اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی0%

اصول دين سے آشنائی مؤلف:
زمرہ جات: عقائد لائبریری

اصول دين سے آشنائی

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22068
ڈاؤنلوڈ: 3934

تبصرے:

اصول دين سے آشنائی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22068 / ڈاؤنلوڈ: 3934
سائز سائز سائز
اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی

مؤلف:
اردو

خدا کی تربیت کے آثار اس کی عمومی و خصوصی رحمت کا ظهور ہیں، لہٰذا دوبارہ( اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ) کو اپنی زبان پر جاری کرتا ہے۔

فضل و رحمتِ خدا میں مستغرق ہوتے ہوئے اس غرض سے کہ کہیں عدلِ خدا سے غافل نہ ہو جائے کہتا ہے:( مَالِکِ يَوْمِ الدِّيْنِ ) اس لئے کہ معصیت، خدا کی ہتک حرمت ہے اور لامتناہی عظمت کی حرمت لامتناہی ہوتی ہے اور لامتناہی کی ہتک حرمت کسی بھی ہتک حرمت کے ساته قابل قیاس نہیں ہے اور انسان کے بارے میں جس هستی کے حق اور نعمتوں کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، اس هستی کی نافرمانی کی سزا بھی اس عمل کے تناسب سے ہوگی۔

اور ہر گناہ میں صرف ہونے والی قوت و قدرت اسی دنیا سے حاصل شدہ ہے، اس لئے کہ انسان کی زندگی اس دنیا سے وابستہ ہے۔ انسان جو گناہ انجام دیتا ہے وہ زمین و آسمان کی نعمتوں کے ساته خیانت ہے اور اسے حساب و کتاب اور روز جزاء درپیش ہیں، کہ خدا نے فرمایا ہے( يَا ا ئَُّهَا النَّاس اتَّقُوْا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِيْمٌ ة يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ کُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا ا رَْٔضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْل حَمْلَهَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکَاریٰ وَ مَا هُمْ بِسُکَاریٰ وَلٰکِنْ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيْدٌ ) (۱) ،اسی لئے( مَالِکِ يَوْمِ الدِّيْنِ ) پر توجہ عرفاء کو لرزہ بر اندام کر دیتی ہے، کہ امام العارفین حضرت زین العابدین(ع) جب اس جملے پر پهنچتے تھے تو اتنا دہراتے تھے کہ((کاد ا نٔ یموت ))(۲)

( اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ) اور( مَالِکِ يَوْمِ الدِّيْنِ ) نماز گذار کو خوف و رجا کے بال و پر عطا کرتے اور خدا کی رحمت و عزت سے آشنا کرتے ہیں۔ پهلے جملے میں انسان کی نظر مغفرت و ثواب اور دوسرے جملے میں سزا و عقاب پر ہوتی ہے۔

اور اس وقت الوہّیت، ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت، فضل اور عدل خدا کی عظمت اس کے دل کو تسخیر کر لیتی ہیں اور وہ صیغہ غائب سے خطاب کی طرف اس ادراک کے ساته متوجہ ہوتا ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، لہٰذا کہتا ہے:( إِيَّاکَ نَعْبُدُ ) اور اس توجہ کے ساته کہ یہ عبادت بھی اسی کی ہدایت اور حول و قوت سے ہے، کہتا ہے:( وَإِيَّاکَ نَسْتَعِيْنُ ) ۔

( نَعْبُدُ ) میں دیکھتا ہے کہ عبادت عبد کی جانب سے ہے اور( نَسْتَعِيْنُ ) میں اسے نظر آتا ہے کہ مدد خدا کی جانب سے ہے کہ ((لاحول ولاقوة الّا باللّٰه ))

( إِيَّاکَ نَعْبُدُ ) میں نظریہ جبر اور( وَإِيَّاکَ نَسْتَعِيْنُ ) میں نظریہ تفویض کی نفی ہے اور انہیں اس لئے صیغہ جمع کے ساته بیان کیا گیا ہے تا کہ خود کو مسلمانوں سے جدا نہ سمجھے اور( إِيَّاکَ نَعْبُد وَإِيَّاکَ نَسْتَعِيْن ) میں کلمہ توحید اور توحیدِ کلمہ، دونوں کو جامہ عمل پهناتا ہے۔

فریضہ عبودیت انجام دینے کے بعد عبد کی مولا سے دعا و درخواست کی باری ہے، لہٰذا کہتا ہے:( اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ ) ، انسانیت کی علوہمت اور الوہيّت کے جلال و اکرام کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے قیمتی ترین گوہر کی درخواست کی جائے اور وہ گوہر صراط مستقیم کی ہدایت ہے جو ہر طرح کی افراط و تفریط سے دور ہے اور راہ مستقیم متعدد نہیں ہیں۔ خدا ایک ہے اور اس کی راہ بھی ایک اور اس راستے کی ابتداء انسان کے نقطہ نقص سے ہوتی ہے( وَاللّٰهُ ا خَْٔرَجَکُمْ مِنْ بُطُوْنِ ا مَُّٔهَاتِکُمْ لاَ تَعْلَمُوْن شَيْئاً ) (۳) اور کمالِ مطلق اس کی انتها قرار پاتی ہے کہ ((ماذا وجد من فقدک، وماالذی فقدمن وجدک ))(۴) اور( وَا نَّٔ إِلیٰ رَبِّکَ الْمُنْتَهیٰ ) (۵)

( صِرَاطَ الَّذِيْنَ ا نَْٔعَمْتَ عَلَيْهِمْ ) راہ مستقیم ان کا راستہ ہے جن پر خداوندعالم نے اپنی نعمتیں نازل فرمائی ہیں( وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَا ؤُْلٰئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ ا نَْٔعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّيْنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ وَ حَسُنَ ا ؤُْلٰئِکَ رَفِیقْاً ) (۶)

____________________

۱ سورہ حج، آیت ۱،۲ ۔”لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو کہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی شئے ہے۔ جس دن تم دیکھو گے کہ دودہ پلانے والی عورتیں اپنے دودہ پیتے بچوں سے غافل ہو جائیں گی اور حاملہ عورتیں اپنے حمل کو گرادیں گی اور لوگ نشہ کی حالت میں نظر آئیں گے حالانکہ وہ مست نہیں ہوں گے بلکہ الله کا عذاب ہی بڑا سخت ہوگا“۔

۲ بحار الانوار، ج ۴۶ ، ص ۱۰۷ ۔”نزدیک تھا کہ مرجائے“۔

۳ سورہ نحل، آیت ۷۸ ۔”خدا نے تم کو تمهارے ماو ںٔ کے پیٹ سے با ہر نکالا حالانکہ تمکچھ نہیں جانتے تھے“۔

۴ بحار الانوار، ج ۹۵ ، ص ۲۲۶ ۔”جس نے تجہے کهودیا اس کیا ملا ؟اور وہ جس نے تجہے پالیا اس نے کیا کهویا“۔

۵ سورہ نجم، آیت ۴۲ ۔”بس ہر امر کی انتها تمهارے پروردگار کی طرف ہے“۔

۶ سورہ نساء، آیت ۶۹ ۔”اور جو بھی الله اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساته رہے گاجن پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیاء صدیقین،شهداء اور صالحین اور یهی بہترین رفقاء ہیں“۔

مسلمان اپنے خدا سے انبیا، مرسلین، شهدا اور صدیقین کی صف میں شامل ہونے کی دعا اور غضبِ الٰهی میں گرفتار و گمراہ لوگوں سے دوری کی درخواست کرتا ہے۔ اس دعا کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان خود کو اخلاقِ انبیاء سے آراستہ اور اہل غضب و اضلال کے رويّے سے اجتناب کرے اور( اَللّٰه وَلِیُّ الَّذِيْنَ آمَنُوْا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلیَ النُّوْرِ ) (۱) کا تقاضا یہ ہے کہ ذات قدوس جو( نُوْرُالسَّمَاوَات وَالْا رَْٔضِ ) (۲) ہے کی طرف متوجہ رہے اور حقیقت ایمان سے منور دل کی آنکهوں سے اس کی عظمت کو جانے اور حکمِ( فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِيْمِ ) (۳) کو بجالاتے ہوئے اس کے سامنے سرتسلیم خم کرے اور کہے ((سبحان ربی العظیم و بحمدہ))

رکوع سے سر اٹهائے اور سجدے کے ذریعے حاصل ہونے والے مقام قرب کے لئے تیار ہو اور حکمِ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ اْلا عََٔلیٰ ) (۴) کی اطاعت کرتے ہوئے خاک پر سجدہ ریز ہو جائے اور پیشانی خاک پر رکھ کر اس عنایت کو یاد کرے کہ اس ناچیز خاک سے خلق کرنے کے با وجود اس کے دل کو چراغِ عقل سے روشن و منور فرمایا، خاک پر سر رکھنے سے( وَلَقَدْ خَلَقْنَا اْلإِنْسَانَ مِنْ سُلالَةٍ مِّنْ طِيْنٍ ) (۵) پر نظر کرے اور کہے ((سبحان ربی الاعلیٰ وبحمده )) اور سر اٹهاتے وقت( ثُمَّ ا نَْٔشَا نَْٔاهُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰه ا حَْٔسَنُ الْخَالِقِيْنَ ) (۶)

اور اپنی حیات دنیوی پر نظر ڈالے اور کہے ((اللّٰه ا کٔبر ))۔ دوبارہ خاک پر گر کر اس دن کو یاد کرے جب اس کی منزل اس تاریک و اندہیری خا ک میں ہوگی۔ زندگی کے بعد موت پر نظر کرے اور دوبارہ سر اٹها کر موت کے بعد کی زندگی کو دیکھے اور دو سجدوں میں( مِنْهَا خَلَقْنَاکُمْ وَ فِيْهَا نُعِيْدُکُمْ و مِنْهَا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً ا خُْٔریٰ ) (۷) کے معنی کو سمجھے اور اپنے وجود کے مراحل کی معرفت کو طے کرے۔

جوکچھ بیان کیا گیا ہے وہ نماز میں موجود حکمت و ہدایت کے انوارِ خورشید میں سے ایک شعاع کی مانند ہے اور سورہ حمد کے بعد پڑهی جانے والی سورہ، اذکار، قیام، قعود، قنوت، تسبیحات اربعہ، تشهد، سلام اور آداب نماز کے اسرار کو اختصار کی غرض سے بیان نہیں کیا گیا ہے۔

یہ تھا اسلام میں عبادت کا نمونہ، اس کے مدمقابل عیسائیوں کی عبادت یہ ہے:”اور عبادت کرتے ہوئے سابقہ امتوں کی طرح بے کار میں تکرار نہ کرو، چونکہ وہ گمان کرتے تھے کہ زیادہ کهنے کے سبب ان کی عبادت قبول ہوگی، پس ان کی طرح نہ ہونا، کیونکہ تمهارا باپ، اس سے پهلے کہ تم سوال کرو، تمهاری حاجات سے واقف ہے، پس تم اس طرح سے دعا مانگو: اے ہمارے پدر! کہ تیرا نام آسمان پر مقدس رہے۔ تیرا ملکوت آجائے، جس طرح تیرا ارادہ آسمان میں ہے زمین میں ویسے انجام پائے۔ ہمیں

آج کے دن کافی ہو جانے والی روٹی دے دے اور ہمارے قرضے معاف فرما دے جیسا کہ ہم بھی اپنے قرض داروں کو بخش دیتے ہیں۔ ہمیں امتحان میں نہ ڈال، بلکہ ہمیں شریر سے نجات دے، کیونکہ ملکوت، قوت و جلال ابدالآباد تک تیرے لئے ہے۔ آمین“(۸)

هم اس عبادت میں بعض نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱۔ ”اے ہمارے پدر!“ خدا پر باپ کا اطلاق یا حقیقی ہے یا مجازی، اگر حقیقی ہو تو خدا کو تولید کی نسبت دینا، درحقیقت اس کے لئے مخلوق کی صفت ثابت کرنا اور خالق کو مخلوق تصور کرنا ہے اور اگر مجازی ہو تو تشبیہ ہے اور خالق کی مخلوق سے تشبیہ، مخلوق کی صفت کو خالق کے لئے ثابت کرنا ہے۔ اور ایسی عبادت مخلوق کے لئے ہوسکتی ہے، خالق کی نہیں، جبکہ اسلام میں عبادت،

ایسے خداوندمتعال کی عبادت ہے جس کی معرفت سے عقول کو رہائی نہیں اور غیر سے تشبیہ دینے کی اجازت نہیں ہے۔

____________________

۱ سورہ بقرہ، آیت ۲۵۷ ۔”الله صاحبان ایمان کا ولی ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے“۔

۲ سورہ نور، آیت ۳۵ ۔”آسمان اورزمین کا نور ہے“۔

۳ سورہ واقعہ، آیت ۷۴ ۔”اب آپ اپنے عظیم پرور دگار کے نام کی تسبیح کریں“۔

۴ سورہ اعلیٰ ، آیت ۱۔”اپنے بلند ترین رب کے نام سے تسبیح کرو“۔

۵ سورہ مومنون، آیت ۱۲ ۔”اور ہم نے انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے“۔

۶ سورہ مومنون، آیت ۱۴ ۔”پھر ہم نے اسے ایک دوسری صورت میں پیدا کیا تو کس قدر بابرکت ہے وہ خدا جو سب سے بہترخلق کرنے والا ہے“۔

۷ سورہ طہ، آیت ۵۵ ۔”تم کو اس سے پیدا کیا اور اسی میں واپس لے جائیں گے اور دوبارہ پھر اس سے نکالیںگے“۔

۸ انجیل متیٰ باب ششم۔

۲۔ ثناء پروردگار کے بعد ان کی خدا سے درخواست، اس دن کفایت کرنے والی روٹی ہے۔

عیسائی نماز میں پیٹ کی روٹی چاہتا ہے کہ جو انسان کے جسم کے لئے ایسے ہی ہے جیسے حیوان کے لئے گهاس۔ جب کہ مسلمان، صراط مستقیم کی ہدایت جیسی پسندیدہ راہ کی درخواست کرتا ہے، جو عقل کی آنکه کا نور اور جس کا مقصد خدا ہے،کہ نہ تو ہدایت سے بڑه کر،کہ جو کمال انسانیت ہے،کوئی قیمتی گوہر ہے۔ اور نہ ہی خداوند عز و جل سے بڑه کر کوئی موجود ہے۔

۳۔”ہمارے قرض معاف فرما دے، جیسا کہ ہم اپنے قرض داروں کو بخش دیتے ہیں۔“ جھوٹ، خدا کی نافرمانی و معصیت ہے اور معصیت کے ساته عبادت کرنا ممکن نہیں، کیا عیسائی اپنے قرض داروں کا قرضہ معاف کرتے ہیں جو اپنے خدا سے اس طرح کہتے ہیں؟!

اختصار کے پیش نظر، بقیہ ادیان کی عبادتوں کے ساته مقایسے سے صرف نظر کرتے ہیں۔

ب۔ زکات:

نماز انسان کا خالق سے اور زکات انسان کا مخلوق سے رابطہ ہے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات میںزکات کا تذکرہ نماز کے ساته کیا گیا ہے ((عن ا بٔی جعفر و ا بٔی عبداللّٰه علیهما السلام قالا:فرض اللّٰه الزکاة مع الصّلاة ))(۱)

انسان مدنی الطبع ہے۔ مال، مقام، علم و کمال میں سے جوکچھ بھی اس کے پاس ہے، سب معاشرتی روابط کی بدولت ہے اور کیونکہ جس معاشرے میں زندگی بسر کر رہا ہے وہ اس کی مادی و معنوی کمائی میں حقدار ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ معاشرے کا قرض ادا کرے۔

اور اسلام کے زکات و صدقات سے متعلق قوانین پر عمل کے ذریعے، ہر فرد معاشرے کا قرض ادا کرسکتا ہے۔

اسلام میں زکات، صدقات و انفاقات کا سلسلہ اتنا وسیع ہے کہ اگر اس پر صحیح عمل ہو تو معاشرے میں کوئی ضرورت مند باقی نہ رہے، جس کے نتیجے میں دنیا آباد ہو جائے اور ضرورت مندوں و بهوکوں کی سرکشی و طغیان کے وجود سے مطمئن ہوکر امن و امان کے تمدن کا گهوارہ بن جائے۔

امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں: ((إن اللّٰه عزوجل فرض للفقراء فی مال الا غٔنیاء مایسعهم،ولوعلم ا نٔ ذلک لایسعهم لزادهم ا نٔهم لم یؤتوا من قبل فریضة اللّٰه عزّوجلّ لکن ا ؤتوا من منع من منعهم حقّهم لا ممّا فرض اللّٰه لهم ولوا نّٔ الناس ا دّٔواحقوقهم لکانوا عائشین بخیرٍ ))(۲)

اور محتاجوں کو نہ ملنے کے مفسدہ کی اہمیت کے پیش نظر فرمایا( وَالَّذِيْنَ يَکْنِزُوْنَ الذَّهَب وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنْفِقُوْنَهَا فِی سَبِيْلِ اللّٰهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ ا لَِٔيْمٍ ) (۳)

عطا و بخشش کے اثر کے ذریعے معاشرے سے فقر کی بنیادوں کو نابود کرنے، انسان کے سخاوت و کرم سے آراستہ ہونے اور فرد و معاشرے کی سعادت میں اس کے کردار کی اہمیت کے باعث رسول اکرم(ص) نے سخاوت مند مشرک کو امان عطا کر دی(۴) اور اسی سخاوت کی بدولت اسے اسلام کی ہدایت نصیب ہوئی۔ روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ(ع) کو پروردگار عالم نے وحی فرمائی کہ سامری کو قتل نہ کرو(۵) کیونکہ وہ سخاوتمند ہے۔

____________________

۱ وسائل الشیعہ،ج ۹، ص ۱۳ ، کتاب الزکاة، ابواب ماتجب فیہ الزکاة، باب ۱، حدیث ۸۔”خدا نے زکوٰة کو نماز کے ساته واجب کیا ہے“۔

۲ وسائل ج ۹ ص ۱۰ ، کتاب الزکاة ابواب ماتجب فیہ الزکاة، باب اول ح ۲۔خدا نے مالداروں کے مال میں فقراء کا اتنا حصہ معین کردیا ہے جس سے وہ اپنی زندگی بسر کر سکیں اور اگر اس کے علم میں اس سے زیادہ ان کے لئے ضروری ہو تاتو اس کو معین کر دیتا لیکن فقیروں کا یہ حال ان مالداروں کی وجہ سے جو ان کا مال روکیں ہیں نہ کہ خدا کی طرف سے اور اگر لوگ فقراء کے حقوق کو ادا کریں تو ان کی مشیعت با خیر (اچهی) ہوگی۔

۳ سورہ توبہ، آیت ۳۴ ۔”وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے ان کو دردناک عذاب کی بشارت دیدو“۔

۴ وسائل الشیعہ ج ۹ ص ۱۷ ، کتاب الزکاة، ابواب ماتجب فیہ الزکاة، باب ۲، حدیث ۴۔

۵ وسائل الشیعہ ج ۹ ص ۱۷ ، کتاب الزکاة، ابواب ماتجب فیہ الزکاة، باب ۲، حدیث ۶۔

فقراء کی دیکھ بهال کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ کسی فقیر کو پیٹ بهر کر کهلانے، لباس پهنانے اور ایک خاندان کو سوال کی شرمندگی سے بچا کر ان کی آبرو کی حفاظت کرنے کو ستر بار حج بیت الله سے افضل قرار دیا گیا ہے(۱) صدقہ و احسان کا دائرہ اتنا زیادہ وسیع ہے کہ امام محمد باقر(ع) نے فرمایا:((إن اللّٰه تبارک و تعالیٰ یحّب إبراد الکبدالحرّی و من سقی کبداً حرّی من بهیمة وغیرها ا ظٔلّه اللّٰه یوم لاظل إلّاظله ))(۲)

اسلام میں صدقات کے آداب معین ہیں۔ ان میں سے ایک ادب، صدقے کو چهپا کر دینا ہے، تا کہ صدقہ لینے والے کی حیثیت و آبرو محفوظ رہے،(۳) جتنا بھی زیادہ ہو اسے کم جانے(۴) کیونکہ صدقہ و احسان جتنا بھی زیادہ ہو، لینے والا ان سے زیادہ بڑا ہے(۵) ۔

اس پرا حسان نہ جتائے(۶) بلکہ اس کا شکر گذار ہو کہ وہ اس کے مال و جان کی طهارت کا وسیلہ بنا ہے۔ اس کے سوال و درخواست کرنے سے پهلے عطا کرنے میں جلدی کرے، کہ امام جعفر صادق(ع)فرماتے ہیں:”کسی کے سوال کرنے کے بعد جو تم نے اسے عطا کیا ہے وہ اس کی عزت و آبرو کے مقابلے میں ہے۔“(۷) ، اپنے چهرے کو اس سے مخفی رکہے(۸) صدقہ لینے والے سے التماس دعا کہے(۹) اور جس هاته میں صدقہ دے اس هاته کا بوسہ لے اس لئے کہ بظاہر لینے والے کو صدقہ دے رہا ہے اور حقیقت میں لینے والا خدا ہے(۱۰) ( ا لََٔمْ يَعْلَمُوْا ا نََّٔ اللّٰهَ هُوَيَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِه وَ يَا خُْٔذُ الصَّدَقَاتِ ) (۱۱)

اور ضرورتمندوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے اتنی توجہ کی کہ ایثار کا دروازہ کهول دیا اور ارشاد ہوا:( وَيُؤْثِرُوْنَ عَلیٰ ا نَْٔفُسِهِمْ وَلَوْکَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ) (۱۲) اور ایثار کو کمال کے اس درجے تک پهنچاتے ہوئے کہ جس کے بعد کوئی اور درجہ قابل تصور نہیں ،فرمایا:( وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّه مِسْکِيْناً وَّيَتِيْماً وَّ ا سَِٔيْراًة إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لاَ نُرِيْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَاشَکُوْرًا ) (۱۳)

دین اسلام نے انفاق و صدقے کو فقط مال تک محدود نہیں کیا بلکہ کمزور کی مدد اور نابینا کی راہنمائی کو بھی صدقہ قرار دیا ہے۔ اعتبار و حیثیت کی بدولت کسی کی مشکلات حل کرنے کو جاہ و مقام کی زکات قرار دیا۔ فقط حوائج مادی پوری کرنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ فرمایا:( وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُوْنَ ) (۱۴) اور ہر وہ چیز انسان کا رزق ہے جس پر زندگی کا دارومدار ہو اسی لئے فرمایا:((و ممّا علمناهم یبثون ))(۱۵) ۔

جوکچھ بیان کیا گیا وہ زکات و صدقات سے متعلق مختصر طور پر اسلام کی حکمت کا تذکرہ تھا۔

اسلام نے اس مقدس قانون کے ذریعے اغنیاء کے نفوس کو بخل، حرص اور طمع کی کدورت اور زن گ سے بچایا اور ان کے اموال کو فقراء کے حقوق، جو ان کے خون کے مترادف ہیں، کی آلودگی سے پاک

____________________

۱ وسائل الشیعہ ج ۹ ص ۱۷ ، کتاب الزکاة، ابواب صدقہ، باب ۲، حدیث ۱۔

۲ وسائل الشیعہ ج ۹ ص ۴۰۹ کتاب الزکاة ابواب صدقہ باب ۱۹ حدیث ۲۔(بے شک خدا وند تبارک تعالیٰ دوست رکھتا ہے کہ کسی مصیبت زدہ کو خوش کیا جائے اور جو شخص ایسے شخص کو سیراب کرے (مدد کرے)چهارپا جانور یا کسی اور چیز کو خدااس دن سایہ دے گا جس دن اس کے ساته کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا،اس کا ساته دے گا جب اس کے علاوہ کوئی اور ساته دینے والا نہ ہوگا۔

۳ وسائل الشیعہ، ج ۹، ص ۴۵۷ ، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب ۳۹ ، حدیث ۳۔

۴ من لایحضرہ الفقیہ،ج ۲، ص ۳۱ ، ح ۱۲ ۔

۵ وسائل الشیعہ، ج ۹، ص ۴۳۳ ، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب ۲۹ ۔

۶ وسائل الشیعہ، ج ۹، ص ۴۵۱ ، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب ۳۷ ۔

۷ وسائل الشیعہ، ج ۹، ص ۴۵۶ ، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب ۳۹ ۔ حدیث ۱۔

۸ وسائل الشیعہ، ج ۹، ص ۴۵۶ ، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب ۳۹ ۔حدیث ۲۔

۹ وسائل الشیعہ، ج ۹، ص ۴۲۴ ، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب ۲۵ ۔

۱۰ وسائل الشیعہ، ج ۹، ص ۴۳۳ ، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب ۲۹ ۔

۱۱ سورہ توبہ، آیت ۱۰۴ ۔”کیا یہ نہیں جانتے کہ الله ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور زکوٰةوخیرات کو وصول کرتا ہے“۔

۱۲ سورہ حشر، آیت ۹۔”اور اپنے نفس پر دوسروں پر مقدم کرتے ہیں چاہے انہیں کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو“۔

۱۳ سورہ انسان، آیت ۸۔ ۹۔”یہ اس کی محبت میں مسکین ،یتیم اور اسیر کو کهانا کهلاتے ہیں۔ ہم صرف الله کی مرضی کی خاطر تمہیں کهلاتے ہیں ورنہ نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ“۔

۱۴ سورہ بقرہ، آیت ۳۔”اس میں سے ہمارے راہ میں خرچ کرتے ہیں“۔

۱۵ بحار الانوار ، ج ۲، ص ۱۷ ۔”جوکچھ ہم نے سیکها ہے اس میں سے نشر کرتے ہیں دوسروں تک“۔

کیا ۔ اور اس طرح سے غنی و فقیر کے رشتے کو مستحکم کیا اور ان دو طبقات، جن سے معاشرے کا بنیادی ڈهانچہ تشکیل پاتا ہے، کے درمیان تمام فاصلے مٹاکر کدورت کو الفت میں تبدیل کر دیا اور ان قوانین و آداب کی برکت سے نہ صرف یہ کہ ضرورت مندوں کی حاجات کو پورا کیا بلکہ ان کی عزت نفس، آبرو، شرافت اور عظمتِ انسانی کی حفاظت فرمائی۔

غنی کو بخشش،کے بعد فقراء کا احسانمند اور شکر گذار ہونے کا حکم ،ایسی باران رحمت کی مانند ہے جس کے ذریعے خداوند تعالیٰ نے فقراء کی آتش حسد کو بجهایا، اموالِ اغنیاء کو، جن کا معاشرے کی رگوں میں خون کی مانند دوڑنا ضروری ہے تاکہ امت کے معاشی نظام کی حفاظت ہوتی رہے، زکات و صدقات کے حصار میں بیمہ کر دیا۔ امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں:((و حصّنوا ا مٔوالکم بالزکاة ))(۱)

کیا اغنیاء کے مال اور دانشوروں کے علم کی اس کميّت و کیفیت کے ساته عطا و بخشش کے ذریعے معاشرے سے مادی و معنوی فقر کی بنیادوں کو نہیںڈهایا جاسکتا؟!

یہ فرد و معاشرے کی سعادت کے لئے نماز و زکات کی حکمت و اثر کا نمونہ تھا۔ لہٰذا جس دین نے ہر حرکت وسکون اور فعل و ترک میں انسان کیکچھ ذمہ داریاں معيّن کی ہوں جو واجبات، محرمات،

مستحبات، مکروہات اور مباحات کے مجموعے کو تشکیل دیتی ہیں اور افراد کی جان، عزت و آبرو اور مال کی حفاظت کے لئے جو قوانین، حقوق اور حدود معيّن کئے گئے ہیں، ان پر عمل کرنے سے کیسا مدینہ فاضلہ تشکیل پاسکتا ہے؟

مثال کے طور پر وہ حیوان جس سے انسان کام لیتا ہے، اس کے حقوق کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح وروشن ہو جاتی ہے کہ اس دین مبین میں انسانی حقوق کی کس طرح ضمانت دی گئی ہے۔

جس جانور پر انسان سوار ہوتا ہے، اس کے حقوق یہ ہیں: منزل پر پهنچنے کے بعد، اپنے کهانے کا انتظام کرنے سے پهلے، اس کے لئے چارہ مهیا کرے، جب کہیں پانی کے پاس سے گزرے اسے پانی پلائے تا کہ پیاسا نہ رہے، اس کے منہ پر تازیانہ نہ مارے، اس کی پیٹه پر میدان جهاد میں ضرورت کے وقت کے علاوہ، کهڑا نہ ہو، اس کی طاقت سے زیادہ سنگین وزن نہ لادے اور کام نہ لے، اسے بُرا بهلا نہ کہے، اس کے چهرے کو بدصورت نہ بنائے، خشک زمین پر تیز اور علف زار میں آهستہ چلائے اور اس کی پیٹه پر گفتگو کی محفل نہ جمائے۔

اور اگر دریا کے کنارے دسترخوان لگائے، باقی بچنے والی غذا کو پانی میں ڈال دے تا کہ دریائی جانور اس کی ہمسائیگی سے بے بهرہ نہ رہیں۔

اور جس زمانے میں پانی میں موجود خوردبین سے نظر آنے والے جانداروں کی کسی کو خبر تک نہ تھی، حکم دیا کہ پانی میں پیشاب نہ کریں کہ پانی کی بھیکچھ مخلوق ہے۔

حیوانات کے بعض حقوق اور ان کے بارے میں انسانی ذمہ داریوں کو ذکر گیا گیا، جس سے اجتماعی عدالت اور انسانی حقوق کے سلسلے میں دین اسلام کا آئین واضح ہوتا ہے۔

دین اسلام کا مقصد دنیا و آخرت کو آباد کرنا اور انسان کے جسم و جان کو قوت و سلامتی عطا کرنا ہے( رَبَّنَا آتِنَا فِیِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَاعَذَابَ النَّارِ ) (۲)

دنیا و آخرت اور جسم و روح کی ایک دوسرے سے وابستگی اور عدل و حکمت کے تقاضے کے مطابق انسان کی مادی و معنوی زندگی میں سے ہر زندگی کی جتنی اہمیت و ارزش تھی ،اتنی ہی اس کی جانب توجہ دلائی اور فرمایا:( وَابْتَغِ فِيْمَا آتَاکَ اللّٰهُ الدَّارَالْآخِرَةَ وَلَا تَنْسِ نَصِيْبَکَ مِنَ الدُّنْيَا ) (۳)

دنیا کو آباد کرنے اور انسان کی آسودگی و آرام پر مکمل توجہ رکھی،دنیا وآخرت کو ان کی خلقت کے تقاضے کے مطابق بالترتیب ثانوی و طفیلی اور بنیادی و مرکزی حیثیت دیتے ہوئے، دنیا و آخرت میں نیکی و حسنات کو انسان کی درخواست اور دعا قرار دیا کہ کلام امام معصوم(ع) میں دنیا کے حسنہ ک و رزق و معاش میں وسعت اور حسنِ خلق، جبکہ آخرت کے حسنہ کو رضوان خدا و بهشت بتلایا گیا

____________________

۱ نهج البلاغہ، حکمت، شمارہ، ۱۴۶ ۔”زکوٰة کے ذریعہ اپنے مال کو محفوظ کرو“۔

۲ سورہ بقرہ، آیت ۲۰۱ ۔”پروردگار ہمیں دنیا میں بھی نیکی عطا فرما اور آخرت میں بھی اور ہم کو عذاب جهنم سے محفوظ فرما“۔

۳ سورہ قصص، آیت ۷۷ ۔”اور جوکچھ خدا نے دیا ہے اس سے آخرت میں گهر کا انتظام کرو اور دنیا میں اپنا حصہ بهول نہ جاو “ٔ۔

ہے۔اقتصادی ترقی بالخصوص زراعت و تجارت کو اہمیت دی اور( وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِه وَلِلْمُو مِْٔنِيْنَ ) (۱)

کے حکم کے مطابق مؤمن کو سخاوت اور بے نیازی کی بدولت عزیز جانا۔ امام جعفر صادق (ع)سے روایت نقل ہوئی ہے:((و ما فی الا عٔمال شی ا حٔب إلی اللّٰہ من الزراعة))(۲) ۔ امیرالمومنین علی بن ابی طالب(ع) نخلستان میں کاشتکاری و آبیاری کیا کرتے تھے۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ امام جعفر صادق(ع)نے بازار سے کنارہ گیری کرنے والے سے فرمایا: ((ا غٔد إلی عزّک ))(۳) اور ایک روایت میں امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں:((تعرضوا للتجارات ))(۴)

اسلام میں بازار و تجارت کی بنیاد ہوشیاری، امانت، عقل ، درایت اور احکام تجارت کا خیال رکھنے پر ہے((لایقعدن فی السوق إلامن یعقل الشراء و البیع ))(۵) ((الفقه ثم المتجر ))(۶)

لیکن دین کے لئے اسلام میں واجبات و مستحبات اور محرمات و مکروہات مقرر کئے گئے ہیں، یهاں ان کی تفصیل ذکر کرنا تو ممکن نہیں ہے، البتہ ان میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

هر قسم کے لین دین میں سود، قسم کهانا، بیچنے والے کا اپنی چیز کی تعریف کرنا، خریدار کا خریدی جانے والی چیز میں عیب نکالنا، عیب کو چهپانا، دہوکہ دینا اور ملاوٹ کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

تاجر کو چاہیے کہ حق دے اور حق لے، خیانت نہ کرے۔ اگر مد مقابل پشیمان ہو تو سودا کالعدم کردے اور اگر تنگدستی و مشکل میں گرفتار ہو جائے تو اسے مهلت دے، اگر کوئی شخص کسی چیز کے خریدنے کو کہے جوکچھ اس کے پاس ہو اس سے اسے نہ بیچے، اور اگر کسی چیز کے فروخت کرنے کو کہے اسے اپنے لئے نہ خریدے، ترازو هاته میں لینے والا کم لے اور زیادہ دے، چاہے اس کی نیت یہ ہو کہ اپنے فائدے سےکچھ کم یا زیادہ نہ کرے۔ اپنی گفتار میں سچے تاجر کے علاوہ باقی سب تاجر، فاجرہیں۔

اور جس سے یہ کہے: ”سودے اور لین دین میں تم سے احسان و اچهائی کروں گا ،“اس سے منافع نہ لے، کسی رابطے کا خیال کئے بغیر تمام خریداروں کو برابر سمجھے اور جس چیز کی قیمت معلوم و معین ہو، قیمت کم کر وانے والے اور خاموش شخص کو ایک ہی قیمت پر بیچے، حساب اور لکهنا جانتا ہو کہ حساب اورلکهائی سیکہے بغیر سودا نہ کرے، لوگوں کو جس چیز کی ضرورت ہے اسے ذخیرہ نہ کرے، لین دین میں نرمی سے پیش آئے، آسانی کے ساته خرید و فروخت کرے،سهولت کے ساته لوگوں کو ان کا حق دے اور ان سے اپنا حق لے، مقروض پر سختی نہ کرے، لین دین طے ہونے کے بعد قیمت کم کرنے کو نہ کہے، مؤذن کی آواز سن کر بازار سے مسجد کی طرف جانے میں جلدی کرے،

اپنے دل کو ذکر خدا کے ذریعے صفا عطا کرے اور نماز کے ذریعے عالم طبیعت سے ماوراء طبیعت کی جانب پرواز کرے( فِیْ بُيُوْتٍ ا ذَِٔنَ اللّٰهُ ا نَْٔ تُرْفَعَ وَ يُذْکَرَ فِيْهَا اسْمُه يُسَبِّحَ لَه فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَاْلآصَالِ ة رِجَالٌ لاَّ تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلاَ بَيْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰهِ وَ إِقَامِ الصَّلوٰةِ وَ إِيْتَاءِ الزَّکَاةِ يَخَافُوْنَ يَوْماً تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَ اْلا بََٔصَارُ ) (۷)

اگر چہ اسلام کی تعلیم و تربیت کے معجزانہ اثرات کی تلاش و جستجو، قرآن کی تمام آیات اور سنت اہل بیت عِصمت و طهارت علیهم السلام میں کرنا ضروری ہے، لیکن چونکہ آفتابِ قرآن و سنت کی ہر شعاع، علم و ہدایت کے نور کا مرکز و سرچشمہ ہے ، لہٰذا سورہ فرقان کی آخری آیات اور تین احادیث کو ذکر کرتے ہیں،جو اس مکتب سے تربیت یافتہ افراد کی عکاسی کرتی ہیں:

____________________

۱ سورہ منافقون، آیت ۸۔”عزت فقط خدا کے لئے اور اس کے رسول کے لئے اور مومنین کے لئے ہے“۔

۲ وسائل الشیعہ، ج ۱۷ ، ص ۴۲ ، کتاب تجارت، ابواب مقدمات تجارت، باب ۱۰ ،حدیث ۳۔”خدا کے نزدیک زراعت سے محبوب تر کوئی کام نہیں ہے“۔

۳ وسائل الشیعہ، ج ۱۷ ، ص ۱۰ ، کتاب تجارت، ابواب مقدمات تجارت، باب ۱،حدیث ۲۔”اپنی عزت کے ساته سویرا کرو۔“

۴ وسائل الشیعہ، ج ۱۷ ، ص ۱۱ ، کتاب تجارت، ابواب مقدمات تجارت، باب ۱،حدیث ۶۔”تجارت کی طرف توجہ کرو“۔

۵ وسائل الشیعہ، ج ۱۷ ، ص ۳۸۲ ، کتاب تجارت، ابواب مقدمات تجارت، باب ۱،حدیث ۳۔”بازار میں نہ بیٹهو مگر یہ کہ خریدو فروش کی عقل رکھتے ہو“۔

۶ وسائل الشیعہ، ج ۱۷ ، ص ۳۸۱ ، کتاب تجارت، ابواب مقدمات تجارت، باب ۱،حدیث ۱۔”اور فقاہت بعد تجارت“۔

۷ سورہ نور ، آیت ۳۶ ۔ ۳۷ ۔ ”یہ چراغ ان گهروں میں ہے جن کے بارے میں خدا کا حکم ہے کہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اور ان میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے کہ ان گهروں میں صبح و شام اس کی تسبیح کرنے والے ہیں“۔