دولت کا بہترین مصرف

دولت کا بہترین مصرف0%

دولت کا بہترین مصرف مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دولت کا بہترین مصرف

مؤلف: فرازمند
زمرہ جات:

مشاہدے: 11255
ڈاؤنلوڈ: 3103

تبصرے:

دولت کا بہترین مصرف
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 37 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11255 / ڈاؤنلوڈ: 3103
سائز سائز سائز
دولت کا بہترین مصرف

دولت کا بہترین مصرف

مؤلف:
اردو

چند اہم نکتے

الف)انفاق اضافہ کا سبب ہے کمی اور نقصان کا نہیں

مذکو رہ بالا آیت میں فرمان خدا ہے: ”راہ خدا میںجوکچھ بھی خرچ کروگے خدا وندعالم بہرحال اس کا بدلہ دے گا“یہ ایک بہت ہی معنی دار تعبیر ہے:

۱) کلمہ ”شیء“ اپنے وسیع اور عام معنی میں ہر قسم کے مادی ،معنوی او رچھو ٹے بڑے انفاق کو شامل ہے اسی طرح ہر ضرورت مند شخص جس پر انفاق کیا جائے سب کو شامل ہے۔

سب سے اہم بات انسان کا اپنے مال کو راہ خدا میں خرچ کرنا ہے کیفیت اور کمیت (مقدار) معیارنہیں ہے۔

۲) پروردگار اپنی راہ میں خرچ ہونے والے مال کو فنا سے نکال کر بقا کا رنگ دینا چاہتا ہے اس لئے کہ اس نے ضمانت لی ہے کہ اپنی کئی گنا اور کبھی ہزار گنا (اور کم ازکم دس گنا)مادی اور معنوی نعمتوں کے ذریعہ اس انفاق کا عوضدے گا ۔

لہٰذا انفاق کرنے والا جب اس جذبہ اور عقیدہ کے تحت راہ خدا میں اپنے مال کو خرچ کرتا ہے تو وہ زیادہ سخاوت کے ساتھ خرچ کرتا ہے ،اور کبھی بھی نقصان ، کمی اور فقر و تنگدستی کی فکر نہیں کرتا بلکہ پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے اسے اپنے ساتھ ایک فائدہ مند تجارت کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔

اوریہ وہی تعبیر ہے جسے پروردگار عالم نے سورئہ صف کی دسویں اور گیارہویں آےت میں بیان فرمایا ہے :

( یَا اَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا هَلْ اَدُلُّکُمْ عَلیٰ تِجَارَةٍ تُنْجِیْکُمْ مِنْ عَذَاْبٍ اَلِیْمٍ تُو مِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِه وَتُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ )

اے ایمان والو!کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کی طرف رہنمائی کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچائے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور راہ خدا میں اپنی جان ومال سے جہاد کرو اگر تم جاننے والے ہوتو یہی تمہارے حق میںسب سے بہتر ہے۔

رسول خداسے منقول ہے کہ آپ نے ارشادفرمایا :

ینادی مناد کل لیلة لدوا للموت!

ینادی منادابنواللخراب !

وینادی منا داللّهمّ هبّ للمنفق خلفاً!

و ینادی مناد اللّهمّ هبّ للممسک تلفاً!

وینادی مناد ليت الناس لم یخلقوا!

وینادی مناد لیتهم اذخلقوا فکروافیماله خلقوا!

ہر رات ایک آسمانی منادی ندا دیتا ہے (اے انسانوں!) پیدا کرو مرنے کے لئے ۔

دوسرا ندا دیتا ہے:گھر بناؤ ویران ہونے کے لئے۔

ایک منادی ندادیتا ہے :پروردگارا!جو لوگ انفاق کرنے والے ہیں ان کے لئے عوض اور بدلہ قرار دے۔

اور ایک منادی ندا دیتا ہے :پروردگارا!جو لوگ کنجوسی کرتے ہیں ان کے اموال کوضائع کر دے۔

دوسرا ندا دیتا ہے : اے کاش کہ انسان خلق نہ ہوئے ہوتے۔

دوسرا ندا دیتا ہے : اب جبکہ انسان خلق کر دئیے گئے ہیں اے کاش کہ ذرا فکر کرتے کہ کس لئے خلق کئے گئے ہیں ۔

یہ ندا دینے والے فرشتے ہیں جو پروردگار کے حکم سے اس کائنات کے امور کی تدبیر کرتے ہیں۔ایک دوسری حدیث میں آنحضرت ارشاد فرماتے ہیں :”من ایقن بالخلف سخت نفسه بالنّفقة

جو عوض اور بدلے کا یقین رکھتا ہوگا وہ سخاوت کے ساتھ راہ خدا میں خر چ کرتا ہے ۔

امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہماالسلام نے بھی ایک حدیث میں اسی مطلب کو بیان فرمایا ہے۔

لیکن سب سے اہم مسئلہ انفاق کا حلال اورجائز مال میں سے ہونا ہے اس لئے کہ خدا وند مال حرام سے انفاق کو قبول نہیں کرتا اور نہ ہی اس میں برکت عطا کرتا ہے۔

ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کی: قرآن میں دو ایسی آیتیں ہیں جن کو میں کافی غور وفکر کے بعد بھی نہیں سمجھ پا رہا ہوں ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:وہ کون سی آیات ہیں ؟ اس شخص نے عرض کی: پہلی آیت یہ ہے جس میں خدا وندعالم ارشاد فرماتا ہے ”اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ “ ”مجھ سے دعامانگومیں تمہاری دعاؤںکو قبول کروں گا“۔اس آیت کے مطابق میں پروردگار سے دعا کرتا ہوںلیکن میری دعا قبول نہیں ہوتی ۔

امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:کیا تم فکر کر رہے ہو کہ پروردگار نے وعدہ خلافی کی ہے ؟اس نے عرض کی:

ہر گز نہیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:پھر کیا وجہ ہے ؟

اس نے کہا :میں نہیں جانتا ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا :لیکن میں تمہیں اس کی وجہ بتاتا ہوں:

من اطاع اللّٰه عزوجل فیما اٴمره من دعائه من جهة الدعا ء اجابه

خداوند عالم نے دعا کرنے کے سلسلہ میں جس طریقہ دعا کا حکم دیا ہے جو شخص بھی اس میں پروردگار کی اطاعت کرے گا وہ اس کی دعا قبول کرے گا ۔

اس نے سوال کیا :وہ طریقہ دعا کیا ہے؟

آپ نے فرمایا: سب سے پہلے خدا کی حمد وثنا کرو اور اس کی نعمتوں کو یاد کرو اور اس کا شکر ادا کروپھر صلوات پڑھو،اس کے بعد اپنے گناہوں کو یاد کرو،اور بارگاہ الٰہی میں ان کا اعتراف کرو اور خدا سے پناہ طلب کرو ، گناہوں سے توبہ کرو، یہ ہے طریقہ دعا۔

اس کے بعد آپ - نے فرمایا :دوسری آیت کون سی ہے ؟

اس نے عرض کی: یہ آیہ کریمہ ہے:”( وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَهُوَ یُخْلِفُه )

میںراہ خدامیں خرچ کرتا ہوں لیکن کوئی ایسی چیز جو اس کابدلہ ہو مجھے نظر نہیں آتی ۔

امام علیہ السلام نے فرمایاکیا تم خیال کر رہے ہو کہ خدا نے اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کی ہے ؟

اس نے کہا: نہیں ہر گز نہیں۔

آپ -نے فرمایا: پھر ایسا کیوں ہے؟

اس نے عرض کی: مجھے علم نہیں۔

آپ- نے فرمایا :”( لوان احد کم اکتسب المال من حلّه وانفقه فی حلّه لم ینفق درهماً اِلّااخلف علیه )

تم میں سے جو شخص بھی مال حلال حاصل کرے اور راہ خدا میں حلال طریقہ سے خرچ کرے تو وہ ایک درہم بھی انفاق نہیں کرے گا مگر یہ کہ پروردگار اس کا عوض اسے ضرور عطا کرے گا۔

(ب) اپنے اموال خدا کے پاس محفوظ کرو

اس مقام ایک پر مفسر قرآن نے ایک بہت خوبصورت تحلیل پیش کی ہے وہ کہتے ہیں :تعجب کی بات ہے کہ اگر کسی تاجر کو معلوم ہو جائے کہ اس کا مال ضائع اور برباد ہونے والا ہے تو وہ قرض پر بھی اسے بیچنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے چاہے خریدار فقیرہی کیوں نہ ہو وہ کہتا ہے کہ فقیر کے ہاتھ قرض کے طور پربیچنا اس سے بہتر ہے کہ اسے ایسے ہی چھوڑ دیا جائے وہ ضائع ہو جائے۔

اور اگر ایسی حالت میں کوئی تاجر اپنے سامان کو بیچنے پر اقدام نہ کرے اور سرمایہ ضائع ہو جائے تو ہر ایک اسے”خطا کار“کہے گا۔

اور اگر ایسی صورت میں تاجر کو کوئی مالدار خریدار مل جائے اور اس کے ہاتھ نہ بیچے تو اسے بے عقل کہا جائے گا۔

اور اگراسے ایک مالداراور ثروت مند انسان مل جائے جو قابل اطمینان سند اور قول نامہ لکھ کر اسے دے اور تاجر اس کے ہاتھ فروخت نہ کرے تو اس کو دیوانہ کہا جاتاہے ۔ لیکن تعجب ہے کہ ہم سب یہی کام کرتے ہیں اور کوئی بھی اسے جنون اور دیوانگی نہیں کہتا۔

اس لئے کہ ہمارے سارے اموال زائل اور ختم ہو جانے والے ہیں ہم چاہیں یا نہ چاہیں ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے فنا ہو جانے والے مال کو راہ خدامیں خرچ کرنا گویا اس کو قرض دینا ہے اور وہ بہت ہی معتبر ضامن ہے جو فرماتا ہے: ”وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیءٍ فَهُوَ یُخْلِفُه

حا لانکہ خود پروردگار نے ان ساری نعمتوںکو ہمارے پاس رہن رکھا ہے اس لئے کہ جو کچھ بھی انسان کے اختیار میں ہے وہ خدا کی طرف سے عاریہ کے طور پر ہے۔

ان تمام باتوںکے با وجودہم اپنے بہت سے اموال میں سے انفاق نہیں کرتے اور آخر کار وہ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں نہ ہی ان میں کوئی اجر ملتا ہے اور نہ ہی کوئی شخص ہمارا شکر یہ ادا کرتا ہے۔

(ج)مفہوم انفاق کی وسعت

اسلام میں انفاق کے دائرہ کی وسعت کو جاننے کے لئے مندرجہ ذیل حدیث کی طرف توجہ ہی کافی ہے:

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا :

کل معروف صدقة ،وما انفق الرجل علی نفسه واهله کتب له صدقة وما وقیٰ به الرّجل عرضه فهو صدقة،وما انفق الرّجل من نفقة فعلیٰ اللّٰه خلفها الا ما کان من نفقة فی بنیان او معصیة

ہر نیک کام جو راہ خدا میں انجام پائے وہ صدقہ اور انفاق ہے (صدقہ صرف مالی انفاق سے مخصوص نہیں ہے) اور جو کچھ بھی انسان اپنی اور اپنے خانوادہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خرچ کرے وہ بھی انفاق اور صدقہ ہے۔ انسان اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے جو کچھ خرچ کرتا ہے اسے بھی صدقہ اور انفاق کہا جاتا ہے اور انسان جو کچھ بھی راہ خدا میں خرچ کرے گا اس کا عوض اور بدلہ خدا کے ذمہ ہے مگر یہ کہ وہ مال جو گھر بنانے یا خدا کی نافرمانی اور گناہ میں خرچ کیا جائے۔

حدیث میں گھر بنانے پر خرچ ہونے والے مال کو انفاق اور صدقہ سے الگ کرنے کی وجہ ممکن ہے کہ یہ ہو کہ گھر باقی رہنے والی چیز ہے اس کے علاوہ اکثر لوگوں کی توجہ اور نگاہ بھی اسی پر ہوتی ہے۔