فصل : ۳۰
کان يُطيل النبي صلي الله عليه وآله وسلم السجود للحسن و الحسين عليهما السلام
(حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کی خاطر سجدوں کو لمبا کر لیتے تھے)
۱۰۴. عن أنس رضي الله عنه قال : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يسجد فيجئ الحسن أو الحسين فيرکب علي ظهره فيطيل السجود. فيقال : يا نبي اﷲ! أطلت السجود، فيقول : ارتحلني ابني فکرهت أن أعجله.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں ہوتے تو حسن یا حسین علیہما السلام آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمر مبارک پر سوار ہو جاتے جس کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدوں کو لمبا کر لیتے۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا : اے اﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا آپ نے سجدوں کو لمبا کر دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لئے (سجدے سے اُٹھنے میں) جلدی کرنا اچھا نہ لگا۔‘‘
۱۰۵. عن عبداﷲ بن شداد عن أبيه قال : خرج علينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في احدي صلاتي العشاء و هو حامل حسناً أو حسيناً فتقدم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فوضعه ثم کبر للصلاة فصلي، فسجد بين ظهراني صلاته سجدة أطالها قال أبي : فرفعت رأسي و اذا الصبي علي ظهر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو ساجد فرجعت الي سجودي، فلما قضي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الصلاة، قال الناس : يا رسول اﷲ انک سجدت بين ظهراني صلاتک سجدة أطلتها حتي ظننا أنه قد حدث أمر أو أنه يوحي إِليک. قال : ذلک لم يکن ولکن ابني ارتحلني فکرهت أن أعجله حتي يقضي حاجته.
عبداﷲ بن شداد اپنے والد حضرت شداد بن ھاد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز ادا کرنے کے لئے ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن یا حسین علیہما السلام (میں سے کسی ایک شہزادے) کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لا کر اُنہیں زمین پر بٹھا دیا پھر نماز کے لئے تکبیر فرمائی اور نماز پڑھنا شروع کر دی، نماز کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طویل سجدہ کیا۔ شداد نے کہا : میں نے سر اُٹھا کر دیکھا کہ شہزادے سجدے کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہیں۔ میں پھر سجدہ میں چلا گیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما چکے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ نے نماز میں اتنا سجدہ طویل کیا۔ یہانتک کہ ہم نے گمان کیا کہ کوئی امرِ اِلٰہی واقع ہو گیا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایسی کوئی بات نہ تھی مگر یہ کہ مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لئے (سجدے سے اُٹھنے میں) جلدی کرنا اچھا نہ لگا جب تک کہ اس کی خواہش پوری نہ ہو۔
فصل : ۳۱
کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يضمّ الحسن والحسين عليهما السلام إليه تحت ثوبه
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں شہزادوں کو چادر کے اندر اپنے جسم اطہر سے چمٹا لیتے تھے)
۱۰۶. عن أسامة بن زيد رضي اﷲ عنهما قال : طرقت النبي صلي الله عليه وآله وسلم ذات ليلة في بعض الحاجة فخرج النبي صلي الله عليه وآله وسلم وهو مشتمل علي شئ لا أدري ما هو فلما فرغت ما حاجتي قلت : ما هذا الذي أنت مشتمل عليه؟ فکشفه فإذا حسن و حسين علي و رکيه فقال : هذان أبناي.
’’حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا : میں ایک رات کسی کام کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شے کو اپنے جسم سے چمٹائے ہوئے تھے جسے میں نہ جان سکا جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے کیا چیز اپنے جسم سے چمٹا رکھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کپڑا ہٹایا تو دیکھا کہ حسن و حسین علیہما السلام دونوں رانوں تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چمٹے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ میرے دونوں بیٹے ہیں۔‘‘
۱۰۷. عن أنس بن مالک رضي الله عنه يقول : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول لفاطمة : أدعي أبني فيشمهما و يضمهما إليه.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے فرمایا کرتے : میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ پھر آپ ان دونوں (پھولوں) کو سونگھتے اور اپنے سینہ اقدس کے ساتھ چپکا لیتے۔‘‘
فصل : ۳۲
أوّل من يدخل الجنة مع النبي صلي الله عليه وآله وسلم هو الحسن والحسين عليهما السلام
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جو جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے وہ حسنین کریمین علیہما السلام ہیں)
۱۰۸. عن علي رضي الله عنه قال : أخبرني رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ان أول من يدخل الجنة أنا و فاطمة و الحسن و الحسين. قلت : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! فمحبونا؟ قال : من ورائکم.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا کہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں، میں (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ خود)، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! ہم سے محبت کرنے والے کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے پیچھے۔‘‘
۱۰۹. عن علیّ بن أبي طالب رضي الله عنه قال : شکوت الي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حسد الناس اياي، فقال : أما ترضي أن تکون رابع أربعة أول من يدخل الجنة : أنا و أنت و الحسن و الحسين.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی کہ لوگ مجھ سے حسد کرتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چار مردوں میں چوتھے تم ہو (وہ چار) میں، تم، حسن اور حسین ہیں۔‘‘
فصل : ۳۳
تزيين اﷲ عزوجل الجنة بالحسن و الحسين عليهما السلام
(اﷲ تعالیٰ کاحسنین کریمین علیہما السلام کی موجودگی کے ذریعے جنت کو آراستہ کرنا)
۱۱۰. عن عقبة بن عامررضي الله عنه، أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : الحسن و الحسين شنفا العرش و ليسا بمعلقين، و إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : إذا استقر أهل الجنة في الجنة، قالت الجنة : يا رب! وعدتني أن تزينني برکنين من أرکانک! قال : أولم أزينک بالحسن و الحسين؟
’’عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین عرش کے دو ستون ہیں لیکن وہ لٹکے ہوئے نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب اہل جنت، جنت میں مقیم ہو جائیں گے تو جنت عرض کرے گی : اے پروردگار! تو نے مجھے اپنے ستونوں میں سے دو ستونوں سے مزین کرنے کا وعدہ فرمایا تھا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں نے تجھے حسن اور حسین کی موجودگی کے ذریعے مزین نہیں کر دیا؟ (یہی تو میرے دو ستون ہیں)۔‘‘
۱۱۱. عن أنس رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : فخرت الجنة علي النار فقالت : أنا خير منک، فقالت النار : بل أنا خير منک، فقالت لها الجنة إستفهاما : و ممه؟ قالت : لأن في الجبابرة و نمرود و فرعون فأسکتت، فأوحي اﷲ اليها : لا تخضعين، لأزينن رکنيک بالحسن و الحسين، فماست کما تميس العروس في خدرها.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک مرتبہ جنت نے دوزخ پر فخر کیا اور کہا میں تم سے بہتر ہوں، دوزخ نے کہا : میں تم سے بہتر ہوں۔ جنت نے دوزخ سے پوچھا کس وجہ سے؟ دوزخ نے کہا : اس لئے کہ مجھ میں بڑے بڑے جابر حکمران فرعون اور نمرود ہیں۔ اس پر جنت خاموش ہو گئی، اﷲ تعالیٰ نے جنت کی طرف وحی کی اور فرمایا : تو عاجز و لاجواب نہ ہو، میں تیرے دو ستونوں کو حسن اور حسین کے ذریعے مزین کر دوں گا۔ پس جنت خوشی اور سرور سے ایسے شرما گئی جیسے دلہن شرماتی ہے۔‘‘
۱۱۲. عن العباس بن زريع الأزدي عن أبيه مرفوعا، قال : قالت الجنة : يا رب! حسنتني فحسن أرکاني، قال : قد حسنت أرکانک بالحسن و الحسين.
’’حضرت عباس بن زریع ازدی اپنے والد سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ جنت نے (اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں) عرض کیا : اے میرے پروردگار! تو نے مجھے حسین و جمیل بنایا ہے تو میرے ستونوں کو بھی حسین بنا۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے تیرے ستونوں کوحسن اور حسین علیہما السلام کے ذریعے حسین و جمیل بنا دیا ہے۔‘‘
فصل : ۳۴
يکون الحسن و الحسين عليهما السلام في قبة تحت العرش يوم القيامة
(حسنین کریمین علیہما السلام قیامت کے دن عرش الہٰی کے گنبد کے نیچے ہوں گے)
۱۱۳. عن أبي موسي الأشعري رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أنا و علیّ و فاطمة و الحسن و الحسين يوم القيامة في قبة تحت العرش.
’’حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں، علی، فاطمہ، حسن اور حسین قیامت کے دن عرش کے گنبد کے نیچے ہوں گے۔‘‘
۱۱۴. عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : إن فاطمة و عليا و الحسن و الحسين في حظيرة القدس في قبة بيضاء سقفها عرش الرحمن.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک فاطمہ، علی، حسن اور حسین جنت الفردوس میں سفید گنبد میں مقیم ہوں گے جس کی چھت عرش خداوندی ہو گا۔‘‘
۱۱۵. عن علیّ رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : في الجنة درجة تدعي الوسلية؟ فإذا سألتم اﷲ فسلوا لي الوسيلة؟ قالوا : يا رسول اﷲ! من يسکن معک؟ قال : علي و فاطمة و الحسن و الحسين.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جنت میں ایک مقام ہے جسے وسیلہ کہتے ہیں، پس جب تم اﷲ سے سوال کرو تو میرے لئے وسیلہ کا سوال کیا کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک و آلک وسلم! (وہاں) آپ کے ساتھ کون رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی، فاطمہ اور حسین و حسین (وہاں پر میرے ساتھ رہیں گے)۔‘‘
فصل : ۳۵
يکون الحسن و الحسين عليهما السلام مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم القيامة
(حسنین کریمین علیہما السلام قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہیں گے)
۱۱۶. عن علي رضي الله عنه قال : دخل علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و انا نائم علي المنامة فاستسقي الحسن او الحسين قال فقام النبي صلي الله عليه وآله وسلم الي شاة لنا بکي فحلبها فدرت فجاء ه الحسن فنحاه النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقالت فاطمة : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! کانه احبهما اليک قال : لا ولکنه استسقي قبله، ثم قال : إني و اياک و هذين و هذا الراقد في مکان واحد يوم القيامة.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں اپنے بستر پر سویا ہوا تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے حسن یا حسین علیہما السلام (میں سے کسی ایک) نے پانی مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری بکری کے پاس آئے جو بہت کم دودھ والی تھی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا دودھ نکالا تو اس نے بہت زیادہ دودھ دیا، پس حسنں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے فرمایا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لگتا ہے یہ آپ کو ان دونوں میں زیادہ پیارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ اس نے پہلے پانی مانگا تھا پھر فرمایا : میں، آپ، یہ دونوں اور یہ سونے والا (حضرت علی رضی اللہ عنہ کیونکہ وہ ابھی سو کر اٹھے ہی تھے) قیامت کے دن ایک ہی جگہ پر ہوں گے۔‘‘
۱۱۷. عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم دخل علي فاطمة رضي اﷲ عنها فقال : أني و اياک و هذا النائم. . يعني عليا. . و هما. . يعني الحسن و الحسين. . لفي مکان واحد يوم القيامة.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے گھر تشریف لائے اور فرمایا : میں، تم اور یہ سونے والا (یعنی علی وہ ابھی سو کر اٹھے ہی تھے) اور یہ دونوں یعنی حسن اور حسین علیہما السلام قیامت کے دن ایک ہی جگہ ہوں گے۔‘‘
۔
۱۱۸. عن أبي فاختة رضي الله عنه قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم و علي و فاطمة و الحسن و الحسين في بيت فاستسقي الحسن، فقام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في جوف الليل، فسقاه، فسأله الحسين فأبي أن يسقيه، فقيل : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! کأن حسنا أحب اليک من حسين؟ قال : لا ولکنه استسقاني قبله، ثم قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : يا فاطمة! أنا و انت و هذين و هذا الراقد (لعلي) في مقام واحد يوم القيامة.
’’حضرت ابو فاختہ (سعید بن علاقہ) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، علی، فاطمہ، اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم گھر پر تھے کہ حسن نے پانی مانگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آدھی رات کو اُٹھ کر اسے پانی پلایا۔ (اسی دوران جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسنں کو پانی پلانے ہی والے تھے) کہ حضرت حسین نے وہی پانی طلب کیا، جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے دینے سے انکار فرمایا (کیونکہ حسین ان سے قبل پانی مانگ چکے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی ترتیب سے دینا چاہتے تھے یہ بغرض تعلیم و تربیت تھا)۔ عرض کیا گیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! لگتا ہے کہ آپ کو حسین سے زیادہ حسن محبوب ہے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ وجہ نہیں بلکہ حسن نے حسین سے پہلے مانگا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے فاطمہ! میں، تم، یہ دونوں (حسن و حسین) اور یہ سونے والا (یعنی علی) قیامت کے دن ایک ہی جگہ پر ہوں گے۔‘‘
فصل : ۳۶
إستعاذة النبي صلي الله عليه وآله وسلم للحسن و الحسين عليهما السلام
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السلام کے لئے خصوصی دم فرمانا )
۱۱۹. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يعوذ الحسن و الحسين، و يقول : إن أباکما کان يعوذ بها إسماعيل و إسحاق : أعوذ بکلمات اﷲ التامة من کل شيطان وهامة و من کل عين لامة.
’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن و حسین علیہما السلام کے لئے (خصوصی طور پر) کلمات تعوذ کے ساتھ دم فرماتے تھے اور ارشاد فرماتے کہ تمہارے جد امجد (ابراہیم علیہ السلام بھی) اپنے دونوں صاحبزادوں اسماعیل و اسحاق (علیھما السلام) کے لئے ان کلمات کے ساتھ تعوذ کرتے تھے ’’میں اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات کے ذریعے ہر (وسوسہ اندازی کرنے والے) شیطان اور بلا سے اور ہر نظر بد سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
۱۲۰. عن علي رضي الله عنه قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يعوذ حسنا و حسينا، فيقول : أعيذکما بکلمات اﷲ التامات من کل شيطان و هامة و من کل عين لامة. قال : و قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : عوذوا بها أبنائکم، فإن إبراهيم کان يعوذ بها ابنيه إسماعيل و إسحاق.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن و حسین علیہما السلام کو دم کرتے ہوئے فرماتے تھے : میں تمہارے لئے اﷲ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر وسوسہ انداز شیطان و بلا اور ہر نظر بد سے پناہ مانگتا ہوں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (امت کیلئے بھی) فرمایا : تم اپنے بیٹوں کو انہی الفاظ کے ساتھ دم کیا کرو کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بیٹوں اسماعیل اور اسحاق (علیھما السلام) کو ان کلمات سے دم کیا کرتے تھے۔‘‘
۱۲۱. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما، قال کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يعوذ الحسن و الحسين : أعيذکما بکلمات اﷲ التامة من کل شيطان و هامة و من کل عين لامة. ثم يقول : کان أبوکم يعوذ بهما إسماعيل و إسحاق.
’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن و حسین علیہما السلام کو (ان کلمات کے ساتھ) دم کیا کرتے تھے : میں تمہیں اﷲ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر وسوسہ انداز شیطان و بلا سے اور ہر نظر بد سے اﷲ کی پناہ میں دیتا ہوں، پھر ارشاد فرماتے : تمہارے جد امجد (ابراہیم علیہ السلام بھی) انہی کلمات کے ساتھ اپنے بیٹوں اسماعیل و اسحاق (علیھما السلام) کو دم کیا کرتے تھے۔‘‘
۱۲۲. عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : کنا جلوسا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذ مر به الحسن و الحسين و هما صبيان، فقال : هاتوا ابني أعوذ هما بما عوذ به إبراهيم إبنيه إسماعيل و إسحاق، قال : أعيذکما بکلمات اﷲ التامة من کل عين لامة و من کل شيطان و هامة.
’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حسن و حسین علیہما السلام جو کہ ابھی بچے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے دونوں بیٹوں کو لاؤ، میں انہیں دم کر دوں جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) اپنے دونوں بیٹوں اسماعیل و اسحاق (علیہم السلام) کو دم کیا کرتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں تمہیں اﷲ تعالیٰ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر نظر بد سے، ہر وسوسہ انداز شیطان و بلا سے اﷲ کی پناہ میں دیتا ہوں۔‘‘
۱۲۳. عن زيد بن أرقم رضي الله عنه قال : إني سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : اللهم! أستودعکهما و صالح المؤمنين يعني الحسن و الحسين.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ! میں ان دونوں حسن و حسین کو اور نیک مومنین کو تیری حفاظت خاص میں دیتا ہوں۔‘‘
فصل : ۳۷
ضوء الطريق للحسن و الحسين عليهما السلام ببرقة
(آسمانی بجلی کا حسنین کریمین علیہما السلام کے لئے راستہ روشن کرنا)
۱۲۴. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : کنا نصلي مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم العشاء، فإذا سجد وثب الحسن و الحسين علي ظهره، فإذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه اخذاً رفيقاً و يضعهما علي الأرض، فإذا عاد، عادا حتي قضي صلا ته، أقعدهما علي فخذيه، قال : فقمت إليه، فقلت : يا رسول اﷲ ! أردهما فبرقت برقة، فقال : لهما : الحقا بأمکما، قال : فمکث ضوئها حتي دخلا.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نمازِ عشاء ادا کر رہے تھے، جب آپ سجدے میں گئے تو حضرت حسن اور حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدے سے سر اٹھایا تو ان دونوں کو اپنے پیچھے سے نرمی سے پکڑ کر زمین پر بٹھا دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ سجدے میں گئے تو حسن اور حسین علیہما السلام نے دوبارہ ایسے ہی کیا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز مکمل کرنے کے بعد دونوں کو اپنی (مبارک) رانوں پر بٹھا لیا۔ میں نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک و آلک وسلم! میں انہیں واپس چھوڑ آتا ہوں۔ پس اچانک آسمانی بجلی چمکی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (حسنین کریمین علیہما السلام) کو فرمایا کہ اپنی والدہ کے پاس چلے جاؤ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے گھر میں داخل ہونے تک وہ روشنی برقرار رہی۔‘‘
فصل : ۳۸
تشجيع النبي صلي الله عليه وآله وسلم و جبريل عليه السلام للحسنين عليهما السلام علي المصارعة
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیلں کا حسنین کریمین علیہما السلام کو داد دینا)
۱۲۵. عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : کان الحسن و الحسين عليهما السلام يصطرعان بين يدي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فکان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : هي حسن. فقالت فاطمة سلام اﷲ عليها : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! لم تقول هي حسن؟ فقال : إن جبريل يقول : هي حسين.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حسنین کریمین علیہما السلام کشتی لڑ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : حسن جلدی کرو. سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے کہا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ صرف حسن کو ہی ایسا کیوں فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا : کیونکہ جبرئیل امین حسین کو جلدی کرنے کا کہہ کر داد دے رہے تھے۔‘‘
۱۲۶. عن محمد بن علي رضي اﷲ عنهما قال : اصطرع الحسن و الحسين رضي اﷲ عنهما عند رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فجعل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : هي حسن. قالت له فاطمة : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! تعين الحسن کانه أحب إليک من الحسين؟ قال : إن جبريل يعين الحسين و أنا أحب أن أعين الحسن.
’’محمد بن علی رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حسنین کریمین علیہما السلام کشتی لڑ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : حسن جلدی کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیدہ فاطمہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ حسن کی مدد فرما رہے ہیں لگتا ہے وہ آپ کو حسین سے زیادہ پیارا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (نہیں) جبرئیل حسین کی مدد کر رہے تھے اسلئے میں نے چاہا کہ حسن کی مدد کروں۔‘‘
۱۲۷. عن بن عباس رضي اﷲ عنهما قال : اتخذ الحسن والحسين عند رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فجعل يقول : هي يا حسن! خذ يا حسن! فقالت عائشة : تعين الکبير علي الصغير. فقال : إن جبريل يقول : خذ يا حسين.
’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں حسن و حسین علیہما السلام ایک دوسرے کو پکڑنے میں کوشاں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے حسن جلدی کرو! حسن پکڑ لو تو اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ چھوٹے کے مقابلے میں بڑے کی مدد فرما رہے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اس لئے کہ) جبرئیل امین (پہلے سے ہی) حسین کو حوصلہ دلاتے ہوئے پکڑلو، پکڑلو کہہ رہے تھے۔‘‘
فصل : ۳۹
کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يقبل الحسن و الحسين عليهما السلام
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کا بوسہ لیتے تھے)
۱۲۸. عن ابی هريره رضي الله عنه قال : خرج علينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و معه حسن و حسين، هذا علي عاتقه و هذا علي عاتقه، وهو يلثم هذا مرة و يلثم هذا مرة.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حسنین کریمین علیہما السلام تھے ایک (شہزادہ) ایک کندھے پر سوار تھا اور دوسرا دوسرے کندھے پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کو باری باری چوم رہے تھے۔‘‘
۱۲۹. عن أبي المعدل عطية الطفاوي عن أبيه أن أم سلمة حدثته قالت : بينما رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في بيتي يوما اذ قالت الخادم أن عليا و فاطمة بالسدة، قالت : فقال لي : قومي فتنحي لي عن أهل بيتي، قالت : فقمت فتنحيت في البيت قريبا، فدخل علیّ و فاطمة و معهما الحسن و الحسين و هما صبيان صغيران، فأخذ الصبيين فوضعهما في حجره فقبلهما.
’’ابو معدل عطیہ طفاوی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہیں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا نے بیان کیا کہ ایک دن جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تشریف فرما تھے خادم نے عرض کیا : دروازے پر علی اور فاطمہ علیہما السلام آئے ہیں۔ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا : ایک طرف ہو جاؤ اور مجھے اپنے اہل بیت سے ملنے دو۔ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : میں پاس ہی گھر میں ایک طرف ہٹ کر کھڑی ہو گئی، پس علی، فاطمہ اور حسنین کریمین علیہم السلام داخل ہوئے اس وقت وہ کم سن تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں بچوں کو پکڑ کر گود میں بٹھا لیا اور دونوں کو چومنے لگے۔‘‘
۱۳۰. عن يعلي بن مرة رضي الله عنه قال : إن حسنا و حسينا أقبلا يمشيان إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فلما جاء احدهما جعل يده في عنقه، ثم جاء الآخر فجعل يده الأخري في عنقه، فقبّل هذا، ثم قبّل هذا.
’’حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حسن و حسین علیہما السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلتے ہوئے آئے، جب ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک بازو سے اسے گلے لگا لیا، پھر جب دوسرا پہنچا تو دوسرے بازو سے اسے گلے لگا لیا، پھر دونوں کو باری باری چومنے لگے۔‘‘
۱۳۱. عن عتبة بن غزوان رضي الله عنه قال : بينما رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم جالس إذ جاء الحسن و الحسين فرکبا ظهره، فوضعهما في حجره فجعل يقبل هذا مرة و هذا مرة.
’’عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے کہ حسن و حسین علیہما السلام آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو اپنی گود میں بٹھا لیا اور باری باری دونوں کو چومنے لگے۔‘‘
فصل : ۴۰
ذهب النبي صلي الله عليه وآله وسلم للمباهلة و معه الحسن والحسين عليهما السلام
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مباھلہ کے وقت حسنین کریمین علیہما السلام کو اپنے ساتھ لے گئے)
۱۳۲. عن الشعبي رضي الله عنه قال : لما أراد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن يلا عن أهل نجران، أخذ بيد الحسن والحسين و کانت فاطمة تمشي خلفه.
’’حضرت شعبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل نجران کے ساتھ مباھلہ کا ارادہ فرمایا تو حسنین کریمین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے لیا اور سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل رہی تھیں۔‘‘
۱۳۳. عن ابن زيد قال : قيل لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : لو لاعنت القوم بمن کنت تأتي حين قلت : ابناء نا و ابناء کم قال : حسن و حسين.
’’ابن زید سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عیسائی قوم کے ساتھ مباھلہ ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے قول ’ہمارے بیٹے اور تمہارے بیٹے‘ کے مصداق کن کو اپنے ساتھ لاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین کو۔‘‘
۱۳۴. عن علباء بن احمر اليشکري قال : لما نزلت هذه الأية (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَ نَا وَ أَبْنَاءَ کُمْ وَ نِسَاءَ نَا وَ نِسَاءَ کُمْ. . ) أرسل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الي علي و فاطمة و ابنيهما الحسن والحسين.
’’علباء بن احمر یشکری سے روایت ہے کہ جب یہ آیت. . اے حبیب فرما دیجئے! آؤ بلاتے ہیں ہم اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو. . نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، سیدہ فاطمہ اور ان کے بیٹوں حسن و حسین علیہم السلام کو بلا بھیجا۔‘‘
۱۳۵. عن جابر رضي الله عنه أن وفد نجران اتوا النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقالوا : ما تقول في عيسي بن مريم؟ فقال : هو روح اﷲ و کلمته و عبد اﷲ و رسوله. قالوا له : هل لک أن نلاعنک؟ إنه ليس کذلک. قال : و ذاک أحب إليکم؟ قالوا : نعم. قال : فإذا شئتم فجاء النبي صلي الله عليه وآله وسلم و جمع ولده والحسن والحسين.
’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ نجران کا ایک وفد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا کہ آپ کی عیسیٰ بن مریم کے بارے میں کیا رائے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ روح اﷲ، کلمۃ اﷲ، اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس وفد نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا : کیا آپ ہمارے ساتھ مباھلہ کرتے ہیں کہ عیسیٰ ایسے نہ تھے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم یہی چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جیسے تمہاری مرضی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لائے اور اپنے بیٹوں حسن و حسین علیہما السلام کو ساتھ لے جانے کے لئے جمع کیا۔‘‘