بڑے بڑے مصائب اور پریشانیوں کے مختلف فلسفے ہوتے ہیں جن کے بارے میں توحید اور عدل الٰہی کی بحث میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔

مصائب اور مشکلات ؛ استعداد کی ترقی، آئندہ کے لئے چیلنج، امتحان الٰہی، غفلت ،غرور کا خاتمہ او رگناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں۔

لیکن چونکہ یہ مصائب اور مشکلات اکثر افراد کے لئے کفارہ اور سزا کا پہلو رکھتے ہیں لہٰذا مذکورہ آیت نے عام طور پر بیان کیا ہے، اسی طرح حدیث میں بھی وارد ہوا ہے کہ جس وقت حضرت امام زین العابدین علیہ السلام یزید کے دربار میں پہنچے تو یزید نے آپ کی طرف دیکھا اور کہا:

یا عليّ! وَمَا اٴَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِیکُمْ !“

(یعنی کربلا کا واقعہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے)

لیکن امام زین العابدین علیہ السلام نے فوراً اس کے جواب میں فرمایا:

”نہیں ایسا نہیں ہے، یہ آیہ شریفہ ہماری شان میں نازل نہیں ہوئی ہے، ہماری شان میں نازل ہونے والی دوسری آیت ہے ، جس میں ارشاد ہوتا ہے:ہر وہ مصیبت جو زمین یا تمہارے جسم و جان پر آتی ہے ، خلقت سے پہلے کتاب (لوح محفوظ) میں موجود تھی، خداوندعالم ان چیزوں سے باخبر ہے، یہ اس لئے ہے تاکہ تم مصیبتوں میں غمگین نہ ہو اور جو کچھ تمہارے پاس ہے اس پر بہت زیادہ خوش نہ ہو، ( ان مصائب کا مقصد یہ ہے کہ تم جلد فناہونے والی اس دنیوی زندگی سے دل نہ لگاؤ، یہ چیزیں تمہارے لئے ایک امتحان اور آزمائش ہے)

اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: ”ہم کسی چیز کے نقصان پر کبھی غمگین نہیں ہوتے ، اور جو کچھ ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے اس پر خوش نہیں ہوتے، (ہم سب چیزوں کو جلد ختم ہونے والی مانتے ہیں، اور خداوندعالم کے لطف و کرم کے منتظر رہتے ہیں)(۲) .

۳ ۔بعض اوقات مصائب، اجتماعی پہلو رکھتے ہیں اور تمام لوگوں کے گناہوں کا نتیجہ ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا :

( ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیقَهُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ ) (۳)

”لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی بنا پر فساد خشکی اور تری ہر جگہ غالب آگیا ہے تا کہ خدا ان کے کچھ اعمال کا مزہ چکھا دے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستہ پر آجائیں“۔

یہ بات واضح ہے کہ یہ سب اس انسانی معاشرہ کے لئے ہے جو اپنے کئے ہوئے اعمال کی وجہ سے عذاب اور مشکلات میں گرفتار ہوجاتا ہے۔

اسی طرح سورہ رعد آیت نمبر ۱۱/ میں ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّ اللهَ لاَیُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاٴَنفُسِهِمْ )

”اور خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کوتبدیل نہ کرلے“۔

اور اسی طرح کی دیگر آیات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ انسان کے اعمال اور اس کی زندگی کے درمیان ایک خاص رابطہ ہے کہ اگر فطرت اور خلقت کے اصول کے تحت قدم اٹھائے تو خداوندعالم کی طرف سے برکت عطا ہوتی ہے،اور جب انسان ان اصول سے گمراہ ہوجاتاہے تو اس کی زندگی بھی تباہ و برباد ہوجاتی ہے ۔(۱۴)

اس سلسلہ میں اسلامی معتبر کتابوں میں بہت سی روایات بیان ہوئی ہیں ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرکے اپنی بحث کو مکمل کرتے ہیں:

۱ ۔حضرت علی علیہ السلام اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

”مَاکَانَ قَطْ فِی غَضِ نِعمَةٍ مِنْ عیشٍ ،فَزَالَ عَنْهُم، إلاَّ بِذنوبِ اجترحُوها، لاٴَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبِیْدِ، ولَو کَانَ النَّاسُ حِینَ تنزلُ بِهم النقم ،وَ تَزُوْلُ عَنْهُم النِعَمِ ،فَزَعُوا إلیٰ رَبِّهِم بِصِدقٍ مِنْ نِیَاتِهِمْ وَوَلَّهُ مِنْ قُلُوبِهِم، لَردَّ عَلَیهِمْ کُلَّ شاردٍ،وَاٴصْلَحَ لَهُمْ کُلَّ فَاسِدٍ“ (۴)

”خدا کی قسم کوئی بھی قوم جو نعمتوں کی تر و تازہ اور شاداب زندگی میں تھی اور پھر اس کی وہ زندگی زائل ہوگئی تو اس کا کوئی سبب ان گناہوں کے علاوہ نہیں ہے جن کا ارتکاب اس قوم نے کیا ہے، اس لئے کہ پروردگار اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ہے، پھر بھی جن لوگوں پر عتاب نازل ہوتا ہے اور نعمتیں زائل ہوجاتی ہیں اگر صدق نیت اور تہِ دل سے پروردگار کی بارگاہ میں فریاد کریں تو وہ گئی ہوئی نعمت واپس کردے گا اور بگڑے کاموں کو بنادے گا“۔

۲ ۔ کتاب ”جامع الاخبار“ میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے ایک دوسری روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

”إنَّ البَلاءَ لِلظَّالِمِ اٴدَبٌ،وَلِلْمُومنِ إمْتِحَانٌ، وَلِلْاٴنْبِیَاءِ دَرجةٌ وَلِلْاٴوْلیاءِ کَرَامَةٌ“ (۵)

”انسان پر پڑنے والی یہ مصیبتیں؛ظالم کے لئے سزا، مومنین کے لئے امتحان، انبیاء اور پیامبروں کے لئے درجات (کی بلندی) اور اولیاء الٰہی کے کرامت و بزرگی ہوتی ہیں“۔

یہ حدیث اس بات پر ایک بہترین گواہ ہے کہ مذکورہ آیت میں کچھ مقامات مستثنیٰ ہیں۔

۳ ۔ ایک دوسری حدیث اصول کافی میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمای

إنَّ الْعَبدَ إذَا کَثُرَتْ ذُنوبُه ،وَلَمْ یَکُن عِنْدَهُ مِنَ الْعَمِلِ مَا یکفّرُهَا، ابتلاهُ بِالحُزْنِ لِیکفّر ها“ (۶)

”جس وقت انسان کے گناہ زیادہ ہوجاتے ہیں اور جبران وتلافی کرنے والے اعمال اس کے پاس نہیں ہوتے تو خداوندعالم اس کو غم و اندوہ میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ اس کے گناہوں کی تلافی ہوجائے“۔

۴ ۔ اصول کافی میں اس سلسلہ میں ایک خاص باب قرار دیا گیا ہے جس میں ۱۲ حدیثیں بیان ہوئی ہیں۔(۷)

البتہ یہ تمام ان گناہوں کے علاوہ ہے جن کو خداوندعالم مذکورہ آیت کے مطابق معاف کردیتا ہے اور انسان پر رحمت کی بارش برساتا ہے جو خود ایک عظیم نعمت ہے۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ

ممکن ہے کہ بعض لوگ اس قرآنی حقیقت سے غلط فائدہ اٹھائیں اور وہ یہ کہ جو مصیبت بھی ان پر پڑے اس کا پُر جوش استقبال کریں اور کہیں کہ ہمیں ان تمام مصائب کے سامنے تسلیم ہونا چاہئے ، اور اس درس آموز اصل اور قرآنی حقیقت کے برعکس نتیجہ اخذ کریں، یعنی اس سے غلط نتیجہ اخذ کریں کہ جو بہت زیادہ خطرناک ہے۔

کبھی بھی قرآن کریم یہ نہیں کہتا کہ مصیبتوں کے سامنے تسلیم ہوجائیں اور ان کو دور کرنے کے لئے کوشش نہ کریں، اور ظلم و ستم اور بیماریوں کے مقابلہ میں خاموش رہیں، بلکہ قرآن کا فرمان

ہے: اگر اپنی تمام تر کوشش کے باوجود مشکلات دور نہ ہوں تو سمجھ لو کہ کوئی ایسا گناہ کیا ہے جس کی یہ سزا مل رہی ہے،لہٰذا اپنے گزشتہ اعمال کی طرف توجہ کریں اور اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کریں، اور اپنی اصلاح کریں اپنے کو برائیوں سے دور کریں۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض روایات میں مذکورہ آیت کو انھیں بہترین اور اہم تربیتی آثار کی بناپر ”بہترین آیت“ شمار کیا گیا ہے ،اور دوسری طرف اس سے انسان کا بوجھ بھی کم ہوتا ہے، اس کے دل میں امید کی کرن پیدا ہو تی ہے اور خدا کا عشق بھی پیدا ہو جاتا ہے۔(۸)

____________________

(۱) ”مجمع البیان“ ، جلد ۹، صفحہ ۳۱، اس حدیث کو ”درالمنثور “ اور تفسیر ”روح المعانی “میں مختصر فر ق کے ساتھ بیان کیا ہے اوراس طرح کی حدیثیں بہت زیادہ ہیں

(۲) تفسیر ”علی بن ابراہیم“ مطابق ”نور الثقلین“ ، جلد ۴، صفحہ ۵۸۰

(۳) سورہ روم ، آیت ۴۱ (۴)تفسیر المیزان ، جلد ۱۸، صفحہ ۶۱

(۵) نہج البلاغہ، خطبہ: ۱۷۸ (۱۶) بحار الانوار ، جلد ا۸، صفحہ ۱۹۸

(۶) ”اصول کافی“، جلد دوم، کتاب الایمان والکفر باب تعجیل عقوبة الذنب حدیث۲

(۷) ”اصول کافی“، جلد دوم، کتاب الایمان والکفر باب، تعجیل عقوبة الذنب حدیث۲

(۸) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۰، صفحہ ۴۴۰

۲۲۔ خداوندعالم نے شیطان کو کیوں پیدا کیا؟

بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر انسان خدا کی عبادت کے ذریعہ سعادت اور کمال تک پہنچنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو پھر کمال اور سعادت کے مخالف شیطان کو کیوں پیدا کیا گیا، اس کی کیا دلیل ہوسکتی ہے؟ اور وہ بھی ایک ایسا وجود جو بہت ہوشیار، کینہ اور حسد رکھنے والا، مکار ، فریب کار اور اپنے ارادہ میں مصمم ہے!

(قارئین کرام!) اگر ذرا بھی غور و فکر سے کام لیں تو اس دشمن کا وجود انسانوں کے کمال اورسعادت تک پہنچنے کے لئے مددگار ہے۔

کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے دفاع کرنے والی (ہماری ) فوج ،دشمن کے مقابلہ میں بہت زیادہ شجاع او ردلیر بن جاتی تھی، اور کامیابی کی منزلوں تک پہنچ جاتی تھی۔

طاقتور اور تجربہ کار وہی سپاہی اور سردار ہوتے ہیں جو بڑی بڑی جنگوں میں دشمن کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور گھمسان کی جنگ لڑتے ہیں۔

وہی سیاستمدار تجربہ کار اور طاقتور ہوتے ہیں جو بڑے سے بڑے سیاسی بحران میںسختی کے ساتھ دشمن سے مقابلہ کرتے ہیں۔

نامی پہلوان وہی ہوتے ہیں جو اپنے مد مقابل طاقتور پہلوان سے زور آزمائی کرتے ہیں۔

اس وجہ سے کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ خداوندعالم کے نیک اور صالح بندے شیطان سے ہر روز مقابلہ کرتے کرتے دن بدن طاقتور اور قدرت مند ہوتے چلے جاتے ہیں!

آج کل کے دانشورانسانی جسم میں پائے جانے والے خطرناک جراثیم کے بارے میں کہتے ہیں: اگر یہ نہ ہوتے تو انسان کے خلیے( Cells ) سست اورناکارہ ہوجاتے اور ایک احتمال کی بنا پر انسان کی رشد و نمو ۸۰ سینٹی میٹر سے زیادہ نہ ہوتی، اور سب کوتاہ قد نظر آتے، لیکن آج کا انسان مزاحم میکروب سے لڑتے لڑتے بہت طاقتور بن گیا ہے۔

بالکل اسی طرح انسان کی روح ہے جو ہوائے نفس اور شیطان سے مقابلہ کرتے کرتے طاقتور ہوجاتی ہے۔

لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ شیطان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا کے بندوں کو بہکائے، پہلے شیطان کی خلقت دوسری مخلوق کی طرح پاک و پاکیزہ تھی انسان میں انحراف، گمراہی ، بدبختی اور شیطنت اس کے اپنے ارادہ سے ہوتی ہیں، لہٰذا خداوندعالم نے ابلیس کو شیطان نہیں پیدا کیا تھا اس نے خود اپنے آپ کو شیطان بنایا، لیکن شیطنت کے باوجود خدا کے حق طلب بندوں کو نہ صرف یہ کہ کوئی نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ ان کی ترقی اور کامیابی کا زینہ ہے۔ (غور کیجئے )

لیکن یہاں پر یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ خداوندعالم نے اسے قیامت تک کی زندگی کیوں دیدی، کیوں فوراً ہی اس کو نیست و نابود کیوں نہ کردیا؟!

اگرچہ گزشتہ گفتگو سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے لیکن ہم ایک اور چیز عرض کرتے ہیں:

دنیا امتحان اور آزمائش کی جگہ ہے، (انسان کی کامیابی اور ترقی کا باعث امتحان او رآزمائش ہے) اور ہم جانتے ہیں کہ یہ امتحان اور آزمائش ،بڑے دشمن اور طوفان سے مقابلہ کئے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔

البتہ اگر شیطان نہ ہوتا تو بھی انسان کی ہوائے نفس اور نفسانی وسوسہ کے ذریعہ انسان کا امتحان ہوسکتا تھا، لیکن شیطان کے ہونے سے اس تنور کی آگ اور زیادہ بھڑک گئی ہے، کیونکہ شیطان باہر سے بہکانے والا ہے اور ہوائے نفس انسان کو اندر سے بہکاتی ہے۔(۱)

ایک سوال کا جواب:

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ خداوندعالم ایسے بے رحم اور طاقتور دشمن کے مقابلہ میں ہمیں تن تنہا چھوڑ دے؟ اور کیا یہ چیز خداوندعالم کی حکمت اور اس کے عدل و انصاف سے ہم آہنگ ہے؟

اس سوال کا جواب درج ذیل نکتہ سے واضح ہوجائے گا اور جیسا کہ قرآن مجید میں بھی بیان ہوا ہے کہ خداوندعالم مومنین کے ساتھ فرشتوں کا لشکر بھیجتا ہے اور غیبی اور معنوی طاقت عطا کرتا ہے جس سے جہاد بالنفس اور دشمن سے برسرِ پیکار ہونے میں مدد ملتی ہے:

( إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمْ الْمَلَائِکَةُ اٴَلاَّ تَخَافُوا وَلاَتَحْزَنُوا وَاٴَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِی کُنْتُمْ تُوعَدُون نَحْنُ اٴَوْلِیَاؤُکُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ ) (۲)

”بیشک جن لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اس پر جمے رہے ان پر ملائکہ یہ پیغام لے کر نازل ہوتے ہیں کہ ڈرو نہیں اور رنجیدہ بھی نہ ہواور اس جنت سے مسرور ہو جاو جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ،ہم زندگانی دنیامیں بھی تمہارے ساتھی تھے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھی ہیں“۔

ایک دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ شیطان کبھی بھی ہمارے دل میں اچانک نہیں آتا، اور ہماری روح کے باڈر سے بغیر پاسپورٹ کے داخل نہیںہو سکتا، اس کا حملہ کبھی بھی اچانک نہیں ہوتا، وہ ہماری اجازت سے ہم پر سوار ہوتا ہے، جی ہاں وہ دروازہ سے آتا ہے نہ کہ کسی مورچہ سے، یہ ہم ہی ہیں جو اس کے لئے دروازہ کھول دیتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

< إ( ِنَّهُ لَیْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَلَی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُونَ ،إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَی الَّذِینَ یَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِینَ هُمْ بِهِ مُشْرِکُونَ ) (۳)

” شیطان ہرگز ان لوگوں پر غلبہ نہیں پاسکتا جو صاحبان ایمان ہیں اور جن کا اللہ پر توکل اور اعتماد ہے، اس کا غلبہ صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اسے سرپرست بناتے ہیں اور اللہ کے بارے میں شرک کرنے والے ہیں“۔

اصولی طور پر یہ انسان کے اعمال ہوتے ہیں جوشیطان کے سوار ہونے کا راستہ ہموار کرتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:<إ( ِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخْوَانَ الشَّیَاطِینِ ) (۴) ”اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں“۔

لیکن بہرحال شیطان اور اس کے مختلف سپاہیوں کے رنگارنگ جال، مختلف شہوتیں، فساد کے ٹھکانے ، استعماری سیاست، انحرافی مکاتب اور منحرف ثقافت سے نجات کے لئے ایمان و تقویٰ، اور لطف الٰہی اور خدا پر بھروسہ کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلَوْلاَفَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمْ الشَّیْطَانَ إِلاَّ قَلِیلًا ) (۵)

”اور اگر تم لوگوں پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو چند افراد کے علاوہ سب شیطان کا اتباع کرلیتے“۔(۶)

انبیاء علیہم السلام

____________________

(۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۹ صفحہ ۳۴۵

(۲) سورہ فصلت ، آیت۳۰۔ ۳۱

(۳) سورہ نحل ، آیت ۹۹، ۱۰۰

(۴) سورہ اسراء ، آیت۲۷

(۵)سورہ نساء ، آیت۸۳

(۶) تفسیر پیام قرآن ، جلد اول صفحہ ۴۲۳

۲۳ ۔ خاتمیت انسانی تدریجی ترقی کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہے؟

کیا انسانی معاشرہ کسی ایک جگہ پر رُک سکتا ہے؟ کیا انسان کے کمال اور ترقی کے لئے کوئی حد معین ہے؟ کیا ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے ہیں کہ آج کا انسان گزشتہ لوگوں کی نسبت بہت زیادہ آگے بڑھتا چلا جارہا ہے؟

ان حالات کے پیش نظر یہ کس طرح ممکن ہے کہ دفتر نبوت بالکل ہی بند ہوجائے اور انسان اس ترقی کے زمانہ میں اپنے کسی نئے رہبر اور نبی سے محروم ہوجائے؟

اس سوال کا جواب ایک نکتہ پر توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے اور وہ ہے کہ: انسان فکر و ثقافت کے مرحلہ میں اس منزل پر پہنچ چکا ہے کہ وہ پیغمبر خاتم (ص) کے بتائے ہوئے اصول اور تعلیمات کے پیش نظر کسی نئی شریعت کے بغیر اپنی ترقی کے مراحل کو طے کرسکتاہے۔

یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے انسان کو تعلیم کے ہر مرحلہ میں ایک نئے استاد کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ تعلیم کے مختلف مراحل سے گزر کر آگے بڑھ سکے، لیکن جب انسان ڈاکٹر بن جاتا ہے یا کسی دوسرے علم میں صاحب نظر بن جاتا ہے تو پھر انسان کسی نئے استاد سے تعلیم حاصل نہیں کرتا بلکہ اپنے گزشتہ اساتذہ خصوصاً آخری استاد سے حاصل کئے ہوئے مطالب پر بحث و تحقیق کرتا ہے اور تعلیمی میدان میں آگے بڑھتا جاتاہے نئی نئی تحقیق اور نئے نئے نظریات پیش کرتا ہے ، دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ اپنے گزشتہ اساتذہ کے بتائے ہوئے عام اصول کی بنا پر راستے کی مشکلات کو حل کر تاہے لہٰذا اس بات کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ زمانہ کے ساتھ ساتھ کوئی نیا دین اور نیا مذہب وجود میں آئے۔ (غور فرمائےے گا)

بالفاظِ دیگر: روحانی اور معنوی ترقی کی راہ میں موجود نشیب و فر از کے سلسلہ میں گزشتہ انبیاء نے باری باری انسان کی ہدایت کے لئے نقشہ پیش کیا تاکہ انسان میں اتنی صلاحیت پیدا ہوجائے کہ اس راستہ کا جامع اور کلی نقشہ خداوندعالم کی طرف سے پیغمبر آخرالزمان (ص) پیش فرمادیں۔

یہ بات واضح ہے کہ جامع اور کلی نقشہ حاصل کرنے کے بعد پھر کسی نقشہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ، اور یہ حقیقت خاتمیت کے سلسلہ میں بیان ہوئی احادیث میں موجود ہے، اور پیغمبر اکرم کو رسالت کی آخری اینٹ یا خوبصورت محل کی آخری اینٹ رکھنے والے کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔

یہ تمام چیزیں کسی نئے دین و مذہب کی ضرورت نہ ہونے کے لئے کافی ہیں، (یعنی مذکورہ باتوں کے پیش نظر اب کسی نئے دین کی ضرورت نہیں ہے) لیکن رہبری اور امامت کا مسئلہ انھیں کلی اصول و قوانین پر عمل در آمد ہونے پر نظارت اور اس راہ میں پیچھے رہ جانے والوں کو امداد پہنچانے کے عنوان سے ہے،البتہ یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ انسان کبھی بھی ان سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ہمیشہ امام اور رہبر کی ضرورت رہے گی، اس دلیل کی بنا پر سلسلہ نبوت کے ختم ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ سلسلہ امامت بھی ختم ہوجائے، کیونکہ ”ان اصول کی وضاحت “، ”ان کا بیان کرنا“ اور ”ان کو عملی جامہ پہنانا“ بغیر کسی معصوم رہبرکے ممکن نہیں ہے۔(۱)

____________________

(۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۷، صفحہ ۳۴۵

۲۴ ۔ ثابت قوانین،آج کل کی مختلف ضرورتوں سے کس طرح ہم آہنگ ہے؟

ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ زمان و مکان کے لحاظ سے ضرورتیں الگ الگ ہوتی ہیں، دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ انسان کی ضرورت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے، حالانکہ خاتم النبین کی شریعت ثابت اور غیر قابل تبدیل ہے، کیا یہ ثابت شریعت زمانہ کے لحاظ سے مختلف ضرورتوں کو پورا کرسکتی ہے۔؟

اگر اسلام کے تمام قوانین جزئی اور انفرادی ہوتے اور ہر موضوع کا حکم مکمل طور پر معین، مشخص اور جزئی ہوتا تو اس سوال کی گنجائش ہوتی، لیکن کیونکہ اسلام کے احکام و قوانین بہت وسیع اور کلی اصول پر مبنی ہیں جن پر ہر زمانہ کی مختلف ضرورتوں کو منطبق کیا جاسکتا ہے، اور اس کے لحاظ سے جواب دیا جاسکتا ہے، لہٰذا اس طرح کے سوال کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی، مثال کے طور پر عصر حاضر میں مختلف معاملات انسانی معاشرہ کی ضرورت بنتے جارہے ہیں جب صدر اسلام میں ایسے معاملات نہیں تھے جیسے ”بیمہ“ یا اس کی مختلف شاخیں، جو اس زمانہ میں نہیں تھیں،اسی طرح آج کل کی(۱) البتہ اسلام میں ”بیمہ“ سے مشابہ موضوعات موجود ہیں لیکن خاص محدودیت کے ساتھ جیسے ”ضمان الجریرہ“ یا “تعلق دیہ خطاء محض بہ عاقلہ“ لیکن یہ مسائل صرف شباہت کی حد تک ہیں ضرورت کے تحت بڑی بڑی کمپنیاں بنائی جاتی ہیں ، ان تمام چیزوں کے لئے اسلام میں ایک کلی اصل موجود ہے، جو سورہ مائدہ کے شروع میں بیان ہوئی ہے جسے ”وفائے عہد “ کہا جاتا ہے، ارشاد ہوتا ہے:( یَا اٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَوْفُوا بِالْعُقُودِ ) (۲) ”اے وہ لوگو! جو ایمان لائے اپنے معاملات میںوفائے عہد کرو“۔

ہم ان تمام معاملات کو اس کے تحت قرار دے سکتے ہیں، البتہ بعض قیود اور شرائط اس اصل میں بیان ہوئی ہیں، جن پر توجہ رکھنا ضروری ہے، لہٰذا یہ عام قانون اس سلسلہ میں موجود ہے، اگرچہ اس کے مصادیق بدلتے رہتے ہیں اور ہرروزاس کا ایک نیا مصداق پیدا ہوتا رہتا ہے۔

دوسری مثال: ہمیں اسلام میں ایک مسلّم اور ثابت قانون ملتا ہے جو ”قانونِ لاضرر“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے(یعنی کسی کا کوئی نقصان نہیں ہونا چاہئے) جس کے ذریعہ اسلامی معاشرہ میں کسی بھی طرح کے نقصان کے سلسلہ میں حکم لگایا جاسکتا ہے، اور اس کے تحت معاشرہ کی بہت سی مشکلوں کو حل کیا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ ”معاشرہ کا تخفظ “، ”مقدمہ واجب کا واجب ہونا“اور”اہم و مہم“ جیسے مسائل کے ذریعہ بھی بہت سی مشکلات کو حل کیا جاسکتا ہے، ان تمام چیزوں کے علاوہ اسلامی حکومت میں ”ولی فقیہ“ بہت سے اختیارات اور امکانات ہوتے ہیں اسلامی کلی اصول کے تحت بہت سی مشکلات کوحل کیا جاسکتا ہے ، البتہ ان تمام امور کے بیان کے لئے بہت زیادہ بحث و گفتگو کی ضرورت ہے خصوصاً جب کہ ”باب اجتہاد“(۳) کھلا ہے ، جس کی تفصیل بیان کرنے کایہ موقع نہیں ہے، لیکن جن چیزوں کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے وہ مذکورہ اعتراض کے جواب کے لئے کا فی ہیں۔

____________________

(۱) سورہ مائدہ ،آیت ۱

(۲) اجتہاد یعنی اسلامی منابع و مآخذ کے ذریعہ الٰہی احکام حاصل کرن

(۳) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۷، صفحہ ۳۴۶