دولت کا بہترین مصرف

دولت کا بہترین مصرف0%

دولت کا بہترین مصرف مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دولت کا بہترین مصرف

مؤلف: فرازمند
زمرہ جات:

مشاہدے: 11253
ڈاؤنلوڈ: 3103

تبصرے:

دولت کا بہترین مصرف
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 37 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11253 / ڈاؤنلوڈ: 3103
سائز سائز سائز
دولت کا بہترین مصرف

دولت کا بہترین مصرف

مؤلف:
اردو

دوسری فصل : انمول انفاق کے شرائط

۱۳ انمول انفاق

ی( ٰآ اَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوْااٴَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّا اٴَخْرَ جْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَلَاْ تَیَمَّمُوْا الْخَبِیْثَ مِنْه تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِ یْهِ اِلَّااٴَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰه غَنِیٌّ حَمِیْدٌ ) (سورہ بقرہ:آیت ۲۶۷)

اے ایمان والوں :اپنی پاکیزہ کمائی اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لئے پیدا کیا ہے ،سب میں سے ر اہ خدا میں خرچ کرو اور خبردار انفاق کے ارادے سے خراب مال کو ہاتھ بھی نہ لگانا کہ اگر یہ مال تم کو دیا جائے تو آنکھ بند کئے بغیر چھو ےں گے بھی نہیں ۔ یاد رکھو کہ خدا سب سے بے نیاز اور سزا وار حمد و ثنا بھی ہے۔

توضیح

اس آیہ کریمہ کی شان نزول کے بارے میں امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے زمانہ جاہلیت میں سود کے ذریعہ مال ودولت جمع کر رکھا تھا اور اس مال میں سے راہ خدا میں خرچ کرتے تھے ۔ پروردگار عالم نے انہیں اس کام سے منع کیا اور انہیں حکم دیا کہ پاک اور حلال مال میں سے انفاق کریں ۔

تفسیر مجمع البیان میں مذکورہ حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام علی سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا :یہ آیہ کریمہ ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو انفاق کے وقت خشک اور خراب کھجوروں کو اچھی کھجوروں میں ملا دیتے تھے لہٰذا انہیں حکم دیا گیا کہ وہ اس کام سے پرہیز کریں ۔

ان دونوں شان نزول میں آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ممکن ہے کہ مذکورہ آیت دونوں افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہو ۔ پہلا شان نزول مال کی معنوی پاکیزگی کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا شان نزول انفاق کے ظاہری اور مادی مرغوبیت کی طرف اشارہ ہے۔

لیکن اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ سورہ بقرہ کی ۲۷۵ ویںآیت کے مطابق جنہوں نے زمانہ جاہلیت میں سود خوری کے ذریعہ مال و ثروت جمع کر رکھا تھا آیت کے نزول کے بعد انہوں نے سود خوری سے پرہیز کیاتوگذشتہ اموال ان کے لئے حلال ہو گئے یعنی یہ قانون گذشتہ اموال میں نافذ نہیں ہوا۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ سود سے محفوظ مال کے حلال ہونے کے باوجوداس میں اور دوسرے اموال میں کافی فرق ہے ۔در حقیقت یہ مال ان اموال کی طرح ہے جو مکروہ اور نا پسندیدہ راستہ سے حاصل کیا گیا ہو۔

کن اموال کو انفاق کیا جائے

اس آیہ کریمہ میں راہ خدا میں انفاق کئے جانے والے مال کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ آیت کے پہلے جملہ میں پروردگار عالم، صاحبان ایمان کو حکم دے رہا ہے کہ ”طیبات“ میں سے انفاق کرو۔ لغت میں طیب، پاکیزہ کے معنیہے اور طیبات اس کی جمع ہے۔ جس طرح ظاہری اور مادی پاکیزہ چیز کو طیب کہا جاتا ہے اسی طرح باطنی اور معنوی پاکیزہ شے کو بھی طیب کہا جاتا ہے۔یعنی ایسے مال میں انفاق کرنا چاہئے جو اچھا،مفید اور قیمتی بھی ہو اور ہر طرح کے شک و شبہ اور آلودگی سے خالی بھی ہو۔

مذکورہ بالا شان نزول بھی آیت کی عمومیت پر تاکید کر رہا ہے۔جملہ ”( وَلَسْتُمْ بِآخِذِ یْهِ اِلَّااٴَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ ) “(یعنی اوراگریہ خراب مال تم کو دیا جائے تو آنکھ بند کئے بغیر چھوو گے بھی نہیں ،)اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس سے مراد صرف ظاہری پا کیزگی ہے ۔اس لئے کہ با ایمان افرادبھی ظاہری اعتبار سے آلودہ اور بے قیمت یا معمولی مال کولینے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور نہ ہی مشتبہ مال کو ، مگر چشم پوشی اور کراہیت کے ساتھ ۔

۱۴ انفاق کے مختلف طریق ے

جملہ ”ما کسبتم“(جو تم حاصل کرو) تجارت کے ذریعہ حاصل ہونے والی آمدنی کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔

لہٰذا جملہ ”مما اخرجنا“ ہر طرح کی آمدنی کو شامل ہے اس لئے کہ سارے اموال کا سرچشمہ زمین اور اس کے مختلف منابع ہیں یہاں تک کہ صنعت ،تجارت اور کاریگری وغیرہ بھی اسی کے ذریعہ انجام پاتی ہے ۔

اسی کے ضمن میں یہ جملہ اس بات کی طرف بھی ایک لطیف اشارہ ہے کہ پروردگار عالم نے ان سارے منابع کو تمہارے اختیار میں قرار دیا ہے لہٰذا ان میں سے راہ خدا میں انفاق کرنے سے ذرہ برابر بھی مضائقہ نہیں کرنا چاہئے ۔

اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے: ”( وَلَاْ تَیَمَّمُوْا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِ یْهِ اِلَّااٴَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ )

چونکہ بعض لوگوں کی عادت بن جاتی ہے کہ ہمیشہ کم قیمت ،ناقابل استعمال چیزوں کو انفاق کرتے ہیں اس طرح کے انفاق نہ ہی انفاق کرنے والوں کی معنوی تربیت اور روحانی رشد کا سبب بنتے اور نہ ہی ضرورت مندوں کے لئے نفع بخش ثابت ہوتے ہیں بلکہ اس سے ان کی ایک طرح کی اہانت اور تحقیر ہوتی ہے ۔

لہٰذا یہاں پر صاف لفظوں میں لوگوں کو اس کام سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے: کیونکر اس طرح کے مال کو راہ خدا میں انفاق کر رہے ہو جسے تم بھی ناگواری اور کراہیت کے بغیراسے قبول کرنے پر تیار نہ ہو گے؟!! کیا تمہارے مسلمان بھائی اور اس سے بالا تر وہ پروردگار کہ جس کی راہ میں انفاق کررہے ہووہ سب تمہاری نظر میں تم سے کمتر ہوں!

در حقیقت یہ آیہ کریمہ ایک دقیق نکتہ کی طرف اشارہ کررہی ہے اور وہ یہ کہ جو کچھ راہ خدا میں خرچ کیا جاتا ہے اس کے ایک طرف فقراء اور ضرورت مند افراد ہیں اور دوسری طرف خدا ہے جس کی راہ میں انفاق کیا جا رہا ہے ۔ایسی صورت میں اگر پست اورکم قیمت اموال کو منتخب کیا جائے تو ایک طرفمقام اقدس پروردگار کی توہین ہو گی کہ اس کو طیب اور پاکیزہ چیزوں کے لائق نہیں سمجھا اور دوسری طرف فقراء اور ضرورت مندوں کی تحقیر اور بے عزتی ہو گی۔ اس لئے کہ ممکن ہے تنگدستی کے باوجود بھی وہ ایمان اور انسانیت کے بلند وبالا مرتبہ پر فائز ہوں اور اس طرح کے انفاق کے نتیجہ میں ان کی روح کبیدہ خاطر ہو جائے۔

اس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے جو جملہ ”لاتیمموا“ (قصد و ارادہ نہ کرو ) میں پوشیدہ ہے۔ اس جملہ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان جو کچھ بھی انفاق کررہا ہے اگر اس کے درمیان بغیر کسی توجہ کے کوئی ناپسندیدہ اور کم قیمت چیز شامل ہو جائے تو یہ شخص مذکورہ حکم میں داخل نہیں ہے اس لئے کہ یہ حکم ان لوگوں کے سلسلہ میں ہے جو جان بوجھ کر اس طرح کے انفاق پر اقدام کرتے ہیں ۔

آیت کے آخر میں ارشاد فرماتا ہے : ”( وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰه غَنِیٌّ حَمِیْدٌ ) “ آگاہ رہو کہ اس خدا کی راہ میںخرچ کر رہے ہو جو تمہارے انفاق سے بے نیاز ہے اور ساری حمد و ثنا اسی کے لئے ہے اس لئے کہ اسی نے یہ ساری نعمتیں تمہارے اختیار میں قرار دی ہیں ۔

یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ یہاں پر” حمید “(تعریف کرنے والے) کے معنی میں ہو یعنی پروردگار عالم تمہارے انفاق سے بے نیازی کے باوجود تمہاری تعریف کرتا ہے اورتمہیں اس کی جزادیتا ہے لہٰذا کوشش کرو کہ پاک وپاکیزہ اور حلال اموال میں سے اس کی راہ میں انفاق کرو۔

۱۵ انفاق ہر چیز اور ہر طریقہ سے

( اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اٴَمْوَاْلَهُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّهٰارِ سِرّاًوَّعَلَاْنِیَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَاْ خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَاْ هُمْ یَحْزَنُوْنَ ) (سورئہ بقرہ: آیت ۲۷۴)

جولوگ اپنے اموال کو راہ خدا میں رات میں ،دن میں، خاموشی سے اور علانیہ خرچ کرتے ہیں ان کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ حزن۔

توضیح

بہت سی روایات میں آیا ہے کہ یہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے اس لئے کہ آپ نے ایک درہم رات میں ، ایک درہم دن میں، ایک درہم علانیہ اورایک درہم خاموشی سے اور پوشیدہ طور سے راہ خدا میں انفاق کیا تھا۔ لیکن قرآن کریم نے اسے انفاق کے مختلف طریقے اور کیفیتوں کے سلسلہ میں ایک حکم کے عنوان سے بیان کیا ہے اور انفاق کرنے والوں کی یہ ذمہ داری قرار دی ہے کہ وہ علانیہ اور پوشیدہ انفاق کرنے کے لحاظ سے سامنے والے کی اخلاقی اور سماجی حیثیت اورعزت و آبرو کی حفاظت کا خاص خیال رکھیں۔

یعنی جب حاجت مند پر انفاق کو ظا ہر کرنے کی کوئی علت اور سبب نہ ہو تو ان کی عزت و آبرو کی حفاظت اور مزید خلوص کے لئے پوشیدہ طور پر انفاق کیا جائے اور جہاں پر کوئی مصلحت (مثلاً دینی شعائر کی تعظیم کرنا، دوسروں میں شوق پیدا کرناہو)اور کسی حاجت مند مسلمان کی بے عزتی اور توہین کا سبب نہ ہو تو علانیہ انفاق کیا جا سکتا ہے۔

پروردگار عالم اس طرح انفاق کرنے والوں کو اجر و ثواب کیخوشخبری دیتے ہوئے فرماتا ہے: --”( فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَاْ خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَاْ هُمْ یَحْزَنُوْنَ ) “(ان کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ حزن) چونکہ انسان زندگی بسر کرنے کے لئے اپنے آپ کو مال و دولت سے بے نیاز نہیں پاتاہے لہٰذا وہ عام طور سے انہیں کھو دینے پر غمگین ہو جاتا ہے اس لئے کہ وہ نہیں جانتا کہ آئندہ اس کے حالات کیسے ہو ں گے ۔

یہی فکر بہت سے مواقع پرانسان کو انفاق کرنے سے روک دیتی ہے۔ لیکن وہ لوگ جو ایک طرف پروردگار کے کئے ہوئے وعدوں پر ایمان رکھتے ہیں اور دوسری طرف انفاق کے سماجی اثرات و برکات کو جانتے ہیں ۔ ایسے لوگ راہ خدا میں انفاق کرتے ہیں نہ آئندہ کے سلسلہ میں فکر مند اور خوف زدہ ہوتے ہیں اور نہ مال کے چلے جانے پر غمگین ہوتے ہیںاس لئے کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہوں نے جو چیز راہ خدا میں دی ہے اس سے کہیں زیادہ فضل خدااور اس کی انفرادی سماجی اور اخلاقی برکتوں میں سے اسے اس دنیا میں بھی حاصل ہو گا آخرت میں بھی۔

( قُل لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا یُقِیْمُواالصَّلٰوةَ وَ یُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنَا هُمْ سِرّاًوَّ عَلَاْنِیَةًمِّنْ قَبْلِ اٴَنْ یَّا تِیَ یَوْمٌ لاَّ بَیْعٌ فِیْهِ وَلَاْ خِلَاْلٌ )

اورآپ میرے ایماندار بندوں سے کہہ دیجئے کہ نمازیں قائم کریں اور ہمارے رزق میں سے چھپا کر اور علانیہ ہماری راہ میں انفاق کریں قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جب نہ تجارت کام آئے گی اور نہ دوستی۔(سورئہ ابراہیم آیت/ ۳۱)

تو ضیح

پروردگار عالم پہلے فرماتا ہے کہ: اے میرے رسول آپ میرے با ایمان بندوں سے کہہ دیجئے کہ نماز قائم کریں اور جو کچھ بھی میں نے انہیں روزی عطا کی ہےاس میں سے چھپا کر اور علانیہ انفاق کریں”( قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا یُقِیْمُواالصَّلٰوةَ وَ یُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنَا هُمْ سِرّاًوَّ عَلَاْنِیَةً ) “اس کے بعد فرماتاہے :قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس دن نہ ہی تجارت کام آئے گی کہ انسان اس کے ذریعہ اخروی سعادت اور عذاب سے نجات کو خریدسکے اور نہ ہی کوئی دوستی اور رفاقت کام آئے گی( مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّا تِیَ یَوْمٌ لاَّ بَیْعٌ فِیْهِ وَلَاْ خِلَاْلٌ ) بے شک اس دن بازار عمل بند ہو جائے گا اور کسی طرح کی کوئی بھی خرید و فروخت اور تجارت نہ ہوگی ۔ صرف وہی زاد راہ کام آئے گا جسے پہلے سے مہیا کر رکھا ہے اور ہر شخص اپنے عمل کے مطابق جزایا سزا پائے گا ۔ ایسے دن کے لئے بہترین زاد راہ یہی انسانی امداد اور حاجت مندوں پر انفاق کرنا ہے۔

۱۶ پوشیدہ طور پر انفاق بہتر ہے

( اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِیَ وَاِنْ تُخْفُوْهَا وَ تُوتُوْهَا الْفُقَرَ آءَ فَهُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ یُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِنْ سَیِّئَاتِکُمْ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ) (سورئہ بقرہ آیت/ ۲۷۱)

اگرتم صدقہ کو کھلے عام دوگے تویہ بھی ٹھیک ہے ۔اور اگر چھپا کر فقراء کے حوالے کردوگے تو یہ بھی بہت بہتر ہے لہٰذا اس کے ذریعہ تمہارے بہت سے گناہ معاف ہو جائیں گے اور خدا تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

وضاحت

بے شک راہ خدا میں انفاق کرنا چاہئے علانیہ ہو یا چھپا کر ہر ایک کا مفید اور نفع بخش اثر اور فائدہ ہوتا ہے ۔اس لئے کہ جب انسان کھلے عام اپنے مال کو راہ خدا میں خرچ کرتا ہے اور اگر یہ انفاق واجب ہو تو لوگوں کو اس طرح کے نیک کام کے شوق کے علاوہ انفاق کرنے والے سے اس تہمت کو دور کرتا ہے کہ اپنے واجب وظیفہ پر عمل نہیں کیا ۔

اور اگر مستحب ہو تو در حقیقت یہ ایک طرح کی عملی تبلیغ ہے کہ لوگوں کوعمل صالح ،محرومین اور فقراء کی حمایت اور مدد اور عوامی منفعت کے کاموں کو انجام دینے کا شوق پیدا کرتا ہے ۔

اوراگر خفیہ طور سے اور لوگوں کی نظروں سے دور ہو کر انفاق کیا جائے تو اس میں ریا کاری کا امکان کم ہوجاتا ہے بلکہ مزید خلوص کے ساتھ انجام پاتا ہے خاص طور سے فقراء کی مدد کرنے میں ان کی عزت و آبرو کی حفاطت زیادہ بہتر طریقہ سے ہوتی ہے ۔ اس لئے آیت کہہ رہی ہے :”دونوں طریقہ انفاق بہتر ہےں لیکن خفیہ انفاق زیادہ بہتر ہے۔ “

بعض مفسرین نے کہاہے کہ یہ حکم مستحبی انفاق کے بارے میں ہے اور واجبی انفاق جیسے زکوٰةوغیرہ میں بہتر یہ ہے کہ ہمیشہ علانیہ ہونا چاہئے لیکن یہ بات مسلّم ہے کہ دو نوں حکم (انفاق کو ظاہر کرنا یا مخفی کرنا)میں کوئی ایک بھی حکم عمومی نہیں ہے بلکہ مواقع کے مختلف ہونے کے اعتبار سے ہیں لہٰذا جب تشویق کا اثر زیادہ ہواور خلوص کے لئے نقصان دہ نہ ہو تو بہتر ہے کہ علانیہ انفاق کیا جائے اور جب آبرو منداور باعزت افراد ہوں اور ان کی عزت وآبرو کی حفاظت کا سبب بنے کہ خفیہ اور پوشیدہ طور سے انفاق کیا جائے اور ریاکاری یا خلوص کے ختم ہو جانے کا ڈر ہو تو ایسی صورت میں خفیہ طور سے انفاق کرنا بہتر ہے۔

بعض حدیثوں میںآیا ہے کہ واجبی انفاق کو علانیہ اور مستحبی انفاق کو پوشیدہ طور پر ہونا چاہئے۔

حضرت امام جعفرصادق سے منقول ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: زکوٰة واجب کو کھلے عام اپنے مال سے نکالو اور کھلے عام انفاق کرو لیکن مستحبی انفاق کو اگر پوشیدہ طور سے خرچ کرو تو زیادہ بہتر ہے۔

اس طرح کی دیگر احادیث گذشتہ باتوں کے خلاف نہیں ہیں اس لئے کہ واجب ذمہ داریوںکی انجام دہی میں دکھاوے کی گنجائش کم ہوتی ہے اس لئے کہ واجب ہے اور ہر شخص کو انجام دینا واجب ہے اور ایک لازمی مالیات اور ٹیکس کے مانند ہے جسے ہر فرد کو ادا کرنا ضروری ہے لہٰذا اس کو کھلے عام انجام دینا بہتر ہے۔ لیکن مستحبی انفاق جس میں وجوب کا پہلو نہیں ہوتا لیکن ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کو علانیہ اور ظاہر کرنا خلوص نیت کے لئے مضر اور نقصان دہ ہو لہٰذا اس کو پوشیدہ طور سے انجام دیناہی زیادہ بہتر ہے۔

”وَ یُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِنْ سَیِّئَاتِکُم “ اس جملہ سے معلوم ہوتاہے کہ راہ خدامیں انفاق کا گناہوں کی بخشش میں بہت گہرا اثر ہے اس لئے کہ حکم انفاق کے بعد اسی جملہ میں فرمایا ہے :اور پروردگار تمہارے گناہوں کومعاف کردے گا ۔

البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چھوٹے سے انفاق کے اثر میں سارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے بلکہ کلمہ ”من“ جو عام طور سے تبعیض یعنی (بعض ) کے لئے استعمال ہوتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انفاق گناہوں میں سے بعض گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بنتا ہے اور وہ بھی انفاق کی مقدار اور میزان خلوص سے مربوط ہے ۔

انفاق گناہوں کی بخشش کا سبب ہے اس سلسلہ میں شیعہ وسنی دونوں کتابوں میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں ۔انہیں میں سے ایک حدیث یہ بھی ہے کہ: پو شیدہ طورپر انفاق کرنا غضب الٰہی کو ختم کر دیتا ہے اورجس طرحپانی آگ کو بجھا دیتا ہے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔

ایک دوسری روایت میں اس طرح آیا ہے کہ :سات لوگ ایسے ہیں جنہیںاللہ اس دن اپنی رحمت کے سایہ میں لئے ہوگا جس دن اس کے سایہ رحمت کے علاوہ کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا :

۱ ۔ حاکم عادل،

۲ ۔ وہ جوان جو عبادت اور بندگی خدا میں پروان چڑھے ،

۳ ۔ جس کا دل مسجد سے وابستہ ہو،

۴ ۔ وہ لوگ جو دوسروں کو اللہ کے لئے دوست رکھتے ہیں اور محبت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہوتے ہیں اور عشق و محبت کے ساتھ جدا ہوتے ہیں۔

۵ ۔ وہ شخص جسے ایک خوبصورت اور صاحب مقام و منزلت عورت گناہ کی دعوت دے اور وہ شخص خدا کے خوف سے گناہ پر آمادہ نہ ہو ۔

۶ ۔ وہ شخص جو پوشیدہ طور سے انفاق کرے اس طرح سے کہ اگر داہنے ہاتھ سے انفاق کرے تواس کا بایاں ہاتھ با خبر نہ ہو ۔

۷ ۔ جو شخص تنہائی میں خدا کو یاد کرے اور اس کی آنکھوں سے اشک جاری ہو جائیں ۔

”وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ“ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بھی انفاق کیا جا تا ہے خدا اس سے با خبر ہے چاہے علانیہ ہو یا پوشیدہ طور پر۔ اسی طرح وہ تمہاری نیتوں سے بھی باخبر ہے ۔ انفاق کو علانیہ یا پوشیدہ طور سے کس مقصد کے تحت انجام دے رہے ہو ۔

بہر حال انفاق میں جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے مالپاک و پا کیزہ ہواور عمل میں خلوص ہو دوسروں کے باخبر ہونے یا نہ ہونے کا کوئی اثر نہیں ہے بلکہ علم خدامیں آنا اور اس کا آگاہ ہونا ہی سب سے اہم چیزہے اسلئے کہ وہ علیم ہے اور وہی ہر عمل کی جزا دینے والاہے اور ہر ظاہر وباطن سے باخبر ہے۔

تیسری فصل : کس پر اورکس طرح انفاق کریں؟

۱۷ کیسے اور کس پر انفاق کریں؟

( وَءَ ا تِ ذَاالْقُرْبَیٰ حَقَّه وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَاْ تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً ) (سورہ اسراء: آیت ۲۶)

اوردیکھو قرابتداروں ،مسکین اور غربت زدہ مسافر کو اس کا حق دے دو اور خبر دار اسراف سے کام نہ لینا ۔

( اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْ ااِخْوَانَ الشَّیَا طِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّهِ کَفُوراً ) (سورہ اسراء: آیت ۲۷)

اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان تو اپنے پروردگار کا بہت بڑا انکار کرنے والا ہے ۔

( وَلَاْتَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَةً اِلیٰ عُنُقِکَ وَلَاْ تَبْسُطْهَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَمَلُوْماًمَّحْسُوراً ) (سورہ اسراء:آیت ۹۲)

اور خبردارنہ اپنے ہا تھوں کو گردنوں سے بندھا ہوا قرار دو اور نہبا لکل پھیلا دو کہ آخر میں قابل ملا مت اور خالی ہاتھ بیٹھے رہ جاو۔

وضاحت

انفاق میں میانہ روی کی رعایت کرنا

ان آیات میں راہ خدا میں انفاق کرنے اور قرابتداروں ،مساکین اور غربت زدہ مسافروں کے حق کی ادائیگی کے بارے میں اسلامی احکام کو بیان کیا گیا ہے اور انفاق کرنے میں ہر طرح کے اسراف اور فضول خرچی سے پرہیز کا حکم دیا گیا ہے اور خدا وندعالم ان احکام کو چند مرحلے میں بیان فرمایا ہے: پہلے مرحلے میں ارشادفرماتا ہے: ”قرابتداروں اور رشتہ داروں کا حق انہیں دے دو:( وَءَ ا تِ ذَاالْقُرْبَیٰ حَقَّه )

اور مساکین اور غربت زدہ مسافرین کاحق بھی ان کے حوالے کر دو:( وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ )

اور خبردار اسراف سے کام نہ لو :( وَلَاْ تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً )

کلمہ تبذیر مصدر بذرسے بیج اور چھڑکنے کے معنی میں ہے لیکن یہ کلمہ اس وقت بولا جاتا ہے جب انسان اپنے اموال کو غیر منطقی اور نا مناسب طریقہ سے خرچ کرے۔ فارسی میں مترادف ”ریخت وپاش“( چھڑکنا اور پھیلانا) ہے۔

دوسرے لفظوں میں، تبذیر یہ ہے کہ مال کو نادرست مقام پر خرچ کیا جائے اگر چہ کم ہی کیو ں نہ ہو ،اور اگر اسے اس کے صحیح مقام پر خرچ کیا جائے توتبذیر نہیں ہے اور اگر یہی حد سے بڑھ جائے تو اسے اسراف کہتے ہےں۔

تفسیر عیاشی میں امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ آپ نے اس آیہ کریمہ کے ذیل میں ایک سوال کرنے والے کے جواب میں فرمایا:

مَنْ اَنْفَقَ شَیْئاًفِیْ غَیْرِ طَاعَةِ اللّٰه فَهُوَ مُبَذِّرٌوَ مَنْ اَنْفَقَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَهُوَ مُقْتَصِدٌ

غیراطاعت پروردگارمیں اپنے مال کو خرچ کرنے والا مبذر(اسراف کرنے والاہے) اور راہ خدا میں خرچ کرنے والا مقتصد اور میانہ روہے ۔

ایک دوسری حدیث میں آنحضرت سے منقول ہے کہ ایک دن آپ نے حاضرین کی مہمان نوازی کے لئے کھجور لانے کا حکم دیا ۔ بعض لوگوں نے کھجور کھا کر اس دانہ کو دور پھینک دیا تو آپ نے فرمایا : ”یہ کام نہ کرو اس لئے کہ یہ تبذیر اور اسراف ہے اور خدا ضائع کرنے کو دوست نہیں رکھتا۔“

مسئلہ اسراف اور تبذیر کو واضح کرنے کے لئے اس حد تک کوشش کی گئی ہے کہ ایک حدیث میںآیا ہے کہ : رسول خدا ایک راستہ سے گذررہے تھے۔ آپ کے صحابی، سعد وضو کرنے میں مصروف تھے اوروہ بہت زیادہ پانی بہا رہے تھے آپ نے یہ دیکھ کر سعد سے فرمایا: اے سعد! کیوں اسراف کر رہے ہو؟! سعدنے عرض کیا :کیا وضوکرنے میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا :”نَعَمْ اِنْ کُنْتَ عَلیٰ نَہْرٍجَارٍ“(بے شک اگرچہ تم بہتی ہوئی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ ہو اور اس سے وضو کرو۔)

آیہ کریمہ میں ”ذِی الْقُرْبیٰ “سے مراد سارے قرابتدار ہیں یاصرف رسولخدا کے قرابتدار مراد ہیں؟(اس لئے کہ آیت میں خطاب آنحضرت سے ہے )اس سلسلہ میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔

متعدد روایات میں آیا ہے کہ ذی القربیٰ سے مراد رسول خدا کے قرابتدار ہیں یہا ں تک بعض روایتوں میں یہ آیا ہے کہ یہ آیت جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کو باغ فدک بخشنے کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے۔

لیکن جیسا کہ پہلے بھی کئی بار بیان کیا جا چکا ہے کہ اس قسم کی روایات آیت کے عمومی معنی کو محدود نہیں کرتی ہیں بلکہ یہ روایات آیت کے واضح مصداق کو بیان کرتی ہیں ۔

لہٰذا جملہ”و آ ت“ میں پیغمبر اسلام سے خطاب اس حکم کے آنحضرت سے مخصوص ہونے کی دلیل نہیں ہے اس لئے کہ وہ سارے احکام جو ان آیات میں وارد ہوئے ہیں جیسے تبذیر سے نہی، سائل اور مسکین کے ساتھ اچھا برتاو یا کنجوسی اور اسراف سے منع ان سارے احکام کے مخاطب آنحضرت ہیں جبکہ یہ احکام صرف پیغمبر سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ یہ عام ہیں۔

ایک قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ قرابتدار وں ، مساکین اور غربت زدہ مسافر وں کے حق کی ادائیگی کے بعد تبذیر اور اسراف سے روکنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قرابتداروں ،مسکین اور غربت زدہ مسافر کے ساتھ انسانی عطوفت ادائیگی میں اتنی زیادتی نہ ہو جائے کہ ان کے استحقاق سے زیادہ ان پر انفاق کرکے اسراف اور فضول خرچی میں مبتلا ہو جاواس لئے کہ اسراف ہر جگہ مذموم اور قابل ملامت ہے

بعد والی آیت سے منع کرنے کی دلیل کو بیان کر رہی ہے کہ: اسراف کرنے والے شیا طین کے بھائی ہیں :( اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیَا طِیْنِ )

بے شک اسراف کرنے والے،شیطان کے بھائی ہیں اس لئے کہ شیطان کا کام فساد وتباہی ہے اسراف کرنے والے بھی خدا کی نعمتوں کو تباہ وبرباد اوراسے غلط طریقہ سے خرچ کرکے ضائع وبرباد کر ہیں ۔

لہٰذا وہ لوگ جو اضافی کھانا پکا کے، پھینک دیتے ہیں اور وہ لوگ جو دکھاوے کی غرض سے پانچ مہمانوں کے لئے بیس آدمیوں کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں اور بقیہ کھانے کو ضائع کردیتے ہیں اور وہ افراد جو دوسرے ملکوں میں زراعتی اور مہنگی چیزوں کی مہنگائی کو باقی رکھنے کےلئے کافی مقدار میں گیہوں اور مکھن کو دریا میں پھینک دیتے ہیں، سب کے سب شیطان کے بھائی ہیں بلکہ ان میں بہت سے خود شیطان ہیں۔

اس کے بعد والی آیت میں کنجوسی سے منع کیا گیا ہے اور اسراف پر بھی روک لگائی ہے۔ فرماتا ہے:اپنے ہاتھوں کو اپنی گردنوں سے بندھا ہوا قرار نہ دو ،( وَلَاْتَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَةً اِلیٰ عُنُقِکَ )

یہ لطیف و دقیق تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انفاق کرنے والا ہاتھ رکھو اور کنجوسوں کی طرح نہ ہو جاوجو اپنے ہاتھوں کو اپنی گردنوںسے زنجیر کے ذریعہ باندھے ہوئے ہیں اور وہ دوسروں کی مدد اور ان پر انفاق نہیں کر سکتے ۔

دوسری طرف اپنے ہاتھوں کو بہت زیادہ نہ کھول دو اور بے حساب و کتاب بخشش اور سخاوت کرنے لگو جو تمہیں کام اور کاروبار سے روک دے اور دوسروں کی ملامت اور مذمت اور لوگوں سے الگ تھلگ ہو جانے کا سبب بن جائے :و( َلَاْ تَبْسُطْهَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَمَلُوْماًمَّحْسُوراً )

جس طرح ”ہاتھ کا گردن سے بندھا ہونا“ کنجوسی کی طرف اشارہ ہے اسی طرح ہاتھوں کا مکمل طور سے کھلا ہونا بھی بے حساب انفاق اور بخشش کی طرف اشارہ ہے جیسا کی جملہ ”( لَاْ تَبْسُطْهَا کُلَّ الْبَسْطِ ) “سے معلوم ہوتا ہی ہے ۔

اور کلمہ تقعد جو مصدر قعود سے بیٹھنے کے معنی میں ہے کام سے بے کام ہوجانے کی طرف اشارہ ہے۔

تعبیرملوم اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کبھی کبھی بہت زیادہ انفاق اور بخشش نہ صرف یہ کہ انسان کو کام کاج اور زندگی کے ضروری کاموں سے روک دیتا ہے بلکہ ملامت کرنے والوں کی زبان کو بھی کھول دیتا ہے۔

محسور مصدر حسر سے برہنہ کرنے کے معنی میں ہے ،اسی لئے حاسراس سپاہی کو کہتے ہیں جس کے بدن پر زرہ اور سر پر ٹوپی (خود) نہ ہو۔

وہ جانور جو زیادہ چلنے کی وجہ سے تھک کر پیچھے رہ جائیں انہیں حسیر اور حاسرکہا جاتا ہے گویا ان کے بدن کے سار ے گوشت یا ساری طاقت وقوت جواب دے دیتی ہے اور وہ برہنہ ہو جاتے ہیں ۔

اس کے بعد آیت کے اس معنی میں وسعت پیدا ہوئی اورہر تھکے اور منزل مقصود تک پہنچنے سے عاجز شخص کو محسوریا حا سرکہا جانے لگا ۔

بہرحال جب بھی انفاق اور بخشش حد سے بڑھ جائے اور انسان کی ساری توانائی وقوت اسی میں خرچ ہونے لگے تو ظاہر سی بات ہے کہ انسان کام کاج اور زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے سے پیچھے رہ جائے گا اور نتیجہ میں لوگوں سے اس کا رابطہ بھی منقطع ہو جائے گا۔

اس آیت کے شان نزول میں اس بات کو واضح طور پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اس روایت میں اس آیت کی شان نزول کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے :

ایک دن رسول خدا گھر میں تشریف فرما تھے ، ایک سائل نے دق الباب کیا چونکہ اس وقت آنحضرت کے پاس اسے دینے کے لئے کوئی چیز نہ تھی لہٰذا اس نے آنحضرت سے ان کے پیراہن کا تقاضا کر لیا آپ نے اسے اپنا پیراہن عطا کر دیا اور اس دن نماز کے لئے مسجد میں حاضر نہ ہو سکے ۔ اس واقعہ نے کفار کی زبان کو ملامت کے لئے کھول دیا اور وہ کہنے لگے کہ محمد سوتے رہ گئے یا دوسرے کاموں میں مصروف ہونے کی وجہ سے اپنی نماز کو بھول گئے۔

اس طرح یہ کام دشمن کی ملامت اور دوستوں سے دوری کا سبب ہوا اور”ملوم ومحسور“ کا مصداق بھی قرار پایا اسی وقت مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی اور رسول خداکو ایسے کام کی تکرار سے منع کیا ۔

اس آیت کا ظاہری حکم ایثار کے خلاف نہیں ہے جس کے بارے میں ہم آئندہ بحث کریں گے ۔

بعض ا فراد نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ کبھی کبھی رسولخدا بیت المال کے سارے اموال فقراء میںاس طرح تقسیم کر دیتے تھے کہ اگر بعد میں کوئی ضرورت مند آجائے تو اسے دینے کے لئے کچھ نہیں بچتا تھا اور اس کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا تھا ۔ اور بسا اوقات آنے والا ضرورت مند شخص آپ کی مذمت اور ملامت کرنے لگتا تھا۔ جس سے آنحضرت کو تکلیف ہوتی تھی لہٰذا حکم نازل ہوا کہ نہ ہی بیت المال کے پورے مال کاانفاق کر دیا جائے اور نہ ہی پورے مال کو بچائے رکھا جائے تا کہ آئندہ اس طرح کی مشکلات پیش نہ آئیں ۔

ایک سوال کا جواب

یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محروم فقیر اور مسکین افراد ہی کیوںہوں کہ ہم کو انفاق کرنا پڑے کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ خداوند عالم انہیں ان کی ضرورت کی تمام چیزیں عطا کر دیتاتا کہ ہم ان اوپر انفاق کرنے کے محتاج نہ ہوتے؟

جواب -

آیت کا آخری حصہ گویا اسی سوال کے جواب کی طرف اشارہ ہے پروردگار عالم فرماتا ہے -:

( ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء و یقدر انه کان بعباده خبیراً بصیراً )

دراصل یہ تمہارے لئے ایک امتحان ہے ورنہ پروردگار کے لئے ہر چیز ممکن ہے وہ اس طرح سے تمہاری تربیت کرنا چاہتا ہے اور تمہارے اندر سخاوت، فدا کاری اور ایثار کے جذبہ کو پروان چڑھا نا چاہتا ہے ۔

اس کے علاوہ اگربعض لوگ بالکل بے نیاز ہو جائیںتو وہ سر کشی پر اتر آئیں گے لہٰذا ان کی مصلحت اسی میں ہے کہ انہیں ایک معین مقدار میں روزی دی جائے جو نہ ہی ان کے فقراور تنگدستی کا سبب ہو اور نہ ہی طغیان اور سرکشی کا باعث ہو۔

ان سب باتوں کے علاوہ انسانوں ( کچھ موارد کے علاوہ یعنی بے کار اور معمولی افراد کے علاوہ ) کی روزی میں وسعت اور تنگی کا تعلق خود ان کی سعی و کوشش سے ہے اور یہ کہ خدا وند عالم فرما رہا ہے کہ:وہ جس کی روزی کو چاہتا ہے تنگ یا کشادہ کر دیتا ہے۔ یہ مشیت پروردگار بھی اس کی حکمت کے مطابق ہے اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ جو بھی زیادہ کوشش کرے گا اس کا حصہ زیادہ اور جس کی سعی و کوشش کم ہوگی وہ اتنا ہی محروم ہوگا۔

بعض مفسرین نے اس آیت اور اس سے پہلے کی آیات کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں اس احتمال کو قبول کیا ہے کہ اس آخری فقرہ میں انفاق میں افراط و تفریط سے منع کرنے کی دلیل کو بیان کیا گیا ہے۔ گویایہ آیت یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ پروردگار بھی اپنی ساری قدرت کے باوجود روزی عطا کرنے میں درمیانی راستہ اختیار کرتا ہے اور حد وسط کی رعایت کرتا ہے نہ ہی اتنا زیادہ عطا کرتا ہے کہ فساد اور تباہی کا سبب بن جائے اور نہ ہی روزی میں اتنی تنگی کرتا ہے کہ انسان زحمت میں پڑ جائے یہ تمام چیزیں بندوں کے حالات کی رعایت اور ان کی بھلائی کے پیش نظر ہیں ۔

لہٰذا بہتر یہی ہے کہ تم بھی اخلاق الٰہی کو اپناو ، اعتدال اور درمیانی راستہ اختیار کرو اور افراط وتفریط سے پرہیز کرو ۔