تیسری فصل : کس پر اورکس طرح انفاق کریں؟
۱۷ کیسے اور کس پر انفاق کریں؟
(
وَءَ ا تِ ذَاالْقُرْبَیٰ حَقَّه وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَاْ تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً
)
(سورہ اسراء: آیت ۲۶)
اوردیکھو قرابتداروں ،مسکین اور غربت زدہ مسافر کو اس کا حق دے دو اور خبر دار اسراف سے کام نہ لینا ۔
(
اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْ ااِخْوَانَ الشَّیَا طِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّهِ کَفُوراً
)
(سورہ اسراء: آیت ۲۷)
اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان تو اپنے پروردگار کا بہت بڑا انکار کرنے والا ہے ۔
(
وَلَاْتَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَةً اِلیٰ عُنُقِکَ وَلَاْ تَبْسُطْهَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَمَلُوْماًمَّحْسُوراً
)
(سورہ اسراء:آیت ۹۲)
اور خبردارنہ اپنے ہا تھوں کو گردنوں سے بندھا ہوا قرار دو اور نہبا لکل پھیلا دو کہ آخر میں قابل ملا مت اور خالی ہاتھ بیٹھے رہ جاو۔
وضاحت
انفاق میں میانہ روی کی رعایت کرنا
ان آیات میں راہ خدا میں انفاق کرنے اور قرابتداروں ،مساکین اور غربت زدہ مسافروں کے حق کی ادائیگی کے بارے میں اسلامی احکام کو بیان کیا گیا ہے اور انفاق کرنے میں ہر طرح کے اسراف اور فضول خرچی سے پرہیز کا حکم دیا گیا ہے اور خدا وندعالم ان احکام کو چند مرحلے میں بیان فرمایا ہے: پہلے مرحلے میں ارشادفرماتا ہے: ”قرابتداروں اور رشتہ داروں کا حق انہیں دے دو:(
وَءَ ا تِ ذَاالْقُرْبَیٰ حَقَّه
)
اور مساکین اور غربت زدہ مسافرین کاحق بھی ان کے حوالے کر دو:(
وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ
)
اور خبردار اسراف سے کام نہ لو :(
وَلَاْ تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً
)
کلمہ تبذیر مصدر بذرسے بیج اور چھڑکنے کے معنی میں ہے لیکن یہ کلمہ اس وقت بولا جاتا ہے جب انسان اپنے اموال کو غیر منطقی اور نا مناسب طریقہ سے خرچ کرے۔ فارسی میں مترادف ”ریخت وپاش“( چھڑکنا اور پھیلانا) ہے۔
دوسرے لفظوں میں، تبذیر یہ ہے کہ مال کو نادرست مقام پر خرچ کیا جائے اگر چہ کم ہی کیو ں نہ ہو ،اور اگر اسے اس کے صحیح مقام پر خرچ کیا جائے توتبذیر نہیں ہے اور اگر یہی حد سے بڑھ جائے تو اسے اسراف کہتے ہےں۔
تفسیر عیاشی میں امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ آپ نے اس آیہ کریمہ کے ذیل میں ایک سوال کرنے والے کے جواب میں فرمایا:
مَنْ اَنْفَقَ شَیْئاًفِیْ غَیْرِ طَاعَةِ اللّٰه فَهُوَ مُبَذِّرٌوَ مَنْ اَنْفَقَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَهُوَ مُقْتَصِدٌ
غیراطاعت پروردگارمیں اپنے مال کو خرچ کرنے والا مبذر(اسراف کرنے والاہے) اور راہ خدا میں خرچ کرنے والا مقتصد اور میانہ روہے ۔
ایک دوسری حدیث میں آنحضرت سے منقول ہے کہ ایک دن آپ نے حاضرین کی مہمان نوازی کے لئے کھجور لانے کا حکم دیا ۔ بعض لوگوں نے کھجور کھا کر اس دانہ کو دور پھینک دیا تو آپ نے فرمایا : ”یہ کام نہ کرو اس لئے کہ یہ تبذیر اور اسراف ہے اور خدا ضائع کرنے کو دوست نہیں رکھتا۔“
مسئلہ اسراف اور تبذیر کو واضح کرنے کے لئے اس حد تک کوشش کی گئی ہے کہ ایک حدیث میںآیا ہے کہ : رسول خدا ایک راستہ سے گذررہے تھے۔ آپ کے صحابی، سعد وضو کرنے میں مصروف تھے اوروہ بہت زیادہ پانی بہا رہے تھے آپ نے یہ دیکھ کر سعد سے فرمایا: اے سعد! کیوں اسراف کر رہے ہو؟! سعدنے عرض کیا :کیا وضوکرنے میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا :”نَعَمْ اِنْ کُنْتَ عَلیٰ نَہْرٍجَارٍ“(بے شک اگرچہ تم بہتی ہوئی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ ہو اور اس سے وضو کرو۔)
آیہ کریمہ میں ”ذِی الْقُرْبیٰ “سے مراد سارے قرابتدار ہیں یاصرف رسولخدا کے قرابتدار مراد ہیں؟(اس لئے کہ آیت میں خطاب آنحضرت سے ہے )اس سلسلہ میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔
متعدد روایات میں آیا ہے کہ ذی القربیٰ سے مراد رسول خدا کے قرابتدار ہیں یہا ں تک بعض روایتوں میں یہ آیا ہے کہ یہ آیت جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کو باغ فدک بخشنے کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے۔
لیکن جیسا کہ پہلے بھی کئی بار بیان کیا جا چکا ہے کہ اس قسم کی روایات آیت کے عمومی معنی کو محدود نہیں کرتی ہیں بلکہ یہ روایات آیت کے واضح مصداق کو بیان کرتی ہیں ۔
لہٰذا جملہ”و آ ت“ میں پیغمبر اسلام سے خطاب اس حکم کے آنحضرت سے مخصوص ہونے کی دلیل نہیں ہے اس لئے کہ وہ سارے احکام جو ان آیات میں وارد ہوئے ہیں جیسے تبذیر سے نہی، سائل اور مسکین کے ساتھ اچھا برتاو یا کنجوسی اور اسراف سے منع ان سارے احکام کے مخاطب آنحضرت ہیں جبکہ یہ احکام صرف پیغمبر سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ یہ عام ہیں۔
ایک قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ قرابتدار وں ، مساکین اور غربت زدہ مسافر وں کے حق کی ادائیگی کے بعد تبذیر اور اسراف سے روکنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قرابتداروں ،مسکین اور غربت زدہ مسافر کے ساتھ انسانی عطوفت ادائیگی میں اتنی زیادتی نہ ہو جائے کہ ان کے استحقاق سے زیادہ ان پر انفاق کرکے اسراف اور فضول خرچی میں مبتلا ہو جاواس لئے کہ اسراف ہر جگہ مذموم اور قابل ملامت ہے
بعد والی آیت سے منع کرنے کی دلیل کو بیان کر رہی ہے کہ: اسراف کرنے والے شیا طین کے بھائی ہیں :(
اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیَا طِیْنِ
)
بے شک اسراف کرنے والے،شیطان کے بھائی ہیں اس لئے کہ شیطان کا کام فساد وتباہی ہے اسراف کرنے والے بھی خدا کی نعمتوں کو تباہ وبرباد اوراسے غلط طریقہ سے خرچ کرکے ضائع وبرباد کر ہیں ۔
لہٰذا وہ لوگ جو اضافی کھانا پکا کے، پھینک دیتے ہیں اور وہ لوگ جو دکھاوے کی غرض سے پانچ مہمانوں کے لئے بیس آدمیوں کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں اور بقیہ کھانے کو ضائع کردیتے ہیں اور وہ افراد جو دوسرے ملکوں میں زراعتی اور مہنگی چیزوں کی مہنگائی کو باقی رکھنے کےلئے کافی مقدار میں گیہوں اور مکھن کو دریا میں پھینک دیتے ہیں، سب کے سب شیطان کے بھائی ہیں بلکہ ان میں بہت سے خود شیطان ہیں۔
اس کے بعد والی آیت میں کنجوسی سے منع کیا گیا ہے اور اسراف پر بھی روک لگائی ہے۔ فرماتا ہے:اپنے ہاتھوں کو اپنی گردنوں سے بندھا ہوا قرار نہ دو ،(
وَلَاْتَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَةً اِلیٰ عُنُقِکَ
)
یہ لطیف و دقیق تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انفاق کرنے والا ہاتھ رکھو اور کنجوسوں کی طرح نہ ہو جاوجو اپنے ہاتھوں کو اپنی گردنوںسے زنجیر کے ذریعہ باندھے ہوئے ہیں اور وہ دوسروں کی مدد اور ان پر انفاق نہیں کر سکتے ۔
دوسری طرف اپنے ہاتھوں کو بہت زیادہ نہ کھول دو اور بے حساب و کتاب بخشش اور سخاوت کرنے لگو جو تمہیں کام اور کاروبار سے روک دے اور دوسروں کی ملامت اور مذمت اور لوگوں سے الگ تھلگ ہو جانے کا سبب بن جائے :و(
َلَاْ تَبْسُطْهَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَمَلُوْماًمَّحْسُوراً
)
جس طرح ”ہاتھ کا گردن سے بندھا ہونا“ کنجوسی کی طرف اشارہ ہے اسی طرح ہاتھوں کا مکمل طور سے کھلا ہونا بھی بے حساب انفاق اور بخشش کی طرف اشارہ ہے جیسا کی جملہ ”(
لَاْ تَبْسُطْهَا کُلَّ الْبَسْطِ
)
“سے معلوم ہوتا ہی ہے ۔
اور کلمہ تقعد جو مصدر قعود سے بیٹھنے کے معنی میں ہے کام سے بے کام ہوجانے کی طرف اشارہ ہے۔
تعبیرملوم اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کبھی کبھی بہت زیادہ انفاق اور بخشش نہ صرف یہ کہ انسان کو کام کاج اور زندگی کے ضروری کاموں سے روک دیتا ہے بلکہ ملامت کرنے والوں کی زبان کو بھی کھول دیتا ہے۔
محسور مصدر حسر سے برہنہ کرنے کے معنی میں ہے ،اسی لئے حاسراس سپاہی کو کہتے ہیں جس کے بدن پر زرہ اور سر پر ٹوپی (خود) نہ ہو۔
وہ جانور جو زیادہ چلنے کی وجہ سے تھک کر پیچھے رہ جائیں انہیں حسیر اور حاسرکہا جاتا ہے گویا ان کے بدن کے سار ے گوشت یا ساری طاقت وقوت جواب دے دیتی ہے اور وہ برہنہ ہو جاتے ہیں ۔
اس کے بعد آیت کے اس معنی میں وسعت پیدا ہوئی اورہر تھکے اور منزل مقصود تک پہنچنے سے عاجز شخص کو محسوریا حا سرکہا جانے لگا ۔
بہرحال جب بھی انفاق اور بخشش حد سے بڑھ جائے اور انسان کی ساری توانائی وقوت اسی میں خرچ ہونے لگے تو ظاہر سی بات ہے کہ انسان کام کاج اور زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے سے پیچھے رہ جائے گا اور نتیجہ میں لوگوں سے اس کا رابطہ بھی منقطع ہو جائے گا۔
اس آیت کے شان نزول میں اس بات کو واضح طور پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اس روایت میں اس آیت کی شان نزول کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے :
ایک دن رسول خدا گھر میں تشریف فرما تھے ، ایک سائل نے دق الباب کیا چونکہ اس وقت آنحضرت کے پاس اسے دینے کے لئے کوئی چیز نہ تھی لہٰذا اس نے آنحضرت سے ان کے پیراہن کا تقاضا کر لیا آپ نے اسے اپنا پیراہن عطا کر دیا اور اس دن نماز کے لئے مسجد میں حاضر نہ ہو سکے ۔ اس واقعہ نے کفار کی زبان کو ملامت کے لئے کھول دیا اور وہ کہنے لگے کہ محمد سوتے رہ گئے یا دوسرے کاموں میں مصروف ہونے کی وجہ سے اپنی نماز کو بھول گئے۔
اس طرح یہ کام دشمن کی ملامت اور دوستوں سے دوری کا سبب ہوا اور”ملوم ومحسور“ کا مصداق بھی قرار پایا اسی وقت مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی اور رسول خداکو ایسے کام کی تکرار سے منع کیا ۔
اس آیت کا ظاہری حکم ایثار کے خلاف نہیں ہے جس کے بارے میں ہم آئندہ بحث کریں گے ۔
بعض ا فراد نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ کبھی کبھی رسولخدا بیت المال کے سارے اموال فقراء میںاس طرح تقسیم کر دیتے تھے کہ اگر بعد میں کوئی ضرورت مند آجائے تو اسے دینے کے لئے کچھ نہیں بچتا تھا اور اس کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا تھا ۔ اور بسا اوقات آنے والا ضرورت مند شخص آپ کی مذمت اور ملامت کرنے لگتا تھا۔ جس سے آنحضرت کو تکلیف ہوتی تھی لہٰذا حکم نازل ہوا کہ نہ ہی بیت المال کے پورے مال کاانفاق کر دیا جائے اور نہ ہی پورے مال کو بچائے رکھا جائے تا کہ آئندہ اس طرح کی مشکلات پیش نہ آئیں ۔
ایک سوال کا جواب
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محروم فقیر اور مسکین افراد ہی کیوںہوں کہ ہم کو انفاق کرنا پڑے کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ خداوند عالم انہیں ان کی ضرورت کی تمام چیزیں عطا کر دیتاتا کہ ہم ان اوپر انفاق کرنے کے محتاج نہ ہوتے؟
جواب -
آیت کا آخری حصہ گویا اسی سوال کے جواب کی طرف اشارہ ہے پروردگار عالم فرماتا ہے -:
(
ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء و یقدر انه کان بعباده خبیراً بصیراً
)
دراصل یہ تمہارے لئے ایک امتحان ہے ورنہ پروردگار کے لئے ہر چیز ممکن ہے وہ اس طرح سے تمہاری تربیت کرنا چاہتا ہے اور تمہارے اندر سخاوت، فدا کاری اور ایثار کے جذبہ کو پروان چڑھا نا چاہتا ہے ۔
اس کے علاوہ اگربعض لوگ بالکل بے نیاز ہو جائیںتو وہ سر کشی پر اتر آئیں گے لہٰذا ان کی مصلحت اسی میں ہے کہ انہیں ایک معین مقدار میں روزی دی جائے جو نہ ہی ان کے فقراور تنگدستی کا سبب ہو اور نہ ہی طغیان اور سرکشی کا باعث ہو۔
ان سب باتوں کے علاوہ انسانوں ( کچھ موارد کے علاوہ یعنی بے کار اور معمولی افراد کے علاوہ ) کی روزی میں وسعت اور تنگی کا تعلق خود ان کی سعی و کوشش سے ہے اور یہ کہ خدا وند عالم فرما رہا ہے کہ:وہ جس کی روزی کو چاہتا ہے تنگ یا کشادہ کر دیتا ہے۔ یہ مشیت پروردگار بھی اس کی حکمت کے مطابق ہے اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ جو بھی زیادہ کوشش کرے گا اس کا حصہ زیادہ اور جس کی سعی و کوشش کم ہوگی وہ اتنا ہی محروم ہوگا۔
بعض مفسرین نے اس آیت اور اس سے پہلے کی آیات کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں اس احتمال کو قبول کیا ہے کہ اس آخری فقرہ میں انفاق میں افراط و تفریط سے منع کرنے کی دلیل کو بیان کیا گیا ہے۔ گویایہ آیت یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ پروردگار بھی اپنی ساری قدرت کے باوجود روزی عطا کرنے میں درمیانی راستہ اختیار کرتا ہے اور حد وسط کی رعایت کرتا ہے نہ ہی اتنا زیادہ عطا کرتا ہے کہ فساد اور تباہی کا سبب بن جائے اور نہ ہی روزی میں اتنی تنگی کرتا ہے کہ انسان زحمت میں پڑ جائے یہ تمام چیزیں بندوں کے حالات کی رعایت اور ان کی بھلائی کے پیش نظر ہیں ۔
لہٰذا بہتر یہی ہے کہ تم بھی اخلاق الٰہی کو اپناو ، اعتدال اور درمیانی راستہ اختیار کرو اور افراط وتفریط سے پرہیز کرو ۔