انبیاء کا تاریخی کردار
کیا پیغمبر تاریخ کی حرکت میں مثبت یا منفی کردار کے حامل رہے ہیں یا یہ کہ بالکل بے اثر رہے ہیں؟ اور اگر ان کا کوئی کردار رہا ہے تو کیا وہ مثبت تھا یا منفی؟
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پیغمبروں کا تاریخ میں ایک موثر کردار رہا ہے اور وہ معاشرے میں بے اثر نہیں رہے اس کا دین و مذہب کے مخالفین نے بھی انکار نہیں کیا ہے۔ انبیاء الٰہی ماضی میں ایک عظیم قومی طاقت کے مظہر رہے ہیں۔ ماضی میں زور و زر کے بل بوتے پر سامنے آنے والی طاقتوں کے مقابلے میں قومی طاقتیں صرف ان طاقتوں پر منحصر ہوتی تھیں جو ان خاندانی قبائلی اور وطنی رجحانات کے نتیجے میں وجود میں آتی تھیں کہ قبیلے اور قوم کے سردار جن کے مظہر تصور کئے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ دوسری طاقتیں وہ تھیں جو مذہبی و ایمانی رجحانات کی بنیاد پر وجود میں آئی تھیں اور جن کے مظہر انبیاء و مرسلین اور صاحبان ادیان اور اہل دین ہوا کرتے تھے۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ پیغمبران خدا ایسی قوت و طاقت تھے جنہیں مذہبی قوت حاصل تھی لیکن جو چیز قابل بحث ہے وہ یہ کہ قوت کس طرح اثرانداز ہوتی تھی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں مختلف نظریات نے جنم لیا ہے:
۱ ۔ ایک گروہ نے عام طور سے اپنی تحریروں اور آثار میں ایک سادہ سا صغریٰ و کبریٰ قائم کر کے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انبیاء کا کردار منفی رہا ہے کیوں کہ انہوں نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا وہ معنوی اور دنیا کے برخلاف تھا۔ انبیاء کی تعلیمات کا محور دنیا سے انصراف آخرت کی طرف توجہ دلانا تھا باطن پرزور دینا اور ظاہر سے لاتعلقی ذہنیت کی طرف رجحان اور عینیت سے گریز تھا۔ اسی لئے دین و مذہب کی قوت و طاقت اور انبیاء جو اس طاقت کے مظہر تھے ہمیشہ انسان کو زندگی سے مایوس اور دل سرد کرتے رہے اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے۔ اس اعتبار سے تاریخ میں انبیاء کا کردار ہمیشہ منفی رہا ہے۔ عام طور پر اس قسم کا اظہار نظر وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں روشن فکر ہونے کا دعویٰ ہے۔
۲ ۔ ایک دوسرا گروہ صاحبان ادیان کے کردار اور اثرات کو ایک اور طریقے سے منفی قرار دیتا ہے۔ یہ گروہ پہلے گروہ کے برعکس صاحبان ادیان کو طالب دنیا جانتا ہے اور ان کے معنوی اور باطنی رخ کو ایک فریب اور ان کے دنیاوی پہلو پر ایک نقاب سے تعبیر کرتا ہے۔ ان لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ دنیا پسندانہ راستہ موجود وضع کی حفاظت باقتدار و طاقت ور طبقے کے مفاد میں اور کمزور طبقے کے ضرر و نقصان کے لئے ہوتا ہے اور ہمیشہ معاشرے کی ترقی و کمال کے مقابل رہا ہے۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ تاریخ بھی دوسرے تمام موجودات کی طرح جدلیاتی ( Dialectic ) یعنی اندرونی تضاد سے پیدا ہونے والی حرکت کی حامل ہے۔
مالکیت و اقتدار کے وجود کے سبب معاشرہ دو باہم متنازع طبقوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ ایک حاکم اور فائدہ حاصل کرنے والا طبقہ دوسرا محروم اور فائدہ پہنچانے والا طبقہ۔ حاکم طبقہ اپنے امتیازات کی حفاظت کی غرض سے ہمیشہ موجود صورت حال پر باقی رہنے کا طرف دار رہا ہے۔
پیداواری آلات کی جبری پیش رفت کے باوجود یہ طبقہ چاہتا ہے کہ معاشرے کو اسی حالت پر قائم رکھے لیکن محکوم طبقہ پیداواری آلات کی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چاہتا ہے کہ اس موجود صورت حال کو بالکل الٹ دے اور اس کی جگہ کامل و مکمل صورت حال کو لے آئے۔ حاکم طبقہ نے تین مختلف شکلوں میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ دین حکومت اور دولت دوسرے الفاظ میں زور و زر اور فریب۔ صاحبان ادیان کا کردار ستم گروں اور استحصالی طاقتوں کے مفاد میں عوام کو دھوکہ و فریب میں رکھنا تھا۔ ارباب ادیان کا آخرت کی طرف توجہ دلانے کا عمل حقیقی نہیں تھا بلکہ ان کی دنیا پرستی کے چہرے پر فریب کی نقاب تھی جو محروم انقلابی اور پیش قدم طبقے کے ضمیر اور وجدان کو مسخر کرنے کے لئے ڈالی گئی تھی پس ارباب ادیان کا تاریخی کردار اس اعتبار سے منفی تھا کہ وہ ہمیشہ قدامت پسند طبقے کا قوت بازو و محافظ اور موجودہ حالت یعنی صاحبان زور و زر کے طرف دار رہے ہیں۔ تاریخ کی توجیہ کے سلسلے میں مارکسزم کا نظریہ یہی ہے۔ مارکسزم کی نظر میں یہ تین عامل یعنی دین حکومت اور ثروت ہمیشہ اصول مالکیت کے ہمراہ اور پوری تاریخ میں انسانوں کے دشمن رہے ہیں۔
۳ ۔ کچھ افراد مذکورہ بالا نظریات کے برخلاف ایک اور اعتبار سے تاریخ کی تفسیر کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود دین و مذہب اور ان کے مظاہر یعنی پیغمبروں کا کردار منفی سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ عالم طبیعت اور تاریخ کا کمال و ارتقاء اس بنیاد پر استوار ہے کہ طاقت وروں کا غلبہ رہے اور کمزوری کا خاتمہ ہو۔ چنانچہ طاقت ور ہی ہمیشہ تاریخ کی ترقی و پیش رفت کا اور کمزور ہمیشہ تاریخ کے جمود اور تندی کا سبب رہے ہیں۔ دین و مذہب طاقت وروں کو روکنے کے لئے کمزور طبقے کی ایجاد ہے۔ ارباب ادیان عدل سچائی انصاف محبت رحم دلی اور تعاون جیسے مفاہیم کو دوسرے الفاظ میں غلامانہ اخلاق کو کمزور یعنی پسماندہ طبقہ اور ارتقاء و کمال کے دشمن طبقے کے حق میں اور طاقت ور طبقے یعنی پیش قدم طبقے کے خلاف ایجاد کرتے ہیں۔ یوں انہوں نے طاقت وروں پر منفی اثر ڈالا ہے اور کمزوری کے خاتمے نسل انسانی کی اصلاح اور غیر معمولی شخصیات کی پیدائش کی راہ میں رکاوٹ بنے لہٰذا مذہب اور انبیاء جو اس قوت مذہب کے مظہر تھے کا کردار اس اعتبار سے منفی تھا کہ وہ غلامانہ اخلاق کے طرف دار اور مالکانہ اخلاق کے جو تاریخ اور معاشرے میں ترقی و کمال کا سبب ہے کے خلاف تھے۔ جرمنی کا مشہور مادہ پرست فلسفی نطشے اسی نظریے کا حامی و طرف دار تھا۔
چونکہ نطشے کی مانند دوسرے مادی جرمن فلسفی بھی اسی روش پر چلتے رہے اور ان کی سوچ و بچار کے دھارے اسی سمت میں بہتے رہے لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لکیر کے فقیر بن کر اپنے فلسفے کو مادی بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے اسی نظریے پر گامزن رہے کہ معاصر پیغمبر اور آسمانی تعلیمات غلامانہ اخلاق و کردار کے حامی اور انسانی ترقی و کمال کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہے ہیں اسی سوچ اور مشینی دور کی آمد نے آج مغربی سرزمینوں کو ایسے باسیوں سے آباد کر دیا ہے جن کی اکثریت مذہب سے دوری اور بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے دہریت کی جانب گامزن ہے انوہں نے مذہب کو ایک بوجھ سمجھ کر اتار پھینکا کیوں کہ وہاں کے مفکرین اور فلاسفہ نے وہاں کے باسیوں کے ذہنوں میں وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی سوچ کو پروان چڑھایا جس کی بنیادیں مادیت پر استوار کی گئیں اور جنگ افلاس اور بے سر و سامانی کی اصل وجوہات مذہب کو قرار دے دیا گیا اس کے نتیجے میں آج اگر آپ یورپ جائیں تو اس بات کو نہایت آسانی سے درک کر لیں گے کہ وہاں کے شہریوں نے اپنے ادیبوں فلاسفہ اور مفکرین سے اثر لیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج صرف دس فیصد افراد جن میں زیادہ تر بوڑھے شامل ہوتے ہیں مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے اور اتوار کے دن اجتماعی عبادت میں شریک ہوتے ہیں لیکن اس کے برعکس مشرق کے اکثر فلاسفہ نے مذہب کو معاشرے میں خصوصی مقام دلانے کی کوشش کی ہے۔
۴ ۔ مذکورہ بالا تینوں گروہوں کو چھوڑ کر منکرین ادیان تک بھی ماضی میں پیغمبروں کے کردار کو مثبت اور مفید اور تاریخ کی ارتقائی سمت میں جانتے ہیں۔ ان گروہوں نے ایک طرف تو پیغمبروں کی اخلاقی اور اجتماعی تعلیمات اور دوسری طرف تاریخ کے عینی حائق پر توجہ دی ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ گذشتہ دور میں پیغمبروں کا معاشرے کی فلاح و بہبود اور ترقی و پیش رفت میں بنیادی ترین کردار رہا ہے۔ بشری تمدن کے دو پہلو ہیں: ایک مادی اور دوسرا معنوی۔ تہذیب و تمدن کا مادی پہلو صنعت و فن سے متعلق ہے جو آج تک ارتقائی منازل طے کرتا رہا ہے اور معنوی پہلو ایک انسان کے دوسرے انسانوں سے تعلقات سے ہے تہذیب و تمدن کا معنوی و روحانی پہلو انبیاء کی تعلیمات کا مرہون منت ہے اور تہذیب و تمدن کے اسی معنوی پہلو ہی کے پرتو میں اس کے مادی پہلوؤں میں ترقی کی صلاحیت پیدا ہوئی ہے لہٰذا تہذیب و تمدن کے معنوی پہلو کے ارتقاء و کمال میں پیغمبروں کا کردار براہ راست اور بلاواسطہ رہا ہے جب کہ مادی پہلو کے ارتقاء میں بالواسطہ رہا ہے۔ ان گروہوں کی نظر میں ماضی میں انبیاء کے مثبت کردار میں کوئی کلام نہیں۔ البتہ بعض گروہ ان تعلیمات کے مثبت کردار کو صرف ماضی کی حد تک محدود و منحصر جانتے ہیں اور آج کل کے دور میں ان تعلیمات کے اثر کو غیر مفید سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ علوم کی ترقی و پیش رفت کی وجہ سے دینی تعلیمات اپنی افادیت کھو چکی ہیں اور آئندہ ان کی افادیت میں مزید کمی واقع ہو جائے گی لیکن بعض گروہوں کا یہ دعوٰی ہے کہ ایمان اور مذہبی نظام فکر کا کردار ایسا ہے کہ علمی ترقی کبھی اس کی جگہ نہیں لے سکتی اسی طرح فلسفی مکاتب بھی اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتے۔ ان مختلف کرداروں کے درمیان جو انبیاء نے ماضی میں ادا کئے ہیں کہیں کہیں اور کبھی کبھی ایسے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں جہاں بشر کے اجتماعی شعور کا ارتقاء دینی تعلیمات کی پشت پناہی سے بے نیاز ہوتا ہے لیکن بنیادی کردار وہی ہے جو ماضی میں تھا اور آئندہ بھی اپنی قوت سے باقی رہے گا۔ اب ہم تاریخی ارتقاء و کمال میں پیغمبروں کی تعلیمات کے موثر کردار کے چند نمونے پیش کرتے ہیں:
۱ ۔ تعلیم و تربیت
زمانہ ماضی میں تعلیم و تربیت کا باعث دینی و مذہبی بیداری رہی ہے۔ ماضی میں مذہبی رجحان معلم اور ماں باپ کا یار و مددگار رہا ہے یہ مورد ان موارد میں سے ہے جہاں اجتماعی شعور کے ارتقاء نے مذہبی محرک کی ضرورت کو دور کر دیا ہے۔
۲ ۔ عہد و پیمان پر زندگی استوار کرنا
انسان کی سماجی زندگی معاہدوں اقرار ناموں قراردادوں اور وعدوں عہد کا احترام کرنے پر قائم ہے۔ عہد و پیمان کا احترام انسانی تمدن کا ایک رکن ہے اور یہ رکن ہمیشہ مذہب کے ذمہ رہا ہے اور ابھی تک اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے لئے مذہب کی جگہ کسی دوسرے نے نہیں لی۔ ویل ڈیورنٹ جو مذہب مخالف ہے اپنی کتاب ”درسہائے تاریخ“ میں لکھتا ہے:
”مذہب نے اپنے آداب و رسوم کی مدد سے انسانی معاہدوں اور میثاقوں کو انسان اور خدا کے درمیان باعظمت رابطوں کی شکل دے دی ہے اور اسی راستے سے استحکام و پائیداری کا باعث بن گیا ہے۔“(درسہائے تاریخ ص ۵۵)
مذہب کلی طور پر اخلاقی اور انسانی اقدار کے لئے زرضمانت کی حیثیت رکھتا ہے اور مذہب سے ہٹ کر اخلاقی اقدار کی حیثیت ان نوٹوں کی سی ہے جن کے عوض حکومت کے خزانے میں زرضمانت موجود نہ ہو جس کی بے اعتباری و بے وقعتی بہت جلد ظاہر ہو جاتی ہے۔
۳ ۔ اجتماعی قید و بند کی آزادی
ہر طرح کے ظلم و ستم و استبداد اور سرکش عناصر سے مقابلہ انبیاء ۱ کا اہم ترین کردار رہا ہے۔ قرآن ان کے کلیدی کردار کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ قرآن کریم اولاً تو عدل و انصاف کے قیام کو بعثت و رسالت کے ہدف کے عنوان سے ذکر کرتا ہے اور ثانیاً اپنے واقعات میں ظالموں جابروں اور استبدادی طاقتوں کے خلاف انبیاء ۱ کی جدوجہد کو بارہا بیان کرتا ہے۔ قرآن نے چند آیتوں میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ جوطبقہ ہمیشہ سے انبیاء ۱ کے ساتھ مصروف پیکار رہا ہے وہ استبدادی اور ظالم طاقتوں کا طبقہ ہے۔
کارل مارکس اور اس کے پیروکاروں کا یہ نظریہ کہ دین حکومت اور دولت و ثروت حاکم طبقے کے تین مختلف چہرے ہیں جو مظلوم و مجبور طبقے کے مخالف رہے ہیں ایک بے قیمت نظریہ ہے اور تاریخ کے مسلمہ حقائق کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر ارانی نظریہ مارکس کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”مذہب ہمیشہ حاکم اور برسراقتدار طبقے کا آلہ کار رہا ہے اور ضعیف و کمزور طبقے کو مغلوب کرنے کے لئے تسبیح و صلیب نے ہمیشہ استبدادی قوتوں کے ساتھ ہی حرکت کی ہے۔“
(یہ قول ڈاکٹر ارانی کتاب ”اصول علم روح“ سے نقل کیا گیا ہے)
تاریخ کی اس قسم کی توجیہات اور اس قسم کے فلسفہ تاریخ کو قبول کرنا صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے اور وہ یہ کہ آدمی حقائق سے چشم پوشی کر لے اور تاریخی واقعات کو نظرانداز کر دے۔
علی علیہ السلام تیغ و تسبیح دونوں کے مرد میدان تھے تلوار کے بھی دھنی تھے اور تسبیح کے بھی۔ علی ۱ کا شعار کیا تھا:
کونا للظالم خصما و للمظلوم عونا
”ہمیشہ ظالم کے دشمن اور ستم رسیدہ کے یار و مددگار رہو۔“
( نہج البلاغہ حصہ مکتوبات نمبر ۴۷ ] امام حسن ۱ اور امام حسین ۱ کو خطاب[)
علی ۱ کو پوری زندگی تیغ و تسبیح عزیز رہی اور وہ زور و زر کے دشمن رہے علی ۱ کی تلوار ہمیشہ صاحبان اقتدار اور مالکان سیم و زر کے خلاف برسرپیکار رہی۔ کتاب مھزلة العقل البشری میں ”ڈاکٹر علی الوردی“ کے بقول علی ۱ نے اپنی شخصیت سے مارکس کے فلسفے کو باطل کر دیا ہے۔
مارکس کے نظریے سے زیادہ عبث اور لایعنی نظریہ ”نطشے“ کا ہے جو مارکس کے نظریے کے بالکل برعکس ہے یعنی چونکہ یہ معاشرے کو کمال عطا کرنے والا اور پیش قدم طبقہ صرف طاقت وروں کا ہے اور دین کمزوروں کی حمایت کے لئے اٹھا ہے لہٰذا جمود و انحطاط کا عامل رہا ہے گویا انسانی معاشرہ اس وقت ارتقاء و کمال کے راستے پر بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھے گا جب اس پر لاقانونیت اور جنگل کے قانون کی حکومت ہو گی۔ مارکس کی نظر میں کمال کا سبب محروموں کا طبقہ ہے اور نبی اس طبقے کے مخالف رہے ہیں۔ مارکس کہتا ہے کہ دین طاقت وروں اور دولت مندوں کی اختراع ہے جب کہ ”نطشے“ کہتا ہے کہ دین کمزوروں اور محروموں کی اختراع ہے۔ کارل مارکس کا ایک اشتباہ یہ ہے کہ اس نے صرف طبقاتی مفادات کے تضاد کی بنیاد پر تاریخ کی توجیہ کی ہے اور تاریخ کے انسانی پہلو کو نظرانداز کر دیا ہے۔(ملاحظہ فرمائیں رسالہ قیام انقلاب مہدی از دیدگاہ فلسفہ تاریخ مولف استاد شہید مطہری)
دوسرا اشتباہ یہ ہے کہ اس ارتقاء و کمال کا عامل صرف محروم اور کمزور طبقے کو سمجھا ہے۔
تیسری غلطی یہ ہے کہ انبیاء ۱ کو حاکم طبقے کا بازو اور طرف دار قرار دیا ہے یعنی اس نے دانا تر انسان کو سب سے طاقت ور انسان کے برابر سمجھا ہے اور سب سے طاقت ور انسان ہی کو انسانی معاشرے کو آگے بڑھانے والا عامل مانا ہے۔
مقصد بعثت انبیاء
تاریخ کے ارتقائی سفر میں انبیاء ۱ کا کردار کسی حد تک واضح ہو گیا ہے۔ اب ایک دوسرا مسئلہ زیربحث ہے اور وہ یہ کہ انبیاء ۱ کے مبعوث ہونے کا اصل مقصد کیا تھا؟ دوسرے الفاظ میں رسولوں کے بھیجنے اور کتابوں کے نازل کرنے کی غایت نہائی کیا تھی؟ پیغمبروں کا حرف آخر کیا ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اصل ہدف و مقصد لوگوں کو ہدایت لوگوں کی سعادت و خوش بختی لوگوں کی نجات اور لوگوں کی فلاح و بہبود ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء لوگوں کو راہ ر است کی طرف ہدایت کرنے اور لوگوں کے لئے خوش بختی اور نجات کا سامان مہیا کرنے اور لوگوں کی خیر و صلاح اور فلاح و بہبود کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ اس وقت اس مسئلے پر گفتگو کرنا مقصود نہیں بلکہ بحث اس میں ہے کہ یہ راہ راست کس انتہائی منزل مقصود پر ختم ہوتی ہے؟ مکتب انبیاء ۱ کی نظر میں لوگوں کی سعادت و بھلائی کا کیا مطلب ہے؟ یہ مکتب کون سی قیود و مشکلات مشخص کرتا ہے جن سے لوگوں کو نجات دینا چاہتا ہے؟ یہ مکتب خیر و صلاح اور فلاح و بہبود کو کس چیز میں سمجھتا ہے؟
قرآن نے ان تمام مطالب و معانی کی طرف اشارہ یا تصریح کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے دو مفاہیم و معانی کا بھی ذکر کیا ہے جن سے اصلی مقصد کی طرف رسائی ہوتی ہے یعنی پیغمبروں کی ساری تعلیمات انہی دو باتوں کی تمہید ہے۔ وہ ہیں ایک خدا کو پہچاننا اور اس کی قربت حاصل کرنا اور دوسری انسانی معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا اور قائم رکھنا۔
قرآن کریم ایک طرف کہتا ہے:
(
یا ایها النبی انا ارسلناک شاهداً و نذیراً و داعیاً للّٰه باذنه و سراجاً منیراً
)
(احزاب ۴۵ ۴۶)
”اے پیغمبر! ہم نے تم کو گواہ خوشخبری دینے والا ڈرانے والا اللہ کی طرف سے اس کی اجازت سے بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا۔“
اس آیت میں جن پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف بلانا ہی وہ چیز ہے جسے اصل ہدف قرار دیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف تمام پیغمبروں کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے:
ولقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معهم الکتاب و المیزان لیقوم الناس بالقسط
”ہم نے اپنے پیغمبروں کو روشن دلائل دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور معیار و میزان کو نازل کیا تاکہ لوگوں کے درمیان عدل و انصاف قائم رکھ سکیں۔“
اس آیت میں واضح طور پر عدل و انصاف قائم کرنے کو انبیاء ۱ کی رسالت و بعثت کا ہدف قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کی طرف بلانے اسے پہچاننے اور اس کے قریب ہونے سے مراد توحید نظری اور توحید عملی و فردی کی طرف دعوت دینا ہے جب کہ معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے سے مراد توحید عملی و اجتماعی کی طرف بلانا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیغمبروں کا اصل مقصد خدا کو پہچاننا اور اس کی پرستش کرنا ہے اور دوسری تمام چیزیں یہاں تک کہ اجتماعی عدل و انصاف بھی اس ہدف تک پہنچنے کا ایک وسیلہ ہے یا اصل ہدف عدل و انصاف کا قیام ہے جب کہ اللہ کو پہچاننا اور اس کی عبادت کرنا اس اجتماعی مقصد تک پہنچنے کا وسیلہ ہے یا اس مسئلے کو یوں بھی پیش کیا جا سکتا ہے کہ آیا اصل ہدف توحید نظری اور توحید عملی و فردی ہے یا اصل ہدف توحید عملی و اجتماعی ہے۔ اس سلسلے میں کئی نظریات قائم کئے جا سکتے ہیں:
۱ ۔ پیغمبران خدا ۱ دو مقصد رکھتے ہیں۔ ان دو مقاصد میں سے ایک کا تعلق انسان کی اخروی زندگی سے ہے (یعنی توحید نظری اور توحید عملی و فردی) اور دوسرا مقصد انسان کی دنیاوی سعادت سے متعلق ہے (یعنی توحید اجتماعی)۔ انبیائے کرام ۱ اس اعتبار سے کہ انسان کی دنیوی سعادت کی فکر میں رہے ہیں لہٰذا انہوں نے توحید اجتماعی کو برقرار کیا اور اس لحاظ سے کہ انسان کی اخروی سعادت مدنظر تھی توحید نظری اور توحید عملی و فردی کو بھی جو محض ذہنی و روحانی ہے قائم کیا۔
۲ ۔ اصل مقصد توحید اجتماعی ہے جب کہ توحید نظری اور توحید عملی فردی توحید اجتماعی کا لازمی مقدمہ ہے۔ توحید نظری کا تعلق خدا شناسی سے ہے۔ انسان کے لئے اپنی ذات کی حد تک خدا کو پہچاننے یا نہ پہچاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی روح کو حرکت دینے والا اللہ ہو یا دوسری ہزاروں چیزیں جیسا کہ بطریق اولیٰ اللہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان اس کو پہچانے یا نہ پہچانے۔
اس کی عبادت کرے یا نہ کرے لیکن اس لحاظ سے کہ انسان کا کمال ”ہم“ ہونے اور توحید اجتماعی میں ہے اور یہ چیز توحید نظری اور توحید عملی و فردی کے بغیر ممکن نہیں ہے اسی سے خدا نے اپنے بندے پر اپنی معرفت اور عبادت فرض کی ہے تاکہ توحید اجتماعی کی عملی شکل سامنے آئے۔
۳ ۔ اصل ہدف اللہ کو پہچاننا اور اس کی قربت حاصل کرنا اور اس تک پہنچنا ہے اور توحید اجتماعی اسی بلند مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ اور مقدمہ ہے کیوں کہ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے توحیدی اور الٰہی تصورات کائنات میں کائنات کی ماہیت ”اسی سے“ اور ”اسی کی طرف“ سے عبارت ہے۔ اس لحاظ سے انسان کا کمال اس کی طرف جانے اور اس کی قربت حاصل کرنے ہی میں ہے۔ انسان کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ آیہ شریفہ و اذا نفخت فیہ من روحی (سورئہ حجر آیت ۲۹) اور جب میں نے اس میں اپنی (عالی و برتر) روح میں سے پھونکا کی رو سے انسان کی حقیقت الٰہی نظر آتی ہے۔ خدا جوئی انسان کی فطرت ہے۔ اس لحاظ سے اس کی نیک بختی اس کا کمال اس کی نجات اس کی بھلائی صداقت اور استغفار اللہ کی معرفت اس کی پرستش اور اس کی قربت کی منزلیں طے کرنے میں ہے لیکن چونکہ انسان طبیعتاً مدنی و اجتماعی ہے یعنی اگر انسان کو معاشرے سے جدا کر لیں تو وہ انسان نہیں رہ سکتا اور اگر معاشرے میں عادلانہ اجتماعی نظام کی حکمرانی نہ ہو تو انسان میں پائی جانے والی خدا جوئی کی فطرت بیدار نہیں ہو سکتی۔ تمام انبیاء ۱ عدل و انصاف قائم کرنے اور ظلم و استحصال کو ختم کرنے میں مصروف رہے ہیں۔ اس بناء پر عدل آزادی برابری اور جمہوریت جیسی اجتماعی اقدار اور اس طرح اجتماعی اخلاق مثلاً جود و سخا عفو و درگزر محبت و احسان کوئی ذاتی قدر و قیمت نہیں رکھتے اور محض ذاتی طور پر انسان کے لئے ان میں کوئی کمال کا پہلو نہیں ہے۔ ان سب کی تمام تر قدر و قیمت اور اہمیت مقدمے اور وسیلے کی حد تک ہے اور اگر انہیں اصل مقصد سے الگ کر کے دیکھا جائے تو ان کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔ یہ سب حصول کمال کے ذرائع ہیں نہ کہ خود کمال۔ یہ فلاح و نجات کے لئے مقدمہ ہیں نہ کہ خود فلاح و نجات رستگاری کے وسائل ہیں نہ کہ خود رستگاری۔
۴ ۔ چوتھا نظریہ یہ ہے جیسا کہ تیسرے نظریے میں بیان ہوا انسان کی غرض و غایت اور اس کا کمال بلکہ ہر موجود کا حقیقی کمال اور ہدف خدا کی طرف حرکت کرنے پر تمام ہوتا ہے۔ اس بات کا دعویٰ کرنا کہ انبیاء ۱ و رسل اپنے ہدف کے اعتبار سے ثنوی تھے ایک ایسا شرک ہے جو ناقابل معافی ہے۔ جیسا کہ یہ دعوٰی کرنا بھی کہ پیغمبروں کا اصل مقصد بندگان خدا کی دنیوی فلاح و سعادت ہے اور دنیوی سعادت عدل آزادی برابری و برادری کے سائے میں عالم طبیعت کے عطیات و انعامات سے مستفید ہوئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی محض مادہ پرستی ہے۔
لیکن تیسرے نظریے کے برخلاف اگرچہ اجتماعی و اخلاقی اقدار انسان کی حقیقی قدر و قیمت تک پہنچنے کے لئے یعنی انسان کو خدا پرستی اور خدا تعالیٰ تک پہنچانے کے لئے وسیلہ ہیں لیکن اپنی ذات میں بے قدر و قیمت نہیں ہیں۔
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ مقدمہ اور ذوالمقدمہ (اصل مقصد) کے درمیان رابطہ و تعلق دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک قسم میں مقدمے کی قدر و قیمت صرف اتنی ہوتی ہے کہ وہ ذوالمقدمہ یعنی مقصد تک پہنچا دے اور اصل مقصد تک پہنچ جانے کے بعد اس مقدمے کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہوتا ہے مثلاً ایک انسان نہر سے عبور کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے وہ ایک بڑے پتھر کو وسیلہ قرار دیتا ہے نہر سے عبور کرنے کے بعد اب اس انسان کے لئے اس پتھر کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔ اس لئے کہ اصل مقصد دوسرے کنارے پر پہنچنا تھا۔ اسی طرح مکان کی چھت پر جانے کے لئے سیڑھی کا استعمال اور بڑی کلاس میں داخلے کے لئے چھوٹی کلاس کا نتیجہ ہے۔
دوسری قسم اس رابطے کی ہے جہاں مقدمہ اصل مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ تو ہوتا ہے اور اصل قدر و قیمت بھی اس مقصد کی ہی ہوتی ہے لیکن اصل مقصد تک پہنچنے کے بعد اس کا وجود و عدم مساوی نہیں ہوتا اور مقصد کے حاصل ہونے کے بعد بھی مقدمہ کا وجود اسی طرح ضروری ہوتا ہے جس طرح حصول مقصد سے پہلے تھا مثلاً پہلی اور دوسری کلاس کی معلومات کا ہونا اس سے بالاتر کلاس کی معلومات کے لئے ضروری ہے لیکن ایسا نہیں کہ اوپر کی کلاس تک پہنچنے کے بعد ان معلومات کی ضرورت نہیں رہتی کیوں کہ اگر بالفرض ابتدائی کلاسوں میں جو معلومات حاصل کی تھیں وہ سب فراموش ہو جائیں طالب علم کا ذہن بالکل خالی ہو جائے تو کیا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور کیا وہ بالاتر کلاس میں پڑھ سکے گا؟ نہیں! بلکہ ان سابقہ معلومات کا ہونا بے حد ضروری ہے اور تبھی وہ اوپر کلاس میں تعلیم جاری رکھ سکتا ہے۔
اس دوسری قسم میں جو راز پوشیدہ ہے وہ یہ کہ کبھی مقدمہ ذوالمقدمہ (اصل مقصد) کا کم تر درجہ ہوتا ہے اور کبھی نہیں۔ سیڑھی مکان کی چھت کے درجات و مراتب میں سے نہیں ہے جیسا کہ نہر کے درمیان رکھا جانے والا بڑا پتھر نہر کے اس پار کے درجات میں سے نہیں ہے لیکن نچلی کلاسوں کی معلومات اور بالائی کلاسوں کی معلومات ایک ہی حقیقت کے دو مختلف رخ ہیں۔
معاشرتی و اخلاقی اقدار اللہ کی معرفت و پرستش کے حوالے سے دوسری قسم میں داخل ہیں یعنی ایسا نہیں ہے کہ اگر انسان کو خود اللہ کی کامل معرفت حاصل ہو جائے اور وہ اس کی عبادت کرنے لگے تو اس کے نزدیک عدل و انصاف سچائی بھلائی جود و کرم احسان و خیرخواہی عفو و مروت اور محبت وغیرہ سب کا وجود و عدم برابر ہو اس لئے کہ بلند و بالا انسانی اخلاق ایک طرح کے خدائی رنگ کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ روایت میں بھی ہے:
تخلقوا باخلاق اللّٰه
(جامع الاسرار سید حیدر آملی ص ۳۶۳)
”اپنے کو الٰہی اخلاق و اصاف سے آراستہ کرو۔“
اخلاق عالیہ سے آراستہ ہونا اگرچہ غیر شعوری طور پر سہی لیکن درحقیقت خدا شناسی اور خدا پرستی کا ہی ایک درجہ اور مرتبہ ہے یعنی انسان کا ان اقتدار سے تعلق الٰہی اوصاف سے متصف ہونے کے ساتھ فطری لگاؤ سے پیدا ہوتا ہے اگرچہ انسان ان اوصاف کے فطری رشتہ و تعلق کی طرف بالکل متوجہ نہ ہو بلکہ کبھی کبھی وہ شعوری طور پر اس کا منکر بھی ہو۔
اسی لئے اسلامی تعلیمات کی رو سے عدالت احسان اور جود و سخا جیسے اخلاق فاضلہ کے حامل افراد اگرچہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں لیکن دوسری دنیا میں ان کے اعمال بے اثر نہیں رہیں گے اس قسم کے افراد کا کفر و شرک اگر عناد اور سرکشی کی بناء پر نہ ہو تو ان لوگوں کو دوسری دنیا میں کچھ نہ کچھ اجر ضرور ملے گا۔ درحقیقت اس قسم کے افراد لاشعوری طور پر خدا پرستی کے کسی نہ کسی درجے تک پہنچ چکے ہوتے ہیں۔
(مزید تفصیل کیلئے مولف کی کتاب عدل الٰہی کے آخری باب کی طرف رجوع کریں)
دین یا ادیان؟
علم دین سے تعلق رکھنے والے علماء اور مذاہب کی تاریخ لکھنے والے عام طور سے ادیان کے بارے میں بحث کرتے ہوئے دین ابراہیم ۱ دین یہود دین مسیحی اور دین اسلام کی بات کرتے ہیں گویا ہر ایک صاحب شریعت پیغمبر کو ایک علیحدہ دین لانے والا سمجھتے ہیں عام لوگوں کے درمیان بھی یہی اصطلاح رائج ہے۔
لیکن قرآن مجید اس بارے میں ایک خاص اصطلاح اور طرز بیان رکھتا ہے جس کا سرچشمہ قرآن ہی کا خاص نظریہ ہے قرآن مجید کی نظر میں حضرت آدم ۱ سے لے کر حضرت خاتم الانبیاءٰ تک اللہ کا دین ایک ہی ہے۔ تمام پیغمبر چاہے وہ صاحب شریعت ہوں یا ان کے علاوہ سبھی ایک مکتب کے داعی تھے اور ایک دین کے مبلغ تھے۔ مکتب انبیاء ۱ کے اصول جنہیں دین کہا جاتا ہے ایک ہیں البتہ ایک تو سب کے درمیان فرعی مسائل میں کچھ اختلاف ضروری ہے جو عصری تقاضوں ماحول اور لوگوں کی خصوصیات کے اعتبار سے نظر آتا ہے لیکن ان تمام مختلف شکلوں کی حقیقت ایک ہی ہے سب ایک ہی مقصد و ہدف کی طرف رواں ہیں۔ دوسرا فرق تعلیمات کی علمی سطح پر نظر آتا ہے کیوں کہ جیسے جیسے انبیاء ۱ آتے رہے اور شریعتیں لاتے رہے اور اپنی مقدس تعلیمات سے بندگان خدا کو فائدہ پہنچاتے رہے ویسے ویسے انسانی معاشرہ علوم و معارف میں ترقی و کمال کی منزلیں طے کرتا رہا اور تدریجاً آگے بڑھتا رہا اسی بناء پر ہر بعد میں آنے والے صاحب شریعت پیغمبر نے اپنی تعلیمات کو اس سطح سے بلند رکھا جہاں تک اس سے قبل والے پیغمبر نے پہنچایا تھا۔ مگر حقیقت میں سب کا موضوع ایک تھا لیکن مبداء و معاد اور دنیا کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور گذشتہ پیغمبروں کی تعلیمات کے درمیان علمی سطح کے اعتبار سے زمین سے آسمان تک فرق نظر آئے گا۔ دوسرے الفاظ میں ان انبیاء ۱ کی تعلیمات سے فائدہ حاصل کرنے میں ایک طالب علم کی حیثیت سے تھا جسے ان الٰہی اساتذہ نے یکے بعد دیگرے آہستہ آہستہ پہلے درجے سے ترقی دیتے ہوئے آخر میں بالائی درجے تک پہنچایا ہے۔ یہ دنیا کا تدریجی ارتقاء ہے نہ کہ ادیان کا اختلاف۔ قرآن مجید نے کہیں بھی لفظ دین کو جمع (ادیان) کی صورت میں استعمال نہیں کیا۔ قرآن مجید میں جس چیز کا وجود تھا وہ دین تھا نہ کہ ادیان۔
ایک واضح فرق پیغمبروں اور بڑے بڑے فلسفیوں اور ماہرین کے درمیان یہ بھی ہے کہ فلاسفہ میں سے ہر ایک کا ایک مخصوص نظریہ اور مکتب فکر تھا لیکن پیغمبران خدا ہمیشہ ایک دوسرے کی تائید و تصدیق کرنے والے رہے ہیں انہوں نے کبھی ایک دوسرے کی نفی نہیں کی۔ پیغمبروں میں سے اگر کوئی کسی دوسرے پیغمبر کے زمانے اور ماحول میں ہوتا تو اسی کے قوانین اور احکام کی مانند قوانین لاتا۔
قرآن اس بات کو صراحت سے بیان کرتا ہے کہ (از آدم ۱ تا خاتم) تمام انبیاء ۱ کا ایک سلسلہ تھا اور سب ایک آسمانی سلسلے میں منسلک تھے گذشتہ انبیاء ۱ اپنے بعد آنے والے پیغمبروں کی بشارت دیتے رہے اور بعد میں آنے والے انبیاء ۱ گذشتہ انبیاء ۱ کی تصدیق و تائید کرتے رہے نیز قرآن کریم اس امر کی بھی تصریح کرتا ہے کہ تمام انبیاء ۱ سے اس بات کا سخت عہد و پیمان لیا گیا ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کے مبشر و مصدق ہوں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (اے میرے رسول) اس وقت کو یاد کرو جب خداوند عالم نے تمام پیغمبروں سے عہد و پیمان لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور حکمت دوں گا پھر تمہارے پاس ایک پیغمبر تمہاری رسالت کی تصدیق کرتے ہوئے آئے گا تو تم سب اس کے اوپر ضرور ایمان لانا اور اس کی ضرور مدد کرنا پھر (خدا نے فرمایا) کہ کیا تم نے اقرار کیا اور کیا تم نے میرا عہد اپنے ذمے لے لیا؟ (تو ان سب نے) کہا: ہم نے اقرار کیا (پھر خدا نے) فرمایا: ”تم گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔“(آل عمران آیت ۸۱)
قرآن کریم نے کہ جو دین خدا کو آدم ۱ سے خاتم تک ایک ہی جاری رہنے والے سلسلے کی حیثیت سے پہچنواتا ہے نہ کہ چند کڑیوں کے عنوان سے اس سلسلے کا صرف ایک نام رکھا ہے اور وہ ہے اسلام۔ ہمارے کہنے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ دین خدا ہر دور اور ہر زمانے میں اپنے اس نام سے پکارا جاتا رہا ہے یا یہی نام لوگوں کے درمیان مشہور و معروف رہا ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ دین کی حقیقت ایک ایسی ماہیت رکھتی ہے جس کا بہترین معرف اور عنوان لفظ اسلام ہے۔
قرآن کہتا ہے:
(
ان الدین عنداللّٰه الاسلام
)
(آل عمران آیت ۱۹)
یا دوسری جگہ کہتا ہے:
(
ماکان ابراهیم یهودیاً و لانصرانیا و لکن کان حنیفاً مسلماً
)
(آل عمران آیت ۶۷)
”ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ حق کی تلاش کرنے والے اور مسلم تھے۔“
ختم نبوت
ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ پیغمبران خدا باوجود جزوی اختلافی مسائل کے سب صرف ایک پیغام کے حامل و مبلغ اور ایک مکتب سے وابستہ تھے یہ مکتب انسانی معاشرے کی فکری صلاحیت کے مطابق درجہ بدرجہ پیش کیا گیا یہاں تک کہ انسانی معاشرہ فکری رشد کے لحاظ سے اس حد تک پہنچ گیا کہ یہ مکتب اور یہ نظریہ مکمل و جامع شکل میں پیش کیا گیا۔ جب مکتب اس درجہ عروج و کمال کو پہنچ گیا تو نبوت کا سلسلہ بھی ختم کر دیا گیا اور وہ عظیم و مقدس شخصیت جن کے ذریعے سے یہ مکتب کامل شکل میں پیش کیا گیا وہ حضرت محمد مصطفی ۱ کی ذات ہے اور اس مکتب کا آخری مکمل نصاب اور آخری آسمانی کتاب قرآن مجید ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے:
(
وتمت کلمه ربک صدقاً وعدلاً لامبدل لکلماته
)
(سورئہ انعام آیت ۱۱۵)
”تمہارے پروردگار کا سچا اور عادلانہ پیغام پورا ہو گیا اس میں کوئی تبدیلی لانے کی کسی میں طاقت نہیں ہے۔“
اب ہمیں غور کرنا ہو گا کہ ماضی میں کیوں نبوتوں کی تجدید ہوتی رہی ہے اور ایک کے بعد دوسرے پیغمبر برابر آتے رہے اگرچہ وہ تمام پیغمبر صاحبان قانون و شریعت نہیں تھے بلکہ ان میں سے اکثر انبیاء ۱ اپنے زمانے میں موجود شریعت و قانون ہی کے مبلغ رہے ہیں اور حضرت محمد کے بعد یہ سلسلہ انبیاء ۱ کیوں ختم کر دیا گیا اور نہ صرف یہ کہ کوئی صاحب شریعت پیغمبر نہیں آیا اور نہ آئے گا بلکہ مبلغ کی حیثیت سے بھی کوئی پیغمبر نہیں آیا اور نہ قیامت تلک آئے گا کیوں؟ اس مقام پر ہم مختصر طور پر نبوتوں کی تجدید کے علل و اسباب پر نگاہ ڈالتے ہیں۔
نبوتوں کی تجدید کے اسباب
اگرچہ نبوت ایک متصل اور جاری رہنے والا اسلام اور پیغام الٰہی ہے یعنی دین صرف ایک حقیقت ہے ایک سے زیادہ نہیں ہے۔ صاحب شریعت اور مبلغ کی حیثیت سے آنے والے پیغمبروں کی تجدید اور متواتر ایک کے بعد دوسرے پیغمبر کے آنے اور حضرت خاتم الانبیاء ۱ کی شریعت محمدی(ص) کے بعد اس سلسلے کے منقطع ہو جانے کے علل و اسباب حسب ذیل ہیں:
۱ ۔ زمانہ قدیم کا انسان اپنی استعداد اور فکر کے اعتبار سے اس قابل نہ تھا کہ اپنی آسمانی کتاب کی حفاظت کر سکے اسی وجہ سے آسمانی کتابیں عموما تحریف کا شکار ہو جایا کرتیں یا بالکل ہی فنا ہو جاتیں اس بناء پر یہ ضروری ہو جاتا تھا کہ پیغام کی تکرار کی جائے۔ نزول قرآن کا زمانہ یعنی آج سے چودہ سو سال قبل کا دور تھا جب انسانی معاشرہ اپنے زمانہ طفلی کو بہت پیچھے چھوڑ کر حد بلوغ کو پہنچ چکا تھا اور اس وقت انسان اپنی علمی و دینی میراث کی حفاظت کرنے پر قادر ہو چکا تھا اسی وجہ سے سب سے آخری مقدس و مکمل کتاب یعنی قرآن کریم میں کوئی تحریف نہیں ہو سکی مسلمان اس کی ہر آیت کی حفاظت اس کے وقت نزول سے ہی اپنے ذہنوں اور تحریروں کے ذریعے کرتے رہے اور اس طرح سے اس کی حفاظت کرتے رہے کہ اس میں کسی قسم کے تغیر و تبدل تبدیلی و تحریف حذف و اضافہ کا امکان ہی باقی نہ رہے یہی وجہ ہے کہ اس مقدس اور آسمانی کتاب میں کسی قسم کی کوئی تحریف نہیں ہو سکی اور اس طرح نبوتوں کی تجدید کے اسباب میں سے ایک سبب تو بالکل ہی ختم ہو گیا۔
۲ ۔ گذشتہ ادوار میں بشریت اپنی صلاحیت اور فکری قابلیت کے اعتبار سے اس بات پر قادر نہیں تھی کہ اپنی زندگی کے لئے مکمل طور پر کوئی آئین اور لائحہ عمل مرتب کر سکے جس کی راہنمائی میں وہ اپنے سفر کو جاری رکھ سکے اس لئے ضروری تھا کہ مرحلہ بہ مرحلہ اور منزل بہ منزل اس کی رہنمائی کی جاتی رہے اور ایک یا کئی رہبر و رہنما ہمیشہ اس کے ساتھ رہیں۔
لیکن حضرت خاتم الانبیاء کے مبارک دور میں اور اس کے بعد قوت و توانائی جو کلی اور مکمل لائحہ عمل مرتب کر سکے انسان کو حاصل ہو چکی تھی لہٰذا مرحلہ بہ مرحلہ اور منزل بہ منزل والا لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ختم ہو گئی اور اس کا سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔ شریعتوں کی تجدید کا سبب مذکورہ بالا اسباب کے علاوہ یہ بھی تھا کہ انسان اس بات پر قادر نہیں تھا کہ اپنے واسطے کوئی مکمل اور جامع پروگرام بنا سکے اور جب یہ قوت و طاقت اور صلاحیت اس میں پیدا ہو گی تو مکمل اور جامع پروگرام تیار کرنے کا کام خود اس کے اختیار میں دے دیا گیا اور نبوتوں اور شریعتوں کی تجدید کا یہ دوسرا سبب بھی ختم ہو گیا۔ امت کے علماء ماہر اور سپیشلسٹ ہونے کی بناء پر اسلام کے پیش کردہ مکمل و جامع لائحہ عمل اور ضابطہ حیات سے استفادہ کرتے ہوئے آئین اور دستورالعمل کی ترتیب و تدوین کر کے بشریت کی رہنمائی کر رہے ہیں۔
۳ ۔ پیغمبروں کی کثیر تعداد دین کی مبلغ تھی نہ کہ صاحب شریعت بلکہ صاحب شریعت پیغمبروں کی تعداد شاید ایک ہاتھ کی انگلیوں کی تعداد سے زیادہ نہیں ہے۔ مبلغ کی حیثیت سے آنے والے پیغمبروں کا کام اس شریعت کی تبلیغ و ترویج اور تفسیر کرنا اور اسے نافذ کرنا تھا جو ان کے زمانے کے افراد کے درمیان موجود تھی۔ اس خاتمیت کے دور میں کہ جو عصر علم و دانش ہے علمائے اسلام اس بات پر قادر ہیں کہ اسلام کے عمومی اصولوں کی معرفت اور زمان و مکان کی شرائط سے واقفیت اور آگاہی حاصل کر کے ان عمومی اصولوں کو زمان و مکان کے تقاضوں سے احکام الٰہی کا استخراج و استنباط کریں۔ اسی عمل کا نام اجتہاد ہے اور امت اسلامی کے لائق و قابل علماء مبلغ کی حیثیت سے آنے والے انبیاء ۱ کے بہت سے فرائض اور صاحب شریعت انبیاء ۱ کے کچھ فرائض اپنی طرف سے کوئی شریعت لائے بغیر عمل اجتہاد کے ذریعے امت کی رہنمائی کے خاص فریضے کو انجام دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے جہاں دین کی ضرورت ہمیشگی حیثیت کی حامل ہے بلکہ بشریت جس قدر تہذیب و تمدن اور ترقی و کمال کی منزلیں طے کرتی جاتی ہے دین کی احتیاج اور زیادہ ہو جاتی ہے وہاں نبوت و شریعت کی تجدید اور کسی جدید آسمانی کتاب یا نئے پیغمبر کے آنے کی ضرورت بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہو گی اور نبوت کا سلسلہ بھی۔
(ختم نبوت کی مفصل بحث کیلئے مولف کی کتاب ”ختم نبوت“ کا مطالعہ کریں)
اس بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ختم نبوت میں بشر کی اجتماعی اور فکری بلوغت اور پختگی کا نہایت اہم کردار رہا ہے اور اس کردار کے کئی پہلو ہیں:
۱ ۔ فکری اور اجتماعی بلوغت نے آسمانی کتاب کو تحریف سے محفوظ رکھا ہے۔
۲ ۔ یہ فکری رشد اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ انسان نے اپنے ارتقائی پروگرام کو منزل بہ منزل کے بجائے ایک ہی مرحلے میں اپنی تحویل میں لے لیا اور اس سے استفادہ کیا۔
۳ ۔ اجتماعی اور فکری پختگی اور سمجھداری اسے اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ دین کو برقرار کرے اور اس کی ترویج و تبلیغ امربالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے فرائض کی ذمہ داری قبول کرے۔ اس سے مبلغ کی حیثیت سے آنے والے پیغمبروں کی ضرورت ختم ہو گئی اور اب اس ضرورت کو امت کے علماء پورا کرتے ہیں۔
۴ ۔ بشریت اپنی فکری پختگی کے لحاظ سے اس منزل پر پہنچ گئی کہ وہ اجتہاد کی روشنی میں کلیات وحی کی توجیہ و تفسیر کر سکے اور زمان و مکان کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہر مسئلے کو اس سے متعلقہ اصول کی طرف موڑ سکے۔ اس اہم کام کو بھی امت کے علماء انجام دے رہے ہیں۔
معلوم ہوا کہ ختم نبوت کے معنی یہ نہیں کہ اب انسان کو وحی کے ذریعے سے پہنچنے والی الٰہی اور تبلیغی تعلیم کی ضرورت نہیں رہی اور چونکہ انسان کو اس فطری بلوغ کی وجہ سے ان تعلیمات کی ضرورت نہیں رہی اس لئے نبوت کا سلسلہ بھی ختم کر دیا گیا۔ نہیں ہرگز نہیں بلکہ جدید وحی اور جدید نبی و رسول کی ضرورت نہیں نہ کہ الٰہی دین اور اس کی تعلیمات کی ضرورت ختم ہو گئی ہے۔
مشہور و عظیم اسلامی مفکر علامہ اقبال اسلامی مسائل میں اپنی تمام تر نکتہ چینیوں اور دقت نظر (جن سے ہم نے اس کتاب اور دوسری کتابوں میں بہت زیادہ استفادہ کیا ہے) کے باوجود فلسفہ ختم نبوت کی توجیہ و تفسیر میں سخت اشتباہ سے دوچار ہوئے ہیں۔ موصوف نے اس بحث کی بنیاد چند اصولوں پر رکھی ہے:
۱ ۔ وحی:
اس کے لغوی معنی ”آہستہ اور رازدارانہ انداز میں بات کرنا“ ہیں۔ اس لفظ کا قرآن مجید میں وسیع مفہوم ہے جو مرموز اور خفیہ ہدایتوں کی بہت سی قسموں پر محیط ہے اور جو جماد نباتات اور حیوان کی ہدایت سے لے کر انسان تک کی ہدایت کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اس کے بارے میں علامہ اقبال کہتے ہیں: اصول وجود کے ساتھ یہ اتصال کسی طرح بھی صرف انسان کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ قرآن میں لفظ وحی کا طریقہ استعمال یہ بتاتا ہے کہ یہ کتاب اس ”وحی“ کو زندگی کی ایک خاصیت جانتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی شکل اور خاصیت زندگی کے ارتقاء کے مرحلوں کے مطابق مختلف ہوتی ہے وہ گھاس جو کسی جگہ پر اگتی ہے اور آزادی کے ساتھ نشوونما پاتی ہے وہ جانور جو زندگی کے نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونے کے لئے ایک نئے عضو کا حامل ہوتا ہے اور وہ انسان جو زندگی کی اندرونی گہرائیوں میں ایک نئی روشنی کر لیتا ہے۔ یہ سب کے سب وحی کے مختلف حالات کے نمائندے ہیں جو وحی کو قبول کرنے والی ظرفیت و صلاحیت کی ضرورتوں کے مطابق یا ان نوعی ضرورتوں کے مطابق جن سے وہ ظرف تعلق رکھتا ہے مختلف و گوناگوں شکلوں میں نمایاں ہوتی ہے۔
(احیاء فکر دینی در اسلام ص ۱۴۴ ۱۴۵)
۲ ۔ وحی جبلی قوت جیسی ایک چیز ہے اور وحی کی ہدایت جبلی ہدایت جیسی چیز ہے۔
۳ ۔ وحی طبیعت انسان کی ہدایت کا نام ہے یعنی انسانی معاشرہ اس اعتبار سے کہ وہ ایک وحدت ہے اور مخصوص راستہ اور حرکت کے قوانین رکھتا ہے اس لئے اس بات کا محتاج ہے کہ اس کی ہدایت کی جائے نبی وہ وصول کرنے والا آلہ ( Receiver ) ہے جو جبلی طور پر ان پیغامات کو جن کی احتیاج نوع بشر کو ہے حاصل کر لیتا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:
”حیات جہانی ایک نور کی صورت میں اپنی حاجتوں کو دیکھتی ہے اور ایک بحری لحظے میں اپنی سمت کو معین کر لیتی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جسے ہم دین کی زبان میں پیغمبر تک وحی کا پہنچنا“ کہتے ہیں۔“
(احیاء فکر دینی در اسلام ص ۱۶۸)
۴ ۔ تمام جاندار اپنے وجود کی ابتدائی منزلوں میں (جبلی قوت کے ذریعے ہدایت پاتے ہیں اور جیسے جیسے ترقی و تکامل کے درجوں میں بلند ہوتے جاتے ہیں اور احساس تخیل اور سوچنے کی قوت ان کے اندر زیادہ ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے ان کی جبلی قوت ان کی جانشین ہوتی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے حشرات سب سے زیادہ اور سب سے قوی جبلتیں رکھتے ہیں اور انسان سب سے کمتر جبلی قوتوں کے حامل ہوتے ہیں۔
۵ ۔ انسانی معاشرہ اجتماعی لحاظ سے ایک ترقی پذیر معاشرہ ہے اور راہ کمال پر گامزن ہے اور جس طرح ابتدائی مراحل میں حیوانات جبلی شعور کے محتاج ہوتے ہیں اور جوں جوں احساس و تخیل اور کبھی فکر کی قوت ان کے اندر بڑھتی جاتی ہے اسی طرح فکری اور حسی ہدایتیں جبلی شعور کی جانشین ہوتی جاتی ہیں۔ انسانی معاشرہ بھی اپنے تکاملی سفر میں اس منزل پر پہنچ گیا جہاں تعقل اور سوچنے سمجھنے کی قوت کی رشد و پختگی اس کے اندر پائی گئی اور یہی امر جبلی شعور و قوت (وحی) کے ضعف اور کم تری کا سبب بن گیا ہے۔ علامہ موصوف کہتے ہیں: ”بشریت کے دور طفلی میں روحانی طاقت ایک چیز کو ظاہر کرتی ہے جس کو میں ”پیغمبرانہ خود آگاہی“ کا نام دیتا ہوں تیار شدہ احکام بزرگوں کے فیصلوں اور تجربے سے حاصل شدہ منتخبات کی پیروی سے انسان اپنی انفرادی فکر اور راہ زندگی کے انتخاب میں تضیع اوقات سے بچتا ہے لیکن عقل کے کامل ہونے اور اس میں تنقیدی قوت کے پیدا ہو جانے کے بعد زندگی اپنے فائدے کے لئے اس قسم کی خود آگاہی کو نشوونما دینے کے لئے پہلے مرحلے کی روحانی طاقت (وحی) کو روک دیتی ہے۔ انسان پہلے خواہشات اور جبلی قوت کا محکوم و مطیع ہوتا ہے۔ استدلال کرنے والی عقل و جو ماحول پر اس کے مسلط ہونے کا واحد سبب ہے بجائے خود ایک ترقی و پیش رفت ہے اور چونکہ عقل وجود میں آئی تو چاہئے کہ معرفت کی دوسری شکلوں (جبلی شعور اور رہنمائی) کو روک کر اسے تقویت پہنچائیں۔
(احیاء فکر دینی در اسلام ص ۱۴۵)
۶ ۔ دنیائے بشریت دو بنیادی ادوار پر مشتمل ہے: ایک وحی کی رہنمائی کا زمانہ دوسرا عالم طبیعت اور تاریخ میں عقل و فکری رہنمائی کا زمانہ اگرچہ قدیم دنیا میں فلسفے کے چند مکتب (جیسے یونان اور روم) موجود تھے لیکن ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی اور انسانیت ابھی دور طفلیت سے گزر رہی تھی علامہ اقبال کہتے ہیں:
”اس میں کوئی شک نہیں کہ قدیم دنیا جس میں انسان موجودہ حالت کے مقابلے میں ابتدائی دور کی زندگی رکھتا تھا اور کم و بیش و ہم و تخیل کا تابع تھا اگرچہ اس نے چند فلسفی مکتب قائم کر لئے تھے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ قدیم دنیا میں فلسفی نظریات کا قائم کرنا محض فکر و نظر کا کام تھا کیوں کہ اس وقت تک انسان مبہم دینی عقائد اور رائج سنتوں اور طریقوں سے آگے نہ بڑھ سکا تھا اور زندگی کے عینی اور حقیقی حالات کے بارے میں کوئی قابل اعتماد نظریہ ہمارے لئے مہیا نہیں کر سکا تھا۔“(احیاء فکر دینی در اسلام ص ۱۴۵)
۷ ۔ پیغمبر اکرم جن پر نبوت کا خاتمہ ہوا کا تعلق دنیائے قدیم سے بھی تھا اور دنیائے جدید سے بھی۔ اپنے سرچشمہ ہدایت یعنی وحی (نہ کہ طبیعت و تاریخ کے تجرباتی مطالعے) کے لحاظ سے قدیم دنیا سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی روحانی تعلیمات کے اعتبار سے یعنی طبیعت و تاریخ کے مطالعے عقل و فکر کی دعوت کے لحاظ سے جس کے پیدا ہونے کے بعد وحی کا کام تمام ہو جاتا ہے جدید دنیا سے تعلق رکھتے تھے۔ علامہ موصوف کہتے ہیں:
”پس جب مسئلہ وحی پر اس نقطہ نگاہ سے غور کیا جائے تو کہنا چاہئے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم قدیم اور جدید دنیا کے درمیان کھڑے ہیں جہاں تک آنحضرت کا رابطہ الہامی سرچشمے سے ہے تو اس لحاظ سے آپ کا تعلق قدیم دنیا سے ہے اور جہاں تک آپ کی روح ہدایت کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے آپ جدید دنیا سے متعلق ہیں- زندگی نے آپ کے اندر معرفت کے نئے سرچشمے آشکار کئے۔(طبیعت اور تاریخ کے مطالعے کے ذریعے معرفت) جو آج کی جدید روش زندگی سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اسلام اور عقل کا ظہور ایک استقرائی دلیل ہے۔ ظہور اسلام کے ساتھ خود رسالت کے ختم ہو جانے کی ضرورت آشکار ہو جانے کے نتیجے میں رسالت بھی اپنے حد کمال کو پہنچ جاتی ہے اور یہ چیز خود اس امر کا بین ثبوت ہے کہ زندگی ہمیشہ مرحلہ طفلی اور خارج سے رہبری کی سطح پر نہیں رہ سکتی۔ اسلام میں غیب گوئی اور میراثی حکومت کو غلط اور باطل قرار دینا عقل کی طرف مستقل توجہ اور قرآن سے تجربہ حاصل کرنا اور اس کتاب میں عالم طبیعت اور تاریخ کو انسانی معرفت کے سرچشمے کے عنوان سے جو اہمیت دی گئی ہے یہ سب دور رسالت کے خاتمے کی مختلف علامتیں ہیں۔“
یہ ہیں علامہ اقبال کی نظر میں فلسفہ نبوت کے ارکان و اصول ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ فلسفہ قابل اعتراض ہے اور اس کے بہت سے اصول غیر صحیح ہیں۔ پہلا اعتراض جو اس فلسفے پر وارد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر اس فلسفے کو درست مان لیا جائے تو نہ صرف یہ کہ مزید کسی وحی اور نبی کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ وحی کی رہنمائی کی بھی قطعاً ضرورت نہیں رہتی کیوں کہ تجرباتی عقل کی ہدایت وحی کی ہدایت کی جگہ لے چکی ہے۔ اگرچہ یہ فلسفہ صحیح ہو تو پھر یہ فلسفہ دین کے خاتمے کا فلسفہ ہے نہ کہ ختم نبوت کا۔ (اس فلسفے کی رو سے وحی اسلام کا کام صرف یہ اعلان کرنا ہے کہ دین کے دور کا خاتمہ اور عقل و علم کے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہ نظریہ نہ صرف اسلام کے ایک ضروری امر کے خلاف ہے بلکہ خود اقبال کے نظریے کا مخالف ہے کیوں کہ اقبال کی تمام تر کوششیں اس امر پر صرف ہوئی ہیں کہ علم و عقل انسانی معاشرے کے لئے لازم ہیں لیکن کافی نہیں ہیں۔ انسان دین اور مذہبی ایمان کا اتنا ہی نیازمند ہے جتنا سائنس کا۔
علامہ اقبال خود صراحتاً کہتے ہیں کہ زندگی ثابت اصولوں اور بدلتے رہنے والے فرد کی محتاج ہے اور اسلام میں اجتہاد کا کام اصول پر فروع کا منطبق کرنا ہے۔
موصوف کہتے ہیں:
”اس نئی تہذیب و ثقافت (اسلامی ثقافت) نے عالمی وحدت کی بنیاد اصول توحید پر رکھی ہے۔ اسلام نظام حکومت کے عنوان سے اس امر کے لئے ایک عملی ذریعہ ہے بلکہ اصول توحید کو نوع بشر کی عقلی اور باہمی زندگی میں ایک زندہ عامل و سبب قرار دیتا ہے۔ اسلام خدا کے ساتھ وفادار رہنے کا مطالبہ کرتا ہے نہ کہ عالم اور استبدادی حکومت کے ساتھ وفادار رہنے کا۔ چونکہ خدا ہی پر زندگی کی آخری روحانی بنیاد ہے لہٰذا خدا سے وفاداری عملاً خود آدمی کی مثالی طبیعت(یعنی خواہش آرزو اور مطلوبہ کمال کی جستجو کی طبیعت) سے وفاداری ہے۔ وہ معاشرہ جو حقیقت کے ایسے تصور پر قائم ہوا ہو اسے چاہئے کہ اپنی زندگی میں ”ابدیت“ اور ”تغیر“ دونوں مقولوں کے درمیان آپس میں ہم آہنگی پیدا کرے۔ اسی طرح اپنی اجتماعی زندگی کو منظم کرنے کے واسطے اپنے لئے ابدی اصول رکھتا ہو کیوں کہ جو چیز بھی ابدی اور دائمی ہے وہ اس دائمی تغیر پذیر دنیا میں ہمارے واسطے مستحکم بنیادیں مہیا کرتی ہے لیکن جب ابدی اصولوں کے معنی یہ سمجھے جائیں کہ وہ ہر تغیر و تبدل کے مخالف ہیں یعنی اس چیز سے معارض ہیں جسے قرآن خدا کی ایک عظیم ترین نشانی قرار دیتا ہے تو اس وقت وہ اس کا سبب بنیں گے کہ جو چیز ذاتاً متحرک ہے اسے حرکت سے روک دیں سیاسی و اجتماعی علوم میں یورپ کی شکست پہلے اصول(یعنی ہر قسم کے ابدی اصول کی نفی اور زندگی کے بنیادی اصول کی ابدیت سے انکار) کو مجسم کر دیتی ہے اور ان آخری پانچ سو ( ۵۰۰) برسوں میں اسلام کی بے حرکتی دوسرے اصول(اصول حرکت و تغیر سے انکار اور ابدیت پر اعتقاد) اسلام میں حرکت کا اصول کیا ہے؟ یہ وہی اصول ہے جسے اصول اجتہاد کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔“
(احیائے فکر دینی در اسلام ص ۱۶۸ ۱۲۹)
مذکورہ بالا بیان کے مطابق وحی کی رہنمائی کی ضرورت ہمیشہ باقی ہے اور تجرباتی عقل کی رہنمائی وحی کی رہنمائی کا بدل نہیں ہو سکتی۔ خود اقبال بھی ہدایت و رہنمائی کی دائمی احتیاج کی بقاء کے سو فی صد حامی ہیں لیکن انہوں نے ختم نبوت کے لئے جو فلسفہ بیان کیا ہے اس کا لازمہ یہ ہے کہ جدید وحی اور جدید رسالت کی احتیاج ہی نہیں بلکہ ہدایت کی بھی احتیاج ختم ہو جائے اور درحقیقت اس فلسفے کی رو سے نہ صرف نبوت کا سلسلہ ختم ہوتا ہے بلکہ دین بھی ختم ہو جاتا ہے۔
ختم نبوت کے بارے میں اقبال کی اشتباہ آمیز توجیہ اس امر کا سبب بنی ہے کہ ان کی بحث و گفتگو سے یہ غلط نتیجہ نکالا جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ ختم نبوت کا دور یعنی وحی سے انسان کی بے نیازی کا دور آن پہنچا ہے اور انسان کے لئے پیغمبروں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت بچے کے لئے کلاس کے استاد کی مانند ہے۔ جس طرح بچہ ہر سال اوپر والی کلاس میں جاتا ہے تو اس کا استاد بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے اسی طرح انسان بھی مختلف زمانوں سے ہوتا ہوا ایک بالاتر مرحلے میں قدم رکھ چکا ہے اور اس کے لئے قانون و شریعت تبدیل ہو چکی ہے جس طرح بچہ آخری کلاس میں پہنچتا ہے اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کا سرٹیفکیٹ لیتا ہے اور اس کے بعد اپنے ٹیچر اور استاد کی مدد کے بغیر اپنی تحقیقات کو جاری رکھتا ہے اسی طرح انسان نے بھی ختم نبوت کے اعلان کے ساتھ ہی اپنی تعلیم مکمل کرنے کا سر ۱ ٹیفکیٹ لے لیا اور جدید تعلیم کے حصول سے بے نیاز ہو گیا۔ بغیر کسی مدد کے بذات خود طبیعت و تاریخ کا مطالعہ شروع کر دیا اور اجتہاد کا مطلب بھی یہی ہے۔ پس ختم نبوت سے مراد انسان کا خود کفائی تک پہنچنا ہے بلاشک ختم نبوت کے سلسلے میں اس قسم کی تفسیر غلط ہے۔ ختم نبوت کی اس قسم کی تفاسیر ایسے نتائج کی حامل ہیں جو نہ تو اقبال کے لئے قابل قبول ہیں اور نہ ہی ان کے لئے جنہوں نے اقبال کی تحریر سے اس قسم کے نتائج اخذ کئے ہیں۔
ثانیاً اگر اقبال کا نظریہ درست ہو تو عقل تجربی کے پیدا ہونے کے بعد جس کو اقبال ”درونی تجربے“ کا نام دیتا ہے (اولیاء اللہ کے مکاشفات) کا بھی خاتمہ ہو جائے کیوں کہ فرض یہ ہے کہ یہ امور ایک قسم کے فطری شعور کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں اور عقل تجربی کے ساتھ فطری شعور کا مرحلہ ختم ہوتا ہے حالانکہ خود اقبال کی تصریح کے مطابق باطنی تجربہ ہمیشہ کے لئے باقی ہے اور اسلام کی نظر میں باطنی و اندرونی تجربہ معرفت کے تین سرچشموں میں سے ایک ہے۔(بقیہ دو سرچشمے طبیعت اور تاریخ ہیں)
اقبال ۱ شخصی طور پر شدید عرفانی میلان رکھتے ہیں اور معنوی الہامات کے زبردست حامی ہیں وہ کہتے ہیں:
”یہ فکر اس معنی میں نہیں ہے کہ ”باطنی تجربے“ کی کہ جو کیفیت کے لحاظ سے پیغمبرانہ تجربے سے مختلف نہیں ہے حیاتی واقعیت کا جو سلسلہ تھا وہ منقطع ہو گیا۔ قرآن ”انفس“ یعنی خود اور ”آفاق“ یعنی جہان (دنیا) کو علم و معرفت کا سرچشمہ سمجھتا ہے۔ خداوند عالم اپنی نشانیوں کو اندرونی تجربے میں بھی ظاہر کرتا ہے اور بیرونی تجربے میں بھی اور آدمی کا فرض یہ ہے کہ تجربے کی تمام علامتوں کی معرفت کو عدالت کے حضور میں فیصلہ کے لئے رکھے۔ خاتمیت کو اس معنی میں نہیں لینا چاہئے کہ زندگی کی آخری اور حتمی سرنوشت عواطف کی جگہ پر عقل کا کامل جانشین ہو جانا ہے ایسی چیز نہ تو ممکن ہے اور نہ وہ مطلوب ہے۔ اس فکر و نظر کی عاقلانہ قدر و قیمت اس امر میں ہے کہ یہ باطنی تجربے کے مقابلے میں ایک مستقل پرکھنے والی طاقت پیدا کرتی ہے اور یہ امر اس عقیدے سے حاصل ہوتا ہے کہ اشخاص کے مافوق الطبیعت سے اتصال کے دعوے کا اعتبار انسانی تاریخ میں ختم ہو چکا ہے___ اس بناء پر اب باطنی اور عارفانہ تجربے پر چاہے وہ جتنا بھی غیر معمولی اور غیر معروف ہو ایک مکمل طبیعی اور قدرتی تجربے کے زاویے سے نگاہ ڈالی جائے اور انسانی تجربے کی دوسری نشانیوں کی مانند اس کو تنقیدی نظر سے بحث و نظر کا موضوع قرار دیا جائے۔“(احیاء فکر دینی در اسلام ص ۱۴۶ ۱۴۷)
اقبال کا اپنی گفتگو کے آخری حصے میں مقصود یہ ہے کہ نبوت کے ختم ہو جانے کے ساتھ الہامات اور اولیاء اللہ کے مکاشفات و کرامات ختم نہیں ہو گئے ہیں۔ البتہ ان کا گذشتہ اعتبار ختم ہو گیا ہے۔ ماضی میں جب کہ ابھی تجربی عقل پیدا نہیں ہوئی تھی تو معجزہ و کرامت ایک مکمل طبیعی اور قابل قبول اور شک و شبہ سے خالی و عاری سند ہوا کرتی تھی لیکن پختہ فکر اور عقلی کمال کے حامل انسان کے واسطے (دور خاتمیت کے انسان کے لئے) یہ امور اب کوئی حجت اور سندیت نہیں رکھتے لہٰذا ہر واقعے کی طرح انہیں بھی عقلانی تجربے کی کسوٹی پر پرکھنا چاہئے۔
خاتمیت سے قبل کا زمانہ معجزہ و کرامات کا زمانہ تھا یعنی معجزہ و کرامات عقل کو اپنے زیراثر رکھتے تھے لیکن خاتمیت کا زمانہ عقل کا زمانہ ہے۔ عقل کرامت کے مشاہدے کو کسی چیز کی دلیل نہیں مانتی مگر یہ کہ وہ اپنے معیاروں کے ساتھ الہام کے ذریعے کسی کشف شدہ حقیقت کی صحت و اعتبار کو ظاہر کرے اقبال کی گفتگو کا یہ حضہ بھی دور خاتمیت سے پہلے کے لحاظ سے بھی اور دور خاتمیت کے بعد کے لحاظ سے بھی صحیح نہیں ہے ہم بعد میں معجزے اور خاتمیت کے عنوان سے اس پر روشنی ڈالیں گے۔
ثالثاً یہ کہ علامہ اقبال وحی کو فطری قوت کی ایک قسم سمجھتے ہیں جو غلط ہے اور یہی نظریہ ان کے دیگر اشتباہات کا موجب بنا ہے فطری قوت یا فطری شعور جس طرح کہ اقبال خود اس طرف متوجہ ہیں ایک سو فیصد طبیعی (غیر اکتسابی) ناآگہانہ اور حس و عقل کے مقابلہ میں بہت پست اور معمولی ہے جس کو قانون خلقت نے حیوان (حشرات یا ان سے بھی نچلے درجے کے حیوانات) کے وجود کے ابتدائی مرحلوں میں بھی ودیعت کیا ہے جو بالاتر درجے (حس و عقل) کی ہدایتوں کی رشد و نمو کے ساتھ کمزور پڑ جاتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے لہٰذا انسان جو فکری اعتبار سے حیوانات میں سب سے زیادہ بے نیاز ہے فطری شعور کے اعتبار سے حیوانات میں سب سے زیادہ کمزور ہے لیکن اس کے برعکس وحی حس و عقل کی رہنمائی سے بالاتر اور کسی حد تک اکتسابی ہے اور وحی کی آگاہی اور علم بدرجہ اولی حس و عقل کی آگاہی اور بصیرت سے بالاتر ہے اور وہ معلومات جو وحی کے ذریعے سے کشف و آشکار ہوتی ہیں عقل تجربی کی معلومات سے بے حد وسیع اور بہت ہی عمیق ہیں۔ ہم (مکتب اور آئیڈیالوجی کے حصے میں) یہ ثابت کر چکے ہیں کہ انسان کی تمام انفرادی و اجتماعی صلاحیتوں اجتماعی رابطوں کی پیچیدگیوں اور ارتقائی رفتار کی انتہا معین نہ ہونے کے باوجود ہمیں یہ اعتراف کر لینا چاہئے کہ جس چیز کو اجتماعی مفکروں اور فلسفیوں نے آئیڈیالوجی کے نام سے پیش کیا ہے وہ گمراہی اور انسان کی شکست کے سوا کچھ نہیں۔ آئیڈیالوجی کے لحاظ سے انسان کے لئے ایک راستے سے زیادہ نہیں ہے اور وہ وحی سے حاصل شدہ آئیڈیالوجی ہے اور اگر وحی کی آئیڈیالوجی کو قبول نہ کریں تو ہمیں قبول کر لینا چاہئے کہ انسان کے پاس کوئی آئیڈیالوجی نہیں ہے۔
آج کل کے مفکرین یہ یقین رکھتے ہیں کہ بشر کے آئندہ سفر کی راہ معین کرنا انسانی آئیڈیالوجی کی شکل میں صرف منزل بہ منزل کی شکل میں ممکن ہے یعنی صرف یہی صورت ممکن ہے کہ ہر منزل پر بعد والی منزل کی راہ معین کی جائے لیکن جہاں تک اس چیز کا تعلق ہے کہ اس منزل کے بعد والی منزلیں کہاں ہیں اور سب سے آخری منزل کیا اور کہاں ہو گی؟ کچھ نہیں معلوم۔ ایسے اجتماعی نظریوں کا نتیجہ اور انجام بھی معلوم ہے۔
اے کاش علامہ اقبال جو عرفا کے آثار کا کم و بیش مطالعہ کر چکے ہیں اور مولانا روم کی مثنوی سے انہیں خاص طور پر انس ہے ان کتابوں کا ذرا غور سے مطالعہ کرتے تو ختم نبوت کے لئے بہتر سرمایہ تحقیق حاصل کر سکتے۔ عرفا اس نکتے تک پہنچ گئے ہیں کہ نبوت کا سلسلہ اس حیثیت سے ختم ہوا کہ انسان کے تمام انفرادی و اجتماعی مراحل و منازل اور وہ راستہ جس پر انسان کو چلنا چاہئے سب ایک جگہ آشکار ہیں اور اب اس کے بعد انسان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے جو چیز بھی کشف کرے گا وہ ان مراحل اور راستوں سے زیادہ نہیں ہو گا جو آشکار ہو چکے ہیں اور وہ انہی کی پیروی کرنے پر مجبور ہے۔
الخاتم من ختم المراتب باسرها
خاتم وہ شخص ہوتا ہے جس نے تمام مراتب و درجات کو طے کر لیا ہو اور کسی مرحلے اور منزل کو طے کرنا باقی نہ چھوڑا ہو یہ ہے ختم نبوت کا معیار نہ کہ معاشرے کی عقل تجربی کی پختگی علامہ اقبال اگر ان مردان خدا کے آثار پر غور و فکر کرتے جن کے وہ عقیدت مند ہیں تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ وحی فطری شعور نہیں ہے بلکہ وہ ایک روح اور حیات ہے جو عقلانی روح و حیات سے بالاتر و بلند تر ہے۔
مولانا روم کہتے ہیں:
غیر فہم جان کہ در گاو و خراست
آدمی را عقل و جانی دیگر است
”انسان کی عقل اور روح گائے اور گدھے میں موجود فہم اور روح سے مختلف ہے۔“
باز غیر عقل و جان آدمی
ھست جانی در نبی و در ولی
”پھر انسان کی عقل و روح سے مختلف وہ روح ہے جو نبی اور ولی کو عطا ہوتی ہے۔“
جسم ظاہر روح مخفی آمدہ است
جسم ہم چون آستین جان ہم چون دست
”جسم ظاہر ہوتا ہے اور روح مخفی ہوتی ہے جسم آستین کی طرح ظاہر ہوتا ہے اور روح (آستین کے اندر چھپے ہوئے) ہاتھ کی طرح مخفی ہوتی ہے۔“
باز عقل از روح مخفی تربوز
حس بسوی روح زودتر رہ برد
”پھر عقل ہے جو روح سے بھی زیادہ مخفی ہوتی ہے اور حس (عقل کی بہ نسبت) روح کا ادراک جلدی کر لیتی ہے۔
روح وحی از عقل پنہان تر بود
زانکہ او غیب است و او زان سر بود
”پھر وحی کی روح عقل سے بھی زیادہ پوشیدہ ہوتی ہے اس لئے کہ وہ غیبی چیز ہے اور عقل تو انسان کے سر میں ہوتی ہے۔“
عقل احمد از کسی پنہان نشد
روح و حیش مدرک ہر جان نشد
”احمد مجتبیٰ کی عقل کسی سے پوشیدہ اور مخفی نہیں تھی لیکن آنحضرت کی وحی کی روح کو ہر شخص نہیں سمجھ سکا۔“
روح وحی را مناسبھا است نیز
درنیابد عقل کان آمد عزیز
”وحی کی روح کے لئے کچھ مناسبات اور بھی ہیں لیکن عقل اس کا ادراک نہیں کر سکتی۔“
لوح محفوظ است و را پیشوا
ازچہ محفوظ است؟ محفوظ از خطا
”لوح محفوظ کے ذریعے اس وحی کی رہنمائی ہوتی ہے لوح محفوظ کس چیز سے محفوظ ہے وہ خطا سے محفوظ ہے۔“
نی نجوم است ونہ رمل است نہ خواب
وحی حق واللہ اعلم بالصواب
”وحی نہ تو علم نجوم سے متعلق ہے نہ علم رمل ہے اور نہ خواب ہے پس وہ حق تعالیٰ کی وحی ہے اور (اس کے بارے میں) اللہ ہی صحیح علم رکھتا ہے۔“
چوتھا اعتراض یہ ہے کہ علامہ اقبال اپنے مذکورہ فلسفے میں اسی طرح اشتباہ سے دوچار ہوئے ہیں جس طرح سے مغربی دنیا ہوئی ہے یعنی سائنس کو ایمان کا جانشین بنانا۔ بلاشک علامہ اقبال سائنس کی جانشینی کے نظریے کے سخت مخالف ہیں لیکن فلسفہ ختم نبوت میں انہوں نے جو راستہ اپنایا ہے وہ اسی نتیجہ تک پہنچتا ہے اقبال وحی کی تعریف فطری قسم کی چیز سے کرتے ہیں اور اس امر کے مدعی ہیں کہ کارخانہ عقل و فکر کے کام شروع کر دینے کے بعد جبلت اور فطری شعور کا فریضہ انجام کو پہنچ جاتا ہے اور خود جبلت خاموش ہو جاتی ہے یہ بات صحیح تھی مگر اس صورت میں جب کہ عقل و فکر اسی کام کو شروع کرتی جس کو طبیعت و جبلت انجام دیتی تھی لیکن اگر ہم یہ فرض کریں کہ جبلت کا فریضہ کچھ اور ہے اور عقل و فکر کا کچھ اور تو پھر اس کی کوئی دلیل نہیں کہ عقل و فکر کے مشغول کار ہو جانے کے ساتھ ہی جبلت اور فطری شعور کا کام ختم ہو جائے۔
پس اگر بالفرض ہم وحی کو ایک قسم کی جبلت اور فطری شعور سمجھیں اور یہ مان لیں کہ اس کا کام ایک قسم کا تصور کائنات اور اجتماعی مسلک کا پیش کرنا ہے جس کا امکان عقل و فکر کے ہاں نہیں ہے تو پھر بھی اس امر کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ بقول (خود اقبال ) عقل برہان استقرائی کی پختگی کے ساتھ ہی جبلت کا کام ختم ہو جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال شہرت و بلندی علمی کمال اور اسلام کا درد رکھنے کے باوجود اس لحاظ سے کہ ان کی تہذیب ایک مغربی تہذیب ہے اور اسلامی تہذیب ان کی ثانوی تہذیب ہے یعنی انہوں نے اپنی تمام تعلیم مغربی مضامین میں حاصل کی ہے اور اسلامی تہذیب میں خاص کر فتنہ و عرفان اور بس تھوڑا بہت فلسفہ کا مطالعہ ہے لہٰذا بعض جگہ زبردست اشتباہ کا شکار ہوئے ہیں۔ ہم نے ”اصول فلسفہ و روش ریالزم“ کے مقدمہ میں اقبال کی اس کمزوری کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اسی وجہ سے سید جمال الدین اسد آبادی سے ان کا موازنہ کرنا صحیح نہیں ہے ایک تو سید جمال الدین اپنے ذاتی فضل و کمال کے لحاظ سے بھی ایک قدآور اور مضبوط شخصیت ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی اصلی تعلیم اسلامی تھی اور مغربی تعلیم اور ثقافت ثانوی حیثیت رکھتی تھی اس کے علاوہ مرحوم سید جمال الدین نے اسلامی ملکوں کے دورے کئے تھے اور بہت ہی قریب سے ان ملکوں کے سیاسی و اجتماعی حالات کا مطالعہ کیا تھا لیکن اقبال کو یہ سب خصوصیات حاصل نہ تھیں اسی وجہ سے سید جمال الدین اقبال کی طرح بعض اسلامی ممالک (مثلاً ایران اور ترکی) کے واقعات کے سلسلے میں کسی صورت میں بھی اشتباہ کا شکار نہیں ہوئے۔