پہلی فصل : اسلام میں انفاق کی اہمیت
۱. انفاق ایک با برکت دانہ
قرآن کریم انفاق کو ایک بہت ہی خوبصورت انداز میں اس طرح بیان فرماتا ہے:
(
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّآئَةُ حَبّةٍ وَاللّٰهُ یُضَاعِفُ لِمَن یَّشَآءُ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
)
(سورہ بقرہ:آیت ۲۶۱)
جو لوگ راہِ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ(بیج)کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کر دیتا ہے کہ وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی۔(علامہ جوادی)
وضاحت
انفاق اورسماجی مشکلات کا حل
سماجی مشکلات میں سے ایک بڑی مشکل طبقاتی فاصلہ اور دوری ہے جس میں انسان ہمیشہ گرفتار رہا ہے اور آج بھی جبکہ صنعتی اور مادی ترقی عروج پر ہے پورا سماج اس طبقاتی کشمکش میں مبتلاہے ۔ایک طرف فقر،غربت اور ناداری ہے تودوسری طرف مال وثروت کی کثرت و فراوانی۔
کچھ لوگ اتنے زیادہ مال وثروت کے مالک ہیں جن کا حساب نہیں لگایاجاسکتا اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو فقیری اور تنگ دستی سے نالاں ہیں اور زندگی کی ابتدائی ضروری اشیاء جیسے روٹی، کپڑا،اور مکان کا مہیا کرنا ان کے لئے ایک بہت مشکل کام ہے۔
واضح سی بات ہے کہ جس سماج کی بنیاد کا ایک حصہ دولتمندی اور مالداری پر اور دوسرا حصہ فقر اور بھوک پر استوار ہو اس سماج میں بقااوردوام کی صلاحیت نہیں پائی جاسکتی اور کبھی بھی سعادت اور خوشحالی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ہے۔
ایسے معاشرہ میں پریشانی،اضطراب،بد بینی وبد گمانی اور سب سے اہم چیز دشمنی اورعداوت حتمی اور یقینی چیز ہے۔
اگر چہ یہ اضطراب گذشتہ انسانی معاشروں میں بھی موجود تھا لیکن ہمارے زمانہ میں طبقاتی فاصلے زیادہ اور خطرناک شکل اختیار کر چکے ہیں اس لئے کہ ایک طرف سے انسانی امداد اور واقعی تعاون کے دروازے بند ہو چکے ہیں تو دوسری طرف سے سود خوری،طبقاتی فاصلہ کا ایک اہم سبب ہے۔ کے دروازے مختلف شکلوں میں کھل چکے ہیں کمیونزم اور اس کے جیسے دوسرے مکاتب فکرکا وجودمیں آنا، خونریزیاںاور اس صدی میں چھوٹی بڑی وحشتناک اور تباہ کن جنگوں کا واقع ہونا جو آج بھی دنیا کے گوشہ و کنار میں جاری ہیں،انسانی معاشرہ کی اکثریت کی محرومیت کا ردِعمل اور نتیجہ ہیں ۔دانشمندوں اور مفکرین نے سماج کی ہر مشکل کوحل کرنے کی فکر کی اور ہر ایک نے ایک راہ اور جدا جدا راہوں اور طریقہ کار کاانتخاب کیا،کمیونزم نے ذاتی اور شخصی مالکیت کو ختم کر کے، سرمایہ داری نے زیادہ سے زیادہ مالیات اور ٹیکس لے کر اور عام فلاحی اداروں (جن میں زیادہ تر نمائشی ہیں چہ جائےکہ حاجت مندوں کی مشکل حل کریں)کو تشکیل دے کراپنے اپنے گمان میں اس مشکل کے مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ کوئی بھی اس راہ میں موثر قدم نہیں اٹھا سکا ہے اس لئے کہ اس مشکل کا حل،مادیت اور مادی افکار کے ذریعہ ممکن نہیں ہے جو پوری دنیا پر حاکم ہے اس لئے کہ مادی تفکر میں بلا غرض اوربلااجرت مدد اور تعاون کی کوئی جگہ نہیںہے۔
آیات قرآنی میں غور وفکر کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ وہ نظام جو سماج کی غیر منصفانہ اور ظالمانہ روش سے سرمایہ دارانہ اور غربت و افلاس کے دوطبقوں میںبٹ چکا ہے اس کا خاتمہ کر دے اور جو لوگ اپنی زندگی کی ضروریات کو دوسروں کی مددکے بغیر پورا نہیں کر سکتے ان کی سطح کو اتنا بلند کر دے کہ کم سے کم ضروریات زندگی کے مالک ہوں۔ اسلام نے اس مقصد اور ہدف تک رسائی کے لئے ایک وسیع نظام اور قانون کو مدنظر رکھا ہے ۔
سودخوری کو مکمل طریقہ سے حرام قرار دینا،اسلامی مالیات(ٹیکس) جیسے زکوٰة، خمس، وغیرہ کی ادائےگی کو واجب قرار دینا ،انفاق،وقف،قرض ا لحسنہ اور مختلف مالی امداد کی تشویق کرنا ،اس نظام کا ایک حصہ ہے اور سب سے اہم چیز لوگوں میں روحِ ایمان، بھائی چارگی اور مساوات کو زندہ کرنا ہے ۔
ایک خوبصورت مثال
(
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اموالهم فی سبیل الله کمثل جنة
)
( بقرہ/ ۲۶۱)
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیہ کریمہ میں انفاق سے مراد راہ جہاد میں انفاق اور خرچ کرنا ہے اس لئے کہ اس آیت سے پہلے والی آیتوں میں جہاد کا تذکرہ ہوا ہے۔ لیکن واضح سی بات ہے کہ یہ مناسبت انفاق کو جہاد سے مخصوص کرنے کا سبب نہیں بنتی۔ اس لئے کہ کلمہ سبیل اللہ جو کہ بطور مطلق ذکر ہوا ہے ہر قسم کے جائز خرچ اور مصرف کو شامل ہے ۔ اس کے علاوہ اس آیت کے بعد کی آیات، جہاد کے بارے میں نہیں ہیں۔ اسلئے کہ - ”انفاق“ کی بحث کو مستقل طور پر بیان کیا جا رہا ہے۔ اورتفسیر مجمع البیان کے نقل کے مطابق روایات میں بھی آیت کے عمومی معنیٰ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
بہرحال اس آیہ کریمہ میںراہ ِخدا میں انفاق کرنے والوں کو با برکت دانہ سے تشبیہ دی گئی ہے جو زرخیز زمین میں بوئے جائیں جبکہ ان افراد کو دانہ سے تشبیہ نہیں دینا چاہئے تھا بلکہ ان کے انفاق کو دانہ سے تشبیہ دینا چاہیئے یا ان لوگوں کو کسانوں سے تشبیہ دینا چاہئے تھاجو دانہ چھڑکتے اور بوتے ہیں۔ اسی وجہ سے بعض مفسرین نے کہاہے کہ اس آیت میں ایک کلمہ حذف کر دیا گیا ہے (”اَلَّذِیْنَ“) سے پہلے کلمہ ”صدقات“ تھا یا کلمہ ”حبة“ سے پہلے”باذر“تھا)
لیکن اس آیت میں کسی کلمہ کے حذف ہونے یا پوشیدہ ماننے پر کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اس تشبیہ میں ایک اہم راز پوشیدہ ہے اور انفاق کرنے والوں کو با برکت دانوں سے تشبیہ دینا ایک عمیق اور خوبصورت تشبیہ ہے۔
قرآن کریم اس بات کو بیان کرنا چاہتا ہے کہ ہر انسان کا عمل اس کے وجود کا پرتو اور عکس ہے ۔عمل جس قدر وسعت پیدا کرے گا در حقیقت انسان کا وجود بھی اتنا ہی وسیع ہوتا چلاجائے گا ۔
اس سے واضح لفظوں میں قر ا ٓن مجید،انسان کے عمل کو اس کی ذات سے الگ نہیں جانتا ہے بلکہ دونوں کو ایک ہی حقیقت کی مختلف شکل کے طور پر بیان کرتا ہے لہٰذاکسی چیز کو محذوف مانے بغیربھی یہ آیت قابل تفسیرہے اور ایک عقلی حقیقت کی طرف اشارہ ہے یعنی ایسے نیکی کرنے والے افراد دانوں کے مانند ہیں جو ہر طرف جڑ اور شاخ پھیلا لیتے ہیں اور ہر جگہ کو اپنے زیرِ سایہ لیتے ہیں ۔
قرآن کریم نے ”(
حَبَّةٍاَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ
)
“ میں اس بابرکت بیج کی صفت کو اس طرح بیان کیا ہے:
اس بیج سے سات بالیاں اگتی ہیں اور ہر بالی میں سوسودانے ہوتے ہیں اس طرح دانے سات سو گنا زیادہ ہو جاتے ہیں ۔
کیا یہ ایک فرضی تشبیہ ہے ؟اور ایسا دانہ کہ اس سے سات سو دانے اگیں خارجی وجود نہیں رکھتا ؟ ان دانوں سے مراد ارزن ( چینا ایک قسم کا غلّہ) کے دانے ہیں جن میں یہ تعداد مشاہدہ کی گئی ہے (چونکہ کہا گیا ہے کہ گیہوں اور اس کے مانند دانوں میں ایسا نہیں دیکھا گیا ہے )لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ چند سال پہلے جب بہت زیادہ بارش ہوئی تھی تو اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ایران کے جنوب میں ایک گاؤں کے ایک کھیت میں گیہوں کی سب سے بڑی بڑی بالیاںپیدا ہوتی ہیں اور ہر بالی میں تقریباً چار ہزار گیہوں کے دانے ہیں ۔یہ واقعہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کی تشبیہ ایک واقعی اور حقیقی تشبیہ ہے۔
اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے کہ ”(
وَاللّٰهُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰهُ وَاسع علیم
)
اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کر دیتا ہے ۔
کلمہ”یُضَاعِفُ“ مصدرضعفسے دوگنا یا چند گنا کے معنی میں ہے ۔
لہٰذا اس جملہ کا معنی یہ ہے کہ پروردگار جس کے لئے چاہتا ہے اس برکت کو دوگنا یا چند برابر کر دیتاہے ۔
مذکورہ باتوں کے پیش نظر ایسے دانے بھی پائے جاتے ہیں جو سات سودانوں سے کئی گنا دانے دیتے ہیں لہٰذا یہ تشبیہ ایک حقیقی تشبیہ ہے ۔
آیت کے آخری جملہ میں پروردگار کی قدرت اور علم کی وسعت کیطرف اشارہ کیا گیا ہے تاکہ انفاق کرنے والے بھی اس بات سے آگاہ ہوجائیں کہ خداوندِعالم ان کے عمل اور نیت سے بھی آگاہ ہے اور انہیں ہر طرح کی برکت عطا کرنے پر قادر بھی ہے۔