کَنْزُ الْمَطَالِبِ فِي مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبِ

کَنْزُ الْمَطَالِبِ فِي مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبِ0%

کَنْزُ الْمَطَالِبِ فِي مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبِ مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

کَنْزُ الْمَطَالِبِ فِي مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبِ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر محمد طاہر القادری
زمرہ جات: مشاہدے: 13247
ڈاؤنلوڈ: 3901

تبصرے:

کَنْزُ الْمَطَالِبِ فِي مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبِ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13247 / ڈاؤنلوڈ: 3901
سائز سائز سائز
کَنْزُ الْمَطَالِبِ فِي مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبِ

کَنْزُ الْمَطَالِبِ فِي مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبِ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

باب۹

(۹)بَابٌ فِيْ قُرْبِهِ وَ مَکَانَتِهِ رضي الله عنه عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم

(علی المرتضیٰ کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں قرب اور مقام و مرتبہ)

۸۵. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمَرِو بْنِ هِنْدٍ الْجَمَلِيِّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : کُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَعْطَانِيْ، وَ إِذَا سَکَتُّ ابْتَدَأَنِيْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَ قَالَ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ

’’حضرت عبداﷲ بن عمر و بن ہند جملی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی چیز مانگتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے عطا فرماتے اور اگر خاموش رہتا تو بھی پہلے مجھے ہی دیتے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا : یہ حدیث حسن ہے‘‘

الحديث رقم ۸۵ : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، ۵ / ۶۳۷، الحديث رقم : ۳۷۲۲، وفيابواب المناقب، باب مناقب علي، ۵ / ۶۴۰، الحديث رقم : ۳۷۲۹، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، ۳ / ۱۳۵، الحديث رقم : ۴۶۳۰، والمقدسي في الأحاديث المختاره، ۲ / ۲۳۵، الحديث رقم : ۶۱۴، والنسائي في السنن الکبري، ۵ / ۱۴۲، الحديث رقم : ۸۵۰۴.

۸۶. عَنْ جَابِرٍ، قَالَ : دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا يَوْمَ الطَّائِفِ فَانْتَجَاهُ، فَقَالَ النَّاسُ : لَقَدْ طَالَ نَجْوَاهُ مَعَ ابْنِ عَمِّهِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَا انْتَجَيْتُهُ وَلَکِنَّ اﷲَ انْتَجَاهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ طائف کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی، لوگ کہنے لگے آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ کافی دیر تک سرگوشی کی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے نہیں کی بلکہ اﷲ نے خود ان سے سرگوشی کی ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

’’اس قول کا معنی کہ ’’بلکہ اﷲ نے ان سے سرگوشی کی‘‘ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ ان کے کان میں کچھ کہوں۔‘‘

الحديث رقم ۸۶ : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، ۵ / ۶۳۹، الحديث رقم : ۳۷۲۶، وابن أبي عاصم في السنة، ۲ / ۵۹۸، الحديث رقم : ۱۳۲۱، والطبراني في العمجم الکبير، ۲ / ۱۸۶، الحديث رقم : ۱۷۵۶.

۸۷. عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِعَلِيٍّ يَاعَلِيُّ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ يُجْنَبُ فِيْ هَذَا المَسْجِدِ غَيْرِيْ وَ غَيْرُکَ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ المُنْذِرِ : قُلْتُ لِضَرَارِ بْنِ صُرَدَ : مَا مَعْنَي هَذَا الحديث؟ قَالَ : لاَ يَحِلُّ لِأَحَدٍ يَسْتَطْرِقُهُ جُنُباً غَيْرِيْ وَغَيْرُکَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

’’حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ حالت جنابت میں اس مسجد میں رہے۔ علی بن منذر کہتے ہیں کہ میں نے ضرار بن صرد سے اس کے معنی پوچھے تو انہوں نے فرمایا : اس سے مراد مسجد کو بطور راستہ استعمال کرنا ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

الحديث رقم ۸۷ : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، ۵ / ۶۳۹، الحديث رقم : ۳۷۲۷، والبزار في المسند، ۴ / ۳۶، الحديث رقم : ۱۱۹۷، و أبو يعلي في المسند، ۲ / ۳۱۱، الحديث رقم : ۱۰۴۲، و البيهقي في السنن الکبري، ۷ / ۶۵، الحديث رقم : ۱۳۱۸۱.

۸۸. عَنْ أُمِّ عَطِيَةَ قَالَتْ : بَعَثَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم جَيْشًا فِيْهِمْ عَلِيٌّ قَالَتْ : فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَقُوْلُ : اللّٰهُمَّ لَا تُمِتْنِيْ حَتَّي تُرِيَنِيْ عَلِيًّا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

’’حضرت امِ عطیہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہے تھے کہ یا اﷲ مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں علی کو (واپس بخیرو عافیت) نہ دیکھ لوں، اس حدیث کو امام ترمذی نے بیان کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

الحديث رقم ۸۸ : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، ۵ / ۶۴۳، الحديث رقم : ۳۷۳۷، و الطبراني في المعجم الکبير، ۲۵ / ۶۸، الحديث رقم : ۱۶۸، والطبراني في المعجم الأوسط، ۳ / ۴۸، الحديث رقم : ۲۴۳۲، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، ۲ / ۶۰۹، الحديث رقم : ۱۰۳۹.

۸۹. عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلي الله عليه وآله وسلم : رَحِمَ اﷲُ أَبَا بَکْرٍ زَوَّجَنِيَ ابْنَتَهُ، وَ حَمَلَنِيْ إِلٰي دَارِ الْهِجْرَةِ، وَ أَعْتَقَ بِلَالًا مِنْ مَالِهِ، رَحِمَ اﷲُ عُمَرَ، يَقُوْلُ الْحَقَّ وَ إِنْ کَانَ مُرًّا، تَرَکَهُ الْحَقُّ وَمَا لَهُ صَدِيْقٌ، رَحِمَ اﷲُ عُثْمَانَ، تَسْتَحِيْهِ الْمَلَائِکَةُ، رَحِمَ اﷲُ عَلِيًّا، اللَّهُمَّ أَدِرِ الْحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے اس نے اپنی بیٹی میرے نکاح میں دی اور مجھے دار الہجرۃ لے کر آئے اور بلال کو بھی انہوں نے اپنے مال سے آزاد کرایا۔ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے یہ ہمیشہ حق بات کرتے ہیں اگرچہ وہ کڑوی ہو اسی لئے وہ اس حال میں ہیں کہ ان کا کوئی دوست نہیں۔ اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے۔ اس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ علی پر رحم فرمائے۔ اے اللہ یہ جہاں کہیں بھی ہو حق اس کے ساتھ رہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۸۹ : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، ۵ / ۶۳۳، الحديث رقم : ۳۷۱۴، و الحاکم في المستدرک علي الصحييحين، ۳ / ۱۳۴، الحديث رقم : ۴۶۲۹، و الطبراني في المعجم الاوسط، ۶ / ۹۵، الحديث رقم : ۵۹۰۶، و البزار في المسند، ۳ / ۵۲، الحديث رقم : ۸۰۶، و أبويعلي في المسند، ۱ : ۴۱۸، الحديث رقم : ۵۵۰.

۹۰. عَنْ حَنَشٍ قَالَ : رَأَيْتُ عَلِيًّا رضي الله عنه يُضَحِّيْ بِکَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ : مَا هَذَا؟ فَقَالَ : أَوْصَانِيْ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّيَ عَنْهُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاؤْدَ.

’’حضرت حنش رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھوں کی قربانی کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں ان کی طرف سے بھی قربانی کروں لہٰذا میں ان کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔ اس حدیث کو امام ابوداود نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۹۰ : أخرجه أبوداؤد في السنن، کتاب الضحايا، باب الأضحية عن الميت، ۳ / ۹۴، الحديث رقم : ۲۷۹۰، وأحمد بن حنبل في المسند، ۱ / ۱۵۰، الحديث رقم : ۱۲۸۵.

۹۱. عَنِ ابْنِ نُجَيٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : کَانَ لِي مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَدْخَلاَنِ : مَدْخَلٌ بِاللَّيْلِ وَمَدْخَلٌ بِالنَّهَارِ، فَکُنْتُ إِذَا دَخَلْتُ بِاللَّيْلِ تَنَحْنَحَ لِي. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ.

’’حضرت عبداللہ بن نجی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ میں دن رات میں دو دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتا۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں رات کے وقت حاضر ہوتا (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے ہوتے )تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اجازت عنایت فرمانے کے لئے کھانستے۔ اس حدیث کو نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۹۱ : أخرجه النسائي في السنن، کتاب السهو، باب التنحنح في الصلاة، ۳ / ۱۲، الحديث رقم : ۱۲۱۲، و ابن ماجة في السنن، کتاب الأدب، باب الإستئذان، ۲ / ۱۲۲۲، الحديث رقم : ۳۷۰۸، و النسائي في السنن الکبري، ۱ / ۳۶۰، الحديث رقم : ۱۱۳۶، و ابن أبي شيبة في المصنف، ۵ / ۲۴۲، الحديث رقم : ۲۵۶۷۶.

۹۲. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ اِذَا غَضِبَ لَمْ يَجْتَرِيئْ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ يُکَلِّمَهُ إِلاَّ عَلِيٌّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِيْ الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ وَالْحَاکِمُ.

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

’’حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ناراضگی کے عالم میں ہوتے تو ہم میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کسی کو کلام کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں اور حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘

الحديث رقم ۹۲ : أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، ۴ / ۳۱۸، الحديث رقم : ۴۳۱۴، والحاکم في المستدرک، ۳ / ۱۴۱، الحديث رقم : ۴۶۴۷، و الهيثمي في مجمع الزوائد، ۹ / ۱۱۶.

۹۳. عَنْ أَبِيْ رَافِعٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ لِعَلِيٍّ : أَمَا تَرْضَي إِنَّکَ أَخِيْ وَ أَنَا أَخُوْکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.

’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے فرمایا : تم اس پر راضی نہیں کہ تو میرا بھائی اور میں تیرا بھائی ہوں۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۹۳ : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، ۱ / ۳۱۹، الحديث رقم : ۹۴۹، والهيثمي في مجمع الزوائد، ۹ / ۱۳۱.

۹۴. عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ نُجَيٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : کَانَتْ لِيْ سَاعَةٌ مِنَ السَّحَرِ أَدْخُلُ فِيْهَا عَلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَإِنْ کَانَ قَائِمًا يُصَلِّيْ سَبَّحَ بِيْ فَکَانَ ذَاکَ إِذْنُهُ لِيْ. وَ إِنْ لَمْ يَکُنْ يُصَلِّيْ أَذِنَ لِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

’’حضرت عبداللہ بن نجی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : سحری کے وقت ایک ساعت ایسی تھی کہ جس میں مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہونا نصیب ہوتا۔ پس اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تو مجھے بتانے کے لیے تسبیح فرماتے پس یہ میرے لئے اجازت ہوتی اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز نہ پڑھ رہے ہوتے تو مجھے اجازت عنایت فرما دیتے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۹۴ : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۱ / ۷۷، الحديث رقم : ۵۷۰

۹۵. عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ نُجَيِّ الْحَضْرَمِِيِّ عَنْ أَبِيْهِ فِيْ رِوَايةٍ طَوِيْلَةٍ وَ فِيْهَا عَنْهُ قَالَ : قَالَ لِيْ عَلِيٌّ : کَانَتْ لِيْ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَنْزِلَةٌ لَمْ تَکُنْ لِأَحَدٍ مِنَ الخَلَائِقِ، رَوَاهُ أَحْمَدُ.

’’حضرت عبداللہ بن نجی الحضرمی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں میرا ایک خاص مقام و مرتبہ تھا جو مخلوقات میں سے کسی اور کا نہیں تھا۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۹۵ : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۱ / ۸۵، الحديث رقم : ۶۴۷، و البزار في المسند، ۳ / ۹۸، الحديث رقم : ۸۷۹، و المقدسي في الأحاديث المختاره، ۲ / ۳۷۴، الحديث رقم : ۷۵۷.

۹۶. عَنْ جَابِرٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عِنْدَ امْرَأَةِ مِنَ الأَنْصَارِ، صَنَعَتْ لَهُ طَعَامًا فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : يَدْخُلُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهلِ الْجَنَّةِ فَدَخَلَ أَبُوبَکْرٍ رضي الله عنه فَهَنَّيْنَاهُ ثُمَّ قَالَ : يَدْخُلُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَدَخَلَ عُمَرُ رضي الله عنه فَهَنَّيْنَاهُ ثُمَّ قَالَ : يَدْخُلُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم، يُدْخِلُ رَأْسَهُ تَحْتَ الْوَدِيِّ فَيَقُوْلُ : اللَّهُمَّ! إِنْ شِئْتَ جَعَلْتَهُ عَلِيًّا فَدَخَلَ عَلِيٌّ رضي الله عنه فَهَنَّيْنَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری عورت کے گھر میں تھے جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے کھانا تیار کیا تھا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا پس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارک باد دی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارک باد دی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا۔ راوی بیان کرتے ہیں : میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا سر انور چھوٹی کھجور کی شاخوں میں سے نکالے ہوئے فرما رہے تھے اے اللہ اگر تو چاہتا ہے تو اس آنے والے کو علی بنا دے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارک باد دی۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۹۶ : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۳ / ۳۳۱، الحديث رقم : ۱۴۵۹۰، و أحمد بن حنبل في المسند، ۱ / ۲۰۹، الحديث رقم : ۲۳۳.

۹۷. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ : وَالَّذِي أَحْلِفُ بِهِ إنْ کَانَ عَلِيٌّ لَأَقْرَبَ النَّاسِ عَهْدًا بِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَتْ : عُدْنَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم غَدَاةً بَعْدَ غَدَاةٍ يَقُوْلُ : جَاءَ عَلِيٌّ مِرَارًا. قَالَتْ : وًأَظُنُّهُ کَانَ بَعَثَهُ فِي حَاجَةٍ. قَالَتْ فَجَاءَ بَعْدُ فَظَنَنْتُ أَنَّ لَهُ إِلَيْهِ حَاجَةً فَخَرَجْنَا مِنَ الْبَيْتِ فَقَعَدْنَا عِنْدَ الْبَابِ فَکُنْتُ مِنْ أَدْنَاهُمْ إِلَي الْبَابِ، فَأَکَبَّ عَلَيْهِ عَلِيٌّ فَجَعَلَ يُسَارُّهُ وَيُنَاجِيْهِ، ثُمَّ قُبِضَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ يَوْمِهِ ذَلِکَ، فَکَانَ أَقْرَبَ النَّاسِ بِهِ عَهْدًا. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں اس ذات کی قسم جس کا میں حلف اٹھاتی ہوں حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عہد کے اعتبار سے سب سے زیادہ قریب تھے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم نے آئے روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عیادت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ علی (میری عیادت کے لئے) بہت مرتبہ آیا ہے۔ آپ بیان کرتی ہیں : میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی ضروری کام سے بھیجا تھا۔ آپ فرماتی ہیں : اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے سمجھا آپ کو شاید حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کوئی کام ہو گا پس ہم باہر آ گئے اور دروازے کے قریب بیٹھ گئے اور میں ان سب سے زیادہ دروازے کے قریب تھی پس حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرگوشی کرنے لگے پھر اس دن کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے پس حضرت علی رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے زیادہ عہد کے اعتبار سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب تھے۔اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۹۷ : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۶ / ۳۰۰، الحديث رقم : ۲۶۶۰۷، و الحاکم في المستدرک، ۳ / ۱۴۹، الحديث رقم : ۴۶۷۱، و الهيثمي في مجمع الزوائد، ۹ / ۱۱۲.

۹۸. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : لَمَّا خَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي الْمَدِيْنَةِ فِي الْهِجْرَةِ، أَمَرَنِي أَنْ أُقِيْمَ بَعْدَه حَتَّي أُؤَدِّيَ وَدَائِعَ کَانَتْ عِنْدَهُ لِلنَّاسِ، وِلِذَا کَانَ يُسَمَّي الأَمِيْنُ. فَأَقَمْتُ ثَلاَ ثًا، فَکُنْتُ أَظْهَرُ، مَا تَغَيَبْتُ يَوْمًا وَاحِدًا ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَعَلْتُ أَتْبَعُ طَرِيْقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَتَّي قَدِمْتُ بَنِيْ عَمَرِو بْنِ عَوْفٍ وَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مُقِيْمٌ، فَنَزَلْتُ عَلَي کُلْثُوْمِ بْنِ الْهِدْمِ، وَهُنَالِکَ مَنْزِلُ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَی.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کی غرض سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو مجھے حکم دیا کہ میں ابھی مکہ میں ہی رکوں تاآنکہ میں لوگوں کی امانتیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھیں وہ انہیں لوٹا دوں۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا پس میں نے تین دن مکہ میں قیام کیا، میں مکہ میں لوگوں کے سامنے رہا، ایک دن بھی نہیں چھپا۔ پھر میں وہاں سے نکلا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے چلا یہاں تک کہ بنو عمرو بن عوف کے ہاں پہنچا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں مقیم تھے۔ پس میں کلثوم بن ھدم کے ہاں مہمان ٹھہرا اور وہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام تھا۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۹۸ : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبري، ۳ / ۲۲.

۹۹. عَنْ جَعْفَرٍ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : عَلِيٌّ رضي الله عنه : بِتْنَا لَيْلَةً بِغَيْرِ عَشَاءٍ، فَأَصبَحْتُ فَخَرَجْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَي فَاطِمَةَ عليها السلام. وَهِيَ مَحْزُوْنَةٌ فَقُلْتُ : مَا لَکِ؟ فَقَالَتْ : لَمْ نَتَعَشَّ البَارِحًةَ وَلَمْ نَتَغَدَّ الْيَوْمَ، وَلَيْسَ عِنْدَنَا عَشَاءٌ، فَخَرَجْتُ فَالْتَمَسْتُ فَأَصَبْتُ مَا اشْتَرَيْتُ طَعَامًا وَلَحْمًا بِدِرْهَمٍ، ثُمَّ أَتَيْتُهَا بِهِ فَخَبَزَتْ وَطَبَخَتْ، فَلَمَّا فَرَغَتْ مِنْ إِنْضَاجِ الْقِدْرِ قَالَتْ : لَوْ أَتَيْتَ أَبِيْ فَدَعَوْتَهُ، فَأَتَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ مُضْطَجِعٌ فِي الْمَسْجِدِ وَهُوَ يَقُوْلُ : أَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الْجُوْعِ ضَجِيْعًا، فَقُلْتُ : بِأَبِيْ أَنْتَ وَأُمِّيْ يَارَسُوْلَ اﷲِ، عِنْدَنَا طَعَامٌ فَهَلُمَّ، فَتَوَکَّأَ عَلَيَّ حَتَّي دَخَلَ وَالْقِدْرُ تَفُوْرُ فَقَالَ : اغْرِفِيْ لِعَائِشَةَ فَغَرَفَتْ فِي صَحْفَةٍ، ثُمَّ قَالَ : اغْرِفِي لِحَفْصَةَ فَغَرَفَتْ فِي صَحْفَةٍ، حَتَّي غَرَفَتْ لِجَمِيْعِ نِسَائِهِ التِِّسْعِ، ثُمَّ قَالَ : اغْرِفِي لِأَبِيْکِ وَ زَوْجِکِ فَغَرَفَتْ فَقَالَ : اغْرِفِي فَکُلِيْ فَغَرَفَتْ، ثُمَّ رَفَعَتِ الْقِدْرَ وَإِنَّهَا لَتَفِيْضُ، فَأَکَلْنَا مِنْهَا مَاشَاءَ اﷲُ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَی.

’’امام جعفر بن محمد الباقر رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ ہم نے ایک رات بغیر شام کے کھانے کے گزاری پس میں صبح کے وقت گھر سے نکل گیا پھر میں فاطمہ کی طرف لوٹا تو وہ بہت زیادہ پریشان تھی میں نے کہا اے فاطمہ کیا بات ہے؟ تو اس نے کہا کہ ہم نے گذشتہ رات کھانا نہیں کھایا اور آج دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا اور آج پھر رات کے کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے پس میں باہر نکلا اور کھانے کے لئے کوئی چیز تلاش کرنے لگا پس میں نے وہ چیز پالی جس سے میں کچھ طعام اور ایک درہم کے بدلے گوشت خرید سکوں پھر میں یہ چیزیں لے کر فاطمہ کے پاس آیا، اس نے آٹا گوندھا اور کھانا پکایا اور جب ہنڈیا پکانے سے فارغ ہو گئی تو کہنے لگی اگر آپ میرے والد ماجد کو بھی بلا لائیں؟ پس میں گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں لیٹے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ اے اﷲ! میں بھوکے لیٹنے سے پناہ مانگتا ہوں پھر میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ہمارے پاس کھانا موجود ہے آپ تشریف لائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا سہارا لے کر اٹھے اور ہم گھر میں داخل ہو گئے۔اس وقت ہنڈیا ابل رہی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا : اے فاطمہ! عائشہ کے لئے کچھ سالن رکھ لو۔ پس فاطمہ نے ایک پلیٹ میں ان کے لئے سالن نکال دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حفصہ کے لئے بھی کچھ سالن نکال لو پس انہوں نے ایک پلیٹ میں ان کے لئے بھی سالن رکھ دیا یہاں تک کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نو ازواج کے لئے سالن رکھ دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے والد اور خاوند کے لئے سالن نکالو پس انہوں نے نکالا پھر فرمایا : اپنے لئے سالن نکالو اور کھاؤ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا پھر انہوں نے ہنڈیا کو اٹھا کر دیکھا تو وہ بھری ہوئی تھی پس ہم نے اس میں سے کھایا جتنا اللہ نے چاہا۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ (سبحان اﷲ)

الحديث رقم ۹۹ : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، ۱ / ۱۸۷.

باب۱۰

(۱۰)بَابٌ فِي کَوْنِهِ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَي اﷲِوَ رَسُوْلِهِ صلي الله عليه وآله وسلم

(لوگوں میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے زیادہ محبوب)

۱۰۰. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ : کَانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم طَيْرٌ فَقَالَ : اللَّهُمَّ ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِکَ إِلَيْکَ يَأْکُلُ مَعِيَ هَذَا الطَّيْرَ، فَجَاءَ عَلِيٌّ فَأَکَلَ مَعَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک پرندے کا گوشت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی یااﷲ! اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین شخص میرے پاس بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہ گوشت تناول کیا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۰۰ : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، ۵ / ۶۳۶، الحديث رقم : ۳۷۲۱، و الطبراني في المعجم الاوسط، ۹ / ۱۴۶، الحديث رقم : ۹۳۷۲، وابن حيان في الطبقات المحدثين بأصبهان، ۳ / ۴۵۴

۱۰۱. عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ : کَانَ أَحَبَّ النِّسَاءِ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَاطِمَةُ وَمِنَ الرِّجَالِ عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

’’حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا تھیں اور مردوں میں سے سب سے زیادہ محبوب حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۰۱ : أخرجه الترمذي في ابواب المناقب باب فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، ۵ / ۶۹۸، الحديث رقم : ۳۸۶۸، والطبراني في المعجم الاوسط، ۸ / ۱۳۰، الحديث رقم : ۷۲۵۸، والحاکم في المستدرک، ۳ : ۱۶۸، رقم : ۴۷۳۵.

۱۰۲. عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرِ التَّمِيْمِيِّ قَالَ دَخَلْتُ مَعَ عَمَّتِيْ عَلَي عَائِشَةَ فَسَئَلْتُ أَيُّ النَّاسِ کَانَ أَحَبَّ إِلٰي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَتْ فَاطِمَةُ، فَقِيْلَ مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَتْ زَوْجُهَا، إِنْ کَانَ مَا عَلِمْتُ صَوَّاماً قَوَّاما. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

’’حضرت جمیع بن عمیر تمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں اپنی خالہ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی خدمت میں حاضر ہوا پھر میں نے ان سے پوچھا لوگوں میں کون حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھے؟ انہوں نے فرمایا : حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا پھر عرض کیا گیا اور مردوں میں سے کون سب سے زیادہ محبوب تھا؟ فرمایا : اس کا خاوند اگرچہ مجھے ان کا زیادہ روزے رکھنا اور زیادہ قیام کرنا معلوم نہیں۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۰۲ : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، أبواب المناقب، باب فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، ۵ / ۷۰۱، الحديث رقم : ۳۸۷۴، والحاکم في المستدرک، ۳ / ۱۷۱.

۱۰۳. عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ اُمِّيْ عَلَي عَائِشَةَ فَسَمِعْتُهَا مِنْ وَرَائِ الْحِجَابِ وَهِيَ تَسْأَلُهَا عَنْ عَلِيٍّ فَقَالَتْ : تَسْأَلُنِيْ عَنْ رَجُلٍ وَاﷲِ مَا أَعْلَمُ رَجُلًا کَانَ أَحَبَّ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ عَلِيٍّ وَلَا فِيْ الْأَرْضِ إِمْرأَةٌ کَانَتْ أَحَبَّ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ إِمْرَأَتِهِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ

وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْأَسْنَادِ.

’’حضرت جمیع ابن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنی والدہ کے ہمراہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس حاضر ہوا، میں نے پردہ کے پیچھے سے آواز سنی ام المومنین میری والدہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھ رہی تھیں۔ انہوں نے فرمایا : آپ مجھ سے اس شخص کے بارے میں پوچھ رہی ہیں بخدا میرے علم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کوئی شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ محبوب نہ تھا اور نہ روئے زمین پر ان کی بیوی (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا) سے بڑھ کر کوئی عورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں محبوب تھی۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۰۳ : أخرجه الحاکم في المستدرک، ۳ / ۱۶۷، الحديث رقم : ۴۷۳۱، والنسائي في السنن الکبري، ۵ / ۱۴۰، الحديث رقم : ۸۴۹۷.

۱۰۴. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : کُنْتُ أَخْدِمُ رَسُوْلَ صلي الله عليه وآله وسلم فَقُدِّمَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَرْخٌ مَشْوِيٌ فَقَالَ : اللَّهُمَّ ائْتِنِيْ بِأَحَبِّ خَلْقِکَ إِلَيْکَ يَأْکُلُ مَعِيَ مِنْ هَذَا الطَّيْرِ قَالَ : فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ رَجُلاً مِنَ الْأَنْصَارِ فَجَاءَ عَلِيٌّ رضي الله عنه فَقُلْتُ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَليَ حَاجَّةٍ ثُمَّ جَاءَ فَقُلْتُ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلَي حاجَةٍ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : افْتَحْ فَدَخَلَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَا حَبَسَکَ عَلَيَّ فَقَالَ : إِنَّ هَذِهِ آخِرُ ثَلاَثِ کَرَّاتٍ يَرَدُّنِيْ أَنَسٌ يَزْعَمُ إِنَّکَ عَلَي حَاجَةٍ فَقَالَ : مَا حَمَلَکَ عَلَيَّ مَا صَنَعْتَ؟ فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ سَمِعْتُ دُعَاءَ کَ فَأَحْبَبْتُ أَنْ يَکُوْنَ رَجُلاً مِنْ قَوْمِيْ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ : إنَّ الرَّجُلَ قَدْ يُحِبُّ قَوْمَهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَي شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک بھنا ہوا پرندہ پیش کیا گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! میرے پاس اسے بھیج جو مخلوق میں تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دعا کی یا اﷲ! کسی انصاری کو اس دعا کا مصداق بنا دے، اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے کہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشغول ہیں۔ وہ واپس چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر تشریف لائے اور دروازہ کھٹکھٹایا، پھر میں نے کہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشغول ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ پھر آئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انس! اس کیلئے دروازہ کھول دو، وہ اندر داخل ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : تجھے کس نے میرے پاس آنے سے روکا؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ تین میں سے آخری بار ہے کہ انس مجھے یہ کہہ کر واپس کرتے رہے کہ آپ کسی کام میں مشغول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے میرے اس عمل کی وجہ دریافت کی تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے آپ کو دعا کرتے سن لیا تھا۔ پس میری خواہش تھی کہ یہ (خوش نصیب) شخص انصار میں سے ہو۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر آدمی اپنی قوم سے پیار کرتا ہے۔ اس حدیث کوامام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث شیخین کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۰۴ : أخرجه الحاکم في المستدرک، ۳ / ۱۴۱، الحديث رقم : ۴۶۵۰، و الطبراني في المعجم الأوسط، ۷ / ۲۶۷، الحديث رقم : ۷۴۶۶، والطبراني في المعجم الکبير، ۱ / ۲۵۳، الحديث رقم : ۷۳۰، والهيثمي في مجمع الزوائد، ۹ / ۱۲۶.

۱۰۵. عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : إِشْتَکَي عَلِيًّا النَّاسُ، قَالَ : فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِيْنَا خَطِيْبًا، فَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : أُيُهَا النَّاسُ! لاَ تَشْکُوْا عَلِيًّا، فَوَاﷲِ! إِنَّهُ لَأَخْشَنُ فِيْ ذَاتِ اﷲِ، أَوْ فِي سَبِيْلِ اﷲِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الْحَاکِمُ.

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی شکایت کی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو! علی کی شکایت نہ کرو، اللہ کی قسم وہ اللہ کی ذات میں یا اللہ کے راستہ میں بہت سخت ہے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہایہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۰۵ : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۳ / ۸۶، الحديث رقم : ۱۱۸۳۵، و الحاکم في المستدرک، ۳ / ۱۴۴، الحديث رقم : ۴۶۵۴، و ابن هشام في السيرة النبوية، ۶ / ۸.

۱۰۶. عَنْ أَبِيْ رَافِعٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَعَثَ عَلِيًّا مَبْعَثًا فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ وَ جِبْرِيْلُ عَنْکَ رَاضُوْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.

’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ بھیجا، جب وہ واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اللہ تعالیٰ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیل آپ سے راضی ہیں۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۰۶ : أخرجه الطبراني في المجعم الکبير، ۱ / ۳۱۹، الحديث رقم؛ ۹۴۶، والهيثمي في مجمع الزوائد، ۹ / ۱۳۱.