(مطلعِ دوم(چہارم)
ڈوبا تھا کوئی اور کوئی خون میں تر تھا
ہر نخل قد اس معرکہ میں زیر و زبر تھا
ڈھالیں تھیں نہ ساعد تھے نہ بازو تھے نہ سر تھا
پتّے تھے نہ شاخیں نہ شجر تھا نہ ثمر تھا
یوں باغ کی رونق کبھی جاتے نہیں دیکھی
ایسی بھی خزاں آج تک آتے نہیں دیکھی
جو برچھیاں بے پھل تھیں وہ خجالت سے گڑی تھیں
آری تھیں وہ تلوار سے تیغیں جو لڑی تھیں
تھیں کند سنانیں وہ جو نیزوں سے کڑی تھیں
جوشن پہ بھی ایسی کبھی کڑیاں نہ پڑی تھیں
رہتی پہ کٹے ہاتھوں کا پشتارہ ہوا تھا
ہر پارۂ چار آئنہ صد پارہ ہوا تھا
ٹکڑے ہیں کمانیں قدر انداز کریں کیا
آفت کا نشانہ ہیں فسوں ساز کریں کیا
بے تیر ہے ترکش کا دہن، باز کریں کیا
اُڑ جائیں پرِ تیر تو پرواز کریں کیا
چلّے بھی تو گوشوں کے ساتھ نہیں ہیں
جس پاس کماں رہ گئی ہے ہاتھ نہیں ہیں
زرہیں جو کٹیں موت کے قابو میں بس آئے
جب دام سے چھوٹے تو میانِ قفس آئے
چو رنگ تھے جو راس و چپ و پیش و پس آئے
وہ بیس ہوئے تیغ کے نیچے جو دس آئے
نہ غول نہ مجمع نہ پرا تھا نہ وہ صف تھی
تھی ایک ہی بجلی پہ چمک چار طرف تھی
رحم ایک جگہ ہے تو عتاب ایک جگہ ہے
اک جا ہے ظفر، فتح کا باب ایک جگہ ہے
برق ایک جگہ ہے تو سحاب ایک جگہ ہے
حیرت کی جا ہے آتش و آب ایک جگہ ہے
وہ نار جسے خوں کی روانی نہ بجھائے
یہ آگ وہی ہے جسے پانی نہ بجھائے
جس فرق پہ یہ صاعقہ کردار گری ہے
سر تن سے گرا، ہاتھ سے تلوار گری ہے
اک بار کہیں برق شرر بار گری ہے
سَو بار یہ اٹھی ہے تو سو بار گری ہے
ٹالے یہ بلا سر سے جو کوئی تو قدم لیں
اتنی ہمیں مہلت نہیں ملتی کہ دم لیں
مولا سا کوئی سائف و سیّاف نہیں ہے
صف کونسی ایسی ہے کہ جو صاف نہیں ہے
دنیا میں عدالت نہیں انصاف نہیں ہے
ایسا تو کوئی قاف سے تا قاف نہیں ہے
دکھلا دیے جوہر تھے جو خالق کے ولی کے
نے قبل لڑا کوئی نہ یوں بعد علی کے
اللہ ری لڑائی میں سبک تازیٔ شبدیز
شہباز بھی تھے قائلِ جانبازیٔ شبدیز
وہ سینہ وہ گردن وہ سر افرازیٔ شبدیز
وہ آنکھ وہ چہرہ وہ خوش اندازیٔ شبدیز
جس طرح فرو رہتی ہے مایوس کی گردن
گردن سے یونہی جھکتی ہے طاؤس کی گردن
کلغی کا وہ بالا ہوا پایا اسی سر پر
بس عقدِ ثریّا نظر آیا اسی سر پر
تاروں کو مہِ نو نے سجایا اسی سر پر
لا ریب ہما ڈالے تھا سایا اسی سر پر
ساری ہے عناصر میں ہوا خاک نہیں ہے
شہباز نے پر کھولے ہیں فتراک نہیں ہے
آہو جو کہیں اس کو تو آہو ہے چکارا
ساتھ اسکے ہما کو نہیں پرواز کا یارا
وہ نعل وہ ہر کیل وہ سم معرکہ آرا
پتلی وہ پری سمجھے جسے آنکھ کا تارا
دیکھی ہے سموں میں کسی گھوڑے کے یہ ضَو بھی
یک جا ہیں ستارے بھی قمر بھی مہِ نو بھی
نعل اور سُم ایسے کبھی پیارے نہیں دیکھے
کیلوں سے چمکتے ہوئے تارے نہیں دیکھے
آہو نہیں دیکھے کہ چکارے نہیں دیکھے
اب تک یہ خوش اسلوب طرارے نہیں دیکھے
دیکھو اسے جب فرش سے جائے یہ سما پر
دیکھا نہ ہو گر تختِ سلیماں کو ہوا پر
اللہ ری جانداریٔ شبدیز وغا میں
تلوار کے چلنے سے بھی تھا تیز وغا میں
دل کا تھا اشارا اسے مہمیز وغا میں
ہر فعل تھا شمشیر شرر ریز وغا میں
ہاتھ اس کے جدھر آئے اجل پا گئی اس کو
اک ٹاپ پڑی جس پہ زمیں کھا گئی اس کو
تلوار کے مانند نہ بھرتا تھا دم اس کا
گردن کے مہِ نو سے وہ منکے وہ خم اس کا
دریا سے روانی میں فزوں تر قدم اس کا
کس طرح لکھے وصف کمیتِ اس کا
دوڑاؤں کہاں تک فرسِ ذہن رسا کو
کہہ دو کسی شاعر نے جو باندھا ہو ہوا کو
غُل تھا کہ چھلاوے میں یہ چھل بل نہیں دیکھی
پھرتی ہوئی یوں آج تلک کل نہیں دیکھی
باریک یہ جلد اور یہ ہیکل نہیں دیکھی
ایسی تو کبھی خواب میں مخمل نہیں دیکھی
نازک ہے کہ مہمیز کی طاقت نہیں رکھتا
ابریشمِ چینی یہ لطافت نہیں رکھتا
جو رگ ہے عوض خوں کے حرارت سے بھری ہے
جلدی جو ہے سب جلد بھی جودت سے بھری ہے
شعلے کی طرح طبع شرارت سے بھری ہے
اُبلی ہوئی ہر آنکھ شجاعت سے بھری ہے
اڑ جاتا ہے برچھوں وہ محل جست کا پا کر
تلواروں کے نیچے سے نکل جاتا ہے آ کر
چلنے میں پری کیا ہے نسیمِ سحری کیا
جس جا پہ پھرے برق کی واں جلوہ گری کیا
طاؤس ہے کیا نسر ہے کیا کبک دری کیا
یاں اوجِ سعادت کا ہما کیا ہے پری کیا
راکب جو ذرا چھیڑ دے اس برقِ شیَم کو
سائے کو نہ وہ پائے نہ یہ گردِ قدم کو
اُس صف کو اُلٹ کر اِدھر آیا اُدھر آیا
فوجوں سے پلٹ کر اِدھر آیا اُدھر آیا
جوں شیر جھپٹ کر اِدھر آیا اُدھر آیا
بجلی سا سمٹ کر اِدھر آیا اُدھر آیا
تھمتا ہے چھلاوہ بھی مگر یہ نہیں تھمتا
طائر بھی ٹھہر جاتا ہے پر یہ نہیں تھمتا
پامال نہ ہوں پھول جو گلزار پہ دوڑے
سم تر نہ ہوں گر قلزمِ زخّار پہ دوڑے
اس طرح رگِ ابرِ گہر بار پہ دوڑے
جس طرح کہ نغمہ کی صدا تار پہ دوڑے
اغراق ہے یاں کچھ نہ تعلّی شُعَرا کی
کافی ہے یہ تعریف کہ قدرت ہے خدا کی
اک ظالمِ شامی سپہِ شُوم سے نکلا
مکّار بڑے ٹھاٹھ بڑی دھوم سے نکلا
لڑنے کے لیے خاصۂ قیّوم سے نکلا
کشتوں کا عوض لینے کو معصوم سے نکلا
دو بھائی بھی اس کے شہِ والا سے لڑے تھے
سر اُن کے کہیں، جسم کہیں رن میں پڑے تھے
غصّہ سے غضب سُرخ تھیں خونخوار کی آنکھیں
بجلی سے جھپکتی تھیں نہ غدّار کی آنکھیں
دیکھی جو نہ تھیں حیدرِ کرّار کی آنکھیں
مستِ مےِ نخوت تھیں جفا کار کی آنکھیں
سر کاٹیے سردار کا سودا تھا یہ سر میں
غّرہ کہ تہمتن نہ سماتا تھا نظر میں
سر طبلکِ معکوس، جبیں حد سے فزوں تنگ
غدار و سلح شور و جفا پیشہ و سرہنگ
کہنے کو بشر پر قد و قامت کا نیا ڈھنگ
حیراں شبِ ظلمات وہ تھی تیرگیِ رنگ
پہلے سے یہ کالا تھا منھ اس دشمنِ رب کا
بن جائے توا عکس سے آئینہ حلب کا
لال آنکھیں وہ ظالم کی وہ منھ قیر سے کالا
شب ایک طرف دن کو ڈرے دیکھنے والا
قد دیو کی قامت سے بلندی میں دوبالا
دانتوں کی کبودی سے دہن مار کا چھالا
شیر اس کی صدا سن کے لرز جاتے تھے بن میں
فاسد تھی ہوا رن کی یہ بد بُو تھی دہن میں
وہ ڈھال کہ جو سینۂ رستم کو چھپا لے
تلوار کا منہ ایسا کہ فولاد کو کھا لے
نیزہ وہ کہ مرحب کو جو مرکب سے اٹھا لے
گرز ایسا کہ عنتر جسے مشکل سے سنبھالے
کج طبع کہ سر جائے پہ کینے کو نہ چھوڑے
خنجر وہ کہ سالم کسی سینے کو نہ چھوڑے
ترکش کا دہن مرگِ مفاجات کا مسکن
وہ سخت کماں نرم جہاں حلقۂ آہن
چار آئینہ کو تیر بنا دیتے تھے جوشن
چلّہ وہ جسے دیکھ کہ تھرّائے تہمتن
کچھ دیو سے بھی زور زیادہ تھا شقی کا
دو ٹانک کا حلقہ تو کبادہ تھا شقی کا
سیدھا ہوا گر قوس کے قبضہ کو پکڑ کے
روحِ تنِ رستم قفسِ جاں میں پھڑکے
چلّے کو جو کھینچے وہ جفا کار اکڑ کے
گرجے وہ کہ بجلی بھی نہ اس قہر سے کڑکے
تاکیں جو نشانہ کو سلح شور کی آنکھیں
ہے کور تو کیا کور کرے مور کی آنکھیں
حضرت نے کہا اپنے ارادے کی خبر دے
آنکھوں سے اٹھا نشۂ پندار کے پردے
بو جاتا ہے اس تخم کو دانا جو ثمر دے
غرّہ یہ ترا تجھ کو کہیں پست نہ کر دے
دنیا میں نہیں کچھ عملِ نیک سے بہتر
پیدا کیا اللہ نے اک ایک سے بہتر
کیوں عمرو کو تھا اپنے تن و توش پہ کیا ناز
مرحب کو یہ دعویٰ تھا کہ مجھ سا نہیں جانباز
تھا ناریوں میں عنترِ مغرور بھی ممتاز
تینوں تھے شقی بندۂ حرص و ہوس و آز
ایک ایک کا تن سر سے اتارا ہے علی نے
تڑپے بھی نہیں یوں انہیں مارا ہے علی نے
وہ کون سی تھی جنگ جو سر کی نہیں ہم نے
کب رن کی زمیں خون سے تر کی نہیں ہم نے
جز خیر کسی سے کبھی شر کی نہیں ہم نے
خواہش کی نظر جانبِ زر کی نہیں ہم نے
بے مانگے ہمیں دیتا ہے مختار ہمارا
مشہور ہے کونین میں ایثار ہمارا
گہ ماہِ ہلالی ہے کبھی موسم دَے ہے
اسباب و زر و مال بھلا کون سی شے ہے
تم کھوتے ہو دنیا کے لیے دین کو ہے ہے
مقلوب کرو زر کو تو وہ ماحز مے ہے
اس نشّہ سے کارہ ہے وہ کچھ بھی جسے حس ہے
زائل جو کرے عقلِ بشر کو وہ نجس ہے
اژدر تھا وہ حیدر نے جسے مہد میں چیرا
بیٹا میں علی کا ہوں، نبی کا ہوں نبیرا
فردوسِ معلّیٰ میں ہمارا ہے ذخیرا
بخل اوروں کا شیوہ ہے، سخا اپنا وطیرا
ہے کون سا قطرہ جسے دریا نہیں کرتے
زر کیا ہے کہ سر دینے میں صرفہ نہیں کرتے
بھر دیتے ہیں کشکول فقیروں کے مع ذیل
دریا ہے کہیں ہاتھ ہمارا تو کہیں سیل
ہے کُفّۂ میزان اسی ہاتھ کے دو کیل
یہ نقرہ و زر دستِ ہنر مند کے ہیں میل
فاقوں میں بھی فیضِ کفِ عالی نہیں جاتا
سائل کبھی دروازہ سے خالی نہیں جاتا
لڑتا ہے تو بڑھ عصر کا ہنگام قریں ہے
اب سجدۂ معبود کی مشتاق جبیں ہے
لشکر ہے ترے ساتھ اِدھر کوئی نہیں ہے
عبّاس سا غازی ہے نہ اکبر سا حَسیں ہے
فاقہ ہے جدا، ضعف جدا، پیاس جدا ہے
اب میں ہوں یہ تلوار ہے اور سر بہ خدا ہے
یہ سنتے ہی سفّاک نے بھالے کو سنبھالا
تلوار کو چمکا کے بڑھے سیّدِ والا
آ پہنچا تھا سینہ کے قریں ظلم کا بھالا
فرزندِ یداللہ نے عجب ہاتھ نکالا
کیا جانیے بجلی تھی کہ تیغِ دو زباں تھی
نہ ہاتھ میں بھالا تھا نہ بھالے میں سناں تھی
حضرت نے کہا، ہول سے دم اس کا جو پُھولا
کافی تھا ترے قتل کو اک تیغ کا ہُولا
سنتے تھے کہ نیزے میں تجھے ہے یدِ طُولا
جو بند کے تھے یاد انھیں خوف سے بُھولا
نے ہاتھ میں طاقت تھی ترے اور نہ تکاں تھی
نیزہ تھا کہ تنکا تھا، قلم تھا کہ سناں تھی
جھنجھلا کے کہا اس نے کہ یا شاہِ سر افراز
سرہنگ نہ مجھ سا ہے نہ سرکش نہ سر انداز
طاقت پہ مجھے فخر تھا نیزے پہ مجھے ناز
کیا جانیے یہ سحر تھا یا آپ کا اعجاز
چمکی تھی کہاں تیغ کہاں چل کے پھری تھی
مجھ پر کبھی اس طرح سے بجلی نہ گری تھی
حضرت نے کہا سحر نہ جان اس کو ستمگر
اعجاز دکھائیں تو نہ تُو ہو نہ یہ لشکر
ہیں سیفِ خدا کوئی ہمارا نہیں ہمسر
اس ہاتھ میں شمشیرِ دو دستی کے ہیں جوہر
ہر وقت یہاں وردِ زباں نادِ علی ہے
بجلی نہیں یہ ضرب بھی ایجادِ علی ہے
قبضہ میں کماں لے کے یہ بد کیش پکارا
تیر اس کے دلِ کوہ کو کرتے ہیں دو پارا
حضرت نے کہا تیغ کا کافی ہے اشارا
کھل جائے گی یہ خیرہ سری او ستم آرا
پیکاں کی طرح غنچۂ خاطر نہ کھلے گا
بھاگے گا تو گوشہ بھی نہ چھپنے کو ملے گا
چلّہ میں اُدھر تیر جفا کار نے جوڑا
کاوے پہ اِدھر ڈال دیا آپ نے گھوڑا
چلّہ کو ادھر کھینچ کے سفّاک نے چھوڑا
گلگوں کو اڑا کر شہِ ذیجاہ نے موڑا
باطل ہوا سرکش کو کماں پر جو گماں تھا
ناوک تھا نہ چلّہ تھا نہ ترکش کا نشاں تھا
حضرت نے کہا شرم سے نہوڑائے ہے کیوں سر
حلقہ ابھی ثابت ہے اٹھا دوسرے سر پر
حلقہ کو پٹک کر یہ پکارا وہ ستم گر
اب گرز ہے اور آپ ہیں یا سبطِ پیمبر
بگڑی ہے وغا، جان پہ اس وقت بنی ہے
بعد اس کے تو پھر معرکۂ تیغ زنی ہے
ظالم نے ادھر گرزِ گراں سر کو اٹھایا
ثابت یہ ہوا دیو نے لنگر کو اٹھایا
نے ہاتھ میں لی تیغ نہ جمدھر کو اٹھایا
مولا نے فقط تیغِ دو پیکر کو اٹھایا
اڑتے ہوئے دیکھا جو ہوا میں شرروں کو
سمٹا لیا تھّرا کے فرشتوں نے پروں کو
شپّیر قریب آ گئے گھوڑے کو ڈپٹ کے
شبدیز اِدھر سے اُدھر آیا جو سمٹ کے
ہر چند بچاتا رہا ضربت کو وہ ہٹ کے
پرکالۂ گرز اڑنے لگے تیغ سے کٹ کے
باقی تھا جو کچھ گرز وہ دو ہو گیا آخر
قبضہ جو اٹھا تھا وہ فرو ہو گیا آخر