اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی0%

اصول دين سے آشنائی مؤلف:
زمرہ جات: عقائد لائبریری

اصول دين سے آشنائی

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22071
ڈاؤنلوڈ: 3934

تبصرے:

اصول دين سے آشنائی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22071 / ڈاؤنلوڈ: 3934
سائز سائز سائز
اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی

مؤلف:
اردو

الَخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَاْلا نَْٔصَابُ وَاْلا زَْٔلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) (۱) ( وَا حََٔلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّم الرِّبَا ) (۲) ، ( وَلاَ تَا کُْٔلُوا ا مَْٔوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ ) (۳)

، انسانی جانوں کو ان آیات کے ذریعے تحفظ فراہم کیا( وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ) (۴) ( وَمَنْ ا حَْٔيَاهَا فَکَا نََّٔمَا ا حَْٔيَا النَّاسَ جَمِيْعاً ) (۵)

کمزوروں پر طاقتوروں کے ظلم وتعدی کے باب کوبند کیا اور لوگوں پر عدل واحسان کے دروازے کهول کر فرمایا( فَمَنِ اعْتَدیٰ عَلَيْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدیٰ عَلَيْکُمْ ) (۶) ،( وَا حَْٔسِنْ کَمَا ا حَْٔسَنَ اللّٰه إِلَيْکَ وَلاَ تَبْغِ الْفَسَادَ فِی اْلا رَْٔضِ ) (۷) ،( إِنَّ اللّٰهَ يَا مُْٔرُ بِالْعَدْلِ وَاْلإِحْسَانِ ) (۸)

اور اس دور میں جب عورتوں کے ساته حیوانوں جیسا برتاو کیا جاتا تھا فرمایا( وَعَاشِرُوْهُن بِالْمَعْرُوْفِ ) (۹) ،( وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ) (۱۰)

هر قسم کی خیانت سے روکا اور فرمایا( إِنَّ اللّٰهَ يَا مُْٔرُکُمْ ا نَْٔ تُو دَُّٔوا اْلا مََٔانَاتِ إِلیٰ ا هَْٔلِهَا وَ إِذَا حَکَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ ا نَْٔ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ ) (۱۱)

عهد وپیمان کے پورا کرنے کو ایمان کی نشانیوں سے قرار دیتے ہوئے فرمایا:( وَالَّذِيْنَ هُم لِا مََٔانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُوْنَ ) (۱۲) ،( وَ ا ؤَْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ کَانَ مَسْئُوْلاً ) (۱۳)

اور امت کو آیہ( ٔيُو تِْٔی الْحِکْمَةَ مَنْ يَّشَاءُ وَمَنْ يُّو تَْٔ الْحِکْمَةَ فَقَدْ ا ؤُْتِیَ خَيْراً کَثِيْراً ) (۱۴) کے ذریعے جهالت ونادانی کی ذلت سے اس طرح نجات دی کہ دنیا میں علم وحکمت کے علمبردار بن کر سامنے آئے ۔

اپنے پیروکاروں کو ہر اچهائی کا حکم دیا اور ہر قسم کی برائی سے روکا، طیب وپاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال اور خبیث اشیاء کو ان کے لئے حرام قرار دیا اور ان تمام قیود سے جن کا انہوں نے خود کو فطرت کے اصولوں کے برخلاف پابند کر رکھا تھا، نجات دلائی ۔

( اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ اْلا مُِّٔیَّ الَّذِیْ يَجِدُوْنَه مَکْتُوْبًاعِنْدَهُمْ فِی التَّوْريٰةِ وَاْلا نِْٔجِيْلِ يَا مُْٔرُهُم بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحْرِّمُ عَلَيْهِمُ الَخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَاْلا غَْٔلَاَلَ الَّتِی کَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِيْنَ آمَنُوْا بِه وَ عَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْ ا نُْٔزِلَ مَعَه ا ؤُْلٰئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) (۱۵)

____________________

۱ سورہ مائدہ، آیت ۹۰ ۔”ایمان والو!شراب ، جوا، بت، پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہٰذا ان سے پر هیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کر سکو“۔

۲ سورہ بقرہ، آیت ۲۷۵ ۔”جب کہ خدا نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام“۔

۳ سورہ بقرہ، آیت ۱۸۸ ۔”اور خبردار ایک دوسرے کامال ناجائز طریقہ سے نہ کهانا“۔

۴ سورہ انعام، آیت ۱۵۱ ۔”اور کسی ایسے نفس کو جسے خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنامگر یہ کہ تمهار ا کوئی حق ہو“۔

۵ سورہ مائدہ، آیت ۳۲ ۔”اور جس نے ایک نفس کو زندگی دے دی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دیدی“۔

۶ سورہ بقرہ ، آیت ۱۹۴ ۔”لہٰذا جو تم پر زیادتی کرے تم بھی ویسا ہی برتاو کرو جیسی زیادتی اس نے کی ہے“۔

۷ سورہ قصص ، آیت ۷۷ ۔”اور نیکی کرو جس طرح الله نے تمهارے ساته نیک برتاو کیا ہے اور زمین میں فساد کی کوشش نہ کرو“۔

۸ سورہ نحل، آیت ۹۰ ۔”بے شک الله عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے“۔

۹ سورہ نساء، آیت ۱۹ ۔”اور ان کے ساته نیک بر تاو کرو“۔

۱۰ سورہ بقرہ ، آیت ۲۲۸ ۔”اور عورتیں کے لئے ویسے ہی حقوق بھی ہیں جیسی ذمہ داریاں ہیں شریعت کے موافق“۔

۱۱ سورہ نساء ، آیت ۵۸ ۔”بے شک الله تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پهنچا دو اور جب کوئی فیصلہ کرو تو انصاف کے ساته کرو“۔

۱۲ سورہ مومنون، آیت ۸۔”اور جو مومنین اپنی امانتوں اور وعدوں کا لحاظ رکھنے والے ہیں“۔

۱۳ سورہ اسراء ، آیت ۳۴ ۔”اور اپنے عهدوں کو پورا کرنا کہ عهدکے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

۱۴ سورہ بقرہ، آیت ۲۶۹ ۔”وہ جس کو بھی چاہتا ہے حکمت عطا کردیتا ہے ۔ اور جسے حکمت عطاکردی جائے اسے گویا خیر کثیر عطا کر دی ۱۵ سورہ اعراف ، آیت ۱۵۷ ۔”جو لوگ کہ رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جس کا ذکر اپنے پاس توریت اور انجیل میں لکها ہو پاتے ہیں کہ وہ نیکیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتا ہے اور خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان پر سے سنگین بوجه اور قید و بند کو اٹها دیتا ہے پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کا احترام کیا اس کی امدادکی اور اس نور کا اتباع کیا جو اس کے ساته نازل ہوا ہے وہی درحقیقت فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں“۔

نیک افعال کے دائرے کو عقائد حقہ ،اخلاق حمیدہ اور اعمال صالحہ تک وسعت دی،نیز برے اعمال کو باطل عقائد،اخلاق رذیلہ اور فاسد کردار تک بڑها کر امر بالمعروف ونهی عن المنکر کو تمام مومنین و مومنات کی ذمہ داری قرار دیا اور فرمایا: ( وَالْمُو مِْٔنُوْنَ وَالْمُو مِْٔنَاتُ بَعْضُهُمْ ا ؤَْلِيَاءُ بَعْضٍ يَّا مُْٔرُوْن بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلاَةَ وَيُو تُْٔوْنَ الزَّکوٰةَ وَ يُطِيْعُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه ا ؤُْلٰئِکَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّٰه إِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَکِيْمٌ ) (۱) اور دوسرے مقام پر فرمایا( يَا ا ئَُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالاَ تَفْعَلُوْنَخکَبُرَ مَقْتاً عِنْدَاللّٰه ا نَْٔ تَقُوْلُوْا مَالاَ تَفْعَلُوْنَ ) (۲) ان دو آیات کے ذریعے ہر فرد کے لئے اپنے تمام امور زندگی میں حکمت، عفت،شجاعت اور عدالت تک رسائی اور تمام فضائل انسانیت سے مزین مدینہ فاضلہ کی تشکیل کا راستہ دکهایا ۔

اور یہ سب کے سب نمونے آفتاب ہدایت قرآن کی ایک کرن تھے وگرنہ تمام معارف الهیہ نیز دِنیوی اور اخروی سعادت سے متعلق رہنمائی کے لئے ضروری ہے کہ انسان عقائد، اخلاق،عبادات،معاملات اور سیاست سے متعلق، قرآنی آیات کے اسرار و رموز کا مطالعہ کرے، جس کے لئے مفصل کتب تحریر کرنا ہوں گی ۔

۳۔قرآ ن کی غیب سے متعلق خبریں :

پروردگار عالم کی جانب سے رسالت کے حامل نیز تا قیامت انسانی ہدایت کے دعویدار کے لئے سب سے زیادہ دشوار کام آئندہ کی خبریں دینا ہے، کیونکہ اگر اس کے غلط ہونے کا رتی برابر ایک موہوم سا اندیشہ بھی ہو تو اس محتمل کی عظمت کے باعث جو اس کے آئین کی بنیاد کے منهدم ہونے کا سبب بن سکتی ہے، ضروری ہے کہ احتیاط کا دامن تھامتے ہوئے اپنے لبوں کو سی لے ۔اب اگر ہم دیکھیں کہ وہ یقین اور نهایت اطمینا ن خاطر کے ساته آئندہ واقع ہونے والے امور سے متعلق اطلاع دے رہا ہے اور وہ خبریں بھی سچ ثابت ہو رہی ہیں، تو اس کی ان خبروں سے یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ وہ ایسے علم سے متصل ہے جوزمان اور زمانیات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

قرآن کی غیب سے متعلق بعض خبریں یہ ہیں :

الف۔ مغلوب ہونے کے بعد دوبارہ روم کے غالب آنے کی خبر دینا( الٓمٓخ غُلِبَتِ الرُّوْمُخ فِی ا دَْٔنَی اْلا رَْٔضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ ) (۳) اور یہ خبر اس وقت دی گئی جب کوئی شخص ایران کی شکست اور روم کی فتح کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، جس کی کتب تاریخ گواہ ہیں۔

ب۔آنحضرت (ص) کے دوبارہ مکہ آنے کی خبر دینا( إِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَيْکَ الْقُرْآنَ لَرَادُّکَ إِلیٰ مَعَادٍ ) (۴)

ج۔منافقین کی پیغمبر (ص) کو قتل کرنے کی سازش اور پروردگار عالم کا آپ کی حفاظت کی خبر دینا( يَاا ئَُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا ا نُْٔزِلَ إِلَيْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ إِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه وَاللّٰهُ يَعْصِمُکَ مِن النَّاسِ ) (۵)

د۔فتح مکہ،کے موقع پر مسلمانوں کے مسجدالحرام میں داخل ہونے، نیز اس موقع پران کے روحی وجسمانی حالات و احساسا ت کی خبر دینا( لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ آمِنِيْنَ مُحْلِقِيْنَ رُوُ سَٔکُم وَمُقَصِّرِيْنَ لاَ تَخَافُوْنَ ) (۶)

____________________

۱ سورہ توبہ، آیت ۷۱ ۔”مومن مرد اور عورتیں آپس میں سب ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ہیں یہ سب ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ۔ زکوة ادا کرتے ہیں الله اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یهی وہ لوگ ہیں جن پر عنقریب خدا رحمت نازل کرے گا کہ وہ ہر شئے پر غالب اور صاحب حکمت ہے“۔

۲۔”ایمان والو! آخر وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر عمل نہیں کرتے ہو۔بے شک الله کے نزدیک / ۲ سورہ صف، آیت ۳یہ سخت ناراضگی کا سبب ہے کہ تم وہ کہو جس پر عمل نہیں کرتے ہو“۔

۱۔ ”الٓمٓ۔روم والے مغلوب ہوگئے۔قریب ترین علاقہ میں لیکن یہ مغلوب ہو جانے کے بعد /۲/ ۳ سورہ روم ، آیت ۳عنقریب پھر غالب ہو جائیں گے“۔

۴ سورہ قصص ، آیت ۸۵ ۔”بے شک جس نے آپ پر قرآن کا فریضہ عائد کیا ہے وہ آپ کو آپ کی منزل تک ضرور پهنچا ئے گا“۔

۵ سورہ مائدہ ، آیت ۶۷ ۔”اے پیغمبر آپ اس حکم کو پهنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پهنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکہے گا“۔

۶ سورہ فتح ، آیت ۲۷ ۔”تو تم لوگ مسجد الحرام میں امن وسکون کے ساته سر کے بال منڈا کر اور تهوڑے سے بال کاٹ کر داخل ہوگے اور تمہیں کسی طرح کا خوف نہ ہوگا “۔

ه۔غزوہ تبوک سے لوٹنے کے بعد منافقین کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی( فَقُلْ لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِی ا بََٔداً وَّلَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِیَ عَدُوًّا ) (۱) اور ویسے ہی ہو اجس کی آیت نے پهلے خبر دی تھی۔

و۔جنگ بدر میں کفار کو اپنی تعداد پراس قدر غرور تھا کہ وہ اپنی جیت کو یقینی سمجهتے تھے،تو یہ آیت نازل ہوئی( ا مَْٔ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَصِرٌخ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ) (۲)

ز۔فتح خیبر اور مسلمانوں کو غنیمت ملنے سے پهلے اور ان دنوں جب ایران اور دیگر ممالک کے خزائن پر تسلط کا خیال بھی کسی کے ذهن میںنہیں آسکتا تھا یہ آیات نازل ہوئیں( لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَن الْمُو مِْٔنِيْنَ إِذْ يُبَايِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوْبِهِمْ فَا نَْٔزَلَ السَّکِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَ ا ثََٔابَهُمْ فَتْحاً قَرِيْباًخ وَّ مَغَانِمَ کَثِيْرَةً يَّا خُْٔذُوْنَهَا وَ کَانَ اللّٰهُ عَزِيْزاً حَکِيْماًخ وَّعَدَکُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ کَثِيْرَةً تَا خُْٔذُوْنَهَا فَعَجَّلَ لَکُمْ هٰذِه وَ کَفَّ ا ئَْدِی النَّاسِ عَنْکُم وَ لِتَکُوْنَ آيَةً لِّلْمُو مِْٔنِيْنَ وَ يَهْدِيَکُمْ صِرَاطاً مُّسْتَقِيْماًخ وّ ا خُْٔریٰ لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهَا قَدْ ا حََٔاطَ اللّٰهُ بِهَا وَ کَانَ اللّٰهُ عَلیٰ کُل شَیْءٍ قَدِيْرًا ) (۳)

ح)جب رسول الله (ص) کے فرزند کے انتقال پر عاص بن وائل نے کها : بے شک محمد ابتر ہے۔ اس کا بیٹا نہیں رہا جو اس کا قائم مقام ہو، لہٰذا اس کی موت کے ساته لوگ اسے بھی بهلا دیں گے،تو یہ سورہ نازل ہوئی( إِنَّا ا عَْٔطَيْنٰکَ الْکَوْثَرَخ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْخ إِنَّ شَا نِْٔئَکَ هُوَ اْلا بَْٔتَرُ ) (۴) اور ساته ساتھ یہ بھی خبر دی کہ آپ (ص) کی نسل باقی رہے گی اور ابتر کهنے والوں کی اپنی نسلیں منقطع ہوجائیں گی ۔(۵)

۴ ۔اسرار خلقت سے مکمل آگاہی :

جس زمانے میں انسانی علم ودانش کے مطابق اجرام فلکی کو بسیط خیال کیا جاتا تھا اور ان میں حرکت کا تصور تک نہ تھا اس وقت کو اکب کی خاص مداروں میں حرکت کی خبر دی( لاَ الشَّمْسُ يَنْبَغِی لَهَا ا نْٔ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَ لاَ الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ يَّسْبَحُوْنَ ) (۶)

جس زمانے میں اشیاء کے درمیان قانونِ زوجیت کے عمومی ہونے کی خبر تک نہ تھی فرمایا( وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ) (۷)

اور جس وقت دوسرے سیاروں پر جانداروںکے وجود کا احتمال تک نہ تھا فرمایا:( وَمَابَثَّ فِيْهِمَا مِنْ دَابَّةٍ ) (۸)

اور اسی طرح نباتات کے درمیان ہوا کے ذریعے تلقیح کی خبر دی( وَا رَْٔسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ ) (۹)

____________________

۱ سورہ توبہ، آیت ۸۳ ۔”تو آپ کہہ دیجئے تم لوگ کبھی میرے ساته نہیں نکل سکتے اور کسی دشمن سے جهاد نہیں کر سکتے“۔

۲ سورہ قمر ، آیت ۴۴،۴۵ ۔”یا ان کا کهنا یہ ہے کہ ہمارے پاس بڑی جماعت ہے جو ایک دوسرے کی مدد کرنے والی ہے۔عنقریب یہ جماعت شکست کها جائے گی اور سب پیٹه پهیر کر بها گ جائیں گے“۔

۱۸ ۔”یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپ /۱۹/۲۰/ ۳ سورہ فتح ، آیت ۲۱

کی بیعت کر رہے تھے پھر اس نے وہ سبکچھ دیکھ لیا جو ان کے دلوں میں تھا تو ان پر سکون نازل کر دیا اور انہیں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی۔اور بہت سے منافع بھی دیدیئے جنہیں وہ حاصل کریں گے اور الله ہر ایک پر غالب آنے والا اور صاحب حکمت ہے۔اس نے تم سے بہت سے فوائد کا وعدہ کیا ہے جنہیں تم حاصل کروگے پھر اس غنیمت (خیبر) کو فوراً عطا کر دیا اور لوگوں کے هاتهوں کو تم سے رو ک دیا اور تاکہ یہ صاحبان ایمان کے لئے ایک قدرت کے نشانی بنے اور وہ تمہیں سیدہے راستہ کی ہدایت دے دے۔اور دوسری غنیمتیں جن پر تم قدرت نہیں رکھتے خدا ان پر محیط ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے“۔

۱۔”بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کیاہے۔لہٰذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑہیں اور /۲/ ۴ سورہ کوثر ، آیت ۳

قربانی دیں۔یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا“۔

۵ تفسیر کبیر فخر رازی ج ۳۲ ، ص ۱۲۴ ، تفسیر مجمع البیان، ج ۱۰ ، ص ۴۵۹ ۔

۶ سورہ یس، آیت ۴۰ ۔”نہ آفتاب کے بس میں ہے کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات کے لئے ممکن ہے کہ وہ دن سے آگے بڑه جائے ۔ اور یہ سب کے سب اپنے اپنے فلک ومدار میں تیرتے رہتے ہیں“۔

۷ سورہ ذاریات، آیت ۴۹ ۔”اور ہر شئے میں سے ہم نے جوڑا بنا یا ہے کہ شاید تم نصیحت حاصل کرسکو“۔

۸ سور ہ شوریٰ ، آیت ۲۹ ۔”ان کے اندر چلنے والے تمام جاندار ہیں“۔

۹ سورہ حجر ، آیت ۲۲ ۔”اور ہم نے ہواو ںٔ کو بادلوں کا بوجه اٹهانے والا بنا کر چلایا ہے“۔

جس زمانے میں اجرام فلکی کو بسیط اور ان کی خلقت کواجرام ارضی سے جدا اور مختلف خیال کیا جاتا تھا اور کسی کو ان کے رتق وفتق(۱) کے بارے میں خبر تک نہ تھی فرمایا( ا ؤََلَمْ يَرَالَّذِيْنَ کَفَرُوَا ا نََّٔالسَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ) (۲)

اور جس وقت انسان کائنات کی گستردگی سے بے خبر تھا فرمایا( وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَابِا ئَْد وَّإِنَّالَمُوْسِعُوْنَ ) (۳)

اور جب آسمانی سیاروں کے بارے میں ماہرین فلکیات خرق(۴) والتیام کے قائل نہ تھے یعنی کسی بھی جسم کو ان سیاروں کے مدار کے درمیان سے عبور کرنے کو ناممکن سمجهتے تھے۔اور جب کوئی ان میں انسان کے عبور کرنے کا تصور بھی نہ کرتا تھا، یہ آیت نازل ہوئی( يَا مَعْشَرَالْجِنِّ وَاْلإِنْسِ إِن اسْتَطَعْتُمْ ا نَْٔ تَنْفُذُوْا مِنْ ا قَْٔطَارِ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضِ فَانْفُذُوْا لاَ تَنْفُذُوْنَ إِلاَّ بِسُلْطَانٍ ) (۵)

اسرارکائنات کے بارے میںآیات کا نزول ،کہ جن کی جانب مختصراً اشارہ کیا گیا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ کتاب حق تعالی کی جانب سے نازل کردہ ہے۔

۵ ۔قرآن کی جذابیت

هر باانصاف انسان جو قرآن کریم کے اسلوب بیان کو اچهی طرح جانتا ہو اس بات کا معترف ہے کہ چاہے کوئی بھی کلام فصاحت وبلاغت کے معیار کے مطابق بلند ترین درجے کا حامل ہی کیوں نہ ہو،

پھر بھی قرآن کی روح اور جذابیت کے مقابلے میں اس کی حیثیت اصلی پهول کے مقابلے میں کاغذی اور حقیقی انسان کی نسبت مجسمے کی ہے۔

۶ ۔قرآن میں عدم اختلاف:

اس بات میں شک وتردید کی گنجائش نہیں کہ انسان میں موجود فکری تکامل کے وجہ سے اس کے اعمال واقوال کبھی یکساں نہیں رہتے خواہ کسی ایک فن میں ماہر ہونے کے ساته ساته تمرکز افکار کے لئے تمام وسائل بھی اسے مهیا کر دیئے گئے ہوں تب بھی ہر ماہر فن کی زندگی کے مختلف مراحل میں اس کے علمی آثار میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ،کیونکہ فکری تحول کے نتیجے میں اس فکر کے تحت رونما ہونے والے آثار وافعال میں تحول ایک ضروری امر ہے۔

قرآن ایسی کتاب ہے جومعرفت مبدا ومعاد، آیات آفاق وانفس، خالق وخلق کے ساته انسان کے روابط، فردی واجتماعی ذمہ داریاں، گذشتہ امم کے قصوں اور انبیاء کے حالات جیسے مختلف امور پر مشتمل ہوتے ہوئے ایک ایسے شخص کی زبان پر جاری ہوئی جس نے نہ تو کہیں سے پڑها اور نہ ہی کوئی اس کا استاد تھا اور جس کے لئے مکہ میں مشرکین کے شر اور مدینہ میں کفار سے جنگوں اور منافقین کے مکر وحیلوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے پریشانی افکار کے تمام اسباب موجودتہے۔

ان پر آشوب حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے طبیعی ہے کہ ایسے شخص کی زبان سے بیان شدہ کتاب کو بہت ہی زیادہ اختلافات پر مشتمل ہونا چاہیے تھا، لیکن قرآن میں عدم اختلاف سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس کا نزول فکرِ انسانی کے افق سے کہیں بلند تر ہے، کیونکہ یہ مقام وحی ہے جو جهالت اور غفلت سے منزہ ہے( ا فَلاَ يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلاَفاً کَثِيْراً ) (۶)

____________________

۱ رتق :بند ہونا فتق:شگاف ڈالنا۔

۲ سورہ انبیاء، آیت ۳۰ ۔”کیا ان کافروں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ زمین وآسمان آپس میں جڑے ہوئے تھے اور ہم نے ان کو الگ کیا ہے“۔

۳ سورہ ذاریات، آیت ۴۷ ۔”اور آسمان کو ہم نے اپنی طاقت سے بنایا ہے اور ہم ہی اسے وسعت دینے والے ہیں“۔

۴ خرق والتیام :کسی شئے کے پهٹ جانے کو خرق اور ان دونوں پهٹے ہوئے کناروں کو دوبارہ جڑجانے کو التیام کهاجاتا ہے۔ ماضی میں ستارہ شناس اور ماہرین فلکیات کا خیال تھا کہ زمین کے اوپر خلاء میں مختلف افلاک ہیں جو تہہ در تہہ پیاز کی تہوں کی مانند ہیں بنابر این ماہرین ان افلاک کی تہوں سے عبور کرنے کو ناممکن سمجهتے تھے اور اس امر کے ناممکن ہونے کی دلیل ان افلاک میں خرق و التیام کا ناممکن ہونا تھی ۔

۵ سورہ رحمن ، آیت ۳۳ ۔”اے گروہ جن وانس اگر تم میں قدرت ہو کہ آسمان وز مین کے اطراف سے باہر نکل جاو تو نکل جاو مگر یاد رکھو کہ تم قوت وغلبہ کے بغیر نہیں نکل سکتے ہو“۔

۶ سورہ نساء، آیت ۸۲ ۔”کیا یہ لوگ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے ہیں کہ اگر غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں بڑا اختلاف ہوتا“۔

۷۔قرآن کی علمی اور عملی تربیت :

اگر کسی کا دعوٰی ہو کہ وہ تمام اطباء جهان سے بڑا ہے تو یہ دعوٰی ثابت کرنے کے لئے اس کے پاس دو راستے ہیں :

یا تو علم طب سے متعلق ایسی کتاب پیش کرے کہ اس کی طرح امراض کے اسباب، دواؤں اور علاج کو پهلے کسی نے ذکر نہ کیا ہو۔

یا پھر ایسے مریض کو جس کے تمام اعضاء وجوارح بیماریوں میں مبتلا ہوں، تمام اطباء اس کے علاج سے عاجز آچکے ہوں اور وہ مرنے کے قریب ہو، اگر اس کے سپرد کردیا جائے تو وہ ایسے مریض کو صحت وسلامتی کا لباس پهنا دے۔

انبیاء علیهم السلام، افکار وروح کے طبیب اور امراض انسانیت کے معالج ہیں۔

ان میں سرفهرست پیغمبر اسلام (ص) کی ذات اطهر ہے، جس کی علمی دلیل قرآن جیسی کتاب ہے جو انسان کے فکری، اخلاقی اور عملی امراض کے اسباب وعلاج میں بے مثال ہے اورہدایت قرآن کی بحث میں مختصر طور پر جس کے چند نمونے ذکر کئے گئے ہیں اور عملی دلیل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) بد ترین امراضِ انسانیت میں مبتلا ایک معاشرے میں مبعوث ہوئے جن کے افراد فکری اعتبار سے اس حد تک گر چکے تھے کہ ہر قبیلے کے پاس اپنا ایک مخصوص بت تھا، بلکہ گهروں میں افراد اپنے لئے کجهور اور حلوے سے معبود بناتے تھے، صبح سویرے ان کے سامنے سجدہ بجا لاتے اور بهوک کے وقت ان ہی معبودوں کو کها لیا کرتے تھے۔

معرفت اور ایمان کے مرہم کے ذریعے ناسور زدہ افکار کا ایسا علاج کیا کہ وہ لوگ خالق جهاں کی تعریف ان الفاظ میں کرنے لگے( اَللّٰهُ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ هُوَالْحَیُّ الْقَيُّوْمُ لاَ تَا خُْٔذُه سِنَةٌ وَّلاَ نَوْمٌ لَّه مَافِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی اْلا رَْٔضِ مَنْ ذَا الَّذِی يَشْفَعُ عِنْدَه إِلاَّ بِإِذْنِه يَعْلَمُ مَا بَيْنَ ا ئَْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ لَا يُحِيْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِنْ عِلْمِه إِلاَّ بِمَا شَاءَ وَسِعَ کُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضَ وَلاَ يَو دُُٔه حِفْظُهُمَا وَ هو الْعَلِیُّ الْعَظِيْمُ ) (۱) اور اس خالق حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہوکر کهنے لگے ((سبحا ن ربی الاعلی وبحمده ))

باہمی الفت کے اعتبار سے حیوانات سے زیادہ پست تھے کہ باپ اپنے ہی هاتهوں اپنی بیٹی کو نهایت ہی سنگدلی سے زندہ دفن کردیتا تھا۔(۲) اس درندہ صفت قوم میں باہمی الفت کو اس طرح زندہ کیا کہ مصر کی فتح کے بعد جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ایک خیمے میں پرندے نے گهونسلا بنایا ہوا ہے تو واپس پلٹتے وقت اس خیمے کو وہیں پر رہنے دیا کہ کہیں پرندے کے بچے اور گهونسلا ویران نہ ہوجائیں اور اسی لئے وہاں آباد ہونے والے شهر کا نام ”فسطاط“ رکھا گیا۔(۳)

فقراء کے مقابلے میں اغنیاء کے اظهارِ قدرت وگستاخی کو اس طرح دور کیا کہ ایک دن جب آنحضرت (ص) کی خدمت میں ایک مالدار شخص بیٹها تھا، ایسے میں ایک نادار شخص آکر اس کے ساتھ بیٹه گیا، اس مالدار شخص نے اپنا دامن ہٹا لیا اور جب متوجہ ہوا کہ آنحضرت (ص) یہ سب دیکھ رہے ہیں، کهنے لگا : یا رسول الله (ص) !میں نے اپنی آدہی ثروت اس غریب کو دی، اس غریب نے کها :

مجھے قبول نہیں ہے،کہیں میں بھی اس مرض میں مبتلا نہ ہوجاؤں جس میں یہ مبتلا ہے ۔(۴)

یہ کیسی تربیت تھی کہ مالدار کو ایسی بخشش اور نادار کو اتنی بلند نظری عطا کی اور امیر کے تکبر کو تواضع اور غریب کی ذلت کو عزت میں تبدیل کر دیا ۔کمزور پر طاقتور کے مظالم کا اس طرح قلع قمع کیا کہ امیر المومنین (ع) کی حکومت کے زمانے میں جس وقت مسلمانوں کے خلیفہ کے پاس ایران اور روم کے شهنشاہوں جیسی عظیم فوجی طاقتیں موجود تہیں اور مالک اشتر سپہ سالار تھے، ایک دن جب مالک اشتر ایک سادہ اور عام انسان کی طرح بازار سے گزر رہے تھے تو کسی نے ان کا مذاق

____________________

۱ سورہ بقرہ، آیت ۲۵۵ ۔”الله جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے زندہ بھی ہے اور اسی سے کل کائنات قائم ہے اسے نہ نیند آتی ہے نہ اُنگه آسمانوں اور زمین میں جوکچھ بھی ہے سب اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کر سکے ۔ وہ جوکچھ ان کے سامنے ہے اور جو پس پشت ہے سب کو جانتا ہے اور یہ اس کے علم کے ایک حصہ کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر وہ جس قدر چاہے ۔ اس کی کرسی علم واقتدار زمین وآسمان سے وسیع تر ہے اور اسے ان کے تحفظ میں کوئی تکلیف بھی نہیں ہوتی وہ عالی مرتبہ بھی ہے اور صاحب عظمت بھی“۔

۲ کافی ج ۲ ص ۱۶۲ ، کتاب الایمان و الکفر ، باب البر بالوالدین، ح ۱۸ ، الجامع لاحکام القرآن، ج ۷، ص ۹۷ ، آیت ۱۴۰

سورہ انعام، اور دوسری کتابیں۔

۳ معجم البلدان ج ۴ ص ۲۶۳ ۔

۴ کافی ج ۲ ص ۲۶۲ ۔

اڑایا۔لوگوں نے کها جس کا تم نے مذاق اڑایا، جانتے ہو وہ شخص کون ہے؟ اس نے کها: نہیں ؛جب اسے بتایا گیا کہ کون تھاتو پریشان ہوا کہ مالک اشتر کے پاس اس قدرت مطلقہ کے ہوتے ہوئے اب اس کا کیا حشرہوگا، مالک کی تلاش میں نکلا، اسے بتایا گیا کہ مالک اشتر مسجد کی طرف گئے ہیں، سر جهکائے مالک کے پاس گیا تاکہ اپنے کئے کی معافی مانگے، مالک نے کها :”تیرے عمل کی وجہ سے میں نے مسجد میں آکر دو رکعت نما زادا کی ہے تاکہ خدا سے تیری مغفرت کی درخواست کر سکوں ۔“(۱)

یہ تربیت ہی کا اثر تھا کہ طاقت وقدرت کا غرور اسے حی قیوم کے سامنے پیشانی رگڑنے سے نہ روک سکا اور اہانت کرنے والا جب سزا پانے کے خوف واضطراب میں مبتلا تھا، اسے سزا دینے کے بجائے خدا سے طلبِ مغفرت جیسا بہترین تحفہ عطا کیا ۔

قومی فاصلے اس طرح مٹا ئے کہ عجم کی نسبت عرب قومیت کے رسوخ کے باوجود، سلمان فارسی کو اس آیت کے حکم کے مطابق(۲) ( وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاوَةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْن وَجْهَه وَلاَ تَعْدُ عَيْنَاکَ عَنْهُمْ تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَ لاَ تُطِعْ مَنْ ا غَْٔفَلْنَا قَلْبَه عَنْ ذِکْرِنَا وَ اتَّبَعَ هواهُ وَکَانَ ا مَْٔرُه فُرُطاً ) (۳) اپنے پهلو میں بٹهایا ٤ کہ جس کے نتیجے میں مدائن کی امارت ان کے حوالے کی گئی۔

رنگ ونسل کے امتیازات کو جڑ سے یوں اکهاڑا کہ بلال حبشی جیسے غلام کو اپنا مو ذٔن قرار دیا، اس وقت جب آنحضرت (ص) سے کها گیا کہ آپ نے جو بھی حکم دیا ہم نے قبول کیا لیکن اس کالے کوے کی آواز سننے کو تیار نہیں، تو آپ (ص) کا جواب یہ تھا،( يَا ا ئَُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقنَْاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّ ا نُْٔثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْباً وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ ا کَْٔرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ ا تَْٔقَاکُمْ إِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ) (۵)

ایسا پاک و پاکیزہ درخت کاشت کیا کہ علم ومعرفت جس کی جڑیں،مبدا ومعاد پر اعتقاد اس کا تنا،

ملکاتِ حمیدہ واخلاقِ فاضلہ اس کی شاخیں، تقویٰ وپرہیزگاری اس کی کلیاں، محکم وسنجیدہ گفتار اور پسندیدہ کردار جس کے پهل تھے( ا لََٔمْ تَرَ کَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً کَلِمَةً طَيِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ ا صَْٔلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَائِخ تُو تِْٔیْ ا کُُٔلَهَا کُلَّ حِيْنٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا ) (۶)

انسانیت کے درخت کو اس تعلیم و تربیت کے ساته پروان چڑهایا او رعلی ابن ابی طالب (ع) کی شکل میں اس درخت کا بہترین ثمرعالم بشریت کے حوالے کیا کہ جس کے علمی و عملی فضائل کے عظیم الشان مجموعے میں سے یهی چند سطریں بہت ہیں کہ حیات رسول خدا (ص) میں جس کے ادب کا تقاضہ یہ تھا کہ اپنے علم و عرفان کا اظهار نہ کرتے ، لہٰذا آفتاب کی شعاع کے تحت ماہتاب کی طرح رہے اور آنحضرت (ص)کے بعد بھی استبداد کی گهٹا چها جانے کے باعث نور افشانی نہ کر پائے اور تقریباً پانچ سال کی مدت میں جمل، صفین و نهروان جیسی فتنہ انگیز اور تباہ کن جنگوں میں مبتلا ہونے کے باوجود،

نهایت ہی کم فرصت میں جب منبر خطابت پر بیٹهنے کا موقع ملا تو گفتار کا یہ عالم تھا کہ ابن ابی الحدید معتزلی کے بقول آپ (ع) کا کلام خالق کے کلام سے نیچے اورمخلوق کے کلام سے بلند قرار پایا۔(۷) معرفت خدا، تربیت نفس اور مضبوط معاشرتی نظام کے لئے فقط نهج البلاغہ کے بالترتیب خطبہ اول، خطبہ متقین اور عهد مالک اشتر کا مطالعہ ہی یہ بات واضح اور روشن کرنے کے لئے کافی ہے کہ علمی و عملی حکمت کا وہ کیسا بحرِ بے کراں ہے کہ یہ تمام نمونے جس کے قطروں کی مانند ہیں۔

____________________

۱ بحار الانوارج ۴۲ ص ۱۵۷ ۔

۲ مجمع البیان ج ۶، ص ۳۳۷ مذکورہ آیت کی تفسیر کے ذیل میں ۔

۳ سورہ کہف ، آیت ۲۸ ۔”اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساته صبر پر آمادہ کرو جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلب گار ہیں اور خبردار تمهاری نگاہیں ان کی طرف سے پھر نہ جائیں کہ زندگانی دنیا کی زینت کے طلب گار بن جاو اور ہر گز اس کی اطاعت نہ کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے محروم کر دیا ہے اور وہ اپنے خواہشات کا پیروکار ہے اور اس کا کام سراسر زیادتی کرناہے“۔

۴ مجمع البیان ج ۹، ص ۲۲۶ ، مذکورہ آیت کی تفسیر کے ذیل میں۔

۵ سورہ حجرات ، آیت ۱۳ ۔”انسانو!هم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں

اور قبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو بے شک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پر هیزگار ہے اور الله ہر شئے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے “۔

۶ سورہ ابراہیم، آیت ۲۴،۲۵ ۔”کیاتم نے نہیں دیکھا کہ الله نے کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے بیان کی ہے جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پهنچی ہوئی ہے۔یہ شجرہ ہر زمانہ میں حکم پروردگار سے پهل دیتا ہے “۔

۷ شرح نهج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱ ص ۲۴ ۔