قرآن
قرآن کریم ہماری آسمانی کتاب اور ہمارے پیغمبر کا جاویدانی معجزہ ہے۔ یہ کتاب ۲۳ سال کی مدت میں تدریجاً ہمارے پیغمبر پر نازل ہوئی‘ قرآن کریم جو پیغمبر اکرم کی کتاب بھی ہے اور آپ کے اعجاز کا مظہر بھی‘ یہ کتاب عصائے موسیٰ اور دم عیسیٰ کے اثر سے صدہا گنا بزرگ و عظیم اثرات کی حامل ہے‘ پیغمبر اکرم لوگوں کے سامنے آیات قرآنی کی تلاوت فرماتے تھے اور ان آیات کی کشش و جاذبیت لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچ لیتی تھی‘ تاریخ اسلام میں اس موضوع سے متعلق واقعات کی تعداد شمار کی حد سے باہر ہے۔ قرآن مجید ۱۱۴ سورتوں کا مجموعہ ہے اور یہ تمام سورتیں تقریباً ۲۶۰۵ آیتوں پر مشتمل ہیں اور ان تمام آیتوں میں ۷۸ ہزار کلمے ہیں۔
مسلمانوں نے صدر اسلام سے لے کر عصر حاضر تک قرآن پر بے انتہا توجہ دی ہے اور اس کے اہتمام کے سلسلے میں بے مثال دلچسپی کا ثبوت دیا ہے‘ جو قرآن کے ساتھ ان کی عقیدت کی دلیل ہے۔
قرآن کریم رسول اکرم کے مبارک زمانے ہی میں ایک جماعت کے ذریعے جسے خود حضرت رسول خدا نے ہی معین فرمایا تھا اور جو کاتبان وحی کے نام سے مشہور ہوئی‘ لکھا جاتا رہا اس کے علاوہ اکثر مسلمان مرد اور عورتیں‘ چھوٹے اور بڑے پورا قرآن یا اس کی اکثر آیتوں کے زبانی یاد کرنے سے ایک عجیب عشق رکھتے تھے‘ قرآن کو نمازوں میں بھی پڑھتے تھے اور نمازوں کے علاوہ بھی دوسرے اوقات و حالات میں اس کی تلاوت کو ثواب سمجھتے تھے۔
اس کے علاوہ قرآن مجید کی تلاوت سے (روحانی) لذت حاصل کرتے تھے اور تلاوت قرآن ان کی روح کے آرام و سکون کا سرمایہ تھی۔
قرآن کیلئے مسلمانوں کی عظیم کوشش
مسلمانوں نے ہر زمانے میں اپنی آسمانی کتاب سے شوق و عشق کی بناء پر اپنے علمی و فکری وسائل کے مطابق قرآن مجید کے سلسلے میں کام کئے ہیں‘ جیسے اسے حفظ کرنا اور اپنے سینوں کے سپرد کر دینا‘ قرات و تجوید کے اساتذہ اور ماہرین کی قرات‘ معانی کی تفسیر‘ لغات کی تشریح و توضیح کے لئے مخصوص لغت کی کتابوں کی تصنیف و تالیف‘ تمام آیتوں کلموں یہاں تک کہ پورے قرآن میں جتنے حروف ہیں‘ ان کو بھی شمار کر لینا‘ یہ سب کام بڑی محنت سے کئے گئے ہیں۔ قرآن کے معانی و مطالب پر باریک بینی کے ساتھ تحقیق اور قانونی‘ اخلاقی‘ اجتماعی‘ فلسفی‘ عرفانی اور سائنسی مسائل میں قرآن مجید سے استفادہ کرنا‘ اپنے اقوال اور تحریروں کو قرآنی آیات سے زینت دینا‘ قرآنی آیات کے نفیس کتبے تیار کرنا یا چونے کے اوپر آیتوں کا لکھنا‘ ٹائلوں یا دوسری چیزوں پر قرآنی سورتوں اور آیتوں کو خوش خط و خوش نما خطوط اور طرز تحریر سے لکھنا‘ سنہرے حروف میں قرآن نویسی‘ اپنے لڑکے اور لڑکیوں کو ہر علم سکھانے سے پہلے قرآن کی تعلیم دینا‘ قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے علم صرف و نحو کے قواعد کی ترتیب و تدوین اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے کے لئے‘ علم معانی و بیان و بدیع کی اختراع و ایجاد‘ عربی زبان کی تمام لغات کو جمع کرنا وغیرہ وغیرہ۔
اس کے علاوہ قرآن سے مسلمانوں کے عشق و محبت ہی کا نتیجہ تھا‘ جو عقلی و ادبی علوم کا ایک سلسلہ وجود میں آیا ورنہ اگر قرآن نہ ہوتا‘ تو یہ علوم بھی وجود میں نہ آتے۔
اعجاز قرآن
قرآن مجید حضرت رسول خدا کا ہمیشہ رہنے والا معجزہ ہے‘ مکہ میں نازل ہونے کی ابتداء ہی سے جب کہ چھوٹی چھوٹی سورتوں سے آغاز نزول ہوا‘ تو رسول اکرم نے باقاعدہ طور پر اس کا مثل و مانند لانے کے لئے کفار مکہ کو چیلنج کیا‘ یعنی آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ قرآن میرا کلام نہیں ہے بلکہ اللہ کا کلام ہے یا کسی اور بشر کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اس کی نظیر پیش کر سکے اور اگر تمہیں یقین نہ ہو تو اس کی آزمائش کر لو‘ لیکن یہ جان لو‘ اگر تمام جن و انس بھی ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں‘ تاکہ اس قرآن کا مثل لے آئیں‘ تو بھی وہ اس پر قادر نہ ہوں گے۔
پیغمبر کے مخالفین نہ تو اس زمانے میں اور نہ اس کے بعد سے آج تک جس کو چودہ صدیاں گذر گئیں (بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ گذر گیا) اس چیلنج کا جواب دے سکے ہیں۔ اس زمانے کے مخالفین کا آخری جواب یہ تھا کہ یہ تو جادو ہے۔ مخالفین کا یہ الزام خود قرآن مجید کے غیر معمولی ہونے کا اعتراف اور قرآن کے مقابلے میں ان کا ایک طرح کا اظہار عاجزی ہے۔ پیغمبر اکرم کے دشمنوں نے جہاں تک ممکن تھا‘ ان کو کمزور و مغلوب کرنے کے لئے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ البتہ صرف ایک کام تھا‘ جس پر انہوں نے کوئی اقدام نہیں کیا‘ کیوں کہ وہ اس کام میں سو فیصد ناامید تھے‘ یعنی یہ کام وہی تھا‘ جس کا بار بار پیغمبر اسلام نے اعلانیہ طور پر چیلنج کیا تھا‘ مگر ان کے پاس اس کا کوئی جواب ہی نہیں تھا۔
خود قرآن مجید نے بھی اس امر کی تصریح کی ہے‘ یعنی قرآن کی مانند کم از کم ایک سورہ لانے کا چیلنج (اگرچہ ایک سطر کی صورت ہی ہو‘ جیسے سورہ انااعطیناک الکوثر)۔
قرآن کے معجزانہ پہلو
قرآن کریم مختلف پہلوؤں کے اعتبار سے معجزہ‘ یعنی طاقت بشری سے بالاتر ہے‘ یہاں پر ہم اس کے بارے میں مختصر طور پر گفتگو کریں گے۔ قرآن کریم کا معجزہ ہونا کلی اعتبار سے دو جہات سے ہے۔ ایک لفظی دوسری معنوی‘ قرآن کا لفظی اعجاز حسن و زیبائی کی صنف سے ہے اور اس کا معنوی اعجاز علمی دنیا سے متعلق ہے‘ پس قرآن کا اعجاز ایک تو زیبائی اور ہنر کے پہلو سے ہے اور دوسرے فکری و علمی پہلو سے۔ ان دونوں پہلوؤں میں سے ہر ایک خصوصاً علمی پہلو کئی گوشوں کا حامل ہے۔
الفاظ قرآن
قرآن مجید کا اسلوب نہ شعری ہے اور نہ نثری۔ شعری اس وجہ سے نہیں ہے کہ اس میں وزن اور قافیہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ شعر عام طور سے ایک شاعرانہ تخیل کے تحت وجود میں آتا ہے۔ شعر کی بنیاد یا صحت و درستی مبالغہ و افراط پر ہوتی ہے‘ جو ایک طرح کا جھوٹ ہے۔ قرآن میں نہ تو شعری تخیلات کا وجود ہے اور نہ خیالی تشبیہات کا۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن نثر بھی نہیں ہے کیوں کہ اسے جو نظم‘ آہنگ اور ایک (مخصوص انداز) موسیقی حاصل ہے‘ وہ کسی نثری کلام میں آج تک دیکھنے یا سننے میں نہیں آئی۔ مسلمانوں نے ہمیشہ قرآن کریم کی تلاوت اس کے مخصوص انداز میں خوش لحنی کے ساتھ کی ہے اور کرتے ہیں‘ دینی احکام میں یہ موجود ہے کہ قرآن کریم کو اچھے انداز سے پڑھا کرو۔ آئمہ اطہار علیہم اسلام کبھی کبھی اپنے گھروں میں ایسی دلربا و دلکش آواز میں تلاوت کرتے تھے کہ اس گلی میں راستہ چلنے والے ٹھہر جاتے تھے۔ کوئی بھی نثری کلام قرآن کی طرح آہنگ نہیں رکھتا‘ وہ بھی ایسا انداز و آہنگ جو روحانی عوامل سے مناسبت رکھتا ہو نہ کہ ایسا آہنگ جو لہو و لعب کی محافل سے مناسبت رکھتا ہو۔ ریڈیو کی ایجاد کے بعد کوئی بھی روحانی کلام روحانی آوازوں کے متحمل ہونے اور دلکشی و دلربائی کے لحاظ سے قرآن کی برابری نہیں کر سکا۔ اسلامی ملکوں کے علاوہ دوسرے غیر اسلامی ملکوں نے بھی اس کے دلکش آہنگ کی وجہ سے ہی اپنے ریڈیو کے پروگراموں میں اسے جگہ دی ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ قرآن کریم کا حسن صورت اور اس کی زیبائی و دلکشی نے زمان و مکان کے پردوں کو لپیٹ کر پیچھے پھینک دیا ہے۔ بہت سی باتیں اور بہت سے کلاموں کی دلکشی کسی خاص وقت اور زمانے سے مربوط ہوتی ہے‘ جو دوسرے زمانے کے ذوق سے قطعاً میل نہیں کھاتی یا وہ کلام کم از کم کسی ایک قوم و ملت کے مذاق کے مطابق ہوتا ہے‘ جو مثلاً کسی مخصوص زبان سے بہرہ مند ہوتے ہیں‘ لیکن قرآن کی زیبائی اور دلکشی نہ تو کسی زمانے سے مخصوص ہے اور نہ کسی جگہ‘ قوم و نسل اور زبان والوں سے۔ وہ تمام لوگ جو قرآن کے مفاہیم اور زبان سے آشنا ہو گئے ہیں‘ انہوں نے اس کو اپنے ذوق کے مطابق پایا ہے‘ جتنا بھی زمانہ گزرتا جاتا ہے اور جس قدر مختلف قومیں قرآن سے آشنائی حاصل کرتی جاتی ہیں‘ اتنی ہی قرآن کی خوبیوں سے متاثر اور اس کی زیبائی و دلکشی پر فریفتہ ہوتی جاتی ہیں۔
متعصب یہودیوں اور عیسائیوں اور چند دوسرے مذاہب کے ماننے والوں نے ان اسلامی چودہ صدیوں کی طویل مدت کے دوران قرآن کی عظمت و منزلت کو گھٹانے اور کمزور کرنے کے لئے طرح طرح سے مقابلے کئے ہیں اور قسم قسم کے ہتھکنڈے آزمائے ہیں۔ کبھی قرآن میں تحریف ہونے کا پروپیگنڈہ کیا‘ کبھی قرآن میں بیان شدہ بہت سے قصوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی اور کبھی دوسرے مختلف طریقوں سے قرآن کے خلاف سرگرم عمل رہے‘ لیکن کبھی انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اپنے ماہر اور تجربہ کار مقرروں اور ادیبوں سے مدد حاصل کر کے قرآن کے چیلنج کا جواب دیں اور قرآن کی مانند کم از کم چھوٹا سا ہی سورہ بنا لائیں اور دنیا والوں کے سامنے پیش کر دیں۔ اسی طرح تاریخ اسلام میں بھی بہت سے ایسے افراد پیدا ہوئے ہیں‘ جو اصطلاح میں ”زنادقہ“ یا ”ملاحدة“ کے نام سے پکارے جاتے ہیں اور ان میں سے چند افراد تو غیر معمولی شہرت کے مالک تھے‘ اس گروہ نے بھی مختلف طریقوں سے دین کے خلاف عام طور پر اور قرآن کے خلاف خاص طور پر بہت سی باتیں کہیں ہیں‘ ان میں سے کئی افراد تو عربی زبان میں فن خطابت کے بادشاہ شمار کئے جاتے ہیں‘ کبھی کبھی یہ لوگ بھی قرآن کے ساتھ نزاع اور مخاصمت پر اتر آتے ہیں‘ لیکن ان سب طریقوں کا جو تنہا نتیجہ نکلا ہے‘ وہ یہ کہ انہوں نے قرآن کی عظمت کو روشن تر اور اس کے مقابلے میں اپنے کو حقیر تر ظاہر کر دیا ہے۔
تاریخ نے اس موقع پر ابن راوندی‘ ابوالعلا معری اور عرب کے نامور شاعر ابولطیب متنبی کے متعلق بہت سی کہانیاں اس بارے میں ثبت کی ہیں- یہ وہ لوگ تھے‘ جنہوں نے قرآن کو ایک بشری فعل ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔
بہت سے افراد نبوت کا دعویٰ کر کے اٹھے اور انہوں نے کچھ کلام پیش کئے‘ جو ان کے خیال میں قرآن کے مشابہ تھے اور ان لوگوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے یہ کلام بھی قرآن کی مانند ہیں اور خدا کی طرف سے ہیں ”طلیحہ“ اور ”مسیلمہ“ اور ”سجاح“ کا تعلق اسی گروہ سے ہے۔ اس گروہ نے بھی بالآخر ایک دوسری طرح سے اپنی عاجزی اور قرآن مجید کی عظمت کو واضح و روشن کیا۔
عجیب بات یہ ہے کہ خود پیغمبر کا کلام جن کی زبان مقدس پر کلام الٰہی جاری ہوا‘ قرآن سے مختلف ہے۔ پیغمبر خدا کے بہت سے کلمات‘ خطبوں‘ دعاؤں‘ مختصر جملوں اور حدیثوں کی شکل میں موجود ہیں اور فصاحت کی انتہائی بلندی پر ہیں‘ مگر کسی طرح سے بھی قرآن کا رنگ و بو اس کے اندر موجود نہیں ہے۔ یہ خود اس امر کی واضح دلیل ہے کہ قرآن اور پیغمبر کے کلام کے سرچشمے الگ الگ ہیں۔ قرآن کا منبع اور ہے اور احادیث کا منبع دوسرا ہے۔ حضرت علی تقریباً ۱۰ سال کی عمر سے قرآن سے آشنا ہیں‘ یعنی علی کا سن مبارک مذکورہ حدود میں تھا کہ قرآن کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں اور علی اس پیاسے کی طرح جو صاف و شفاف پانی تک پہنچ جائے‘ ان آیتوں کو حفظ فرما لیا کرتے تھے اور پیغمبر اکرم ۱ کی آخری عمر مبارک تک علی کا نام کاتبان وحی میں سرفہرست تھا۔ علی حافظ قرآن تھے اور ہمیشہ قرآن کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ راتوں کو جب عبادت کے لئے کھڑے ہوتے تھے‘ تو آیات قرآنی کی تلاوت سے خوش رہتے تھے۔ ان تمام چیزوں کے باوجود اگر قرآن کی بناوٹ اور ترتیب اور اس کا اندازہ تقلید کے قابل ہوتا‘ تو علی کو اس بے نظیر صلاحیت کی بناء پر جو آپ کو فصاحت و بلاغت کے میدان میں حاصل تھی اور قرآن کے بعد آپ کے کلام کی کوئی نظیر اور مثال نہیں مل سکتی‘ قرآن کے انداز بیان کے زیراثر ہونے کی بناء پر قرآن ہی کے طرز و انداز کی پیروی کرنا چاہئے تھی اور آپ کے تمام خطبے اور تمام تحریریں خود بخود آیات قرآنی کی شکل میں ڈھل جاتیں‘ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کا انداز علی کے کلام کے انداز سے مکمل طور پر مختلف اور جدا ہے۔ حضرت علی اپنے روشن اور فصیح و بلیغ خطبوں کے ضمن میں جب کبھی کوئی قرآنی آیت پیش کرتے تو وہ آپ کے کلام سے بالکل علیحدہ محسوس ہوتی‘ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی بڑا ستارہ چھوٹے ستاروں کے درمیان اپنی غیر معمولی چمک دمک اور امتیازی شان کا حامل ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ایسے موضوعات کو پیش نہیں کیا ہے‘ جو عام طور سے تقریر و خطابت میں انسان کی ہنرنمائی کا ذریعہ ہوتے ہیں اور اگر لوگ اپنی خطابت کے جوہر دکھانا چاہتے ہیں تو فخر‘ مدح‘ ہجو (کسی کی مذمت کرنا)‘ مرتبہ‘ غزال اور قدرتی حسن و جمال کی تعریف و توصیف کے ذریعے اپنی تقریروں اور اپنے کلام میں خوبصورتی اور جاذبیت پیدا کرتے ہیں۔
قرآن نے نہ تو ان موضوعات کو پیش کیا ہے اور نہ ان موضوعات کے بارے میں داد سخن دی ہے۔ قرآن نے جن موضوعات کو پیش کیا ہے‘ وہ سب کے سب معنوی ہیں اور توحید‘ معاد‘ نبوت‘ اخلاق‘ احکام‘ مواعظ و نصائح اور قصوں سے عبارت ہیں اور ان سب حالات میں دلکشی و زیبائی کی اعلیٰ منزل پر پہنچا ہوا ہے۔
قرآن کریم میں کلمات کی ترتیب و تنظیم بے نظیر و بے عدیل ہے‘ آج تک کوئی شخص بھی قرآن مجید کی حسن و زیبائی پر دھبہ ڈالے بغیر قرآن کے ایک کلمے کو بھی ادھر سے ادھر نہیں کر سکا ہے اور نہ آج تک کوئی شخص قرآن کی نظیر لا سکا ہے۔ اس لحاظ سے قرآن ایک حسین و خوش نما عمارت کی مانند ہے کہ نہ تو کوئی شخص اس میں تبدیلی اور اس کے اجزاء کو ادھر سے ادھر کر کے اس کی زیبائی و خوشنمائی میں کوئی اضافہ کر سکتا ہے اور نہ اس سے بہتر یا اس کی مانند بنا سکتا ہے۔ قرآن مجید کی بناوٹ اور اس کا اسلوب بیاں بالکل نرالہ ہے نہ تو اس سے پہلے کوئی اس کی مثال ملتی ہے اور نہ (قرآن کے تمام تر چیلنج کے باوجود) اس کے بعد ملتی ہے اور نہ ملے گی‘ یعنی نہ تو اس سے پہلے کسی نے اس اسلوب میں کوئی بات کہی اور نہ اس کے بعد کوئی شخص اس کا مثل لا سکا یا اس اسلوب کی تقلید کر سکا۔
قرآن کا چیلنج آج بھی اسی طرح پہاڑ کی مانند قائم اور اٹل ہے اور ہمیشہ اٹل رہے گا۔ آج بھی تمام اہل ایمان دنیا کے تمام لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں کہ اس مقابلے میں شرکت کریں اور اگر آج بھی قرآن کا مثل و مانند پیدا ہو جائے‘ تو مسلمان اپنے دعوے اور ایمان سے دستبردار ہو جائیں گے لیکن انہیں اس بات پر مکمل یقین ہے کہ اس قسم کی چیز کبھی ممکن نہیں ہے۔
معانی قرآن
معانی و مطالب کے لحاظ سے قرآن کا اعجاز تفصیلی بحث کا متقاضی ہے اور کم از کم ایک الگ کتاب کا محتاج ہے۔ البتہ مختصراً قرآن کے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی جا سکتی ہے‘ تمہید کے طور پر یہ جان لینا چاہئے کہ قرآن کس نوعیت کی کتاب ہے؟ کیا فلسفہ کی کتاب ہے؟ کیا یہ کتاب سائنسی‘ ادبی یا تاریخ کی کتاب ہے؟ یا یہ کہ صرف فن و ہنر کا ایک شاہکار ہے؟ جواب یہ ہے کہ قرآن ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں ہے جیسا کہ پیغمبر اکرم بلکہ تمام انبیاء بالکل ایک جداگانہ حیثیت کے حامل ہیں‘ نہ تو فلسفی ہیں‘ نہ منطقی اور نہ ادیب اور مورخ ہیں اور نہ ہی ہنرمند اور صنعت گر ہیں‘ لیکن اس کے باوجود کہ ان میں سے کچھ بھی نہیں ہیں‘ پھر بھی ان تمام خصوصیات کے علاوہ بعض زائد خصوصیات کے حامل ہیں۔ اسی طرح قرآن بھی جو آسمانی کتاب ہے‘ نہ فلسفہ ہے نہ منطق‘ نہ تاریخ ہے نہ ادب ہے اور نہ کسی فن و ہنر کا شاہکار‘ لیکن سب کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی ان سب خصوصیات کے علاوہ مزید خصوصیات کا حامل بھی ہے۔ قرآن انسانوں کی رہنمائی کی کتاب ہے اور حقیقت میں وہ ”انسان“ کی کتاب ہے‘ لیکن انسان بھی کون سا؟ ایسا انسان جس کو انسان کے خدا نے پیدا کیا ہے اور انبیائے الٰہی کے آنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ انسان کو اس کی حقیقت سے آگاہ کریں اور اس کی سعادت و نیک بختی کا راستہ اس کے لئے کھول دیں اور قرآن چونکہ انسان کی کتاب ہے‘ پس اللہ کی کتاب بھی ہے‘ کیوں کہ انسان ہی وہ موجود ہے‘ جس کی خلقت اس دنیا سے قبل ہوئی ہے اور جس کا وجود اس دنیا کے بعد باقی رہے گا‘ یعنی انسان بنظر قرآن روح الٰہی کا ایک نسخہ ہے اور بہرحال اسے اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی معرفت اور انسان کی خود شناسی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے۔
انسان جب تک اپنے کو نہیں پہچانے گا‘ اپنے اللہ کو بھی صحیح طریقے سے نہیں پہچان سکتا‘ دوسری طرف انسان صرف خدا شناسی کے ذریعے ہی اپنی حقیقت کو پہچان سکتا ہے۔ پیغمبروں کے مکتب فکر میں کہ قرآن جس کا مکمل ترین نمونہ ہے‘ انسان‘ اس انسان کے مقابلے میں جس کو بشر علم و منطق کے ذریعے پہچانتا ہے‘ بہت مختلف ہے یعنی وہ پہلا انسان بہت وسیع معنی رکھتا ہے‘ جب کہ علوم کے ذریعے سے پہچانا جانے والا انسان پیدائش اور موت کے درمیان قائم ہے‘ ان حدود سے قبل اور بعد بالکل تاریکی چھائی ہوئی ہے اور بشری علوم کے لئے یہ چیزیں بالکل نامعلوم ہیں۔
لیکن قرآن کا انسان ان دو حدوں کے درمیان محدود نہیں ہے بلکہ وہ دوسری دنیا سے آیا ہے اور اسے اپنے آپ کو دنیا کے مدرسے میں مکمل کرنا ہو گا اور اس کا مستقبل اس دنیا میں الٰہی امر سے وابستہ ہے کہ اس دنیا کے مدرسے میں اس نے کس قسم کی کارکردگی‘ تلاش و کشش یا کاہلی و سستی کا ثبوت دیا ہے۔ اس کے علاوہ پیدائش اور موت کے درمیان انسان جس کو بشر پہچانتا ہے‘ بہت سطحی اور معمولی ہے بہ نسبت اس انسان کے جسے پیغمبروں نے پہچنوایا ہے۔ قرآن کے انسان کو چاہئے کہ ان باتوں کا علم حاصل کرے کہ وہ کہاں سے آیا ہے‘ کہاں جائے گا‘ کہاں پر ہے اور اسے کیا ہونا چاہئے اور کیا کرنا چاہئے؟
اگر قرآن کا انسان ان پانچ سوالوں کا ٹھیک ٹھیک جواب دے لے گا‘ تو اس دنیا میں جس میں وہ ہے اور اس دنیا میں جہاں وہ جائے گا اس کی سعادت و خوش بختی کی ضمانت فراہم ہو جائے گی‘ اس انسان کو یہ جاننے کے لئے کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کس سرچشمے سے اس کا آغاز ہوا ہے‘ چاہئے کہ اپنے اللہ کو پہچانے اور اپنے اللہ کو پہچاننے کی غرض سے دنیا اور انسانوں کے بارے میں آفاقی اور نفسی نشانیوں کی حیثیت سے مطالعہ اور غور و فکر کرے اور وجود و ہستی کی گہرائیوں کا بنظر غائر مطالعہ کرے اور ان چیزوں کے بارے میں جنہیں قرآن خدا کی طرف واپسی کہتا ہے‘ یعنی قیامت‘ حشر و نشر‘ قیامت کے خطرات ہمیشہ قائم رہنے والی نعمتیں اور سخت عذاب اور اس کا کچھ لوگوں کے لئے ابدی ہونا مختصر یہ کہ بعدازموت جو جو مراحل پیش آنے والے ہیں‘ ان پر تامل و فکر کرے اور ان سے آگاہی حاصل کرے اور سب پر عقیدہ رکھے اور ان پر ایمان لائے اور خدا کو جس طرح اول اور موجودات کا نکتہ آغاز جانتا ہے‘ اسی طرح آخر اور تمام موجودات کی بازگشت و واپسی کا نکتہ آغاز بھی جانے اور یہ جاننے کے لئے کہ وہ کہاں ہے؟ دنیا کے نظاموں اور طور طریقوں کو پہچاننے اور تمام موجودات کے درمیان انسان کے مقام و منزلت کو سمجھنے کی کوشش کرے اور موجودات کے درمیان اپنی حقیقت کو پھر سے پا لے اور یہ جاننے کے لئے کہ اسے کیسا ہونا چاہئے؟ انسانی خصلتوں اور عادتوں کو پہچانے اور اپنے آپ کو انہیں اخلاق و خصائل کی بنیاد پر استوار کرے اور انہی کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کرے یہ جاننے کے لئے کہ اسے کیا کرنا چاہئے انفرادی و اجتماعی مقررہ امور و احکام کی پیروی کرے۔ ان مذکورہ تمام باتوں کے علاوہ قرآن کے انسان کو چاہئے کہ غیر محسوس اور دکھائی نہ دینے والے موجودات اور خود قرآن کے الفاظ میں ”غیب“ پر ان کے ارادہ الٰہی کے مظہر اور واسطہ ہونے کی حیثیت سے ایمان لائے اور نیز یہ جاننا چاہئے کہ خداوند متعال نے کسی زمانے اور کسی وقت میں بھی بشر کو جو آسمانی ہدایت کا ہمیشہ محتاج رہا ہے‘ مہمل اور بغیر ہادی کے نہیں چھوڑا ہے اور ہمیشہ اللہ کے برگزیدہ اقرار‘ جو اللہ کے پیغمبر اور خلق خدا کے رہنما رہے ہیں‘ خداوند عالم کی طرف سے مبعوث ہوتے اور الٰہی پیغام کو بندوں تک پہنچاتے رہے ہیں۔
قرآن کا انسان کائنات پر ایک آیت و نشانی کی حیثیت سے اور دنیا کی تاریخ پر ایک تجربہ گاہ کے عنوان سے جو پیغمبروں کی تعلیمات کے صحیح ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے‘ نگاہ ڈالتا ہے! ہاں قرآن کا انسان ایسا ہی ہے اور قرآن میں انسان کے واسطے جو مسائل پیش کئے گئے ہیں‘ وہ دوسرے چند مسائل کے علاوہ ہیں۔
قرآنی موضوعات
قرآن کریم میں جو موضوعات پیش کئے گئے ہیں‘ وہ بہت زیادہ ہیں اور انہیں الگ الگ شمار نہیں کیا جا سکتا‘ پھربھی مندرجہ ذیل مسائل پر اجمالاً نظر ڈالی جا رہی ہے:
۱ ۔ اللہ اور اس کی ذات‘ صفات اور یکتائی اور وہ چیزیں جن سے ہمیں اللہ کو منزہ سمجھنا چاہئے اور وہ چیزیں جن سے ہمیں خدا کو متصف سمجھنا چاہئے۔(صفات سلبیہ اور صفات ثبوتیہ)
۲ ۔ قیامت‘ محشر‘ تمام اموات کو زندہ کر کے اٹھانا اور موت سے لے کر قیامت تک کے مراحل۔ (برزخ)
۳ ۔ ملائکہ: فیض رسانی کے ذرائع‘ وہ غیر مرئی قوتیں جو خود آگاہ بھی ہیں اور خدا آگاہ بھی اور خدا کے احکام جاری کرنے والے ہیں۔
۴ ۔ انبیاء و مرسلین یا وہ انسان جو وحی الٰہی کو اپنے ضمیر میں دریافت کرتے ہیں اور اسے دوسرے انسانوں تک پہنچاتے ہیں۔
۵ ۔ اللہ پر ایمان لانے اور قیامت‘ ملائکہ‘ پیغمبروں اور آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کے لئے رغبت اور شوق دلانا۔
۶ ۔ آسمانی‘ زمینوں‘ پہاڑوں‘ سمندروں‘ درختوں‘ حیوانات‘ بادل‘ ہوا‘ بارش‘ برف اور اولے اور ٹوٹنے والے ستاروں وغیرہ کی خلقت (اور ان پر غور و فکر)۔
۷ ۔ خدائے واحد و یکتا کی عبادت اور اس میں خلوص نیت پیدا کرنے‘ کسی شخص یا کسی چیز کو عبادت میں خدا کا شریک قرار نہ دینے کی طرف دعوت اور غیر خدا چاہے وہ کوئی انسان ہو یا فرشتہ‘ سورج ہو یا ستارہ‘ درخت ہو یا بت‘ کی عبادت و پرستش کی سخت ممانعت۔
۸ ۔ اس دنیا میں خداوند عالم کی نعمتوں کو یاد دلانا۔
۹ ۔ نیک کاروں اور اعمال صالحہ بجا لانے والوں کے لئے اس دنیا کی ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتیں اور بدکاروں اور سرکشوں کے لئے اس دنیا کا سخت عذاب اور کچھ لوگوں کے لئے ابدی عذاب۔
۱۰ ۔ اللہ کے وجود اور وحدانیت اور قیامت اور پیغمبروں کے بارے میں دلیلوں اور حجتوں کا بیان اور ان بیانات کے ضمن میں کچھ غیبی خبروں کا ذکر۔
۱۱ ۔ ایک انسانی تجربہ گاہ اور لیبارٹری کے عنوان سے تاریخ اور قصے جو پیغمبروں کی دعوت کی حقانیت کو روشن کرتے ہیں اور انبیاء کی سیرت پر عمل کرنے والوں کا انجام بخیر ہونا اور انبیاء کی تکذیب کرنے والوں کا برا انجام۔
۱۲ ۔ تقویٰ و پرہیزگاری اور تزکیہ نفس۔
۱۳ ۔ نفس امارہ اور نفسانی خواہشات اور شیطانی وسوسوں کے خطرات کی طرف متوجہ رہنا۔
۱۴ ۔ اچھے انفرادی اخلاقیات‘ جیسے شجاعت‘ استقلال و پائیداری‘ صبر‘ عدالت‘ احسان‘ محبت‘ ذکر خدا‘ خدا سے محبت‘ شکر خدا‘ خدا سے ڈرتے رہنا‘ خدا پر بھروسہ‘ خدا کی خوشی پر راضی رہنا اور فرمان خدا کے سامنے سر جھکا دینا‘ عقل سے کام لینا‘ سوچنا اور غور و فکر کرنا‘ علم و معرفت کا حصول اور تقویٰ‘ سچائی اور امانت کے ذریعے دل میں نورانیت پیدا کرنا۔
۱۵ ۔ اجتماعی اخلاق جیسے اتحاد و یکجہتی اور ہم آہنگی‘ آپس میں ایک دوسرے کو حق و صبر کی وصیت کرتے رہنا‘ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا‘ بغض و حسد کو دل سے نکال پھینکنا‘ اچھے کاموں کا حکم دینا اور برائیوں سے منع کرنا‘ راہ خدا میں جان و مال کے ذریعے جہاد کرنا وغیرہ۔
۱۶ ۔ احکام جیسے نماز‘ روزہ‘ زکٰوة‘ خمس‘ حج‘ جہاد‘ نذر‘ قسم‘ تجارت‘ رہن‘ اجارہ‘ ہبہ‘ بیوی و شوہر کے حقوق‘ والدین اور اولاد کے حقوق‘ طلاق‘ لعان‘ ظہار‘ وصیت‘ میراث‘ قصاص‘ حدود و تعزیرات‘ قرض‘ قضا‘ گواہی‘ حلف (قسم)‘ ثروت‘ مالکیت حکومت‘ شوریٰ‘ فقراء کا حق‘ معاشرے کا حق وغیرہ وغیرہ۔
۱۷ ۔ رسول اکرم کے ۲۳ سالہ دور بعثت کے حادثات و واقعات۔
۱۸ ۔ رسول اکرم کے احوال و خصوصیات‘ آپ کی صفات حمیدہ اور جن مصائب سے آپ دوچار ہوئے۔
۱۹ ۔ ہر زمانے کے تین گروہوں‘ مومنوں‘ کافروں اور منافقوں کی عام صفات کا بیان۔
۲۰ ۔ دور بعثت کے مومنین‘ کافرین اور منافقین کے اوصاف کا ذکر۔
۲۱ ۔ فرشتوں کے علاوہ دوسری دکھائی نہ دینے والی مخلوقات‘ جنات اور شیطان وغیرہ۔
۲۲ ۔ تمام موجودات عالم کا حمد و تسبیح کرنا اور تمام موجودات کے اندر اپنے خالق و پروردگار کے بارے میں ایک قسم کی آگاہی کا ہونا۔
۲۳ ۔ خود قرآن کی توصیف (تقریباً پچاس اوصاف کا ذکر)۔
۲۴ ۔ دنیا اور دنیا کی سنتیں‘ دنیوی زندگی کی ناپائیداری اور اس کا اس قابل نہ ہونا کہ انسان کا آئیڈیل اور اس کی کامل آرزو قرار پائے اور یہ کہ خدا اور آخرت یعنی ہمیشہ باقی رہنے والی دنیا ہی اس قابل ہے کہ انسان کا انتہائی مقصود و مطلوب قرار پائے۔
۲۵ ۔ انبیائے کرام کے معجزات اور غیر معمولی افعال۔
۲۶ ۔ گذشتہ آسمانی کتابوں کی تائید و تصدیق خصوصاً تورات و انجیل کی اور ان دونوں کتابوں میں کی جانے والی تحریفوں اور غلطیوں کی تصحیح۔
معانی قرآن کی وسعت
اوپر جو باتیں بیان کی گئی ہیں‘ وہ قرآن مجید میں بیان شدہ موضوعات کی ایک اجمالی فہرست ہے‘ پھر بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اختصار کے لحاظ سے بھی یہ کافی ہے‘ اگر انسان‘ خدا اور دنیا کے بارے میں انہی مختلف موضوعات کو نظر میں رکھیں اور ان کا انسان کے بارے میں لکھی گئی کسی بھی کتاب سے موازنہ کریں‘ تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ کوئی کتاب بھی قرآن سے موازنے کی منزل پر نہیں آ سکتی‘ بالخصوص اس نکتے کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ قرآن ایک ایسے شخص کے ذریعے سے نازل ہوا ہے‘ جو اُمّی اور ان پڑھ تھے اور کسی عالم و دانش کے افکار سے واقف و آشنا نہیں تھے اور مزید برآں بطور خاص اگر ہم اس امر پر غور کریں کہ ایسے شخص کا ظہور ایسے ماحول میں ہوا تھا‘ جو ہمارے بشری ماحول سے زیادہ جاہل ماحول تھا اور اس ماحول کے لوگ عموماً علم و تمدن سے بیگانہ محض تھے‘ قرآن نے ان سے بہت وسیع معانی و مطالب بیان کئے ہیں اور انہیں اس طرح پیش کیا ہے کہ بعد میں خود قرآن ہر قسم کے استفادے کا منبع و سرچشمہ بن گیا‘ فلاسفہ کے لئے بھی اور علمائے فقہ و اخلاق و تاریخ وغیرہ کے لئے بھی۔ یہ امر ناممکن بلکہ محال ہے کہ کوئی فرد بشر خواہ وہ کتنا ہی بڑا فلسفی و دانش ور ہو‘ اپنی طرف سے ان سب معانی و مطالب کو ایسی معیاری سطح پر بیان کر سکے‘ جو دنیا کے بڑے بڑے علماء اور دانش وروں کے افکار کو اپنی طرف کھینچ لے۔ یہ تو اس صورت میں ہے‘ جب ہم قرآنی مطالب کو علماء کے بیان کردہ مطالب کی سطح کے برابر فرض کریں‘ لیکن اہم اور لطیف بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے ان اکثر مسائل میں نئے نئے افق پیدا کر دیئے ہیں۔
اللہ اور قرآن
یہاں ہم مذکورہ بالا موضوعات میں سے صرف ایک موضوع کی طرف اشارہ کریں گے اور وہ موضوع خدا اور جہان اور انسان سے اس کا رابطہ اور تعلق ہے‘ ہم اگر اسی ایک موضوع کے بیان کرنے پر اکتفا کریں اور اس کا موازنہ انسانی افکار و نظریات سے کریں‘ تو قرآن کا غیر معمولی نوعیت کا ہونا اور معجزہ ہونا ثابت ہو جائے گا۔
قرآن نے خدا کی صفات بیان کی ہیں اور اس توصیف میں ایک طرف تو اسے پاک اور منزہ قرار دیا ہے اور اس کی ایسی صفات کی نفی کی ہے‘ جو اس کے شایان شان نہیں ہیں اور اس کو ان صفات سے پاک و منزہ جانا ہے اور دوسری طرف صفات کمال اور اسماء حسنیٰ کو ذات خدا کے لئے ثابت کیا ہے۔ تقریباً ۱۵ آیتیں خداوند عالم کی تنزیہہ میں نازل ہوئی ہیں اور تقریباً پچاس ( ۵۰) آیتوں سے زیادہ ایسی ہیں‘ جو صفات کمال اور اسمائے حسنیٰ سے خداوند عالم کے متصف ہونے کے بارے میں ہیں‘ قرآن مجید اپنی ان توصیفات میں ایسا باریک بین نظر آتا ہے‘ جس نے زیادہ سے زیادہ عمیق فکر و نظر رکھنے والے علماء الٰہی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور یہ خود ایک اُمّی اور ان پڑھ شخص کا روشن ترین معجزہ ہے۔ قرآن نے معرفت اور خداشناسی کی راہیں دکھانے کے لئے تمام موجود راہوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔ آفاقی اور نفسی نشانیوں کے مطالعہ کا راستہ‘ نفس کے تزکیہ اور اس کی صفائی کا راستہ‘ بطور کلی وجود ہستی کے بارے میں گہرائی کے ساتھ غور و فکر کا راستہ قابل ترین مسلمان فلاسفہ نے اپنی محکم اور مضبوط ترین دلیلوں کو اپنے اقرار اور اعتراف کے مطابق قرآن مجید ہی سے اخذ کیا ہے۔
قرآن نے دنیا اور مخلوقات کے ساتھ خدا کے رابطے کو توحید محض پر قرار دیا ہے‘ یعنی خداوند متعال اپنی فعالیت اور اپنے ارادہ و مشیت کو نافذ کرنے میں اپنا کوئی مدمقابل اور رقیب نہیں رکھتا‘ اس کے تمام افعال اور ارادے اور سارے اختیارات اسی کے حکم اور اسی کی قضا و قدر کے تحت ظہور پذیر ہوتے ہیں۔