اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی0%

اصول دين سے آشنائی مؤلف:
زمرہ جات: عقائد لائبریری

اصول دين سے آشنائی

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22097
ڈاؤنلوڈ: 3948

تبصرے:

اصول دين سے آشنائی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22097 / ڈاؤنلوڈ: 3948
سائز سائز سائز
اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی

مؤلف:
اردو

جب میدان جنگ میں قدم رکھا تو تاریخ اس جیسا دلاور نہ دکها سکی، جس کی پیٹه زرہ سے خالی ہوا کرتی تھی اور جس نے ایک ہی رات میں پانچ سو تیئیس بار صدائے تکبیر بلند کی اور ہر تکبیر پر ایک دشمنِ اسلام کو واصل جهنم کیا۔(۱) اسی رات باوجود اس کے کہ چاروں طرف سے تیروں کی بارش ہورہی تھی اور دائیں بائیں تیر گر رہے تھے، بغیرکسی کمترین اضطراب و پریشانی کے ہمیشہ کی طرح بندگی و عبادت خدا سے غافل نہ ہوئے اور نهایت سکون و اطمینان کے ساته میدان جنگ میں دونوںلشکروں کے درمیان نماز شب ادا کی(۲) ، اور عمرو بن عبدودّ جیسے تنو مند اور دیو هیکل سوار کو زمین پر پٹخ دیا۔ سنی و شیعہ محدثین نے رسول خدا (ص)سے یہ روایت نقل کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: ((لمبارزة علی بن ا بٔی طالب لعمرو بن عبدودّ یوم الخندق ا فٔضل من عمل ا مٔتی إلی یوم القیامة ))(۳)

فتح خیبرکے روز ایک ہی وار میں یہود کے یکّہ تازدلاور، مرحب کے دو حصّے کردیئے اس کے بعد ستر سواروں پر تن تنها حملہ کرکے انہیں اس طرح هلاک کیا کہ مسلمان و یہود سب کے سب متحیر رہ گئے(۴) اور اس شجاعت کے ساته خوف خدا کا ایسا امتزاج پیش کیا کہ نماز کا وقت آتے ہی چهرے کا رنگ زرد پڑ جاتا اور بدن لرزنے لگتا تھا، لوگ پوچهتے تھے: کیا ہوا؟ آپ کی ایسی حالت کیوں ہورہی ہے؟ تو فرماتے:”اُس امانت کا وقت آ پهنچا ہے کہ اسے جب آسمان و زمین اور پهاڑوں کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے یہ ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا اور انسان نے وہ امانت لے لی۔“(۵)

وہ، کہ جس کی هیبت سے دن کے وقت میدان جنگ میں بڑے بڑے بهادروں کے بدن کانپ اٹهتے تھے، راتوں کو محراب عبادت میں مار گزیدہ انسان کی مانند، تڑپتے ہوئے اشکبار آنکهوں کے ساته اس طرح فریاد کرتا تھا: ”اے دنیا! اے دنیا! کیا تو میرے پاس آئی ہے؟! کیا تو میری مشتاق ہے؟! هیهات!

هیهات! کسی اور کو دہوکہ دے، مجھے تیری کوئی حاجت نہیں، میں نے تجہے تین طلاقیں دیں ،آہ! آہ!

زاد راہ کتنا کم ہے اور راہ کتنی طویل ہے؟“(۶)

سائل کے سوال کرنے پر حکم دیا: اسے ایک ہزار دے دو۔ جسے حکم دیا تھا اس نے پوچها:

سونے کے ہزار سکے دوں یا چاندی کے؟ فرمایا : میرے نزدیک دونوں پتهر ہیں، جس سے سائل کو زیادہ فائدہ پهنچے وہ دے دو(۷) شجاعت اور سخاوت کا ایسا امتزاج کس امت و ملت میں پایا جاتا ہے کہ میدان جنگ میں لڑائی کے دوران جب ایک مشرک نے کها: یا ابن ابی طالب! هبنی سیفک، تو آپ (ع) نے تلوار اس کی جانب پهینک دی۔ جب مشرک نے کها:وا عجبا!اے فرزند ابی طالب!ایسے سخت وقت میں تم نے ا پنی تلوار مجھے دے دی؟ تو آپ (ع)نے فرمایا: تم نے میری طرف دست سوال دراز کیا تھا اور سائل کو رد کرنا کرم کے خلاف ہے۔ اس مشرک نے اپنے آپ کو زمین پر گرا کر کها: یہ اہل دین کی سیرت ہے!!، پھر آپ کے قدموں کا بوسہ لیا اور مسلمان ہوگیا(۸) ابن زبیر نے آپ (ع)کے پاس آکر کها: میں نے اپنے والد کے حساب کتاب میں دیکھا ہے کہ آپ (ع) کے والدمیرے والد کے اسّی ہزار درہم کے مقروض تھے ۔ آپ (ع) نے وہ رقم اسے دے دی۔ اس کے بعد دوبارہ پلٹ کر واپس آیا اور کهنے لگا مجه سے غلطی ہوئی ہے، آپ کے والد نہیں بلکہ میرے والدآپ کے والد کے مقروض تھے۔ آپ نے فرمایاوہ رقم تمهارے والد کے لئے حلال اور جو رقم تم نے مجه سے لی وہ بھی تمهاری ہوئی(۹) زمانہ ایسے صاحب منصب کی مثال کهاں پیش کر سکتا ہے جس کی حکومت مصر سے خراسان تک پهیلی ہوئی ہو اور عورت کے کاندہے پر پانی کی مشک دیکھ کر اس سے لے اور منزل تک پهنچا آئے۔ اس سے احوال پرسی کرنے کے بعد، صبح تک اضطراب کی وجہ سے سو نہ سکے کہ اس بیوہ

____________________

۱ مناقب آل ابی طالب، ج ۲ص ۸۴ ۔

۲ بحار الانوار، ج ۴۱ ، ص ۱۷ ۔

۳ المستدرک علی الصحیحین، ج ۳، ص ۳۲ ؛ تاریخ بغداد ج ۱۳ ص ۱۹ ۔بحار الانوار ج ۴۱ ص ۹۶ ۔

۴ بحار الانوار ج ۴۲ ص ۳۳ ۔

۵ بحار الانوار، ج ۴۱ ، ص ۱۷ ۔

۶ بحار الانوار، ج ۴۱ ، ص ۱۲۱ ۔

۷ بحار الانوار، ج ۴۱ ، ص ۳۲ ۔

۸ بحار الانوار، ج ۴۱ ، ص ۶۹ ۔

۹ بحار الانوار، ج ۴۱ ، ص ۳۲ ۔

عورت اور اس کے بچوں کا خیال کیوں نہ رکھا گیا۔ اگلے دن صبح سویرے یتیموں کے لئے اشیاء خوردنی لے جائے، کهانا پکا کر اپنے هاتهوں سے بچوں کو کهلائے اور عورت امیر المومنین (ع) کو پہچاننے کے بعد جب شرمندگی کا اظهار کرے تو اس کے جواب میں کہے: اے کنیز خدا! تم سے شرمندہ تو میں ہوں(۱) اپنی خلافت کے زمانے میںاپنے نوکر کے ساته کپڑے کے بازار سے گزرتے ہوئے لٹہے کی دو قمیضیں خریدے اور ان میں سے اچهی قمیض اپنے نوکر کو عطا کردے تاکہ نوجوان کی خواہشِ آرائش کی تسکین ہوتی رہے اور کم قیمت لباس خود پهنے(۲) زر و جواہر کے خزانے اختیار میں ہونے کے باوجود فرمایا: ((واللّٰه لقد رقعت مدرعتی هذه حتی استحییت من راقعها ))(۳)

آپ(ع) کی خدمت میں مال غنیمت لایا گیا جس پر ایک روٹی بھی رکھی تھی۔ کوفہ کے سات محلّے تھے۔ اس غنیمت اور روٹی کے سات حصے کئے، ہر محلے کے منتظم کو بلا کر اسے غنیمت اور روٹی کا ایک حصہ دیا(۴) ۔ غنیمت کو تقسیم کرنے کے بعد ہمیشہ دو رکعت نماز بجا لاتے اور فرماتے:((الحمد للّٰه الذی ا خٔرجنی منه کما دخلته ))(۵)

ایام حکومت میں اپنی تلوار بیچنے کی غرض سے بازار میں رکھوائی اور فرمایا: اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں علی کی جان ہے! اگر ایک لنگ خریدنے کے بھی پیسے میرے پاس ہوتے تو اپنی تلوار هرگز نہ بیچتا۔(۶)

جب کبھی آپ (ع) پر کوئی مصیبت وارد ہوتی اس دن ہزار رکعت نماز بجالاتے، ساٹه مسکینوں کو صدقہ دیتے اور تین دن روزہ رکھتے تھے(۷) خون پسینے کی کمائی سے ہزار غلام آزاد کئے(۸) ، اور دنیا سے رخصت ہوئے تو آٹه لاکه درہم کے مقروض تھے(۹) جس رات افطار کے لئے اپنی بےٹی کے هاں مہمان تھے، اس وسیع ملک کے فرمانروا کی بیٹی کے دستر خواں پر جَو کی روٹی، نمک اوردودہ کے ایک پیالے کے سواکچھ بھی نہ تھا۔ آپ (ع) نے جَو کی روٹی اور نمک سے افطار فرمایا اور دودہ چهوا تک نہیں کہ کہیں آپ (ع) کا دستر خوان رعایا کے دستر خوان سے زیادہ رنگین نہ ہوجائے۔(۱۰)

تاریخ کو اس جیسی کوئی دوسری شخصیت دیکھنا نصیب ہی نہ ہوئی کہ مصر سے خراسان تک سلطنت ہونے کے باوجود خود اس کے اورا س کے گورنروں کے لئے حکومت کا منشور ایسا ہو جسے امیرالمو مٔنین (ع) نے عثمان بن حنیف کے خط میں منعکس کیا ہے۔ اس خط کا مضمون و مفہوم تقریباً یہ ہے:

”اے ابن حنیف! مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ بصرہ کے بڑے لوگوں میں سے ایک شخص نے تمہیں کهانے پر بلایا اور تم لپک کر پهنچ گئے۔ رنگا رنگ کهانے اور بڑے بڑے پیالے تمهارے لئے لائے گئے۔ امید نہ تھی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے کہ جن میں فقیر و نادار دہتکاردیئے گئے ہوںاور جن میں دولت مند مدعو ہوں۔ جو لقمے چباتے ہوانہیں دیکھ لیا کرو اور جس کے متعلق شبہ ہوا سے چهوڑ دو اور جس کے پاک وپاکیزہ راہ سے حاصل ہونے کا یقین ہو اس میں سے کهاؤ۔

____________________

۱ بحار الانوار، ج ۴۱ ، ص ۵۲ ۔

۲ بحار الانوار، ج ۴۰ ، ص ۳۲۴ ۔

۳ نهج البلاغہ خطبہ ۱۶۰ (خدا کی قسم اپنی قبا میں اتنے پیوند لگائے کہ درزی سے شرم آنے لگی)

۴ حلیة الاولیاء ج ۷ ص ۳۰۰ ۔

۵ بحار الانوار، ج ۴۰ ، ص ۳۲۱ ۔(حمد ہے اس خدا کی جس نے مجه کو اس سے اسی طرح نکالا جیسے اس میں داخل ہواتها)

۶ بحار الانوار، ج ۴۱ ، ص ۴۳ ۔

۷ بحار الانوار، ج ۴۱ ، ص ۱۳۲ ۔

۸ بحار الانوار، ج ۴۱ ، ص ۴۳ ۔

۹ بحار الانوار، ج ۴۰ ، ص ۳۳۸ ۔

۱۰ بحار الانوار، ج ۴۲ ، ص ۲۷۶ ۔

جان لو کہ ہر مقتدی کا ایک پیشوا ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے اور جس کے نورعلم سے کسب نور کرتا ہے۔دیکھو تمهارے امام کی حالت تو یہ ہے کہ اس نے دنیا کے سازوسامان میں سے دو بوسیدہ چادروں اور دو روٹیوں پر قناعت کرلی ہے۔ یہ تمهارے بس کی بات نہیںہے لیکن اتنا تو کرو کہ پرہیزگاری، سعی وکوشش ، پاکدامنی اور امور میں مضبوطی سے میرا ساته دو ، خدا کی قسم میں نے تمهاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نہیں رکھا ،نہ اس کے مال و متاع میں سے انبار جمع کر رکہے ہیں ، نہ اپنے اس بوسیدہ لباس کی جگہ کوئی اور لباس تیار کیا ہے اور نہ ہی اس دنیا کی زمین سے ایک بالشت پر بھی قبضہ جمایا ہے۔“

یهاں تک کہ فرماتے ہیں :”اگر میں چاہتا تو صاف ستهرے شهد ، عمدہ گیہوں اور ریشم کے بنے ہوئے کپڑوں کو اپنے لئے مهیا کر سکتاتها، لیکن یہ کیسے ہو سکتاہے کہ خواہشات مجه پر غلبہ حاصل کرلیں اور حرص مجھے اچہے اچہے کهانے چن لینے کی دعوت دے، جب کہ حجاز اور یمامہ میں شاید ایسے لوگ ہوں کہ جنہیں ایک روٹی ملنے کی آس بھی نہ ہو اور نہ ہی کبھی انہیں پیٹ بهر کر کهانا نصیب ہوا ہو۔“(۱)

اسلامی حکومت کی حقیقت کو ایسے شخص کے آئینے میں دیکھنا چاہئے جو خود کوفہ میں ہوتے ہوئے لذیذ کهانے کی طرف اس احتمال کی بنا پر هاته تک نہیں بڑهاتا کہ کہیں حجاز یا یمامہ میں کوئی بهوکے پیٹ نہ ہو ،جو لٹہے کے ایک پرانے پیوند لگے کرتے کے ہوتے ہوئے دوسرے پرانے کرتے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں اور اپنے لئے ایک بالشت زمین تک تیار نہیں کرتا ۔اس دنیا سے اس کی روٹی ،کپڑے اور مکان کی حدیہیں تک ہے کہ کہیں اس کا معیارِ زندگی اس کی رعایا کے فقیر ترین فرد سے بہتر نہ ہوجائے ۔

اس کی سلطنت میں عدالت اس طرح حکم فرما تھی کہ ایک دن اپنی زرہ یہودی کے پاس دیکھی تو اس سے کها:”یہ زرہ میری ہے“ ۔اسلام کی پناہ میں زندگی بسر کرنے والے یہودی نے کمالِ جرات کے ساته جواب دیتے ہوئے کها : ”یہ زرہ میری ہے اور میرے هاته میں ہے ،میرے اور تمهارے درمیان مسلمانوں کا قاضی فیصلہ کرے گا“۔

یہ جاننے کے باوجود کہ یہودی نے خیانت کی ہے اور زرہ چرائی ہے اس کے ساته قاضی کے پاس گئے اور جب قاضی، حضرت (ع)کے احترام میں کهڑا ہوا تو قاضی کے اس امتیاز برتنے پر اس سے ناراضگی کا اظهار کیا اور فرمایا:اگر یہ مسلمان ہوتا تو ضرور اس کے ساته ہی تمهارے سامنے بیٹهتا۔

آخر کار اس عدلِ مطلق کو دیکھ کر یہودی نے اعتراف کر لیا اور اسلام لے آیا۔آپ (ع) زرہ کے ساته اپنا مرکب بھی اس یہودی کو بخش دیتے ہیں ۔یہودی مسلمان ہونے کے بعد آپ (ع) سے جدا نہ ہوا یهاں تک کہ جنگ صفین میں شهادت کے مقام پر فائز ہوا(۲) جب آپ(ع) کو خبر ملی کہ اسلام کی پناہ میں زندگی گزارنے والی غیر مسلم عورت کے پاؤں سے پازیب چهین لی گئی ہے تو اس قانون شکنی کا تحمل نہ کرپائے اور فرمایا:((فلو إن إمرا مسلما مات من بعد هذا ا سٔفا ماکان به ملوما،بل کان به عندی جدیرا ))(۳)

راستے میں ایک بوڑہے کو دستِ سوال دراز کرتے ہوئے دیکھ کر جستجو شروع کی کہ اس کے بھیک مانگنے کا سبب کیا ہے ۔آپ (ع) کو تسلی دیتے ہوئے کها گیا یہ بوڑها نصرانی ہے۔ آپ (ع) نے ناراضگی کا اظهار کرتے ہوئے فرمایا:جوانی میں اس سے کام لیتے رہے اور بڑهاپے میں بھیک مانگنے کے لئے چهوڑ دیاہے ؟!اور حکم دیا کہ اس کے مخارج زندگی بیت المال سے دیئے جائیں ۔(۴)

خلق کو حقوق مهیا کرنے کا یہ حال تھا کہ چیونٹی کے منہ سے اس کی محنت سے حاصل کیا ہوا جوکا چهلکا چهیننے کے بدلے میں ہفت اقلیم بمع ان اشیاء کے جو ان کے آسمانوں کے نیچے ہیں لینے کو

____________________

۱ نهج البلاغہ خطوط ۴۵ ۔

۲ حلیة الاولیاء ج ۴ ص ۱۳۹ ۔

۳ نهج البلاغہ خطبہ ۲۷ (اگر ایک مسلمان اس واقعہ کو سننے کے بعد افسوس میں مر جائے تو کوئی ملامت کا مقام نہیں بلکہ میرے نزدیک اس پرمر ناہی مناسب ہے)

۴ وسائل الشیعہ ج ۱۵ ص ۶۶ ، کتاب الجهاد، ابواب جهاد العدو، باب ۱۹ ۔

تیار نہ تھے،(۱) اور خالق کے حقوق نبهانے میں یہ کیفیت تھی کہ نہ جنت کے شوق،نہ جهنم کے خوف ،

بلکہ اسی کو اہل عبادت جان کر اس کی عبادت وبندگی میں ہمہ تن مصروف تھے(۲) جیسا کہ پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا:((ا نٔا ا دٔیب اللّٰه وعلی ا دٔیبی ))،(۳) ایسے انسان کی تربیت کر کے بشریت کو مقامِ کمال پر پهنچا دیا، کہ جس نے میدان جنگ کی ایسی پامردی واستقامت دکهائی کہ جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی اور ایسی رقت قلبی کا امتزاج پیش کیا کہ اگر یتیم کے چهرے پر نظر پڑ جاتی تو رخسار پر آنسو جاری ہوجاتے اور جگر سوز فریاد بلند ہوتی اور اس تربیت سے اسے آزادی وحریت کی اس منزل تک پهنچا دیا کہ پھر وہ دنیا کے محدود اور آخرت کے نامحدود تمام مصالح ومنافع سے بلند وبالا ہو کر صرف بندگی وعبادت پروردگار عالم کے طوق غلامی کو ،وہ بھی اپنے فائدے کے لئے نہیں بلکہ اس کی اہلیت کی وجہ سے اپنی گردن میں ڈال لیا۔اور آزادی کے ساته ایسی بندگی کا امتزاج پیش کیا جو خلقت جهان وانسان کا اصل مقصد ہے اور اپنی رضا وغضب کو خالق کی رضا وغضب میں اس طرح فنا کیا کہ جس پر لیلة المبیت(۴) میں رسول الله (ص) کے بستر پر نیند اور خندق کے دن ثقلین کی عبادت سے افضل ضربت،(۵) گواہ ہیں ۔

یقینا، ایسا باغبان جو سیم زدہ جزیرة العرب میں چند محدود سالوں کے عرصے میں سخت ترین مشکلات میں مبتلا ہونے کے باوجود، دنیا کے سامنے ایک ایسی امت اور درختِ آدمیت کا ایسا بہترین پهل پیش کرے ،یہ کهنے کا حق رکھتا ہے کہ بوستان انسانیت کا سب سے بڑا باغبان میں ہوں ۔

آیا عقل وانصاف یہ تقاضا نہیں کرتے کہ ان معجزات سے قطع نظرکرتے ہوئے کہ جنہیں اس مختصر مقدمے میں ذکر کرنا ممکن نہیں ، صرف اس ایک علمی وعملی نمونے کی بنیاد پر کہ جس کا نهایت ہی مختصر الفاظ میں ذکر کیاگیا ، انسان تعصب اور ہوا وہوس کو خود سے دور کرتے ہوئے اس بات پر ایمان لے آئے کہ فقط آئین اسلام ہی بشریت کو کمال کے آخری درجے تک پهنچا سکتا ہے ؟!اور آیا فطرت وعقل انسانی جس چیز کا دین سے علماً وعملاً تقاضا کرتی ہے، کیا اس دین میں کماحقہ موجود نہیں ؟!

آیا انسان سازی کے لئے انفرادی واجتماعی نقطہ نظر سے اس سے بڑه کر کوئی اور تعلیم وتربیت بھی ہے؟!

یهی چیز پیغمبر اسلام (ص) کی خاتمیت اور ان کی شریعت کے ابدی ہونے پر ایمان ہے( مَا کَانَ مُحَمَّدٌ ا بََٔا ا حََٔدٍ مِّنْ رِجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ وَکاَنَ اللّٰهُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِيْماً ) (۶)

آنحضرت (ص) کی آفتاب زندگی کی کرن آخر میں آنحضرت (ص) کے خورشید زندگی کی ایک شعاع پر ، جو اِن کی رسالت کی گواہ بھی ہے ،نظر ڈالتے ہیں :

جس دور میں دعوت اسلام کے اظهار پر مال ومقام کی پیشکش اور دہمکیاں اپنی آخری حد کو پهنچ گئیں، قریش نے ابو طالب (ع) کے پاس آکر کها: تمهارے بهتیجے نے ہمارے خداؤں کو برا کها ،

ہمارے جوانوں کو تباہ اور جماعت کو منتشر کردیا۔اگر اسے مال چاہیے تو ہم اتنا مال ودولت جمع کریںگے کہ تمام قریش میں بے نیاز ترین شخص بن جائے اور جس عورت سے چاہے اس سے شادی کردیںگے، یهاں تک کہ سلطنت وبادشاہی کا وعدہ بھی دیا گیا، لیکن آنحضرت کا جواب یہ تھا : اگرمیرے داہنے هاته پر سورج اوربائیں هاته پر چاند لا کر رکھ دیں پھر بھی میںاس دعوت سے باز نہیں آؤں گایہ دیکھ کر کہ اس لالچ دلانے کا بھی اثر نہ ہوا تو انہوں نے دہمکیوں اور اذیتوں کا سهارا لیا

____________________

۱ نهج البلاغہ خطہ ۲۲۴ ۔

۲ عوالی اللئالی ج ۱ ص ۴۰۴ ۔

۳ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۳۱ (میں خدا کا تربیت شدہ ہوں اور علی (ع) میرے تربیت شدہ ہیں)

۴ بحار الانوار ج ۳۶ ص ۴۰ ۔

۵ بحار الانوار ج ۳۹ ص ۲۔

۶ سورہ احزاب ، آیت ۴۰ ۔”محمد تم میں سے کسی کا باپ نہیں ہے بلکہ خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر اور خاتم النبیین ہے اور خدا ہر چیز کا جاننے والا ہے“۔

، ۷ بحار الانوارج ۱۸ ص ۱۸۰-۱۸۲ ۔

جن کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ (ص) مسجد الحرام میں نماز شروع کرتے بائیں جانب سے دوشخص سیٹی اور دائیں طرف سے دو شخص تالیاں بجاتے، تاکہ نماز میں خلل ڈالیں۔(۱) راستہ چلتے وقت آپ (ص) کے سرِمبارک پر خاک پهینکا کرتے اور سجدے کی حالت میں آپ (ص)پر بھیڑ کی اوجهڑی پھینکتے(۲) حضرت ابوطالب(ع) کی رحلت کے بعد آپ نے قبیلہ ثقیف کے بزرگوں سے تبلیغ دین کے سلسلے میں مدد لینے کے لئے طائف کی جانب سفر کیا، لیکن انہوں نے دیوانوں اور غلاموں کواس بات پر اکسایا کہ آنحضرت(ص) کا پیچها کر کے آپ کو آزار پهنچائیں۔ آنحضرت (ص)نے ایک باغ میں پناہ لی اور انگور کی بیل کے سائے میں بیٹه گئے۔ آنحضرت (ص)کی حالت اتنی رقت بار تھی کہ مشرک دشمن کو بھی آپ (ص)کی حالت پر رحم آگیا اور عداس نامی نصرانی غلام سے کها: انگور توڑ کر اس کے پاس لے جاؤ۔جب غلام نے انگوروں کا طبق آپ (ص) کے پاس لا کررکھا، آپ (ص)نے هاته آگے بڑهاتے ہوئے کها: بسم الله ۔

غلام نے کها: اس شهر کے لوگ تویہ کلمات نہیں بولتے ۔

فرمایا:کس شهر سے ہو؟اور تمهارا دین کیاہے؟اس نے کها: نصرانی ہوں اور میرا تعلق نینوا سے ہے ۔

فرمایا :یونس بن متی کے شهرسے ؟

عداس نے کها: یونس کو کهاں سے جانتے ہو؟

فرمایا: وہ میرا بهائی اور پیغمبر تھا، میں بھی پیغمبر ہوں۔ یہ سنتے ہی عداس نے آنحضرت (ص) کے هاته پاؤں کا بوسہ لیا(۳) آنحضرت (ص) کے پیروکاروں کو سخت ترین تشدد کے ذریعے تکالیف میں مبتلا کیا جاتا اور ان میں سے بعض کوجلتی دہوپ میں ڈال کر ان کے سینوں پر بهاری بهر کم پتهر رکہے جاتے لیکن اس کے باوجود ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوتے:”احد، احد۔“(۴)

عمار یاسر کی ضعیف العمر اور ناتواں ماں سمیہ کو نهایت شدید اذیتوں میں رکھا گیا تاکہ دین خدا کو چهوڑ دے، آخر کا ر جب وہ بوڑهی خاتون نہ مانی تو اسے دردناک طریقے سے قتل کردیا گیا(۵) اس قوم سے اتنی زیادہ تکالیف کا سامنا کرنے کے بعد جب آپ (ص) سے ان کے خلاف بد دعا کرنے کو کها گیا تو فرمایا:((إنما بعثت رحمة للعالمین ))(۶) اور ان مظالم کے مقابلے میں اس قوم پر عنایت ومهربانی کا یہ عالم تھا کہ یہ دعا فرماتے : ”اے پروردگار!میری قوم کو ہدایت فرما کہ یہ نادان ہیں۔ “(۷)

عذاب مانگنے کے بجائے رحمت کی دعا کیا کرتے۔ رحمت بھی وہ کہ جس سے بڑی رحمت کا تصور نہیں کیا جاسکتا، یعنی نعمت ہدایت۔”قومی“ (میری قوم)کا لفظ استعمال کر کے اس قوم کو خود سے منسوب کردیا کہ اس نسبت سے ان کو عذاب خدا سے بچاؤ کا تحفہ عطا کردیں، خدا کی بارگاہ میں ان کی شکایت کرنے کے بجائے شفاعت کرتے اور ان کی جانب سے یہ عذر پیش کرتے کہ یہ نادان ہیں۔

زندگی گزارنے کا انداز یہ تھا کہ جوکی روٹی خوراک تھی،اس کو بھی کبھی سیرہو کر تناول نہ کیا(۸) غزوہ خندق میں آپ (ص) کی بیٹی صدیقہ کبریٰ علیها السلام، آپ (ص) کے لئے روٹی کا ایک ٹکڑا لائی جو تین دن کے فاقے کے بعد پهلی غذا تھی، جسے آپ (ص) نے تناول فرمایا(۹) اور زندگی کا یہ اندازتنگدستی کی وجہ سے نہ تھا ، اس لئے کہ اسی زمانے میں آپ (ص) کی بخشش و عطا سو اونٹوں تک بھی پهنچتی تھی۔(۱۰)

____________________

۱ بحارالانوار ج ۱۸ ص ۱۶۰ ۔

۲ بحار الانوارج ۱۸ ص ۲۰۵ ؛بحار الانوار ج ۱۹ ص ۱۷ ؛الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۶۳ ۔

۳ مناقب آل ابی طالب ج ۱ ص ۶۸ ۔

۴ حلیة الاولیاء ج ۱ ص ۱۴۸ ۔

۵ بحار الانوار ج ۱۸ ص ۲۱۰ ۔

۶ بحار الانوار ج ۱۸ ص ۲۴۳ (بے شک میں فقط عالمین کے رحمت بن کر مبعوث ہوا ہوں)

۷ الخرائج والجرائح ج ۱ ص ۱۶۴ ۔

۸ بحار الانوارج ۱۶ ص ۲۴۳ ۔

۹ بحار الانوارج ۱۶ ص ۲۲۵ ۔

۱۰ بحار الانوار،ج ۲۱ ، ص ۱۷۰ ۔

دنیا سے جاتے وقت نہ آپ (ص) نے درہم و دینار چهوڑے، نہ غلام و کنیز اور نہ ہی کوئی بھیڑ اوراونٹ، بلکہ آپ کی زرہ بھی مدینہ کے ایک یہودی کے پاس تھی، جسے آپ (ص) نے گهر والوں کی غذا کے انتظام کے لئے خریدے گئے بیس صاع جو کے بدلے گروی رکھوایا تھا(۱) دو نکات کی طرف توجہ ضروری ہے :

۱۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت (ص) کے مقام ومنزلت اور بے نظیر امانت داری کے ہوتے ہوئے کوئی بھی آپ سے گروی رکھنے کا تقاضا نہیں کرتا تھا، لیکن یہ سمجهانا مقصود تھا کہ قرض کی تحریری دستاویز نہ ہونے کی صورت میں، اسلام کی عظیم ترین شخصیت تک، ایک یہودی کے حق میں بھی قانونِ رہن کا خیال رکہے، جو صاحبِ مال کے لئے وثیقہ ہے ۔

۲۔لذیذ ترین غذائیں فراہم ہونے کے باوجود پوری زندگی جو کی روٹی سے اس لئے سیر نہ ہوئے کہ کہیں آنحضرت کی غذا رعایا کے نادار ترین فرد کی غذاسے بہتر نہ ہو۔

آپ (ص) کے ایثار کا نمونہ یہ ہے کہ وہ بیٹی جس کے فضائل سنی اور شیعہ کتب میں بکثرت ذکر کئے گئے ہیں، قرآن مجید میں مباہلہ(۲) اور تطهیر(۳) جیسی آیات اور حدیث کساء(۴) و عنوان ((سیدة نساء ا هٔل الجنة ))(۵) جیسے بلند مرتبہ مضمون پر مشتمل احادیث جو اس انسان کامل میں ممکنہ کمال انسانی کے مکمل تحقق کی دلیل ہیں، ایسی بیٹی جس کے توسط سے رسول خدا (ص) کی نسل تاقیات باقی رہے گی،

وہ جس کی آغوش میں مطلعِ نجومِ ہدایت اور ائمہ اطهار پروان چڑهتے رہے اور پیغمبر اسلام(ص)کے نزدیک جس کے احترام کا عالم یہ تھا کہ جب بھی آنحضرت (ص)کی خدمت میں تشریف لاتیں آنحضرت(ص) اپنی جگہ پر بٹهاتے اور هاتهوں کا بوسہ لیا کرتے تھے۔(۶) وہ بیٹی جووالد گرامی کی اقتداءمیں محراب عبادت میں اتنا قیام کرتیں کہ دونوں پاؤں پر ورم آجاتا(۷) اور اتنا زیادہ محو عبادت ہونے کے باوجود امیر المومنین(ع)کے گهر اس طرح خانہ داری کرتیں کہ ایک دن جب پیغمبر اسلام(ص)تشریف لائے تو آپ بچے کو دودہ پلانے کے ساته ساته چکی بھی چلا رہی تہیں، آنحضرت (ص) نے آنسوؤں سے تر آنکهوں کے ساته یہ رقت بار منظر دیکھا اور فرمایا:((تعجلی(تجرئی)مرارة الدنیا بحلاوة الآخرة ))(۸)

تو آنحضرت کے جواب میں کها:((یا رسول اللّٰه(ص))! الحمد للّٰه علی نعمائه والشکر للّٰه علی آلائه ))۔ ایسی بیٹی اپنے چکی چلانے کی وجہ سے گٹے پڑے ہوئے هاتهو ں کولے کر والد گرامی کے پاس کنیز مانگنے کے لئے تو آئی لیکن اپنی حاجت بیان کئے بغیرلوٹ گئی اور وہ باپ جو اگر چاہتا تو بیٹی کے گهر میں رزو جواہر کا انبار لگا سکتا تھا، خدمت گزاری کے لئے غلام اور کنیزیں دے سکتا تھا، اس نے خدمت گزارکے بجائے چونتیس مرتبہ تکبیر، تینتیس مرتبہ تحمید اور تینتیس مرتبہ تسبیح تعلیم فرمائی(۹) یہ ہے کردار حضرت ختمی مرتبت(ص) ،کہ اتنے سخت حالات میں زندگی بسر کرنے والی ایسی بیٹی کے مقابلے میں ناداروں کے ساته کس طرح ایثار فرماتے ہیں اور وہ ہے والد گرامی کی صبر کی تلقین کے جواب میں مادی ومعنوی نعمتوں کا شکر بجا لانے والی صدیقہ کبریٰ، جو رضا بقضائے الٰهی میںفنا اور الطاف الهیہ میں استغراق کا ایسا نمونہ پیش کرتی ہے کہ کڑواہٹ کو مٹهاس اور مصیبت

____________________

۱ بحار الانوارج ۱۶ ص ۲۱۹ ۔

۲ سورہ آل عمران، آیت ۶۱ ۔

۳ سورہ احزاب، آیت ۳۳ ۔

۴ الاصابة فی تمییز الصحابة،ج ۴، ص ۴۶۷ ؛ تفسیر الطبری ج ۲۲ ص ۹، آیہ تطهیر کے ذیل میں؛مستدرک صحیحین ؛ ۳۲۳ ، اور دوسری کتب اہل سنت؛کافی ج ۱ ص ۲۸۷ ، ج ۲ ص ۴۱۶ ؛تفسیر قرطبی ج ۱۴ ص ۱۸۳ ؛مسند احمد حنبل ج ۶ ص ۲۹۸

الخصال ص ۵۵۰ ودوسری کتب خاصہ۔

۵ صحیح بخاری، ج ۴، ص ۱۸۳ ، باب علامات البنوة فی الاسلام اور اس کتاب کے دوسرے مقامات؛ صحیح ابن حبان ج ۱۵ ، ص ۴۰۲ ،حدیث نمبر ۶۹۵۲ ، اور اہل سنت کی دوسری کتابیں؛ بحار الانوارج ۲۲ ص ۴۸۴ ، اور شیعوں کی دوسری کتابیں ۔

۶ بحار الانوار ج ۴۳ ص ۲۵ ۔

۷ بحار الانوارج ۴۳ ص ۷۶ ۔

۸ بحار الانوار ج ۴۳ ص ۸۶ ۔(اے میری بیٹی دنیا کی سختیوں کو آخرت کی مٹهاس کے مقابل میں جلدی کرو(برداشت کرو)

۹ بحار الانوارج ۴۳ ص ۸۵ ۔

وپریشانی کو اس کی نعمت قرار دیتے ہوئے ا س پر صبر کے بجائے حمد وشکر کو اپنی ذمہ داری سمجهتی ہے ۔

آپ (ص)کے اخلاق وکردار کا نمونہ یہ ہے کہ خاک پر بیٹهتے(۱) غلاموں کے ساته کهانا کهاتے اور بچوں کوسلام کرتے تھے(۲) ایک صحرانشین عورت آپ (ص) کے پاس سے گزری تو دیکھا آ پ (ص) خاک پر بیٹہے کهانا کها رہے ہیں۔ ا س عورت نے کها:اے محمد (ص)!تمهاری غذا غلاموں جیسی ہے اور بیٹهنے کا انداز بھی غلامو ں جیسا ہے۔ آپ (ص) نے فرمایا :مجه سے بڑه کر غلام کون ہوگا(۳) اپنے لباس کو اپنے هاتهوں سے پیوند لگاتے ٤،بھیڑ کا دودہ نکالتے ۵اور غلام وآزاد دونوں کی دعوت قبول کرتے تھے ۔ ٦

اگر مدینہ کے آخری کونے میں بھی کوئی مریض ہوتا اس کی عیادت کو جاتے(۷) فقراء کے ساته ہم نشینی فرماتے اور مساکین کے ساته دسترخوان پر بیٹه جاتے(۸) آپ (ص) غلاموں کی طرح کهاتے اور غلاموں کی مانند بیٹهتے تھے(۹) جو کوئی آپ (ص) سے هاته ملاتا ،جب تک وہ خود نہ چهوڑتا آپ اپنا هاته نہیں کهینچتے تھے ۔(۱۰)

جب کسی مجلس میں تشریف لاتے تو آنے والے جهاںتک بیٹه چکے ہوتے ان کے بعد بیٹہ جاتے(۱۱) اور کسی کی طرف ٹکٹکی باندہ کر نہیںدیکھتے ۔(۲)

پوری زندگی میں سوائے خدا کی خاطر کسی پر غضب نہ کیا ۔(۱۳)

ایک عورت آنحضرت (ص) کے ساته گفتگو کر رہی تھی ،بات کرتے وقت اس کے بدن پر کپکپی طاری ہوگئی تو آپ نے فرمایا :آرام واطمینان سے بات کرو، میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں، میں اس عورت کا بیٹا ہوں جو سوکها گوشت کهایا کرتا تھی۔(۱۴)

انس ابن مالک نے کها: میں نو سال آنحضرت (ص) کی خدمت میں تھا آپ (ص) نے کبھی نہ کها :”ایسا کام کیوں کیا؟“ اور کبھی عیب جوئی نہ فرمائی۔(۱۵)

ایک دن مسجد میں تشریف فرما تھے، انصار کے بچوں میں سے ایک بچی نے آکر آپ (ص)کے لباس کا ایک کونا پکڑا ۔آپ (ص) اس کی حاجت روائی کے لئے اٹہے، لیکن نہ تو اس بچی نے کچہ کها اور نہ آپ (ص) نے پوچها کہ تمہیں کیا چاہیے ؟یهاں تک کہ یہ عمل چار مرتبہ تکرار ہوا۔چوتهی مرتبہ اس نے حضرت (ص)کے لباس سے دہاگہ توڑ لیا اور چلی گئی۔اس بچی سے پوچها گیا: یہ تم نے کیا کام کیا؟

____________________

۱ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۲۲ ۔

۲ بحار الانوار ج ۱۶

۳ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۲۵ ۔

۴ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۲۷ ۔

۵ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۲۷ ۔

۶ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۲۷ ۔

۷ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۲۸ ۔

۸ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۲۸ ۔

۹ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۲۵ ۔

۱۰ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۲۸ ۔

۱۱ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۲۸ ۔(پوری عمر میں خدا کے علاہ کسی اور چیز کے خاطر غضب ناک نہیں ہوا)

۱۲ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۲۷ ۔

۱۳ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۲۷ ۔

۱۴ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۲۹ ۔

۱۵ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۳۰ ۔

اس بچی نے کها: ہمارے یهاں ایک شخص مریض ہے۔مجھے بھیجا گیا کہ میں اس کی شفا کے لئے آنحضرت (ص) کے لباس سے دہاگہ توڑ کر آؤں ۔جب بھی میں دہاگہ لینا چاہتی تھی میں دیکھتی تھی کہ آنحضرت (ص) مجھے دیکھ رہے ہیں اور اجازت لینے میں مجھے شرم آتی تھی، یهاں تک کہ چوتهی بار دہاگہ نکالنے میں کامیاب ہوگئی(۱) احترامِ انسان کے سلسلے میں، یہ واقعہ آنحضرت (ص)کی خاص توجہ کی نشاندہی کرتا ہے،کیونکہ اپنی فراست سے بچی کی حاجت اور سوال سے کراہت کو سمجه کر اس کی حاجت روائی کے لئے چار مرتبہ اپنی جگہ سے اٹه کهڑے ہوئے، لیکن یہ نہ پوچهاکہ اسے کیا چاہئے، تاکہ اس کےلئے ذهنی پریشانی وذلتِ سوال کا باعث نہ ہو۔

اس باریکی اوردقت نظری سے بچی کی حرمت وعزت کا پاس رکھنے والے کی نظر مبارک میں بڑوں کے مقام ومنزلت کی کیا حد ہوگی ۔

جن دنوں یہودی،کافر ذمی کے عنوان سے اسلام کے زیر سایہ زندگی بسر کررہے تھے اور آنحضرت (ص) کا اقتدار اپنے عروج پر تھا۔ ایک یہودی کے چند دینار آپ (ص) پر قرض تھے ۔جب اس یہودی نے واپسی کا مطالبہ کیا،آپ(ص)نے فرمایا: ”اس وقت میرے پاس تمہیں دینے کوکچھ نہیں ہے۔“

یہودی نے کها:” میں اپنے دینار لئے بغیر آپ (ص) کو بالکل نہیں چهوڑوں گا ۔“

فرمایا:”اچها میں تمهارے پاس بیٹها ہوں۔ “ ظهر ،عصر ،مغرب ، عشاء اور صبح کی نماز وہیں ادا کی، صحابہ نے اس یہودی کو دہمکی دی، تو آپ (ص) نے فرمایا:”اس کے ساته ایسا سلوک کیوں کر رہے ہو ؟“

اصحاب نے کها :”یا رسول الله (ص)! اس یہودی کی یہ جرا تٔ کہ آ پ (ص) کو محبوس کرے؟“

فرمایا:”پروردگا ر عالم نے مجھے اس لئے مبعوث نہیں کیا کہ ظلم کروں“ ۔جیسے ہی دن چڑها اس یہودی نے کها:”اشهد ان لا الہ الله واشهد ان محمداًعبدہ ورسولہ، میں اپنے مال کا ایک حصہ خدا کی راہ میں دیتا ہوں ،خدا کی قسم! میں نے آپ (ص)کے ساته ایسا سلوک صرف اس لئے کیا تاکہ تورات میں آپ سے متعلق درج شدہ صفات کو عملی طور پر آپ (ص)میں دیکھ سکوں۔“(۲)

عقبہ بن علقمہ کہتا ہے:میں علی (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ(ع) کے سامنے سوکهی روٹی رکھی تھی، پوچها:اے امیرالمومنین (ع) ! کیا آ پ (ع) کی غذا یهی ہے ؟

فرمایا:رسول خدا (ص) کی روٹی اس سے زیادہ خشک اور لباس میرے لباس سے زیادہ کهردرا تھا۔اگر میں آنحضرت (ص) کی طرح زندگی بسر نہ کروں تو مجھے ڈر ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ (ص) سے ملحق نہ ہوسکوں۔“(۳)

جب امام زین العابدین علی ابن الحسین (ع)سے پوچها گیا کہ آ پ (ع) کی عبادت کو امیرالمومنین(ع)کی عبادت سے کیا نسبت ہے ؟آ پ (ع) نے فرمایا: ”میری عبادت کو میرے جد کی عبادت سے وہی نسبت حاصل ہے جو میرے جد کی عبادت کو رسول خدا (ص) کی عبادت سے نسبت تھی۔“(۴)

زندگی کے آخری لمحات میں بھی اپنے قاتل سے درگزر کرتے ہوئے صفاتِ الٰهی کواپنانے کا ایسا نمونہ پیش کیا جو خدا کی رحمت رحمانیہ کے ظہور کا عملی نمونہ ہے ۔(۵) ( وَمَا ا رَْٔسَلْنَاکَ إِلاَّ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ ) (۶) اور فقط اسی کو یہ کهنے کا حق ہے کہ((إنما بعثت لا تٔمم مکارم الا خٔلاق ))(۷)

____________________

۱ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۶۴ ۔

۲ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۱۶ ۔

۳ بحار الانوار ج ۴۰ ص ۳۳۱ ۔

۴ بحار الانوار ج ۴۱ ص ۱۴۹ ۔

۵ اصول کافی ج ۲ ص ۱۰۸ کتاب الایمان والکفر باب العفو ح نمبر ۹۔

۶ سورہ انبیاء ، آیت ۱۰۷ ۔” نہیں بھیجا تم کو مگر عالمین کے لئے رحمت بنا کر“۔

۷ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۱۰ ۔(میں مبعوث ہوا ہوں تاکہ اخلاق کو پایہ تکمیل تک پہونچا سکوں)