دولت کا بہترین مصرف

دولت کا بہترین مصرف0%

دولت کا بہترین مصرف مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دولت کا بہترین مصرف

مؤلف: فرازمند
زمرہ جات:

مشاہدے: 11250
ڈاؤنلوڈ: 3103

تبصرے:

دولت کا بہترین مصرف
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 37 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11250 / ڈاؤنلوڈ: 3103
سائز سائز سائز
دولت کا بہترین مصرف

دولت کا بہترین مصرف

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

دولت کا بہترین مصرف

تالیف: فرازمند

مقدمہ

بہ نام خدائے رحمان و رحیم

ایک درخشاں انسانی اخلاق

انسانی امدا د کو اسلام میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

نیازمندوں کی صرف مدد ہی نہیں بلکہ ہر کار خیر اورمثبت سماجی کام جیسے مدرسہ بنانا، اسپتال کھولنا، سڑک بنوانا،ثقافتی مرکز قاء،کرنا، مساجد وغیرہ تعمیر کرانایہ سب ”انفاق فی سبیل اللہ “کے عنوان کے تحت آتے ہیںاور بہترین عمل شمار ہوتے ہیںاور دنیا و آخرت میں بہت سے معنوی اور مادی برکات اور اثرات کا سرچشمہ ہیں۔

اسکی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ سیکڑوں آیات و روایات میں سے نمونہ کے طور پر مندرجہ ذیل آیت اور روایات کو ملاحظہ کیا جائے:

۱) قرآن کریم میں آیا ہے:

( لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون ) (۱)

تم ہرگز نیکی کی حقیقت تک نہیں پہونچ سکتے مگر یہ کہ اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ خدا میں انفاق کرو۔

۲) رسول اکرم نے ارشاد فرمایا:

من افضل الاعمال ابراد الاکباد الحارة و اشباع البطون الجائعة، فوالذی نفس محمد بیده ما آمن بی عبد یبیت شبعان و اخوه او جاره یبیت جائعاً (۱)

بہترین اعمال میں سے (ایک عمل) جلتے ہوئے دلوں کو ٹھنڈا کرنا(پیاسوں کو پانی پلانا)اور بھوکے پیٹوں کو کھانا کھلانا ہے۔ اس پروردگار کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد (ص) کی جان ہے ، جو شخص پیٹ بھر کر سوجائے اور اس کا مسلمان بھائی یا پڑوسی بھوکا ہو تووہ مجھ پر ایمان نہیں لایا ہے۔

۳) آپ ہی سے منقول ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

خیر الناس انفعهم للناس (۳)

لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو زیادہ نفع اور فائدہ پہونچانے والا ہو۔

۴) امیر المومنین حضرت علی - ارشاد فرماتے ہیں:

سوسوا ایمانکم بالصدقة وحصنوا اموالکم بالزکاة و ادفعوا امواج البلاء بالدعاء (۴)

اپنے ایمان کو صدقہ دے کر محفوظ رکھو اور اپنے مال و دولت کو زکات دے کر محفوظ بناو اور دعا کے ذریعہ بلاء و مصیبت کی موجوں کو اپنے آپ سے دور رکھو۔

۵) آپ نے ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا:

الصدقة دواء منجح (۵)

صدقہ ایک شفا بخش دوا ہے۔

اسلام نے مختلف شکل میں ان امداد کی سفارش اور تاکید کی ہے؛ تحفہ، صدقہ، صلہ رحمی، کھانا کھلانا، ولیمہ، وقف، ایک سوم مال کی وصیت، واجبی اور مستحبی زکات وغیرہ۔

یہ قیمتی اور بابرکت اسلامی ثقافت باعث بنی ہے کہ اسلامی معاشروں میں انسانی امداد ایک عظیم پیمانہ پر انجام پائے اور بہت سے نیازمند افراد اس کے زیر سایہ آجائیں۔کبھی ”جشن نیکوکاری“ کے نام سے تو کبھی ”ہفتہ اکرام “ کے نام پر ، کبھی ”اعیاد مذہبی “ اور ” ایام سوگواری“ کے عنوان سے ، اور کبھی ” افطاری“ اور ”ستاد رسیدگی بہ امور دیہ و کمک بہ زندانیان نیازمند“ اور کبھی” کمک بہ ازدواج جوانان“ اور دوسرے عناوین کے تحت۔

اس کے علاوہ ہزاروں مدرسے، اسپتال ، مساجد ، کتب خانے اور سستے گھر اسی جذبہ کے تحت بنائے گئے ہیں۔

یقینا جب بھی اس جذبہ کو باقی رکھا جائے اور اس میں وسعت دی جائے تو سماج سے محرومیت تو دور کیا جاسکتا ہے اور ہمارا سماج بہترین اور محبت و عطوفت سے لبریز انسانوں کا مجموعہ بن جائے گا۔

اس سلسلہ میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ انسانی امداد صرف غربت کو ختم کرنے یا طبقاتی فاصلہ سے ٹکراو کا ذریعہ ہی نہیں ہے بلکہ مدد کرنے والے کی تربیت اور روحی ترقی کا وسیلہ بھی ہے؛ جو شخص اپنے بہترین اموال میں سے ایک حصہ الگ کرتا ہے اور اسے ایک آبرومند انسان کی کمک کے لئے مخصوص کرتا ہے یا ایک عام المنفعہ مرکز بناتا ہے وہ ہر چیز سے پہلے اپنی روح کو پاک و پاکیزہ بناتا ہے اور اپنے دل کو صفا بخشتا ہے۔

قرآن مجیدنے اس کے لئے ایک بہترین تعبیر بیان کی ہے ،وہ رسول خدا (صلي الله عليه و آله و سلّم) کو حکم دیتا ہے اور فرماتاہے:

( خذ من اموالهم صدقة تطهرهم و تزکیهم بها ) (۶)

(اے رسول !) آپ ان کے اموال میں سے زکات لیجئے تاکہ اس کے ذریعہ ان کو پاک و پاکیزہ کریں اور انھیں رشد و نمو عطا فرمائیں۔

بے شک انسانی امداد انسان کی روح کو ترقی اور بالندگی عطا کرتی ہے اور اسے رشد و نمو بخشتی ہے، اوراسے بخل ، حسد، دنیا پرستی، لالچ اور خودخواہی جیسی برائیوں سے پاک و پاکیزہ بناتی ہے اور دن بہ دن اسے خدا سے نزدیک کرتی ہے۔

اس کے علاوہ، اس کے مال و دولت میں برکت بھی ہوتی ہے اوراس پر روزی کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں، یہاں تک کہ حضرت علی - ارشاد فرماتے ہیں:

اذا ملقتم فتاجروا الله بالصدقة (۷)

جب تمہاری زندگی تنگ ہوجائے اور غربت کے آثار نمایاں ہو جائیں تو صدقہ کے ذریعہ خدا سے تجارت کرو اور اپنی زندگی کو رونق عطا کرو۔اسی سلسلہ میں فاضلہ خاتون محترمہ” ج۔ فراز مند“ نے انفاق سے متعلق آیات- جو بہت ہی معنی خیز ہیں-کوایک خاص انداز میں جمع کیا ہے ۔ وہ آیات جو انفاق کی اہمیت کو بھی بیان کرتی ہیں اور اس کے کمال کے شرائط اور قبولیت کے موانع کو بھی بیان کرتی ہیںاور انفاق کے سلسلہ میں اولویت کو بھی ۔انھوں نے ان آیات کی تفسیر میں ” تفسیر نمونہ“ سے کافی مددلی ہے اس کے علاوہ انھوں نے ہر باب میں چند حدیثوں کا اضافہ کیا ہے اور ایک سبق آمیز اور دلچسپ مجموعہ تیار کیا ہے۔

امید ہے کہ اس کا فائدہ عام ہو اور یہ کتاب اس بات کا وسیلہ قرار پائے کہ لوگ اس اہم سماجی مسئلہ- جو اسلامی تعلیمات کے اصول میں ہے -کی طرف مزید توجہ دیں۔

”گروہ معارف“ بھی اس علمی اور دینی خدمت کا شکریہ ادا کرتا ہے اور امید وار ہے کہ یہ کتاب ایک دن سماج کے مختلف طبقے کے لئے ایک درسی کتاب قرار پائے ۔

جمادی الاولیٰ ۱۴۲۴ ء ھ

گروہ معارف

____________________

(۱)سورہ آل عمران:آیت ۹۲

(۲)بحار الانوار:ج۷۱، ص ۳۶۹

(۳)نہج الفصاحہ

(۴)نہج البلاغہ: کلمات قصار۱۴۶

(۵)نہج البلاغہ: کلمات قصار۷

(۶)سورہ توبہ: آیت ۱۰۳)

(۷)نہج البلاغہ: کلمات قصار۲۵۸)

پہلی فصل : اسلام میں انفاق کی اہمیت

۱. انفاق ایک با برکت دانہ

قرآن کریم انفاق کو ایک بہت ہی خوبصورت انداز میں اس طرح بیان فرماتا ہے:

( مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّآئَةُ حَبّةٍ وَاللّٰهُ یُضَاعِفُ لِمَن یَّشَآءُ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) (سورہ بقرہ:آیت ۲۶۱)

جو لوگ راہِ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ(بیج)کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کر دیتا ہے کہ وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی۔(علامہ جوادی)

وضاحت

انفاق اورسماجی مشکلات کا حل

سماجی مشکلات میں سے ایک بڑی مشکل طبقاتی فاصلہ اور دوری ہے جس میں انسان ہمیشہ گرفتار رہا ہے اور آج بھی جبکہ صنعتی اور مادی ترقی عروج پر ہے پورا سماج اس طبقاتی کشمکش میں مبتلاہے ۔ایک طرف فقر،غربت اور ناداری ہے تودوسری طرف مال وثروت کی کثرت و فراوانی۔

کچھ لوگ اتنے زیادہ مال وثروت کے مالک ہیں جن کا حساب نہیں لگایاجاسکتا اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو فقیری اور تنگ دستی سے نالاں ہیں اور زندگی کی ابتدائی ضروری اشیاء جیسے روٹی، کپڑا،اور مکان کا مہیا کرنا ان کے لئے ایک بہت مشکل کام ہے۔

واضح سی بات ہے کہ جس سماج کی بنیاد کا ایک حصہ دولتمندی اور مالداری پر اور دوسرا حصہ فقر اور بھوک پر استوار ہو اس سماج میں بقااوردوام کی صلاحیت نہیں پائی جاسکتی اور کبھی بھی سعادت اور خوشحالی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ہے۔

ایسے معاشرہ میں پریشانی،اضطراب،بد بینی وبد گمانی اور سب سے اہم چیز دشمنی اورعداوت حتمی اور یقینی چیز ہے۔

اگر چہ یہ اضطراب گذشتہ انسانی معاشروں میں بھی موجود تھا لیکن ہمارے زمانہ میں طبقاتی فاصلے زیادہ اور خطرناک شکل اختیار کر چکے ہیں اس لئے کہ ایک طرف سے انسانی امداد اور واقعی تعاون کے دروازے بند ہو چکے ہیں تو دوسری طرف سے سود خوری،طبقاتی فاصلہ کا ایک اہم سبب ہے۔ کے دروازے مختلف شکلوں میں کھل چکے ہیں کمیونزم اور اس کے جیسے دوسرے مکاتب فکرکا وجودمیں آنا، خونریزیاںاور اس صدی میں چھوٹی بڑی وحشتناک اور تباہ کن جنگوں کا واقع ہونا جو آج بھی دنیا کے گوشہ و کنار میں جاری ہیں،انسانی معاشرہ کی اکثریت کی محرومیت کا ردِعمل اور نتیجہ ہیں ۔دانشمندوں اور مفکرین نے سماج کی ہر مشکل کوحل کرنے کی فکر کی اور ہر ایک نے ایک راہ اور جدا جدا راہوں اور طریقہ کار کاانتخاب کیا،کمیونزم نے ذاتی اور شخصی مالکیت کو ختم کر کے، سرمایہ داری نے زیادہ سے زیادہ مالیات اور ٹیکس لے کر اور عام فلاحی اداروں (جن میں زیادہ تر نمائشی ہیں چہ جائےکہ حاجت مندوں کی مشکل حل کریں)کو تشکیل دے کراپنے اپنے گمان میں اس مشکل کے مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ کوئی بھی اس راہ میں موثر قدم نہیں اٹھا سکا ہے اس لئے کہ اس مشکل کا حل،مادیت اور مادی افکار کے ذریعہ ممکن نہیں ہے جو پوری دنیا پر حاکم ہے اس لئے کہ مادی تفکر میں بلا غرض اوربلااجرت مدد اور تعاون کی کوئی جگہ نہیںہے۔

آیات قرآنی میں غور وفکر کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ وہ نظام جو سماج کی غیر منصفانہ اور ظالمانہ روش سے سرمایہ دارانہ اور غربت و افلاس کے دوطبقوں میںبٹ چکا ہے اس کا خاتمہ کر دے اور جو لوگ اپنی زندگی کی ضروریات کو دوسروں کی مددکے بغیر پورا نہیں کر سکتے ان کی سطح کو اتنا بلند کر دے کہ کم سے کم ضروریات زندگی کے مالک ہوں۔ اسلام نے اس مقصد اور ہدف تک رسائی کے لئے ایک وسیع نظام اور قانون کو مدنظر رکھا ہے ۔

سودخوری کو مکمل طریقہ سے حرام قرار دینا،اسلامی مالیات(ٹیکس) جیسے زکوٰة، خمس، وغیرہ کی ادائےگی کو واجب قرار دینا ،انفاق،وقف،قرض ا لحسنہ اور مختلف مالی امداد کی تشویق کرنا ،اس نظام کا ایک حصہ ہے اور سب سے اہم چیز لوگوں میں روحِ ایمان، بھائی چارگی اور مساوات کو زندہ کرنا ہے ۔

ایک خوبصورت مثال

( مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اموالهم فی سبیل الله کمثل جنة ) ( بقرہ/ ۲۶۱)

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیہ کریمہ میں انفاق سے مراد راہ جہاد میں انفاق اور خرچ کرنا ہے اس لئے کہ اس آیت سے پہلے والی آیتوں میں جہاد کا تذکرہ ہوا ہے۔ لیکن واضح سی بات ہے کہ یہ مناسبت انفاق کو جہاد سے مخصوص کرنے کا سبب نہیں بنتی۔ اس لئے کہ کلمہ سبیل اللہ جو کہ بطور مطلق ذکر ہوا ہے ہر قسم کے جائز خرچ اور مصرف کو شامل ہے ۔ اس کے علاوہ اس آیت کے بعد کی آیات، جہاد کے بارے میں نہیں ہیں۔ اسلئے کہ - ”انفاق“ کی بحث کو مستقل طور پر بیان کیا جا رہا ہے۔ اورتفسیر مجمع البیان کے نقل کے مطابق روایات میں بھی آیت کے عمومی معنیٰ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

بہرحال اس آیہ کریمہ میںراہ ِخدا میں انفاق کرنے والوں کو با برکت دانہ سے تشبیہ دی گئی ہے جو زرخیز زمین میں بوئے جائیں جبکہ ان افراد کو دانہ سے تشبیہ نہیں دینا چاہئے تھا بلکہ ان کے انفاق کو دانہ سے تشبیہ دینا چاہیئے یا ان لوگوں کو کسانوں سے تشبیہ دینا چاہئے تھاجو دانہ چھڑکتے اور بوتے ہیں۔ اسی وجہ سے بعض مفسرین نے کہاہے کہ اس آیت میں ایک کلمہ حذف کر دیا گیا ہے (”اَلَّذِیْنَ“) سے پہلے کلمہ ”صدقات“ تھا یا کلمہ ”حبة“ سے پہلے”باذر“تھا)

لیکن اس آیت میں کسی کلمہ کے حذف ہونے یا پوشیدہ ماننے پر کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اس تشبیہ میں ایک اہم راز پوشیدہ ہے اور انفاق کرنے والوں کو با برکت دانوں سے تشبیہ دینا ایک عمیق اور خوبصورت تشبیہ ہے۔

قرآن کریم اس بات کو بیان کرنا چاہتا ہے کہ ہر انسان کا عمل اس کے وجود کا پرتو اور عکس ہے ۔عمل جس قدر وسعت پیدا کرے گا در حقیقت انسان کا وجود بھی اتنا ہی وسیع ہوتا چلاجائے گا ۔

اس سے واضح لفظوں میں قر ا ٓن مجید،انسان کے عمل کو اس کی ذات سے الگ نہیں جانتا ہے بلکہ دونوں کو ایک ہی حقیقت کی مختلف شکل کے طور پر بیان کرتا ہے لہٰذاکسی چیز کو محذوف مانے بغیربھی یہ آیت قابل تفسیرہے اور ایک عقلی حقیقت کی طرف اشارہ ہے یعنی ایسے نیکی کرنے والے افراد دانوں کے مانند ہیں جو ہر طرف جڑ اور شاخ پھیلا لیتے ہیں اور ہر جگہ کو اپنے زیرِ سایہ لیتے ہیں ۔

قرآن کریم نے ”( حَبَّةٍاَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ ) “ میں اس بابرکت بیج کی صفت کو اس طرح بیان کیا ہے:

اس بیج سے سات بالیاں اگتی ہیں اور ہر بالی میں سوسودانے ہوتے ہیں اس طرح دانے سات سو گنا زیادہ ہو جاتے ہیں ۔

کیا یہ ایک فرضی تشبیہ ہے ؟اور ایسا دانہ کہ اس سے سات سو دانے اگیں خارجی وجود نہیں رکھتا ؟ ان دانوں سے مراد ارزن ( چینا ایک قسم کا غلّہ) کے دانے ہیں جن میں یہ تعداد مشاہدہ کی گئی ہے (چونکہ کہا گیا ہے کہ گیہوں اور اس کے مانند دانوں میں ایسا نہیں دیکھا گیا ہے )لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ چند سال پہلے جب بہت زیادہ بارش ہوئی تھی تو اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ایران کے جنوب میں ایک گاؤں کے ایک کھیت میں گیہوں کی سب سے بڑی بڑی بالیاںپیدا ہوتی ہیں اور ہر بالی میں تقریباً چار ہزار گیہوں کے دانے ہیں ۔یہ واقعہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کی تشبیہ ایک واقعی اور حقیقی تشبیہ ہے۔

اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے کہ ”( وَاللّٰهُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰهُ وَاسع علیم ) اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کر دیتا ہے ۔

کلمہ”یُضَاعِفُ“ مصدرضعفسے دوگنا یا چند گنا کے معنی میں ہے ۔

لہٰذا اس جملہ کا معنی یہ ہے کہ پروردگار جس کے لئے چاہتا ہے اس برکت کو دوگنا یا چند برابر کر دیتاہے ۔

مذکورہ باتوں کے پیش نظر ایسے دانے بھی پائے جاتے ہیں جو سات سودانوں سے کئی گنا دانے دیتے ہیں لہٰذا یہ تشبیہ ایک حقیقی تشبیہ ہے ۔

آیت کے آخری جملہ میں پروردگار کی قدرت اور علم کی وسعت کیطرف اشارہ کیا گیا ہے تاکہ انفاق کرنے والے بھی اس بات سے آگاہ ہوجائیں کہ خداوندِعالم ان کے عمل اور نیت سے بھی آگاہ ہے اور انہیں ہر طرح کی برکت عطا کرنے پر قادر بھی ہے۔