مرثیہ نمبر ۱
مطلعِ پنجم(سوم)
ہر ہاتھ کے پرزے تھے تو ہر ڈھال کے ٹکڑے
پونہچے تھے کہ تھے قرعۂ رمّال کے ٹکڑے
کاٹے زرۂ جسمِ بد افعال کے ٹکڑے
تڑپی جو وہ مچھلی تو ہوئے جال کے ٹکڑے
مقتل کی جو سرحد سے چلی شام میں ٹھہری
کیا ماہیِ دریائے ظفر دام میں ٹھہری
جوشن پہ گئی کاٹ کے بازو نکل آئی
سینے سے بڑھی چیر کے پہلو نکل آئی
ہر زخم سے اس طرح وہ مہ رو نکل آئی
معلوم ہوا پھول سے خوشبو نکل آئی
گر پڑتی تھی بجلی جدھر آتی تھی لچک کر
کیا منہ تھا کہ مر جاتے تھے بسمل بھی پھڑک کر
پہنچی جو سپر تک تو کلائی کو نہ چھوڑا
ہر ہاتھ میں ثابت کسی گھائی کو نہ چھوڑا
شوخی کو شرارت کو لڑائی کو نہ چھوڑا
تیزی کو رُکھائی کو صفائی کو نہ چھوڑا
اعضائے بدن قطع ہوئے جاتے تھے سب کے
قینچی سی زباں چلتی تھی فقرے تھے غضب کے
چڑھتی ہے یہ ندّی تو اترتی ہے بمشکل
جب باڑھ پہ آتی ہے تو ٹھہرتی ہے بمشکل
اس گھاٹ سے کشتی بھی گزرتی ہے بمشکل
دھارے میں جو ڈوبے تو ابھرتی ہے بمشکل
پانی یہ نہیں بحر ہے اس تیغ کے بَر میں
چکّر میں وہ رہتا ہے جو آ جائے بھنور میں
طوفانِ غضب آبِ دمِ شمشیر سے اٹھا
وار اس کا تبر سے نہ کسی تیر سے اٹھا
ضربت کا نہ لنگر کسی تدبیر سے اٹھا
اک موجۂ خوں لشکرِ بے پیر سے اٹھا
اللہ رے تلاطم کہ زمیں ہل گئی رن کی
ضربہ جو پڑا ڈوب گئیں کشتیاں تن کی
وہ نعرۂ شیرانہ وہ حملے وہ تہوّر
تھّراتے تھے ساونت لرزتے تھے بہادر
جنّات کو حیرت تھی ملائک کو تحیّر
وہ سرعتِ شبدیز کہ تھکتا تھا تصوّر
مارا اُسے دو لاکھ میں جا کر جسے تاکا
سب ٹھاٹ تھے ضرغامِ الٰہی کی وغا کا
چار آئینہ والوں کو نہ تھا جنگ کا یارا
چو رنگ تھے سینے تو کلیجہ تھا دو پارا
کہتے تھے زرہ پوش نہیں جنگ کا یارا
بچ جائیں تو جانیں کہ ملی جان دوبارا
جوشن کو سنا تھا کہ حفاظت کا محل ہے
اس کی نہ خبر تھی کہ یہی دامِ اجل ہے
بد کیش لڑائی کا چلن بھول گئے تھے
ناوک فگنی تیر فگن بھول گئے تھے
سب حیلہ گری عہد شکن بھول گئے تھے
بے ہوشی میں ترکش کا دہن بھول گئے تھے
معلوم نہ تھا جسم میں جاں ہے کہ نہیں ہے
چلاتے تھے قبضے میں کماں ہے کہ نہیں ہے
ڈر ڈر کے قِدراست سنانوں نے جھکائے
دب دب کے سر عجز کمانوں نے جھکائے
ہٹ ہٹ کے عَلم رن میں جوانوں نے جھکئے
سر، خاک پہ گر گر کے نشانوں نے جھکائے
غُل تھا کہ پناہ اب ہمیں یا شاہِ زماں دو
پھیلائے تھے دامن کہ پھریرے کو اماں دو
شہ کہتے تھے، ہے باڑھ پہ دریا، نہ رکے گا
اس موج پہ آفت کا طمانچا نہ رکے گا
بے فتح و ظفر دلبرِ زہرا نہ رکے گا
تا غرق نہ فرعون ہو، موسٰی نہ رکے گا
ہے بحرِ غضب، نام بھی قہرِ صمد اس کا
رکنے کا نہیں شام تلک جزر و مد اس کا
اس صف میں گئے بیچ میں اس غول کے نکلے
جو فوج چڑھی منہ پہ اسے رول کے نکلے
انبوہ سے یوں تیغِ دو سر تول کے نکلے
گویا درِ خیبر کو علی کھول کے نکلے
اک زلزلہ تھا نُہ فلک و ہفت طبق کو
ہر بار الٹ دیتے تھے لشکر کے ورق کو
بڑھتے تھے جو تولے ہوئے شمشیرِ دو دم کو
ہاتھوں کو ظفر چومتی تھی، فتح قدم کو
تھا خوف سے لرزہ عرب و روم و عجم کو
اک شیر نے روکا تھا چھ لاکھ اہلِ ستم کو
دنیا جو بچی روحِ محمد کا سبب تھا
شبّیر اگر رحم نہ کرتے تو غضب تھا
لڑتے تھے مگر غیظ سے رحمت تھی زیادہ
شفقت بھی نہ کم تھی جو شجاعت تھی زیادہ
نانا کی طرح خاطرِ امّت تھی زیادہ
بیٹوں سے غلاموں کی محبّت تھی زیادہ
تلوار نہ ماری جسے منہ موڑتے دیکھا
آنسو نکل آئے جسے دم توڑتے دیکھا
فرماتے تھے اعدا کو ترائی سے بھگا کر
کیوں چھوڑ دیا گھاٹ کو، روکو ہمیں آ کر
دعوت یونہی کرتے ہیں مسافر کو بلا کر؟
ہم چاہیں تو پانی بھی پیئں نہر میں جا کر
پر صبر کے دریا میں ہمیں پیاس نہیں ہے
اب زہر یہ پانی ہے کہ عبّاس نہیں ہے
بھولی نہیں اکبر کی ہمیں تشنہ دہانی
وہ چاند سا رخ، وہ قد و قامت، وہ جوانی
وہ سوکھے ہوئے ہونٹ، وہ اعجاز بیانی
دکھلا کے زباں مانگتے تھے نزع میں پانی
کس سے کہیں جو خونِ جگر ہم نے پیا ہے
بعد ایسے پسر کے بھی، کہیں باپ جیا ہے؟
یہ کہہ کے سکینہ کے بہشتی کو پکارے
الفت ہمیں لے آئی ہے پھر پاس تمھارے
لڑتے ہوئے آ پہنچے ہیں دریا کے کنارے
عبّاس، غش آتا ہے ہمیں پیاس کے مارے
اِن سوکھے ہوئے ہونٹوں سے ہونٹوں کو ملا دو
کچھ مشک میں پانی ہو تو بھائی کو پلا دو
لیٹے ہوئے ہو ریت میں کیوں منہ کو چھپائے
اٹھو کہ سکینہ کو یہاں ہم نہیں لائے
غافل ہو، برادر تمھیں کس طرح جگائے
ہے عصر کا وقت، اے اسداللہ کے جائے
خوش ہونگا میں، آگے جو عَلم لے کے بڑھو گے
کیا بھائی کے پیچھے نہ نماز آج پڑھو گے؟
کہہ کر یہ سخن رونے لگا بھائی کو بھائی
تلوار سے مہلت ستم ایجادوں نے پائی
جس فوج نے رن چھوڑ دیا تھا وہ پھر آئی
دو روز کے پیاسے یہ، گھٹا شام کی چھائی
بارش ہوئی تیروں کی ولی ابنِ ولی پر
سب ٹوٹ پڑے ایک حسین ابنِ علی پر
کی شہ نے جو سینے پہ نظر پونچھ کے آنسو
سب چھاتی سے تھے پہلوؤں تک تیر سہ پہلو
ہر سمت سے تیغیں جو لگاتے تھے جفا جو
سالم نہ کلائی تھی، نہ شانہ تھا، نہ بازو
برگشتہ زمانہ تھا شہِ تشنہ گلُو سے
پھل برچھیوں کے سرخ تھے سیّد کے لہو سے
زخموں سے جو وہ دستِ مبارک ہوئے بیکار
ہرنے پہ دھری شاہ نے سپر، میان میں تلوار
بس کعبۂ ایماں کے قریب آ گئے کفّار
مظلوم کو تیغیں جو لگانے لگے اک بار
یوں شاہ کو گھیرے تھے پرے فوجِ ستم کے
جس طرح صف آرا تھے صنم گرد حرم کے
سجدے کی جگہ چھوڑی نہ تیروں نے جبیں پر
تقدیر نے لکھّے کئی نقش ایک نگیں پر
کثرت تھی جراحت کی رخِ قبلۂ دیں پر
ہر جا خطِ شمشیر تھی قرآنِ مبیں پر
تلواروں کے ٹکڑے تھے ہر اک جزوِ بدن پر
مجموعہ پریشان تھا، سی پارۂ تن پر
حضرت کی یہ صورت تھی، فرس کا تھا یہ احوال
منہ تیغوں سے زخمی تھا بدن تیروں سے غربال
گھائل تھی جبیں، خون میں ڈوبی ہوئی تھی یال
گردن کا وہ کینڈا نہ وہ شوخی تھی نہ وہ چال
ہر سمت سے تیروں کا جو مینہ اس پہ پڑا تھا
پر کھولے ہوئے دھوپ میں طاؤس کھڑا تھا
جھک جاتے تھے ہرنے پہ جو غش میں شہِ ابرار
منہ پھیر کے آقا کی طرف تکتا تھا راہوار
چمکار کے فرماتے تھے شبیّرِ دل افگار
اب خاتمۂ جنگ ہے اے اسپِ وفادار
اتریں گے بس اب تجھ سے چھٹا ساتھ ہمارا
نہ پاؤں ترے چلتے ہیں، نہ ہاتھ ہمارا
زخمی ہے، نہیں اب تری تکلیف گوارا
گرتے ہیں سنبھلنے کا ہمیں بھی نہیں یارا
کیا بات تری، خوب دیا ساتھ ہمارا
آ پہنچا ہے منزل پہ یداللہ کا پیارا
تو جس میں پلا ہے وہ گھر اک دم میں لٹے گا
بچپن کا ہمارا ترا اب ساتھ چھٹے گا
گھیرے ہیں عدو، خیمے تلک جا نہیں سکتے
کھوئی ہے جو طاقت اسے اب پا نہیں سکتے
مشکل ہے سنبھلنا، تجھے دوڑا نہیں سکتے
پہلو ترے مجروح ہیں، ٹھکرا نہیں سکتے
حیواں کو بھی دکھ ہوتا ہے زخموں کے تعب کا
میں درد رسیدہ ہوں، مجھے درد ہے سب کا
کس طرح دکھاؤں کہ ترے زخم ہیں کاری
میں نے تو کسی دن تجھے قمچی نہیں ماری
گھوڑے نے سنی درد کی باتیں جو یہ ساری
دو ندّیاں اشکوں کی ہوئیں آنکھوں سے جاری
حیواں کو بھی رقّت ہوئی اس لطف و کرم پر
منہ رکھ دیا مڑ کر شہِ والا کے قدم پر
گردن کو ہلایا کہ مسیحا، نہ اُتریے
دم ہے ابھی مجھ میں مرے آقا، نہ اُتریے
تلواریں لیے گرد ہیں اعدا، نہ اُتریے
سب فوج چڑھی آتی ہے مولا، نہ اُتریے
اے وائے ستم صدر نشیں خاک نشیں ہو
حسرت ہے کہ مر جاؤں تو خالی مری زیں ہو
شہ نے کہا، تا چند مسافر سے مَحبّت
وہ تو نے کیا، ہوتا ہے جو حقِ رفاقت
بتلا تو سنبھلنے کی بھلا کون ہے صورت
نہ ہاتھ میں، نہ پاؤں میں نہ قلب میں طاقت
بہتر ہے کہ اتروں، نہیں تیورا کے گروں گا
پھٹ جائیں گے سب زخم جو غش کھا کے گروں گا
ہے عصر کا ہنگام، مناسب ہے اترنا
اس خاک پہ ہے شکر کا سجدہ ہمیں کرنا
گو مرحلۂ صعب ہے دنیا سے گزرنا
سجدے میں کٹے سر کہ سعادت ہے یہ مرنا
طاعت میں خدا کی نہیں صرفہ تن و سر کا
ذی حق ہیں ہمیں اس کے کہ ورثہ ہے پدر کا
اترا یہ سخن کہہ کے وہ کونین کا والی
خاتم سے نگیں گر گیا، زیں ہو گیا خالی
اس دکھ میں نہ یاور تھے، نہ مولا کے موالی
خود ٹیک کے تلوار کو سنبھلے شہِ عالی
کپڑے تنِ پُر نور کے سب خوں میں بھرے تھے
اک ہاتھ کو راہوار کی گردن پہ دھرے تھے
منہ یال پہ رکھ رکھ کے یہ فرماتے تھے ہر بار
جا ڈیوڑھی پہ اے صاحبِ معراج کے راہوار
اب ذبح کریں گے ہمیں اک دم میں ستمگار
زینب سے یہ کہنا کہ سکینہ سے خبردار
رہنا وہیں جب تک مرا سر تن سے جدا ہو
لے جائیو بانو کو جدھر حکمِ خدا ہو
یہ کہہ کے جو سرکا اسداللہ کا جایا
اک تیر جبیں پر بنِ اشعث نے لگایا
فریاد نے زہرا کی دو عالم کو ہلایا
پیکانِ سہ پہلو عقبِ سر نکل آیا
تڑپے نہ، زہے صبر امامِ دو جہاں کا
سوفار نے بوسہ لیا سجدے کے نشاں کا
حضرت نے جبیں سے ابھی کھینچا نہ تھا وہ تیر
جو سر پہ لگی تیغِ بنِ مالکِ بے پیر
ابرو تک اتر کر جو اٹھی ظلم کی شمشیر
سر تھام کے بس بیٹھ گئے خاک پہ شبّیر
چلّائے ملک دیکھ کے خوں سبطِ نبی کا
تھا حال یہی مسجدِ کوفہ میں علی کا
بیٹھے جو سوئے قبلہ دو زانو شہِ بے پر
جھکتے تھے کبھی غش میں اٹھاتے تھے کبھی سر
تھے ذکرِ خدا میں کہ لگا تیر دہن پر
یاقوت بنے ڈوب کے خوں میں لبِ اطہر
بہہ آیا لہو تا بہ زنخدانِ مبارک
ٹھنڈے ہوئے دو گوہرِ دندانِ مبارک
نیزے کا بنِ وہب نے پہلو پہ کیا وار
کاندھے پہ چلی ساتھ زرارہ کی بھی تلوار
ناوک بنِ کامل کا کا کلیجے کے ہوا پار
بازو میں در آیا تبرِ خولیِ خونخوار
تلوار سے وقفہ نہ ملا چند نَفَس کا
دم رک گیا نیزہ جو لگا ابنِ انَس کا
تھرّا کے جکھے سجدۂ حق میں شہِ ابرار
شورِ دہلِ فتح ہوا فوج میں اک بار
خوش ہو کے پکارا پسرِ سعد جفا کار
اے خولی و شیث و بنِ ذی الجوشنِ جرّار
آخر ہے بس اب کام امامِ ازلی کا
سر کاٹ لو سب مل کے حسین ابنِ علی کا
لکھتا ہے یہ راوی کہ بپا ہو گیا محشر
بارہ ستم ایجاد بڑھے کھینچ کے خنجر
اک سیّدہ نکلی درِ خیمہ سے کھلے سر
برقع تھا، نہ مقنع تھا، نہ موزے تھے نہ چادر
چلّائے لعیں خوف سے ہاتھ آنکھوں پہ دھر کے
لو فاطمہ آتی ہے بچانے کو پسر کے
ہلتا تھا فلک، ہاتھوں سے جب پیٹتی تھی سر
بجلی کی طرح کوندتے تھے کانوں کے گوہر
فرماتی تھیں، فِضّہ جو اڑھا دیتی تھی مِعجَر
فریادی ہوں، فریادی کو زیبا نہیں چادر
سر ننگے یونہی جاؤں میں روضے پہ نبی کے
پردہ تو گیا ساتھ حسین ابنِ علی کے
اُس بھیڑ میں آ کر وہ ضعیفہ یہ پکاری
اے سبطِ نبی، ابنِ علی، عاشقِ باری
گھوڑا تو ہے کوتل، کدھر اتری ہے سواری
بھیّا، بہن آئی ہے زیارت کو تمھاری
مر جاؤں گی حضرت کو جو پانے کی نہیں میں
بے آپ کے دیکھے ہوئے جانے کی نہیں میں
اُس وقت شہِ دیں نے سنی زاریِ خواہر
جس وقت کہ تھا حلقِ مبارک تہہِ خنجر
فرمایا اشارے سے کہ اے شمرِ ستم گر
زینب نکل آئی ہے، ٹھہر جا ابھی دم بھر
آخر تو سفر ہوتا ہے اس دارِ محن سے
دو باتیں تو کر لینے دے بھائی کو بہن سے
منہ پھیر لیا شمر نے خنجر کو ہٹا کے
دی شہ نے یہ زینب کو صدا اشک بہا کے
تڑپاتی ہو بھائی کو بہن بلوے میں آ کے
دیکھو گی کِسے، ہم تو ہیں پنجے میں قضا کے
اٹھ سکتے نہیں جسم پہ تلواریں پڑی ہیں
گھبراؤ نہ، امّاں مرے پہلو میں کھڑی ہیں
جاؤ صفِ ماتم پہ کرو گریہ و زاری
گھر سے نکل آئے نہ سکینہ مری پیاری
فردوس سے آ پہنچی ہے نانا کی سواری
بس اب نہ سنو گی بہن آواز ہماری
رونا ہے تو رو لیجو مرے لاشے پہ آ کے
ہٹ جاؤ کہ سر کٹتا ہے سجدے میں خدا کے
دوڑی یہ صدا سن کے یداللہ کی جائی
چلّائی کہ دیدار تو میں دیکھ لوں بھائی
پر ہائے، بہن بھائی تلک آنے نہ پائی
یاں ہو گئی سیّد کے تن و سر میں جدائی
قاتل کو نہ گردن کو نہ شمشیر کو دیکھا
پہنچیں تو سناں پر سرِ شبّیر کو دیکھا
سر دیکھ کے بھائی کا وہ بے کس یہ پکاری
دکھ پائی بہن آپ کی مظلومی کے واری
خنجر سے یہ گردن کی رگیں کٹ گئیں ساری
تم مر گئے پوچھے گا خبر کون ہماری
آفت میں پھنسی آل رسولِ عَرَبی کی
اب جائیں کہاں بیٹیاں زہرا و علی کی
ہے ہے، پسرِ صاحبِ معراج حُسینا
پردیس میں بیووں کا لٹا راج حُسینا
گویا کہ علی قتل ہوئے آج حُسینا
ہے ہے، کفن و گور کے محتاج حُسینا
پرسا بھی ترا دینے کو آتا نہیں کوئی
لاشا بھی زمیں پر سے اٹھاتا نہیں کوئی
قربان بہن، اے مرے سرور، مرے سیّد
مذبوحِ قفا کشتۂ خنجر، مرے سیّد
اے فاقہ کش و بیکس و بے پر، مرے سیّد
پنجے میں ہے قاتل کے ترا سر، مرے سیّد
دیتے ہو صدا کچھ، نہ بلاتے ہو بہن کو
کس یاس سے تکتے چلے جاتے ہو بہن کو
بھیّا، مرا کوئی نہیں، تم خوب ہو آگاہ
احمد ہیں، نہ زہرا، نہ حَسن ہیں نہ یداللہ
ڈھارس تھی بڑی آپ کی اے سیّدِ ذی جاہ
چھوڑا مجھے جنگل میں یہ کیا قہر کیا، آہ
چلتے ہوئے کچھ مجھ سے نہ فرما گئے بھائی
بھینا کو نجف تک بھی نہ پہنچا گئے بھائی
اے میرے شہید اے مرے ماں جائے برادر
کس سے ترا لاشہ بہن اٹھوائے برادر
کس طرح مرے دل کو قرار آئے برادر
پانی بھی نہ قاتل نے دیا ہائے برادر
انساں پہ ستم یہ کبھی انساں نہیں کرتا
حیواں کو بھی پیاسا کوئی بے جاں نہیں کرتا
خاموش انیس اب کہ ہے دل سینے میں بے چین
لکھّے نہیں جاتے جو زینب نے کیے بین
اب حق سے دعا مانگ کہ اے خالقِ کونین
حاسد ہیں بہت، دل کو عطا کر مرے تو چین
ناحق ہے عداوت انھیں اس ہیچ مداں سے
بے تیغ کٹے جاتے ہیں شمشیرِ زباں سے
(ختم.شدمرثیہ.نمبر۱)