مرثیہ نمبر ۱
(یارب،چمنِ.نظم.کوگلزارِارم.کر)
یا رب، چمنِ نظم کو گلزارِ ارم کر
اے ابرِ کرم، خشک زراعت پہ کرم کر
تو فیض کا مبدا ہے، توّجہ کوئی دم کر
گم نام کو اعجاز بیانوں میں رقم کر
جب تک یہ چمک مہر کے پرتو سے نہ جائے
اقلیمِ سخن میرے قلمرو سے نہ جائے
ہر باغ میں چشمے ہیں ترے فیض کے جاری
بلبل کی زباں پر ہے تری شکر گزاری
ہر نخل برو مند ہے یا حضرتِ باری
پھل ہم کو بھی مل جائے ریاضت کا ہماری
وہ گل ہوں عنایت چمنِ طبعِ نِکو کو
بلبل نے بھی سُونگھا نہ ہو جن پھولوں کی بو کو
غوّاصِ طبیعت کو عطا کر وہ لآلی
ہو جن کی جگہ تاجِ سرِ عرش پہ خالی
اک ایک لڑی نظمِ ثریّا سے ہو عالی
عالم کی نگاہوں سے گرے قطبِ شمالی
سب ہوں دُرِ یکتا نہ علاقہ ہو کسی سے
نذر ان کی یہ ہوں گے جنھیں رشتہ ہے نبی سے
بھر دے دُرِ مقصود سے اُس دُرجِ دہاں کو
دریائے معانی سے بڑھا طبعِ رواں کو
آگاہ کر اندازِ تکلّم سے زباں کو
عاشق ہو فصاحت بھی، وہ دے حُسن، بیاں کو
تحسیں کا سماوات سے غُل تا بہ سَمک ہو
ہر گوش بنے کانِ ملاحت، وہ نمَک ہو
تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دُوں
قطرے کو جو دُوں آب تو گوہر سے ملا دوں
ذرّے کی چمک مہرِ منوّر سے ملا دوں
خاروں کو نزاکت میں گلِ تر سے ملا دوں
گلدستہء معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اِک پُھول کا مضموں ہو تو سَو رنگ سے باندھوں
گر بزم کی جانب ہو توّجہ دمِ تحریر
کھنچ جائے ابھی گلشنِ فردوس کی تصویر
دیکھے نہ کبھی صحبتِ انجم فلکِ پیر
ہو جائے ہوا بزمِ سلیماں کی بھی توقیر
یوں تختِ حسینانِ معانی اُتر آئے
ہر چشم کو پریوں کا اکھاڑا نظر آئے
ساقی کے کرم سے ہو وہ دَور اور وہ چلیں جام
جس میں عوضِ نشہ ہو کیفیتِ انجام
ہر مست فراموش کرے گردشِ ایّام
صوفی کی زباں بھی نہ رہے فیض سے ناکام
ہاں بادہ کشو، پُوچھ لو میخانہ نشیں سے
کوثر کی یہ موج آگئی ہے خُلدِ بریں سے
وہ فرش ہو اس بزم ارم رشک میں نایاب
ہو جس کی سفیدی سے خجل چادرِ مہتاب
دل عرش کا لوٹے کہ یہ راحت کا ہے اسباب
مخمل کو بھی حسرت ہو کہ میں اس پہ کروں خواب
آئینوں سے ہو چار طرف نور کا جلوا
دکھلائے ہر اک شمع رُخِ حُور کا جلوا
آؤں طرفِ رزم ابھی چھوڑ کے جب بزم
خیبر کی خبر لائے مری طبعِ اولوالعزم
قطعِ سرِ اعدا کا ارادہ ہو جو بالجزم
دکھلائے یہیں سب کو زباں معرکہء رزم
جل جائے عدو، آگ بھڑکتی نظر آئے
تلوار پہ تلوار چمکتی نظر آئے
مصرع ہو صف آرا، صفتِ لشکرِ جرّار
الفاظ کی تیزی کو نہ پہنچے کوئی تلوار
نقطے ہوں جو ڈھالیں تو الف خنجرِ خونخوار
مد آگے بڑھیں برچھیوں کو تول کے اک بار
غُل ہو "کبھی یوں فوج کو لڑتے نہیں دیکھا
مقتل میں رَن ایسا کبھی پڑتے نہیں دیکھ"
ہو ایک زباں ماہ سے تا مسکنِ ماہی
عالم کو دکھا دے برشِ سیفِ الٰہی
جرأت کا دھنی تُو ہے، یہ چلائیں سپاہی
لاریب، ترے نام پہ ہے سِکّہء شاہی
ہر دم یہ اشارہ ہو، دوات اور قَلم کا
تو مالک و مختار ہے اِس طبل و عَلم کا
تائید کا ہنگام ہے یا حیدرِ صفدر
امداد ترا کام ہے، یا حیدرِ صفدر
تُو صاحبِ اکرام ہے، یا حیدرِ صفدر
تیرا ہی کرم عام ہے، یا حیدرِ صفدر
تنہا ترے اقبال سے شمشیر بہ کف ہوں
سب ایک طرف جمع ہیں، میں ایک طرف ہوں
ناقدریِ عالم کی شکایت نہیں مولا
کچھ دفترِ باطل کی حقیقت نہیں مولا
باہم گُل و بلبل میں محبت نہیں مولا
میں کیا ہوں، کسی روح کو راحت نہیں مولا
عالم ہے مکدّر کوئی دل صاف نہیں ہے
اس عہد میں سب کچھ ہے، پر انصاف نہیں ہے
نیک و بدِ عالم میں تامّل نہیں کرتے
عارف کبھی اتنا تجاہل نہیں کرتے
خاروں کے لیے رخ طرفِ گل نہیں کرتے
تعریف خوش الحانیِ بلبل نہیں کرتے
خاموش ہیں، گو شیشۂ دل چُور ہوئے ہیں
اشکوں کے ٹپک پڑنے سے مجبور ہوئے ہیں
الماس سے بہتر یہ سمجھتے ہیں خذف کو
دُر کو تو گھٹاتے ہیں، بڑھاتے ہیں صدف کو
اندھیر یہ ہے، چاند بتاتے ہیں کلف کو
کھو دیتے ہیں شیشے کے لیے دُرِ نجف کو
ضائع ہیں دُر و لعل بدخشان و عدن کے
مٹّی میں ملاتے ہیں جواہر کو سخن کے
ہے لعل و گہر سے یہ دہن کانِ جواہر
ہنگامِ سخن کھلتی ہے دوکانِ جواہر
ہیں بند مرصّع، تو ورق خوانِ جواہر
دیکھے انھیں، ہاں کوئی ہے خواہانِ جواہر
بینائے رقوماتِ ہنر چاہیے اس کو
سودا ہے جواہر کا، نظر چاہیے اس کو
کیا ہو گئے وہ جوہریانِ سخن اک بار
ہر وقت جو اس جنس کے رہتے تھے طلب گار
اب ہے کوئی طالب، نہ شناسا، نہ خریدار
ہے کون دکھائیں کسے یہ گوہرِ شہوار
کس وقت یہاں چھوڑ کے ملکِ عدم آئے
جب اُٹھ گئے بازار سے گاہک تو ہم آئے
خواہاں نہیں یاقوتِ سخن کا کوئی گو آج
ہے آپ کی سرکار تو یا صاحبِ معراج
اے باعثِ ایجادِ جہاں، خلق کے سرتاج
ہوجائے گا دم بھر میں غنی، بندۂ محتاج
اُمید اسی گھر کی، وسیلہ اسی گھر کا
دولت یہی میری، یہی توشہ ہے سفر کا
میں کیا ہوں، مری طبع ہے کیا، اے شہِ ذی شاں
حسّان و فَرَزدَق ہیں یہاں عاجز و حیراں
شرمندہ زمانے سے گئے دعبل و سحباں
قاصر ہیں سخن فہم و سخن سنج و سخن داں
کیا مدح کفِ خاک سے ہو نورِ خدا کی
لکنت یہیں کرتی ہیں زبانیں فُصَحا کی
لا یعلم و لا علم کی کیا سحر بیانی
حضرت پہ ہویدا ہے مری ہیچ مدانی
نہ ذہن میں جُودت، نہ طبیعت میں روانی
گویا ہوں فقط، ہے یہ تری فیض رسانی
میں کیا ہوں، فرشتوں کی طلاقت ہے تو کیا ہے
وہ خاص یہ بندے ہیں کہ مدّاح خدا ہے
تھا جوش کچھ ایسا ہی جو دعوٰی کیا میں نے
خود سربگریباں ہوں کہ یہ کیا کیا میں نے
اک قطرۂ ناچیز کو دریا کیا میں نے
تقصیر بحل کیجئے، بے جا کیا میں نے
ہاں سچ ہے کہ اتنی بھی تعلّی نہ روا تھی
مولا یہ کلیجے کے پھپھولوں کی دوا تھی
مجرم ہوں، کبھی ایسی خطا کی نہیں میں نے
بھولے سے بھی آپ اپنی ثنا کی نہیں میں نے
دل سے کبھی مدحِ اُمرا کی نہیں میں نے
تقلیدِ کلامِ جُہلا کی نہیں میں نے
نازاں ہوں محبت پہ امامِ اَزَلی کی
ساری یہ تعلّی ہے حمایت پہ علی کی
ہر چند زباں کیا مری، اور کیا مری تقریر
دن رات وظیفہ ہے ثنا خوانیِ شبیر
منظور ہے اک باب میں دو فصل کی تحریر
مولا کی مدد کا متمنّی ہے یہ دلگیر
ہر فصل نئے رنگ سے کاغذ پہ رقم ہو
اک بزم ہو شادی کی تو اک صبحتِ غم ہو
شعباں کی ہے تاریخِ سوم روزِ ولادت
اور ہے دہمِ ماہِ عزا یومِ شہادت
دونوں میں بہرحال ہے تحصیلِ سعادت
وہ بھی عملِ خیر ہے، یہ بھی ہے عبادت
مدّاح ہوں، کیا کچھ نہیں اس گھر سے ملا ہے
کوثر ہے صِلہ اِس کا، بہشت اُس کا صلہ ہے
مقبول ہوئی عرض، گنہ عفو ہوئے سب
امید بر آئی، مرا حاصل ہوا مطلب
شامل ہوا افضالِ محمّد، کرَمِ رب
ہوتے ہیں علم فوجِ مضامیں کے نشاں اب
پُشتی پہ ہیں سب رُکنِ رکیں دینِ متیں کے
ڈنکے سے ہلا دیتا ہوں طبقوں کو زمیں کے
نازاں ہوں عنایت پہ شہنشاہِ زمن کی
بخشی ہے رضا جائزۂ فوج سخن کی
چہرے کی بحالی سے قبا چست ہے تن کی
لو برطَرَفی پڑ گئی مضمونِ کہن کی
اِک فرد پُرانی نہیں دفتر میں ہمارے
بھرتی ہے نئی فوج کی لشکر میں ہمارے