خطبات حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا)
0%
مؤلف: اقبال حیدرحیدری
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
مؤلف: اقبال حیدرحیدری
زمرہ جات: مشاہدے: 7311
ڈاؤنلوڈ: 3305
تبصرے:
مؤلف: اقبال حیدرحیدری
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
مؤلف: اقبال حیدرحیدری
یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے
مقدمہ ناشر
بِسْمِ ا للهِ الرّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الحمد لله رب العالمین وصلی الله علی رسوله وآله والطیبین الطاهرین، امّا بعد:
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے مسجد نبوی میں وہ تاریخ ساز خطبہ ارشاد فرمایا ہے جس میں عالم انسانیت کے لئے بھترین عبرتیں ہےں، اور رسول اکرم(ص) کے بعدپیش آنے والے واقعات سے باخبر ہونے کا بھترین ذریعہ ہے، حضرت فاطمہ زھرا (س) کی وہ شخصیت ہے کہ جن کے باپ، شوھر اور بیٹوں کی بارے میں خداوندعالم کی طرف سے آیہ تطھیر نازل ہوئی ، لہٰذا آپ جو بھی اپنے باپ اور اپنے شوھر کے بارے میں کہتی ہیں وہ عین حق وحقیقت ہے، جس کا بیان واضح اور روشن ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بی بی جو معصومہ دوعالم او ربا پردہ خاتون ہیں کس وجہ سے اپنے گھر سے نکلی، اورکیوں مسجد میں جاکر اس انداز میں خطبہ دیا جو تاریخ کے دامن میں آج بھی باقی ہے اور آپ کی اور اہل بیت رسول (ع) کی مظلومیت پر دلالت کر رہاھے، وہ باحجاب بی بی اچانک گھر سے نکل پڑیں جن کی تمنا یہ تھی کہ نہ وہ کسی نامحرم مرد کو دیکھیں اور نہ ان کو کوئی نا محرم مرد دیکھے،! تو ظاھر ہے کہ آپ کا گھر سے نکلنا ایک اہم مسئلہ ہے اور آپ کی گفتگو ایسی باتوں پر مشتمل ہے جو تاقیام قیامت واضح دلیل ہے، آپ کا یہ خطبہ لوگوں کے انحراف اورکج روی کی طرف توجہ دلا رہا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رسول اکرم(ص) کی وفات کے بعد وہ لوگ کس طرح منحرف ہوگئے اور رسول اسلام(ص) کے تمام فرموات کو پسِ پشت ڈالل دیا۔
آنحضرت (ص)نے بھت سی احادیث میں اس بات کو مکرربیان فرمایا ہے کہ ان کے بعد کون خلیفہ ہے اور خلافت الٰھی کا کون حقدارہے، انہیں تمام باتوں کی طرف حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے اپنے اس فصیح وبلیغ خطبہ میں اشارہ فرمایا ہے ، یہ وہ خطبہ ہے کہ جس میں اس بات پر مستحکم اور ٹھوس دلیل موجود ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کو علم، فصاحت اور مومنین کی دلوں میں محبت عطا کی گئی ہے۔
موسسہ امام علی علیہ السلام نے ضروری سمجھا کہ اس خطبہ اور آخری وقت میں مھاجرین وانصار کی عورتوں کی عیادت کے وقت آپ کے خطبوں کو نشر کرے، تاکہ موسسہ بھی آپ کے غصب شدہ حق اورآپ اور اہل بیت رسول کی مظلومیت کو بیان کرنے میں اپنے فریضہ کو ادا کرسکے، یہ وہ مظلومیت تھی کہ جو رسول اسلام(ص) کے انتقال کے بعد شروع ہونے والے انقلاب کے وقت پیش آیااور یھی وہ انقلاب ہے جس کی طرف قرآن مجید کی درج ذیل آیہ شریفہ اشارہ کررھی ہے:
( وما محمد الا رسول قد خلت من قبله الرّسل افان مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیه فلن یضراللّٰه شیئا وسیجزی اللّٰه الشاکرین ) ۔ (سورہ آل عمران آیت ۱۴۴)
” محمد(ص)صرف خدا کے رسول ہیں، ان سے پھلے بھی دوسرے پیغمبرموجود تھے، اب اگر وہ اس دنیا سے چلے جائیں، یا قتل کردئے جائیں تو کیا تم دین سے پھر جاوگے، اور جو شخص دین سے پھر جائے گا وہ خدا کو کوئی نقصان نہیں پہونچاسکتا، خدا شکر کرنے والوںکو جزائے خیردیتاہے“ ۔
والسلام علی من اتبع الهدیٰ
موسسہ امام علی علیہ السلام ۔قم جمہوری اسلامی ایران
وقال سوید بن غفلة لما مرضت فاطمة الزهراء المرضة التي توفیت فیها اجتمعت الیها نساء المهاجرین والانصار لیعدنها ،فسلمن علیها فقلن لها کیف اصبحت من علتک یابنة رسول اللّٰه،فحمدت اللّٰه وصلت علی ابیها المصطفیٰ(ص) ثم قالت اٴصبحت واللّٰه عائفة لدنیاکن قالیة لرجالکن لفظتهم بعد اٴن عجمتهم و شناٴتهم بعد ان سبرتهم فقبحا لفلول الحد واللعب بعد الجد، وقرع الصفاة وصدع القناة وخطل الآراء وزلل الاٴهواء، ولبئسما قدمت لهم انفسهم اٴن سخط اللّٰه علیهم وفی العذاب هم خالدون (سوره مائده ، آیت ۸۰ ) ، لا جرم والله لقد قلدتهم ربقتها وحملتهم اٴوقتها وشننت علیهم غارتها فجدعا وعقرا وبعدا للقوم الظالمین
مدینہ کی عورتوں سے خطاب
سوید بن غفلہ کھتے ہیں کہ جس وقت جناب فاطمہ زھرا (س)مریض ہوئیں اور آپ کا مرض اس قدر بڑھا کہ اسی مرض میں اس دنیا سے رحلت کرگئیں، اس وقت مھاجرین اور انصار کی عورتیں بی بی کی عیادت کے لئے آئیں اور جناب سیدہ کو سلام کیا اور آپ کی احوال پرسی کی تو آپ نے ان سے مخاطب ہوکر پھلے خداوندعالم کی حمد وثناکی اور اپنے باپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر دردو وسلام بھیجا اور فرمایا: ”بخدا میری زندگی اس حال میں ہے کہ میں تمھاری زندگی کو دوست نہیں رکھتی اور تمھارے مَردوں سے بیزار ہوں، ان کو آزمانے کے بعد چھوڑ دیا ہے اور ان کی بدنیتوں اور بری عادتوں کی بناپر ان سے دوری اختیار کرلی ہے۔
کتنی بری بات ہے کہ انسان ھدایت یافتہ ہونے کے بعد بھی ضلالت وگمراھی کے راستہ پر چلے، حق اور نور وھدایت کو حاصل کرنے کے بعد ظلمتوں اور تاریکیوںمیں جا پھنسے،وائے ہو ان لوگوں پر جو حق وحقیقت کی راہ اور پیغمبر اکرم کے بتائے ہوئے راستہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوجائےں! اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ابن عم (علی علیہ السلام) سے کنارہ کشی کرلیں، وہ علی (ع) جو باب مدینة العلم، مظھر تقویٰ وعدالت ، صاحب شجاعت و حقیقت ہیں ۔
ویحهم اٴنّی زعزعوها عن رواسی الرسالة، وقواعد النبوة والدلالة ومهبط الروح الامین والطبین باٴمور الدنیا والدین( اٴلا ذلک هو الخسران المبین ) ( ۱ )
وما الذی نقموا من اٴبی الحسن علیه السلام ا نقموا منه واللّٰه نکیر سیفه وقلة مبالاته بحتفه وشدة وطاٴته ونکال وقعته وتنمره فی ذات اللّٰه عزّ وجلّ وتاللّٰه لو مالوا عن المحجة اللائحة وزالوا عن قبول الحجة الواضحة لردهم الیها وحملهم علیها ولسار بهم سیراً سجحا لایکلم حشاشه ولا یکل سائره ولا یمل راکبه ولاٴوردهم منهلا نمیرا صافیا رویا فضفاضاً تطفح ضفتاه ولا یترنق جانباه ولاٴصدرهم بطانا ونصح لهم سرا واعلانا، ولم یکن یتحلی من الدنیا بطائل ولا یحظی منها بنائل غیر ري الناهل وشبعة الکافل ولبان لهم الزاهد من الراغب والصادق من الکاذب
” کس قدر برا ہے (دنیا میں بھی) خدا ان پر غضبناک ہوا اور آخرت میں بھی ہم یشہ عذاب میں رہےں گے“
واقعاً کس قدر تعجب کا مقام ہے :
ان لوگوں نے کس طریقہ سے میرے ابن عم علی ابن ابی طالب (ع) کو تنھا چھوڑکر خلافت کی مھار دوسروں کے گلے میں ڈال دی اور آپ کی مخالفت کرکے جداہوگئے، اور ان سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
واقعاً افسوس کا مقام ہے کہ میرے ابن عم کو خانہ نشین بنادیا اور ان کے قتل کے درپے ہوگئے اور واقعاً تعجب ہے کہ انھوں نے رسالت کے ستون اور بنیاد کو چھوڑ دیا، وحی کی جائے نزول کو ترک کردیا اور دنیا کے لئے دین میں اختلاف کرڈالا، ”آگاہ ہوجاؤ کہ یھی لوگ خسارے میں ہیں۔“
خدا کی قسم ! ان سے دوری کی وجہ ان کی تلوار سے خوف ووحشت تھی،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام قوانین اسلامی کو جاری کرنے اور حق وحقیقت کے فیصلہ کرنے میں ذرہ برابر بھی رعایت نہیں کرتے ہیں، اور تمام تر شدت اور کمالِ شجاعت واستقامت سے خداوندعالم کے احکامات کو تمام چیزوں میں جاری کرتے ہیں۔
اور اگر وہ لوگ حضرت کی پیروی کرتے تو وہ راہ مستقیم اور ہم یشگی سعادت اور دائمی خوشبختی کی طرف ھدایت کرتے، اور دیکھتے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ان کو بھترین طریقہ سے سیراب کرتے اور ان کو بھوک سے نجات دیتے،اور ان کی مشکلات کو دور کرتے اس طرح سے لوگوں کے ساتھ برتاؤ کرتے کہ صادق اور کاذب (جھوٹے) میں تمیز ہوجاتی اور زاھد اور لالچی میں پہچان ہوجاتی۔
( ولو ان اهل القریٰ آمنوا واتقوا لفتحنا علیهم برکات من السماء والاٴرض ولکن کذبوا فاٴخذناهم بما کانوا یکسبون ) (۲
( والذین ظلموا( من هوٴلاء) سیصیبهم سیئات ما کسبوا وماهم بمعجزین ) ( ۳ )
اٴلا هلم فاستمع وما عشت اراک الدهر عجبا، وإن تعجب فعجب قولهم لیت شعری الی ایّ سناد استندوا وإلی اٴی عماد اعتمدوا وباٴیة عروة تمسکوا وعلی اٴیة ذریة قدموا واحتنکوا لبئس المولی ولبئس العشیر وبئس للظالمین بدلا( ۴ )
استبدلوا و اللّٰه الذنابیٰ بالقوادم والعجز بالکاهل فرغما لمعاطس قومٍ( یحسبون انهم یحسنون صنعا ) ( ۵ ) ( اٴلا انهم هم المفسدون ولکن لا یشعرون ) ( ۶ ) ویحهم( اٴ فمن یهدی إلی الحق اٴحق اٴن یتبع اٴم من لا یهدِّی إلا اٴن یهدی فما لکم کیف تحکمون ) ( ۷ )
”اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اورپرہیزگار بنتے تو ہم ان پر آسمان وزمین کی برکتوں (کے دروازے) کھول دیتے مگر (افسوس) ان لوگوں نے (ہم ارے پیغمبروں کو) جھٹلایا تو ہم نے بھی ان کی کرتوتوں کی بدولت ان کو (عذاب میں) گرفتار کیا۔ “
”اور جن لوگوںنے نافرمانیاں کی ہیں انہیں بھی اپنے اپنے اعمال کی سزائیں بھگتنی پڑیں گی اور یہ لوگ خدا کو عاجز نہیں کرسکتے۔“
آگاہ ہوجاؤ کہ مجھے زمانہ پر تعجب نہیں ہے اور ا گرتمھیں تعجب ہے تو دیکھ لو کہ (حق سے منحرف ان) لوگوں نے کس راستہ کا انتخاب کیا ، کس دلیل کے ذریعہ استدلال کیا اور کن باتوں پر بھروسہ کیا، اور کس بل بوتہ پر اقدام کیا اور غالب ہوگئے، کس کا انتخاب کیا اور کس (عظیم شخصیت) کو چھوڑ دیا”بے شک ایسا مالک بھی برا ہے اور ایسا رفیق بھی براھے۔“اور ظالمین کو برا ہی بدلا دیا جائے گا۔
تم لوگوں نے کمزوروں کو طاقتور بنادیا اور کمزوری کو طاقت سے بدل دیا، مغلوب اور ذلیل وہ قوم”جو اس خیال خام میں ہے کہ وہ یقینا اچھے اچھے کام کررہے ہیں“
اما لعمری لقد لقحت فنظرة ریثما تنتج، ثم احتلبوا ملٴ القعب دما عبیطا وذعافا مبیدا، هنالک یخسر المبطلون ویعرف التالون غب ما اٴسس الاٴولون ثم طیبوا عن دنیاکم نفسا واطمئنوا للفتنة جاشا واٴبشروا بسیف صارم، وسطوة معتد غاشم وبهرج دائمٍ شامل واستبداد من الظالمین یدع فیاٴکم زهیدا وجمعکم حصیدا، فیا حسرتی لکم واٴنی بکم وقد عمیت علیکم،( اٴنلزمکموها واٴنتم لها کارهون ) ( ۸ )
قال سوید بن غفلة فاٴعادت النساء قولها (ع) علی رجالهن فجاء الیها قوم من المهاجرین والانصار معتذرین وقالوا یا سیدة النساء لوکان اٴبو الحسن ذکر لنا هذا الاٴمر من قبل اٴن یبرم العهد ویحکم العقد لما عدلنا عنه إلی غیره، فقالت علیها السلام الیکم عنی، فلا عذر بعد تعذیرکم ولا امر بعد تقصیرکم“( ۹ )
”بے شک یھی لوگ فسادی ہیں لیکن سمجھتے نہیں“ ۔ ”جو تمھیں دین حق کی راہ دکھاتا ہے زیادہ حقدار ہے کہ اس کے حکم کی پیروی کی جائے یا وہ شخص جو (دوسرے) کی ھدایت تو درکنار خود ہی جب تک دوسرا اس کو راہ نہ دکھائے راہ دیکھ نہیں پاتا ،تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے تم کیسے حکم لگاتے ہو۔“
اپنی جان کی قسم ان لوگوں کے کارناموں کے نتائج برے نکلے جس کی بناپر انہیں شدید فتنہ وفساد سے دوچار ہونا پڑا، اور زھر ھلاہل پینا پڑا ، پس باطل خسارے میں ہیں اور باطل چھرے بے نقاب ہوگئے، آخر کار اس فتنہ وفساد کی بنیاد ڈالنے والے خودھی اس کا مزہ چکھیں گے،وہ یہ فتنہ برپا کرکے مطمئن ہوگئے، کیونکہ ظالمین نے ہی اس آگ کو بھڑکایا، ننگی تلواریں چھوڑیں، یھاں تک ایک دوسرے پر غلبہ کرنے لگے، اور تمھارے گروہ کو حقیر سمجھا گیا اور تمھارا سب کچھ برباد کردیا گیا، واقعاً افسوس کا مقام ہے، خدا تمھاری ھدایت کرے، تمھارے دل ٹیڑھے ہوگئے ہیں، ”تو کیا میں اس کو (زبر دستی) تمھارے گلے میں منڈھ سکتا ہوں“۔
سوید بن غفلہ کھتے ہیں کہ یہ خطبہ سن کر عورتیں واپس چلی گئیں اور سب کچھ اپنی مردوں سے بیان کیا تو ان میں سے مھاجرین وانصار کے بعض لوگ عذر خواھی کے لئے بی بی دوعالم کے پاس آئے اور کہا کہ اے سیدة نساء العالمین، اگر ہماری بیعت سے پھلے ابوالحسن نے ہم کو یہ سب کچھ بتایا ہوتا تو پھر ہم ایسا نہ کرتے اور آپ سے دور نہ ہوتے، (یعنی ثقیفہ میں بیعت نہ کرتے) ۔
تب حضرت زھرا سلام اللہ علیھانے فرمایا: تم لوگ یھاں سے چلے جاؤ کیونکہ تمھاری خطائیں قابل بخشش نہیں ہیں۔
____________________
(۱) سورہ زمر آیت ۱۵
(۲) سورہ اعراف آیت ۶۹
(۳) ،سورہ زمر آیت ۵۱
(۴) سورہ حج آیت ۱۳
(۵) سورہ کہف آیت ۱۰۴
(۶) سورہ بقرہ آیت ۱۲۔
(۷) سورہ یونس آیت ۳۵۔
(۸) سورہ ہود آیت ۲۸
(۹) احتجاج شیخ طبرسی، ص ۷۹؛دلائل الامامة، ص ۳۰؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۱۸۰؛ بحار الانوار، ج۲۹، ص ۲۳۰؛ شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۲۱۱۔