کی کہ خدا کے فرزند بن سکیں۔ یعنی جوکوئی اس کے نام پر ایمان لایا جو نہ تو خون، نہ جسمانی خواہش اور نہ ہی لوگوں کی خواہش سے ہے، بلکہ خدا سے متولد ہوئے ہیں۔کلمہ جسم میں تبدیل ہوا اور ہمارے درمیان سکونت اختیار کی ۔اسے فیض،سچائی اور جلال سے پُر دیکھا، ایسا جلال جو بے مثال باپ کے بیٹے کے شایان شان تھا۔“
۳۔انجیل یوحنا، باب ششم،اکیاونویں آیت سے :”میں آسمان سے نازل ہونے والی زندہ روٹی ہوں ۔
اگر کوئی اس روٹی سے کها لے تاابد زندہ رہے گا ۔اور جو روٹی میں عطا کر رہا ہوں وہ میرا جسم ہے،جسے میں کائنات کی زندگی کے لئے عطا کررہا ہوں، یہود ایک دوسرے سے جهگڑ کر کها کرتے تھے کہ یہ شخص اپنے جسم کو ہمیں کهانے کے لئے کس طرح دے سکتا ہے۔ عیسیٰ نے ان سے کها :آمین آمین، میں تمہیں کہہ رہا ہوں کہ اگر تم نے انسان کے بیٹے کا جسم نہ کهایا اور اس کا خون نہ پیا، تو تم لوگ اپنے اندر زندگی نہ پاؤگے ۔ اور جو کوئی میرا جسم کهائے اور میرا خون پئیے وہ جاودانہ زندگی پائے گا ۔اور روزِقیامت اسے میں اٹها ؤں گا کیونکہ میرا جسم حقیقی کهانا اور میرا خون حقیقی پینے کی شے ہیں۔ بس جو بھی میر اجسم کهائے گا اور میرا خون پئے گا وہ مجه میں اور میں اس میں رہوں گا ۔
جیسا کہ مجھے زندہ باپ نے بھیجا ہے اور میں اس کی وجہ سے زندہ ہوں، اسی طرح جو مجھے کهائے گا وہ بھی میری وجہ سے زندہ رہے گا ۔“
۴ ۔انجیل یوحنا، باب دوم، تیسری آیت سے :”اور شراب ختم ہوئی تو عیسیٰ کی ماں نے اس سے کها : ان کے پاس شراب نہیں ہے ۔عیسیٰ نے جواب دیا: اے عورت مجھے تم سے کیا کام ہے، ابھی میرا وقت نہیں ہوا۔ اس کی ماں نے نوکروں سے کها :تم سے یہ جو کہے انجام دو ۔ اس جگہ تطهیر یہود کے حساب سے چه سنگی ساغر رکہے ہوئے تھے، جن میں سے ہر ایک میں دو سے تین کیل تک کی گنجائش تھی عیسیٰ نے ان سے کها: ساغروں کو پانی سے پر کرو۔ انہیں پر کیا گیا تو عیسیٰ نے کها: اب انہیں اٹها کر صدر مجلس کے پاس لے جاؤ۔ وہ لے گئے، جب صدر مجلس نے اس پانی کو جو شراب میں تبدیل ہوچکاتها، چکها ، لیکن اسے معلوم نہ ہوا کہ کهاں سے آیا ہے، البتہ پانی نکالنے والے نوکر جانتے تھے۔ صدر مجلس نے دولها سے مخاطب ہوکر کها: ہر ایک پهلے اچهی شراب لاتاہے اور جب نشہ چها جائے تو اس سے بدتر، لیکن تم نے ابھی تک اچهی شراب بچا کر رکھی ہوئی ہے۔اور یہ وہ ا بتدائی معجزات ہیں جو عیسیٰ سے قانائے جلیل میں صادر ہوئے ۔ اوراپنے جلال کو ظاہر کیا اور اس کے شاگرد اس پر ایمان لائے ۔“
اور اب ان آیات کے متعلق بعض نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
الف۔نصاریٰ کے اصول وعقائد میں جو بات مورد اتفاق ہے وہ تثلیث پر اعتقاد ہے ۔ جب کہ انجیل یوحنا کے سترہویں باب کی تیسری آیت یہ کہتی ہے :”جاودانہ زندگی یہ ہے کہ تیری، حقیقی خدائے واحد کے طور پراور تیرے بھیجے ہوئے عیسیٰ مسیح کی معرفت حاصل کریں ۔“
لہٰذا جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے نزدیک تثلیث پر اعتقاد ایک اصلِ مسلم ہے اور انجیل یوحنا نے خدا کو وحدت حقیقی سے توصیف کیا ہے تو جیسا کہ جز اول یوحنا میں بھی مذکور ہے کہ”تینوں ایک ہیں “،ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ توحید اور تثلیث کو جمع کریں اور کہیں کہ یہ حقیقتاً جدا بھی ہیں اور حقیقتاً متحد بھی ۔
کئی دلائل کی بنیاد پر یہ عقیدہ باطل ہے جن میں سے بعض یہ ہیں :
۱۔اعداد کے مراتب، مثال کے طور پر ایک اور تین، ایک دوسرے کی ضد ہیں اورضدین(دو متضاد اشیاء) کا آپس میں اجتماع محال ہے،یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں وہ تینوں ایک ہوں اور وہی ایک تین ہوں ۔
۲۔جیسا کہ توحید کی بحث میں بیان ہو چکا ہے ،عقیدہ تثلیث کا لازمہ یہ ہے کہ پانچ خداو ںٔ پر اعتقاد ہو اور اسی طرح اس عدد کی تعداد لا متنا ہی حد تک پهنچ جائے گی، لہٰذا عیسایوں کے پاس لامتناہی خداؤں پر ایمان لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔
۳۔تثلیث کا لازمہ ترکیب ہے اور ترکیب کا لازمہ اجزاء اور ان اجزاء کو ترکیب دینے والے کی ضرورت ہے ۔
۴ ۔عقیدہ تثلیث کا لازمہ، خالقِ عددکو مخلوق سے توصیف کرنا ہے، کیونکہ عدد و معدود، دونوں مخلوق ہیں اور خداوند ہر قسم کی معدود یت سے یهاں تک کہ وحدت عددی سے پاک ومنزہ ہے(
لَقَدْ کَفَر الَّذِيْنَ قَالُوْا إِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ وَّمَا مِنْ إِلٰهٍ إِلاَّ إِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّ إِنْ لَّمْ يَنْتَهُوْا عَمَّا يَقُوْلُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَاب ا لَِٔيْمٌ
)
اور انہوں نے صراحت کے ساته حضرت عیسیٰ (ع) کو فرزند خدا کها، جب کہ قرآن کہتا ہے(
مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَا مُُّٔه صِدِّيْقَةٌ کَانَا يَا کُْٔلاَنِ الطَّعَامَ انْظُرْ کَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الآيَات ثُمَّ انْظُرْ ا نَٔیّٰ يُو فَْٔکُوْنَ
)
اور یہ جملہ(
کَانَا يَا کُْٔلاَنِ الطَّعَامَ
)
اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسے طعام کی محتاج موجود، جو انسانی بدن میں جذب بھی ہوتا ہے اور اس سے خارج بھی ہوتا ہے، عبادت کے لائق نہیں ہوسکتی۔
ب۔ان باتوں پر عقیدہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کلمہ تھے، کلمہ خدا تھا اور وہ کلمہ جو خدا تھا اس کائنات میں آیا اور جسم میں تبدیل ہوگیا، روٹی بن گیا، اپنے پیروکاروں کے گوشت اور خون کے ساتھ متحد ہوگیا اور اس کاپهلا معجزہ یہ تھا کہ پانی کو شراب میں تبدیل کیااور جو رسول عقول کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوا ہو اس کا معجزہ نشے میں مدہوش ہونا اور زوال عقل کا باعث ہو، کس عقل ومنطق سے مطابقت رکھتا ہے؟!
ج۔ایک طرف عیسیٰ کو خدا قرار دیا دوسری طرف سموئیل کی کتاب دوم کے گیارہویں باب میں داو دٔ پیغمبر (ع) کو شادی شدہ عورت سے زنا کی نسبت دی کہ داو دٔ نے اس عورت سے ز نا کیا جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئی، اس کے بعد اس کے شوہر کو جنگ پر بھیج دیا او رفوج کے سپہ سالار سے کها کہ اسے جنگ کے دور ان لشکر کی اگلی صفوف میں رکھو اور اس کے پیچہے سے ہٹ جاؤتاکہ مارا جائے اور اس طرح اس کی بیوی اپنے گهر لے آیا، جب کہ انجیل متی کے باب اول میں عیسیٰ کا شجرہ نسب اس شادی تک پهنچاتے ہیں اور صاحب کتاب زبور داو دٔ پیغمبر پر اس گناہ کی تهمت لگاتے ہیں ۔
یہ ہدایت قرآن ہی تھی جس نے خداوند عالم کو ان اوہام سے پاک ومنزہ اورا بن مریم پر اعتقاد کو، انہیں (نعوذ بالله)زنا زادہ سمجهنے والوں کی تفریط اور خدا کا بیٹا قرار دینے والوں کے افراط سے پاک ومنزہ قرار دیا اور فرمایا(
وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ ا هَْٔلِهَا مَکَاناً شَرْقِيًّا
)
یهاں تک کہ فرمایا(
قَالَ إِنِّی عَبْدُاللّٰهِ آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِيًّا
)
اور داو دٔ کو پاکیزگی کی وہ منزلت عطا کی کہ فرمایا :
(
يَادَاو دُُٔ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِيْفَةً فِی اْلا رَْٔضِ
)
اور پیغمبر خاتم(ص) سے مخاطب ہو کر فرمایا(
اِصْبِرْ عَلیٰ مَا يَقُوْلُوْنَ وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاو دَُٔ ذَا الا ئَْدِ إِنَّه ا ؤََّابٌ
)
یہ معرفتِ خدا کے سلسلے میں ہدایت قرآن کا ایک نمونہ تھا۔
جب کہ تعلیمات قرآن مجید میں انسان کی سعادت کا نمونہ یہ ہے :
طاقت، دولت، قبیلے اور رنگ جیسے امتیازات کے مقابلے میں انسانی کمالات کو فضیلت کا معیار قرار دیا اور فرمایا(
يَا ا ئَُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّا نُْٔثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْباً وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ ا کَْٔرَمَکُمْ عِنْد اللّٰهِ ا تَْٔقَاکُمْ إِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ
)
نشہ آور چیزوں کے استعمال سے فاسد شدہ افکار اور وسیع پیمانے پر پهیلے ہوئے جوئے اور سود خوری کی وجہ سے بیمار اقتصاد کا ان آیات کے ذریعہ اصلاح ومعالجہ کیا(
يَا ا ئَُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا إِنَّمَا
____________________