بعد سامرہ آیا تو لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوکر پوچهنے لگے کہ تمهارے چهرے کا رنگ متغیر کیوں ہے ؟ اس نے کها: کیا تم لوگوں نے شهر سے خارج ہونے والے سواروںکو پہچانا کہ وہ کون تھے ؟
انهوں نے جواب دیا: وہ باشرافت افراد ہیں، جو بھیڑوں کے مالک ہیں۔ اسماعیل نے کها: وہ امام(ع) اور آپ (ع)کے اصحاب تھے اور امام (ع)نے میری بیماری پر دست شفا پهیردیا ہے۔
جب لوگوں نے دیکھا کہ زخم کی جگہ کوئی نشان تک باقی نہیں رہا، اس کے لباس کو بطور تبرک پهاڑ ڈالا۔ یہ خبر خلیفہ تک پهنچی، خلیفہ نے تحقیق کے لئے ایک شخص کو بھیجا۔
اسماعیل نے رات سرداب میں گزاری اور صبح کی نماز کے بعد لوگوں کے ہمراہ سامراء سے باہر آیا، لوگوں سے خدا حافظی کے بعد وہ چل دیا، جب قنطرہ عتیقہ پهنچا تو اس نے دیکھا کہ لوگوں کا هجوم جمع ہے اور ہر آنے والے سے اس کا نام ونسب پوچه رہے ہیں۔نشانیوں کی وجہ سے اسے پہچاننے کے بعد لوگ بعنوان تبرک اس کا لباس پهاڑ کر لے گئے۔
تحقیق پر مامور شخص نے خلیفہ کو تمام واقعہ لکها۔ اس خبر کی تصدیق کے لئے وزیر نے اسماعیل کے رضی الدین نامی ایک دوست کو طلب کیا۔ جب دوست نے اسماعیل کے پاس پهنچ کر دیکھا کہ اس کی ران پر پهوڑے کا اثر تک باقی نہیں ہے، وہ بے ہوش ہوگیا اور ہوش میں آنے کے بعد اسماعیل کو وزیر کو پاس لے گیا، وزیر نے اس کے معالج اطباء کو بلوایا اور جب انهوں نے بھی معائنہ کیا او رپهوڑے کا اثر تک نہ پایا تو کهنے لگے :”یہ حضرت مسیح کا کام ہے“، وزیر نے کها : ”هم جانتے ہیں کہ کس کا کام ہے۔“
وزیر اسے خلیفہ کے پاس لے گیا، خلیفہ نے اس سے حقیقت حال کے متعلق پوچها، جب واقعہ بیان کیا تو اسے ہزار دینار دئیے، اسماعیل نے کها: میں ان سے ایک ذرے کو لینے کی جرا تٔ نہیں کرسکتا۔ خلیفہ نے پوچها: کس کا ڈر ہے ؟ اس نے کها: ”اس کا جس نے مجھے شفا دی ہے، اس نے مجھ سے کها ہے کہ ابو جعفر سےکچھ نہ لینا۔“ یہ سن کر خلیفہ رونے لگا۔
علی بن عیسیٰ کہتے ہیں: میں یہ واقعہکچھ لوگوں کے لئے نقل کر رہا تھا، اسماعیل کا فرزند شمس الدین بھی اس محفل میں موجود تھا جسے میں نہیں پہچانتا تھا، اس نے کها: ”میں اس کا بیٹا ہوں۔“
میں نے اس سے پوچها :” کیا تم نے اپنے والد کی ران دیکھی تھی جب اس پر پهوڑا تھا؟“ اس نے کها:”میں اس وقت چهوٹا تھا لیکن اس واقعے کو اپنے والدین، رشتہ داروں او رہمسایوں سے سنا ہے اور جب میں نے اپنے والد کی ران کو دیکھا تو زخم کی جگہ بال بھی آچکے تھے۔“
اور علی بن عیسیٰ کہتے ہیں :”اسماعیل کے بیٹے نے بتایا کہ صحت یابی کے بعد میرے والد چالیس مرتبہ سامراء گئے کہ شاید دوبارہ ان کی زیارت کر سکیں۔“
۲۔علی بن عیسیٰ کہتے ہیں:” میرے لئے سید باقی بن عطوہ علوی حسنی نے حکایت بیان کی کہ ان کے والد عطوہ امام مهدی(ع) کے وجود مبارک پر ایمان نہ رکھتے تھے اور کها کرتے تھے :”اگر آئے اور مجھے بیماری سے شفا دے تو تصدیق کروں گا۔“ اور مسلسل یہ بات کها کرتے تھے۔
ایک مرتبہ نماز عشاء کے وقت سب گهر والے جمع تھے کہ والد کے چیخنے کی آواز سنی، تیزی سے ان کے پاس گئے۔ انهوں نے کها:”امام(ع) کی خدمت میں پهنچو کہ ابھی ابھی میرے پاس سے باہر گئے ہیں۔“
باہر آئے تو ہمیں کوئی نظر نہیں آیا، دوبارہ والد کے پاس پلٹ کر آئے تو انهوں نے کها: ”ایک شخص میرے پاس آیا اور کها: اے عطوہ، میں نے کها: لبیک، اس نے کها : میں ہوں مهدی، تمہیں اس بیماری سے شفا دینے آیا ہوں اس کے بعد اپنا دست مبارک بڑها کر میری ران کو دبایا او ر واپس چلے گئے۔“
اس واقعہ کے بعد عطوہ هرن کی طرح چلتے تھے ۔
زمانہ غیبت میں امام زمانہ (علیہ السلام) سے بهرہ مند ہونے کا طریقہ:
اگر چہ امام زمانہ(ع) ہماری نظروں سے غائب ہیں اور اس غیبت کی وجہ سے امت اسلامی آپ(ع) کے وجود کی ان برکات سے محروم ہے جو آپ(ع) کے ظهور پر متوقف ہیں، لیکن بعض فیوضات ظهور سے وابستہ نہیں ہیں۔
آپ(ع) کی مثال آفتاب کی سی ہے، کہ غیبت کے بادل پاکیزہ دلوں میں آپ(ع) کے وجود کی تاثیر میں رکاوٹ نہیں بن سکتے، اسی طرح جیسے سورج کی شعاو ںٔ سے اعماق زمین میں موجود نفیس جواہر پروان چڑهتے ہیں اور سنگ و خاک کے ضخیم پردے اس گوہر کو آفتاب سے استفادہ کرنے سے نہیں روک سکتے۔
جیسا کہ خداوند متعال کے الطاف خاصّہ سے بهرہ مند ہونا دوطریقوں سے میسر ہے۔
اول۔جهاد فی الله کے ذریعے، یعنی خدا کے نور عنایت کے انعکاس میں رکاوٹ بننے والی کدورتوں سے نفس کوپاک کرنے سے۔
دوم۔اضطرار کے ذریعے جو فطرت اور مبدء فیض کے درمیان موجود پردوں کو ہٹاتا ہے(
ا مََّٔن يُجِيْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَ يَکْشِفُ السُّوْءَ
)
اسی طرح فیض الٰهی کے وسیلے سے استفادہ کرنا جو اسم اعظم ومَثَلِ اعلیٰ ہے، دو طریقوں سے ممکن ہے :
اول۔فکری،ا خلاقی اور عملی تزکیہ کہ ((ا مٔا تعلم ا نٔ ا مٔرنا هذا لاینال إلا بالورع
))
دوم۔اضطرار اوراسباب مادی سے قطع تعلق کے ذریعے کہ اس طریقے سے بہت سے افراد جن کے لئے کوئی چارہ کار نہ بچا تھا اور جو بالکل بے دست وپا ہو کر رہ گئے تھے، امام(ع) سے استغاثہ کرنے کے بعد نتیجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
آخر میں ہم ساحت مقدس امام زمانہ(ع) کے حضور میں اپنے قصور وتقصیر کا اعتراف کرتے ہیں۔آپ(ع) وہ ہیں جس کے وسیلے سے خدا نے اپنے نور اور آپ(ع) ہی کے وجودِ مبارک سے اپنے کلمے کو پایہ تکمیل تک پهنچایا ہے، کمالِ دین امامت سے ہے اور کمال امامت آپ(ع) سے ہے اور آپ (ع)کی ولادت کی شب یہ دعا وارد ہوئی ہے ((اللّٰهم بحق لیلتنا هذه ومولودها وحجتک وموعودها التی قرنت إلی فضلها فضلک، فتمّت کلمتک صدقاً و عدلاً، لا مبدّل لکلماتک و لا معقّب لآیاتک، و نورک المتعلق و ضیائک المشرق و العلم النور فی طخیاء الدیجور الغائب المستور جلّ مولده و کرم محتده، و الملائکة شَهَّدَه واللّٰه ناصره و مو ئّده إذا آن میعاده، والملائکة امداده، سیف اللّٰه الذی لا ینبو، و نوره الذی لا یخبو، و ذو الحلم الذی لا یصبو
))
فروع دین
اس مقدمے میں فروع دین کے اسرار اور حکمتوں کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں، اس لئے کہ فروع دین، انسان کے ذاتی اور اجتماعی احوال سے مربوط قوانین اور خالق و مخلوق کے ساته، اس کے رابطے کا نام ہے، کہ اس سے متعلق فقہ کا ایک حصہ اڑتالیس ابواب پر مشتمل ہے، لیکن اس مجموعے میں سے ہم نماز و زکات کی حکمت کو مختصر طور پر بیان کرتے ہیں:
الف۔ نماز
نماز چند اجزا، شرائط اور موانع پر مشتمل ہے۔ ان میں سے بعض کی حکمت ذکر کرتے ہیں:
نماز ادا کرنے کی جگہ مباح ہونے کی شرط انسان کو متوجہ کرتی ہے کہ کسی کے حق سے تجاوز نہ کرے اور نماز میں خبث و حدث سے پاکیزہ ہونے کی شرط اسے اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ پانی سے دہل جانے والی نجاست یا مثال کے طور پر روح کے آئینے میں بے اختیار جنابت سے پیدا ہونے والی کدورت، نماز کے باطل ہونے کا سبب اور ذوالجلال و الاکرام کی بارگاہ میں جانے سے مانع ہے، لہٰذا جھوٹ، خیانت، ظلم، جنایت اور اخلاق رذیلہ جیسے قبیح اعمال، انسان کو حقیقتِ نماز سے محروم کرنے میں، جو مومن کی معراج ہے، کتنی تا ثٔیر رکھتے ہوں گے۔اذان، جو خدا کے حضور حاضر ہونے کا اعلان ہے اور اقامت جو مقام قرب کی طرف روح کی پرواز کے لئے ایک مقدماتی عمل ہے، معارفِ دین کا خلاصہ ہیں۔
____________________