• ابتداء
  • پچھلا
  • 25 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16581 / ڈاؤنلوڈ: 2852
سائز سائز سائز
مراثیِ انیس(انتخاب)

مراثیِ انیس(انتخاب)

مؤلف:
اردو

مرثیہ نمبر ۱

مطلعِ پنجم(دوم)

نصرت نے صدا دی کہ مدد گارِ جہاں ہیں

صولت نے کہا تاجِ سرِ کون و مکاں ہیں

گویا ہوئی ہمّت کہ محمد کی زباں ہیں

غربت نے کہا فاقہ کش و تشنہ دہاں ہیں

سطوت یہ پکاری بخدا شیر یہی ہیں

بولی ظفر اللہ کی شمشیر یہی ہیں

عکسِ رخِ روشن جو چمکتا ہوا آیا

ذرّوں نے شہِ شرق کے پہلو کو دبایا

جنگل میں پری بن گیا ہر نخل کا سایا

کرسی سے زمیں کہتی تھی دیکھا مرا پایا

تھی چاندنی، خورشیدِ فلک شرم سے گم تھا

وہ روزِ دہم رشکِ شبِ چار دہم تھا

تنہا تھے یہ اللہ ری جلالت شہِ دیں کی

تھرّاتے تھے سب دیکھ کے صولت شہِ دیں کی

گردوں پہ مَلک تکتے تھے صورت شہِ دیں کی

غل تھا کہ یہ آخر ہے زیارت شہِ دیں کی

خود حُسن یہ کہتا تھا کہ شمعِ سحری ہوں

شبّیر کا کیا کوچ ہے میں بھی سفری ہوں

ہاں دیکھ لو تنویرِ جبینِ شہِ والا

یہ حُسن میں ہے ماہِ دو ہفتہ سے دو بالا

ہے برقِ تجلّی اِسی مہتاب کا ہالا

اندھیر ہے پر جب نہ رہا اس کا اجالا

آنکھوں سے نہاں ہوگی جو یہ نور کی صورت

ہو جائیں گی صبحیں شبِ دیجور کی صورت

گر لاکھ جلائے گا دل اپنا کوئی دل سوز

اس کعبۂ ابرو سے نہ ہوگا شمع افروز

گردش میں رہیں گے جو مہ و مہر شب و روز

دیکھیں گے یہ زلفیں نہ یہ رخسارِ دل افروز

کلیاں تو بہت باغ میں نرگس کی کِھلیں گی

ڈھونڈیں گی جو مردم کو تو آنکھیں نہ ملیں گی

خوبی دہن و لب کی سمجھنے میں سب حیراں

روئیں گے جو یاد آئے گا یہ سینۂ تاباں

ملنا دُر و یاقوت کا مشکل نہیں چنداں

دیکھو گے زمانے میں نہ ایسے لب و دنداں

یہ دُرّ ِ گرانمایہ صدف میں نہ ملیں گے

کیا ذکر صدف کا ہے نجف میں نہ ملیں گے

چھانے گی اگر بادِ صبا خاک چمن کی

خوشبو کہیں پائے گی نہ اس سیبِ ذقن کی

ضَو دیکھ رگِ گردنِ سردارِ زمن کی

پر تَو سے زمیں غیرتِ آئینہ ہے رَن کی

سوزِ غمِ فرقت کو نہ بیگانوں سے پوچھو

اِس شمع کے بجھ جانے کو پروانوں سے پوچھو

یہ صدر جو الہامِ الٰہی کا ہے مصدر

دل علم کا، اسلام کا گھر، شرع کا مظہر

دیں دار سمجھتے ہیں اسے مصحفِ اکبر

ہو جائے گا وقفِ تبر و نیزہ و خنجر

کاٹیں گے ہر اک جزوِ تنِ شاہِ امم کو

کُھل جائیں گے شیرازۂ قرآں کوئی دم کو

ان ہاتھوں کو اب لائیں گے مشکل میں کہاں سے

زخمی انھیں کر دیں گے لعیں تیغ و سناں سے

جاری تھی عجب خیر شہِ کون و مکاں سے

ہیہات چلا عقدہ کشا آج جہاں سے

یوں تجھ پہ نہ ان ہاتھوں کا احوال کھلے گا

مشکل کوئی پڑ جائے گی تب حال کھلے گا

لو مومنو، سن لو شہِ ذی جاہ کی تقریر

حضرت یہ رجز پڑھتے تھے تولے ہوئے شمشیر

دیکھو، نہ مٹاؤ مجھے اے فرقۂ بے پیر

میں یوسفِ کنعانِ رسالت کی ہوں تصویر

واللہ تعلّی نہیں، یہ کلمۂ حق ہے

عالم کے مرقّع میں حُسین ایک ورق ہے

واللہ جہاں میں مرا ہمسر نہیں کوئی

محتاج ہوں پر مجھ سا تونگر نہیں کوئی

ہاں، میرے سوا شافعِ محشر نہیں کوئی

یوں سب ہیں مگر سبطِ پیمبر نہیں کوئی

باطل ہے اگر دعوٰیِ اعجاز کرے گا

کس بات پہ دنیا میں کوئی ناز کرے گا

ہم وہ ہیں کہ اللہ نے کوثر ہمیں بخشا

سرداریِ فردوس کا افسر ہمیں بخشا

اقبالِ علی، خُلقِ پیمبر ہمیں بخشا

قدرت ہمیں دی، زور ہمیں، زر ہمیں بخشا

ہم نور ہیں، گھر طورِ تجلّا ہے ہمارا

تختِ بنِ داؤد مصلّا ہے ہمارا

نانا وہ کہ ہیں جن کے قدم عرش کے سرتاج

قوسین مکاں، ختمِ رسل، صاحبِ معراج

ماں ایسی کہ سب جس کی شفاعت کے ہیں محتاج

باپ ایسا، صنم خانوں کو جس نے کیا تاراج

لڑنے کو اگر حیدرِ صفدر نہ نکلتے

بُت گھر سے خدا کے کبھی باہر نہ نکلتے

کس جنگ میں سینے کو سپر کر کے نہ آئے

کس مرحلۂ صعب کو سر کر کے نہ آئے

کس فوج کی صف زیر و زبر کر کے نہ آئے

تھی کون سی شب جس کو سحر کر کے نہ آئے

تھا کون جو ایماں تہہِ صمصام نہ لایا

اس شخص کا سر لائے جو اسلام نہ لایا

اصنام بھی کچھ کم تھے نہ کفّار تھے تھوڑے

طاقت تھی کہ عزّٰی کوئی لات سے توڑے؟

بدکیشوں نے سجدے بھی کیے، ہاتھ بھی جوڑے

بے توڑے وہ بت حیدرِ صفدر نے نہ چھوڑے

کعبے کو صفا کر دیا خالق کے کرم سے

نکلے اسد اللہ اذاں دے کے حرم سے

ہے کون سا وہ فخر کہ زیبا نہیں ہم کو

وہ کیا ہے جو اللہ نے بخشا نہیں ہم کو

واللہ کسی چیز کی پروا نہیں ہم کو

کیا بات ہے خود خواہشِ دنیا نہیں ہم کو

غافل ہے وہ دنیا کے مزے جس نے لیے ہیں

بابا نے مِرے تین طلاق اس کو دیے ہیں

جو چاہیں جسے بخش دیں ہم ہاتھ اٹھا کے

انگلی نہیں، کنجی ہیں یہ اسرارِ خدا کے

خالی کوئی جاتا نہیں دروازے پہ آ کے

بھر دیتے ہیں فاقوں میں بھی کاسے فقرا کے

سر دیتے ہیں سائل کو جگر بندِ علی ہیں

فیّاض کے بندے ہیں، سخی ابنِ سخی ہیں

اس عہد میں مالک اُسی تلوار کے ہم ہیں

جرّار پسر حیدرِ کرّار کے ہم ہیں

فرزند، محمد سے جہاں دار کے ہم ہیں

وارث شہِ لولاک کی سرکار کے ہم ہیں

کچھ غیرِ کفن ساتھ نہیں لے کے گئے ہیں

تابوتِ سکینہ بھی ہمیں دے کے گئے ہیں

یہ فرق پہ عمّامۂ سردارِ زمن ہے

یہ تیغِ علی ہے، یہ کمر بندِ حَسن ہے

یہ جوشنِ داؤد ہے جو حافظِ تن ہے

یہ پیرہنِ یوسفِ کنعانِ محن ہے

دکھلائیں سند دستِ رسولِ عَرَبی کی

یہ مہرِ سلیماں ہے، یہ خاتم ہے نبی کی

دیکھو تو، یہ ہے کون سے جرّار کی تلوار

کس شیر کے قبضے میں ہے کرّار کی تلوار

دریا نے بھی دیکھی نہیں اس دھار کی تلوار

بجلی کی تو بجلی ہے یہ تلوار کی تلوار

قہر و غضب اللہ کا ہے، کاٹ نہیں ہے

کہتے ہیں اسے موت کا گھر، گھاٹ نہیں ہے

دم لے کہیں رک کر، وہ روانی نہیں اس میں

چلنے میں سبک تر ہے، گرانی نہیں اس میں

جز حرفِ ظفر اور نشانی نہیں اس میں

جل جاؤ گے سب، آگ ہے، پانی نہیں اس میں

چھوڑے گی نہ زندہ اسے جو دشمَنِ دیں ہے

نابیں نہیں، غصّے سے اجل چیں بہ چیں ہے

کچھ بس نہ چلے گا جو یہ خونخوار چلے گی

سر اڑنے کی آندھی دمِ پیکار چلے گی

تھم جائے گی ایک بار تو سَو بار چلے گی

اُگلے گا لہو چرخ وہ تلوار چلے گی

میداں سے کہیں بھاگ کے جانا نہ ملے گا

دم لینے کا دنیا میں ٹھکانہ نہ ملے گا

ہم سے کوئی اعلٰی نہیں عالی نَسَبی میں

طفلی سے حمائل رہے آغوشِ نبی میں

ہم مصحفِ ناطق ہیں زبانِ عَرَبی میں

تفسیر ہیں قرآن کی ہم تشنہ لبی میں

مخفی ہیں جو رتبے وہ عیاں ہو نہیں سکتے

خود ہم سے شرف اپنے بیاں ہو نہیں سکتے

سب قطرے ہیں، گر فیض کے دریا ہیں تو ہم ہیں

ہر نقطۂ قرآں کے شناسا ہیں تو ہم ہیں

حق جس کا ہے جامع وہ ذخیرا ہیں تو ہم ہیں

افضل ہیں تو ہم، عالم و دانا ہیں تو ہم ہیں

تعلیمِ مَلک عرش پر تھا وِرد ہمارا

جبریل سا استاد ہے شاگرد ہمارا

گر فیضِ ظہورِ شہِ لولاک نہ ہوتا

بالائے زمیں گنبدِ افلاک نہ ہوتا

کچھ خاک کے طبقے میں بجز خاک نہ ہوتا

ہم پاک نہ کرتے تو جہاں پاک نہ ہوتا

یہ شور اذاں کا سحر و شام کہاں تھا

ہم عرش پہ تھے جب تو یہ اسلام کہاں تھا

محسن سے بدی، ہے یہی احساں کا عوض واہ

دشمن کے ہوا خواہ ہوئے، دوست کے بد خواہ

گمراہ کے بہکانے سے روکو نہ مری راہ

لو، اب بھی مسافر کو نکل جانے دو لِلّہ

مل جائے گی اک دم میں اماں رنج و بلا سے

میں ذبح سے بچ جاؤں گا، تم قہرِ خدا سے

بستی میں کہیں مسکن و ماوا نہ کروں گا

یثرب میں بھی جانے کا ارادہ نہ کروں گا

صابر ہوں، کسی کا کبھی شکوہ نہ کروں گا

اِس ظلم کا میں ذکر بھی اصلا نہ کروں گا

رونا نہ چھٹے گا کہ عزیزوں سے چھٹا ہوں

جو پوچھے گا کہہ دوں گا کہ جنگل میں لٹا ہوں

اعدا نے کہا، قہرِ خدا سے نہیں ڈرتے

ناری تو ہیں، دوزخ کی جفا سے نہیں ڈرتے

فریادِ رسولِ دوسرا سے نہیں ڈرتے

خاتونِ قیامت کی بُکا سے نہیں ڈرتے

ہم لوگ، جدھر دولتِ دنیا ہے، اُدھر ہیں

اللہ سے کچھ کام نہیں، بندۂ زر ہیں

حضرت نے کہا، خیر خبردار صفوں سے

آیا غضب اللہ کا، ہشیار صفوں سے

بجلی سا گزر جاؤں گا ہر بار صفوں سے

کب پنجتنی رکتے ہیں دو چار صفوں سے

غربت کا چلن دیکھ چکے، حرب کو دیکھو

لو، بندۂ زر ہو تو مری ضرب کو دیکھو

ہاں گوشۂ عزلت خمِ شمشیر نے چھوڑا

واں سہم کے چلّے کو ہر اک تیر نے چھوڑا

کس قہر سے گھر موت کی تصویر نے چھوڑا

ساحل کو صفِ لشکرِ بے پیر نے چھوڑا

عنقائے ظفر، فتح کا در کھول کے نکلا

شہبازِ اجل صید کو پر تول کے نکلا

جلوہ کیا بدلی سے نکل کر مہِ نو نے

دکھلائے ہوا میں دو سر اک شمع کی لو نے

تڑپا دیا بجلی کو فرس کی تگ و دو نے

تاکا سپرِ مہر کو شمشیر کی ضو نے

اعدا تو چھپانے لگے ڈھالوں میں سروں کو

جبریل نے اونچا کیا گھبرا کے پروں کو

بالا سے جو آئی وہ بلا جانبِ پستی

بس نیست ہوئی دم میں ستم گاروں کی ہستی

چلنے لگی یکدست جو شمشیر دو دستی

معلوم ہوا لٹ گئی سب کفر کی بستی

زور ان کے ہر اک ضرب میں اللہ نے توڑے

ٹوٹیں جو صفیں، بت اسداللہ نے توڑے

کاٹے کبھی منہ سر کبھی گردن سے اڑائے

گہ دستِ قوی بازؤئے دشمن سے اڑائے

یوں روح کے طائر قفَسِ تن سے اڑائے

جس طرح پرندوں کو کوئی بَن سے اڑائے

جانبازوں کا یہ حال تھا شمشیر کے ڈر سے

جس طرح ہرن بھاگتے ہیں شیر کے ڈر سے

دم میں اثرِ قہرِ الٰہی نظر آیا

دوزخ کی طرف قافلہ راہی نظر آیا

جس صفت میں زرہ پوش سپاہی نظر آیا

چو رنگ وہیں صورتِ ماہی نظر آیا

بھاگی تھی ہوا خوف سے شمشیرِ دو دم کے

مچھلی بھی نہ لہراتی تھی دامن میں علم کے

چلنے میں عجب انداز تیغ نے نکالے

سر لے گئی گردن سے نئے ناز نکالے

طاقت تھی کہ ناوک قدر انداز نکالے

سوفار کا کیا منہ تھا جو آواز نکالے

بازو تو جفا کیشوں کے شانوں سے جدا تھے

تیروں سے کماں، تیر کمانوں سے جدا تھے

بجلی سی گری، جو صَفِ کفّار سے نکلی

آواز "بزن" تیغ کی جھنکار سے نکلی

گہ ڈھال میں ڈوبی، کبھی تلوار سے نکلی

در آئی جو پیکاں میں تو سوفار سے نکلی

تھے بند خطا کاروں پہ در امن و اماں کے

چلّے بھی چھپے جاتے تھے گوشوں میں کماں کے

افلاک پہ چمکی کبھی، سر پر کبھی آئی

کوندی کبھی جوشن پہ، سپر پر کبھی آئی

گہ پھر گئی سینے پہ، جگر پر کبھی آئی

تڑپی کبھی پہلو پہ، کمر پر کبھی آئی

طے کر کے پھری کون سا قصّہ تھا فرس کا

باقی تھا جو کچھ کاٹ وہ حصّہ تھا فرس کا

بے پاؤں جدھر ہاتھ سے چلتی ہوئی آئی

ندّی اُدھر اِک خوں کی ابلتی ہوئی آئی

دم بھر میں وہ سو رنگ بدلتی ہوئی آئی

پی پی کے لہو، لعل اگلتی ہوئی آئی

ہیرا تھا بدن رنگ زمرّد سے ہرا تھا

جوہر نہ کہو، پیٹ جواہر سے بھرا تھا

زیبا تھا دمِ جنگ پری وش اسے کہنا

معشوق بنی سرخ لباس اس نے جو پہنا

اِس اوج پہ وہ سر کو جھکائے ہوئے رہنا

جوہر تھے کہ پہنے تھی دلہن پھولوں کا گہنا

سیبِ چمَنِ خُلد کی بُو باس تھی پھل میں

رہتی تھی وہ شبّیر سے دولھا کی بغل میں

سر پٹکے تو موج اِس کی روانی کو نہ پہنچے

قلزم کا بھی دھارا ہو تو پانی کو نہ پہنچے

بجلی کی تڑپ شعلہ فشانی کو نہ پہنچے

خنجر کی زباں تیز زبانی کو نہ پہنچے

دوزخ کے زبانوں سے بھی آنچ اس کی بُری تھی

برچھی تھی، کٹاری تھی، سَرَدہی تھی، چُھری تھی

موجود بھی ہر غول میں اور سب سے جدا بھی

دم خم بھی، لگاوٹ بھی، صفائی بھی، ادا بھی

اک گھاٹ پہ تھی آگ بھی، پانی بھی، ہوا بھی

امرت بھی، ہلاہل بھی، مسیحا بھی، قضا بھی

کیا صاحَبِ جوہر تھی، عجب ظرف تھا اس کا

موقع تھا جہاں جس کا وہیں صرف تھا اس کا

ہر ڈال کے پھولوں کو اڑاتا تھا پھل اس کا

تھا لشکرِ باغی میں ازل سے عمل اس کا

ڈر جاتی تھی منہ دیکھ کے ہر دم اجل اس کا

تھا قلعۂ چار آئینہ گویا محل اس کا

اس در سے گئی کھول کے وہ در نکل آئی

گہ صدر میں بیٹھی، کبھی باہر نکل آئی

تیروں پہ گئی برچھیوں والوں کی طرف سے

جا پہنچی کماں داروں پہ بھالوں کی طرف سے

پھر آئی سواروں کے رسالوں کی طرف سے

منہ تیغوں کی جانب کیا ڈھالوں کی طرف سے

بس ہوگیا دفتر نظری نام و نسب کا

لاکھوں تھے تو کیا، دیکھ لیا جائزہ سب کا

سر پر جو سپر کو کسی خود سر نے اٹھایا

نوکوں پہ اسے تیغِ دو پیکر نے اٹھایا

تلوار نے کیا دیو کو اژدر نے اٹھایا

لڑنے کا مزا خوب ستمگر نے اٹھایا

یوں پھینک دیا خاک پہ سر کاٹ کے تن سے

اگلے کوئی جس طرح نوالے کو دہن سے