مرثیہ نمبر ۲
(مطلع ِدوم(دوم)
دنیا ہے یہ، شادی ہے کبھی اور کبھی آلام
راحت کی کبھی صبح، مصیبت کی کبھی شام
یکساں نہیں ہوتا کبھی آغاز کا انجام
وہ دن گئے کرتی تھیں جو اس چھاتی پہ آرام
ضد کر کے نہ اب رات کو رویا کرو بی بی
جب ہم نہ ہوں تم خاک پہ سویا کرو بی بی
سمجھا کے چلے آپ سکینہ کو غش آیا
غُل تھا کہ اٹھا سر سے شہنشاہ کا سایا
ڈیوڑھی سے جو نکلا اسد اللہ کا جایا
رہوارِ سبک سیر کو روتا ہوا پایا
کس عالمِ تنہائی میں سیّد کا سفر تھا
بھائی نہ بھتیجا نہ ملازم نہ پسر تھا
سائے کی طرح جو نہ جدا ہوتی تھی دم بھر
وہ رات کی جاگی ہوئی سوتی تھی زمیں پر
گردوں کی طرف دیکھ کے فرماتے تھے سروَر
تُو سر پہ ہے، تنہا نہیں فرزندِ پیمبر
کچھ کام نہ اس بیکس و ناشاد سے ہوگا
جو ہوگا وہ مولا تری امداد سے ہوگا
روتے ہوئے مولا جو قریبِ فرس آئے
نصرت کی صفیں باندھے مَلک پیش و پس آئے
فریاد کناں جِن بھی مثالِ جرس آئے
جنگل سے ہٹے پانچ جو دستے تو دس آئے
ڈھالیں لیے سب ہاتھوں کو قبضوں پہ دھرے تھے
لشکر سے جِنوں کے بھی کئی دشت بھرے تھے
تھی قومِ نبی جان بھی سرداری کو حاضر
فوجوں کے طلائے تھے خبرداری کو حاضر
لشکر تھا فرشتوں کا مددگاری کو حاضر
جبریل تھے خود حاشیہ برداری کو حاضر
تولے ہوئے نیزوں کو لڑائی پہ تلے تھے
رہوار تو ابلق تھے علم سبز کھلے تھے
اصرار کیا سب نے پہ حضرت نے نہ مانا
جز حق مددِ غیر کو رد کرتے ہیں دانا
وہ شاہ کہ جس کے یدِ قدرت میں زمانا
کون آیا، گیا کون، یہ مطلق بھی نہ جانا
بندہ وہی بندہ ہے جو راضی ہو رضا پر
اوروں سے اُسے کیا جسے تکیہ ہو خدا پر
کی عرض ملائک نے کہ یا سیّدِ ابرار
ہم آپ کے بابا کی مدد کرتے تھے ہر بار
فرمایا وہ خواہاں تھے کہ مغلوب ہوں کفّار
میں اپنی شہادت کا خدا سے ہوں طلبگار
جان آج ہماری کسی صورت نہ بچے گی
بالفرض بچا لیں تو پھر امّت نہ بچے گی
زعفر نے یہ کی عرض بصد اشک فشانی
ہو حکم تو لے آؤں ابھی نہر سے پانی
کچھ کام تو لے اے اسداللہ کے جانی
فرمایا کہ مطلق نہیں اب تشنہ دہانی
دریا بھی جو خود آئے تو لب تر نہ کروں گا
احمد کا نواسا ہوں مَیں پیاسا ہی مروں گا
جس وقت فلک پر ہو عیاں ماہِ محرّم
ہر تعزیہ خانہ میں بپا ہو مرا ماتم
جو بیبیاں ہیں روئیں گھروں میں مجھے باہم
مَردوں میں یہ ہو شور کہ ہے ہے شہِ عالم
سب پیر و جواں روئیں یہ انجام ہو میرا
مظلوم حسین ابنِ علی نام ہو میرا
دنیا میں مرے گا جو کسی شخص کا بھائی
یاد آئے گی عبّاس دلاور کی جدائی
جاں اپنی بھتیجے نے کسی کے جو گنوائی
روئے گا کہ قاسم نے سناں سینہ پہ کھائی
اولاد کا ماتم جسے ناشاد کرے گا
اکبر کے جواں مرنے کو وہ یاد کرے گا
دس روز شب و روز ہو غل ہائے حُسینا
صدقے ترے اے فاطمہ کے جائے حُسینا
زخمِ تبر و تیر و سناں کھائے حُسینا
سب پانی پیئں اور نہ تُو پائے حُسینا
جب پانی پیئں اشک فشانی کو نہ بھولیں
بچّے بھی مری تشنہ دہانی کو نہ بھولیں
زینب نے پکارا مرے ماں جائے برادر
ناشاد بہن لینے رکاب آئے برادر
اب کوئی مددگار نہیں ہائے برادر
صدقے ہو بہن گر تمھیں پھر پائے برادر
غش آئے گا دو گام پیادہ جو بڑھو گے
اس ضعف میں رہوار پہ کس طرح چڑھو گے
حضرت نے یہ فرمایا کہ خواہر نہ نکلنا
جب تک کہ میں زندہ رہوں باہر نہ نکلنا
لِلہ بہن کھولے ہوئے سر نہ نکلنا
سر کھول کے کیا اوڑھ کے چادر نہ نکلنا
کیا تم نے کہا دل مرا تھرّا گیا زینب
بھائی کی مناجات میں فرق آ گیا زینب
رخصت ہوئے روتے ہوئے سارے مَلک و جن
گھوڑے پہ چڑھا تن کے وہ کونین کا محسن
آفت کا تھا وہ وقت قیامت کا تھا وہ دن
سایا نہ کسی جا تھا نہ پانی کہیں ممکن
عبّاس کے حملے جو لعیں دیکھ چکے تھے
دریا بھی نظر بند تھا یوں گھاٹ رکے تھے
وہ دوپہر اس دشت کی اور دن کا وہ ڈھلنا
وہ گرم زرہ اور وہ ہتھیاروں کا جلنا
وہ گرد کا مقتل میں تتق لوں کا وہ چلنا
وہ بَن میں پہاڑوں سے شراروں کا نکلنا
گرمی سے فرس میں بھی نہ وہ تیزتگی تھی
پیاسے تھے حسین آگ زمانے کو لگی تھی
جب جنگ کو میداں میں شہِ بحر و بر آئے
اللہ ری تمازت کہ پسینے میں تر آئے
غصّے میں جو ہلتے ہوئے ابرو نظر آئے
غل تھا کہ علی تول کے تیغِ دو سر آئے
حُسنِ خمِ ابرو تھا دو بالا مہِ نَو سے
چہرے میں زیادہ تھی ضیا مہر کی ضَو سے
چہرہ وہ کہ رضواں تو دکھائے چمن ایسے
جنّت کے گلستاں میں نہیں گلبدن ایسے
لب بند ہوئے جاتے ہیں شیریں دہن ایسے
ہے شور جہاں میں نمک ایسا سخن ایسے
قرآں نہ اترتا تو قرأت بھی نہ ہوتی
یہ خلق نہ ہوتے تو فصاحت بھی نہ ہوتی
منظورِ نظر گیسو و رخسارۂ تاباں
ظلمت کی سحر گیسو و رخسارۂ تاباں
ہالے میں قمر گیسو و رخسارۂ تاباں
مشک و گلِ تر گیسو و رخسارۂ تاباں
دیکھے نہ کبھی نورِ سحر دیکھ کے ان کو
دو راتوں میں دو چاند نظر آتے ہیں دن کو
آئینے کا کیا منھ کہ جبیں سے ہو مقابل
مہتاب کہوں گر تو وہ ناقص ہے، یہ کامل
چہرے پہ کلف صاف ہے یہ عیب میں داخل
خورشید بھی اصلاً نہیں تشبیہ کے قابل
ہمسر ہوں وہ کیونکر کوئی نسبت نہیں جن کو
یہ رات کو پیشانی سے محجوب وہ دن کو
آراستہ لشکر ہے ادھر ہلتے ہیں بھالے
قبضوں پہ ہیں چالاک جواں ہاتھوں کو ڈالے
بد کیش ہیں واں تیروں کو ترکش سے نکالے
فوجوں پہ تو فوجیں ہیں رسالوں پہ رسالے
خنجر وہ کلیجے پہ جو زہرا کے پھرے ہیں
شاہِ شہدا قلعۂ آہن میں گھرے ہیں
تلواریں لیے دشمنِ جاں ایک طرف ہیں
گھوڑے پہ شہِ کون و مکاں ایک طرف ہیں
تیر ایک طرف گرزِ گراں ایک طرف ہیں
آپ ایک طرف، لاکھ جواں ایک طرف ہیں
سر کٹنے کا دھڑکا نہیں، وسواس نہیں ہے
فوجوں سے وغا اور کوئی پاس نہیں ہے
وہ دشت وہ گرمی وہ حرارت وہ تب و تاب
پانی کا جو قطرہ ہے وہ ہے گوہرِ نایاب
انسان کا تو کیا ذکر پرندے بھی ہیں بے تاب
لوں چلتی ہے مرجھائے ہوئے ہیں گلِ شاداب
اڑتے ہیں شرر آگ بیاباں میں بھری ہے
پھولوں میں نہ سرخی ہے نہ سبزے میں تری ہے
وہ دھوپ ہے جس میں کہ ہرن ہوتے ہیں کالے
ضیغم ہیں ترائی میں زبانوں کو نکالے
ریتی پہ دھرے پاؤں تو پڑ جاتے ہیں چھالے
دھوپ اس پہ یہ، سائے میں جسے فاطمہ پالے
تابش ہے کہ ایک کڑی نرم ہوئی ہے
سب سرخ ہے سینہ پہ زرہ گرم ہوئی ہے
بے سایہ جو ہے لاشۂ ہم شکلِ پیمبر
بکسے ہوئے ہیں دھوپ میں زخمِ تنِ انور
وا حسرت و دردا کہ نہیں لاش پہ چادر
سوتے ہیں لبِ نہر علم دارِ دلاور
تنہا جو وہ ساونت ہزاروں سے لڑا ہے
مارا ہوا اک شیر ترائی میں پڑا ہے
فرماتے ہیں گرمی کی بس اب مجھ کو نہیں تاب
میں تین شب و روز سے جنگل میں ہوں بے آب
مرجھائے ہیں سب باغِ علی کے گلِ شاداب
کیوں کر وہ جئے جس سے بچھڑ جائیں یہ احباب
صابر ہوں میں ایسا ہی کہ غش آ نہیں جاتا
ان پھولوں کو اس خاک پہ دیکھا نہیں جاتا
اتنی مجھے مہلت دو کہ قبریں تو بناؤں
سیدانیوں سے بہرِ کفن چادریں لاؤں
اس خاک میں ان چاند کے ٹکڑوں کو ملاؤں
یہ دفن ہوں میں قبر نہ پاؤں تو نہ پاؤں
قطرہ کوئی اس نہر سے پیاسے کو نہ دینا
مٹّی بھی محمد کے نواسے کو نہ دینا
کیا ان سے عداوت جو گئے دارِ فنا سے
کوتاہ ہیں چلنے سے قدم، ہاتھ وغا سے
مطلب انھیں دریا سے نہ کچھ سرد ہوا سے
رحم ان کا طریقہ ہے جو ڈرتے ہیں خدا سے
مہماں تھے لڑے بھی تو یہ سب حق پہ لڑے ہیں
آخر یہ بشر ہیں کہ جو بے گور پڑے ہیں
مرتا ہے مسافر کسی بستی میں کوئی گر
سب لوگ اسے غسل و کفن دیتے ہیں مل کر
قرآں کوئی پڑھتا ہے کہ بیکس تھا یہ بے پر
لے آتا ہے تربت پہ کوئی پھولوں کی چادر
غم کرتے ہیں سب فاتحہ خوانی میں سِوُم کو
سیّد ہیں یہ اور شرم نہیں آتی ہے تم کو
ان میں کئی بچّے ہیں کہ نکلے تھے نہ گھر سے
نازک ہیں صباحت میں زیادہ گلِ تر سے
افتادہ ہیں اس دھوپ میں یہ تین پہر سے
پوچھے کوئی یہ درد و الم میرے جگر سے
نرغہ ہے کہ تلواروں میں دم لے نہیں سکتا
زندہ ہوں میں اور ان کو کفن دے نہیں سکتا
یہ سن کے پکارا پسَرِ سعد بد افعال
کیسا کفن اور کیسی لحد فاطمہ کے لال
اکبر ہوں کہ ہوں قاسم و عبّاس خوش اقبال
ہم گھوڑوں کی ٹاپوں سے کرینگے انھیں پامال
سینوں پہ گلِ زخم ابھی اور کھلیں گے
سجّاد کو ٹکڑے بھی نہ لاشوں کے ملیں گے
حضرت نے کہا دور ہو او ظالمِ مردود
اللہ شہیدوں کی حفاظت کو ہے موجود
یہ وہ ہیں کہ زہرا و نبی جن سے ہیں خوشنود
ہر لاش کو گھیرے ہوئے ہے رحمتِ معبود
قبروں میں بھی جنّت کے چمن ان کو ملیں گے
فردوس کے حُلّوں کے کفن ان کو ملیں گے
میں دیر سے آمادہ ہوں تلوار کو تولے
کہدے کہ علَم فوج صفیں باندھ کے کھولے
ماروں انھیں پھوٹیں کہیں کچھ دل کے پھپھولے
سر تن سے اڑا دوں کوئی اب منہ سے جو بولے
آرام سفر کر گیا، راحت نہیں باقی
بڑھتا ہوں کہ بس اب کوئی حجّت نہیں باقی
یہ فوج ہے کیا آگ کا دریا ہو تو جھیلیں
کیا ڈر انھیں بچپن میں جو تلواروں سے کھیلیں
الٹیں صِفَتِ کاہ اگر کوہ کو ریلیں
کوفہ تو ہے کیا شام کو اور روم کو لے لیں
چاہیں تو زمیں کے ابھی ساتوں طبق الٹیں
یوں الٹیں کے جس طرح ہوا سے ورق الٹیں
کہتے ہیں جسے اہلِ جہاں گنبدِ گردان
نُہ ورقے ہیں اک جزوِ کتابِ شہ مردان
ہم آج ہیں عالم میں قضا فہم و قدر دان
حق بین و حق آگاہ و سخن سنج و ہنر دان
کس امر میں تقلیدِ محمد نہیں کرتے
فاقوں میں سوالِ فقَرا رد نہیں کرتے
اللہ نے کونین کی شاہی ہمیں دی ہے
امداد رسولوں کی مرے باپ نے کی ہے
مجھ میں بھی وہی دل، وہی شوکت، وہی جی ہے
سر برسے ہیں جب تیغِ علی میان سے لی ہے
سر تن سے کٹے جب تو مہم جنگ کی سر ہے
مر جائے بہ عزّت یہ بہادر کی ظفر ہے
ہم دولتِ دنیا کبھی گھر میں نہیں رکھتے
توقیرِ زر و مال نظر میں نہیں رکھتے
رکھتے ہیں قدم خیر میں، شر میں نہیں رکھتے
کچھ اور بجز تیغ کمر میں نہیں رکھتے
نذرِ رہِ معبود تن و سر ہے ہمارا
زیور ہے یہی اور یہی سر ہے ہمارا
شہر اس کی تب و تاب سے ویرانے ہوئے ہیں
جب چمکی ہے یہ دیو بھی دیوانے ہوئے ہیں
منھ وہ ہے کہ تلواروں میں دندانے ہوئے ہیں
لوہا وہ کہ جبریل جسے مانے ہوئے ہیں
کر دیتی ہے شب دشمنِ ایماں کے دنوں کو
جڑھ آتی ہے تپ اس کے شراروں سے جنوں کو
برباد اسی تیغ سے سر کٹ کے ہوئے ہیں
جانبر جو ہوئے، بھاگ کے یا ہٹ کے ہوئے ہیں
عاجز ہے زرِہ، خود بھی سر پٹکے ہوئے ہیں
اب تک پر جبریلِ امیں لٹکے ہوئے ہیں
باعث یہ نہ ہوتا تو پھر آرام نہ لیتے
تھا خاتمہ گر ہاتھ علی تھام نہ لیتے
مشہورِ جہاں عمرو و علی کی ہے لڑائی
زور اس کا کہ یہ دیو نے قوّت نہیں پائی
خندق کے اِدھر آتے ہی تلوار جو کھائی
گویا تھی مہینوں سے تن و سر سے جدائی
لاشے کا اِدھر ڈھیر، سرِ نحس اُدھر تھا
خندق کو جو دیکھا تو لہو تا بہ کمر تھا
کب میان سے شمشیرِ دو سر لی نہیں ہم نے
لڑنے میں کبھی منہ پہ سپر لی نہیں ہم نے
جب تک کہ زمیں خون سے بھرلی نہیں ہم نے
کچھ اپنے سر و تن کی خبر لی نہیں ہم نے
شمشیر و سپر بعدِ ظفر کھولتے ہیں ہم
جب صاف ہو میداں تو کمر کھولتے ہیں ہم
پیغامِ قضا تیغِ یداللہ کو جانو
ہمتائے علی فاطمہ کے ماہ کو جانو
بینائی ہو تو کوہِ گراں کاہ کو جانو
عاجز نہ کبھی بندۂ اللہ کو جانو
انگشت سے حلقے کو مروڑا ہے علی نے
خیبر کا در اِک ہاتھ سے توڑا ہے علی نے
اللہ رے زورِ یدِ پاکیزہ و طاہر
آثار اِذَا زُلزِلَتِ الاَرض تھے ظاہر
کھاتے تھے سدا نانِ جویں خلق ہے ماہر
کچھ زر نہ سماتا تھا نظر میں نہ جواہر
اسبابِ شہنشاہِ دو عالم یہی بس تھا
قرآں تھا، یہ تلوار تھی، بس ایک فرس تھا