مرج البحرین فی مناقب الحسنین

مرج البحرین فی مناقب الحسنین 0%

مرج البحرین فی مناقب الحسنین مؤلف:
زمرہ جات: امام حسن(علیہ السلام)

مرج البحرین فی مناقب الحسنین

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
زمرہ جات: مشاہدے: 8034
ڈاؤنلوڈ: 3728

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 11 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8034 / ڈاؤنلوڈ: 3728
سائز سائز سائز
مرج البحرین فی مناقب الحسنین

مرج البحرین فی مناقب الحسنین

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

فصل : ۳۰

کان يُطيل النبي صلي الله عليه وآله وسلم السجود للحسن و الحسين عليهما السلام

(حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کی خاطر سجدوں کو لمبا کر لیتے تھے)

۱۰۴. عن أنس رضي الله عنه قال : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يسجد فيجئ الحسن أو الحسين فيرکب علي ظهره فيطيل السجود. فيقال : يا نبي اﷲ! أطلت السجود، فيقول : ارتحلني ابني فکرهت أن أعجله.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں ہوتے تو حسن یا حسین علیہما السلام آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمر مبارک پر سوار ہو جاتے جس کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدوں کو لمبا کر لیتے۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا : اے اﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا آپ نے سجدوں کو لمبا کر دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لئے (سجدے سے اُٹھنے میں) جلدی کرنا اچھا نہ لگا۔‘‘

۱. ابو يعلیٰ، المسند، ۶ : ۱۵۰، رقم : ۳۴۲۸

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۱

۱۰۵. عن عبداﷲ بن شداد عن أبيه قال : خرج علينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في احدي صلاتي العشاء و هو حامل حسناً أو حسيناً فتقدم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فوضعه ثم کبر للصلاة فصلي، فسجد بين ظهراني صلاته سجدة أطالها قال أبي : فرفعت رأسي و اذا الصبي علي ظهر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو ساجد فرجعت الي سجودي، فلما قضي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الصلاة، قال الناس : يا رسول اﷲ انک سجدت بين ظهراني صلاتک سجدة أطلتها حتي ظننا أنه قد حدث أمر أو أنه يوحي إِليک. قال : ذلک لم يکن ولکن ابني ارتحلني فکرهت أن أعجله حتي يقضي حاجته.

عبداﷲ بن شداد اپنے والد حضرت شداد بن ھاد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز ادا کرنے کے لئے ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن یا حسین علیہما السلام (میں سے کسی ایک شہزادے) کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لا کر اُنہیں زمین پر بٹھا دیا پھر نماز کے لئے تکبیر فرمائی اور نماز پڑھنا شروع کر دی، نماز کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طویل سجدہ کیا۔ شداد نے کہا : میں نے سر اُٹھا کر دیکھا کہ شہزادے سجدے کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہیں۔ میں پھر سجدہ میں چلا گیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما چکے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ نے نماز میں اتنا سجدہ طویل کیا۔ یہانتک کہ ہم نے گمان کیا کہ کوئی امرِ اِلٰہی واقع ہو گیا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایسی کوئی بات نہ تھی مگر یہ کہ مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لئے (سجدے سے اُٹھنے میں) جلدی کرنا اچھا نہ لگا جب تک کہ اس کی خواہش پوری نہ ہو۔

۱. نسائي، السنن، ۲ : ۲۲۹، کتاب التطبيق، رقم : ۱۱۴۱

۲. احمد بن حنبل، المسند، ۳ : ۴۹۳

۳. ابن ابي شيبه، المصنف، ۶ : ۳۸۰، رقم : ۳۲۱۹۱

۴. طبراني، المعجم الکبير، ۷ : ۲۷۰، رقم : ۷۱۰۷

۵. شيباني، الآحاد والمثاني، ۲ : ۱۸۸، رقم : ۹۳۴

۶. بيهقي، السنن الکبري، ۲ : ۲۶۳، رقم : ۳۲۳۶

۷. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۸۱، رقم : ۴۷۷۵

۸. ابن موسي، معتصر المختصر، ۱ : ۱۰۲

۹. ابن حزم، المحلي، ۳ : ۹۰

۱۰. عسقلاني، تهذيب التهذيب، ۲ : ۲۹۹

فصل : ۳۱

کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يضمّ الحسن والحسين عليهما السلام إليه تحت ثوبه

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں شہزادوں کو چادر کے اندر اپنے جسم اطہر سے چمٹا لیتے تھے)

۱۰۶. عن أسامة بن زيد رضي اﷲ عنهما قال : طرقت النبي صلي الله عليه وآله وسلم ذات ليلة في بعض الحاجة فخرج النبي صلي الله عليه وآله وسلم وهو مشتمل علي شئ لا أدري ما هو فلما فرغت ما حاجتي قلت : ما هذا الذي أنت مشتمل عليه؟ فکشفه فإذا حسن و حسين علي و رکيه فقال : هذان أبناي.

’’حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا : میں ایک رات کسی کام کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شے کو اپنے جسم سے چمٹائے ہوئے تھے جسے میں نہ جان سکا جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے کیا چیز اپنے جسم سے چمٹا رکھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کپڑا ہٹایا تو دیکھا کہ حسن و حسین علیہما السلام دونوں رانوں تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چمٹے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ میرے دونوں بیٹے ہیں۔‘‘

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۵ : ۶۵۶، ابواب المناقب، رقم : ۳۷۶۹

۲. نسائي، السنن الکبریٰ، ۵ : ۱۴۹، رقم : ۸۵۲۴

۳. ابن حبان، الصحيح، ۱۵ : ۴۲۳، رقم : ۶۹۶۷

۴. بزار، المسند، ۷ : ۳۱، رقم : ۲۵۸۰

۵. ابن ابي شيبه، المصنف، ۶ : ۳۷۸، رقم : ۳۲۱۸۲

۶. مقدسي، الاحاديث المختارة، ۴ : ۹۴، رقم : ۱۳۰۷

۷. هيثمي، مواردالظمآن، ۱ : ۵۵۲، رقم : ۲۲۳۴

۸. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه، ۲ : ۴۰۴

۱۰۷. عن أنس بن مالک رضي الله عنه يقول : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول لفاطمة : أدعي أبني فيشمهما و يضمهما إليه.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے فرمایا کرتے : میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ پھر آپ ان دونوں (پھولوں) کو سونگھتے اور اپنے سینہ اقدس کے ساتھ چپکا لیتے۔‘‘

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۵ : ۶۵۷، ابواب المناقب، رقم : ۳۷۷۲

۲. ابويعلیٰ، المسند، ۷ : ۲۷۴، رقم : ۴۲۹۴

۳. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، ۱ : ۱۲۱

فصل : ۳۲

أوّل من يدخل الجنة مع النبي صلي الله عليه وآله وسلم هو الحسن والحسين عليهما السلام

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جو جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے وہ حسنین کریمین علیہما السلام ہیں)

۱۰۸. عن علي رضي الله عنه قال : أخبرني رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ان أول من يدخل الجنة أنا و فاطمة و الحسن و الحسين. قلت : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! فمحبونا؟ قال : من ورائکم.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا کہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں، میں (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ خود)، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! ہم سے محبت کرنے والے کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے پیچھے۔‘‘

۱. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۶۴، رقم : ۴۷۲۳

۲. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۱۴ : ۱۷۳

۳. هندي، کنز العمال، ۱۲ : ۹۸، رقم : ۳۴۱۶۶

۴. ابن حجر مکی نے ’الصواعق المحرقہ (۲ : ۴۴۸)‘ میں کہا ہے کہ اسے ابن سعد نے بھی روایت کیا ہے

۵. محب طبری، ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربیٰ ۱ : ۱۲۳

۱۰۹. عن علیّ بن أبي طالب رضي الله عنه قال : شکوت الي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حسد الناس اياي، فقال : أما ترضي أن تکون رابع أربعة أول من يدخل الجنة : أنا و أنت و الحسن و الحسين.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی کہ لوگ مجھ سے حسد کرتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چار مردوں میں چوتھے تم ہو (وہ چار) میں، تم، حسن اور حسین ہیں۔‘‘

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۶۲۴

۲. طبراني، المعجم الکبير، ۱ : ۳۱۹، رقم : ۹۵۰

۳. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۴۱، ۲۶۲۴

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۳۱، ۱۷۴

۵. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، ۱۶ : ۲۲

۶. محب طبري، ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربیٰ، ۱ : ۹۰

۷. ابن حجر مکی، الصواعق المحرقه، ۲ : ۴۶۶

فصل : ۳۳

تزيين اﷲ عزوجل الجنة بالحسن و الحسين عليهما السلام

(اﷲ تعالیٰ کاحسنین کریمین علیہما السلام کی موجودگی کے ذریعے جنت کو آراستہ کرنا)

۱۱۰. عن عقبة بن عامررضي الله عنه، أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : الحسن و الحسين شنفا العرش و ليسا بمعلقين، و إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : إذا استقر أهل الجنة في الجنة، قالت الجنة : يا رب! وعدتني أن تزينني برکنين من أرکانک! قال : أولم أزينک بالحسن و الحسين؟

’’عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین عرش کے دو ستون ہیں لیکن وہ لٹکے ہوئے نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب اہل جنت، جنت میں مقیم ہو جائیں گے تو جنت عرض کرے گی : اے پروردگار! تو نے مجھے اپنے ستونوں میں سے دو ستونوں سے مزین کرنے کا وعدہ فرمایا تھا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں نے تجھے حسن اور حسین کی موجودگی کے ذریعے مزین نہیں کر دیا؟ (یہی تو میرے دو ستون ہیں)۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الاوسط، ۱ : ۱۰۸، رقم : ۳۳۷

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۴

۳. ذهبي، ميزان الاعتدال، ۱ : ۲۷۸

۴. عسقلاني، لسان الميزان، ۱ : ۲۵۷، رقم : ۸۰۴

۵. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ۲ : ۲۳۹، رقم : ۶۹۷

۶. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۱۳ : ۲۲۸

۷. مناوي، فيض القدير، ۳ : ۴۱۵

۸. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه، ۲ : ۵۶۲

۱۱۱. عن أنس رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : فخرت الجنة علي النار فقالت : أنا خير منک، فقالت النار : بل أنا خير منک، فقالت لها الجنة إستفهاما : و ممه؟ قالت : لأن في الجبابرة و نمرود و فرعون فأسکتت، فأوحي اﷲ اليها : لا تخضعين، لأزينن رکنيک بالحسن و الحسين، فماست کما تميس العروس في خدرها.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک مرتبہ جنت نے دوزخ پر فخر کیا اور کہا میں تم سے بہتر ہوں، دوزخ نے کہا : میں تم سے بہتر ہوں۔ جنت نے دوزخ سے پوچھا کس وجہ سے؟ دوزخ نے کہا : اس لئے کہ مجھ میں بڑے بڑے جابر حکمران فرعون اور نمرود ہیں۔ اس پر جنت خاموش ہو گئی، اﷲ تعالیٰ نے جنت کی طرف وحی کی اور فرمایا : تو عاجز و لاجواب نہ ہو، میں تیرے دو ستونوں کو حسن اور حسین کے ذریعے مزین کر دوں گا۔ پس جنت خوشی اور سرور سے ایسے شرما گئی جیسے دلہن شرماتی ہے۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الاوسط، ۷ : ۱۴۸، رقم : ۷۱۲۰

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۴

اس حدیث کے ایک راوی ’’عباد بن صہیب‘‘ پر بعض محدثین نے کلام کیا ہے مگر امام احمد بن حنبل، ابوداؤد، عبدان اھوازی نے اس کو صادق قرار دیا اور یحییٰ بن معین نے ابو عاصم النبیل سے اس کی روایت ثابت کی ہے۔

۱. ابن شاهين، تاريخ اسماء الثقات، ۱ : ۱۷۱

۲. ذهبي، المغني في الضعفاء، ۱ : ۳۲۶

۳. ابن عدي، الکامل، ۴ : ۳۴۷

۱۱۲. عن العباس بن زريع الأزدي عن أبيه مرفوعا، قال : قالت الجنة : يا رب! حسنتني فحسن أرکاني، قال : قد حسنت أرکانک بالحسن و الحسين.

’’حضرت عباس بن زریع ازدی اپنے والد سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ جنت نے (اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں) عرض کیا : اے میرے پروردگار! تو نے مجھے حسین و جمیل بنایا ہے تو میرے ستونوں کو بھی حسین بنا۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے تیرے ستونوں کوحسن اور حسین علیہما السلام کے ذریعے حسین و جمیل بنا دیا ہے۔‘‘

۱. عسقلاني، لسان الميزان، ۶ : ۲۴۱، رقم : ۸۴۸

۲. ذهبي، ميزان الاعتدال، ۷ : ۱۵۷، رقم : ۹۴۵۸

۳. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، ۱ : ۲۸۷

فصل : ۳۴

يکون الحسن و الحسين عليهما السلام في قبة تحت العرش يوم القيامة

(حسنین کریمین علیہما السلام قیامت کے دن عرش الہٰی کے گنبد کے نیچے ہوں گے)

۱۱۳. عن أبي موسي الأشعري رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أنا و علیّ و فاطمة و الحسن و الحسين يوم القيامة في قبة تحت العرش.

’’حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں، علی، فاطمہ، حسن اور حسین قیامت کے دن عرش کے گنبد کے نیچے ہوں گے۔‘‘

۱. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۷۴

۲. هندي، کنز العمال، ۱۲ : ۱۰۰، رقم : ۳۴۱۷۷

۳. عسقلاني، لسان الميزان، ۲ : ۹۴

۴. زرقاني، شرح الموطا، ۴ : ۴۴۳

۱۱۴. عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : إن فاطمة و عليا و الحسن و الحسين في حظيرة القدس في قبة بيضاء سقفها عرش الرحمن.

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک فاطمہ، علی، حسن اور حسین جنت الفردوس میں سفید گنبد میں مقیم ہوں گے جس کی چھت عرش خداوندی ہو گا۔‘‘

۱. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۱۴ : ۶۱

۲. هندي، کنز العمال، ۱۲ : ۹۸، رقم : ۳۴۱۶۷

۱۱۵. عن علیّ رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : في الجنة درجة تدعي الوسلية؟ فإذا سألتم اﷲ فسلوا لي الوسيلة؟ قالوا : يا رسول اﷲ! من يسکن معک؟ قال : علي و فاطمة و الحسن و الحسين.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جنت میں ایک مقام ہے جسے وسیلہ کہتے ہیں، پس جب تم اﷲ سے سوال کرو تو میرے لئے وسیلہ کا سوال کیا کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک و آلک وسلم! (وہاں) آپ کے ساتھ کون رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی، فاطمہ اور حسین و حسین (وہاں پر میرے ساتھ رہیں گے)۔‘‘

۱. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ۲ : ۴۵

۲. هندي، کنز العمال، ۱۲ : ۱۰۳، رقم : ۳۴۱۹۵

فصل : ۳۵

يکون الحسن و الحسين عليهما السلام مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم القيامة

(حسنین کریمین علیہما السلام قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہیں گے)

۱۱۶. عن علي رضي الله عنه قال : دخل علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و انا نائم علي المنامة فاستسقي الحسن او الحسين قال فقام النبي صلي الله عليه وآله وسلم الي شاة لنا بکي فحلبها فدرت فجاء ه الحسن فنحاه النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقالت فاطمة : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! کانه احبهما اليک قال : لا ولکنه استسقي قبله، ثم قال : إني و اياک و هذين و هذا الراقد في مکان واحد يوم القيامة.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں اپنے بستر پر سویا ہوا تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے حسن یا حسین علیہما السلام (میں سے کسی ایک) نے پانی مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری بکری کے پاس آئے جو بہت کم دودھ والی تھی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا دودھ نکالا تو اس نے بہت زیادہ دودھ دیا، پس حسنں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے فرمایا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لگتا ہے یہ آپ کو ان دونوں میں زیادہ پیارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ اس نے پہلے پانی مانگا تھا پھر فرمایا : میں، آپ، یہ دونوں اور یہ سونے والا (حضرت علی رضی اللہ عنہ کیونکہ وہ ابھی سو کر اٹھے ہی تھے) قیامت کے دن ایک ہی جگہ پر ہوں گے۔‘‘

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۱ : ۱۰۱، رقم : ۷۹۲

۲. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۱۳ : ۲۲۸

۳. شيباني، السنة، ۲ : ۵۹۸، رقم : ۱۳۲۲

۴. بزار، المسند، ۳ : ۳۰، رقم : ۷۷۹

۵. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۷۰

۶. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، ۲ : ۶۹۲، رقم : ۱۱۸۳

۷. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، ۱ : ۲۵

۱۱۷. عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم دخل علي فاطمة رضي اﷲ عنها فقال : أني و اياک و هذا النائم. . يعني عليا. . و هما. . يعني الحسن و الحسين. . لفي مکان واحد يوم القيامة.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے گھر تشریف لائے اور فرمایا : میں، تم اور یہ سونے والا (یعنی علی وہ ابھی سو کر اٹھے ہی تھے) اور یہ دونوں یعنی حسن اور حسین علیہما السلام قیامت کے دن ایک ہی جگہ ہوں گے۔‘‘

۱. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۴۷، رقم : ۴۶۶۴

۲. طبراني، المعجم الکبير، ۲۲ : ۴۰۵، رقم : ۱۰۱۶

۳. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۷۱

حاکم نے اس روایت کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے ۔

۱۱۸. عن أبي فاختة رضي الله عنه قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم و علي و فاطمة و الحسن و الحسين في بيت فاستسقي الحسن، فقام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في جوف الليل، فسقاه، فسأله الحسين فأبي أن يسقيه، فقيل : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! کأن حسنا أحب اليک من حسين؟ قال : لا ولکنه استسقاني قبله، ثم قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : يا فاطمة! أنا و انت و هذين و هذا الراقد (لعلي) في مقام واحد يوم القيامة.

’’حضرت ابو فاختہ (سعید بن علاقہ) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، علی، فاطمہ، اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم گھر پر تھے کہ حسن نے پانی مانگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آدھی رات کو اُٹھ کر اسے پانی پلایا۔ (اسی دوران جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسنں کو پانی پلانے ہی والے تھے) کہ حضرت حسین نے وہی پانی طلب کیا، جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے دینے سے انکار فرمایا (کیونکہ حسین ان سے قبل پانی مانگ چکے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی ترتیب سے دینا چاہتے تھے یہ بغرض تعلیم و تربیت تھا)۔ عرض کیا گیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! لگتا ہے کہ آپ کو حسین سے زیادہ حسن محبوب ہے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ وجہ نہیں بلکہ حسن نے حسین سے پہلے مانگا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے فاطمہ! میں، تم، یہ دونوں (حسن و حسین) اور یہ سونے والا (یعنی علی) قیامت کے دن ایک ہی جگہ پر ہوں گے۔‘‘

ابن عساکر، تاريخ دمشق، ۱۳ : ۲۲۷، رقم : ۳۲۰۴

فصل : ۳۶

إستعاذة النبي صلي الله عليه وآله وسلم للحسن و الحسين عليهما السلام

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السلام کے لئے خصوصی دم فرمانا )

۱۱۹. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يعوذ الحسن و الحسين، و يقول : إن أباکما کان يعوذ بها إسماعيل و إسحاق : أعوذ بکلمات اﷲ التامة من کل شيطان وهامة و من کل عين لامة.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن و حسین علیہما السلام کے لئے (خصوصی طور پر) کلمات تعوذ کے ساتھ دم فرماتے تھے اور ارشاد فرماتے کہ تمہارے جد امجد (ابراہیم علیہ السلام بھی) اپنے دونوں صاحبزادوں اسماعیل و اسحاق (علیھما السلام) کے لئے ان کلمات کے ساتھ تعوذ کرتے تھے ’’میں اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات کے ذریعے ہر (وسوسہ اندازی کرنے والے) شیطان اور بلا سے اور ہر نظر بد سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘

۱. بخاري، الصحيح، ۳ : ۱۲۳۳، کتاب الانبياء، رقم : ۳۱۹۱

۲. ابن ماجه، السنن، ۲ : ۱۱۶۴، کتاب الطب، رقم : ۳۵۲۵

۱۲۰. عن علي رضي الله عنه قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يعوذ حسنا و حسينا، فيقول : أعيذکما بکلمات اﷲ التامات من کل شيطان و هامة و من کل عين لامة. قال : و قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : عوذوا بها أبنائکم، فإن إبراهيم کان يعوذ بها ابنيه إسماعيل و إسحاق.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن و حسین علیہما السلام کو دم کرتے ہوئے فرماتے تھے : میں تمہارے لئے اﷲ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر وسوسہ انداز شیطان و بلا اور ہر نظر بد سے پناہ مانگتا ہوں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (امت کیلئے بھی) فرمایا : تم اپنے بیٹوں کو انہی الفاظ کے ساتھ دم کیا کرو کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بیٹوں اسماعیل اور اسحاق (علیھما السلام) کو ان کلمات سے دم کیا کرتے تھے۔‘‘

۱. عبدالرزاق، المصنف، ۴ : ۳۳۶، رقم : ۷۹۸۷

۲. طبراني، المعجم الاوسط، ۹ : ۷۹

۳. هيثمي، مجمع الزوائد، ۵ : ۱۱۳

۱۲۱. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما، قال کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يعوذ الحسن و الحسين : أعيذکما بکلمات اﷲ التامة من کل شيطان و هامة و من کل عين لامة. ثم يقول : کان أبوکم يعوذ بهما إسماعيل و إسحاق.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن و حسین علیہما السلام کو (ان کلمات کے ساتھ) دم کیا کرتے تھے : میں تمہیں اﷲ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر وسوسہ انداز شیطان و بلا سے اور ہر نظر بد سے اﷲ کی پناہ میں دیتا ہوں، پھر ارشاد فرماتے : تمہارے جد امجد (ابراہیم علیہ السلام بھی) انہی کلمات کے ساتھ اپنے بیٹوں اسماعیل و اسحاق (علیھما السلام) کو دم کیا کرتے تھے۔‘‘

۱. ابوداؤ، السنن، ۴ : ۲۳۵، کتاب السنة، رقم : ۴۷۳۷

۲. نسائي، السنن الکبریٰ، ۶ : ۲۵۰، رقم : ۱۰۸۴۵

۳. احمد بن حنبل، المسند، ۱ : ۲۳۶، رقم : ۲۱۱۲

۴. ابن حبان، الصحيح، ۳ : ۲۹۱، رقم : ۱۰۱۲

۵. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۸۳، رقم : ۴۷۸۱

۶. ابن ابي شيبه، المصنف، ۵ : ۴۷، رقم : ۲۳۵۷۷

۷. ابن راهويه، المسند، ۱ : ۳۶، رقم : ۴

۸. طبراني، المعجم الاوسط، ۵ : ۱۰۱، رقم : ۴۷۹۳

۹. طبراني، المعجم الصغير، ۲ : ۳۱، رقم : ۷۲۷

۱۰. بخاري، خلق افعال العباد، ۱ : ۹۷

۱۱. ابن جوزي، تلبيس ابليس، ۱ : ۴۸

۱۲۲. عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : کنا جلوسا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذ مر به الحسن و الحسين و هما صبيان، فقال : هاتوا ابني أعوذ هما بما عوذ به إبراهيم إبنيه إسماعيل و إسحاق، قال : أعيذکما بکلمات اﷲ التامة من کل عين لامة و من کل شيطان و هامة.

’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حسن و حسین علیہما السلام جو کہ ابھی بچے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے دونوں بیٹوں کو لاؤ، میں انہیں دم کر دوں جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) اپنے دونوں بیٹوں اسماعیل و اسحاق (علیہم السلام) کو دم کیا کرتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں تمہیں اﷲ تعالیٰ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر نظر بد سے، ہر وسوسہ انداز شیطان و بلا سے اﷲ کی پناہ میں دیتا ہوں۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۱۰ : ۷۲، رقم : ۹۹۸۴

۲. بزار، المسند، ۴ : ۳۰۴، رقم : ۱۴۸۳

۳. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۱۳ : ۲۲۴

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۵ : ۱۱۳

۵. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۸۷

۱۲۳. عن زيد بن أرقم رضي الله عنه قال : إني سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : اللهم! أستودعکهما و صالح المؤمنين يعني الحسن و الحسين.

’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ! میں ان دونوں حسن و حسین کو اور نیک مومنین کو تیری حفاظت خاص میں دیتا ہوں۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۵ : ۸۵، رقم : ۵۰۳۷

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۹۴

۳. هندي، کنز العمال، ۱۲ : ۱۱۹، رقم : ۳۴۲۸۱

فصل : ۳۷

ضوء الطريق للحسن و الحسين عليهما السلام ببرقة

(آسمانی بجلی کا حسنین کریمین علیہما السلام کے لئے راستہ روشن کرنا)

۱۲۴. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : کنا نصلي مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم العشاء، فإذا سجد وثب الحسن و الحسين علي ظهره، فإذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه اخذاً رفيقاً و يضعهما علي الأرض، فإذا عاد، عادا حتي قضي صلا ته، أقعدهما علي فخذيه، قال : فقمت إليه، فقلت : يا رسول اﷲ ! أردهما فبرقت برقة، فقال : لهما : الحقا بأمکما، قال : فمکث ضوئها حتي دخلا.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نمازِ عشاء ادا کر رہے تھے، جب آپ سجدے میں گئے تو حضرت حسن اور حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدے سے سر اٹھایا تو ان دونوں کو اپنے پیچھے سے نرمی سے پکڑ کر زمین پر بٹھا دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ سجدے میں گئے تو حسن اور حسین علیہما السلام نے دوبارہ ایسے ہی کیا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز مکمل کرنے کے بعد دونوں کو اپنی (مبارک) رانوں پر بٹھا لیا۔ میں نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک و آلک وسلم! میں انہیں واپس چھوڑ آتا ہوں۔ پس اچانک آسمانی بجلی چمکی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (حسنین کریمین علیہما السلام) کو فرمایا کہ اپنی والدہ کے پاس چلے جاؤ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے گھر میں داخل ہونے تک وہ روشنی برقرار رہی۔‘‘

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۵۱۳، رقم : ۱۰۶۶۹

۲. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۵۱، رقم : ۲۶۵۹

۳. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۸۳، رقم : ۴۷۸۲

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۸۱

۵. ابن عدي، الکامل، ۶ : ۸۱، رقم : ۱۶۱۵

۶. ذهبي، سير اعلام النبلاء، ۳ : ۲۵۶

۷. عسقلاني، تهذيب التهذيب، ۲ : ۲۵۸

۸. شوکاني، نيل الاوطار، ۲ : ۱۲۴

فصل : ۳۸

تشجيع النبي صلي الله عليه وآله وسلم و جبريل عليه السلام للحسنين عليهما السلام علي المصارعة

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیلں کا حسنین کریمین علیہما السلام کو داد دینا)

۱۲۵. عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : کان الحسن و الحسين عليهما السلام يصطرعان بين يدي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فکان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : هي حسن. فقالت فاطمة سلام اﷲ عليها : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! لم تقول هي حسن؟ فقال : إن جبريل يقول : هي حسين.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حسنین کریمین علیہما السلام کشتی لڑ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : حسن جلدی کرو. سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے کہا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ صرف حسن کو ہی ایسا کیوں فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا : کیونکہ جبرئیل امین حسین کو جلدی کرنے کا کہہ کر داد دے رہے تھے۔‘‘

۱. ابويعلیٰ، المعجم، ۱ : ۱۷۱، رقم : ۱۹۶

۲. عسقلاني، الاصابه، ۲ : ۷۷، رقم : ۱۷۲۶

۳. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، ۲ : ۲۶

۴. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، ۱ : ۱۳۴

۵. ابن عدي، الکامل، ۵ : ۱۸، رقم : ۱۱۹۱

۱۲۶. عن محمد بن علي رضي اﷲ عنهما قال : اصطرع الحسن و الحسين رضي اﷲ عنهما عند رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فجعل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : هي حسن. قالت له فاطمة : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! تعين الحسن کانه أحب إليک من الحسين؟ قال : إن جبريل يعين الحسين و أنا أحب أن أعين الحسن.

’’محمد بن علی رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حسنین کریمین علیہما السلام کشتی لڑ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : حسن جلدی کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیدہ فاطمہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ حسن کی مدد فرما رہے ہیں لگتا ہے وہ آپ کو حسین سے زیادہ پیارا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (نہیں) جبرئیل حسین کی مدد کر رہے تھے اسلئے میں نے چاہا کہ حسن کی مدد کروں۔‘‘

۱. هيثمي، مسند الحارث، ۲ : ۹۱۰، رقم ۹۹۲

۲. سيوطي، الخصائص الکبري، ۲ : ۴۶۵

۳. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي، ۱ : ۱۳۴

۱۲۷. عن بن عباس رضي اﷲ عنهما قال : اتخذ الحسن والحسين عند رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فجعل يقول : هي يا حسن! خذ يا حسن! فقالت عائشة : تعين الکبير علي الصغير. فقال : إن جبريل يقول : خذ يا حسين.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں حسن و حسین علیہما السلام ایک دوسرے کو پکڑنے میں کوشاں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے حسن جلدی کرو! حسن پکڑ لو تو اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ چھوٹے کے مقابلے میں بڑے کی مدد فرما رہے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اس لئے کہ) جبرئیل امین (پہلے سے ہی) حسین کو حوصلہ دلاتے ہوئے پکڑلو، پکڑلو کہہ رہے تھے۔‘‘

ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، ۱۳ : ۲۲۳

فصل : ۳۹

کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يقبل الحسن و الحسين عليهما السلام

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کا بوسہ لیتے تھے)

۱۲۸. عن ابی هريره رضي الله عنه قال : خرج علينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و معه حسن و حسين، هذا علي عاتقه و هذا علي عاتقه، وهو يلثم هذا مرة و يلثم هذا مرة.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حسنین کریمین علیہما السلام تھے ایک (شہزادہ) ایک کندھے پر سوار تھا اور دوسرا دوسرے کندھے پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کو باری باری چوم رہے تھے۔‘‘

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۴۰۰، رقم : ۹۶۷۱

۲. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، ۲ : ۷۷۷، رقم : ۱۳۷۶

۳. حاکم، المستدرک، ۳ : ۱۸۲، رقم : ۴۷۷۷

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۷۹

۵. مزي، تهذيب الکمال، ۶ : ۲۲۸

۶. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، ۲ : ۷۱

۷. مناوي، فيض القدير، ۶ : ۳۲

۱۲۹. عن أبي المعدل عطية الطفاوي عن أبيه أن أم سلمة حدثته قالت : بينما رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في بيتي يوما اذ قالت الخادم أن عليا و فاطمة بالسدة، قالت : فقال لي : قومي فتنحي لي عن أهل بيتي، قالت : فقمت فتنحيت في البيت قريبا، فدخل علیّ و فاطمة و معهما الحسن و الحسين و هما صبيان صغيران، فأخذ الصبيين فوضعهما في حجره فقبلهما.

’’ابو معدل عطیہ طفاوی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہیں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا نے بیان کیا کہ ایک دن جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تشریف فرما تھے خادم نے عرض کیا : دروازے پر علی اور فاطمہ علیہما السلام آئے ہیں۔ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا : ایک طرف ہو جاؤ اور مجھے اپنے اہل بیت سے ملنے دو۔ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : میں پاس ہی گھر میں ایک طرف ہٹ کر کھڑی ہو گئی، پس علی، فاطمہ اور حسنین کریمین علیہم السلام داخل ہوئے اس وقت وہ کم سن تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں بچوں کو پکڑ کر گود میں بٹھا لیا اور دونوں کو چومنے لگے۔‘‘

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۶ : ۲۹۶، رقم : ۲۶۵۸۲

۲. ابن کثير، تفسيرالقرآن العظيم، ۳ : ۴۸۵

۳. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۱۶۶

۴. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، ۱ : ۲۲

۱۳۰. عن يعلي بن مرة رضي الله عنه قال : إن حسنا و حسينا أقبلا يمشيان إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فلما جاء احدهما جعل يده في عنقه، ثم جاء الآخر فجعل يده الأخري في عنقه، فقبّل هذا، ثم قبّل هذا.

’’حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حسن و حسین علیہما السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلتے ہوئے آئے، جب ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک بازو سے اسے گلے لگا لیا، پھر جب دوسرا پہنچا تو دوسرے بازو سے اسے گلے لگا لیا، پھر دونوں کو باری باری چومنے لگے۔‘‘

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۳۲، رقم : ۲۵۸۷

۲. طبراني، المعجم الکبير، ۲۲ : ۲۷۴، رقم : ۷۰۳

۳. قضاعي، مسند الشهاب، ۱ : ۵۰، رقم : ۲۶

۴. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، ۱ : ۱۲۲

۱۳۱. عن عتبة بن غزوان رضي الله عنه قال : بينما رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم جالس إذ جاء الحسن و الحسين فرکبا ظهره، فوضعهما في حجره فجعل يقبل هذا مرة و هذا مرة.

’’عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے کہ حسن و حسین علیہما السلام آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو اپنی گود میں بٹھا لیا اور باری باری دونوں کو چومنے لگے۔‘‘

ابن قانع، معجم الصحابة، ۲ : ۲۶۵، رقم : ۷۸۶

فصل : ۴۰

ذهب النبي صلي الله عليه وآله وسلم للمباهلة و معه الحسن والحسين عليهما السلام

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مباھلہ کے وقت حسنین کریمین علیہما السلام کو اپنے ساتھ لے گئے)

۱۳۲. عن الشعبي رضي الله عنه قال : لما أراد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن يلا عن أهل نجران، أخذ بيد الحسن والحسين و کانت فاطمة تمشي خلفه.

’’حضرت شعبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل نجران کے ساتھ مباھلہ کا ارادہ فرمایا تو حسنین کریمین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے لیا اور سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل رہی تھیں۔‘‘

۱. ابن ابي شيبه، المصنف، ۶ : ۳۸۹، رقم : ۳۶۱۸۴

۲. ابن ابي شيبه، المصنف، ۷ : ۴۲۶، رقم : ۳۷۰۱۴

۳. عسقلاني، فتح الباري، ۸ : ۹۴، رقم : ۴۱۱۹

۱۳۳. عن ابن زيد قال : قيل لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : لو لاعنت القوم بمن کنت تأتي حين قلت : ابناء نا و ابناء کم قال : حسن و حسين.

’’ابن زید سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عیسائی قوم کے ساتھ مباھلہ ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے قول ’ہمارے بیٹے اور تمہارے بیٹے‘ کے مصداق کن کو اپنے ساتھ لاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین کو۔‘‘

طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، ۳ : ۳۰۱

۱۳۴. عن علباء بن احمر اليشکري قال : لما نزلت هذه الأية (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَ نَا وَ أَبْنَاءَ کُمْ وَ نِسَاءَ نَا وَ نِسَاءَ کُمْ. . ) أرسل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الي علي و فاطمة و ابنيهما الحسن والحسين.

’’علباء بن احمر یشکری سے روایت ہے کہ جب یہ آیت. . اے حبیب فرما دیجئے! آؤ بلاتے ہیں ہم اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو. . نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، سیدہ فاطمہ اور ان کے بیٹوں حسن و حسین علیہم السلام کو بلا بھیجا۔‘‘

۱. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، ۱۳ : ۳۰۱

۲. سيوطي، الدر المنثور، ۲ : ۲۳۳

۱۳۵. عن جابر رضي الله عنه أن وفد نجران اتوا النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقالوا : ما تقول في عيسي بن مريم؟ فقال : هو روح اﷲ و کلمته و عبد اﷲ و رسوله. قالوا له : هل لک أن نلاعنک؟ إنه ليس کذلک. قال : و ذاک أحب إليکم؟ قالوا : نعم. قال : فإذا شئتم فجاء النبي صلي الله عليه وآله وسلم و جمع ولده والحسن والحسين.

’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ نجران کا ایک وفد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا کہ آپ کی عیسیٰ بن مریم کے بارے میں کیا رائے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ روح اﷲ، کلمۃ اﷲ، اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس وفد نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا : کیا آپ ہمارے ساتھ مباھلہ کرتے ہیں کہ عیسیٰ ایسے نہ تھے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم یہی چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جیسے تمہاری مرضی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لائے اور اپنے بیٹوں حسن و حسین علیہما السلام کو ساتھ لے جانے کے لئے جمع کیا۔‘‘

۱. حاکم، المستدرک، ۲ : ۶۴۹، رقم : ۴۱۵۷

۲. سيوطي، الدر المنثور، ۲ : ۲۳۱