دولت کا بہترین مصرف

دولت کا بہترین مصرف0%

دولت کا بہترین مصرف مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دولت کا بہترین مصرف

مؤلف: فرازمند
زمرہ جات:

مشاہدے: 11256
ڈاؤنلوڈ: 3103

تبصرے:

دولت کا بہترین مصرف
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 37 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11256 / ڈاؤنلوڈ: 3103
سائز سائز سائز
دولت کا بہترین مصرف

دولت کا بہترین مصرف

مؤلف:
اردو

چھٹی فصل : انمول انفاق کی دس لازمی شرطیں

۲۴ انمول انفاق کی د س لازمی شرطیں

اس سے پہلے ملاحظہ کرچکے ہیں کہ قرآن مجید نے راہ خدا میں انفاق کے سلسلہ میں ایک لطیف تعبیر بیان کی ہے اور اسے پروردگار کو قرض دینے سے تعبیر کیا ہے ایسا قرض کہ اس کا بہت بڑا فائدہ پروردگار کی طرف سے ادا کیا جائے گا ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اسے”قرض الحسنہ “ کہا گیا ہے ،یہ تعبیر اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قرض دینے کی بھی مختلف قسمیں ہیں کہ ان میں سے بعض کو ”قرض الحسنہ“ اور بعض کو کم قیمت اور بعض کو بے قیمت و بے وقعت شمار کیا جا سکتا ہے ۔

قرآن مجید نے قرض الحسنہ یا دوسرے لفظوں میں ”انمول انفاق “کی شرطوں کو متعدد آیات میں بیان کیا ہے اور بعض مفسرین نے انھیں جمع کرکے دس شرطیں نکالی ہیں :

۱- انفاق کے لئے مال کے بہترین حصہ کا انتخاب کیا جائے، سستے مال کا نہیں ۔

( یٰآ اَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اٴَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّا اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَلَاْ تَیَمَمُّوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِآخِذِ یْهِ اِلَّآ اٴَنْ تُغْمِضُوْافِیْهِ وَاعْلَمُوْا اٴَنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّحَمِیْدٌ )

اے ایمان والو!اپنی پاکیزہ کمائی اور جو کچھ ہم نے زمین میں تمہارے لئے پیدا کیا ہے سب میں سے راہ خدا میں خرچ کرو اور خبر دار انفاق کے ارادہ سے خراب مال کو ہاتھ بھی نہ لگانا کہ اگر یہ مال تم کو دیا جائے تو آنکھ بند کئے بغیر چھوو گے بھی نہیں یاد رکھو کہ خدا سب سے بے نیاز اور سزاوار حمد وثنا بھی ہے۔(۱)

۲ - ایسی چیزوں میں سے انفاق کیا جائے جس کی لوگوں کو ضرورتہو جیسا کہ پروردگار عالم ارشادفرمارہا ہے:

( وَ یُو ثِرُوْنَ عَلیٰ اٴَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ) ( ۲)

اور اپنے نفس پر دوسروں کو مقدم کرتے ہیں چاہے انہیں کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو۔

۳- ایسے لوگوں پر انفاق کیا جائے جو سخت محتاج ہوں اور اولیت کو نظر میںرکھا جائے ۔

( لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اٴُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ) (۳)

یہ صدقہ ان فقراء کے لئے ہے جو راہ خدا میں گرفتار ہو گئے ہیں۔

۴- انفاق اگر پوشیدہ طور سے ہو تو بہتر ہے ۔

( وَاِنْ تُخْفُوْهَا وَ تُوتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ) (۴)

اوراگر (انفاق کو) چھپا کر فقیروں کے حوالے کردوگے تو یہ بھی بہت بہتر ہے ۔

۵- انفاق کے ساتھ احسان جتانااور ایذا رسانی نہ ہو ۔

( یآ اَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَاْ تُبْطِلُوْا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاٴَذیٰ ) (۵)

اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتانے اور اذیت سے برباد نہ کرو۔

۶- انفاق خلوص نیت کے ساتھ ہو ۔

( یُنْفِقُوْنَ اَمْوَاْلَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ( ۶)

اپنے اموال کو رضائے الٰہی کی طلب کے لئے خرچ کرتے ہیں۔

۷- انفاق کی جانے والی چیز کو چھوٹی اور کم اہمیت سمجھو۔

جس چیز کو انفاق کر رہے ہو اسے کم اہمیت سمجھو اگرچہ وہ ظاہراً کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو :

( ’وَلَاْ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ )

اس طرح احسان نہ کرو کہ زیادہ کے طلبگار بن جاو۔(۷)

۸- ان چیزوں میں سے انفاق کیا جائے جو محبوب اور پسندیدہ ہوں۔

( لَنْ تَنَالُواالْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ) (۸)

تم نیکی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ خدا میں خرچ نہ کرو۔

۹- کبھی بھی اپنے آپ کو مالک حقیقی تصور نہ کیا جائے بلکہ اپنے آپ کو خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ سمجھنا چاہئے ۔

( وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُسْتَخْلفِیْنَ فِیْهِ ) (۹)

اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب قرار دیا ہے۔

۱۰- انفاق حلال مال سے ہونا چاہئے اس لئے کہ خداوند صرف اسی کو قبول کرتا ہے۔

( اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ) (۱۰)

خدا صرف صاحبان تقویٰ کے اعمال کو قبول کرتا ہے۔

جوکچھ بیان کیا گیاوہ انفاق کے قبول ہونے کے شرائط میں سے چند اہم شرائط ہیں آیات و روایات میں غورو فکر کرکے دوسرے اہم شرائط اور اوصاف کو معلوم کئے جا سکتے ہیں ۔

ان میں سے بعض شرطیںواجب ہیں (جیسے احسان نہ جتانا اور اذیت نہ دینا اور ریا کاری نہ کرنا )اور کچھ شرائط کمال ہیں جیسے(اپنی ضرورت کے وقت دوسروں پر ایثار کرنا ) کہ اس کا نہ ہونا انفاق کی اہمیت کو ختم نہیں کرتا۔ اگر چہ اسے سب سے بلند درجہ پربھی قرار نہیں دیا جا سکتاہے ۔

____________________

(۱) سورئہ بقرہ:آیت۲۶۷

( ۲)سورئہ حشر:آیت۹

(۳)سورئہ بقرہ/آیت/ ۲۷۳

( ۴)سورئہ بقرہ/آیت/۲۷۱

(۵)سورئہ بقرہ /آیت۲۶۴

(۶)سورئہ بقرہ/آیت/۲۶۵

(۷)سورئہ مدثر/آیت/۶

( ۸)سورئہ آل عمران /آیت/۹۲

(۹)سورئہ حدید/آیت/۷

(۱۰) سورئہ مائدہ /آیت/۲۷

ساتویں فصل : راہ خدا میں انفاق کے سبق آموز قصے

۱.سول خدا سے سیکھیں

رسول خدا کا پیراہن پرانا ہوگیا تھا،ایک شخص نے آپ کی خدمت میںبارہ درہم ہدیہ کیا۔آپ نے وہ درہم حضرت علی (ع) کے حوالہ کیا تا کہ آپ کے لئے بازار سے ایک پیراہن لائیں۔حضرت علی (ع) نے اتنی ہی قیمت کا ایک لباس خریدا،جب آپ وہ پیراہن رسول خدا کی خدمت میں لائے توآپ نے فرمایا:یہ پیراہن بہت قیمتی ہے۔

اس سے کم قیمت کا پیراہن میرے لئے زیادہ بہتر ہوگا۔کیا تم سوچتے ہو کہ ودکاندار اسے واپس لے لے گا؟

حضرت علی (ع) نے عرض کی:نہیں معلوم۔

آپ نے فرمایا:اس کے پاس جاو شاید راضی ہوجائے؟

حضرت علی (ع) اس دوکاندار کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:رسول خدا نے فرمایا ہے کہ یہ پیراہن میرے لئے زیادہ قیمتی ہے اور میں اس سے سستا اور کم قیمت کا لباس چاہتا ہوں۔دوکاندارراضی ہوگیا اوراس نے وہ بارہ درہم واپس کردیئے۔

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں:میں درہم لے کر واپس آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوا توآپ خودمیرے ساتھ بازار تشریف لے گئے تاکہ پیراہن خریدیں۔آپ نے راستہ میں ایک کنیز کو دیکھا جوا یک گوشہ میں بیٹھی رو رہی تھی، آنحضرت(ع) اس کے قریب گئے اور رونے کا سبب دریافت فرمایا:کنیز نے کہا:یا رسول اللہ!میرے مالک نے کچھ سامان کی خریداری کے لئے مجھے بازار بھیجا تھا اور میرے پاس چار درہم تھے لیکن میں نے انھیں کھو دیا ہے۔

رسول خدا نے پیراہن کے بارہ درہم میں سے چار درہم اسے عطا فرمائے اور چار درہم کا ایک پیراہن بھی خریدا۔

واپسی میں ایک فقیر نے آپ سے لباس کا تقاضا کیا، آنحضرت نے وہ پیراہن اسے عطا کردیا اور پھر بازار واپس جاکر باقی چار درہم سے ایک دوسرا پیراہن خریدا۔جب اس جگہ پر پہنچے جہاں کنیز سے ملاقات ہوئی تھی تو دیکھا وہ ابھی تک رورہی ہے اس کے پاس گئے اور فرمایا:اب کیوںرورہی ہے؟

کنیز نے کہا مجھے گھر سے نکلے ہوئے بہت دیر ہوگئی ہے میں ڈر رہی ہوں کہ کہیں میرا مالک مجھے مارے نا !

آپ نے فرمایا:تو آگے آگے چلو اور مجھے اپنے مالک کاگھر بتا۔

رسول خداجیسے ہی گھر کے دروازہ پر پہنچے آپ نے صاحب خانہ کو سلام کیا ۔لیکن اس نے تیسری مرتبہ بھی جواب سلام نہ دیا۔رسول خدانے سلام کا جواب نہ دینے کے بارے میں سوال فرمایاتو مکان مالک نے عرض کیا:میں نے چاہا کہ آپ کا درودوسلام ہم پر زیادہ سے زیادہ ہو تاکہ نعمتوں میں اضافے اور ہماری سلامتی کا باعث بنے۔

آنحضرت نے کنیز کاواقعہ بیان فرمایااور اس سے فرمایا: کہ وہ کنیز کو معاف کردے ۔ کنیز کے مالک نے کہا:چونکہ آپ تشریف لائے ہیں اس لئے میں نے اسے آزاد کردیا۔اس وقت آپ نے فرمایا:میں اس قدر خیروبرکت والے بارہ درہم نہ دیکھے تھے۔جنہوں نے دو برہنہ شخص کو لباس اور ایک کنیز کو آزاد کرادیا۔(۱)

____________________

(۱) حیات القلوب/ج/۲،ص/۱۱۶

۲. اخلاص عمل حضرت علی - سے سیکھیں

صاحب کتاب”دررالمطالب“تحریر فرماتے ہیں:ایک دن حضرت علی (ع)نے راستہ میں ایک عورت کو دیکھا کہ جس کے بچے بھوک سے رو رہے تھے اور وہ انھیں بہلا رہی تھی۔ بچوں کو چپ کرانے کے لئے اس نے چند اینٹوں پر ایک دیگ رکھ رکھی تھی جس میں پانی کے علاوہ کچھ نہ تھا اور اس کے نیچے آگ جل رہی تھی تاکہ بچے یہ خیال کریں کہ وہ ان کے لئے کھانا پکارہی ہے اس طرح اس عورت نے ان بچوں کو سلا دیا۔

حضرت علی (ع) یہ ماجرا دیکھ کر قنبر کے ساتھ تیزی سے گھر گئے ۔کھجور کا ایک برتن ، آٹے کی ایک بوری اور تیل،چاول اپنے کاندھے پر رکھ کر وہاں واپس آئے۔قنبر نے آپ(ع) سے عرض کی کہ اجازت دیجئے تاکہ میں ان سامان کو اٹھالوںلیکن آپ(ع) راضی نہ ہوئے۔جب اس عورت کے گھر کے قریب پہنچے تو گھر میں داخل ہونے کی اجازت لے کر گھر میں داخل ہوگئے۔چاول اور تیل پتیلی میں ڈالا اور ایک اچھا کھانا تیار کردیا۔اس کے بعد بچوں کو جگایا اور اپنے ہاتھوں سے انھیں کھانا کھلایا یہاں تک کہ وہ سیر ہو گئے۔ اس کے بعد تھوڑی دیر تک ان کے ساتھ کھیلتے رہے جس سے بچے پہلے والی تکلیف بھول گئے اس کے بعد آپ(ع) گھر سے باہر تشریف لائے۔

قنبر نے عرض کی :اے میرے آقا ومولا!آج میں نے آپ سے دہ چیز مشاہدہ کیا ہے جن میں سے ایک کی علت تو جانتا ہوں لیکن دوسری کا سبب میرے لئے واضح نہیں ہے وہ یہ کہ یتیم بچوں کے سامان کو آپ(ع) نے خود اٹھایا اور اجازت نہ دی کہ میں بھی اس میں شریک ہوتا یہ کام اجرو ثواب کے حصول کے لئے تھا۔لیکن بچوں کے ساتھ کھیل کر ان کو بہلاناکس لئے تھا؟آپ(ع) نے فرمایا:میں جب ان بچوں کے پاس گیا تھا تو وہ بھوک سے رو رہے تھے ،میں نے چاہا کہ جب ان کے پا س سے واپس آوں تو وہ سیر بھی ہوچکے ہوں اور ہنس بھی رہے ہوں۔(۱)

____________________

(۱)شجرہ طوبیٰ

۳ شفاعت کی سند

خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا کی شہادت کے وقت امیرالمومنین حضرت علی (ع) نے آپ کے بستر کے پاس ایک صندوقچہ دیکھا تو آپ نے سوال فرمایایہ کیا ہے؟

جناب فاطمہ زہرا نے عرض کیا:اس صندوقچہ میں ایک سبز حریر ہے اور اس حریر کے درمیان ایک سفید صفحہ ہے اور اس صفحہ میں چند سطریں تحریر ہیں۔

حضرت علی (ع) نے فرمایا: اس کا مضمون کیا ہے؟بنت رسول نے جواب دیا:شادی کی رات میں اپنے مصلے پر بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک فقیر آیا اور اس نے لباس کا تقاضا کیا۔میرے پاس صرف دو لباس تھے ایک نیا جو اس رات زیب تن کیا تھا اور ایک پرانا جوڑا تھا۔میں نے نئے لباس کو فقیر کو دے دیا۔

صبح میرے والد بزرگوار مجھ سے ملاقات کے لئے تشریف لائے آپ نے فرمایا: فاطمہ تمہارے پاس تو نیا کپڑا تھا اسے کیوں نہیں پہنا۔میں نے عرض کیا: کیا آپ نے نہیں فرمایا ہے کہ انسان جو کچھ بھی صدقہ میں دے گا اور اس سے غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرے گا وہ اس کے لئے باقی رہے گا۔ میں نے بھی اس نئے کپڑے کو ایک فقیر کو دے دیا۔

آپ نے فرمایا:اگر تم نیاکپڑا پہنتی اور پرانے کپڑے کو فقیر کو دے دیتی تو یہ تمہارے شوہر کے لئے بھی بہتر ہوتا اور وہ فقیر بھی لباس پاجاتا۔

میں نے عرض کیاکہ اس کام میں بھی میں نے آپہی کی پیروی کی ہے اس لئے کہ میری ماں خدیجہ نے جب آپ کی خدمت کا شرف حاصل کیا اور اپنی ساری دولت آپ کے حوالہ کردیا اور آپ نے ساری دولت راہِ خدا میں عطا کردی یہاں تک کہ ایک سائل نے آپ سے ایک لباس کا مطالبہ کیا تو آپ نے اپنا لباس اسے دے دیااور ان کاموں میں آپ کے مثل کوئی نہیں ہے۔(یہ سن کر)میرے والدرو دیئے اور مجھے سینہ سے لگا لیا۔ اس وقت آپ نے فرمایا:(ابھی)جبرئیل نازل ہوئے تھے اور خدا کی جانب سے تمہیں سلام عرض کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے(کہ خداوندعالم فرماتا ہے)فاطمہ سے کہہ دیجئے وہ کہ جو کچھ بھی مجھ سے چاہتی ہیں طلب کرلیںکہ میں ان کو دوست رکھتا ہوں۔میں نے عرض کی:”یا ابتاہ شغلتنی عن المسئلة لذة خدمتہ لاحاجة لی غیر لقاء ربی الکریم فی دار السلام“بابا جان! خدا کی خدمت کی لذت اور شیرینی نے مجھے کسی دوسری چیز کے مطالبہ سے روک رکھا ہے اور خدا سے ملاقات کے علاوہ میری دوسری کوئی آرزو نہیں ہے۔

میرے والد ماجد نے اپنے دست مبارک کو آسمان کی طرف بلند کیا اورمجھے بھی حکم دیا کہ میں بھی اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کروں ۔اس کے بعد فرمایا:”اللهم اغفرلامتی “ خدایا! میری امت کو بخش دے۔

(اسی وقت)جبرئیل نازل ہوئے اور آپ کی خدمت میں عرض کی: خداوندعالم فرمارہا ہے: تمہاری امت میں سے جو لوگ فاطمہان کے شوہر اور ان کی اولاد سے محبت کریں گے میں انھیں بخش دوں گا۔

میں نے اس بات کے لئے ایک سند اور نوشتہ کا بھی مطالبہ کیا تو جبرئیل یہ سبز حریر لے کر آئے اس میں یہ لکھا ہوا ہے:”کتب ربکم علی نفسہ الرحمة“ جبرئیل ومکائیل نے بھی اس کی گواہی دی ہے۔میرے والد بزرگوار نے فرمایا:اس سبز حریر کو حفاظت سے رکھو اور وفات کے وقت وصیت کرو کہ اسے تمہارے ساتھ قبر میں دفن کر دیں۔ میں چاہتی ہوں کہ قیامت کے دن جب آتش جہنم کے شعلے بھڑک رہے ہوں گے تو تم میری امت کی بخشش کی دعاکرو۔(۱)

____________________

(۱)ریاحین الشریعہ نقل از ابن جوزی ،ص/۱۰۶

۴ دوست و دشمن پر انفاق

معلی بن خنیس کا بیان ہے کہ برسات کی ایک رات میں نے امام جعفر صادق(ع) کو دیکھا کہ اپنے گھر سے نکل کر ”ظلہ بنی ساعدہ“ (ایک سائبان جس میں بے گھر افراد گرمی اور سردی سے بچنے کے لئے پناہ لیتے تھے)کی طرف تشریف لے جا رہے ہیں۔میںخاموشی سے آپ(ع) کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔راستہ میں آپ(ع) کے دست مبارک سے کوئی چیز زمین پر گر پڑی آپ(ع) نے فرمایا:”بسم اللّٰه اللّٰهم ردّ علینا “خدا میری گمشدہ چیز کو پلٹا دے۔اس وقت میں امام(ع) کے قریب گیا اورآپ(ع) کو سلام کیا آپ(ع) نے فرمایا:-معلّیٰ تم ہو؟میں نے عرض کیا:ہاں،میں آپ(ع) پر قربان ہوجاوں۔آپ(ع) نے فرمایا:تلاش کرو اور جو کچھ بھی پاو مجھے دے دو۔میں نے زمین پر ہاتھ پھیرا،معلوم ہوا کہ بہت زیادہ روٹیاں زمین پربکھری ہوئی ہیں میں جتنی بھی پا سکااسے آنحضرت(ع) کی خدمت میں پیش کردیا۔میں نے دیکھا کہ روٹیوں سے بھرا ہوا ایک بہت بڑا تھیلا ہے جواتنا وزنی ہے کہ اس کا اٹھانا میرے لئے دشوار ہے۔

میں نے عرض کیا:اجازت دیجئے میں اٹھا لوں!آپ(ع) نے فرمایا:میں اس کے اٹھانے کا زیادہ حقدار ہوں۔لیکن تم میرے ساتھ آو تاکہ ایک ساتھ ظلہ بنی ساعدہ چلیں۔جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جو وہاں سو رہے تھے۔امام جعفر صادق(ع) ہر ایک کے پاس ایک ایک یا دو دو روٹی رکھتے جاتے تھے۔اس طرح سے آپ(ع) نے سب پر روٹی تقسیم کر،(اس کے بعد)ہم لوگ ظلہ بنی ساعدہ سے باہر آئے۔میں نے عرض کیا:کیا یہ لوگ حق کو پہچانتے ہیں(اور شیعہ ہیں؟)آپ(ع) نے فرمایا:اگر حق کو پہچاننے والے ہوتے تو میں انھیں اپنے گھر کے نمک میں بھی شریک کرتا۔(اے معلی!)جان لوکہ خداوندعالم نے کسی چیز کو بھی خلق نہیں کیا ہے ۔جو اس کا محافظ اور نگہبان ہے۔میرے والد ماجد(امام محمد باقر(ع))جب بھی صدقہ دیتے تھے اورکوئی چیز بھی سائل کے ہاتھ میں رکھتے تھے تو اسے واپس اٹھالیتے تھے اسے چومتے اور سونگھتے تھے اس کے بعد دوبارہ سائل کے ہاتھ میںدے دیتے تھے۔رات میں صدقہ دینا خد اکے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے،گناہوں کو محوکردیتا ہے۔روز قیامت کے حساب وکتاب کو آسان بنا دیتا ہے اور دن میں صدقہ دینا مال اور عمر میں اضافے کا باعث ہے۔حضرت عیسیٰ بن مریم(ع) دریا کے کنارے سے گذرتے تھے تو اپنے کھانے میں سے ایک روٹی دریا میں ڈال دیتے تھے۔ایک حواری نے آپ(ع) سے عرض کی :آپ(ع) نے ایسا کیوں کرتے ہیں جبکہ روٹی آپ(ع) کا کھانا ہے؟آپ(ع) نے فرمایا:میں نے یہ روٹی دریا میں اس لئے ڈالی ہے وہ کسی دریائی جانور کا حصہ بنے۔خدا کے نزدیک اس کام کا بہت بڑا اجر وثواب ہے۔(۱)

____________________

(۱)فروع کافی جلد/۴ ،ص/۹

۵ بھوکے جانور پر انفاق

ایک سال قحط میں جبکہ لوگ بہت زیادہ سختی اور پریشانی میں مبتلا تھے ایک دینی طالب علم نے دیکھا کہ ایک کتیا زمین پرلیٹی ہے اور اس کے بچے اس کے دودھ سے چپکے ہوئے ہیں۔کتیا زمین سے اٹھنا چاہتی ہے لیکن کمزوری کی وجہ سے نہیں اٹھ پاتی وہ اپنی طاقت وقوت کو کھو بیٹھی ہے۔طالب علم کو اس جانور کی یہ حالت دیکھ کر بہت رحم آیا۔اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جو اس جانور کو دیتا مجبوراً اپنی کتاب کو بیچا اور اس کے پیسہ سے روٹی خرید کر کتیا کے سامنے رکھ دیا۔

کتیا نے آسمان کا رخ کیا اس کی آنکھوں سے آنسو کا قطرہ ٹپکا گویا وہ طالب علم کے لئے دعا کر رہی تھی۔رات میں اس طالب علم نے خواب میں دیکھا کہ اس سے کوئی کہہ رہا ہے:”انا اعطیناک من لدنا علماً“ میں نے تمہیں اپنے پاس سے علم عطا کیا۔اس طالب علم نے بھی اپنے اندر بہت زیادہ علم کا احساس کیا جس کے نتیجہ میں اسے زیادہ پڑھنے اور مطالعہ کرنے کے رنج و مشقت کی ضرورت نہ تھی(۱)

____________________

( ۱)مجمع النورین/ص/۲۷

۶. خشک سالی

سید نعمة اللہ جزائری،جلیل القدر عالم دین اور مقدس اردبیلی کے شاگرد کہتے ہیںایک خشک سالی میں میرے استاد نے کھا نے کے لئے گیہوں وغیرہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہوتاتھا فقیروں میں تقسیم کردیتے تھے اور اپنے گھر والوں کے لئے بھی فقیروں کی طرح ایک حصہ بچاتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک دن ان کی بیوی کافی غصہ ہوگئی اوراس نے استاد کے اس کام پر اعتراض کیاکہ آپ تو اپنے بچوں کا بھی خیال نہیں رکھتے اور جو کچھ بھی ہے فقیروں میں تقسیم کردیتے ہیں۔

استاد اس اعتراض کی وجہ سے گھر سے کنارہ کشی کر لیتے ہیں اور مسجد کوفہ میں اعتکاف کے لئے بیٹھ جاتے ہیں۔اعتکاف کے دوسرے دن ایک شخص ان کے دروازہ پر آتا ہے اور بہت اچھے قسم کے گیہوںاور آٹے کی چند بوریاں ان کے لئے لاتا ہے اور کہتا ہے اسے آقا نے بھیجا ہے۔

مقدس اردبیلی کی واپسی پر ان کی زوجہ نے کہا:جو گیہوں آپ نے بھیجا ہے بہت اچھا ہے۔استاد نے کہا:میں نے اس طرح کے مرد عربی کو کبھی نہیں دیکھا ہے اور مجھے اس کی کوئی خبر بھی نہیں ہے اور نہ ہی میں نے یہاں گیہوں بھیجا ہے!مقدس اردبیلی نے اس خدائی تحفہ پر اس کا شکر ادا کیا۔

۷. صدقہ دے کر بلائیں دور کیجئے

امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں:ایک یہودی اس مقام سے گذر رہا تھا جہاں رسول خدا اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرماتھے اس یہودی نے کہا:”

السام علیک“

آنحضرت نے جواب دیا:”علیک“(تم پر ہو)

اصحاب نے عرض کیا:اس یہودی نے توکہا ہے کہ آپ کو موت آجائے۔(سام موت کے معنی میں ہے)

آپ نے فرمایا:میں نے بھی کہا کہ ”تم پر ہو“

اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا:آج اس مرد کو ایک کالا سانپ ڈسےگا اور وہ مر جائے گا۔وہ یہودی وہاں سے چلا گیا اوربیابان سے لکڑیاں جمع کرکے ایک بڑا بوجھ بنایا اور زیادہ دیر نہ گذری کہ وہ واپس آگیا۔جب وہ رسول خدا کے پاس سے گذرنا چاہ رہا تھا تو آپ نے اس سے فرمایا:ذرااس لکڑیوںکے ڈھیر کو زمین پر رکھو۔ اس نے لکڑیوں کو زمین پر رکھ دیا۔اصحاب نے دیکھا کہ ایک کالا سانپ ایک لکڑی کو دانتوں سے پکڑے ہوئے ڈس رہا ہے۔

آنحضرت نے اس یہودی سے سوال کیا:آج تم نے کو ن سا نیک کام انجام دیا ہے؟اس نے کہا:میں نے کوئی خاص کام نہیں کیا ہے۔میں لکڑیاں جمع کررہا تھا اور میرے پاس دو روٹیاں تھیں ایک میں نے خود کھالی اور ایک فقیر کو دے دی۔آنحضرت نے فرمایا:آج تم نے اس صدقہ کے ذریعہ اپنی موت کو دور کیا ہے۔

اس کے بعد آپ نے ارشادفرمایا:”الصدقة ترفع میتة السوء عن الانسان “ صدقہ انسان سے ناگہانی اور ناگوار موت کو پلٹا دیتا ہے۔(۱)

____________________

(۱)فروع کافی/ج/۴،ص/۵

۸. اولیائے خدا سے محبت کا نتیجہ

شہر ربیعہ میں یوسف بن یعقوب نامی ایک مالدار زندگی بسر کرتا تھا ۔کسی نے متوکّل عباسی سے کی چغلخوری کردی۔متوکّل نے اسےسامرہ بلا لیاتاکہ اسے سزا دے۔یوسف سامرہ آتے وقت راستہ میں بہت پریشان تھا۔جب سامرہ کے قریب پہنچا تو اس نے اپنے آپ سے کہا کہ میں اپنے آپ کو سو اشرفی میں خدا سے خریدتا ہوں اگر مجھے متوکّل سے کوئی تکلیف نہ پہنچی تو میں ان اشرفیوں کو”ابن الرض(ع)“(امام محمد تقی)(ع) کی خدمت میں پیش کروں گا ۔جن کو خلیفہ نے مدینہ سے سامرہ بلاکر خانہ نشین کردیا ہے اور میں نے سنا ہے کہ وہ اقتصادی اعتبار سے بہت زیادہ سختی میں ہےں۔

وہ جیسے ہی سامرہ کے دروازہ پر پہنچااس نے اپنے آپ سے کہا بہتر ہے کہ متوکّل کے پاس جانے سے پہلے سو دینار مول(ع)کی خدمت میں لے جاوں لیکن وہ آپ (ع) کا گھر ہی نہیں جانتاتھا،سوچا اگر کسی سے آپ(ع) گھر کا پتہ معلوم کرتا ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بات متوکّل کو معلوم ہوجائے کہ میں ”ابن الرض(ع)“ کے گھر کی تلاش میں تھا تو وہ اور زیادہ غضبناک ہوجائے گا۔

وہ کہتا ہے کہ اچانک میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ میں اپنی سواری کو آزاد چھوڑدوں ممکن ہے خدا کے لطف وکرم سے بغیر کسی سے معلوم کئے امام کے گھر پہنچ جاوں۔وہ کہتا ہے کہ میں نے اپنی سواری کو آزاد چھوڑدیا وہ گلیوں اور بازاروں سے گذرتی ہوئی ایک گھر کے دروازے پر جاکر رک گئی میں نے بہت کوشش کی لیکن وہ وہاں سے آگے نہ بڑھی۔میں نے ایک شخص سے پوچھا یہ کس کا گھر ہے؟اس نے جواب دیا یہ”ابن الرض(ع)“ رافضیوں کے امام کا گھر ہے۔میں نے کہا کہ ان کی عظمت وشرافت کے لئے یہی کافی ہے کہ انھوں نے بغیر سوال کے میری سواری کو اپنے دروازے پر لاکر کھڑا کردیا۔

میں اسی فکر میں تھا کہ ایک سیاہ پوست غلام گھر سے باہر آیا اور کہا: تم ہی یوسف بن یعقوب ہو؟میں نے جواب دیا: ہاں۔غلام نے کہا:سواری سے اترو:وہ مجھے گھر کے اندر لے گیا اور خود ایک کمرہ میں چلا گیا۔میں نے اپنے آپ سے کہاکہ یہ دوسری دلیل ہے کہ جس غلام نے مجھے آج تک دیکھا ہی نہیں وہ کیونکر میرے نام سے آگاہ تھا۔ میں تو ابھی تک اس شہر میں بھی نہیں آیا تھا؟!

غلام دوبارہ آیا اور اس نے کہا:جن سو اشرفیوں کو تونے اپنی آستین میں چھپا رکھا ہے لاواسے دے دو۔میںنے اپنے آپ سے کہا:یہ ہوئی تیسری دلیل۔غلام گیا اور فوراً پلٹ آیا اور اس نے مجھ سے گھر کے اندرونی حصہ کی طرف جانے کو کہا۔ میں نے اپنے خچر کووہیں باندھا اور گھر میں داخل ہوگیا۔میں نے دیکھا کہ ایک شریف اور با عظمت شخص تشریف فرما ہیں۔انہوں نے فرمایا:اے یوسف! کیا تونے اتنی دلیلیں نہیں دیکھیںکہ اسلام لے آو؟میں نے کہا: میں نے یہ اندازہ کافی مشاہدہ کیا ہے۔آپ(ع) نے فرمایا:افسوس کہ تو مسلمان نہ ہوگا لیکن تیرا بیٹا اسحاق مسلمان ہوجائے گا اور وہ میرے شیعوں میں سے ہو گا۔اے یوسف! بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہماری محبت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔خدا کی قسم ایسا نہیںہے بلکہ جو بھی ہم سے محبت کرے گا وہ اس کا فائدہ دیکھے گا۔چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم! اب تم مطمئن ہو کر متوکّل کے پاس جاو اور ذرا بھی نہ گھبراو،تمہیں اس سے کوئی تکلیف نہ پہنچے گی۔جب تم شہر میں داخل ہوئے تو خداوندعالم نے تمہارے لئے ایک ملک کو معین کیا جوتمہارے خچر کی راہنمائی کررہا تھا اور اسے میرے گھر تک لے آیا۔

یوسف بن یعقوب کے بیٹے اسحاق نے جب اپنے باپ کی واپسی پر ماجرا سنا تو وہ مسلمان ہوگیا۔لوگوں نے امام (ع) سے اس کے باپ کے بارے میں سوال کیا توآپ(ع) نے فرمایا:اگر چہ وہ مسلمان نہیں ہوا اور جنت میں نہ جا سکے گالیکن وہ ہم سے محبت کا نتیجہ اور فائدہ ضرور دیکھے گا-(۱)

____________________

(۱)مجمع النورین نقل از خرائج وبحار الانوار/ج/۱۲))

۹. عالم اور محتاج پڑوسی

عظیم الشان عالم دین اور فقیہ علامہ سید جواد عاملی نجفی صاحب کتاب”مفتاح الکرامہ“ بیان کرتے ہیں:

ایک رات میں کھانا کھا رہا تھا کہ یکایک کسی نے دق الباب کیامیں سمجھ گیا کہ وہ جناب علامہ سید بحرالعلوم کا خادم ہے۔ میں نے جلدی سے دروازہ کھولا،سید کے خادم نے کہا:آقا کا رات کا کھانا تیار ہے اور میں نے ان کے سامنے کھانا لگادیا ہے،اور وہ آپ کے منتظر ہیں۔ جلدی چلئے ۔میں خادم کے ساتھ ساتھ سیدعلامہ بحرالعلوم کے گھر گیا ۔جیسے ہی سید کی خدمت میں پہنچا اور ان کی نگاہ مجھ پر پڑی تو انھوں نے فرمایا:تم خدا سے نہیںڈرتے کہ اس کی دیکھ بھال نہیں کرتے؟

میں نے سوال کیا:کیا ہوا ہے؟انہوں نے کہا:تمہارا ایک بھائی ہر رات اپنے گھر والوں کے لئے کم قیمت والا کھجور قرض پر لیتا تھا اور اس کی مالی حالت اتنی خراب ہے کہ وہ کوئی دوسری چیز نہیں خرید سکتا۔آج سات دن گذر چکے ہیں اور انھوں نے کم قیمتی کھجور کے علاوہ کچھ نہیں کھایا ہے۔وہ آج بھی دوکاندار کے پاس گیا تاکہ وہی کھجور خرید ے لیکن دوکاندار نے کہا کہ تمہارا قرض بہت زیادہ ہوچکا ہے۔وہ شخص شرما گیا اور بغیر کچھ خریدے گھر واپس آگیا،آج اس نے اور اس کے خانوادہ نے بغیرکچھ کھانے کے رات گذاری ہے لیکن تم اچھے اچھے کھانے کھا رہے ہو۔میں تمہارے ایک پڑوسی کی بات کررہا ہوں۔اس کے بعد انہوں نے اس کا نام لیا۔

میں نے عرض کیا:مجھے اس کی حالت کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔سید بحر العلوم نے فرمایا:اگر تمہیں خبر ہوتی اورتم اس کی مدد نہ کرتے تو تم یہودی بلکہ کافر ہوتے۔میرا غصہ اس بات پر ہے کہ تم اپنے دینی بھائیوں کے حالات کیوں نہیں معلوم کرتے اور اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری کیوں نہیں کرتے؟

ابھی میرا خادم کھانے کے ان برتنوں کو اٹھاتا ہے اور تم اس کے ساتھ اس شخص کے گھر جاو اور اس سے کہومیں چاہتا ہوں کہ آج رات ہم ایک ساتھ کھانا کھائیں۔اور اس تھیلی میں ایک مقدار پیسہ ہے اسے اس کے چٹائی کے نیچے رکھ دینا اور برتنوں کو واپس نہ لانا۔خادم نے برتنوں کو ایک بڑی سی سینی میں رکھ کر اٹھایا اور اس کے گھر کے دروازہ تک لے گیا اور وہیں سے واپس ہوگیا۔میں نے دق الباب کیا پڑوسی نے دروازہ کھولا میں گھر میں داخل ہوا اورمیں نے کہا میں چاہتا ہوں کہ آج رات ہم سب ایک ساتھ کھانا کھائیں۔اس نے بھی قبول کرلیا۔جب اس نے سینی کو اپنی طرف کھینچا تودیکھا کہ کھانے کی بہت ہی اچھی خوشبو آرہی ہے اور یہ مالداروں کا کھانا لگ رہا ہے۔

اس شخص نے مجھ سے کہایہ کھانا کسی معمولی آدمی کے یہاں کا نہیں ہے بلکہ کسی مالدار آدمی کے گھر کا معلوم ہوتا ہے۔پہلے اس کا قصہ بیان کرو۔پھر میں کھاوں گا۔اس نے اتنا اصرار کیا کہ مجھے ماجرا بیان کرنا پڑا۔اس نے قسم کھائی اور کہا:خدا کے علاوہ ابھی تک کوئی دوسرامیرے حال سے واقف نہیں تھا۔یہاں تک کہ قریبی پڑوسی بھی نہیں جانتے تو دوسروں کی کیا بات اوراس نے اس واقعہ کو سید بحرالعلوم کی ایک کرامت شمار کیا۔

۱۰ یتیموں کے ساتھ نوازش

شیخ بہائی نے اپنی کتاب کشکول میںیہ واقعہ تحریر کیا ہے :بصرہ کے اطراف میں ایک شخص اس دار فانی سے کوچ کر گیاتھا اور چونکہ وہ گناہوں میںاتنا زیادہ ملوث تھا کہ کوئی بھی اس کی تشییع جنازہ کے لئے تیار نہ ہوا۔اس کی بیوی نے کچھ لوگوں کوکرایہ پر لیا اور وہ جنازہ کو نماز جنازہ کے مقام تک لے گئے لیکن کسی نے اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھی آخر کار اسے دفن کرنے کے لئے شہر سے باہر لے گئے۔

اسی اطراف میں ایک مرد زاہدبھی رہتا تھا اور وہ بہت مشہور تھا لوگ اس کی سچائی اور پاکدامنی پر بھروسہ کرتے تھے۔لوگوں نے دیکھا کہ وہ مرد زاہد اس جنازہ کا منتظر ہے۔جیسے ہی جنازہ کو زمین پر رکھا ،وہ قریب آیا اور اس نے کہا کہ نماز جنازہ کے لئے تیار ہو جاو اور اس نے خود نماز جنازہ پڑھائی۔زیادہ دیر نہ گذری تھی کہ یہ خبر شہر میں پہنچ گئی۔لوگ ماجرا معلوم کرنے اور زاہد سے عقیدت کی بنا پر ثواب حاصل کرنے کی غرض سے گروہ گروہ آتے تھے اور اس جنازہ پر نما زپڑھتے تھے۔سب اس واقعہ سے حیرت زدہ تھے۔آخر کار لوگوں نے اس زاہد سے پوچھا کہ آپ نے کیسے اس جنازہ کے آنے کے بارے میں اطلاع حاصل کی؟

مر دزاہد نے کہا:میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھ سے کہا جارہا ہے کہ جاو اور فلاں جگہ پر کھڑے ہوجاو وہاں ایک جنازہ لائیں گے جس کے ساتھ صرف ایک عورت ہو گی ۔اس جنازہ پر نماز پڑھو کہ اسے بخش دیا گیا ہے۔زاہد نے اس عورت سے دریافت کیا کہ تمہارا شوہر کون سا نیک عمل انجام دیتا تھا جس کی وجہ سے اسے معاف کردیا گیا ہے؟

عورت نے کہا:وہ تو رات ودن گناہوں میں ملوث رہتا تھا۔زاہد نے پوچھا کہ کیا کوئی نیک کام بھی کرتا تھا؟اس نے جواب دیا:ہاں ! وہ تین نیک کام انجام دیتا تھا:

۱ ۔رات میں جب بھی مستی سے ہوش میں آتا تھا تو گریہ کرتا تھا اور کہتا تھا:خدا تو مجھے جہنم کے کس گوشہ میں جگہ دے گا؟!

۲ ۔جب صبح ہوتی تھی تو کپڑا بدلتا، غسل کرتا اور وضو کرکے نماز ادا کرتا تھا۔

۳ ۔اس کا گھر کھبی بھی دو تین یتیموں سے خالی نہیں رہتا تھاوہ یتیموں سے اتنی محبت اور شفقت کرتا تھا کہ جتنی اپنے بچوں سے بھی نہیں کرتا تھا۔(۱)

____________________

(۱)شجرہ طوبیٰ/ج/۲،ص/۲۷۸