مرثیہ نمبر ۳
مطلعِ سوم(اول)
جب سب رفیق حقِ نمک کر چکے ادا
مرنے کی پھر خوشی سے عزیزوں نے لی رضا
وہ بھی ہوئے شہید تو رونے کی ہے یہ جا
قاسم تھے اور حضرتِ عبّاس با وفا
تھے سامنے جو لاشۂ پُر خوں دھرے ہوئے
تکتے تھے فوجِ شام کو آنسو بھرے ہوئے
مشغول تھے بکا میں شہنشاہِ ذی وقار
جو اقتلو الحسین کی ہونے لگی پکار
گرجے دہل، بلند ہوا شورِ گیر و دار
پھر کھل گئے صفوں میں علَم ہائے زر نگار
نکلے سوار جنگ کو باہم تھمے ہوئے
بڑھنے لگے صفوں سے سپاہی جمے ہوئے
نو بادۂ حَسن نے جو دیکھا یہ ماجرا
ہمشکلِ مصطفٰی سے الگ جا کے یہ کہا
بھیّا، مقامِ غور ہے رونے کی ہے یہ جا
سب مر گئے ہمیں نہ ملی رخصتِ وغا
کھیلے ہوئے تو ساتھ کے پہنچے بہشت میں
ہم نامراد رہ گئے دنیائے زشت میں
خیمہ میں آج صبح سے محشر ہے آشکار
بیٹوں کے غم میں روتی ہیں زینب بحالِ زار
کیا منہ دکھائے جا کے حرم میں یہ سوگوار
پردے کے پاس بیٹھی ہیں امّاں جگر فگار
فرمائیں گی شہید ہر اک تشنہ لب ہوا
قاسم نے لی نہ رن کی اجازت، غضب ہوا
کہتی تھیں شب کو مجھ سے یہ امّاں بچشمِ تر
قربان جاؤں آج قیامت کی ہے سحر
عمّو پہ دیکھنا جو ہجومِ سپاہِ شر
لانا دلہن کا دھیان نہ مطلق مرے پسر
حسرت یہی ہے اور ہے یہ آرزو مری
تم مر کے آئیو کہ رہے آبرو مری
یاں تو یہ ذکر کرتا تھا شبّر کا نونہال
خیمہ میں پیچ و تاب سے مادر کا تھا یہ حال
غم سے عرق جبیں پہ ہے بکھرے ہوئے ہیں بال
دل مضطرب ہے، رونے سے آنکھیں ہیں دونوں لال
صدمہ یہ ہے کہ رن کی اجازت میں کَد نہ کی
قاسم نے اس مہم میں چچا کی مدد نہ کی
کیوں کر نہ دل ہو سینۂ سوزاں میں بے قرار
سو سو طرح سے ہوئے گا امّاں کو انتشار
بھیّا، پھر ایسا وقت نہ پاؤ گے زینہار
دلوا دو تم چچا سے ہمیں اذنِ کارزار
ڈر ہے کہ پھر وغا کا جو غل بے ادب کریں
عبّاسِ نامدار نہ رخصت طلب کریں
جس دم ہجومِ یاس نے گھیرا زیادہ تر
غصّے سے کانپتی ہوئی اٹھی وہ نوحہ گر
فضّہ سے رو کے کہنے لگی وہ نکو سِیَر
لا دے حسن کے لال کی اس دم مجھے خبر
مقتل میں ہیں کہ پاس شہِ کربلا کے ہیں
رخصت ملی ہے یا ابھی طالب رضا کے ہیں
کہیو کہ اے یتیمِ حسن تم پہ مرحبا
کیا خوب ماں کو شاد کیا تم پہ میں فدا
حیراں ہوں میں کھڑے ہوئے تم دیکھتے ہو کیا
اب تک رضا نہ لی، مجھے حیرت کی ہے یہ جا
اب کون ہے جہاں میں شہِ خوشخصال کا
کیا ہے چچا کے بعد ارادہ جدال کا
شب کو کیے تھے آپ نے مادر سے یہ کلام
اقرار کیا کئے تھے، تاسّف کا ہے مقام
عمّو پہ ہے سحر سے یہ نرغہ میں ازدحام
کچھ کر سکے نہ تم مددِ شاہِ خاص و عام
سمجھا گئے تھے باپ بھی کیا کیا ہزار حیف
بازو کی بھی سند کو نہ دیکھا ہزار حیف
کیا کہہ گئے تھے آپ سے شبّر جگر فگار
تجھ کو اسی سخن کا تصوّر ہے بار بار
کہتا تھا کون باپ سے ہنگامِ اختضار
خادم کرے گا پہلے عزیزوں سے سر نثار
اس دم کہاں ہے جرأت و ہمّت وہ آپ کی
ہے ہے عمل کیا نہ وصیّت پہ باپ کی
فضّہ چلی یہ سن کے جو خیمہ سے نوحہ گر
دیکھا کہ آپ آتے ہیں قاسم جھکائے سر
منہ سرخ، تیغ ہاتھ میں، باندھے ہوئے کمر
آتے ہی ماں کے چہرۂ اقدس پہ کی نظر
تھرّائی ماں جو غیظ سے منہ اپنا موڑ کے
قاسم قدم پہ گر پڑے ہاتھوں کو جوڑ کے
بولی اٹھا کے سر کو یہ مادر جگر فگار
واللہ تم سے یہ نہ توقع تھی میں نثار
کام آئے سب وغا میں عزیز و رفیق و یار
تم نے چچا سے کیوں نہ لیا حکمِ کارزار
کیا قہر ہے کہ شاہ سے اذنِ وغا نہ لو
زینب کے لال قتل ہوں اور تم رضا نہ لو
کس کس نے دی نہ آن کے شہ کے قدم میں جان
لو تم نہ اذن، غیر رضا لیں خدا کی شان
کیا ہو گئی وہ جرأت و ہمّت وہ آن بان
ہوتا ہے یوں خموش کوئی وقتِ امتحان
لکھ دی جو حق نے سیرِ ارم سرنوشت میں
دیکھو نصیبِ وہب کہ پہنچا بہشت میں
گر ہے دلہن کی فکر تو بے جا ہے یہ خیال
ہر رنج و غم میں رانڈوں کا حافظ ہے ذوالجلال
صابر ہے دکھ میں، درد میں، خیر النساء کا لال
کُھلنے کا سر کے غم ہے نہ کچھ قید کا ملال
راضی رہیں حُسین، رضا ذوالمنن کی ہو
کنگنا ہو یا رسن میں کلائی دلہن کی ہو
ماں سے سنے جو قاسمِ مضطر نے یہ کلام
آنکھوں سے اشک پونچھ کے بولا وہ لالہ فام
آگاہ دل کے حال سے ہے خالقِ انام
امّاں سحر سے مرنے کو حاضر تھا یہ غلام
کی سو طرح خوشامد و منّت غلام نے
لیکن نہ دی وغا کی اجازت امام نے
قدموں پہ گر کے شہ کے یہ کی عرض چند بار
دیجے رضا کہ مرنے کو جائے یہ جاں نثار
شاہد ہیں اس میں حضرتِ عبّاس نامدار
کیں سو خوشامدیں نہ ملا اذنِ کارزار
شک ہو اگر تو شہ کے برادر گواہ ہیں
بلوا کے پوچھیے علی اکبر گواہ ہیں
امّاں دلہن سے ملنے کی بھی کچھ ہوس نہیں
تیّار جان دینے پہ ہیں پیش و پس نہیں
حامی کوئی نہیں کوئی فریاد رس نہیں
سر پر اجل کھڑی ہوئی ہے اپنا بس نہیں
یارا کلام کا ہے نہ طاقت ہے صبر کی
درپیش آج صبح سے منزل ہے قبر کی
مادر سے رو کے ابنِ حَسن نے یہ جب کہا
بس سر جھکا کے رہ گئی وہ غم کی مبتلا
پھر اشک بھر کے آنکھوں میں بولی کہ میں فدا
ہاں واری، سچ ہے، کیوں نہ ہو شاباش و مرحبا
بہتر ہے جو خوشی ہو شہِ تشنہ کام کی
لازم یونہی ہے تم کو اطاعت امام کی
نرغہ میں آج صبح سے ہیں سرورِ امم
فرصت نہیں ہے لاش اٹھانے سے کوئی دم
کیوں کر کہیں گے وہ کہ سدھارو سوئے عدم
بیٹی کے رانڈ ہونے کا صدمہ، تمھارا غم
دیتے نہیں رضا جو شہِ کربلا تمھیں
میں اب دلائے دیتی ہوں اذنِ وغا تمھیں
جب تک حرم میں آئیں شہنشاہِ نامدار
مل آؤ تم بھی جا کے دلہن سے یہ ماں نثار
جب سے سنا ہے تم کو مہیّائے کارزار
گھونگھٹ میں رو رہی ہے وہ مغموم و سوگوار
ایسی کوئی دلہن بھی نہ بیکس غریب ہو
قسمت میں تھا، بیاہ میں رونا نصیب ہو
باتیں یہ سن کے دل پہ جو صدمہ ہوا کمال
حجلہ میں آ کے بیٹھ گیا مجتبیٰ کا لال
آئے نظر عروس کے گوندھے ہوئے جو بال
بلوے میں سر کے کھلنے کا بس آ گیا خیال
آئی صدا جو کان میں فریاد و آہ کی
کس یاس سے عروس کی جانب نگاہ کی
جُھک کر دلہن کے رخ پہ جو دولھا نے کی نظر
دیکھا کہ ہے لباسِ بدن آنسوؤں سے تر
ہچکی لگی ہے شرم کے مارے جھکائے سر
سہرے سے مل کے گرتے ہیں آنسو اِدھر اُدھر
چہرہ تمام زرد ہے صدمے دو چند ہیں
آنکھیں وہ نرگسی کفِ رنگیں سے بند ہیں
رقّت کو ضبط کر کے یہ بولا حَسن کا ماہ
لو الوداع جاتے ہیں مابینِ رزم گاہ
مہماں ہیں کوئی آن کے، تکتی ہے موت راہ
چارہ نہیں اجل سے کسی کا، خدا گواہ
ناراض والدہ ہوں جو وقفہ ذرا کریں
صاحب یہی لکھا تھا مقدر میں کیا کریں
صاحب بس اب یہ آج کی صحبت ہے مغتنم
پھر ہم کہاں بھلا یہ فرصت ہے مغتنم
اس دکھ میں دو گھڑی کی بھی راحت ہے مغتنم
جی بھر کے دیکھ لیں کہ یہ صورت ہے مغتنم
بے درد، کل پھر آئیں گے بلوائے عام میں
منزل سحر کو ہوئے گی کل راہِ شام میں
یہ صبر کا مقام ہے روؤ نہ زار زار
صاحب تمھارے حال پہ ہوتا ہے دل فگار
ہے تیرِ آہ سینۂ سوزاں کے آر پار
مجبور ہیں، نہ بس ہے کچھ، اپنا نہ اختیار
گو عمر بھر کا منزلِ فانی میں ساتھ ہے
پر کیا کریں اجل کا گریباں میں ہاتھ ہے
دیکھو دلہن کو وہب کی اللہ رے حوصلا
دولھا کو روزِ عقد جو مرنے کی دی رضا
اللہ رے پاسِ خاطرِ دلبندِ مرتضا
دیکھا خود اپنی آنکھ سے کٹتے ہوئے گلا
تعریف ہر زباں پہ ہے اس رشکِ ماہ کی
حاضر ہے اب کنیزی میں ناموسِ شاہ کی