اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی0%

اصول دين سے آشنائی مؤلف:
زمرہ جات: عقائد لائبریری

اصول دين سے آشنائی

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22096
ڈاؤنلوڈ: 3948

تبصرے:

اصول دين سے آشنائی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22096 / ڈاؤنلوڈ: 3948
سائز سائز سائز
اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی

مؤلف:
اردو

((واستودعه سره ))اور اپنا راز اس کے سپرد کیا ہے۔ صحیح حدیث کے مطابق امام ابوالحسن (ع)نے فرمایا:”خدا نے اپنا راز جبرئیل(ع) کے سپرد کیا، جبرئیل نے محمد(ص) کے سپرد کیا اور محمد(ص)نے اس کے سپرد کیا جس کے بارے میں خود خدا نے چاہا۔“(۱)

ط۔((رضی اللّٰه به إماما لهم ))اس میں کسی قسم کے شک وتردید کی گنجائش نہیں کہ امت کو امام کی ضرورت ہے اور امت کے امام کا خدا کا مورد پسند ہونا ضروری ہے۔ وہ خدا جو علم وجهل میں سے علم کو پسند فرماتا ہے( قُلْ هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لاَ يَعْلَمُوْنَ ) (۲) ،سلامتی وآفت میں سے سلامتی کو پسند فرماتا ہے( يَهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَه سُبُلَ السَّلَامِ ) (۳) ، حکمت وسفاہت میں سے حکمت کو پسند فرماتا ہے( يُو تِْٔی الْحِکْمَةَ مَنْ يَّشَآءُ وَمَنْ يُّو تَْٔ الْحِکْمَةَ فَقَدْ ا ؤُْتِیَ خَيْراً کَثِيْرًا ) ٤، عدل وفسق میںسے عدل کو پسند فرماتا ہے( إِنَّ اللّٰهَ يَا مُْٔرُ بِالْعَدْلِ وَاْلإِحْسَانِ ) (۵) ، حق وباطل میں سے حق کو پسند فرماتا ہے( وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوْقاً ) (۶) ، اورصواب وخطا میں سے صواب کو پسند فرماتا ہے( لَاَ يَتَکَلَّمُوْنَ إِلاَّ مَنْ ا ذَِٔنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا ) (۷) ، امت کی اطاعت کے لئے بھی یقینا اس کو پسند فرمائے گا جس کی امامت علم، عدل، سلامتی، حکمت، صواب، حق او رہدایت کی امامت ہو۔ ساته اس کے کہ بہترین کا انتخاب کرنا خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے( اَلَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبُعُوْنَ ا حَْٔسَنَه ) (۸) ، بہترین کو ہی حاصل کرنے کاحکم فرمایاہے( وَا مُْٔرْ قَوْمَکَ يَا خُْٔذُوْا بِا حَْٔسَنِهَا ) (۹) اور بہترین قول کا حکم دیا ہے( قُلْ لِّعُبَادِی يَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ ا حَْٔسَنُ ) (۱۰) اور مجادلے کے وقت بہترین طریقے سے گفتگو کرنے کا حکم فرمایا ہے( وَجَادِلْهُم بِالَّتِیْ هِیَ ا حَْٔسَنُ ) (۱۱) اور رد کرتے وقت، بہترین طریقے سے رد کرنے کی تلقین فرمائی ہے( اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِی ا حَْٔسَنُ ) (۱۲) اور جو خود ہی احسن جزا دینے والا ہے( وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ ا جَْٔرَهُمْ بِا حَْٔسَنِ مَا کَانُوا يَعْمَلُوْنَ ) (۱۳) اور جو خود بہترین حدیث نازل کرنے والا ہے( اَللّٰهُ نَزَّلَ ا حَْٔسَنَ الَحَدِيْثِ ) (۱۴) ، کیا ممکن ہے امت کی امامت کے لئے اکمل، افضل، اعلم،اعدل اوراس احسن حدیث میں موجود تمام صفات کے مالک کے علاوہ کسی او ر کو پسند فرمائے؟!

جب احسن کی اتباع کے حکم کا لازمہ یہ ہے کہ احسن کی پیروی ہو تو کیسے ممکن ہے کہ پروردگار عالم کسی غیر احسن کی امامت وپیروی سے راضی ہوجائے ؟!

( وَمَنْ ا حَْٔسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ ) (۱۵) اور اسی لئے فرمایا:((وانتدبه بعظیم ا مٔره وا نٔبا هٔ فضل بیان علمه ونصبه علما لخلقه وجعله حجة علی ا هٔل عالمه وضیاء لا هٔل دینه والقیم علی عباده رضی اللّٰه به إماما لهم ))۔

____________________

۱ بحار الانوار، ج ۲، ص ۱۷۵ ۔

۲ سورہ زمر، آیت ۹۔”کہہ دیجئے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ان کے برابر ہو جائیں گے جو نہیں جانتے ہیں“۔

۳ سورہ مائدہ، آیت ۱۶ ۔”جس کے ذریعہ خدا پنی خوشنودی کا اتباع کرنے والوں کو سلامتی کے راستہ کی ہدایت کرتا ہے“۔

۴ سورہ بقرہ، آیت ۲۶۹ ۔”وہ جس کو بھی چاہتا ہے حکمت عطا کر دیتا ہے اور جسے حکمت عطا کر دی جائے اسے خیر کثیر عطا کر دیا گیا“۔

۵ سورہ نحل، آیت ۹۰ ۔”بے شک الله عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے“۔

۶ سورہ اسراء، آیت ۸۱ ۔”اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہو گیا کہ باطل بهر حال فنا ہونے والا ہے“۔

۷ سورہ نباء، آیت ۳۸ ۔”اور کوئی بات بھی نہ کر سکے گا علاوہ اس کے جسے رحمان اجازت دیدے اور صحیح بات کرے“۔

۸ سورہ زمر، آیت ۱۸ ۔”جو باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچهی ہوتی ہے اس کا ابتاع کرتے ہیں“۔

۹ سورہ اعراف، آیت ۱۴۵ ۔”اور اپنی قوم کو حکم دو کہ اس کی اچهی اچهی باتوں کو لے لیں“۔

۱۰ سورہ اسراء، آیت ۵۳ ۔”اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ صرف اچهی باتیں کیا کریں“۔

۱۱ سورہ نحل، آیت ۱۲۵ ۔اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے“۔

۱۲ سورہ مومنون، آیت ۹۶ ۔”اور آپ برائی کو اچهائی کے ذریعہ دفع کیجئے“۔

۱۳ سورہ نحل، آیت ۹۷ ۔”اور انہیں ان عمال سے بہتر جزادیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے“۔

۱۴ سورہ زمر، آیت ۲۳ ۔”اس نے بہترین کلام اس کتاب کی شکل میں نازل کیا ہے“۔

۱۵ سورہ مائدہ، آیت ۵۰ ۔”جب کہ صاحبان یقین کے لئے الله کے فیصلہ سے بہتر کس کا فیصلہ ہو سکتا ہے“۔

امام زمانہ(عجل الله تعالی فرجه الشریف)

رسول خدا(ص) کی فریقین سے مروی اس روایت کے مطابق کہ جو شخص اس دنیا میں اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مر جائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے(۱) ، اگر چہ امام زمانہ(ع) کی تفصیلی معرفت تو میسر نہیں ہے لیکن اجمالی معرفت کو اختصار کے ساته بیان کیا جارہا ہے۔

هر زمانے میں امامِ معصوم کی ضرورت، عقلی ونقلی دلائل کے ذریعہ بحث امامت میں ثابت ہو چکی ہے۔

عقلی نقطہ نگاہ سے عقلی دلائل کا اجمالی طور پر خلاصہ یہ ہے کہ نبوت ورسالت کا دروازہ پیغمبر خاتم(ص) کے بعدہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو چکا ہے۔ لیکن قرآن کو سمجهنے کے لئے، جو آ نحضرت(ص) پر نازل ہوا ہے اور ہمیشہ کے لئے انسان کی تعلیم وتربیت کا دستور العمل ہے، معلم ومربی کی ضرورت ہے۔

وہ قرآن، جس کے قوانین مدنی البطع انسان کے حقوق کے ضامن تو ہیں لیکن ایک مفسراور ان قوانین کو عملی جامہ پهنانے والے کے محتاج ہیں۔

بعثت کی غرض اس وقت تک متحقق نہیں ہو سکتی جب تک کہ تمام علوم قرآنی کا معلم موجود نہ ہو۔ایسے بلند مرتبہ اخلاقی فضائل سے آراستہ ہو کہ جو ((انما بعثت لا تٔمم مکارم الا خٔلاق ))(۲) کا مقصد ہے۔نیز ہر خطا و خواہشات نفسانی سے پاک ومنزہ ہو جس کے سائے میں انسان اس علمی و عملی کما ل تک پهنچے جو خدا وند تعالیٰ کی غرض ہے۔( إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّيِّبُ وَالَعَمَلُ الصّالِحُ يَرْفَعُه ) (۳)

مختصر یہ کہ قرآن ایسی کتاب ہے جو تمام انسانوں کو فکری، اخلاقی اور عملی ظلمات سے نکال کر عالم نور کی جانب ہدایت کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے( کِتَابٌ ا نَْٔزَلْنَاهُ إِلَيْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِن الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّوْرِ ) (۴)

اس غرض کا حصول فقط ایسے انسان کے ذریعے ممکن ہے جو خود ظلمات سے دور ہو اور اس کے افکار، اخلاق و اعمال سراپا نور ہوں اور اسی کو امام معصوم کہتے ہیں۔

اور اگر ایسا انسان موجود نہ ہوتو تعلیم کتاب وحکمت اور امت کے درمیان عدل کا قیام کیسے میسر ہو سکتا ہے ؟ اور خود یهی قرآن جو اختلافات کو ختم کرنے کے لئے نازل ہوا ہے، خطاکار افکار اور ہویٰ و ہوس کے اسیر نفوس کی وجہ سے، اختلافات کا وسیلہ وآلہ بن کر رہ جائے گا۔

آیا وہ خداجو خلقت انسان میں احسن تقویم کو مدنظر رکھتے ہوئے انسان کی ظاہری خوبصورتی کے لئے بهنوں تک کا خیال رکھ سکتا ہے، کیا ممکن ہے کہ مذکورہ ہدف ومقصد کے لئے کتاب تو بھیج دے لیکن بعثت انبیاء اور کتب نازل کرنے کی اصلی غرض، جو سیرت انسان کو احسن تقویم تک پہچانا ہے، باطل کر دے ؟!

اب تک کی گفتگو سے رسول خدا ا(ص) کے اس کلام کا نکتہ واضح وروشن ہو جاتا ہے کہ جسے اہل سنت کی کتابوں نے نقل کیا ہے ((من مات بغیر إمام مات میتة جاهلیة ))(۵) اور کلام معصومین علیهم السلام کا نکتہ بھی کہ جسے متعدد مضامین کے ساته شیعی کتب میں نقل کیا گیا ہے۔مثال کے طور پر حضرت امام علی بن موسی الرضا(ع) نے شرائع دین سے متعلق، مامون کو جو خط لکها اس کا مضمون

____________________

۱ رجوع کریں آئندہ صفحہ حاشیہ نمبر ۲۔

۲ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۱۰ (فقط مبعوث ہوا ہوں اس لئے کہ مکارم الاخلاق کو پایہ تکمیل تک پهنچا سکوں۔

۳ سورہ فاطر، آیت ۱۰ ۔” پاکیزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہوتے ہیں اور عمل صالح انہیں بلند کرتا ہے“۔

۴ سورہ ابراہیم، آیت ۱۔”الٓر یہ کتاب ہے جسے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو حکم خدا سے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں“۔

۵ ”جواس حال میں مر جائے کہ اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانے تو وہ جهالت کی موت مرے گا“۔مسند الشامیین، ج ۲، ص ۴۳۷ ، المعجم الکبیر، ج ۱۹ ، ص ۳۸۸ ۔

مسند احمد بن حنبل، ج ۴، ص ۹۶ اور دوسری کتابیں۔

یہ ہے ((وإن الارض لا تخلو من حجة اللّٰه تعالی علی خلقه فی کل عصر وا ؤان و إنهم العروة الوثقی ٰ))یهاں تک کہ آپ(ع) نے فرمایا ((ومن مات ولم یعرفهم مات میتة جاهلیة ))(۱)

اب جب کہ اکمال دین واتمام نعمت ہدایت میں ایسی شخصیت کے وجود کی تاثیر واضح ہو چکی، اگر اس کی عدم موجودگی سے خدا اپنے دین کو ناقص رکہے تو اس عمل کی وجہ یا تویہ ہو گی کہ ایسی شخصیت کا وجود ناممکن ہو یا خدا اس پر قادر نہیں اور یا پھر خدا حکیم نہیں ہے اور ان تینوں کے واضح بطلان سے امام کے وجود کی ضرورت ثابت ہے۔

حدیث تقلین جس پر فریقین کا اتفاق ہے، ایسی شخصیت کے وجود کی دلیل ہے جو قرآن سے اور قرآن جس سے، ہر گز جدا نہ ہوں گے اور چونکہ مخلوق پر خدا کی حجت، حجت بالغہ ہے، ابن حجر هیثمی جس کا شیعوں کی نسبت تعصب ڈهکاچهپا نہیں، کہتا ہے((والحاصل ا نٔ الحث وقع علی التمسک بالکتاب وبالسنة وبالعلماء بهما من ا هٔل البیت ویستفاد من مجموع ذلک بقاء الا مٔور الثلاثه إلی قیام الساعة، ثم اعلم ا نٔ لحدیث التمسک بذلک طرقاً کثیرةً وردت عن نیف وعشرین صحابیا ))(۲)

ابن حجر اعتراف کر رہا ہے کہ حدیث ثقلین کے مطابق، جسے بیس سے زیادہ اصحاب نے پیغمبر اکرم(ص) سے نقل کیا ہے، پوری امت کو کتاب، سنت اور علماء اہل بیت سے تمسک کا حکم دیا گیا ہے اور ان سب سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ تینوں قیامت کے دن تک باقی رہیں گے۔

اور مذهب حق یهی ہے کہ قرآن کے ہمراہ اہل بیت علیهم السلام سے ایسے عالم کا ہونا ضروری ہے جو قرآن میں موجود تمام علوم سے واقف ہو، کیوںکہ پوری امت مسلمہ کو، بغیر کسی استثناء کے، کتاب،سنت او راس کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے، اور ہر ایک کی ہدایت کا دارومدار اسی تمسک پر ہے۔

روائی نقطہ نگاہ سے:

بارہویں امام(ع) کے متعلق شیعوں کا اعتقاد اور آپ کا ظهور معصومین علیهم السلام سے روایت شدہ متواتر نصوص سے ثابت ہے، جواثبات امامت کے طریقوں میں سے ایک ہے۔

قرآن مجید میں ایسی آیات موجود ہیں، جنہیں شیعہ وسنی کتب میں امام مهدی (ع)کی حکومت کے ظهور سے تفسیر کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض کو ہم یهاں ذکر کرتے ہیں :

۱۔( هُوَالَّذِی ا رَْٔسَلَ رَسُوْلَه بِالْهُدیٰ وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَه عَلَی الدِّيْنِ کُلِّه وَلَوکَرِهَ الْمُشْرِکُوْنَ ) (۳)

ابو عبد الله گنجی کتاب ”البیان فی اخبار صاحب الزمان(ع) “ میں کہتا ہے کہ :”اور بالتحقیق، مهدی کی بقا کا تذکرہ قرآن وسنت میں ہوا ہے۔ قرآن میں یوں کہ سعید بن جبیر قرآن میں خداوند متعال کے اس فرمان( لِيُظْهِرَه عَلیَ الدِّيْنِ کُلِّه وَلَو کَرِهَ الْمُشْرِکُوْنَ ) کی تفسیر میں کہتے ہیں:((هو المهدی من عترة فاطمه علیها السلام ))“(۴)

۲۔( اَلَّذِيْنَ يُو مِْٔنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُوْنَ ) (۵)

فخر رازی کہتا ہے:”بعض شیعوں کے عقیدے کے مطابق غیب سے مراد مهدی منتظر (ع)ہے،

کہ جس کا وعدہ خدا نے قرآن اور حدیث میں کیا ہے۔ قرآن میں یہ کہہ کر( وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ آمَنُوا مِنکُم وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی اْلا رَْٔضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ) اورحدیث میں قول پیغمبر اکرم(ص) کے اس قول کے مطابق ((لو لم یبق من الدنیا إلا یوم واحد لطول اللّٰه ذلک الیوم حتی یخرج رجل من ا هٔل بیتی یواطی

____________________

۱ عیون اخبار الرضاعلیہ السلام،ج ۲، ص ۱۲۲ ۔”زمین حجت خدا سے کسی زمانہ میں خالی نہ ہوگی اور یہ حجت مستحکم وسیلہ ہیں یهاں تک کہ فرمایا جو مرجائے اور ان کو نہ پہچانتا ہو وہ جهالت کی موت مرتا ہے“۔

۲ صواعق محرقہ، ص ۱۵۰ ۔

۳ سورہ توبہ، آیت ۳۳ ۔”وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساته بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنائے چاہے مشرکین کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو“۔

۴ البیان فی اخبار صاحب الزمان عجل الله فرجہ الشریف،ص ۵۲۸ (کتاب کفایة الطالب میں)

۵ سورہ بقرہ، آیت ۳۔”جوغیب پر ایمان رکھتے ہیں ۔پابندی سے پورے اہتمام کے ساته نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں“۔

اسمه اسمی وکنیته کنیتی، یملا الا رٔض عدلا وقسطا کما ملئت جورا وظلما ))(۱) ، اس کے بعد یہ اشکال کرتا ہے کہ بغیر دلیل کے مطلق کو تخصیص دینا باطل ہے۔“(۲)

فخر رازی نے ، حضرت مهدی موعود(ع) کے بارے میں قرآن وحدیث پیغمبر خدا(ص) کی دلالت کو تسلیم کرنے اور آپ(ع) کی غیب میں شمولیت کے اعتراف کے بعد، یہ سمجها ہے کہ شیعہ، غیب کو فقط حضرت مهدی(ع) سے اختصاص دینے کے قائل ہیں، جب کہ فخر رازی اس بات سے غافل ہے کہ شیعہ امام مهدی(ع) کو مصادیقِ غیب میں سے ایک مصداق مانتے ہیں۔

۳۔( وَإِنَّه لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلاَ تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُوْنِ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ ) (۳)

ابن حجر کے بقول :”مقاتل بن سلیمان اور اس کے پیروکار مفسر ین کہتے ہیں کہ یہ آیت مهدی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔“(۴)

۴ ۔( وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی اْلا رَْٔضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِم وَلَيُمَکِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضیٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ ا مَْٔناً يَّعْبُدُوْنَنِی لَايُشْرِکُوْنَ بِیْ شَيْئاً وَّمَنْ کَفَرَ بَعْد ذٰلِکَ فَا ؤُْلٰئِکَ هُمُ الْفَاسِقُوْنَ ) (۵)

اس آیت کو امام مهدی(ع) او رآپ کی حکومت سے تفسیر کیا گیا ہے۔(۶)

۵ ۔( إِنْ نَّشَا نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ آيَةً فَظَلَّتْ ا عَْٔنٰاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِيْنَ ) (۷)

اس آیت میں لفظِ((آیة)) کی تفسیر، حضرت مهدی(ع) کے ظهور کے وقت دی جانے والی ندا کو بتلایا گیا ہے، جسے تمام اہل زمین سنیں گے اور وہ ند ایہ ہوگی ((ا لٔا إن حجة اللّٰه قد ظهر عند بیت اللّٰه فاتبعوه فإن الحق معه وفیه ))(۸)

۶ ۔( وَنُرِيْدُ ا نَْٔ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی اْلا رَْٔضِ وَنَجْعَلَهُمْ ا ئَِٔمَّةً وَّ نَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِيْنَ ) (۹)

امیر المومنین(ع) فرماتے ہیں :” یہ دنیا منہ زوری دکهانے کے بعد پھر ہماری طرف جهکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچے کی طرف جهکتی ہے۔“ اس کے بعد مذکورہ آیت کی تلاوت فرمائی۔(۱۰)

۷۔( وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ ا نََّٔ اْلا رَْٔضَ يَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ ) (۱۱)

____________________

۱ ” اگر دنیا کے ختم ہو جانے میں ایک دن بھی باقی رہ جائے تو خدا اس کو اتنا طولانی کر دے گا کہ میرے اہل بیت(ع) میں سے ایک شخص قیام کرے جو میرا ہم نام اور اس کی کنیت میری کنیت ہوگی جو زمین کو عدل وانصاف سے ویسا بهر دے گا جیسے ظلم و جور سے بهری ہوگی“۔

۲ تفسیر کبیر، فخر رازی،ج ۲، ص ۲۸ ۔

۳ سورہ زخرف، آیت ۶۱ ۔”اور بے شک یہ قیامت کی واضح دلیل ہے لہٰذا اس میں شک نہ کرو اور میرا اتباع کرو کہ یهی سیدہا راستہ ہے“۔

۴ صواعق محرقہ، ص ۱۶۲ ۔

۵ سورہ نور، آیت ۵۵ ۔”الله نے تم میں سے صاحبان ایمان وعمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اس طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پهلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ہے اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کر دے گا وہ سب صرف میری عبادت کریں گے اور کسی طرح کا شرک نہ کریں گے اور اس کے بعد بھی کوئی کافر ہوجائے تو درحقیقت وہی لوگ فاسق اور بدکردار ہیں“۔

۶ تفسیر کبیر،، فخر رازی، ج ۲، ص ۲۸ ۔غیبة نعمانی، شیخ طوسی ، ص ۱۷۷ ؛ تفسیر القمی، ج ۱، ص ۱۴ ، اور دیگر منابع۔

۷ سورہ شعراء، آیت ۴۔”اگر ہم چاہتے تو آسمان سے ایسی آیت نازل کردیتے کہ ان کی گردنیں خضوع کے ساته جهک جاتیں“۔

۸ ینابیع المودة، ج ۳، ص ۲۹۷ ۔ ”آگاہ ہو جاو کٔہ خدا کی حجت کا ظهور خانہ خدا میں ہوگیا ہے تو اس کی پیروی کرو کیونکہ حق اس کے ساته ہے اس کی ذات کے اندر ضم ہے“۔

۹ سورہ قصص، آیت ۵۔”اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنادیاگیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرا ر دیدیں“۔

۱۰ نهج البلاغہ،شمارہ ۲۰۹ ،از حکمت امیر المومنین علیہ السلام۔

۱۱ سورہ انبیاء، آیت ۱۰۵ ۔”اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں لکه دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے“۔

اس آیت کو امام مهدی(ع) اور آپ (ع)کے اصحاب کے بارے میں تفسیر کیاگیا ہے۔(۱) اور اس آیت کا مضمون، یعنی زمین پر صالح افراد کی حکومت، زبور حضرت داود(ع) میں موجود ہے :

کتاب مزامیر۔ زبور حضرت داود (ع)،سینتیسویں مزمور کی انتیسویں آیت میں ہے:”اور نسل شریر منقطع ہوجائے گی اور صالح افراد زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ابد تک رہیں گے، صالح دہان حکمت کو بیان کرے گا اور اس کی زبان انصاف کا تذکرہ کرے گی۔ اس کے خدا کی شریعت اس کے دل میں ہو گی۔ لہٰذا اس کے قدم نہ لڑکهڑائیں گے۔“

کتاب مزامیر کے بہترویں مزمور کی پهلی آیت:”اے خدا بادشاہ کو اپنا انصاف اور اس کے فرزند کو اپنی عدالت عطا کر اور وہ تیری قوم کے درمیان عدالت سے فیصلہ کرے گا اور تیرے مساکین کے ساته انصاف کرے گا۔ اس وقت پهاڑ، قوم کے لئے سلامتی کا سامان مهیا کریں گے اور ٹیلے بھی۔ قوم کے مساکین کے درمیان عدالت برقرار کرے گا، فقراء کی اولاد کو نجات دلائے گا او ر ظالموں کو سرنگوں کرے گا اور جب تک سورج اور چاند اپنے سارے طبقات کے ساته باقی ہیں وہ تجه سے ڈریں گے۔ وہ کٹے ہوئے سبزہ زار وں پر برسنے والی بارش کی طرح برسے گا اور زمین کو سیراب کرنے والی بارشوں کی طرح اس کے دور میں صالح افراد خوب پهلے پهولیں گے اور سلامتی ہی سلامتی ہو گی،

یهاں تک کہ چاند نابود ہو جائے گا، ایک سمندر سے دوسرے سمندر اور نهر سے دنیا کے آخری کونے تک اس کی حکومت ہو گی، اس کے سامنے صحرا نشین گردنیں جهکائیں گے اور اس کے دشمن خاک چاٹیں گے۔“

آپ(ع) کے بارے میں فریقین کی کتابوں میں تواتر کی حد تک روایات موجود ہیں۔ ابوالحسن ابری،جو اہل سنت کے بزرگ علماء میں سے ہے، کا کهنا ہے :”راویوں کی کثیر تعداد نے حضرت محمد مصطفی(ص) سے مهدی کے بارے میں روایت کی ہے جو متواتر ومستفیض ہیں اور یہ کہ وہ اہل بیت پیغمبر(ص) سے ہے، سات سال حکومت کرے گا، زمین کو عدل سے پر کر دے گا، حضرت عیسی(ع)

خروج کریں گے اور دجال کو قتل کرنے میں آپ(ع) کی مدد کریں گے۔ امت کی امامت مهدی(ع) کرائیں گے جب کہ عیسیٰ(ع) آپ کے پیچہے نماز پڑہیں گے ۔“(۲)

شبلنجی نور الابصار میں کہتا ہے:”پیغمبر اکرم(ص) سے متواتر احادیث ہیں کہ مهدی(ع) آنحضرت(ص) کے اہل بیت سے ہے اور زمین کو عدل سے پر کر دے گا۔“(۳)

ابن ابی حدید معتزلی کہتا ہے :”فرقہ هائے مسلمین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دنیا اور دینی ذمہ داریاں حضرت مهدی(ع) پر ختم ہوں گی ۔“(۴)

زینی دحلان کے بقول :”جن احادیث میں مهدی(ع) کے ظهور کا ذکر ہوا ہے وہ بہت زیادہ اور متواتر ہیں۔“(۵)

آپ(ع) کی خصوصیات اور شمائل کو تو اس مختصر مقدمے میں تحریر نہیں کیا جاسکتا، لیکن پھر بھی شیعہ اور سنی کتب میں مذکور چند خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

۱۔نماز جماعت میں افضل کو تقدم حاصل ہے، جیسا کہ یہ مطلب سنی اور شیعہ روایات میں ذکر ہوا ہے : ((امام القوم وافدهم فقدموا ا فٔضلکم ))(۶) آپ(ع) کے ظهور اور حکومت حقہ کے قیام کے وقت عیسیٰ بن مریم(ع) آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے اور سنی اور شیعہ روایات کے مطابق آپ(ع) کی امامت میں نماز ادا کریں گے(۷) وہ ایسی هستی ہیں کہ کلمة الله، روح الله اور مردوں کو حکم خدا سے زندہ کرنے والے اولوالعزم رسول سے افضل ہیں اور آپ کی وجاہت اور قرب، خدائے ذوالجلال کے نزدیک زیادہ ہے ۔وقت نماز،

____________________

۱ بحار الانوار، ج ۵۱ ، ص ۴۷ ، نمبر ۶۔

۲ تہذیب التہذیب، ج ۹،ص ۱۲۶ ، (محمد بن خالد جندی کے ترجمہ میں)

۳ نو ر الابصار، ص ۱۸۹ ۔

۴ شرح نهج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج ۱۰ ، ص ۹۶ ۔

۵ الفتوحات الاسلامیہ، ج ۲، ص ۳۳۸ ۔

۶ ”هر قوم کا امام وہ ہوتا ہے جو سب سے پهلے خدا پر وارد ہوتا ہے تو تم لوگ بھی افضل کو آگے کرو“۔ بغیة الباحث عن زوائد مسند الحارث، ص ۵۶ ، نمبر ۱۳۹ ۔ وسائل الشیعہ، کتاب الصلاة، ابواب الجماعة، باب ۲۶ ، ج ۸، ص ۳۴۷ ۔

۷ الصواعق المحرقہ، ص ۱۶۴ ، فتح الباری، ج ۶، ص ۳۵۸ ،اور اسی کے مشابہ صحیح بخاری، ج ۴، ص ۱۴۳ ؛ صحیح مسلم، ج ۱، ص ۹۴ ؛سنن ابن ماجہ، ج ۲، ص ۱۳۶۱ ؛عقد الدرر، دسواں حصہ،اور اہل سنت کی دوسری کتابیں۔ الغیبة نعمانی، ص ۷۵ ۔بحار الانوار، ج ۳۶ ، ص ۲۷۲ اور شیعوں کی دوسری کتابیں۔

جو خدا کی طرف عروج کا وقت ہے، عیسیٰ بن مریم آپ کی اقتداء کریں گے اور آپ کی زبان مبارک کے ذریعے خدا سے ہم کلام ہوں گے۔

گنجی نے البیان میں نماز وجهاد میں آپ کی امامت کے بارے میں مروی روایات کے صحیح ہونے اور اس تقدم وامامت کے اجماعی ہونے کی تصدیق کے بعد، مفصل بیان کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ اس امامت کو معیار قرار دیتے ہوئے آپ (ع)، عیسی سے افضل ہیں(۱) عقدالدرر، باب اول میں سالم اشل سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتا ہے: ”میں نے ابی جعفر محمد بن علی الباقر (علیہما السلام) کو فرماتے سنا کہ: موسی (ع)نے نظر کی تو پهلی نظر میں وہ کچہ دیکھا جو قائم آل محمد(صلی الله علیہ وآلہ وسلم) کو عطا ہونا تھا، پس موسیٰ نے کها: اے پروردگار !مجھے قائم آل محمد (صلی الله علیہ وآلہ وسلم) قرار دے۔ ان سے کها گیا : کہ وہ محمد(صلی الله علیہ وآلہ وسلم) کی ذریت سے ہے۔ دوسری بار بھی اس کی مانند دیکھا اور دوبارہ وہی درخواست کی اور وہی جواب سنا، تیسری بار بھی اسی کو دیکھا اور سوال کیا تو تیسری بار بھی وہی جواب ملا۔“(۲)

باوجود اس کے کہ حضرت موسی بن عمران(ع) خدا کے اولوالعزم پیغمبر وکلیم الله ہیں( وَکَلَّم اللّٰهُ مُوْسٰی تَکْلِيْماً ) (۳) اور خدا نے انہیں نو آیات کے ساته مبعوث فرمایا( وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوْسٰی تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ) (۴)

اور مقرب درگاہ باری تعالی ہیں( وَ نَادَيْنَاهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِالا ئَْمَنِ وَقَرَّبَنَاهُ نَجِيًّا ) (۵) ۔ حضرت مهدی(ع) کے لئے وہ کیا مقام و منزلت تھی جسے دیکھنے کے بعد پانے کی آرزو میں حضرت موسی(ع) نے خدا سے تین مرتبہ درخواست کی۔

حضرت موسی بن عمران کا آپ(ع) کے مقام کو پانے کی آرزو کرنا ایسی حقیقت ہے جس کے لئے کسی اور حدیث وروایت کی ضرورت نہیں، اس لئے کہ حضرت عیسیٰ (ع)جیسے اولو العزم پیغمبر کا آپ(ع) کی اقتدا میں نماز پڑهنا اس مقام کی حسرت وآرزو کے لئے کافی ہے۔ اس کے علاوہ عالم وآدم کی خلقت کا نتیجہ اور آدم سے لے کر خاتم تک تمام انبیاء(ع) کی بعثت کا خلاصہ ان چار نکات میں مضمر ہے:

الف۔ معرفت وعبادت خدا کے نور کا ظهور، جو ساری دنیا کو منور کردے( وَا شَْٔرَقَتِ اْلا رَْٔض بِنُوْرِ رَبِّهَا ) (۶)

ب۔ کائنات کو علم وایمان سے بهر پور زندگی عطا ہونا جو( اِعْلَمُوْا ا نََّٔ اللّٰهَ يُحْیِ اْلا رَْٔضَ بَعْد مَوْتِهَا ) (۷) کا بیان ہے۔

ج ۔باطل کے زوال او رحق کی حکومت کا قائم ہونا جو( وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِل کَانَ زَهُوْقاً ) (۸) کی تجلّی ہے۔

د۔تمام انسانوں کا عدل وانصاف کو اپنانا،جو تمام انبیاء ورسل کے ارسال اور کتب کے نزول کی علت غائی ہے( لَقَدْ ا رَْٔسَلْنَا بِالبَيِّنَاتِ وَ ا نَْٔزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتَابَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ) (۹)

____________________

۱ البیان فی اخبار صاحب الزمان عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف، ص ۴۹۸ ۔

۲ عقد الدرر، پهلا حصہ،ص ۲۶ ، الغیبة نعمانی، ص ۲۴۰ ۔

۳ سورہ نساء، آیت ۱۶۴ ۔ ”اور موسی سے خدا نے کلام کیا جو حق کلام کرنے کا تھا“۔

۴ سورہ اسراء، آیت ۱۰۱ ۔”اور ہم نے موسیٰ کو نو کهلی ہوئی نشانیاں دی تہیں

۵ سورہ مریم، آیت ۵۲ ۔”اور ہم نے انہیںکوہ طور کے داہنے طرف سے آواز دی اور راز ونیاز کے لئے اپنے سے قریب بلا لیا“۔

۶ سورہ زمر، آیت ۶۹ ۔”اور زمین اپنے رب کے نور سے جگمگااٹہے گی“۔

۷ سورہ حدید، آیت ۱۷ ۔”یاد رکھو کہ خدازندہ کرتا ہے زمین کو اس کی موت کے بعد“۔

۸ سورہ اسراء، آیت ۸۱ ۔”اورکہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہو گیا کہ باطل ہر حال فنا ہونے والا ہے“۔

۹ سورہ حدید، آیت ۲۵ ۔”بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساته بھیجا ہے اور ان کے ساته کتاب اور میزان کو نازل کیا تاکہ لوگ انصاف کے ساته قیام کریں“۔

ان تمام آثار کا ظهور قائم آل محمد(ص)کے هاتهوں ہوگا ((یملا اللّٰه به الا رٔض قسطا وعدلا بعد ما ملئت جورا وظلما ))(۱) اور یہ وہ مقام ہے جس کی حسرت و آرزو آدم سے لے کر عیسیٰ تک تمام انبیاء نے کی ہے۔

۲۔سنی اور شیعہ روایات میں آپ(ع) کو خلیفة الله کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے ((یخرج المهدی وعلی را سٔه غمامة فیها مناد ینادی: هذا المهدی خلیفة اللّٰه فاتبعوه ))(۲) الله جیسے مقدس اسم کی طرف اضافے کا تقاضا یہ ہے کہ آپ(ع) کا وجود تمام اسماء حسنی کی آیت ہے۔

۳۔آپ(ع) کے مقام کی عظمت وبلندی آپ کے اصحاب کے مقام ومنزلت سے روشن ہوتی ہے،

جس کا ایک نمونہ روایات اہل تشیع میں یہ ہے کہ :”آپ(ع) کے اصحاب کی مقدار، اہل بدر کی تعداد کے برابر ہے ۳اور ان پر تلواریں ہیں کہ ہر تلوار پر ایک کلمہ لکها ہوا ہے جو ہزار کلمات کی کنجی ہے ۔“(۴)

اور روایات اہل سنت میں بخاری ومسلم کی شرائط کے مطابق ایک صحیح روایت کاکچھ مربوط حصہ، جسے حاکم نیشاپوری نے مستدرک اور ذهبی نے تلخیص میں نقل کیا ہے، یہ ہے((لا یستوحشون إلی ا حٔد ولا یفرحون با حٔد یدخل فیهم علی عدة ا صٔحاب بدر لم یسبقهم الا ؤلون ولا یدرکهم الآخرون وعلی عدة ا صٔحاب طالوت الذین جاوزوا معه النهر ))(۵)

۴ ۔رسول اکرم(ص)اور حضرت مهدی میں خاتمیت کی مشترکہ خصوصیت اس بات کی متقاضی ہے کہ جس طرح نبوت آپ(ص)پر ختم ہو ئی اسی طرح امامت حضرت مهدی پر ختم ہوگی ۔نیز کار دین کا آغاز آنحضرت(ص)کے دست مبارک سے ہوا اور اختتام حضرت مهدی کے هاتهوں ہوگا۔اسی نکتے کی جانب شیعہ اور سنی روایات میں اشارہ کیا گیا ہے کہ آنحضور(ص)نے فرمایا:((المهدی منا یختم الدین بنا کما فتح بنا ))(۶) آپ(ع) میں خاتم کی جسمانی، روحانی اور اسمی تمام خصوصیات جلوہ گر ہیں۔

دو مختلف شخصیات، یعنی خاتم النبین وخاتم الوصیین کا کنیت، اسم، سیرت وصورت کے اعتبار سے ایک ہونا یعنی ابوالقاسم محمد پر دین کا افتتاح واختتام، اہل نظر کے لئے ایسے مافوق ادراک مقام ومرتبے کی حکایت کرتا ہے جو ناقابل بیان ہے۔

اس بارے میں بطور خاص وارد شدہ بعض روایات ملاحظہ ہوں :

الف۔رسول خدا(ص) سے روایت ہے کہ آپ(ص)نے فرمایا:”میری امت میں ایسا فرد ظهور کرے گا کہ اس کا نام میرا نام اور اس کا اخلاق میرا اخلاق ہے، زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کر دے گا جس طرح ظلم وجور سے بهر چکی ہو گی۔“(۷)

ب۔ایک صحیح روایت کے مطابق جسے جعفر بن محمد علیہما السلام نے اپنے آباء واجداد اور انهوں نے رسول خد ا(ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا: ” مهدی میری اولاد سے ہے جس کا نام میرا نام اور اس کی کنیت میری کنیت ہے۔ خَلق وخُلق میں مجه سے سب سے زیادہ شباہت رکھتا ہے۔

____________________

، ۱ ”خدا زمین کو اس کے ذریعہ عدل وانصاف سے بهر دے گا جیسے ظلم و جور سے پر تھی“۔ بحار الانوار، ج ۳۸ ص ۱۲۶ ۔اسی مضمون سے ملتی ہوئی عبارت البیان فی اخبار صاحب الزمان عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف، ص ۵۰۵ ،(کتاب کفایة الطالب) صحیح ابن حبان، ج ۱۵ ، ص ۲۳۸ ۔ مستدرک صحیحین، ج ۴، ص ۵۱۴ ۔مسند احمد بن حنبل، ج ۳، ص ۳۶ ، مسند ابی یعلی، ج ۲، ص ۲۷۴ نمبر ۹۸۷ اور دوسری کتابیں۔

۲ بحار الانوار، ج ۵۱ ، ص ۸۱ ۔ ”مهدی اس حال میں خروج کرے گا کہ اس کے سر پر ایک ابر ہوگا جس میں ایک منادی ندا دے گا یہ مهدی ہے جو خدا کا خلیفہ ہے بس اس کی اتباع کرو“۔ عنوان خلیفة الله مستدرک صحیحین ، ج ۴، ص ۴۶۴ میں سنن ابن ماجہ، ج ۲، ص ۱۳۶۷ مسند احمد بن حنبل، ج ۵، ص ۲۷۷ نور الابصار،ص ۱۸۸ ۔ عقد الدرر الباب الخامس، ص ۱۲۵ اور دوسری کتابوں میں آیاہے۔

۳ بحار الانوار، ج ۵۱ ، ص ۱۵۷ ۔

۴ بحار الانوار، ج ۵۲ ، ص ۲۸۶ ۔

۵ مستدرک صحیحین ، ج ۴، ص ۵۵۴ (ان کو خوف نہیں کہ کسی سے مدد حاصل کریں اور نہ کسی سے خوش ہوتے ہیں کہ ان میں داخل ہوجائیں ان کی تعداد اصحاب بدر کے برابر ہیں نہ ان سے کوئی سبقت لے پایا ہے اور نہ ہوئی ان تک پهونچ سکتا ہے ان کی تعداد طالوت کے اس لشکر کے جتنی ہے جس نے طالوت کے ساته نهر کو پار کیا تھا۔

۶ صواعق محرقہ، ص ۱۶۳ ۔اسی مضمون سے ملتی ہوئی عبارت المعجم الاوسط میں، ج ۱، ص ۵۶ میں ہے۔ عقد الدرر الباب السابع، ص ۱۴۵ ، اور اہل سنت کی دوسری کتابیں۔ بحار الانوار، ۵۱ ، ص ۹۳ اور شیعوں کی دوسری کتابیں میں آیاہے۔

۷ صحیح ابن حبان، ج ۸، ص ۲۹۱ ،ح ۶۷۸۶ اور دوسری کتابیں۔