وحی اور نبوت

وحی اور نبوت0%

وحی اور نبوت مؤلف:
زمرہ جات: نبوت

وحی اور نبوت

مؤلف: شھید مرتضی مطھری
زمرہ جات:

مشاہدے: 6996
ڈاؤنلوڈ: 4234

تبصرے:

وحی اور نبوت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6996 / ڈاؤنلوڈ: 4234
سائز سائز سائز
وحی اور نبوت

وحی اور نبوت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

نام کتاب:وحی اور نبوت

مصنّف:شہید ڈاکٹر مرتضی مطہری

عمومی ہدایت

وحی و نبوت پر اعتقاد دنیا اور انسان کے بارے میں ایک طرح کی بصیرت و آگاہی سے پیدا ہوتا ہے یعنی تمام مخلوقات کے لئے ہدایت و رہنمائی کے اصول کی معرفت سے عمومی ہدایت کا اصول اسلامی اور توحیدی تصور کائنات کا لازمہ ہے اسی لئے نبوت پر اعتقاد اس تصور کائنات کا لازمہ ہے۔ خدا تعالیٰ اس اعتبار سے کہ واجب الوجود بالذات ہے اور واجب الوجود بالذات تمام جہتوں سے واجب ہے‘ وہ فیاض علی الاطلاق ہے اور انواع موجودات میں سے ہر نوع کو جس حد تک وہ لیاقت رکھتی ہے اور اس کے لئے ممکن ہے اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے اور تمام موجودات کو ان کی راہ پر ہدایت کرتا ہے۔ یہ ہدایت تمام موجودات پر محیط ہے۔ چاہے کوئی وجود معمولی ترین اور چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ہو یا بڑے سے بڑا ستارہ اور ایک نہایت معمولی ترین بے جان وجود سے لے کر اعلیٰ ترین اور ترقی یافتہ جاندار تک جسے ہم پہچانتے ہیں یعنی انسان‘ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جس طرح انسانوں کی ہدایت کے لئے لفظ وحی استعمال کیا ہے‘ اسی طرح جمادات‘ نباتات اور حیوانات کی ہدایت کے لئے بھی استعمال کیا ہے۔

اس دنیا میں کوئی بھی وجود ایک جیسا اور ثابت و قائم نہیں ہے بلکہ وہ ہمیشہ اپنی منزل اور مقام کو بدلتا رہتا ہے اور ایک مقصد کی طرف رواں دواں ہے۔

دوسری طرف تمام قرآئن و علامات سے پتہ چلتا ہے کہ ہر وجود میں جس طرف وہ بڑھ رہا ہے اس منزل کی طرف بڑھنے کا رجحان اور میلان اس میں پایا جاتا ہے‘ یعنی تمام موجودات اپنی ذات میں موجود پوشیدہ قوتوں کے ذریعے اپنے مقصد کی طرف کھنچی چلی جا رہی ہیں۔ یہ وہی قوت ہے‘ جسے ”الٰہی ہدایت“ سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ قرآن کریم حضرت موسیٰ کا قول نقل کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے زمانے کے فرعون سے کہا تھا:

( ربنا الذی اعطی کل شئی خلقه ثم هدی ) (طہٰ ۵۰)

”میرا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو ویسا وجود بخشا جو اس کے لائق تھا اور پھر اس وجود کو اس کی راہ پر چلنے کی ہدایت کی۔“

ہماری دنیا ایک بامقصد دنیا ہے یعنی اس کائنات کے تمام موجودات کے اندر اپنے ہدف کمال کی طرف بڑھنے کی کشش موجود ہے اور بامقصد ہونے سے مراد ”ہدایت الٰہی“ ہی ہے۔ قرآن کریم میں لفظ ”وحی“ کا متعدد بار ذکر ہوا ہے۔ اس لفظ کے استعمال کی شکل اور اس کے استعمال کے مختلف مقامات سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن اس لفظ کو صرف انسان کے لئے محدود نہیں کرتا بلکہ تمام اشیاء اور کم از کم زندہ موجودات میں اسے جاری و ساری سمجھتا ہے۔ اسی لئے شہد کی مکھی کے بارے میں بھی وحی کے لفظ کا استعمال کیا ہے البتہ وحی و ہدایت کے درجات مخلوقات کی ترقی و کمال کے اعتبار سے جدا ہیں۔

وحی کا بلند ترین درجہ وہی ہے جو پیغمبروں سے مربوط ہوتا ہے۔ یہ وحی اس ضرورت کی بنیاد پر ہوتی ہے جس کے لئے نوع انسانی ہدایت الٰہی کی محتاج ہوتی ہے جو ایک طرف تو انسان کو ایسے مقصد کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو محسوسات و مادیات کے افق سے ماوراء ہے اور بہرحال انسان کے لئے ایک گزرگاہ ہوتی ہے اور دوسری طرف اجتماعی زندگی میں بشر کی اس ضرورت کو پورا کرتی ہے جس کے تحت وہ ہمیشہ ایسے قانون کا محتاج ہوتا ہے جو الٰہی ضمانت کا حامل ہو‘ اس سے قبل ہم ”مکتب“ اور ”آئیڈیالوجی“ کی بحث میں بیان کر چکے ہیں کہ انسان کو ایک کمال آفرین آئیڈیالوجی کی ضرورت ہے لیکن وہ خود اس کی تدوین و تنظیم کی قوت نہیں رکھتا‘ انبیاء بشریت کے لئے ایک ریسیور کی مانند عالم غیب سے اس قسم کا علم آگہی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس صلاحیت سے خدا کے سوا کوئی واقف نہیں ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:

( اللّٰه اعلم حیث یجعل رسالة) ( سورہ انعام‘ آیت ۱۲۴)

ہرچند وحی انسانوں کے حس و تجربہ کی پہنچ سے بالاتر ہے لیکن اس قوت کو دوسری بہت سی قوتوں کی مانند اس کے آثار کے ذریعے پہچانا جا سکتا ہے۔ وحی الٰہی‘ حامل وحی یعنی پیغمبر کی شخصیت میں بہت حیرت انگیز طریقے سے اثرانداز ہوتی ہے۔ وحی حقیقت میں اسے ”بعوث“ کر دیتی ہے یعنی اس کی قوتوں کو ابھارتی ہے اور اس میں نہیات عظیم و عمیق انقلاب وجود میں لے آتی ہے‘ یہ انقلاب بشریت کی بھلائی‘ رشد و ہدایت اور اصلاح و درستی کی سمت میں نمودار ہوتا رہا ہے‘ حقیقت پسندی کے ساتھ عمل کرتا ہے اور پیغمبر میں ایک بے نظیر و بے مثل قاطعیت کا عنصر پیدا کر دیتا ہے۔ تاریخ نے آج تک انبیاء اور ان کے تربیت یافتہ افراد کے اطمینان و یقین جیسا اطمینان و یقین کسی اور میں پیش نہیں کیا۔

انبیاء کی خصوصیات

انبیاء الٰہی جو وحی کے ذریعے مبداء اور سرچشمہ ہستی سے رابطہ برقرار کرتے ہیں ان کے کچھ امتیازات اور اوصاف ہوتے ہیں جن کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جا رہا ہے۔

۱ ۔ اعجاز

جو پیغمبر بھی اللہ کی جانب سے مبعوث ہوتا ہے وہ غیر معمولی قوت کا حامل ہوتا ہے اسی غیر معمولی قوت و طاقت کے ذریعے وہ ایک یا کئی ایسے کام انجام دیتا ہے جو انسانی طاقت سے بالاتر ہوتے ہیں اور اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان امور کو انجام دینے والا غیر معمولی الٰہی طاقت کا حامل ہے یہ بات اس کی دعوت کے برحق ہونے اور اس کی باتوں کے آسمانی ہونے کی دلیل بھی ہے۔

قرآن کریم ان غیر معمولی امور کے آثار کو کہ جنہیں پیغمبروں نے اپنے دعوے کی سچائی پر گواہی کے طور پر پیش کیا ہے۔ ”آیت“ یعنی نبوت کی علامت اور نشانی کہتا ہے۔ مسلمان متکلمین اس اعتبار سے کہ ایسی علامت دوسرے تمام افراد کی عجز و ناتوانی کو ظاہر کرتی ہے‘ اسے معجزہ کہتے ہیں۔ قرآن مجید نقل کرتا ہے کہ ہر زمانے کے لوگوں نے اپنے دور کے انبیاء سے ”آیت“ اور معجزے کا تقاضا کیا ہے اور ان پیغمبروں نے اس تقاضے اور مطالبے کا جو منطقی اور معقول بھی تھا‘ اس لئے مثبت جواب دیا کہ یہ حقیقت کی تلاش کرنے والے لوگوں کی طرف سے ہوتا تھا اور ان لوگوں کے لئے معجزے کے بغیر پیغمبر کو پہچاننے کا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا۔ لیکن اگر معجزے کا تقاضا حقیقت کی تلاش کے بجائے کسی اور مقصد سے ہوتا مثلاً کسی معاملے کی صورت میں لوگوں کی طرف سے یہ خواہش کی جاتی‘ اگر آپ فلاں کام انجام دیں گے تو ہم اس کے بدلے میں آپ کی دعوت کو قبول کر لیں گے تو انبیائے الٰہی اس کام کو انجام دینے سے انکار کر دیتے۔ قرآن کریم نے انبیاء کے بہت سے معجزات کو بیان کیا ہے مثلاً مردے کو زندہ کرنا‘ لاعلاج بیمار کو شفا دینا‘ گہوارے میں باتیں کرنا‘ عصا کو اژدھے میں تبدیل کرنا اور غیب و آئندہ کی خبر دینا۔

۲ ۔ عصمت

انبیاء کی خصوصیات میں سے ایک عصمت ہے۔ عصمت یعنی گناہ و خطا سے محفوظ یعنی انبیائے کرام نہ تو نفسانی خواہشات کے زیراثر آتے ہیں جس کی وجہ سے گناہ کے مرتکب ہوتے ہوں اور نہ ہی اپنے کاموں اور فرائض کی ادائیگی میں خطا و غلطی سے دوچار ہوتے ہیں۔ انبیاء کی گناہ و خطا سے دوری انہیں انتہائی اعتماد کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ گناہوں سے ان کی معصومیت کس نوعیت کی ہے؟ مثلاً کیا ان کی عصمت کا یہ معنی ہے کہ جب بھی وہ چاہیں کسی گناہ کے مرتکب ہوں تو ایک غیبی طاقت ان کے سامنے آ جاتی ہے انہیں وہ اس شفیق باپ کی مانند جو اپنے فرزند کو خطا و غلطی نہیں کرنے دیتا‘ گناہ کرنے سے روک دیتی ہے؟ یا یہ کہ انبیاء کی طینت و خلقت اس طرح کی ہوتی ہے کہ نہ تو ان میں گناہ کا امکان ہے اور نہ ہی خطا اور غلطی کا‘ بالکل اسی طرح جیسے ایک فرشتہ اس دلیل کی بناء پر غلطی نہیں کرتا کہ وہ ذہن سے عاری ہے یا یہ کہ پیغمبروں کے گناہ نہ کرنے کی وجہ ان میں پائی جانے والی بصیرت اور ایک طرح کا درجہ یقین و ایمان ہے۔ بے شک ان تمام صورتوں میں یہی تیسری صورت صحیح ہے۔ اب ہم ان دونوں قسم کی معصومیت کا علیحدہ علیحدہ ذکر کرتے ہیں:

گناہ سے محفوظ رہنا

انسان ایک باختیار موجود ہے اور اپنے کاموں کو اپنے فائدوں اور نقصانات‘ مصلحتوں اور خرابیوں کی تشخیص کی بنیاد پر انجام دیتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ”تشخیص“ کاموں کے اختیار و انتخاب میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ امر محال ہے کہ انسان کسی ایسے کام کا اپنے لئے انتخاب کرے‘ جس میں اس کی اپنی تشخیص کے مطابق ایک طرف تو کسی قسم کا فائدہ نہیں ہے دوسری طرف اس میں نقصان ہی نقصان ہے مثلاً ایک عقل مند انسان جسے اپنی زندگی سے محبت ہو کبھی جان بوجھ کر اپنے آپ کو پہاڑ کی چوٹی سے نہیں گرائے گا یا مہلک زہر نہیں کھائے گا۔

لوگ اپنے ایمان اور گناہوں کی اجرت و نتائج پر توجہ رکھنے کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کا ایمان جتنا زیادہ قوی ہو گا اور گناہوں کے خطرناک نتائج کی طرف توجہ جتنی شدید ہو گی‘ گناہوں سے وہ اتنا ہی دور رہیں گے اور کم ہی گناہ کا ارتکاب کریں گے۔ پس اگر درجہ ایمان شہود و عیاں کے درجے تک پہنچ جائے یعنی اس حد تک کہ آدمی گناہ کرنے کا ارادہ کرتے وقت اپنے آپ کو اس شخص کی مانند سمجھے جو دیدہ دانستہ اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا رہا ہے یا مہلک زہر پی رہا ہے‘ تو ایسی صورت میں ارتکاب گناہ کا امکان صفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے یعنی وہ ہرگز گناہ کی طرف رخ بھی نہیں کرتا۔ ایسی ہی حالت کو ہم عصمت یعنی گناہوں سے محفوظ رہنا کہتے ہیں۔ پس گناہ سے محفوظ رہنے کا تعلق کمال ایمان اور شدت تقویٰ سے ہے۔ لہٰذا انسان کو درجہ عصمت پر فائز ہونے کے لئے اس چیز کی ضرورت نہیں ہے کہ ایک خارجی اور غیبی قوت جبراً اسے گناہ سے باز رکھے یا معصوم شخص اپنی سرشت و خلقت کی بنیاد پر ایسا ہو کہ اس سے گناہ کی قوت یا خواہش ہی چھین لی گئی ہو۔ اگر کوئی انسان گناہ پر قادر ہی نہ ہو یا ایک جبری قوت اسے ہمیشہ گناہ کرنے سے باز رکھتی ہو تو اس کے لئے گناہ نہ کرنا کوئی کمال کی بات نہیں ہو گی‘ کیوں کہ ایسی صورت میں وہ ایک ایسے انسان کی مانند ہو گا جو کسی قید خانے میں بند ہو اور خلاف قانون کام کرنے پر قادر ہی نہیں ہے‘ ایسے انسان کا نافرمانی نہ کرنا اس کے نیک کردار اور امین ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔

خطا اور غلطی سے محفوظ رہنا

خطا سے پاک ہونا بھی انبیاء کی ایک طرح کی بصیرت و آگاہی کا نتیجہ ہے۔ خطا ہمیشہ اس صورت میں سرزد ہوتی ہے‘ جب انسان اپنی اندرونی یا بیرونی حس کے ذریعے کسی حقیقی شے سے ارتباط برقرار کرتا ہے اور اپنے ذہن میں اس حقیقت کی مختلف صورتیں بنا لینے کے بعد اپنی عقلی قوت کے ذریعے ان صورتوں کا تجزیہ کرتا ہے یا آپس میں انہیں ترکیب دیتا ہے اور ان میں انواع و اقسام کے تصرفات کرتا ہے۔ اس کے بعد جب وہ اپنی ذہنی صورتوں کو خارجی حقائق پر منطبق کرتا ہے اور انہیں ترتیب دیتا ہے تو اس وقت کبھی کبھی غلطی یا خطا سرزد ہوتی ہے لیکن جہاں انسان براہ راست عینی حقائق کے ساتھ ایک خاص حس کے ذریعے رابطہ برقرار کر لے اور ادراک حقیقت بعینہ واقعیت و حقیقت سے متصل ہونا ہو نہ کہ ذہنی صورت حقیقت و واقعیت سے متصل ہو تو ایسی صورت میں خطا یا غلطی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انبیائے الٰہی بھی باطنی طور پر حقیقت ہستی سے رابطہ رکھتے ہیں لہٰذا حقیقت و واقعیت کے ادراک میں ان سے غلطی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً اگر ہم تسبیح کے سو دانوں کو کسی برتن میں ڈال دیں اور پھر دوسرے سو دانے بھی اسی برتن میں ڈال دیں اور سو مرتبہ اس عمل کو دہرائیں تو ممکن ہے ہمارا ذہن خطا سے دوچار ہو جائے اور ہم یہ خیال کرنے لگیں کہ ہم نے یہ عمل ۹۹ مرتبہ دہرایا ہے یا ایک سو ایک مرتبہ ایسا کیا ہے لیکن اصل حقیقت میں کمی یا زیادتی کا ہونا محال ہے۔

اگرچہ اس عمل کو ۱۰۰ مرتبہ دہرایا گیا ہے لیکن دانوں کی مجموعی تعداد میں کمی یا بیشی واقع نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح جو لوگ اپنی آگاہی و بصیرت کی بناء پر اصل حقیقت کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں یا ہستی و وجود اور اس کے سرچشمے کے ساتھ متحد و متصل ہو جاتے ہیں تو ان کے یہاں اشتباہ و خطا کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور وہ ہرگز گناہ سے معصوم اور محفوظ رہتے ہیں۔

پیغمبروں اور نابغہ افراد کے درمیان فرق

یہیں سے اس فرق کا بھی پتہ لگایا جا سکتا ہے جو انبیاء اور نابغہ روزگار شخصیات کے درمیان ہوتا ہے۔ نابغہ شخصیات وہ ہوتی ہیں جن میں قوت عقل و فکر اور حساب کرنے کی طاقت بہت زیادہ ہوتی ہے یعنی وہ اپنے حواس کے ذریعے اشیاء سے رابطہ پیدا کرتے ہیں‘ اپنی تیز عقل کی بناء پر اپنی ذہنی معلومات پر کام کرتے ہیں اور نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں مگر اتفاق سے کبھی غلطی بھی کر جاتے ہیں۔

انبیائے الٰہی عقل و خرد اور ذہنی حساب کتاب کی قوت کے حامل ہونے کے علاوہ ایک اور قوت سے بھی بہرمند ہوتے ہیں جسے وحی کہا جاتا ہے جب کہ نابغہ شخصیات اس قوت سے بہرہ مند نہیں ہوتیں‘ اسی لئے انبیاء سے ان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ موازنہ اس وقت صحیح ہو سکتا ہے جب دونوں کے کام ایک ہی نوع اور ایک طرح کے ہوں لیکن جب دونوں کے کام مختلف نوعیت کے ہوں تو ایک کا دوسرے پر قیاس غلط ہو گا۔ مثلاً دو افراد کی قوت بینائی‘ سماعت یا فکر کا آپس میں موازنہ کیا جائے لیکن یہ ہرگز صحیح نہیں ہو گا کہ ایک شخص کی قوت بینائی کا دوسرے شخص کی قوت سماعت سے موازنہ کریں اور یہ کہیں کہ فلاں زیادہ طاقت و قوت کا حامل ہے۔ نابغہ شخصیات کا نبوغ انسانی عقل و فکر کی قوت سے مربوط ہے جب کہ پیغمبروں کی غیر معمولی شخصیت ایک اور قوت کے ساتھ مربوط ہے جسے وحی اور مبدائے ہستی سے اتصال کہا جاتا ہے۔ اس بناء پر دونوں کو ایک دوسرے پر قیاس کرنا غلط ہو گا۔

۳ ۔ قیادت و رہبری

رسالت و پیغمبری کا آغاز اگرچہ اللہ کی طرف معنویت کے سفر‘ اس کی ذات سے قربت حاصل کرنے اور مخلوق سے قطع تعلق (سیرمن الخلق الی الحق) سے ہوتا ہے جس کا لازمی نتیجہ ظاہر سے روگردانی اور اصلاح باطن کی طرف متوجہ ہونا ہے‘ لیکن اس کا انجام انسانی زندگی کی اصلاح کرنے اور اسے منظم رکھنے اور ایک صحیح راستے کی طرف اس کی ہدایت (سیر بالحق فی الخلق) کی غرض سے خلق اور ظاہر کی طرف واپسی ہوتا ہے۔

”نبی“ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے ”خبر لانے والا“ فارسی میں لفظ پیغمبر اسی معنی کو ادا کرتا ہے اور ”رسول“ عربی زبان میں ”بھیجا گیا“ کے معنی میں ہوتا ہے اور انہیں بروئے کار لاتا ہے وہ خدا کی طرف اور ان امور کی طرف جو خداوند عالم کی خوشنودی کا باعث ہیں مثلاً صلح و صفا‘ اصلاح پسندی‘ بے ضرری‘ غیر خدا سے آزادی‘ سچائی‘ شائستگی‘ محبت و عدالت اور دیگر اخلاق حسنہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے وہ بشریت کو ہوائے نفس اور طرح طرح کے بتوں اور طاغوتوں سے نجات دلاتا ہے۔

علامہ اقبال نے انبیاء اور ایسے افراد کے درمیان جو اللہ کی طرف معنویت کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں‘ لیکن انہیں پیغمبری کا منصب نہیں دیا گیا اور اقبال انہیں ”باطنی انسان“ کا نام دیتے ہوئے فرق کو یوں بیان کرتے ہیں:

”باطنی انسان اس سکون و اطمینان کے حاصل ہو جانے کے بعد جسے وہ اپنے معنوی اور باطنی سفر میں حاصل کرتا ہے‘ یہ نہیں چاہتا کہ وہ پھر اس دنیوی زندگی کی طرف واپس آئے‘ لیکن ایسے وقت جب کہ وہ شدید ضرورت کی بناء پر اس دنیوی زندگی میں واپس آ بھی جاتا ہے‘ تو اس کی یہ واپسی انسانی معاشرے کے لئے کوئی خاص فائدہ مند نہیں ہوتی‘ لیکن نبی کی دنیوی زندگی کی طرف واپسی خلاقیت کا پہلو رکھتی ہے اور نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ نبی اس دنیا میں واپس آتا ہے اور زمانے کے دھارے میں اس ارادے سے وارد ہوتا ہے کہ وہ تاریخ کے بہاؤ کو اپنے اختیار میں لے اور اس طریقے سے مطلوبہ کمالات کی ایک نئی دنیا خلق کرے۔ باطنی انسان کے لئے سکون حاصل ہو جانا ہی انتہائی اور آخری منزل ہے‘ لیکن پیغمبر کے لئے اس کی روح شناسی کی قوت کا بیدار ہونا (آخری منزل ہے) جس کے ذریعے وہ دنیا کو ہلا دیتا ہے اور یہ طاقت ایسی ہوتی ہے‘ جو بشری دنیا کو بالکل بدل کر رکھ دیتی ہے۔“(احیاء فکر دینی در اسلام‘ ترجمہ: احمد آرام‘ ص ۱۴۳)

اس بناء پر خلق خدا کی قیادت و رہبری اور رضائے الٰہی اور فلاح بشریت‘ انسانی قوتوں کو حرکت میں لانا اور منظم کرنا پیغمبری کا ایسا جزو لازم ہے جسے اس سے ہرگز جدا نہیں کیا جا سکتا۔

۴ ۔ خلوص نیت

انبیائے الٰہی چونکہ خدا پر مکمل اعتقاد رکھتے ہیں اور ہرگز اس بات کو فراموش نہیں کرتے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ذمہ داری سونپی گئی ہے اور وہ اسی فریضے کو ادا کر رہے ہیں لہٰذا اپنے اس فریضے کی ادائیگی میں نہایت خلوص سے کام لیتے ہیں‘ یعنی ہدایت بشر کے سوا کہ جو تقاضائے الٰہی بھی ہے‘ کوئی اور ہدف و مقصد نہیں رکھتے اور نہ ہی لوگوں سے انجام رسالت کا ”اجر“ مانگتے ہیں۔

قرآن کریم نے سورہ الشعراء میں بہت سے انبیاء کے اقوال کو جو انہوں نے اپنی اپنی قوتوں کے سامنے پیش کئے بطور خلاصہ نقل کیا ہے۔ البتہ ہر نبی نے اپنے راستے میں آنے والی مشکل یا مشکلات کی مناسبت سے اپنی قوم کو ایک طرح کا پیغام دیا ہے‘ لیکن ایک چیز جس کا تمام پیغمبروں کے پیغام میں بار بار تذکرہ کیا گیا ہے‘ وہ یہ کہ میں ”تبلیغ رسالت پر تم سے کسی اجرت اور مزدوری کا طلب گار نہیں ہوں“ لہٰذا خلوص اور خلق سے بے نیازی بھی پیغمبری کے امتیازات میں سے ہے اور اسی لئے انبیاء کا پیغام ہمیشہ ایک بے نظیر یقین و اطمینان کے ہمراہ رہا ہے۔

انبیاء چونکہ اپنے تئیں ”مبعوث“ سمجھتے ہیں اور اپنی رسالت‘ اس کی ضرورت اور اس کے ثمر بخش ہونے پر معمولی سا بھی شک نہیں کرتے‘ لہٰذا اپنے پیغام کی اس یقین و اطمینان کے ساتھ تبلیغ کرتے ہیں‘ ایسا دفاع کرتے ہیں کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

حضرت موسیٰ بن عمران اپنے بھائی ہارون کے ہمراہ ادنیٰ لباس زیب تن کئے ہوئے اور ہاتھوں میں عصا لئے ہوئے اپنی اسی ظاہری حالت کے ساتھ فرعون کے پاس جاتے ہیں اور اسے توحید کی طرف دعوت دیتے ہیں اور پورے یقین و اطمینان کے ساتھ فرماتے ہیں:

”ا گر تو نے ہماری دعوت کو قبول نہ کیا تو تیری حکومت کا زوال یقینی ہے اور اگر تو نے دعوت کو قبول کر لیا اور ہمارے راستے پر چلنا شروع کر دیا تو ہم تیری عزت و آبرو کے ضامن بن جائیں گے۔“

فرعون نے بڑے تعجب کے ساتھ کہا:

”ذرا ان لوگوں کو دیکھو‘ یہ اپنی پیروی کی صورت میں میری عزت کی ضمانت دے رہے ہیں وگرنہ میری حکومت کے زوال پذیر ہونے کی بات کرتے ہیں۔“(نہج البلاغہ‘ خطبہ ۱۹۰)

نبی اکرم نے بعثت کے ابتدائی برسوں میں جب کہ مسلمانوں کی کل تعداد شاید دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے برابر بھی نہیں ہو گی‘ ایک نشست میں جسے تاریخ نے ”یوم الانزار“ کے نام سے محفوظ رکھا ہے‘ بزرگان بنی ہاشم کو جمع کیا اور اپنا الٰہی پیغام ان تک پہنچایا اور نہایت صریح و قطعی انداز میں انہیں اس بات کی خبر سنائی کہ میرا دین عالم گیر حیثیت اختیار کر جائے گا اور تمہاری فلاح و سعادت اسی میں ہے کہ میری پیروی کرو اور میری دعوت قبول کر لو‘ انہیں نبی اکرم کی یہ بات اتنی گراں اور ناقابل یقین لگی کہ سب نے تعجب سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور جواب دیئے بغیر وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔

جب نبی اکرم کے چچا جناب ابوطالب نے قریش کا یہ پیغام سنا کہ ہم اس بات کے لئے تیار ہیں کہ انہیں (پیغمبر) اپنا بادشاہ مان لیں‘ قوم کی حسین ترین لڑکی‘ ان کی زوجیت میں دے دیں اور انہیں اپنی قوم کا دولت مند ترین شخص بنا دیں‘ بشرطیکہ وہ جو کام کر رہے ہیں اور جو باتیں کہہ رہے ہیں ان سے باز آ جائیں‘ تو انہوں نے یہ پیغام آنحضرت تک پہنچایا۔ اس پر آنحضرت نے جواب میں فرمایا:

”خدا کی قسم! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر آفتاب اور دوسرے ہاتھ پر ماہتاب لا کر رکھ دیں‘ میں تب بھی اللہ کی طرف انہیں بلانے سے باز نہیں آؤں گا اور پیغام الٰہی کی تبلیغ سے دست بردار نہیں ہوں گا۔“

جی ہاں! جس طرح انسانوں کی قیادت کے لئے خطا و گناہ سے محفوظ قوت وحی اور اللہ سے اتصال اپنانا ضروری ہے اور خطا و گناہ سے محفوظ رہنے کے لئے وحی کی قوت اور اللہ سے رابطے اور اتصال کی ضرورت ہے‘ اسی طرح خلوص اور یقین و اطمینان پیغمبر کی ذات کا لازمی جزو ہے۔

۵ ۔ اصلاح احوال

انبیائے کرام جو انسانی قوتوں کو حرکت میں لاتے ہیں اور منظم کرتے ہیں‘ ان کا یہ کام صرف فرد اور معاشرے کی اصلاح و تعمیر کی خاطر ہوتا ہے‘ دوسرے الفاظ میں ان کا یہ سارا عمل بشری سعادت کے لئے ہوتا ہے اور محال ہے کہ ان کا یہ سارا عمل فرد کو فاسد اور خراب کرنے اور معاشرے کو تباہ کرنے کے لئے ہو۔ اس بناء پر اگر نبوت کے مدعی کی دعوت کا اثر انسانوں کو فاسد کرنے‘ ان کی قوتوں کو ناکارہ بنانے یا پھر انسانوں کے فحاشی و فساد میں مبتلا ہونے یا انسانی معاشرے کی تباہی اور نوع بشر کے انحطاط کی صورت میں ظاہر ہوتا ہو تو یہ بجائے خود اس امر کی یقینی اور روشن دلیل ہے کہ یہ مدعی نبوت اپنے دعوے میں سچا نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے اس مقام پر بھی ایک عمدہ بات کہی ہے‘ وہ فرماتے ہیں:

”ایک پیغمبر کے مذہبی مشاہدات کی قدر و قیمت کا فیصلہ (اس کی رسالت اور اللہ کے ساتھ اس کے باطنی رابطے کا حقیقی ہونا)‘ ہم یہ دیکھ کر بھی کر سکتے ہیں کہ اس کے زیراثر کس قسم کے انسان پیدا ہوئے‘ علی ہذا یہ کہ تہذیب و تمدن کی وہ دنیا تھی جس کا ظہور ان کی دعوت سے ہوا۔“ (تشکیل جدیدالہیات اسلامیہ‘ ص ۱۴۴)

۶ ۔ مقابلہ اور جہاد

ہر قسم کے شرک‘ خرافات و لغویات‘ جہالتوں‘ توہمات‘ خود ساختہ خیالات‘ ظلم و ستم‘ زیادتیوں اور ستم رانیوں سے ٹکر لینا اور ان سے مقابلہ کرنا بھی نبوت کے ایک مدعی کی سچائی کی علامتوں میں سے ہے۔ یعنی محال ہے کہ ایک شخص جسے اللہ کی طرف سے واقعی پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہو اس کے پیغام میں کوئی ایسی چیز ہو‘ جس سے شرک کی بو آتی ہو یا وہ کسی ظالم و ستم گر کی مدد کو دوڑ پڑے اور بدعنوانی و بے انصافی کی تائید کرے یا شرک‘ جہالت‘ خرافات و لغویات اور ظالموں کے ظلم و جور کے زیر خاموشی اختیار کرے اور ان سے جنگ و جدال اور جہاد کے لئے اٹھ کھڑا نہ ہو۔ توحید‘ عقل اور عدالت تمام انبیاء کے اصولوں میں سے ہے اور صرف ایسے ہی افراد کی دعوت قابل مطالعہ اور دلیل و معجزہ طلب کرنے کے لائق ہے‘ جو اس راستے پر چلتے ہوئے دعوت دیتے ہیں یعنی اگر کوئی شخص اپنے پیغام میں کوئی ایسی چیز پیش کرے جو توحید کے خلاف ہو یا اس حکم کے خلاف ہو جو تمام عقلوں کے نزدیک قطعی اور مسلم ہو یا عدل کے خلاف ظلم کی تائید میں ہو تو ایسے شخص کا پیغام نہ تو مطالعے کے لائق ہے اور نہ ہی دلیل کے مطالبے کے قابل ہے۔ اسی طرح اگر ایک مدعی نبوت گناہ یا خطا کا مرتکب ہوتا ہے یا خلق خدا کی قیادت و رہبری کی طاقت نہ رکھتا ہو‘ اگرچہ اس ناتوانی کا سبب کوئی جسمانی عیب یا جذاب جیسی نفرت انگیز بیماری ہو یا اس کی دعوت حیات انسانی کے راستے پر نہ ہو تو اس کا پیغام دلیل و معجزہ کے مطالبے کے لائق نہیں ہے۔ بہرحال ایسے افراد اگر (بفرض محال) معجزہ گر بھی ہوں اور بہت سے معجزات بھی دکھلا دیں تب بھی عقل ان کی پیروی کو جائز قرار نہیں دیتی۔

۷ ۔بشری پہلو

انبیاء اپنے تمام غیر معمولی پہلوؤں مثلاً معجزہ‘ گناہ و خطا سے محفوظ رہنا‘ بے مثال قیادت و رہبری اور بے مثال تعمیری کردار نیز شرک‘ خرافات اور ظلم و ستم کے خلاف قیام کے باوجود نوع بشر سے تعلق رکھتے ہیں یعنی انبیاء تمام لوازمات بشر کے حامل ہوتے ہیں۔ دوسروں کی طرح کھاتے ہیں‘ سوتے ہیں‘ چلتے ہیں‘ اولاد پیدا کرتے ہیں اور بالآخر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں‘ وہ تمام ضروریات جو بشریت کا لازمہ ہیں‘ ان میں ہیں۔ انبیاء دوسروں کی مانند مسئول اور شرعی تکلیف کے حامل ہیں اور جن شرعی ذمہ داریوں کو وہ لوگوں تک پہنچاتے ہیں‘ خود ان پر بھی عائد ہوتی ہیں۔ حرام و حلال ان کے لئے بھی ہے بلکہ بعض شرعی ذمہ داریاں ان کے لئے زیادہ شدید نوعیت کی ہیں جیسا کہ رسول اکرم پر نماز شب یعنی آخر شب میں بیدار رہنا اور نافلہ شب واجب تھی۔

انبیاء کبھی اپنے آپ کو تکالیف شرعی اور احکام سے مستثنیٰ نہیں کرتے تھے۔ وہ بھی دوسروں کی طرح اور دوسروں سے زیادہ اللہ سے ڈرتے تھے‘ دوسروں سے زیادہ خدا کی عبادت کرتے تھے‘ نماز پڑھتے تھے‘ روزہ رکھتے تھے‘ جہاد کرتے تھے‘ زکٰوة دیتے تھے‘ خلق خدا پر احسان کرتے تھے‘ اپنی اور دوسروں کی زندگی کے لئے دوڑ دھوپ کرتے تھے اور زندگی میں دوسروں پر بوجھ نہیں بنتے تھے۔

پیغمبروں اور دوسرے لوگوں کے درمیان فرق صرف وحی کے مسئلے اور وحی کے مقدمات و لوازم میں ہوتا ہے وحی انبیاء کو بشر ہونے سے خارج نہیں کر دیتی بلکہ انہیں انسان کامل اور دوسروں کے لئے نمونہ عمل بنا دیتی ہے۔ اسی لئے وہ دوسروں کے پیشرو اور رہبر و قائد ہیں۔

۸ ۔ صاحبان شریعت پیغمبر

انبیائے الٰہی بطور کلی دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ ایک گروہ جن کی تعداد کم ہے ان پیغمبروں کا ہے جنہیں خود جداگانہ طور پر کچھ احکام و قوانین وحی کے ذریعے سپرد کئے گئے اور انہیں مامور کیا گیا کہ یہ قوانین و احکام لوگوں تک پہنچائیں اور انہیں قوانین و احکام کی بنیاد پر لوگوں کو ہدایت کریں اور ان کے ہی مطابق لوگوں کو عمل کرنے کی تلقین و تاکید کریں۔ ان انبیاء کو قرآن کی اصطلاح میں ”اولوالعزم“ کہا جاتا ہے۔ ہمیں صحیح اور یقینی طور پر یہ نہیں معلوم کہ اولوالعزم پیغمبروں کی تعداد کیا تھی۔ خصوصاً اس امر کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ قرآن مجید اس بات کو صاف و صریح الفاظ میں کہتا ہے کہ اس نے فقط بعض انبیاء کا تذکرہ کیا ہے۔ اگر قرآن مجید میں تمام اہم پیغمبروں کا ذکر کیا گیا ہوتا تو ممکن تھا کہ قرآن مجید میں مذکورہ پیغمبروں میں سے اولوالعزم پیغمبروں کی تعداد معلوم کر لی جاتی۔ بہرکیف ہم اتنا جانتے ہیں کہ حضرت نوح‘ حضرت ابراہیم‘ حضرت موسیٰ‘ حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد (صلوات اللہ علیہم) اولوالعزم اور صاحب شریعت پیغمبر تھے اور ان میں سے ہر ایک کو وحی کے ذریعے کچھ احکام و قوانین دیئے گئے تھے تاکہ انہیں لوگوں تک پہنچا سکیں اور ان قوانین کی بنیاد پر ان کی رہنمائی کر سکیں۔

دوسرا گروہ ان انبیاء کا ہے جو بذات خود کوئی شریعت اور قوانین نہیں رکھتے بلکہ محض اس شریعت اور قوانین کی تبلیغ و ترویج پر مامور تھے جو اس زمانے میں موجود تھے۔ پیغمبروں کی اکثریت اسی گروہ میں سے تھی جیسے حضرت ہود حضرت صالح ‘ حضرت لوط حضرت اسحاق حضرت اسماعیل حضرت یعقوب حضرت یوسف حضرت یوشع حضرت شعیب حضرت ہارون حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ یہ سب دوسرے گروہ ہی سے ہیں۔