اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی0%

اصول دين سے آشنائی مؤلف:
زمرہ جات: عقائد لائبریری

اصول دين سے آشنائی

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22095
ڈاؤنلوڈ: 3948

تبصرے:

اصول دين سے آشنائی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22095 / ڈاؤنلوڈ: 3948
سائز سائز سائز
اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی

مؤلف:
اردو

پھر ایک دن جابر سے تنهائی میں ملاقات کی اور فرمایا:”اے جابر! جو لوح تم نے میری والد ہ گرامی حضرت فاطمہ بنت رسول الله(ص) کے هاته دیکھی تھی اور لوح پر لکہے ہوئے کے بارے میں جو میری مادر گرامی نے بتایا تھا، مجھے اس کے بارے میں بتاؤ۔“

جابر نے کها:”خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ رسول خدا(ص) کی زندگی میں آپ کی والدہ گرامی فاطمہ زهر ا سلام الله علیها کی خدمت میں حاضر ہو کر میں نے نہیں ولادتِ امامِ حسین(ع) کی مبارک باد دی۔ان کے هاتهوں میں سبز رنگ کی ایسی لوح دیکھی کہ جس کی بارے میں مجھے گمان ہوا کہ زمرد کی ہے اور اس میں سورج کے رنگ کی مانند سفید لکهائی دیکھی، ان سے کها: ” میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، اے دختر رسول خدا(ص) ! یہ لوح کیا ہے ؟“

تو آپ نے فرمایا: ”یہ لوح خدا نے اپنے رسول کو تحفہ دی ہے، اس میں میرے بابا، میرے شوہر،میرے دوبیٹوں اور میری اولاد میں سے اوصیاء کے نام ہیں اور بابانے یہ لوح مجھے عطا فرمائی ہے تاکہ اس کے ذریعے مجھے بشارت دیں۔“

جابر نے کها:” آپ کی والدہ گرامی حضرت فاطمہ (سلام الله علیها) نے وہ لوح مجھے دی، میں نے اسے پڑها اور اس سے ایک نسخہ اتارا۔“

میرے والد نے فرمایا:” اے جابر، کیا وہ نسخہ مجھے دکها سکتے ہو؟“

جابر نے کها:”هاں“،پھر میرے والد اس کے ساته اس کے گهر گئے، وہاں پهنچ کر نازک کهال پر لکها ہوا ایک صحیفہ نکالا اور فرمایا: ”اے جابر!جو میں بول رہاہوں تم اپنے نوشتے سے ملاتے جاو ۔ٔ“

جابر نے اپنے نسخہ پر نظر کی اور میرے والد نے اس کی قرائت کی، کسی ایک حرف میں بھی اختلاف نہ تھا۔ جابر کہتے ہیں:”خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ لوح میں اس طرح لکها ہوا دیکھا:

بسم الله الرحمن الرحیم۔

یہ تحریر خداوند عزیز وحکیم کی طرف سے محمد کے لئے ہے جو اس کا پیغمبر، اس کا نور، اس کا سفیر، اس کا حجاب اور اس کی دلیل ہے، کہ جسے روح الامین نے رب العالمین کی طرف سے نازل کیا ہے۔ اے محمد! میرے ناموں کی تنظیم کرو، میری نعمتوں کا شکر بجا لاؤاور میرے الطاف باطنی کا انکار نہ کرو، بے شک میں وہ خدا ہوں جس کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں،ظالموں کو توڑ دینے والا، مظلوموں کو حکومت عطا کرنے والا، جزا کے دن جزا دینے والا۔ بے شک میں ہی وہ خدا ہوں جس کے سوا کوئی دوسرا خدانہیں ہے، جو کوئی بھی میرے فضل کے علاوہ کسی چیز کا امیدوار ہو یا میرے عدل کے علاوہ کسی چیز کا خوف کهائے اسے ایسا عذاب دوں گا کہ دنیا والوں میں سے کسی کو اس طرح کا عذاب نہ دیا ہوگا۔ بس میری عبادت کرو اور مجه پر توکل کرو۔ بے شک ابھی تک میں نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا کہ اس کے دن پورے ہونے اور مدت گزرنے سے پهلے اس کا وصی مقرر نہ کردیا ہو۔بے شک میں نے تمہیں انبیاء پر اور تمهارے وصی کواوصیاء پر فضیلت دی ہے، حسن اور حسین جیسے دو سبط و شبل عطا کر کے تمہیں احترام بخشا ہے۔

پس حسن کو اس کے والدکی مدت پوری ہونے کے بعد اپنے علم کی معدن قرار دیاہے اور حسین کو میں نے اپنی وحی کا خزینہ دار قرار دیا ہے، اسے شهادت کے ذریعے عزت عطا کی، اس کا اختتام سعادت پرکیا، پس وہ تمام شهیدوں سے افضل ہے اور اس کا درجہ تمام شهداء سے بڑه کر ہے۔

اپنے کلمہ تامہ کو اس کے ساته اور اپنی حجت بالغہ کو اس کے پاس رکھا،اس کی عترت کے وسیلے سے ثواب دوں گا اور عقاب کروں گا۔ ان میں پهلا علی ہے جو سید العابدین اور میرے سابقہ اولیاء کی زینت ہے۔ اس کا فرزند محمد اپنے جد محمود کی شبیہ ہے، باقر، جو میرے علم کو شگافتہ کرنے والاہے اور میری حکمت کا معدن ہے۔ جعفر میں شک وتردید کرنے والے جلد ہی هلاک ہو جائیں گے اس کی بات ٹهکرانے والا ایسا ہے جیسے میری بات کو ٹهکرائے۔ میرا یہ قول حق ہے کہ جعفرکے مقام کو گرامی رکھتاہوں اوراسے،اس کے پیروکاروں، انصاراور دوستوں کے درمیان مسرور کروںگا۔اس کے بعد موسیٰ ہے کہ اس کے زمانے میں اندہا وتاریک فتنہ چها جائے گا، چونکہ میرے فرض کا رشتہ منقطع نہیں ہوتا اور میری حجت مخفی نہیں ہوتی، بے شک میرے اولیاء سر شار جام سے سیراب ہوں گے، جو کوئی ان میں سے کسی ایک کا انکار کرے اس نے میری نعمت کا انکار کیا ہے اور جو کوئی میری کتاب میں سے ایک آیت میں بھی رد و بدل کرے اس نے مجه پر بہتان باندہا ہے۔ میرے عبد، میرے حبیب اور میرے مختار، موسیٰ کی مدت تمام ہونے کے بعد وائے ہو علی کا انکار کرنے والوں اور اس پر بہتان باندہنے والوں پرجو میرا ولی،میرا مددگا ر ہے، نبوت کے سنگین بوجهوں کو اس کے کاندہوں پر رکھوں گا اور اس کی انجام دہی میں شدت وقوت سے آزماؤں گا، اسے ایک مستکبر عفریت قتل کرے گا اور جس شهر کی بنیاد، عبد صالح نے رکھی ہے اس میں بد ترین مخلوق کے پهلو میں دفن ہو گا۔ میرا یہ قول حق ہے کہ اسے اس کے فرزند محمد کے ذریعے مسرور کروں گا جو اس کے بعد اس کا خلیفہ اور اس کے علم کا وارث ہوگا، پس وہ میرے علم کا معدن، میرا رازداں اور خلق پر میری حجت ہے۔کوئی بھی اس پر ایمان نہیں لائے گا مگر یہ کہ بهشت کو اس کا مسکن بنادوںگا۔ اس کی شفاعت اس کے ستر اہل خانہ کے حق میں قبول کروں گا، جو آتش جهنم کے مستحق ہوچکے ہوں گے۔ اور سعادت کے ساته ختم کروں گا اس کے فرزند علی کے لئے جو میرا ولی،میرا مددگا ر، خلق کے درمیان میرا گواہ او رمیری وحی میں میرا امین ہے۔ اس سے اپنی راہ کی جانب دعوت دینے والا حَسن نکالوں گا، جو میرے علم کا خزینہ دار ہوگا اور اسے اس کے فرزند م ح م د سے کامل کروں گا ،جو رحمة للعالمین ہے، جس میں موسیٰ کا کمال،عیسیٰ کی هیبت اور صبر ایوب ہے۔ ا س کے زمانے میں میرے اولیاء ذلیل ہوں گے اور ان کے سر، ترک ودیلم کے سروں کی طرح لوگ ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیںگے۔ وہ مارے جائیں گے، جلائے جائیں گے، خوف زدہ، ڈرے ہوئے اور سهمے ہوئے ہوں گے، ان کے خون سے زمین رنگین ہوگی،ان کی عورتوں کی فریاد بلند ہوگی، حقا کہ وہ میرے اولیاء ہیں، ان کے ذریعے ہر اندہے فتنے کی تاریکی وسختی کو دور کروں گا۔ ان کے ذریعے زلزلوں کو کشف کردوںگا، بوجهوں اور زنجیروں کو دور کروں گا۔ یہ وہ ہیں جن پر ان کے پروردگا ر کی طرف سے صلوات اور رحمت ہے اور یهی ہدایت پانے والے ہیں۔“(۱)

حدیث مکمل کرنے کے بعد ابو بصیر نے عبد الرحمن بن سالم سے کها:” اگر ساری زندگی اس کے علاوہ کوئی دوسری حدیث نہ بھی سنو تویهی ایک حدیث تمهارے لئے کافی ہے، اسے نا اہل سے چهپا کر رکھنا۔“

اور ائمہ معصومین کی امامت پر اس سے کہیں زیادہ دلائل موجود ہیں، جنہیں ا س مختصر مقدمے میں نہیں سمویا جا سکتا، لیکن امامت کے اعلیٰ مقام کی معرفت کی غرض سے ایک روایت ذکر کر کے اس بحث کو ختم کرتے ہیںاور یہ روایت وہ ہے جسے شیخ المحدثین محمد بن یعقوب کلینی نے محمد بن یحیی سے (کہ نجاشی جس کی شان بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: شیخ ا صٔحابنا فی زمانہ، ثقة،عین،اور ان سے چه ہزار کے قریب روایات نقل کی ہیں)، انهوں نے احمد بن محمد بن عیسٰی سے (جو شیخ القمیین ووجههم وفقیههم غیر مدافع اور امام رضا، امام تقی وامام نقی علیهم السلام کے صحابی تھے)،انهوں نے حسن بن محبوب سے (جو اپنے زمانے کے ارکان اربعہ میں سے ایک اور ان فقهاء میں سے ہیں کہ جن تک صحیح سند اگر پهنچ جائے تو ان کی منقولہ روایت کی صحت پر اجماع ہے۔)، انهوں نے اسحاق بن غالب سے (بطور خاص توثیق کے علاوہ جن کی شان یہ ہے کہ صفوان بن یحیی جیسی عظیم شخصیت نے ان سے روایات نقل کی ہیں)، انهوں نے ابی عبد الله(ع) کے خطبے سے روایت نقل کی ہے، جس میں حضرت نے احوال وصفات ائمہ کو بیان کیا ہے۔ چونکہ کلام امام میں موجود خاص لطافت قابل توصیف نہیں ہے لہٰذا یهاں پر خود متن کاکچھ حصہ ذکر کرتے ہیں:

((عن ا بٔی عبداللّٰه علیه السلام فی خطبة له یذکر فیها حال الا ئٔمة علیهم السلام و صفاتهم: إنّ اللّٰه عز و جل ا ؤضح با ئٔمة الهدی من ا هٔل بیت نبینا عن دینه، و ا بٔلج بهم عن سبیل منهاجه، و فتح بهم عن باطن ینابیع علمه، فمن عرف من ا مُٔة محمد(ص) واجب حق امامه، وجد طعم حلاوة ایمانه، و علم فضل طلاوة اسلامه، لا نٔ اللّٰه تبارک و تعالی نصب الامام علماً لخلقه، و جعله حجة علی ا هٔل مواده و عالمه، و ا لٔبسه اللّٰه تاج الوقار، و غشاه من نور الجبار، یمد بسبب الی السماء، لا ینقطع عنه مواده، و لا ینال ما عند اللّٰه الا بجهة اسبابه، و لا یقبل اللّٰه ا عٔمال العباد إلاّ بمعرفته، فهو عالم بما یرد علیه من ملتبسات الدجی، و معميّات السنن، و مشبّهات الفتن، فلم یزل اللّٰه تبارک و تعالی یختارهم لخلقه من ولد الحسین(ع) من عقب کل إمام یصطفیهم لذلک و یجتبیهم، و یرضی بهم لخلقه و یرتضیهم، کلّ ما مضی منهم إمام نصب لخلقه من عقبه إماماً علما بيّناً، و هادیاً نيّراً و إماماً قيّماً، و حجة عالماً، ا ئٔمة من اللّٰه، یهدون بالحق و به یعدلون، حجج اللّٰه و دعاته و رعاته علی خلقه، یدین بهدیهم العباد و تستهل بنورهم البلاد، و ینمو ببرکتهم التلاد، جعلهم اللّٰه حیاة للا نٔام، و مصابیح للظلام، و مفاتیح للکلام، و دعائم للإسلام، جرت بذلک فیهم مقادیر اللّٰه علی محتومها ۔

فالإمام هو المنتجب المرتضی، و الهادی المنتجی، و القائم المرتجی، اصطفاه اللّٰه بذلک و اصطنعه علی عینه فی الذرّ حین ذرا هٔ، و فی البریة حین برا هٔ، ظلا قبل خلق نسمة عن یمین عرشه، محبوّاً بالحکمة فی علم الغیب عنده، اختاره بعلمه، و انتجبه لطهره، بقیة من آدم (ع)و خیرة من ذریة نوح، و مصطفی من آل

____________________

۱ اصول کافی، ج ۱، ص ۵۲۷ (ماجاء فی الاثنا عشر)

إبراهیم، و سلالة من إسماعیل، و صفوة من عترةمحمد(ص) لم یزل مرعيّاً بعین اللّٰه، یحفظه و یکلئه بستره، مطروداً عنه حبائل إبلیس و جنوده، مدفوعاً عنه وقوب الغواسق و نفوث کل فاسق، مصروفاً عنه قوارف السوء، مبرّئاً من العاهات، محجوباً عن الآفات، معصوماً من الزّلات، مصوناً عن الفواحش کلها، معروفاً بالحلم و البرّ فی یفاعه، منسوباً إلی العفاف و العلم و الفضل عند انتهائه، مسنداً إلیه ا مٔر والده، صامتاً عن المنطق فی حیاته فإذا انقضت مدّة والده، إلی ا نٔ انتهت به مقادیر اللّٰه إلی مشیئته، و جائت الإرادة من اللّٰه فیه إلی محبته، و بلغ منتهی مدة والده(ع) فمضی و صار ا مٔر اللّٰه إلیه من بعده، و قلده دینه، و جعله الحجة علی عباده، و قیمه فی بلاده، و ا ئّده بروحه، و آتاه علمه، و ا نٔبا هٔ فصل بیانه، و استودعه سرّه، و انتدبه لعظیم ا مٔره، و ا نٔبا هٔ فضل بیان علمه، و نصبه علماً لخلقه، و جعله حجة علی ا هٔل عالمه، و ضیاء لا هٔل دینه، و القیم علی عباده، رضی اللّٰه به إماماً لهم ))(۱)

____________________

۱ اصول کافی، ج ۱، ص ۲۰۳ ، کتاب الحجة، باب نادر جامع فی فضل الامام و صفاتہ، حدیث ۲۔

(بے شک خداوندعالم نے ہم اہل بیت میں سے رہبران ہدایت کے ذریعہ اپنے دین کو واضح اور اپنی راہ کو روشن کیا ہے، اور اپنے علم کے باطنی چشموں کو ان کے ذریعہ جاری کئے ہیں، لہٰذا امت محمدی میں سے جو شخص اپنے امام کے واجب حق کو پہچانے تو ایسا شخص اپنے ایمان کی شیرینی کا مزہ حاصل کرے گا، اپنے اسلام کی فضیلت کی مسرت تک پهنچ جائے گا، کیونکہ خداوندعالم نے امام کو اپنی مخلوق کے لئے نشانی قرار دیا ہے اور اس کو کائنات اور اہل فیض پر حجت قرار دیا ہے، وقار کا تاج ان کے سر پر رکھا اور اس پر نورِ جبّار کا سایہ کیا ہے۔

وہ ایک سبب کے ذریعہ آسمان کی طرف پرواز کرتا ہے، اس سے فیض و کرم کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا، اور خداوندعالم کے پاس موجود چیزوں کو اس کے وسیلہ کے علاوہ حاصل نہیں کیا جاسکتا، نیز خداوندعالم اپنے بندوں کے اعمال کو اس کی معرفت کے بغیر قبول نہیں کرتا۔

پس وہ تاریکی کی مشکلات کا عالم ہے اور سنت کے معمّوںاور فتنوں کی مشتبہ چیزوں کو جانتا ہے۔

خداوندعالم نے ہمیشہ مخلوق کے لئے امام حسین علیہ السلام کی نسل سے یکے بعد دیگرے امام کو انتخاب کیا ہے،

اور ان کو مخلوق کے امور کے لئے انتخاب کیا ہے نیز خداوندعالم ان کے ذریعہ سے اپنی مخلوق سے راضی اور اپنی مخلوق کو قبول کرتا ہے۔

جب ان میں سے کوئی ایک رحلت کرتا ہے تو اس امام کی اولاد میں سے ایک بزرگوار امام ظاہر ، نور بخش رہبر،سرپرست پیشوا اور عالم کو مخلوق کے لئے حجت معین فرماتا ہے، ایسے رہبر جو خدا کی طرف سے حق کی طرف ہدایت کرنے والے ہیں، اور حق و انصاف کے ساته فیصلے کرتے ہیں، اور لوگوں کو صراط مستقیم پر قائم رکھتے ہیں، خدا کی حجتیں، اس کی طرف دعوت دینے والے اور مخلوق کی تدبیر کرنے والے خدا کی طرف سے معین ہوتے ہیں، خدا کے بندے ان کی ہدایت کے ذریعہ دیندار ہوتے ہیں اور ان کے نور سے شهر روشن و منور ہوتے ہیں، اور ان کی برکت سے پرانی دولت رشد و نمو کرتی ہے۔

خداوندعالم نے ان حضرات کو لوگوں کے لئے (باعث) حیات، اندہیروں میں چراغ، کلام کی کنجی، اور اسلام کی بنیاد قرار دیا ہے، خداوندعالم کے حتمی مقدرات انہیں حضرات کے ذریعہ جاری ہوتے ہیں۔

لہٰذا امام ، وہی پسندیدہ منتخب ، اسرار الٰهی کی طرف ہدایت کرنے والا اور ایسا قائم ہے جس کی طرف امیدیں لگی ہوئی ہیں، خداوندعالم نے اس کے ذریعہ ان کو منتخب کیا ہے، اور جب خداوندعالم نے اس کو عالم ذرّ میں خلق فرمایا تو اپنی (خاص) نظر سے خلق فرمایا، اور مخلوق اور جاندار کو خلق کرنے سے پهلے عرش یمین کے زیر سایہ ان کو اس حال میں خلق فرمایاکہ ان کو اپنے علم غیب کی حکمت سے نوازا، اور ان کو اپنے علم کے لئے اختیار کیا اور ان کی طهارت کی وجہ سے انتخاب کیا، اس حال میں کہ وہ حضرت آدم کی نسل سے باقی رہنے والا اور ذریت نوح سے انتخاب شدہ اور آل ابراہیم سے منتخب شدہ نسل اسماعیل سے اور عترت محمد(ص) سے منتخب شدہ ہے۔

همیشہ خداوندعالم ان کی حفاظت کرتا ہے، اور اپنے پردہ سے حفاظت کرتا ہے، حالانکہ شیطانی جال اور اس کے لشکر کو ان سے دور رکھا گیا ہے، ہر فاسق کے خطرہ اور دیگر خطرات سے ان کی حفاظت کی گئی ہے، اور بری نیت والوں کے ارادوں کو دفع کیا گیا ہے، فتنہ و فساد سے پاک، آفتوں سے دور، خطاؤں سے معصوم اور تمام برائیوں سے محفوظ ہے۔

امام اپنی جوانی میں حلم اور نیک کام میں مشهور، اور بوڑهاپے میں عفت و علم اور فضیلت سے منسوب ہوتا ہے،اس کی طرف اس کے والد کی طرف سے مستند اور ان کی حیات میں گفتگو کرنے سے خاموش رہتے ہیں، اور جب ان کے والد کی امامت کی مدت ختم ہوتی ہے، یهاں تک کہ اس کی نسبت تقدیر الٰهی تمام ہوجائے، اور خدا کا ارادہ ان کو ان کی محبت کی طرف کهینچتا ہے، اور جب ان کے پدر گرامی کی مدت (امامت) ختم ہوجاتی ہے، اور ان کی رحلت ہوجاتی ہے،

جن کے بعد خدا کا امر اس کی طرف منتقل ہوتا ہے، اور خدا اپنے دین کی باگ ڈور ان کے حوالہ کردیتا ہے، اور اس کو بندوں پر اپنی حجت اور اپنے ملک پر سرپرست قرار دیتا ہے، اور اپنی روح سے اس کی تائید کرتا ہے، اور اپنا علم اس کو عطا کرتا ہے، اور اس کو اپنے بیان فصل (جو حق کو باطل سے الگ کردیتا ہے) کی خبر دیتا ہے، اور اپنے اسرار سے آگاہ کرتا ہے، اور اس کو اپنے عظیم امر کے لئے دعوت دیتا ہے، اور اپنے بیان علم کی فضیلت سے آگاہ کرتا ہے، اور اس کو اپنی مخلوق کے نشانی قرار دیا ہے، اہل کائنات کے لئے حجت، اپنے دین والوں کے نور، اور اپنے بندوں کا سرپرست قرار دیا ہے، اور اس کو امت کی امامت کے لئے پسند کرتا ہے۔

اگر چہ اس حدیث کا ہر جملہ مفصل تشریح کا طالب ہے، لیکن ہم یهاں بعض جملوں سے متعلق چند نکات ذکر کرتے ہیں:

الف۔پهلے جملے میں امام(ع) نے ائمہ ہدیٰ کو خطبے کا موضوع قرار دیا،کیونکہ امت کے لئے وجود امام کی ضرورت واضح ہے( يَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ ا نَُٔاسٍ بِإِمَامِهِمْ ) (۱) اور امت کے امام کا امامِ ہدایت ہونا ضروری ہے جیسا کہ خداوند متعال نے فرمایا:( وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ ا ئَِٔمَّةً يَّهْدُوْنَ بِا مَْٔرِنَا ) (۲) ،( إِنَّمَا ا نَْٔتَ مُنْذِرٌ وَّلِکُل قَوْمٍ هَادٍ ) (۳) اور امامِ ہدایت کی معرفت، معرفتِ ہدایت پر متوقف ہے۔معرفتِ ہدایت کے لئے اس موضوع سے متعلق قرآن مجید میں موجود ان آیات میں تدبر وتفکر ضروری ہے جن کی تعداد تقریبا دو سونوے ہے۔ اس مقدمے میں ان کی تشریح کرنا مشکل ہے، اس لئے کہ ہدایت، کمالِ خلقت ہے( قَالَ رَبُّنَا الَّذِی ا عَْٔطیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَه ثُمَّ هَدیٰ ) (۴) ،( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ اْلا عَْٔلیٰ ة اَلَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی ة وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَهَدیٰ ) (۵) اور مخلوق میں ہر ایک کی ہدایت اس کی خلقت کے تناسب سے ہے۔ اب چونکہ خلقتِ انسان کی اساس احسن تقویم ہے،لہٰذا اس کی ہدایت بھی عالم امکان کا سب سے بڑا کمال اور اشرف المخلوقات کو عنایت کی جانے والی بزرگترین نعمت ہے۔( وَيُتِمَّ نِعْمَتَه عَلَيْکَ وَيَهْدِيَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا ) (۶) امام(ع)نے ((ائمہ ہدی))فرما کر مقام امامت کی عظمت کو بیان فرمایا، بلکہ اہل نظر کے لئے تو امام کی خصوصیات کو واضح کردیا کہ ایسے ملزوم کے لئے کن لوازم کی ضرورت ہے۔ پھر اس اجمال کے بعد تفصیل بیان کی، دین میں امام کے کردار پر روشنی ڈالی کہ خداوند متعال نے اپنے قانون کی تفسیر کا حق ایسی مخلوق کو عطا نہیں کیا جن کی آراء میں خطا اور اختلاف پایا جاتا ہے، اس لئے کہ ان دو آفتوںسے تشریع دین کی غرض نقض ہو جائے گی اور امت، نورِ ہدایت کی بجائے گمراہی کی تاریک وادیوں میں بهٹک جائے گی، بلکہ پروردگا رعالم نے اصول وفروع دین میں، انسان کے لئے پیش آنے والے مبهم نقاط کو ائمہ ہدیٰ کے ذریعے دور کیا ہے ((ا نٔ اللّٰه عزوجل ا ؤضح با ئٔمة الهدی من ا هٔل بیت نبینا عن دینه ))

ب۔چونکہ فطری تقاضے کے مطابق انسان اپنے خالق اورپروردگا ر عالم کی تلاش وجستجو میں ہے اور یہ فطرت راہ خداتک،جوکہ دین خدا ہے، پهنچے اور اس پر ثابت قدم رہے بغیر اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتی( قُلْ هٰذِه سَبِيْلِی ا دَْٔعُوْا إِلَی اللّٰهِ عَلیٰ بَصِيْرَةٍ ا نََٔا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ ) (۷) اور چونکہ اشتباہات اور خواہشاتِ نفسانی جیسے راہ خدا سے منحرف کرنے والے اسباب او ر شیاطینِ جن وانس جیسے لٹیرے،هر وقت موجود ہیں( وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِيْلِه ) (۸) ،( اِشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللّٰه ثَمَنًا قَلِيْلاً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِه إِنَّهُمْ سَآءَ مَاکَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) (۹) لہٰذا تکوین فطرت کی غرض یعنی خدا تک رسائی کے حصول اور دین کی سیدہی راہ، جو خدا تک رسائی کی راہ ہے، کی تشریع کے لئے، ایک ایسے هادی ورہبر کی ضرورت ہے جس کے نور سے یہ ہدف ومقصد پایہ تکمیل تک پهنچ سکے ((وابلج عن سبیل منهاجه ))۔

____________________

۱ سورہ اسراء، آیت ۷۱ ۔”قیامت کا دن وہ ہوگا جب ہم ہر گروہ انسانی کو اس کے امام کے ساته بلائیں گے“۔

۲ سورہ سجدہ، آیت ۲۴ ۔”اور ہم نے ان میں سےکچھ لوگوں کو امام اور پیشوا قرار دیا ہے جو ہمارے امر سے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں“۔

۳ سورہ رعد، آیت ۷۔”آپ کہہ دیجئے کہ میں صرف ڈرانے والا ہوں اور ہر قوم کے لئے ایک هادی اور رہبر ہے“۔

۴ سورہ طہ، آیت ۵۰ ۔”موسیٰ نے کها کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شئے کو اس کی خلقت عطا کی ہے اور پھر ہدایت بھی دی ہے“۔

۵ سورہ اعلیٰ، آیت ۱تا ۳۔”اپنے بلند ترین رب کے نام کی تسبیح کرو۔جس نے پیدا کیا ہے اور درست بنایا ہے ۔ جس نے تقدیر معین کی ہے اور پھر ہدایت دی ہے“۔

۶ سورہ فتح، آیت ۲۔”اور آپ پر اپنی نعمت کو تمام کر ے اور آپ کو سیدہے راستہ پر ثابت قدم رکہے“۔

۷ سورہ یوسف، آیت ۱۰۸ ۔”آپ کہہ دیجئے کہ یهی میرا راستہ ہے کہ میں بصیرت کے ساته خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں میں اور میری اتباع کرنے والا“۔

۸ سورہ انعام، آیت ۱۵۳ ۔”اور دوسرے راستوں کے پیچہے نہ جاو کٔہ راہ خدا سے الگ ہو جاو گٔے“۔

۹ سورہ توبہ، آیت ۹۔”انهوں نے آیات الٰهیہ کے بدلے بہت تهوڑی سی منفعت کو لے لیا ہے اور اب راہ خدا سے روک رہے ہیں۔ یہ بہت براکام کر رہے ہیں“۔

ج۔انسان میں خلقتِ عقل کی غرض، علم ومعرفت کی حقیقت تک پهنچنا ہے اور ذاتِ انسان کی،خالقِ عقل وادراک سے یہ استدعا ہے کہ پروردگارا! ہر چیز کی حقیقت کو جیسی ہے ویسی ہی مجه پر نمایاں کر دے۔ وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ کهاں سے آیا ہے ؟ کهاں ہے؟ کس طرف جارہا ہے؟ اس کے وجود اور کائنات کا آغاز وانجام کیا ہے؟اور ادراکِ انسان کی یہ پیاس، علمِ الٰهی جیسے آبِ حیات کو حاصل کئے بغیر نہیں بجه سکتی، ور نہ حکمت کا آخری مرحلہ بھی جو حیرةالکمل(کامل ترین افراد کے لئے مقام تحیر ہے) کا مقام ہے،اس کے سواکچھ نہیںہے کہ انسان یہ جان لے کہ میںنہیں جانتا۔یهی وجہ ہے کہ ایک ایسے الٰهی انسان کے وجود کی ضرورت ہے جو علومِ الٰهی کے سرچشموں کا وارث ہو،تاکہ تشنگانِ حقیقت اس کے هاتهوں سیراب ہوں اور خلقتِ عقل وادراک کی غرض حاصل ہو، جیسا کہ امام نے ایک معتبر نص میں فرمایا ہے :((من زعم ا نٔ اللّٰه یحتج بعبد فی بلاده ثم یستر عنه جمیع ما یحتاج إلیه فقد افتری علی اللّٰه ))(۱)

یقینا یہ سمجهنا کہ خداوند متعال کسی کو اپنے بندے پرحجت قرار دے اوروہ تمام چیزیں جن کی اسے ضرورت ہے، اپنی حجت سے چهپالے اور ان کا علم اسے عطا نہ کرے تو یہ ایک ایسی تهمت ہے جو لامتناہی علم،قدرت اور حکمت کی عدم شناخت کی بنا پر لگائی گئی ہے ۔ اسی لئے فرمایا:((و فتح بهم عن باطن ینا بیع علمه ))۔

د۔((والبسه تاج الوقار ))علم اور قدرت ہے جو امام کے سر پر وقار کا تاج ہے،((فدلالة الامام فیما هی؟ قال:فی العلم واستجابة الدعوة ))(۲) اس لئے کہ انسان کے اضطراب اور پستی کی وجہ اس کا عجز اور اس کی جهالت ہے اور چوںکہ امام، کتاب خدا کا معلم ہے، جب کہ حدیث ثقلین کی صریح نص کے مطابق، کتاب خدا اور امام ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہو سکتے اور اس آیت( وَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَاب تِبْيَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ ) (۳) کے مطابق، قرآن ہر چیز کو بیان کرنے والا ہے،لہٰذا ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ قرآن میں موجود تمام علوم پر احاطہ نہ رکھتا ہو اور یہ بات اس معتبر حدیث سے ثابت ہے ((عن ابن بکیر عن ابی عبد اللّٰه(ع) قال:کنت عنده فذکرواسلیمان وما ا عٔطی من العلم وما ا ؤتی من الملک، فقال(ع) لی:وما ا عٔطی سلیمان ابن داود إنما کان عنده حرف واحد من الإسم الا عٔظم، وصا حبکم الذی قال اللّٰه قل کفی باللّٰه شهیدا بینی وبینکم ومن عنده علم الکتاب، وکان واللّٰه عند علیٍّ علم الکتاب، فقلت:صدقت واللّٰه، جعلت فداک ))امر الله سے مرتبط ہونے کی بنا پر امام(۴) مستجاب الدعوہ ہے اوراسی علم وقدرت کی وجہ سے تاج وقا ر، امام کے سر مبارک کی زینت ہے۔

ہ۔((وغشاه من نور الجبار )) لفظ نور،اسم مقدس جبار کی طرف اضافہ ہواہے۔اسماء الٰهی کی جانب اضافہ ہونے والا ہر اسم اضافے کی وجہ سے اسی اسم کی خصوصیات کسب کرلیتاہے اور خداوند عالم جبار ہونے کے ناطے ہر ٹوٹ پهوٹ کا مداوا کرنے والا ہے ((یا جابر العظم الکسیر ))(۵) ، امام کے وجود کو نورِ جبار کے نور سے منور کیا گیا ہے تاکہ پیکرِ اسلام ومسلمین میں پڑنے والی دراڑوں کا اس نور کے ذریعے مداوا و ازالہ کرسکے۔

و۔((ائمة من اللّٰه یهدون بالحق وبه یعدلون )) امام وہ ہے جو خدا کے اختیار سے مختار، اس کے برگزیدہ کرنے سے مصطفی اور اس کے انتخاب سے امامت ورہبری کے لئے مجتبی ہے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ ایک امام کی رحلت کے بعد پروردگار عالم دوسرا امام نصب کرے جو واضح علامت،راہِ دین کو روشن کرنے والا هادی، سرپرستی کرنے والا رہبر اور صاحب علم حجت ہو تاکہ خلقتِ انسان اور بعثتِ انبیاء کی غرض جو دو کلموںمیں خلاصہ ہوتی ہے، حاصل ہوسکے اور وہ دو کلمے،حق کی جانب ہدایت اور حق کے ساته عدالت کا برقرار کرنا ہے جو نظری اور عملی حکمت کا لب لباب اور انسان کے ارادے وعقل کا نقطہ کمال ہے اور ان دو کا تحقق سوائے ایسی عقل، جو ہر چیز کو اس کی

____________________

۱ بحار الانوار، ج ۲۶ ، ص ۱۳۹ ۔

۲ بحار الانوار، ج ۲۵ ، ص ۱۲۴ ۔”امام کی پہچان کس چیز میں ہے فرمایا:علم اور دوسروں کی مشکل کو حل کرنے میں“۔

۳ سورہ نحل، آیت ۸۹ ۔”اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جس میں ہر شئے کی وضاحت موجود ہے“۔

۴ بحار الانوار، ج ۲۶ ، ص ۱۷۰ ۔”ابن بکیر سے روایت ہے کہ میں چھٹے امام کے پاس تھا کہ سلیمان پیغمبر اور ان کو عطا شدہ علم وملک کا تذکرہ نکل آیا تو حضرت نے فرمایا جوکچھ ان کو عطا ہوا تھا وہ صرف اسم اعظم کا ایک حرف تھا اور تمهارے مولا کے بارے میں خدا فرماتا ہے( قل کفیٰ بالله شهیداً بینی و بینکم ومن عند ه علم الکتاب ) خدا کی قسم علی علیہ السلام کے پاس پوری کتاب کا علم تھا۔ میں نے جواب دیا خدا کی قسم سچ فرمایا میری جان فدا ہو آپ پر“۔

۵ بحار الانوار، ج ۱۲ ، ص ۳۱۹ ۔”وہ ٹوٹی ہوئی ہڈی کو جوڑنے والے“۔

حقیقت کے ساته جان لے، اور ایسے ارادے، جو ہر کام کو اس کی اصل وحقیقت کے مطابق انجام دے،کے بغیر نا ممکن ہے جو علمی اور عملی عصمت کا منصب ہے، لہٰذا فرمایا((ا ئٔمة من اللّٰه یهدون بالحق وبه یعدلون ))

ز۔((اصطفاه اللّٰه بذلک واصطنعه علی عینه فی الذرحین ذرا هٔ)) امام وہ ہے جس کے گوہرِ وجود کو خود پروردگار عالم نے عالم ذرّ میں عرش کے دائیں بنایا، اپنی نگرانی میں اس کی تربیت فرمائی اور علم غیب کے ذریعے جو اس ذات مقدس کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں( إِلاَّ مَنِ ارْتَضٰی مِن رَّسُوْلٍ ) (۱) اسے حکمت عطا کی ہے۔خلقت میں نسب کے اعتبار سے ذریت نوح کا بہترین، آل ابراہیم کا برگزیدہ، سلالہ اسماعیل اور عترت محمد سے منتخب شدہ ہے۔

اس کا جسم تمام عیوب سے منزہ، جب کہ روح ہر قسم کی لغزش سے معصوم اور ہر گناہ سے محفوظ ہے۔

ابلیس، جس نے کها تھا کہ( فَبِعِزَّتِکَ لَا غُْٔوِيَنَّهُمْ ا جَْٔمَعِيْنَ ة إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ ) (۲) امام کی مقدس ذات سے اس قدرت کی وجہ سے دور ہے کہ( إِنَّ عِبَادِیْ لَيْسَ لَکَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ) (۳)

((وصار ا مٔر اللّٰه إلیه من بعد ))،وہ امر الله کو جو ایک امام کے بعد دوسرے کو نصیب ہوتا ہے،

چھٹے امام (ع)نے حدیث صحیحہ میں یوں بیان فرمایاہے :((إن اللّٰه واحد متوحد بالواحدانیة، متفرد بامره فخلق خلقا فقدره لذلک الامر، فنحن هم یابن ابی یعفور، فنحن حجج اللّٰه فی عباده وخزانه علی علمه والقائمون بذلک ))(۴)

ح۔((وا ئده بروحه )) جس روح کے ساته خدا نے امام کی تائید فرمائی ہے یہ وہ روح ہے جسے ابو بصیر نے حدیث صحیحہ میں بیان کیا ہے :”میں نے ابی عبد الله(ع) کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

( وَيَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قَلِ الرُّوْحُ مِنْ ا مَْٔرِ رَبِّی ) (۵) جو جبرئیل ومکائیل سے بھی اعظم مخلوق ہے۔ گذشتگان میں سے محمد(ص) کے علاوہ کسی اور کو عطانہیں کی گئی اور وہ روح اب ائمہ کے پاس ہے جو استقامت وثابت قدمی میں ان کی مدد کرتی ہے۔“(۶)

((وآتاه علمه ))اور اسے اپنا علم عطا فرمایا ہے۔امام محمد باقر(ع) سے مروی صحیح نص کے مطابق خدا کے دو علم ہیں، ایک علم وہ ہے جسے اس کی ذات کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا اور دوسرا علم وہ ہے جسے اس ذات اقدس نے ملائکہ وپیغمبران علیهم السلام کو تعلیم فرمایا ہے اور جس علم کی ملائکہ وانبیاء علیهم السلام کو تعلیم دی ہے، امام اس سے آگاہ ہے(۷)

____________________

۱ سورہ جن ، آیت ۲۷ ۔”مگر جس کو پیغمبر پسند فرمائے“۔

۲ سورہ ص، آیت ۸۲ ۔ ۸۳ ۔”اس نے کها تو پھر تیری عزت کی قسم ، ان میں سے تیرے خالص بندوں کے سوا سب کو ضرور گمراہ کروں گا۔

۳ سورہ حجر، آیت ۴۲ ۔”میرے بندوں پر تیرا کوئی اختیار نہیں ہے“۔

۴ کافی ج ۱ ص ۱۹۳ ۔(چھٹے امام ایک حدیث میں فرماتے ہیں خدا ایک ہے اپنی وحدانیت کے ساته اپنے امر وحکم کے سبب تک و تنها ہے تو اس نے خلق کیا ایک مخلوق کو پھر اپنے امر کی خاطر ان کو معین کیا اب ہم لوگ وہی لوگ ہیں اے ابن ابی یعفور !هم خدا کی حجت ہیں ہم اس کے بندوں کے درمیان اور ہم اس کے علم کے خزانہ دار ہیں اور ہمارا قیام و ثبات اسی کی ذات پر ہے ۔

۵ سورہ اسراء، آیت ۸۵ ۔ ”اور پیغمبر یہ آپ سے روح کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ دیجئے کہ یہ میرے پروردگار کا ایک امر ہے“۔

۶ اصول کافی،ج ۱، ص ۲۷۳ ۔

۷ بحار الانوار، ج ۲۶ ، ص ۱۶۳ ۔