(بے شک خداوندعالم نے ہم اہل بیت میں سے رہبران ہدایت کے ذریعہ اپنے دین کو واضح اور اپنی راہ کو روشن کیا ہے، اور اپنے علم کے باطنی چشموں کو ان کے ذریعہ جاری کئے ہیں، لہٰذا امت محمدی میں سے جو شخص اپنے امام کے واجب حق کو پہچانے تو ایسا شخص اپنے ایمان کی شیرینی کا مزہ حاصل کرے گا، اپنے اسلام کی فضیلت کی مسرت تک پهنچ جائے گا، کیونکہ خداوندعالم نے امام کو اپنی مخلوق کے لئے نشانی قرار دیا ہے اور اس کو کائنات اور اہل فیض پر حجت قرار دیا ہے، وقار کا تاج ان کے سر پر رکھا اور اس پر نورِ جبّار کا سایہ کیا ہے۔
وہ ایک سبب کے ذریعہ آسمان کی طرف پرواز کرتا ہے، اس سے فیض و کرم کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا، اور خداوندعالم کے پاس موجود چیزوں کو اس کے وسیلہ کے علاوہ حاصل نہیں کیا جاسکتا، نیز خداوندعالم اپنے بندوں کے اعمال کو اس کی معرفت کے بغیر قبول نہیں کرتا۔
پس وہ تاریکی کی مشکلات کا عالم ہے اور سنت کے معمّوںاور فتنوں کی مشتبہ چیزوں کو جانتا ہے۔
خداوندعالم نے ہمیشہ مخلوق کے لئے امام حسین علیہ السلام کی نسل سے یکے بعد دیگرے امام کو انتخاب کیا ہے،
اور ان کو مخلوق کے امور کے لئے انتخاب کیا ہے نیز خداوندعالم ان کے ذریعہ سے اپنی مخلوق سے راضی اور اپنی مخلوق کو قبول کرتا ہے۔
جب ان میں سے کوئی ایک رحلت کرتا ہے تو اس امام کی اولاد میں سے ایک بزرگوار امام ظاہر ، نور بخش رہبر،سرپرست پیشوا اور عالم کو مخلوق کے لئے حجت معین فرماتا ہے، ایسے رہبر جو خدا کی طرف سے حق کی طرف ہدایت کرنے والے ہیں، اور حق و انصاف کے ساته فیصلے کرتے ہیں، اور لوگوں کو صراط مستقیم پر قائم رکھتے ہیں، خدا کی حجتیں، اس کی طرف دعوت دینے والے اور مخلوق کی تدبیر کرنے والے خدا کی طرف سے معین ہوتے ہیں، خدا کے بندے ان کی ہدایت کے ذریعہ دیندار ہوتے ہیں اور ان کے نور سے شهر روشن و منور ہوتے ہیں، اور ان کی برکت سے پرانی دولت رشد و نمو کرتی ہے۔
خداوندعالم نے ان حضرات کو لوگوں کے لئے (باعث) حیات، اندہیروں میں چراغ، کلام کی کنجی، اور اسلام کی بنیاد قرار دیا ہے، خداوندعالم کے حتمی مقدرات انہیں حضرات کے ذریعہ جاری ہوتے ہیں۔
لہٰذا امام ، وہی پسندیدہ منتخب ، اسرار الٰهی کی طرف ہدایت کرنے والا اور ایسا قائم ہے جس کی طرف امیدیں لگی ہوئی ہیں، خداوندعالم نے اس کے ذریعہ ان کو منتخب کیا ہے، اور جب خداوندعالم نے اس کو عالم ذرّ میں خلق فرمایا تو اپنی (خاص) نظر سے خلق فرمایا، اور مخلوق اور جاندار کو خلق کرنے سے پهلے عرش یمین کے زیر سایہ ان کو اس حال میں خلق فرمایاکہ ان کو اپنے علم غیب کی حکمت سے نوازا، اور ان کو اپنے علم کے لئے اختیار کیا اور ان کی طهارت کی وجہ سے انتخاب کیا، اس حال میں کہ وہ حضرت آدم کی نسل سے باقی رہنے والا اور ذریت نوح سے انتخاب شدہ اور آل ابراہیم سے منتخب شدہ نسل اسماعیل سے اور عترت محمد(ص) سے منتخب شدہ ہے۔
همیشہ خداوندعالم ان کی حفاظت کرتا ہے، اور اپنے پردہ سے حفاظت کرتا ہے، حالانکہ شیطانی جال اور اس کے لشکر کو ان سے دور رکھا گیا ہے، ہر فاسق کے خطرہ اور دیگر خطرات سے ان کی حفاظت کی گئی ہے، اور بری نیت والوں کے ارادوں کو دفع کیا گیا ہے، فتنہ و فساد سے پاک، آفتوں سے دور، خطاؤں سے معصوم اور تمام برائیوں سے محفوظ ہے۔
امام اپنی جوانی میں حلم اور نیک کام میں مشهور، اور بوڑهاپے میں عفت و علم اور فضیلت سے منسوب ہوتا ہے،اس کی طرف اس کے والد کی طرف سے مستند اور ان کی حیات میں گفتگو کرنے سے خاموش رہتے ہیں، اور جب ان کے والد کی امامت کی مدت ختم ہوتی ہے، یهاں تک کہ اس کی نسبت تقدیر الٰهی تمام ہوجائے، اور خدا کا ارادہ ان کو ان کی محبت کی طرف کهینچتا ہے، اور جب ان کے پدر گرامی کی مدت (امامت) ختم ہوجاتی ہے، اور ان کی رحلت ہوجاتی ہے،
جن کے بعد خدا کا امر اس کی طرف منتقل ہوتا ہے، اور خدا اپنے دین کی باگ ڈور ان کے حوالہ کردیتا ہے، اور اس کو بندوں پر اپنی حجت اور اپنے ملک پر سرپرست قرار دیتا ہے، اور اپنی روح سے اس کی تائید کرتا ہے، اور اپنا علم اس کو عطا کرتا ہے، اور اس کو اپنے بیان فصل (جو حق کو باطل سے الگ کردیتا ہے) کی خبر دیتا ہے، اور اپنے اسرار سے آگاہ کرتا ہے، اور اس کو اپنے عظیم امر کے لئے دعوت دیتا ہے، اور اپنے بیان علم کی فضیلت سے آگاہ کرتا ہے، اور اس کو اپنی مخلوق کے نشانی قرار دیا ہے، اہل کائنات کے لئے حجت، اپنے دین والوں کے نور، اور اپنے بندوں کا سرپرست قرار دیا ہے، اور اس کو امت کی امامت کے لئے پسند کرتا ہے۔
اگر چہ اس حدیث کا ہر جملہ مفصل تشریح کا طالب ہے، لیکن ہم یهاں بعض جملوں سے متعلق چند نکات ذکر کرتے ہیں:
الف۔پهلے جملے میں امام(ع) نے ائمہ ہدیٰ کو خطبے کا موضوع قرار دیا،کیونکہ امت کے لئے وجود امام کی ضرورت واضح ہے(
يَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ ا نَُٔاسٍ بِإِمَامِهِمْ
)
اور امت کے امام کا امامِ ہدایت ہونا ضروری ہے جیسا کہ خداوند متعال نے فرمایا:(
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ ا ئَِٔمَّةً يَّهْدُوْنَ بِا مَْٔرِنَا
)
،(
إِنَّمَا ا نَْٔتَ مُنْذِرٌ وَّلِکُل قَوْمٍ هَادٍ
)
اور امامِ ہدایت کی معرفت، معرفتِ ہدایت پر متوقف ہے۔معرفتِ ہدایت کے لئے اس موضوع سے متعلق قرآن مجید میں موجود ان آیات میں تدبر وتفکر ضروری ہے جن کی تعداد تقریبا دو سونوے ہے۔ اس مقدمے میں ان کی تشریح کرنا مشکل ہے، اس لئے کہ ہدایت، کمالِ خلقت ہے(
قَالَ رَبُّنَا الَّذِی ا عَْٔطیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَه ثُمَّ هَدیٰ
)
،(
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ اْلا عَْٔلیٰ ة اَلَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی ة وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَهَدیٰ
)
اور مخلوق میں ہر ایک کی ہدایت اس کی خلقت کے تناسب سے ہے۔ اب چونکہ خلقتِ انسان کی اساس احسن تقویم ہے،لہٰذا اس کی ہدایت بھی عالم امکان کا سب سے بڑا کمال اور اشرف المخلوقات کو عنایت کی جانے والی بزرگترین نعمت ہے۔(
وَيُتِمَّ نِعْمَتَه عَلَيْکَ وَيَهْدِيَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا
)
امام(ع)نے ((ائمہ ہدی))فرما کر مقام امامت کی عظمت کو بیان فرمایا، بلکہ اہل نظر کے لئے تو امام کی خصوصیات کو واضح کردیا کہ ایسے ملزوم کے لئے کن لوازم کی ضرورت ہے۔ پھر اس اجمال کے بعد تفصیل بیان کی، دین میں امام کے کردار پر روشنی ڈالی کہ خداوند متعال نے اپنے قانون کی تفسیر کا حق ایسی مخلوق کو عطا نہیں کیا جن کی آراء میں خطا اور اختلاف پایا جاتا ہے، اس لئے کہ ان دو آفتوںسے تشریع دین کی غرض نقض ہو جائے گی اور امت، نورِ ہدایت کی بجائے گمراہی کی تاریک وادیوں میں بهٹک جائے گی، بلکہ پروردگا رعالم نے اصول وفروع دین میں، انسان کے لئے پیش آنے والے مبهم نقاط کو ائمہ ہدیٰ کے ذریعے دور کیا ہے ((ا نٔ اللّٰه عزوجل ا ؤضح با ئٔمة الهدی من ا هٔل بیت نبینا عن دینه
))
ب۔چونکہ فطری تقاضے کے مطابق انسان اپنے خالق اورپروردگا ر عالم کی تلاش وجستجو میں ہے اور یہ فطرت راہ خداتک،جوکہ دین خدا ہے، پهنچے اور اس پر ثابت قدم رہے بغیر اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتی(
قُلْ هٰذِه سَبِيْلِی ا دَْٔعُوْا إِلَی اللّٰهِ عَلیٰ بَصِيْرَةٍ ا نََٔا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ
)
اور چونکہ اشتباہات اور خواہشاتِ نفسانی جیسے راہ خدا سے منحرف کرنے والے اسباب او ر شیاطینِ جن وانس جیسے لٹیرے،هر وقت موجود ہیں(
وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِيْلِه
)
،(
اِشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللّٰه ثَمَنًا قَلِيْلاً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِه إِنَّهُمْ سَآءَ مَاکَانُوْا يَعْمَلُوْنَ
)
لہٰذا تکوین فطرت کی غرض یعنی خدا تک رسائی کے حصول اور دین کی سیدہی راہ، جو خدا تک رسائی کی راہ ہے، کی تشریع کے لئے، ایک ایسے هادی ورہبر کی ضرورت ہے جس کے نور سے یہ ہدف ومقصد پایہ تکمیل تک پهنچ سکے ((وابلج عن سبیل منهاجه
))۔
____________________