اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی12%

اصول دين سے آشنائی مؤلف:
زمرہ جات: عقائد لائبریری

اصول دين سے آشنائی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22908 / ڈاؤنلوڈ: 4497
سائز سائز سائز
اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی

مؤلف:
اردو

1

اس کے لئے ایسی غیبت اور حیرت ہے کہ لوگ دین سے گمراہ ہوجائیں گے، پھر اس کے بعد وہ شهاب ثاقب کی مانند ظهور کرے گا اور زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کردے گا جس طرح ظلم وجور سے بهر چکی ہوگی ۔“(۱)

ج۔ صحیح نص کے مطابق چھٹے امام جعفر بن محمد علیہما السلام نے اپنے آبا ء اور انهوں نے رسول خدا(ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:”جو میری اولاد میں سے قائم کا انکار کرے، یقینا اس نے میرا انکار کیا ہے۔“(۲)

د۔شیخ صدوق ا علی الله مقامہ نے دو واسطوں سے احمد بن اسحاق بن سعد الاشعری سے، جو نهایت ہی بزرگ ثقہ افراد میں سے ہیں، نقل کیا ہے کہ انهوں نے کها:”میں حسن بن علی علیہما السلام کی خدمت میں ان کے بعد ان کے جانشین کے متعلق سوال کرنے کی غرض سے حاضر ہوا۔ اس سے پهلے کہ میں سوال کرتاآپ(ع) نے فرمایا :”اے احمد بن اسحاق !خداوند تبارک وتعالیٰ نے جب سے آدم کو خلق کیا ہے زمین کو اپنی حجت سے خالی نہیں رکھا اور نہ ہی اسے قیامت تک اپنی حجت سے خالی رکہے گا۔ وہ اپنی حجت کے ذریعے اہل زمین سے بلاو ںٔ کو دور کرتا ہے، اس کے وسیلے سے بارش برساتا ہے اور اس کے وجود کی بدولت زمین سے برکات نکالتا ہے۔“

احمد بن اسحاق کہتے ہیں، میں نے پوچها : ”یا بن رسول الله ! آپ کے بعد امام وخلیفہ کون ہے؟“

حضرت امام حسن عسکری(ع) اٹہے، تیزی سے گهر میں داخل ہوئے اور جب باہر تشریف لائے تو آپ(ع) اپنے شانے پر ایک تین سالہ بچے کو لئے ہوئے تھے جس کا چهرہ چودہویں کے چاند کی طرح دمک رہا تھا، اس کے بعد آپ(ع) نے فرمایا :”اے احمد بن اسحاق !اگر تم خدا اور اس کی حجتوں کے لئے محترم نہ ہوتے تو تمہیں اپنے بیٹے کی زیارت نہ کراتا، یہ پیغمبر خدا(ص) کا ہمنام اور ہم کنیت ہے۔ یہ وہ ہے جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کر دے گا جس طرح ظلم وجور سے بهر چکی ہوگی۔

اے احمد بن اسحاق !اس امت میں اس کی مثال خضر وذوالقرنین کی ہے۔ خدا کی قسم، اس کی غیبت ایسی ہوگی کہ هلاکت سے اس کے سوا کوئی نہ بچ سکے گا جسے خدا اس فرزند کی امامت پر ثابت قدم رکہے اور جسے خدا نے دعائے تعجیل فرج کی توفیق عنایت کی ہو۔“

پھر احمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے پوچها:”اے میرے آقا !کیا کوئی علامت ہے جس سے میرا دل مطمئن ہو جائے ؟ “

اس بچے نے فصیح عربی میں کها :((ا نٔا بقیةا للّٰه فی ا رٔضه والمنتقم من اعدائه )) میں اس زمین پر بقیةالله اور دشمنان خدا سے انتقام لینے والا ہوں۔ اے احمد بن اسحاق! دیکھنے کے بعد طلب اثر نہ کرو۔“

احمد بن اسحاق کہتا ہے کہ میں مسرور وخوشحال باہر آیا اور اگلے دن امام(ع) کی خدمت میں جا کر عرض کی:”یابن رسول الله! آپ(ع) نے مجه پر جو احسان فرمایا اس سے میری خوشی میں بے انتها اضافہ ہوا ہے۔ اس بچے میں خضر وذوالقرنین کی صفت کو بھی میرے لئے بیان فرمائیے ؟“

امام(ع) نے فرمایا:”غیبت کا طولانی ہونا، اے احمد۔“

عرض کی :”یا بن رسول الله !اس بچے کی غیبت طولانی ہوگی ؟“

امام(ع) نے فرمایا : هاں، خدا کی قسم ایسا ہی ہوگا۔ غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ اکثر غیبت کے ماننے والے بھی انکار کرنے لگیں گے اور سوائے ان کے کوئی نہ بچے گا جن سے خداوند متعال ہماری ولایت کا اقرار لے چکا ہے او رجن کے دلوں میں ایمان کو لکه دیا ہے اور اپنی روح کے ساته جن کی تائید فرمائی ہے۔اے احمد بن اسحاق! یہ امر خدا میں سے ایک امر، رازِ خدا میں سے ایک راز اور غیب خدا میں سے ایک غیب ہے۔

میں نے جوکچھ دیا ہے اسے لے لو، اسے چهپا کر رکھو اور شاکرین میں سے ہوجاو تاکہ قیامت کے دن ہمارے ساته علیین میں سے ہوسکو۔“(۳)

۴ ۔سنی اور شیعہ روایت کے مطابق آپ(ع) کا ظهور خانہ کعبہ سے ہوگا۔آپ(ع) کے _______دائیں جبرئیل اور بائیں میکائیل ہوں گے۔ چونکہ حضرت جبرئیل(ع) انسان کے حوائج معنوی یعنی افاضہ علوم اور ____________________

۱ کمال الدین وتمام النعمة، باب ۲۵ ، رقم ۴، ص ۲۸۷ ۔

۲ کمال الدین وتمام النعمة، باب ۳۹ ، رقم ۸، ص ۴۱۲ ۔

۳ کمال الدین وتمام النعمة، ص ۳۸۴ و ینابیع المودة،ص ۴۵۸ ۔

معارف الهیہ کا واسطہ، اور حضرت میکائیل(ع) مادی ضروریات یعنی افاضہ ارزاق کا واسطہ ہیں، بنا بر ایں علوم وارزاق کے خزائن کی کلید آپ(ع) کے اختیار میں ہے۔(۱) سنی او رشیعہ روایت میں ظهور کے وقت آپ(ع) کی صورت مبارک کو کوکب درّی سے تشبیہ دی گئی ہے(۲) اور ((له هیبة موسیٰ وبهاء عیسی وحکم داوود وصبر ایوب )) ۳،امام علی رضا(ع) کی حدیث کے مطابق ایسے لباس میں ملبوس ہوں گے کہ ((علیه جیوب النور تتوقد من شعاع ضیاء القدس ))(۴)

۵ ۔الغیبة میں شیخ طوسی اور صاحب عقدالدرر کی روایت کے مطابق آپ(ع) عاشور کے دن ظهور فرمائیں گے(۵) تاکہ( يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِا فَْٔوَاهِهِمْ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِه وَلَوْ کَرِهْ الْکَافِرُوْنَ ) (۶) کی تفسیر ظاہر ہو۔ اور امام حسین علیہ السلام کے پاکیزہ خون سے آبیاری شدہ اسلام کا شجرہ طیبہ آپ کی برکت سے ثمر بخش بنے اور یہ آیت کریمہ( وَمَنْ قُتِلَ مَظُلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّه سُلْطَانًا ) (۷) اپنے عالی ترین مصداق سے منطبق ہو۔

امام زمانہ (علیہ السلام) کی طولانی عمر

ممکن ہے کہ طول عمر، سادہ لوح افراد کے اذهان میں شبهات ایجاد کرنے کا سبب ہو لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک انسان کی عمر کا ہزاروں سال تک طولانی ہونا، نہ تو عقلی طور پر محال ہے او رنہ ہی عادی اعتبار سے، کیونکہ محال عقلی یہ ہے کہ دو نقیضین کے اجتماع یا ارتفاع کا سبب ہو،مثا ل کے طورپر جیسا کہ ہم کہیں کہ کوئی بھی چیز یا ہے یا نہیں ہے، یا مثلاًعدد یا جفت ہے یا طاق،کہ ان کا اجتماع یا ارتفاع عقلا محال ہے اور محال عادی یہ ہے کہ عقلی اعتبار سے تو ممکن ہو، لیکن قوانینِ طبیعت کے مخالف ہو مثال کے طور پر انسان آگ میں گر کر بھی نہ جلے۔

انسان کا ہزار ها سال طول عمر پانا، اور اس کے بدن کے خلیات کا جوان باقی رہنا نہ تو محال عقلی ہے اور نہ محال عادی، لہٰذا اگر حضرت نوح علی نبینا وآلہ وعلیہ السلام کی عمر اگر نو سو پچاس سال یا اس سے زیادہ واقع ہوئی ہے تواس سے زیادہ بھی ممکن ہے اور سائنسدان اسی لئے بقاء حیات ونشاط جوانی کے راز کی جستجو میں تھے اور ہیں۔ جس طرح علمی قوانین وقواعد کے ذریعے مختلف

دہاتوں کے خلیات کی ترکیب میں تبدیلی سے انہیں آفات اور نابود ہونے سے بچایا جاسکتا ہے اور لوہے کو کہ جسے زنگ لگ جاتا ہے اور تیزاب جسے نابود کر دیتا ہے، آفت نا پذیر طلائے ناب بنایاجا سکتا ہے، اسی طرح علمی قوانین وقواعد کے ذریعے ایک انسان کی طولانی عمر بھی عقلی وعملی اعتبار سے ممکن ہے، چاہے ابھی تک اس راز سے پردے نہ اٹہے ہوں۔

اس بحث سے قطع نظر کہ امام زمان(ع) پر اعتقاد، خداوند متعال کی قدرت مطلقہ، انبیاء کی نبوت اور معجزات کے تحقق پر ایمان لانے کے بعد کا مرحلہ ہے، اسی لئے جو قدرت ابراہیم(ع) کے لئے آگ کوسرد اور سالم قرا ر دے سکتی ہے، جادوگروں کے جادو کو عصائے موسی کے دہن کے ذریعے نابود کر سکتی ہے، مردوں کو عیسیٰ کے ذریعے زندہ کر سکتی ہے اور اصحاب کہف کو صدیوں تک بغیر کهائے پیئے نیند کی حالت میں باقی رکھ سکتی ہے ، اس قدرت کے لئے ایک انسان کو ہزاروں سال تک جوانی کے نشاط کے ساته اس حکمت کے تحت سنبهال کر رکھنا نهایت ہی سهل اور آسان ہے کہ زمین پر

____________________

۱ عقدالدرر الباب الخامس وفصل اول الباب الرابع،ص ۶۵ ؛ الامالی للمفید، ص ۴۵ ۔

۲ فیض القدیر، ج ۶، ص ۳۶۲ ، نمبر ۹۲۴۵ ۔کنزالعمال، ج ۱۴ ، ص ۲۶۴ ، نمبر ۳۸۶۶۶ ۔

ینابیع المودة، ج ۲، ص ۱۰۴ ، ج ۳، ص ۲۶۳ ، اور اہل سنت کی دوسری کتابیں۲۲۲ وج ۵۱ ،ص ۸۰ اور دوسرے موارد اور شیعوں کی دوسری کتابیں۔ ، بحار الانوار، ج ۳۶ ، ص ۲۱۷

۳ بحار الانوار،ج ۳۶ ، ص ۳۰۳ ۔

۴ بحار الانوار، ج ۵۱ ، ص ۱۵۲ ۔”اس پر نور کے اس طرح لباس ہیں جو قدس کی روشنی سے روشن رہتے ہیں“۔

۵ الغیبة، ص ۴۵۲ و ۴۵۳ ، عقدالدرر الباب الرابع، فصل اول ، ص ۶۵ ۔

۶ سورہ صف، آیت ۸۔”یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منه سے بجها دیں اور الله اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے چاہے یہ بات کفار کو کتنی ناگوار کیوں نہ ہو“۔

۷ سورہ اسراء، آیت ۳۳ ۔”جو مظلوم قتل ہوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلہ کا اختیار دے دیتے ہیں“۔

حجت باقی رہے اور باطل پر حق کے غلبہ پانے کی مشیت نافذ ہو کر رہے( إِنَّمَا ا مَْٔرُه إِذَا ا رََٔادَ شَيْئاً ا نَْٔيَقُوْلَ لَه کُنْ فَيَکُوْنُ ) (۱)

اس واقعے کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ شهرری میں شیخ صدوق کی قبر ٹوٹی اور آپ کے تر وتازہ بدن کے نمایاں ہونے سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آ پ کے جسم پر قوانین طبیعت کا کوئی اثر نہیں ہوا اور بدن کو فاسد کرنے والے تمام اسباب وعوامل بے کار ہو کر رہ گئے۔ اگر طبیعت کا عمومی قانون امام زمانہ(ع) کی دعا سے پیدا ہونے والے شخص کے بارے میں ٹوٹ سکتا ہے، جس نے آپ(ع) کے عنوان سے ”کمال الدین وتمام النعمة “ جیسی کتاب لکهی ہے، تو خود اس امام(ع) کے بارے میں قانون کا ٹوٹناجو نائب خدا اور تمام انبیاء واوصیاء کا وارث ہے، باعثِ تعجب نہیں ہونا چاہئے۔

امام زمانہ (علیہ السلام) کےکچھ معجزات شیخ الطائفہ اپنی کتاب ”الغیبة“ میں فرماتے ہیں:”غیبت کے زمانے میں آپ(ع) کی امامت کو ثابت کرنے والے معجزات قابل شمارش نہیں“(۲) ۔ اگر شیخ طوسی کے زمانے تک، جنهوں نے ۴۶ ۰ هجری میں وفات پائی ہے، معجزات کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل تھا تو موجودہ زمانے تک معجزات میں کتنا اضافہ ہو چکاہو گا؟!

لیکن اس مقدمے میں ہم، دو مشهور روایتیں پیش کرتے ہیں، جن کا خلاصہ علی بن عیسی اربلی، ۳جو فریقین کے نزدیک ثقہ ہیں، کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ :”امام مهدی(ع) کے متعلق لوگ ما فوق العادة خبریں اور قصے نقل کرتے ہیں جن کی شرح طولانی ہے۔ میں اپنے زمانے میں واقع ہونے والے دو واقعات، جنہیں میرے دوسرے ثقہ بهائیوں کے ایک گروہ نے بھی نقل کیا ہے، ذکر کرتا ہوں:

۱۔حلہ میں فرات او ردجلہ کے درمیان آبادی میں اسماعیل بن حسن نامی شخص رہتا تھا، اس کی بائیں ران پر انسان کی مٹهی کے برابر پهوڑا نکل آیا۔ حلّہ اور بغداد کے اطباء اسے دیکھنے کے بعد لا علاج قرار دے چکے تھے۔ لہٰذاوہ سامرہ آگیا اور دو ائمہ حضرت امام هادی اور امام عسکری علیہما السلام کی زیارت کرنے کے بعد اس نے سرداب میں جاکر خدا کی بارگاہ میں دعا و گر یہ وزاری کی اور امام زمانہ(ع) کی خدمت میں استغاثہ کیا، اس کے بعد دجلہ کی طرف جاکر غسل کیا اور اپنا لباس پهنا۔

معاًاس نے دیکھا کہ چار گهڑسوار شهر کے دروازے سے باہر آئے۔ ان میں سے ایک بوڑها تھا جس کے هاته میں نیزہ تھا، ایک جوان رنگین قبا پهنے ہوئے تھا، وہ بوڑها راستے کی دائیں جانب اور دوسرے دو جوان راستے کی بائیں جانب اور وہ جوان جس نے رنگین قبا پهن رکھی تھی ان کے درمیان راستے پر تھا۔

رنگین قبا والے نے پوچها :”تم کل اپنے گهر روانہ ہو جاو گے ؟“

میں نے کها:”هاں۔“ اس نے کها:”نزدیک آو ذرا دیکھوں تو تمہیں کیا تکلیف ہے ؟“

اسماعیل آگے بڑها، اس جوان نے اس پهوڑے کو هاته سے دبایا اور دوبارہ زین پر سوار ہوگیا۔

بوڑہے نے کها:”اے اسماعیل ! تم فلاح پا گئے، یہ امام(ع) تھے۔“

وہ روانہ ہوئے تو اسماعیل بھی ان کے ساته ساته چلنے لگا، امام(ع) نے فرمایا:”پلٹ جاو ۔ٔ“

اسماعیل نے کها:” آپ سے ہر گز جدا نہیں ہوں گا۔“ امام(ع) نے فرمایا:”تمهارے پلٹ جانے میں مصلحت ہے۔“ اسماعیل نے دوبارہ کها:”آپ سے ہر گز جدا نہیں ہوسکتا۔“ بوڑہے نے کها:”اسماعیل !تمہیں شرم نہیں آتی، دو مرتبہ امام نے فرمایا، پلٹ جاو او رتم مخالفت کرتے ہو؟“

اسماعیل وہیں رک گیا، امام چند قدم آگے جانے کے بعد اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

”جب بغداد پهنچو گے، ابو جعفر یعنی خلیفہ مستنصر بالله، تمہیں طلب کرے گا۔ جب اس کے پا س جاو اور تمہیں کوئی چیز دے، اس سے نہ لینا اور ہمارے فرزند رضا سے کهنا علی بن عوض کو خط لکہیں،

میں اس تک پیغام پهنچا دوں گا کہ جو تم چاہو گے تمہیں عطا کر ے گا۔“

اس کے بعد اصحاب کے ساته روانہ ہو گئے اور نظروں سے اوجهل ہونے تک اسماعیل انہیں دیکھتا رہا۔ غم وحزن اور افسوس کے ساتهکچھ دیر زمین پر بیٹه کر ان سے جدائی پر روتا رہا۔ا س کے

____________________

۱ سورہ یس، آیت ۸۲ ۔”اس کا صرف امر یہ ہے کہ کسی شئے کے بارے میں یہ کهنے کا ارادہ کر لے کہ ہو جااور وہ شئے ہوجاتی ہے“۔

۲ الغیبةشیخ طوسی، ص ۲۸۱ ۔

۳ کشف الغمة، ج ۲، ص ۴۹۳ ۔

بعد سامرہ آیا تو لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوکر پوچهنے لگے کہ تمهارے چهرے کا رنگ متغیر کیوں ہے ؟ اس نے کها: کیا تم لوگوں نے شهر سے خارج ہونے والے سواروںکو پہچانا کہ وہ کون تھے ؟

انهوں نے جواب دیا: وہ باشرافت افراد ہیں، جو بھیڑوں کے مالک ہیں۔ اسماعیل نے کها: وہ امام(ع) اور آپ (ع)کے اصحاب تھے اور امام (ع)نے میری بیماری پر دست شفا پهیردیا ہے۔

جب لوگوں نے دیکھا کہ زخم کی جگہ کوئی نشان تک باقی نہیں رہا، اس کے لباس کو بطور تبرک پهاڑ ڈالا۔ یہ خبر خلیفہ تک پهنچی، خلیفہ نے تحقیق کے لئے ایک شخص کو بھیجا۔

اسماعیل نے رات سرداب میں گزاری اور صبح کی نماز کے بعد لوگوں کے ہمراہ سامراء سے باہر آیا، لوگوں سے خدا حافظی کے بعد وہ چل دیا، جب قنطرہ عتیقہ پهنچا تو اس نے دیکھا کہ لوگوں کا هجوم جمع ہے اور ہر آنے والے سے اس کا نام ونسب پوچه رہے ہیں۔نشانیوں کی وجہ سے اسے پہچاننے کے بعد لوگ بعنوان تبرک اس کا لباس پهاڑ کر لے گئے۔

تحقیق پر مامور شخص نے خلیفہ کو تمام واقعہ لکها۔ اس خبر کی تصدیق کے لئے وزیر نے اسماعیل کے رضی الدین نامی ایک دوست کو طلب کیا۔ جب دوست نے اسماعیل کے پاس پهنچ کر دیکھا کہ اس کی ران پر پهوڑے کا اثر تک باقی نہیں ہے، وہ بے ہوش ہوگیا اور ہوش میں آنے کے بعد اسماعیل کو وزیر کو پاس لے گیا، وزیر نے اس کے معالج اطباء کو بلوایا اور جب انهوں نے بھی معائنہ کیا او رپهوڑے کا اثر تک نہ پایا تو کهنے لگے :”یہ حضرت مسیح کا کام ہے“، وزیر نے کها : ”هم جانتے ہیں کہ کس کا کام ہے۔“

وزیر اسے خلیفہ کے پاس لے گیا، خلیفہ نے اس سے حقیقت حال کے متعلق پوچها، جب واقعہ بیان کیا تو اسے ہزار دینار دئیے، اسماعیل نے کها: میں ان سے ایک ذرے کو لینے کی جرا تٔ نہیں کرسکتا۔ خلیفہ نے پوچها: کس کا ڈر ہے ؟ اس نے کها: ”اس کا جس نے مجھے شفا دی ہے، اس نے مجھ سے کها ہے کہ ابو جعفر سےکچھ نہ لینا۔“ یہ سن کر خلیفہ رونے لگا۔

علی بن عیسیٰ کہتے ہیں: میں یہ واقعہکچھ لوگوں کے لئے نقل کر رہا تھا، اسماعیل کا فرزند شمس الدین بھی اس محفل میں موجود تھا جسے میں نہیں پہچانتا تھا، اس نے کها: ”میں اس کا بیٹا ہوں۔“

میں نے اس سے پوچها :” کیا تم نے اپنے والد کی ران دیکھی تھی جب اس پر پهوڑا تھا؟“ اس نے کها:”میں اس وقت چهوٹا تھا لیکن اس واقعے کو اپنے والدین، رشتہ داروں او رہمسایوں سے سنا ہے اور جب میں نے اپنے والد کی ران کو دیکھا تو زخم کی جگہ بال بھی آچکے تھے۔“

اور علی بن عیسیٰ کہتے ہیں :”اسماعیل کے بیٹے نے بتایا کہ صحت یابی کے بعد میرے والد چالیس مرتبہ سامراء گئے کہ شاید دوبارہ ان کی زیارت کر سکیں۔“

۲۔علی بن عیسیٰ کہتے ہیں:” میرے لئے سید باقی بن عطوہ علوی حسنی نے حکایت بیان کی کہ ان کے والد عطوہ امام مهدی(ع) کے وجود مبارک پر ایمان نہ رکھتے تھے اور کها کرتے تھے :”اگر آئے اور مجھے بیماری سے شفا دے تو تصدیق کروں گا۔“ اور مسلسل یہ بات کها کرتے تھے۔

ایک مرتبہ نماز عشاء کے وقت سب گهر والے جمع تھے کہ والد کے چیخنے کی آواز سنی، تیزی سے ان کے پاس گئے۔ انهوں نے کها:”امام(ع) کی خدمت میں پهنچو کہ ابھی ابھی میرے پاس سے باہر گئے ہیں۔“

باہر آئے تو ہمیں کوئی نظر نہیں آیا، دوبارہ والد کے پاس پلٹ کر آئے تو انهوں نے کها: ”ایک شخص میرے پاس آیا اور کها: اے عطوہ، میں نے کها: لبیک، اس نے کها : میں ہوں مهدی، تمہیں اس بیماری سے شفا دینے آیا ہوں اس کے بعد اپنا دست مبارک بڑها کر میری ران کو دبایا او ر واپس چلے گئے۔“

اس واقعہ کے بعد عطوہ هرن کی طرح چلتے تھے ۔

زمانہ غیبت میں امام زمانہ (علیہ السلام) سے بهرہ مند ہونے کا طریقہ:

اگر چہ امام زمانہ(ع) ہماری نظروں سے غائب ہیں اور اس غیبت کی وجہ سے امت اسلامی آپ(ع) کے وجود کی ان برکات سے محروم ہے جو آپ(ع) کے ظهور پر متوقف ہیں، لیکن بعض فیوضات ظهور سے وابستہ نہیں ہیں۔

آپ(ع) کی مثال آفتاب کی سی ہے، کہ غیبت کے بادل پاکیزہ دلوں میں آپ(ع) کے وجود کی تاثیر میں رکاوٹ نہیں بن سکتے، اسی طرح جیسے سورج کی شعاو ںٔ سے اعماق زمین میں موجود نفیس جواہر پروان چڑهتے ہیں اور سنگ و خاک کے ضخیم پردے اس گوہر کو آفتاب سے استفادہ کرنے سے نہیں روک سکتے۔

جیسا کہ خداوند متعال کے الطاف خاصّہ سے بهرہ مند ہونا دوطریقوں سے میسر ہے۔

اول۔جهاد فی الله کے ذریعے، یعنی خدا کے نور عنایت کے انعکاس میں رکاوٹ بننے والی کدورتوں سے نفس کوپاک کرنے سے۔

دوم۔اضطرار کے ذریعے جو فطرت اور مبدء فیض کے درمیان موجود پردوں کو ہٹاتا ہے( ا مََّٔن يُجِيْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَ يَکْشِفُ السُّوْءَ ) (۱)

اسی طرح فیض الٰهی کے وسیلے سے استفادہ کرنا جو اسم اعظم ومَثَلِ اعلیٰ ہے، دو طریقوں سے ممکن ہے :

اول۔فکری،ا خلاقی اور عملی تزکیہ کہ ((ا مٔا تعلم ا نٔ ا مٔرنا هذا لاینال إلا بالورع ))(۲)

دوم۔اضطرار اوراسباب مادی سے قطع تعلق کے ذریعے کہ اس طریقے سے بہت سے افراد جن کے لئے کوئی چارہ کار نہ بچا تھا اور جو بالکل بے دست وپا ہو کر رہ گئے تھے، امام(ع) سے استغاثہ کرنے کے بعد نتیجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

آخر میں ہم ساحت مقدس امام زمانہ(ع) کے حضور میں اپنے قصور وتقصیر کا اعتراف کرتے ہیں۔آپ(ع) وہ ہیں جس کے وسیلے سے خدا نے اپنے نور اور آپ(ع) ہی کے وجودِ مبارک سے اپنے کلمے کو پایہ تکمیل تک پهنچایا ہے، کمالِ دین امامت سے ہے اور کمال امامت آپ(ع) سے ہے اور آپ (ع)کی ولادت کی شب یہ دعا وارد ہوئی ہے ((اللّٰهم بحق لیلتنا هذه ومولودها وحجتک وموعودها التی قرنت إلی فضلها فضلک، فتمّت کلمتک صدقاً و عدلاً، لا مبدّل لکلماتک و لا معقّب لآیاتک، و نورک المتعلق و ضیائک المشرق و العلم النور فی طخیاء الدیجور الغائب المستور جلّ مولده و کرم محتده، و الملائکة شَهَّدَه واللّٰه ناصره و مو ئّده إذا آن میعاده، والملائکة امداده، سیف اللّٰه الذی لا ینبو، و نوره الذی لا یخبو، و ذو الحلم الذی لا یصبو ))(۳)

فروع دین

اس مقدمے میں فروع دین کے اسرار اور حکمتوں کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں، اس لئے کہ فروع دین، انسان کے ذاتی اور اجتماعی احوال سے مربوط قوانین اور خالق و مخلوق کے ساته، اس کے رابطے کا نام ہے، کہ اس سے متعلق فقہ کا ایک حصہ اڑتالیس ابواب پر مشتمل ہے، لیکن اس مجموعے میں سے ہم نماز و زکات کی حکمت کو مختصر طور پر بیان کرتے ہیں:

الف۔ نماز

نماز چند اجزا، شرائط اور موانع پر مشتمل ہے۔ ان میں سے بعض کی حکمت ذکر کرتے ہیں:

نماز ادا کرنے کی جگہ مباح ہونے کی شرط انسان کو متوجہ کرتی ہے کہ کسی کے حق سے تجاوز نہ کرے اور نماز میں خبث و حدث سے پاکیزہ ہونے کی شرط اسے اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ پانی سے دہل جانے والی نجاست یا مثال کے طور پر روح کے آئینے میں بے اختیار جنابت سے پیدا ہونے والی کدورت، نماز کے باطل ہونے کا سبب اور ذوالجلال و الاکرام کی بارگاہ میں جانے سے مانع ہے، لہٰذا جھوٹ، خیانت، ظلم، جنایت اور اخلاق رذیلہ جیسے قبیح اعمال، انسان کو حقیقتِ نماز سے محروم کرنے میں، جو مومن کی معراج ہے، کتنی تا ثٔیر رکھتے ہوں گے۔اذان، جو خدا کے حضور حاضر ہونے کا اعلان ہے اور اقامت جو مقام قرب کی طرف روح کی پرواز کے لئے ایک مقدماتی عمل ہے، معارفِ دین کا خلاصہ ہیں۔

____________________

۱ سورہ نمل، آیت ۶۲ ۔”بهلا وہ کون ہے جو مضطر کی فریا د کو سنتا ہے جب وہ اس کو آواز دیتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کردیتا ہے“۔

۲ بحار الانوار، ج ۴۷ ، ص ۷۱ ۔”کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارے امر تک نائل نہیں ہوسکتے مگر تقویٰ کے ذریعہ“۔

۳ مصباح متهجد، ص ۸۴۲ ۔

اسلام کی تعلیم و تربیت بیان کرنے کے لئے فقط اذان و اقامت میں یہ تا مٔل اور تفکر ہی کافی ہے کہ ان دونوں میں تکبیر سے ابتداء اور تهلیل پر اختتام ہوتا ہے اور چونکہ تکبیر کی ابتداء اور تهلیل کی انتها ((اللّٰہ)) ہے، لہٰذا اس مکتب نماز سے نماز گذار یہ سیکهتا ہے کہ( هُوَاْلا ؤََّلُ وَاْلآخِرُ ) (۱)

اذان و اقامت کی ابتداء و انتهاء میں لفظ ((اللّٰہ)) کا ہونا، بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت اورمحتضر کے لئے کلمہ توحید کی تلقین کا مستحب ہونا، اس بات کا اعلان ہے کہ انسان کی زندگی کی ابتداء و انتهاء خدا کے نام پر ہونا چاہیے۔

تکبیر کے بعد ((لاإله إلا اللّٰه )) کی دو بار گواہی دیئے جانے کے بعد آخر میں اس جملے کو تکرار کرنا انسان کے علمی و عملی کمال میں اس کلمہ طیبّہ کے کردار کی وضاحت کرتا ہے۔

لفظ و معنی کے اعتبار سے اس جملے میں یہ خصوصیات موجود ہیں:

اس جملے کے حروف بھی وہی کلمہ ((اللّٰہ)) والے حروف ہیں اور چونکہ اظهار کئے بغیر اسے زبان سے ادا کیا جاسکتا ہے، لہٰذا اس میں ریاکاری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

نفی و اثبات پر مشتمل ہے، لہٰذا اس پر راسخ اعتقاد انسان کو اعتقادات، اخلاق اور اعمال میں باطل کی نفی اور اثباتِ حق تک پهنچاتا ہے اور حدیث سلسلة الذهب کے معانی آشکار و واضح ہوتے ہیں کہ ((کلمة لاإله إلا اللّٰه حصنی فمن دخل حصنی ا مٔن من عذابی ))(۲)

اور بشریت، رسول اکرم(ص) کے بیان کی گهرائی کو درک کرسکتی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:

((قولوا لاإله إلا اللّٰه تفلحوا ))(۳) اور یهی منفی و مثبت ہیں جو انسان کی جان کو مرکز وجود کے جوہر سے متصل کر کے فلاح و رستگاری کے نور سے منور کرتے ہیں۔

((لاإله إلا اللّٰه )) میں تدّبر کے وسیلے سے، روحِ نماز گزار میں پاکیزگی آنے پر وہ اس مقام تک رسائی حاصل کرلیتا ہے کہ کہے :( إِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمَاوَاتِ وَالْا رََٔضَ حَنِيْفاً وَّ مَا ا نََٔا مِن الْمُشْرِکِيْنَ ) (۴) اور فاطر السماوات والارض کی طرف توجہ کے ذریعے زمین و آسمان سے گذر کر، سات تکبیروں کی مدد سے سات حجابوں سے بھی گذر جاتا ہے اور هاتهوں کو کانوں تک بلند کر کے خدا کے سوا باقی سب کو پیٹه پیچہے ڈال دیتا ہے۔ اس کی ہر حدّو وصف سے کبریائی کا اعلان کر کے اس کی عظمت کے سامنے سے اوہام و افکار کے پردے ہٹا دیتا ہے ((اللّٰه ا کٔبر من ا نٔ یوصف )) اور خدا سے کلام کے لئے تیار ہو جاتا ہے، کیونکہ نماز، خدا کے ساته انسان کی گفتگو ہے اور قرآن، انسان کے ساتھ خدا کی گفتگو ہے۔ لیکن خدا کے ساته انسان کی گفتگو کلام خدا ہی سے شروع ہوتی ہے، اس لئے کہ انسان نے غیر خدا سے جوکچھ سیکها ہے اس کے ذریعے خدا کی حمد و تعریف ممکن ہی نہیں ہے اور کلام خدا کی عزت و حرمت کی بدولت اس کی گفتگو سنے جانے کے قابل ہوتی ہے ((سمع اللّٰه لمن حمده ))۔

((لا صلاة له إلّا ا نٔ یقرا بها ))(۵) کے تقاضے کے مطابق نماز کا حمد پر مشتمل ہونا ضروری ہے اور جس طرح قرآن جو خالق کی مخلوق کے ساته گفتگو ہے، سورہ حمد سے شروع ہوا ہے، نماز بھی چونکہ مخلوق کی خالق کے ساته گفتگو ہے، سورہ حمد سے شروع ہوتی ہے۔

نماز گزار کے لئے ضروری ہے کہ وہ حمد و سورہ کو کلام خدا کی قرائت کی نیت سے پڑہے لیکن روحِ نماز، نماز کے اقوال و افعال میں موجود معانی، اشارات اور لطیف نکات کی طرف توجہ دینے سے حاصل ہوتی ہے، لہٰذا ہم سورہ حمد کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

اس سورہ مبارکہ میں مبدا و معاد کی معرفت، اسماء و صفات خداوندمتعال، خدا کا انسان اور انسان کا خدا سے عهد اور بعض روایات ٦ کے مطابق اس سورے میں الله کے اسم اعظم کو اجزاء میں تقسیم

____________________

۱ سورہ حدید، آیت ۳۔”وہی اول ہے وہی آخر“۔

۲ بحار الانوار، ج ۴۹ ، ص ۱۲۳ ۔”کلمہ لا الہ الاالله میرا قلعہ ہے جو اس میں داخل ہو گیا وہ میرے عذاب سے بچ جائے گا“۔

۳ بحار الانوار، ج ۱۸ ، ص ۲۰۲ ۔”لا الہ الا الله کهوتاکہ فلاح و بهبودی پاسکو“۔

۴ سورہ انعام، آیت ۷۹ ۔ ”میں تو سچے دل اور اطاعت گزاری کے لئے صرف اس کی طرف اپنا رخ کرتا ہوں جس نے آسمانوں کو اوز زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں“۔

۵ وسائل الشیعہ، ج ۶، ص ۳۷ ، با ب اول از ابواب قرائت حدیث ۱۔”اس کی نماز نہ ہو گی مگر سورہ حمد کے ساته“۔

۶ وسائل الشیعہ، باب اول از ابواب قرائت حدیث ۵، ج ۶، ص ۳۸ ۔

کرکے سمو دیا گیا ہے۔ اس سورہ مبارکہ کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس کا نصف یعنی( مَالِکِ يَوْم الدِّيْنِ ) تک خدا کے لئے اور بقیہ حصہ یعنی( اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ ) سے آخر تک انسان کے لئے اور درمیانی آیت خدا و عبد کے درمیان اس طرح تقسیم ہوئی ہے کہ عبادت خدا کے لئے اور استعانت انسان کے لئے ہے۔

سورے کی ابتداء((بِسْمِ اللّٰهِ )) سے ہے کہ صبحِ رسالت بھی اسی سے طلوع ہوئی تھی( اِقْرَءْ بِاسْم رَبَِّکَ ) (۱)

اسم الله کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ وہ اسمِ ذات ہے جس میں تمام اسماء حسنیٰ جمع ہیں( وَلِلّٰه الْا سَْٔمَاءُ الْحُسْنیٰ فَادْعُوْهُ بِهَا ) (۲)

اور اس سے مراد ایسا معبود ہے جس کے بارے میں مخلوق متحيّر اور اس کی پناہ چاہتے ہیں

((عن علی (ع): اللّٰه معناه المعبود الذی یا لٔه فیه الخلق و یوله إلیه )) ۳ اور خدا کی نسبت انسان کے لئے جو کمال معرفت ممکن ہے وہ یہ ہے کہ اس کی معرفت کو نہ پاسکنے کا ادراک رکھتا ہو۔

((اللّٰہ)) کی صفات ((رحمٰن و رحیم )) بیان کی گئی ہیں اس کی رحمتِ رحمانيّہ و رحیميّہ کی شرح اس مقدمے میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ بس فقط یہ بات مورد توجہ رہے کہ خداوندمتعال نے انسان سے اپنے کلام اور اپنے ساته انسان کے کلام کو( بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ) سے شروع فرمایا، اس آسمانی جملے کو مسلمانوں کے قول وفعل کا سرچشمہ قرار دیا اور پانچ واجب نمازوں میں صبح و شام اس جملے کو تکرار کرنے کا حکم فرمایا ہے اور انسان کو یہ تعلیم دی کہ نظام آفرنیش کا دارومدار رحمت پر ہے اور کتاب تکوین و تشریع رحمت سے شروع ہوتی ہے۔

اس کی رحمتِ رحمانيّہ کی بارش ہر مومن و کافر اور متقی و فاجر پر ہوتی ہے۔ جس طرح اس کی رحمت رحیمیہ کی شعاع سے ہر پاک دل روشن ہوتا ہے( کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلیٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ) (۴)

دین خدا، دین رحمت اور اس کا رسول( رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ ) (۵) ہے اور دین میں موجود حدود و تعزیرات بھی رحمت ہیں۔ یہ مطلب مراتبِ امر بہ معروف و نهی از منکر کے ذریعے واضح ہو جاتا ہے کہ اگر پیکر اجتماع کا ایک عضو، فرد و معاشرے کی مصلحت کے برخلاف عمل کرے یا فردی و نوعی فساد کا مرتکب ہو، تو سب سے پهلے ملائمت و نرمی کے ساته اس کے علاج کی کوشش کرنا ضروری ہے، جیسا کہ حضرت موسیٰ بن عمران (ع)، نو معجزات کے ہوتے ہوئے جب فرعون جیسے طاغوت کے زمانے میں مبعوث ہوئے تو خداوندمتعال نے آپ اور آپ کے بهائی هارون کو حکم دیا کہ اس کے ساته نرمی سے پیش آئیں کیونکہ بعثت کا مقصد تسلّط و قدرت نہیں بلکہ تذکر، خشیت اور ہدایت ہے( فَقُوْلَا لَه قَوْلًالَيِّنًا لَّعَلَّه يَتَذَکَّرُا ؤَْ يَخْشٰی ) (۶) اور جب تک طبابت کے ذریعے علاج ممکن ہو اس عضو کو نشتر نہیں لگانا چاہیے اور اگر دوا سے علاج ممکن نہ ہو تو معاشرے کے جسمانی نظام میں خلل ڈالنے والے فاسدمادے کو نشتر کے ذریعے نکال دینا چاہئے اورجهاں تک ممکن ہو اس عضو کی حفاظت ضروری ہے اور اگر نشتر کے ذریعے بھی اس کی اصلاح نہ ہو تو معاشرے کی سلامتی کے لئے اسے پیکر اجتماع سے جدا کردینا ضروری ہے۔

اسی لئے نظامِ تکوین اورقوانین دین کی تفسیر( بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ) ہے۔ اس تعلیم و تربیت کے ساته خدا کے بندوں کے لئے ہر مسلمان کو رحمت کا پیام آور ہونا چاہیے۔

خدا کے نام سے شروع کرنے کے بعد نماز گذار( اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ) کے جملے کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ تمام تعریفیں خدا کے لئے ہیں، اس لئے کہ وہ رب العالمین ہے اور ہر کمال و جمال اسی کی تربیت کا مظهر ہے۔ یہ جملہ کہتے وقت اس کی ربوبیت کے آثار کو اپنے وجود اور کائنات میں

دیکھنے کے بعد، آسمان، زمین، جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان، تمام تعریفوں کوفقط اسی کی ذات سے منسوب کرتے ہیں۔ اور چونکہ پست ترین موجودات سے لے کر کائنات کے اعلیٰ ترین وجود تک میں،

____________________

۱ سورہ علق، آیت ۱۔”اپنے پروردگار کے نام سے پڑهو“۔

۲ سورہ اعراف، آیت ۱۸۰ ۔”خدا کے اسماء حسنیٰ ہیں پس اس کو ان کے وسیلہ سے پکارو“۔

۳ بحار الانوار، ج ۳، ص ۲۲۱ ۔”حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: الله کا معنی ایسا معبود ہے کہ مخلوق جس میں متحیر و حیران ہے اور اس کی پناہ میں رہتی ہے“۔

۴ سورہ انعام، آیت ۵۴ ۔”تمهار ے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت لازم قرار دے لی ہے“۔

۵ سورہ انبیاء، آیت ۱۰۷ ۔”رحمت ہے عالمین کے لئے “۔

۶ سورہ طہ، آیت ۴۴ ۔”اس کے ساته نرمی کے ساته بات کرو شاید پند ونصیحت قبول کرے یا خوف کهائے“۔

تو حید ذات و صفات:

یعنی خدا کے صفات ذاتی ہیں، جیسے حیات، علم، قدرت عین ذات ہیں، و گرنہ ذات و صفت جدا جدا ہونا تجزیہ و ترکیب کا باعث ہوگا، وہ جو اجزاء سے مرّکب ہوگا وہ جو اجزاء سے مرکب ہو وہ اپنے اجزا کا محتاج ہوگا، (اور محتاج خدا نہیں ہوسکتا)

اسی طرح اگر صفات کو ذات سے جدا مان لیں تو لازم یہ آتا ہے وہ مرتبہ ذات میں فاقد صفات کمال ہو، اور اس کی ذات ان صفات کے امکان کی جہت پائی جائے، بلکہ خود ذات کا ممکن ہونا لازم آئے گا، کیونکہ جو ذات صفات کمال سے خالی ہو اور امکان صفات کی حامل ہو وہ ایسی ذات کی محتاج ہے جو غنی بالذات ہو۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا کی سب سے پهلی عبادت اس کی معرفت حاصل کرنا ہے۔اور اصل معرفت خدا کی وحدانیت کا اقرار ہے، اور نظام توحید یہ ہے کہ اس کی صفات سے صفات کی نفی و انکار کرنا ہے،

(زائد بر ذات) اس لئے کہ عقل گواہی دیتی ہے کہ ہر صفت اور موصوف مخلوق ہوتے ہیں، اور ہر مخلوق کا وجود اس بات پر گواہ ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے، جو نہ صفت ہے اور نہ موصوف۔ (بحار الانوار، ج ۵۴ ، ص ۴۳)

توحید در الوہیت:

( وَإِلَهُکُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَإِلَهَ إِلاَّ هو الرَّحْمَانُ الرَّحِیمُ ) (سورہ بقرہ، آیت ۱۶۳)

”تمهارا خدا خدائے واحد ہے کوئی خدا نہیں جز اس کے جو رحمن و رحیم ہے“۔

توحید در ربوبیت:

خداوندعالم کا ارشاد ہے:

( قُلْ ا غََٔيْرَ اللهِ ا بَْٔغِی رَبًّا وَهُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ ) (سورہ انعام، آیت ۱۶۴)

”کہو کیا الله کے علاوہ کسی دوسرے کو رب بنائیں حالانکہ کہ وہ ہر چیز کا پروردگار ہے“۔

( ا ا رَْٔبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ ا مَْٔ اللهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ) (سورہ یوسف، آیت ۳۹)

”آیا متفرق و جدا جدا ربّ کا ہونا بہتر ہے یا الله سبحانہ کا جو واحد اور قهار ہے“۔

توحید در خلق:

( قُلْ اللهُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ) (سورہ رعد، آیت ۱۶)

”کہہ دیجئے کہ الله ہر چیز کا خالق ہے اور وہ یکتاقهار ہے“۔

( وَالَّذِینَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ لاَيَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ) (سورہ نحل، آیت ۲۰)

”اور وہ لوگ جن کو خدا کے علاوہ پکارا جاتا ہے وہ کسی کو خلق نہیں کرتے بلکہ وہ خلق کئے جاتے ہیں“۔

توحید در عبادت:

یعنی عبادت صرف اسی کی ذات کے لئے منحصر ہے۔

( قُلْ ا تََٔعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَيَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلاَنَفْعًا ) (سورہ مائدہ، آیت ۷۶ ۔)”کہ کیا تم خدا کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو تمهارے لئے نہ نفع رکھتے ہیں نہ نقصان ؟)

توحید در ا مٔر وحکم خدا:

( ا لَٔاَلَهُ الْخَلْقُ وَالْا مَْٔرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ الْعَالَمِینَ ) (سورہ اعراف ، آیت ۵۴ ۔)

”آگاہ ہو جاو صرف خدا کے لئے حکم کرنے و خلق کرنے کا حق ہے بالا مرتبہ ہے خدا کی ذات جو عالمین کا رب ہے“۔

( إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّه ) (سورہ یوسف، آیت ۱۰ ۔)”کوئی حکم نہیں مگر خدا کا حکم“۔

توحید در خوف وخشیت:

(یعنی صرف خدا سے ڈرنا)

( فَلاَتَخَافُوهُمْ وَخَافُونِی إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ ) (سورہ آ ل عمران، آیت ۱۷۵ ۔)”پس ان سے نہ ڈرو اگر صاحبان ایمان ہو تو مجه سے ڈرو“۔

اس سے متعلق بعض دلائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

۱۔تعدد الٰہ سے خداوند متعال میں اشتراک ضروری قرار پاتا ہے اس لئے کہ دونوں خدا ہیں، اور اسی طرح دونوں میں نقطہ امتیاز کی ضرورت پیش آتی ہے تاکہ دوگانگی تحقق پیدا کرے اور وہ مرکب جو بعض نکات اشتراک اور بعض نکات امتیاز سے مل کر بنا ہو، ممکن ومحتاج ہے۔

۲۔تعدد الہ کا کسی نقطہ امتیاز کے بغیر ہونا محال ہے اور امتیاز، فقدانِ کمال کا سبب ہے۔ فاقد کمال محتاج ہوتا ہے اور سلسلہ احتیاج کا ایک ایسے نکتے پر جاکر ختم ہونا ضروری ہے جو ہر اعتبار سے غنی بالذات ہو، ورنہ محال ہے کہ جو خود وجود کا محتاج وضرور ت مند ہو کسی دوسرے کو وجود عطا کرسکے۔

۳۔خدا ایسا موجود ہے جس کے لئے کسی قسم کی کوئی حد مقرر نہیں کیونکہ ہر محدود، دو چیزوں سے مل کر بنا ہے ، ایک اس کا وجوداور دوسرے اس کے وجود کی حد اور کسی بھی وجود کی حد اس وجود میں فقدان اور اس کے منزلِ کمال تک نہ پہچنے کی دلیل ہے اور یہ ترکیب، اقسامِ ترکیب کی بد ترین قسم ہے، کیونکہ ترکیب کی باقی اقسام میں یا تو دو وجودوں کے درمیان ترکیب ہے یا بود ونمود کے درمیان ترکیب ہے، جب کہ ترکیب کی اس قسم میں بود ونبود کے درمیان ترکیب ہے!! جب کہ خد ا کے حق میں ہر قسم کی ترکیب محال ہے۔وہ ایسا واحد وجود ہے جس کے لئے کسی ثانی کا تصور نہیں،

( فَلاَتَخْشَوْا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ ) (سورہ مائدہ، آیت ۴۴ ۔)”لوگوں سے مٹ ڈرو مجه سے ڈرو(خشیت خدا حاصل کرو“۔

توحید در مُلک:

(یعنی کائنات میں صرف اس کی حکومت ہے)

( وَقُلْ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَکُنْ لَهُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ ) (سورہ اسراء ، آیت ۱۱۱ ۔)”کہو ساری تعریفیں ہیں اس خدا کی جس کا کوئی فرزند نہیں اور ملک میں اس کا کوئی شریک نہیں“۔

توحید در ملک نفع وضرر:

یعنی نفع و نقصان کا مالک وہ ہے)

( قُلْ لاَا مَْٔلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلاَضَرًّا إِلاَّ مَا شَاءَ اللهُ ) (سورہ اعراف، آیت ۱۸۸ ۔)”کہو بس اپنے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں ہوں مگر وہ جو الله سبحانہ چاہے“۔

( قُلْ فَمَنْ يَمْلِکُ لَکُمْ مِنْ اللهِ شَيْئًا إِنْ ا رََٔادَ بِکُمْ ضَرًّا ا ؤَْ ا رََٔادَ بِکُمْ نَفْعًا ) (سورہ فتح، آیت ۱۱ ۔)”کہو بس کون ہے تمهارے لئے خدا کے مقابل میں کوئی دوسرا اگر وہ تمهارے لئے نفع و نقصان کا ارادہ کرے“۔

توحید در رزق:

(رزاق صرف خدا ہے)

( قُلْ مَنْ يَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَاوَاتِ وَالْا رَْٔضِ قُلْ اللهُ ) (سورہ سباء، آیت ۲ ۴ ۔)”کہو کون ہے جو زمین وآسمان سے تم کو روزی عطاء کرتا ہے کہوخدائے متعال)

( ا مََّٔنْ هَذَا الَّذِی يَرْزُقُکُمْ إِنْ ا مَْٔسَکَ رِزْقَهُ ) (سورہ ملک ، آیت ۲۱ ۔)”آیا کون ہے تم کو روزی دینے والا اگر وہ تمهارے رزق کو روک لے“۔

توحید در توکل:

(بهروسہ صرف خدا کی ذات پر)

( وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ وَکَفَی بِاللهِ وَکِیلاً ) (سورہ احزاب، آیت ۳۔)”اور الله پر بهروسہ کرو اس کو وکیل بنانا دوسرے سے بے نیاز کردیتا ہے“۔

( اللهُ لاَإِلَهَ إِلاَّ هو وَعَلَی اللهِ فَلْيَتَوَکَّلْ الْمُؤْمِنُونَ ) (سورہ ،تغابن آیت ۱۳ ۔)”کوئی خدا نہیں سوائے الله سبحانہ تعالیٰ کے بس مومنوں کو چاہئے خدا پر توکل کریں“۔

توحید در عمل:

(عمل صرف خدا کے لئے)

( وَمَا لِا حََٔدٍ عِنْدَهُ مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزَی ز إِلاَّ ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْا عَْٔلَی ) (سورہ لیل، آیت ۔ ۲۰ ۔ ۱۹ ۔)”اور لطف الٰهی یہ ہے کہ)کسی کا اس پر احسان نہیں جس کا اسے بدلہ دیا جاتا ہے بلکہ (وہ تو)صرف اپنے عالیشان پروردگار کی خوشنودی حاصل کر نے کے لئے (دیتاہے)

توحید در توجہ :

(انسان کی توجہ صرف خدا کی طرف ہونی چاہئے)

( إِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِی لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْا رَْٔضَ ) (سورہ انعام، آیت ۷۹ ۔)”بے شک میں نے اپنے رخ اس کی طرف

موڑ لیا جس نے زمین وآسمان کو خلق کیا“۔

یہ ان لوگوں کا مقام ہے جو اس راز کو سمجه چکے ہیں کہ دنیا و مافیها سبکچھ هلاک ہوجائے گا۔

( کُلُّ شَیْءٍ هَالِکٌ إِلاَّ وَجْهَهُ ) (سورہ قصص، آیت ۸۸ ۔)(کائنات میں)هر چیز هلا ک ہو جائے گی جز اس ذات والاکے“( کُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ز وَيَبْقَی وَجْهُ رَبِّکَ ذُو الْجَلاَلِ وَالْإِکْرَامِ ) (سورہ رحمن، آیت ۲۷ ۔ ۲ ۶ ۔)”هر وہ چیز جو روئے زمین پر ہے سبکچھ فنا ہونے والی ہے اور باقی رہنے والی (صرف)تیرے پروردگار کی ذات ہے جو صاحب جلالت وکرامت ہے“۔

فطرت میں جو توحید خدا پنهاں ہے اس کی طرف توجہ سے انسان کے ارادہ میں توحید جلوہ نمائی کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ( وَعَنَتْ الْوُجُوهُ لِلْحَیِّ الْقَيُّومِ ) (سورہ طہ، آیت ۱۱۱)”اور ساری خدائی کے منه زندہ وپائندہ خدا کے سامنے جهک جائیں گے“۔ (فطرت توحیدی کی طرف توجہ انسان کے ارادہ کو توحید کا جلوہ بنا دیتی ہے)

کیونکہ ثانی کا تصور اس کے لئے محدودیت اور متناہی ہونے کا حکم رکھتا ہے، لہٰذا وہ ایسا یکتاہے کہ جس کے لئے کوئی ثانی نہ قابل تحقق ہے اور نہ ہی قابل تصور۔

۴ ۔ کائنات کے ہر جزء وکل میں وحدتِ نظم برقرار ہونے سے وحدت ناظم ثابت ہو جاتی ہے،

کیونکہ جزئیاتِ انواع کائنات میں موجود تمام اجزاء کے ہر هر جزء میںموجود نظم وترکیب اور پوری کائنات کے آپس کے ارتباط کے تفصیلی مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جزء و کل سب ایک ہی علیم ،قدیر اورحکیم خالق کی مخلوق ہیں۔ جیسا کہ ایک درخت کے اجزاء کی ترکیب، ایک حیوان کے اعضاء و قوتوں کی ترکیب اور ان کا ایک دوسرے نیز چاند اور سورج سے ارتباط، اسی طرح منظومہ شمسی کا دوسرے منظومات اور کہکشاؤں سے ارتباط، ان سب کے خالق کی وحدانیت کامنہ بولتا ثبوت ہیں۔ایٹم کے مرکزی حصے اور اس کے مدار کے گردگردش کرنے والے اجزاء سے لے کر سورج و منظومہ شمسی کے سیارات اور کہکشاؤں تک، سب اس بات کی علامت ہیں کہ ایٹم،سورج اور کہکشاو ںٔ

کا خالق ایک ہی ہے( و هُوْ الَّذِی فِی السَّمَاءِ ا لِٰٔهٌ وَّ فِی اْلا رَْٔضِ إِلٰهٌ وَّ هُوَ الْحَکِيْمُ الْعَلِيْم ) (۱) ( يَا ا ئَُّهَا النَّاس اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَةالَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ اْلا رَْٔضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاءَ بِنَاءً وَّ ا نَْٔزَلَ مِن السَّمَاءِ مَاءً فَا خَْٔرَجَ بِه مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقاً لَّکُمْ فَلاَ تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ ا نَْٔدَادًا وَّ ا نَْٔتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) (۲)

۵ ۔چھٹے امام (ع) سے سوال کیا گیا: صانع وخالقِ کائنات کا ایک سے زیادہ ہونا کیوں ممکن نہیں ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا : اگر دعوٰی کرو کہ دو ہیں تو ان کے درمیان شگاف کا ہونا ضروری ہے تاکہ دو بن سکیں، پس یہ شگاف تیسرا ہوا اور اگر تین ہو گئے تو پھر ان کے درمیان دو شگافوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ تین محقق ہوسکیں،بس یہ تین پانچ ہوجائیں گے او راس طرح عدد بے نهایت اعداد تک بڑهتا چلا جائے گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اگر خدا ایک سے زیادہ ہوئے تو اعداد میں خداؤں کی نا متناہی تعداد کا ہونا ضروری ہے۔(۳)

۶ ۔امیر المو مٔنین (ع) نے اپنے فرزند امام حسن (ع) سے فرمایا:((واعلم یابنی ا نٔه لو کان لربک شریک لا تٔتک رسله ولرا ئت آثار ملکه وسلطانه ولعرفت ا فٔعاله وصفاته ))(۴)

اور وحدانیت پروردگارپر ایمان کا نتیجہ، عبادت میں توحیدِ ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، چونکہ اس کے علاوہ سب عبد اور بندے ہیں( إِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضِ إِلاَّ آتِی الرَّحْمٰن عَبْداً ) (۵) غیر خد اکی عبودیت وعبادت کرنا ذلیل سے ذلت اٹهانا،فقیر سے بھیک مانگنا بلکہ ذلت سے ذلت اٹهانا اور گداگر سے گداگری کرناہے( يَا ا ئََُهَا النَّاسُ ا نَْٔتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلیَ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِيْدُ ) (۶)

وحدانیت خداوندمتعال پر ایمان،اور یہ کہ جوکچھ ہے اسی سے اور اسی کی وجہ سے ہے اور سب کو اسی کی طرف پلٹنا ہے، کو تین جملوں میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے ((لا إله إلا اللّٰه))،((لا حول ولا قوة إلا باللّٰه ))،( وَ إِلَی اللّٰهِ تُرْجَعُ اْلا مُُٔوْرُ ) (۷)

سعادت مند وہ ہے جس کی زبان پر یہ تین مقدّس جملے ہر وقت جاری رہیں، انهی تین جملات کے ساته جاگے،سوئے،زندگی بسر کرے، مرے اور یهاں تک کہ( إِنَّا لِلّٰهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ) (۸) کی حقیقت کو پالے۔

____________________

۱ سورہ زخرف، آیت ۸۴ ۔”اور وہی وہ ہے جو آسمان میں بھی خد اہے اور زمین میں بھی خدا ہے اور وہ صاحب حکمت بھی ہے“۔

۲ سورہ بقرہ، آیت ۲۱ ۔ ۲۲ ۔”اے انسانو!پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پهلے والوں کو بھی خلق کیا ہے شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرہیزگار بن جاو ۔ٔاس پروردگار نے تمهارے لئے زمین کا فرش اور آسمان کا شامیانہ بنایا ہے اور پھر آسمان سے پانی برسا کر تمهاری روزی کے لئے زمین سے پهل نکالے ہیں لہٰذا اس کے لئے کسی کو ہمسراور مثل نہ بناو اور تم جانتے ہو“۔۲۳۰ ۔ / ۳ بحار الانوار، ج ۳

۴ نهج البلاغہ خطوط ۳۱ ۔ حضرت کی وصیت امام حسن علیہ السلام کے نام۔ترجمہ:(جان لو اے میرے لال!اگر خدا کا کوئی شریک ہوتا تو اس کے بھیجے ہوئے پیامبر بھی تمهارے پاس آتے اور اس کی قدرت وحکومت کے آثار دیکھتے اور اس کی صفات کو پہچانتے)

۵ سورہ مریم،آیت ۹۳ ۔”زمین وآسمان میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کی بارگاہ میں بندہ ہو کر حاضر ہونے والا نہ ہو“۔

۶ سورہ فاطر، آیت ۱۵ ۔”انسانو! تم سب الله کی بارگاہ کے فقیر ہو اور الله غنی (بے نیاز) اور قابل حمد و ثنا ہے“۔

۷ سورہ آل عمران، آیت ۱۰۹ ۔”اور الله کی طرف پلٹتے ہیں سارے امور“۔

۸ سورہ بقرہ،ا یت ۱۵۶ ۔”هم الله ہی کے لئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں“۔

اور توحید پر ایمان کا اثر یہ ہے کہ فرد ومعاشرے کی فکر و ارادہ ایک ہی مقصد وہدف پرمرتکز رہیں کہ جس سے بڑه کر، بلکہ اس کے سوا کوئی دوسرا ہدف و مقصد ہے ہی نہیں( قُلْ إِنَّمَا ا عَِٔظُکُمْ بِوَاحِدَةٍ ا نَْٔ تَقُوْمُوْا لِلّٰهِ مَثْنٰی وَ فُرَادٰی ) (۱) ۔ اس توجہ کے ساته کہ اشعہ نفسِ انسانی میں تمرکزسے انسان کو ایسی قدرت مل جاتی ہے کہ وہ خیالی نقطے میں مشق کے ذریعے حیرت انگیز توانائیاں دکها سکتا ہے، اگر انسانی فکر اور ارادے کی شعاعیں اسی حقیقت کی جانب مرتکز ہو ں جومبدا ومنتهی اور( نُوْرُ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضِ ) (۲) ہے تو کس بلند واعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ؟!

جس فرد ومعاشرے کی( إِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِیْ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضَ حَنِيْفاً وَّمَا ا نََٔا مِن الْمُشْرِکِيْنَ ) (۳) کے مقام تک رسائی ہو، خیر وسعادت وکمال کا ایسا مرکز بن جائے گا جو تقریر وبیان سے بہت بلند ہے۔

عن ا بٔی حمزة عن ا بٔی جعفر (ع) :((قال سمعته یقول: ما من شیء ا عٔظم ثواباً من شهادة ا نٔ لا إله إلا اللّٰه، لا نٔ اللّٰه عزوجل لا یعدله شی ولا یشرکه فی الا مٔر ا حٔد ))(۴)

اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جیسا کہ کوئی بھی چیز خداوند متعال کی مثل وہمسر نہیں، اس ذات قدوس کے امرمیں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ کوئی عمل اس حقیقت کی گواہی کا مثل و ہمسر نہیں جو کلمہ طیبہ ((لا إله إلااللّٰه ))کا مضمون ہے اورعمل کے ساته شایان شان جزاکے ثواب میںبھی اس کا کوئی شریک نہیں۔

زبان سے ((لا إله إلااللّٰه )) کی گواہی، دنیا میں جان ومال کی حفاظت کا سبب ہے اور دل سے اس کی گواہی آتش جهنم کے عذاب سے نجات کا باعث ہے اور اس کی جزا بهشت بریںہے۔ یہ کلمہ طیبّہ رحمت رحمانیہ ورحیمیہ کا مظهر ہے۔

چھٹے امام (ع) سے روایت ہے کہ: خداوند تبارک وتعالی نے اپنی عزت وجلال کی قسم کهائی ہے کہ اہل توحید کو آگ کے عذاب میں ہر گز مبتلا نہ کرے گا۔(۵)

اوررسول خدا (ص)سے منقول ہے: ((ماجزاء من ا نٔعم عزوجل علیه بالتوحید إلا الجنة ))(۶)

جو اس کلمہ طیبہ کا ہر وقت ورد کرتاہے ، وہ حوادث کی جان لیوا امواج، وسواس اور خواہشات نفسانی کے مقابلے میں کشتی دٔل کو لنگرِ ((لا إله إلا اللّٰه )) کے ذریعے هلاکتوں کی گرداب سے نجات دلاتا ہے( اَلَّذِيْنَ آمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوَبُهُمْ بِذِکْرِ اللّٰهِ ا لَٔاَ بِذِکْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ) (۷)

کلمہ طیبہ کے حروف کوبالجهر اور بالاخفات دونوں طریقوں سے ادا کیا جاسکتا ہے کہ جامع ذکرِ جلی وخفی ہے اور اسم مقدس ((اللّٰہ))پر مشتمل ہے، کہ امیرالمو مٔنین (ع) سے منقول ہے کہ:

((اللّٰہ)) اسماء خدا میں سے بزرگترین اسم ہے اور ایسا اسم ہے جو کسی مخلوق کے لئے نہیں رکھا گیا۔

اس کی تفسیر یہ ہے کہ غیر خدا سے امید ٹوٹ جانے کے وقت ہر ایک اس کو پکارتا ہے( قُلْ ا رََٔا ئَْتَکُم إِنْ ا تََٔاکُمْ عَذَابُ اللّٰهِ ا ؤَْ ا تََٔتْکُمُ السَّاعَةُ ا غَيْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِيْنَةبَلْ إِيَّاهُ تَدْعُوْنَ فَيَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ إِلَيْه إِنْ شَاءَ وَ تَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُوْنَ ) (۸)

____________________

۱ سورہ سباء،ا یت ۴۶ ۔”پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں صرف اس بات کی نصیحت کرتا ہوںکہ الله کے لئے دو دو اور ایک ایک کرکے قیام کرو“۔

۲ سورہ نور،آ یت ۳۵ ۔”الله آسمانوں اورزمین کا نور ہے“۔

۳ سورہ انعام، آیت ۷۹ ۔” میرا رخ تمام تر اس خدا کی طرف سے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں استقامت کے ساته توحید میں ہوں اور مشرکوں میں سے نہیں ہوں“۔

۴ توحید صدوق ص ۱۹ ۔

۵ توحید ص ۲۰ ۔

۶ توحید ص ۲۲ ۔ اس شخص کی جزا اس کو خدا نے نعمت توحید سے نوازا ہے جز بهشت کچھ نہیں ۔

۷ سورہ رعد، آیت ۲۸ ۔”یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دلوں کو یاد خدا سے اطمینان حاصل ہوتا ہے اور آگاہ ہو جاو کہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ہوتاہے“۔

۸ سور ہ انعام، آیت ۴۰ ۔ ۴۱ ۔”آپ ان سے کہئے کہ تمهارا کیا خیال ہے کہ اگر تمهارے پاس عذاب یا قیامت آجائے تو کیا تم اپنے دعوے کی صداقت میں غیر خدا کو بلاو گٔے۔ تم خدا ہی کو پکاروگے اور وہی اگر چاہے گا تو اس مصیبت کو رفع کر سکتا ہے۔اور تم اپنے مشرکانہ خداو ںٔ کو بهول جاو گٔے“۔

ابو سعید خدری نے رسول خدا (ص)سے روایت کی ہے کہ خداوند جل جلالہ نے حضرت موسی (ع) سے فرمایا :

اے موسی! اگر آسمانوں، ان کے آباد کرنے والوں (جو امر کی تدبیر کرنے والے ہیں)اور ساتوں زمینوں کو ایک پلڑے میں رکھا جائے اور((لا إله إلا اللّٰه )) کو دوسرے پلڑے میں تو یہ دوسرا پلڑا بهاری ہوگا۔(۱) (یعنی اس کلمے کے مقابلے میں تمام مادّیات ومجرّدات سبک وزن ہیں)۔

عدل

خداوندِ متعال کی عدالت کو ثابت کرنے کے لئے متعدد دلائل ہیں جن میں سے ہم بعض کاتذکرہ کریں گے:

۱۔هر انسان، چاہے کسی بھی دین ومذهب پر اعتقاد نہ رکھتاہو، اپنی فطرت کے مطابق عدل کی اچهائی و حسن اور ظلم کی بدی و برائی کو درک کر سکتا ہے۔حتی اگر کسی ظالم کو ظلم سے نسبت دیں تو اس سے اظهار نفرت اور عادل کہیں تو خوشی کا اظهار کرتا ہے۔شہوت وغضب کا تابع ظالم فرمانروا، جس کی ساری محنتوں کا نچوڑ نفسانی خواہشات کا حصول ہے، اگر اس کا واسطہ محکمہ عدالت سے پڑ جائے اور قاضی اس کے زور و زر کی وجہ سے اس کے کسی دشمن کا حق پامال کر کے اس ظالم کے حق میں فیصلہ دے دے، اگر چہ قاضی کا فیصلہ اس کے لئے باعث مسرت وخوشنودی ہے لیکن اس کی عقل وفطرت حکم کی بدی اور حاکم کی پستی کو سمجه جائیں گے۔جب کہ اس کے برعکس اگر قاضی اس کے زور و زر کے اثر میں نہ آئے اور حق وعدل کا خیال کرے، ظالم اس سے ناراض تو ہو گا لیکن فطرتاً وہ قاضی اور اس کے فیصلے کو احترام کی نظر سے دیکھے گا۔

تو کس طرح ممکن ہے کہ جس خدا نے فطرت انسانی میں ظلم کو برا اور عدل کو اس لئے اچها قرار دیا ہو تاکہ اسے عدل کے زیور سے مزین اور ظلم کی آلودگی سے دور کرے اور جو( إِنَّ اللّٰهَ يَا مُْٔر بِالْعَدْل وَاْلإِحْسَانِ ) (۲) ،( قُلْ ا مََٔرَ رَبِّی بِالْقِسْطِ ) (۳) ،( يَادَاودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِيْفَةً فِی اْلا رَْٔضِ فَاحْکُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَق وَلاَ تَتَّبِعِ الْهَوٰی ) ٤جیسی آیات کے مطابق عدل کا حکم دے وہ خود اپنے ملک وحکم میں ظالم ہو؟!

۲۔ظلم کی بنیاد یا تو ظلم کی برائی سے لاعلمی، یا مقصد و ہدف تک پهنچنے میں عجز یا لغووعبث کام ہے، جب کہ خداوندِمتعال کی ذات جهل، عجز اور سفا ہت سے پاک ومنزہ ہے۔

لہٰذا، علم، قدرت اور لا متناہی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ خداوند متعال عادل ہو اور ہر ظلم و قبیح سے منزہ ہو۔

۳۔ ظلم نقص ہے اور خداوندِمتعال کے ظالم ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ اس کی ترکیب میں کمال ونقصان اور وجود وفقدان بیک وقت شامل ہوں، جب کہ اس بات سے قطع نظر کہ یہ ترکیب کی بدترین قسم ہے، کمال ونقص سے مرکب ہونے والا موجود محتاج اور محدود ہوتا ہے اور یہ دونوں صفات مخلوق میں پائی جاتی ہیں نہ کہ خالق میں۔

لہٰذا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تخلیق کائنات( شَهِدَ اللّٰهُ ا نََّٔه لاَ إِلٰهَ إِلاَّ هُوَ وَالْمَلاَئِکَةُ وَ ا ؤُْلُوالْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْط لاَ إِلٰهَ إِلاَّ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ ) (۵) ،

قوانین واحکام

( لَقَدْ ا رَْٔسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَ ا نَْٔزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْم النَّاسُ بِالْقِسْطِ ) (۶) اور قیامت کے دن لوگوں کے حساب وکتاب میں عادل ہے۔( وَقُضِیَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُوْنَ ) (۱)

عن الصادق (ع) :((إنه سا لٔه رجل فقال له :إن ا سٔاس الدین التوحید والعدل، وعلمه کثیر، ولا بد لعاقل منه، فا ذٔکر ما یسهل الوقوف علیه ویتهیا حفظه، فقال: ا مٔا التوحید فا نٔ لا تجوّز علی ربک ماجاز علیک، و ا مٔا العدل فا نٔ لا تنسب إلی خالقک ما لامک علیه ))(۲) اور هشام بن حکم سے فرمایا: ((ا لٔا ا عٔطیک جملة فی العدل والتوحید ؟ قال: بلی، جعلت فداک، قال: من العدل ا نٔ لا تتّهمه ومن التوحید ا نٔ لا تتوهّمه ))(۳)

اور امیر المومنین (ع) نے فرمایا:((کل ما استغفرت اللّٰه منه فهومنک،وکل ما حمدت اللّٰه علیه فهومنه ))(۴)

____________________

۱ توحید، ص ۳۰ ۔

۲ سورہ نحل، آیت ۹۰ ۔”باتحقیق خدا وند متعال عدل واحسان کا امر کرتا ہے“۔

۳ سورہ اعراف، آیت ۲۹ ۔ ”کہو میرے رب نے انصاف کے ساته حکم کیا ہے“۔

۴ سورہ ص، آیت ۲۶ ۔ ”اے داو دٔ (ع)!هم نے تم کو روئے زمین پر خلیفہ بنایا ہے تو تم لوگوں کے درمیان بالکل ٹهیک فیصلہ کرو اور ہویٰ وہوس کی پیروی مت کرو“۔

۵ سورہ آل عمران ، آیت ۱۸ ۔”خدا نے خود اس بات کی شهادت دی کہ سوائے اس کے کوئی معبود نہیں ہے و کل فرشتوں نے اور صاحبان علم نے جو عدل پر قائم ہیں (یهی شهادت دی) کہ سوائے اس زبردست حکمت والے کے اور کوئی معبود نہیں ہے“۔

۶ سورہ حدید ، آیت ۲۵ ۔ ”هم نے یقینا اپنے پیغمبروں کو واضح و روشن معجزے دے کر بھیجا ہے اور ان کے ساته کتاب (انصاف کی)ترازو نازل کی تاکہ لوگ قسط وعدل پر قائم رہیں“۔

نبوت خاصّہ

چونکہ پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت رہتی دنیا تک کے لئے ہے اور آپ (ص) خاتم النبیین ہیں،لہٰذا ضروری ہے کہ آنحضرت (ص) کا معجزہ بھی ہمیشہ باقی رہے۔

دوسرے یہ کہ آپ (ص) کی بعثت کا دور کلام میں فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے مقابلے کا دور تھا اور اس معاشرے میں شخصیات کی عظمت و منزلت، نظم و نثر میں فصاحت و بلاغت کے مراتب کی بنیاد پر طے ہوتی تھی۔

ان ہی دو خصوصیات کے سبب قرآن مجید، مختلف لفظی اور معنوی اعتبارات سے حضور اکرم (ص) کی نبوت و رسالت کی دلیل قرار پایا۔ جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں:

۱۔قرآن کی مثل لانے سے انسانی عجز:

پیغمبر اکرم (ص) نے ایسے زمانے اور ماحول میں ظہور فرمایا جهاں مختلف اقوام کے لوگ گوناگوں عقائد کے ساته زندگی بسر کر رہے تھے۔کچھ تو سرے سے مبدا متعال کے منکر اور مادہ پرست تھے اور جو ماوراء مادہ و طبیعت کے قائل بھی تھے تو، ان میں سے بھی بعض بت پرستی اور بعض ستارہ پرستی میں مشغول تھے۔ باقی جو ان بتوںاور ستاروں سے دور تھے وہ مجوسیت، یہودیت، یا عیسائیت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔

دوسری جانب شهنشاہ ایران اور هرقل روم کمزور اقوام کی گردنوں میں استعمار و استحصال کے طوق ڈالے ہوئے تھے یا پھر جنگ و خونریزی میں سرگرم تھے۔

ایسے دور میں پیغمبر اسلام (ص) نے غیب پر ایمان اور توحید کے پرچم کو بلند کرکے کائنات کے تمام انسانوںکو پروردگار عالم کی عبادت اور کفر و ظلم کی زنجیریں توڑنے کی دعوت دی۔ ایران کے کسریٰ اور قیصرروم سے لے کر غسان و حیرہ کے بادشاہوں تک، ظالموں اور متکبروں کو پروردگار عالم کی عبودیت، قبولِ اسلام، قوانین الٰهی کے سامنے تسلیم اور خود کو حق و عدالت کے سپرد کرنے کی دعوت دی۔

مجوس کی ثنویت، نصاریٰ کی تثلیث، یہود کی خدا اور انبیاء علیهم السلام سے ناروا نسبتوں اور جاہلیت کی ان غلط عادات ورسوم سے، جو آباء و اجداد سے وراثت میں پانے کے سبب جزیرة العرب کے لوگوں کے ر گ وپے میں سما چکی تہیں، مقابلہ کیا اور تمام اقوام و امم کے مدمقابل اکیلے قیام فرمایا۔

باقی معجزات کو چهوڑ کر معجزہ قرآن کو اثبات نبوت کی قاطع دلیل قرار دیا اور قرآن کو چیلنج بناتے ہوئے بادشاہوں، سلاطین، نیز علمائے یہود اورعیسائی راہبوں جیسی طاقتوں اور تمام بت پرستوں کو مقابلے کی دعوت دی( وَإِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا فَا تُْٔوا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِه وَادْعُوْا شُهَدَآئَکُمْ مِن دُوْنِ اللّٰهِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِيْنَ ) (۲)

____________________

۱ بحار الانوار ج ۶ ص ۵۹ ۔”امام نے اس حدیث میں پیغمبران خدا کی معرفت اور ان کی رسالت کا اقرار اور ان کی اطاعت کے واجب ہونے کے سلسلے میں فرمایا:کیونکہ مخلوق خلقت کے اعتبار سے اپنی مصلحتوں تک نہیں پہونچ سکتے تھے، دوسرے طرف خالق عالی ومتعالی ہے مخلوق اپنے ضعف و نقص کے ساته خدا کا ادراک نہیں کرسکتے لہٰذا کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ ان دونوں کے درمیان ایک معصوم رسول وسیلہ بنے جو خدا کے امر و نهی کو اس کمزور مخلوق تک پہونچا سکے ۔

اور ان کے مصالح و مفاسد سے آگاہ کرے کیونکہ ان کی خلقت میں اپنی حاجتوں کے مطابق مصلحتوں اور نقصان دینے والی چیزوں کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں ہے“۔

۲ سورہ بقرہ ، آیت ۲۳ ۔”اگر تمہیں اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس کا جیسا ایک ہی سورہ لے آو اور الله کے علاوہ جتنے تمهارے مددگار ہیں سب کو بلا لو اگر تم اپنے دعوے میںاور خیال میں سچے ہو“۔


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16