دعائے کمیل کا متن
بسم الله الرحمن الرحیم
بنام خدائے رحمن و رحیم
اللّٰهُمَّ اِنّيِ اسْا لُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتي وَ سِعَتْ کُلَّ شَيْءٍ،وَ بِقُوَّتِکَ الَّتي قَهَرْتَ
خدایا میراسوال اس رحمت کے واسطہ سے ہے جو ہر شے پر محیط ہے۔ اس قوت کے واسطہ سے ہے جو ہر چیز پر حاوی ہے
بِهٰا کُلَّ شَيْءٍ،وَخَضَعَ لَهٰا کُلُّ شَيْ ءٍ،وَذَلَّ لَهٰا کُلُّ شَيْ ءٍ، وَبِجَبَرُوتِکَ الَّتي غَلَبْتَ
اور اس کے لئے ہر شے خاضع اور متواضع ہے۔ اس جبروت کے واسطہ سے ہے جو ہر شے پر غالب ہے اور اس عزت کے واسطہ سے ہے
بِهٰا کُلَّ شَيْءٍ، وَ بِعِزَّتِکَ الَّتي لاٰ یَقُومُ لَهٰا شَيْءٌ، وَبِعَظَمَتِکَ الَّتي مَلَاتْ کُلَّ
جس کے مقابلہ میں کسی میں تاب مقاومت نہیں ہے۔اس عظمت کے واسطہ سے ہے جس نے ہر چیز کو پر کردیا ہے
شَيْءٍ، وَ بِسُلْطٰانِکَ الَّذي عَلاٰ کُلَّ شَيْءٍ، وَبِوَجْهِکَ الْبٰاقي بَعْدَ فَنٰاءِ کُلِّ شَيْءٍ،
اور اس سلطنت کے واسطہ سے ہے جو ہر شے سے بلند تر ہے۔اس ذات کے واسطہ سے ہے جو ہر شے کی فنا کے بعد بھی باقی رھنے والی ہے
وَبِاسْمٰائِکَ الَّتي مَلَاتْ اَرْکٰانَ کُلِّ شَيْءٍ،وَبِعِلْمِکَ الَّذي احٰاطَ بِکُلِّ شَيْءٍ،
اور ان اسماء مبارکہ کے واسطہ سے ہے جن سے ہر شے کے ارکان معمور ہیں ۔اس علم کے واسطہ سے ہے جو ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے
وَبِنُورِ وَجْهِکَ الَّذي اضٰاءَ لَهُ کُلُّ شَيْءٍ، یٰا نُورُ یٰا قُدُّوسُ،یٰا اوَّلَ الْاوَّلینَ،
اور اس نور ذات کے واسطہ سے ہے جس سے ہر شے روشن ہے۔اے نور ،اے پاکیزہ صفات،اے اوّلین سے اوّل اور آخرین سے آخر۔
وَیٰا آخِرَالْآخِرینَ
اللّٰهُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تَهْتِکُ الْعِصَمَ اللّٰهُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ النِّقَمَ
خدایا میرے گناھوں کو بخش دے جو ناموس کو بٹہ لگادیتے ہیں۔ان گناھوں کو بخش دے جو نزول عذاب کا باعث ہوتے ہیں۔
اللّٰهُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُغَیِّرُالنِّعَمَاللّٰهُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تَحْبِسُ
ا ن گناھوں کو بخش دے جو نعمتوں کو متغیر کر دیا کرتے ہیں ۔ان گناھوں کو بخش دے جو دعاوں کو تیری بارگاہ تک پھنچنے سے روک دیتے ہیں ۔
الدُّعٰآءَاللّٰهُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ الْبَلآٰءَاللّٰهُمَّ اغْفِرْلي کُلَّ ذَنْبٍ اذْنَبْتُهُ، وَکُلَّ خَطٓیئَةٍ اخْطٰاتُهٰا
ان گناھوں کو بخش دے جو امیدوں کو منقطع کر دیتے ہیں۔ان گناھوں کو بخش دے جو نزول بلاء کا سبب ہوتے ہیں۔ خدایا میرے تمام گناھوں اور میری تمام خطاوں کو بخش دے۔
اللّٰهُمَّ إِنِّي اتَقَرَّبُ إِلَیْکَ بِذِکْرِکَ،وَاسْتَشْفِعُ بِکَ إِلٰی نَفْسِکَ،وَاسْالُکَ
خدایامیں تیری یاد کے ذریعہ تجھ سے قریب ہو رھاھوں اور تیری ذات ہی کو تیری بارگاہ میں شفیع بنا رھا ہوں تیرے کرم کے سھارے میرا سوال ہے
بِجُودِکَ انْ تُدْنِیَني مِنْ قُرْبِکَ،وَاَنْ تُوزِعَنِي شُکْرَکَ،وَاَنْ تُلْهِمَنِي ذِکْرَکَ،اللّٰهُمَّ إِنّي اسْالُکَ
کہ مجھے اپنے سے قریب بنالے اور اپنے شکر کی توفیق عطا فرما اور اپنے ذکر کا الھام کرامت فرما۔خدایامیں نھایت درجہ
سُوٰالَ خٰاضِعٍ مُتَذَلِّلٍ خٰاشِعٍ انْ تُسٰامِحَنيوَتَرْحَمَنِي وَتَجْعَلَنِي بِقِسْمِکَ رٰاضِیاً
خشوع ،خضوع اور ذلت کے ساتھ یہ سوال کرر ہاھوں کہ میرے ساتھ مھربانی فرما۔مجھ پر رحم کر اور جو کچھ مقدر میںھے مجھے
قٰانِعاً،وَفي جَمیعِ الْاحْوٰالِ مُتَوٰاضِعاً
اسی پر قانع بنادے۔مجھے ہر حال میں تواضع اور فروتنی کی توفیق عطا فرما۔
اللّٰهُمَّ وَاسْا لُکَ سُوٰالَ مَنِ اشْتَدَّتْ فٰاقَتُهُ،وَانْزَلَ بِکَ عِنْدَ الشَّدٰائِدِ
خدایا میرا سوال اس بے نوا جیسا ہے جس کے فاقے شدید ہوں اور جس نے اپنی حاجتیں تیرے سامنے رکھ دی ہوں
حٰاجَتَهُ،وَعَظُمَ فیمٰا عِنْدَکَ رَغْبَتُهُاللّٰهُمَّ عَظُمَ سُلْطٰانُکَ،وَعَلٰا مَکٰانُکَ،وَخَفِيَ
اور جس کی رغبت تیری بارگاہ میں عظیم ہو۔خدایا تیری سلطنت عظیم۔ تیری منزلت بلند۔تیری تدبیر مخفی ۔
مَکْرُکَ،وَظَهَرَ امْرُکَ،وَغَلَبَ قَهْرُکَ،وَجَرَتْ قُدْرَتُکَ،وَلٰا یُمْکِنُ الْفِرٰارُمِنْ حُکُومَتِکَ
تیرا امر ظاھر۔تیرا قھر غالب اور تیری قدرت نافذ ہے اور تیری حکومت سے فرار ناممکن ہے۔
اللّٰهُمَّ لاٰاجِدُ لِذُنِوبيغٰافِراً،وَلاٰ لِقَبٰائِحيسٰاتِراً،وَلاٰلِشَيْءٍ مِنْ عَمَلِيَ الْقَبیحِ
خدایا میرے گناھوں کے لئے بخشنے والا۔میرے عیوب کے لئے پردہ پوشی کرنے والا،میرے قبیح اعمال
بِالْحَسَنِ مُبَدِّلاً غَیْرَکَ،لاٰإِلٰهَ إِلاَّ انْتَ سُبْحٰانَکَ وَبِحَمْدِکَ،ظَلَمْتُ نَفْسِي،ُ
کو نیکیوں میں تبدیل کرنے والا تیرے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ تو وحدہ لا شریک، پاکیزہ صفات اور قابل حمد ہے۔خدایا میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے۔
وَتَجَرَّات بِجَهْلي،وَسَکَنْتُ إِلٰی قَدِیمِ ذِکْرِکَ لي،وَمَنِّکَ عَلَيَّ
اپنی جھالت سے جسارت کی ہے اور اس بات پر مطمئن بیٹھا ہوں کہ تونے مجھے ہمیشہ یا د رکھا ہے اور ہمیشہ احسان فرمایا ہے۔
اللّٰهُمَّ مَوْلاٰيَ کَمْ مِنْ قَبیحٍ سَتَرْتَهُ،وَکَمْ مِنْ فٰادِحٍ مِنَ الْبَلآٰءِ اقَلْتَهُ،وَکَمْ مِنْ
خدایا میرے کتنے ہی عیب ہیں جنھیں تونے چھپا دیا ہے اور کتنی ہی عظیم بلائیں ہیں جن سے تونے بچایا ہے۔کتنی ٹھوکریں ہیں
عِثٰارٍوَقَیْتَهُ،وَکَمْ مِنْ مَکْرُوهٍ دَفَعْتَهُ،وَکَمْ مِنْ ثَنٰاءٍ جَمیلٍ لَسْتُ اهْلاً لَهُ نَشَرْتَهُ
جن سے تونے سنبھالا ہے اور کتنی برائیاں ہیں جنھیں تونے ٹالا ہے۔کتنی ہی اچھی تعریفیں ہیں جن کا میں اہل نہیں تھا اور تونے میرے بارے میں انھیں نشر کیا ہے ۔
اللّٰهُمَّ عَظُمَ بَلاٰئِي،وَافْرَطَ بيسُوٓءُ حٰالي،وَقَصُرَتْ بياعْمٰالِي،وَقَعَدَتْ
خدایا میری مصیبت عظیم ہے ۔میری بدحالی حد سے آگے بڑھی ہوئی ہے ۔میرے اعمال میں کوتاھی ہے۔مجھے کمزوریوں
بِياغْلاٰلِي،وَحَبَسَنِي عَنْ نَفْعِي بُعْدُ امَلِي وَخَدَعَتْنِي الدُّنِّیٰا بِغُرُورِهٰاوَنَفْسي بِجِنٰایَتِهٰا
کی زنجیروں نے جکڑکر بٹھا دیا ہے اور مجھے دور دراز امیدوں نے فوائد سے روک دیا ہے،دنیا نے دھوکہ میں مبتلا رکھا ہے اور نفس نے خیانت اور ٹال مٹول میں مبتلا رکھا ہے ۔
وَمِطٰالي یٰاسَیِّدِي،فَاسْالُکَ بِعِزَّتِکَ انْ لاٰیَحْجُبَ عَنْکَ دُعٰائِي سُوٓءُ عَمَلِي و َفِعٰالِي،
میرے آقا و مولا! تجھے تیری عزت کا واسطہ ۔میری دعاوں کو میری بد اعمالیاں روکنے نہ پائیں اور میں
وَلاٰتَفْضَحْنِي بِخَفِيِّ مَا اطَّلَعْتَ عَلَیْهِ مِنْ سِرِّي،وَلاٰ تُعٰاجِلْني بِالْعُقُوبَةِ عَلٰی مٰا عَمِلْتُهُ
اپنے مخفی عیوب کی بنا پر بر سر عام رسوانہ ہونے پاوں۔میں نے تنھا ئیوں میں جو غلطیاں کی ہیں ان کی سزا فی الفور نہ
فيخَلَوٰاتي مِنْ سُوٓءِ فِعْلِي وَإِسٰائَتِي،وَدَوٰامِ تَفْریطي وَجَهٰالَتِي، وَکَثْرَةِ شَهَوٰاتي وَ غَفْلَتِي
ملنے پائے، چاھے وہ غلطیاں بد عملی کی شکل میں ہو ں یا بے ادبی کی شکل میں،مسلسل کوتاھی ہو یا جھالت یا کثرت خواھشات و غفلت۔
وَکْنِ اللّٰهُمَّ بِعِزَّتِکَ لي فی کُلِّ الْاحْوٰالِ رَؤُوفاً،وَعَلَيَّ في جَمیعِ الْاُمُورِ
خدایا مجھ پرھر حال میں مھربانی فرما اور میرے اوپر تمام معاملات میں کرم فرما۔خدایا۔پروردگار۔میرے پاس
عَطُوفاً،إِلٰهيوَرَبّيمَنْ لي غَیْرُکَ،اسْالُهُ کَشْفَ ضُرّي، وَالنَّظَرَ فيامْرِي
تیرے علاوہ کون ہے جو میرے نقصانات کو دور کر سکے اور میرے معاملات پر توجہ فرماسکے۔
إِلٰهي وَمَوْلاٰيَ اجْرَیْتَ عَلَيّحُکْماً اتَّبَعْتُ فیهِ هَویٰ نَفْسي،وَلَمْ احْتَرِسْ فیهِ مِنْ
خدایا مولایا۔تونے مجھ پر احکام نافذ کئے اور میں نے خواھش نفس کا اتباع کیا اور اس با ت کی پرواہ نہ کی کہ دشمن
تَزْیینِ عَدُوِّي،فَغَرَّنِي بِمٰااهْویٰ وَاسْعَدَهُ عَلٰی ذٰلِکَ الْقَضٰٓاءُ فَتَجٰاوَزْتُ بِمٰاجَریٰ عَلَيَّ مِنْ
(شیطان) مجھے فریب دے رھا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے خواھش کے سھارے مجھے دھوکہ دیا اور میرے مقدر نے بھی اس کا سا تھ دےدیا
ذٰلِکَ بَعْضَ حُدُودِکَ،وَخٰالَفْتُ بَعْضَ اوٰامِرِکَ
اور میں نے تیرے احکام کے معاملہ میں حدود سے تجاوز کیا اور تیرے بہت سے احکام کی خلاف ورزی کر بیٹھا ۔
فَلَکَ الْحَمْدُ عَلَيَّ فيجَمیعِ ذٰلِکَ،وَلاٰحُجَّةَ لِي فِیمٰاجَریٰ عَلَيَّ فیهِ قَضٰاوکَ،
بھر حال اس معاملہ میں میرے ذمہ تیری حمد بجالانا ضروری ہے اور اب تیری حجت ہر مسئلہ میں میرے اوپر تمام ہے اور میرے پاس
وَالْزَمَنِيحُکْمُکَ وَبَلٰاوکَ،وَقَدْ اتَیْتُکَ یٰاإِلٰهِي بَعْدَ تَقْصیرِي وَإِسْرٰافِيعَلٰی نَفْسِي،
تیرے فیصلہ کے مقابلہ میں اور تیرے حکم و آزمائش کے سامنے کوئی حجت و دلیل نہیں ہے۔اب میں ان تمام کوتاھیوں اور اپنے نفس پر تمام زیادتیوں
مُعْتَذِراًنٰادِماً مُنْکَسِراًمُسْتِقیلًا مُسْتَغْفِراً مُنیباًمُقِرّاً مُذْعِناًمُعْتَرِفاً، لاٰ اجِدُ مَفَرّاًمِمّٰا کٰانَ مِنّي،
کے بعد تیری بارگاہ میں ندامت انکسار، استغفار، انابت، اقرار، اذعان، اعتراف کے ساتھ حاضر ہو رھاھوں کہ میرے پاس ان گناھوں سے بھاگنے کے لئے کوئی
وَلاٰمَفْزَعاًاتَوَجَّهُ إِلَیْهِ فيامْرِي غَیْرَ قَبُولِکَ عُذْرِي،وَإِدخٰالِکَ إِیّٰايَ في سَعَةِ رَحْمَتِکَ
جائے فرار نہیں ہے اور تیری قبولیت معذرت کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔صرف ایک ہی راستہ ہے کہ تواپنی رحمت کاملہ میں داخل کر لے۔
اللّٰهُمَّ فَاقْبَلْ عُذْري،وَارْحَمْ شِدَّةَ ضُرِّي،وَفُکَّنِيمِنْ شَدِّ وَثٰاقِي،یٰارَبِّ ارْحَمْ ضَعْفَ بَدَنِي،
لہٰذا پروردگار میرے عذر کو قبول فرما ۔میری شدت مصیبت پر رحم فرما۔مجھے شدید قید وبند سے نجات عطا فرما۔پروردگار میرے بدن کی کمزوری،
وَرِقَّةَ جِلْدي،وَدِقَّةَ عَظْمي،یٰامَنْ بَدَاخَلْقِي وَذِکْرِي وَتَرْبِیَتِي وَبِرِّي وَتَغْذِیَتي هَبْني لِابْتِدٰاءِ
میری جلد کی نرمی اور میرے استخواں کی باریکی پر رحم فرما۔اے میرے پیداکرنے والے ۔اے میرے تربیت دینے والے۔
کَرَمِکَ وَسٰالِفِ بِرِّکَ بي
اے نیکی کرنے والے! اپنے سابقہ کرم اور گذشتہ احسانات کی بنا پر مجھے معاف فرمادے۔
یٰاإِلٰهِيوَسَیِّدِي وَرَبِّي،اتُرٰاکَ مُعَذِّبِي بِنٰارِکَ بَعْدَ تَوْحیدِکَ،وَبَعْدَمَاانْطَویٰ
پروردگار!کیا یہ ممکن ہے کہ میرے عقیدہ توحید کے بعد بھی تو مجھ پر عذاب نازل کرے، یا میرے
عَلَیْهِ قَلْبِيمِنْ مَعْرِفَتِکَ،وَلَهِجَ بِهِ لِسٰانِيمِنْ ذِکْرِکَ،وَاعْتَقَدَهُ ضَمیرِي مِنْ
دل میں اپنے معرفت کے باوجود مجھے مورد عذاب قرار دے کہ میری زبان پر مسلسل تیرا ذکر اور میرے دل میں برابراسے برباد بھی کردے ،
حُبِّکَ،وَبَعْدَصِدْقِ اعْتِرٰافِيوَدُعٰائِيخٰاضِعاً لِرُبُوبِیَّتِکَ،هَیْهٰاتَ،انْتَ اکْرَمُ مِنْ انْ تُضَیِّعَ
تیری محبت جاگزیں رھی ہے۔میں صدق دل سے تیری ربوبیت کے سامنے خاضع ہوں۔اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جسے تونے پالا ہے
مَنْ رَبَّیْتَهُ،اوْ تُبْعِدَ مَنْ ادْنَیْتَهُ،اوْتُشَرِّدَ مَنْ آوَیْتَهُ،اوْتُسَلِّمَ إِلَی الْبَلاٰءِ مَنْ کَفَیْتَهُ وَرَحِمْتَهُ
جسے تونے قریب کیا ہے اسے دور کردے۔جسے تونے پناہ دی ہے اسے راندہ درگاہ بنادے اور جس پر تونے مھربانی کی ہے اسے بلاوں کے حوالے کردے۔
وَلَیْتَ شِعْري یٰاسَیِّدي وَإِلٰهي وَمَوْلٰايَاتُسَلِّطُ النّٰارَعَلٰی وُجُوهٍ خَرَّتْ لِعَظَمَتِکَ
میرے سردار ۔میرے خدامیرے مولا ! کاش میں یہ سوچ بھی سکتا کہ جو چھرے تیرے سامنے سجدہ ریز رھے ہیں ان پر بھی توآگ کو مسلط کردے گا
سٰاجِدَةً،وَعَلٰی الْسُنٍ نَطَقَتْ بِتَوْحیدِکَ صٰادِقَةً،وَبِشُکْرِکَ مٰادِحَةً،وَعَلٰی قُلُوبٍ
اور جو زبانیں صداقت کے ساتھ حرف توحید کو جاری کرتی رھی ہیں اور تیری حمد وثنا کرتی رھی ہیں یا جن دلوں کو تحقیق کے ساتھ تیری خدائی
اعْتَرَفَتْ بِإِلٰهِیَّتِکَ مُحَقِّقَةً،وَعَلٰی ضَمٰائِرَحَوَتْ مِنَ الْعِلْمِ بِکَ حَتّٰی صٰارَتْ خٰاشِعَةً،وَ
کا اقرار ہے یا جو ضمیر تیرے علم سے اس طرح معمور ہیں کہ تیرے سامنے خاضع وخاشع ہیں یا جواعضاء و جوارح تیر ے مراکز
عَلٰی جَوٰارِحَ سَعَتْ إِلٰی اوْطٰانِ تَعَبُّدِکَ طٰائِعَةً،وَاشٰارَتْ بِاسْتِغْفٰارِکَ مُذْعِنَةً۔
عبادت کی طرف ہنسی خوشی سبقت کرنے والے ہیں اور تیرے استغفا ر کو یقین کے ساتھ اختیار کرنے والے ہیں ؛ان پر بھی تو عذاب کرے گا۔
مٰاهٰکَذَا الظَّنُّ بِکَ،وَلاٰاُخْبِرْنٰابِفَضْلِکَ عَنْکَ یٰاکَریمُ یٰارَبِّ،وَانْتَ تَعْلَمُ
ھر گز تیرے بارے میں ایسا خیال بھی نہیں ہے اور نہ تیرے فضل وکرم کے بارے میں ایسی کو ئی اطلاع ملی ہے ۔
ضَعْفيعَنْ قَلیلٍ مِنْ بَلاٰءِ الدُّنْیٰا وَ عُقُوبٰاتِهٰا، وَمٰا یَجْرِي فیهٰامِنَ الْمَکٰارِهِ عَلٰی اهْلِهٰا،
پروردگار اتو جانتا ہے کہ میں دنیا کی معمولی بلا اور ادنیٰ سی سختی کو برداشت نہیں کر سکتا اور میرے لئے اس کی ناگواریاں
عَلٰی انَّ ذٰلِکَ بَلاٰءٌ وَمَکْرُوهٌ قَلیلٌمَکْثُهُ،یَسیرٌ بَقٰائُهُ، قَصِیرٌ مُدَّتُهُ، فَکَیْفَ احْتِمٰالِي لِبَلاٰءِ الْآخِرَةِ،
قابل تحمل ہیں جب کہ یہ بلائیں قلیل اور ان کی مدت مختصر ہے۔تو میں ان آخرت کی بلاوں کو کس طرح برداشت کروں گا
وَجَلیلِ وُقُوعِ الْمَکٰارِهِ فیهٰا،وَهُوَبَلاٰءٌ تَطُولُ مُدَّتُهُ،وَیَدُومُ مَقٰامَهُ،وَلاٰیُخَفَّفُ عَنْ
جن کی سختیاں عظیم،جن کی مدت طویل اور جن کا قیام دائمی ہے۔جن میں تخفیف کا بھی کوئی امکان نہیں ہے اس لئے کہ یہ بلائیں
اهْلِهِ،لِانَّهُ لاٰیَکُونُ إِلاّٰ عَنْ غَضَبِکَ وَانْتِقٰامِکَ وَسَخَطِکَ،وَهٰذٰا مٰالاٰتَقُومُ لَهُ السَّمٰاوٰاتُ
تیرے غضب اور انتقام کا نتیجہ ہیں اور ان کی تاب زمین وآسمان نہیں لاسکتے ،تو میں ایک بندہ ضعیف و ذلیل
وَالْاَرْضُ، یا سَیِّدِي،فَکَیْفَ لِي وَانٰاعَبْدُکَ الضَّعیفُ الذَّلیلُ الْحَقیرُ الْمِسْکینُ الْمُسْتَکینُ
و حقیر ومسکین وبے چارہ کیا حیثیت رکھتا ہوں؟!
یٰاإِلٰهي وَرَبّي وَسَیِّدِي وَمَوْلاٰيَ،لِايِّ الْاُمُورِإِلَیْکَ اشْکُو،وَلِمٰامِنْهٰااضِجُّ
خدایا۔ پروردگارا۔ میرے سردار۔میرے مولا! میں کس کس بات کی فریاد کروں اور کس کس کام کے لئے آہ وزاری اور
وَابْکي،لِالیمِ الْعَذٰابِ وَشِدَّتِهِ،امْ لِطُولِ الْبَلاٰءِ وَ مُدَّتِهِ،فَلَئِنْ صَیَّرْتَنيلِلْعُقُوبٰاتِ مَعَ
گریہ وبکا کروں ،قیامت کے دردناک عذاب اور اس کی شدت کے لئے یا اس کی طویل مصیبت اور دراز مدت کے لئے کہ اگر تونے
اعْدَائِکَ،وَجَمَعْتَ بَیْني وَ بَیْنَ اهْلِ بَلاٰئِکَ،وَفَرَّقْتَ بَیْنِي وَبَیْنَ احِبّٰائِکَ
ان سزاوں میں مجھے اپنے دشمنوں کے ساتھ ملادیا اور مجھے اہل معصیت کے ساتھ جمع کردیا اور میرے اوراپنے احباء اور
وَاوْلِیٰائِکَ،فَهَبْنِِي یٰاإِلٰهي وَسَیِّدِي وَمَوْلاٰيَ وَرَبِّي،صَبَرْتُ عَلٰی عَذٰابِکَ فَکَیْفَ
ولیاء کے درمیان جدائی ڈال دی ۔تو اے میرے خدا۔میرے پروردگار ۔میرے آقا۔میرے سردار! پھر یہ بھی طے ہے کہ اگر میں
اصْبِرُعَلٰی فِرٰاقِکَ،وَهَبْنِي صَبَرْتُ عَلٰی حَرِّ نٰارِکَ فَکَیْفَ اصْبِرُ عَنِ النَّظَرِإِلٰی
تیرے عذاب پر صبر بھی کر لوں تو تیرے فراق پر صبر نھیںکر سکتا۔اگر آتش جھنم کی گرمی برداشت بھی کر لوں تو تیری کرامت نہ دیکھنے کو
کَرٰامَتِکَ،امْ کَیْفَ اسْکُنُ فِی النّٰارِ وَرَجٰائِي عَفْوُکَ
برداشت نہیں کر سکتا ۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ میں تیری معافی کی امید رکھوں اور پھر میں آتش جھنم میں جلادیا جاوں ۔
فَبِعِزَّتِکَ یٰا سَیِّدي وَمَوْلٰايَ اُقْسِمُ صٰادِقاًلَئِنْ تَرَکْتَنينٰاطِقاً،لَاضِجَّنَّ إِلَیْکَ بَیْنَ
تیری عزت و عظمت کی قسم اے آقاو مولا! اگر تونے میری گویائی کو باقی رکھا تو میں اہل جھنم کے درمیان بھی
اهْلِهٰا ضَجیجَ الْآمِلینَ،وَلَاصْرُخَنَّ إِلَیْکَ صُرٰاخَ الْمُسْتَصْرِخینَ،وَلَابْکِیَنَّ عَلَیْکَ بُکٰاءَ
امیدواروں کی طرح فریاد کروں گا۔اور فریادیوں کی طرح نالہ و شیون کروں گااور ”عزیز گم کردہ “کی طرح تیری دوری
الْفٰاقِدینَ،وَلَاُنٰادِیَنَّکَ ایْنَ کُنْتَ یٰاوَلِيَّ الْمُومِنینَ،یٰاغٰایَةَ آمٰالِ الْعٰارِفینَ،یٰا غِیٰاثَ
پر آہ وبکا کروں گا اور تو جھاں بھی ہوگا تجھے آوازدوں گا کہ تو مومنین کا سرپرست، عارفین کا مرکز امید،فریادیوں کا فریادرس۔
الْمُسْتَغیثینَ،یٰاحَبیبَ قُلُوبِ الصّٰادِقینَ،وَیٰا إِلٰهَ الْعٰالَمینَ
صادقین کا محبوب اور عالمین کا معبود ہے۔
افَتُرٰاکَ سُبْحٰانَکَ یٰاإِلٰهي وَ بِحَمْدِکَ تَسْمَعُ فیهٰاصَوْتَ عَبْدٍ مُسْلِمٍ سُجِنَ فیهٰا
اے میرے پاکیزہ صفات ،قابل حمد وثنا پروردگار کیا یہ ممکن ہے کہ تواپنے بندہ مسلمان کو اس کی مخالفت کی بنا پر جھنم میں
بِمُخٰالَفَتِهِ،وَذٰاقَ طَعْمَ عَذٰابِهٰا بِمَعْصِیَتِهِ ،وَحُبِسَ بَیْنَ اطْبٰاقِهٰا بِجُرْمِهِ وَجَریرَتِهِ وَهُوَ یَضِجُّ
گرفتار اور معصیت کی بنا پر عذاب کا مزہ چکھنے والااور جرم و خطا کی بنا پر جھنم کے طبقات کے درمیان کروٹیں بدلنے والا بنادے
إِلَیْکَ ضَجیجَ مُومِّلٍ لِرَحْمَتِکَ،وَیُنٰادیکَ بِلِسٰانِ اهْلِ تَوْحیدِکَ،وَ یَتَوَسَّلُ
اور پھر یہ دیکھے کہ وہ امید وار ِرحمت کی طرح فریاد کناں اور اہل توحید کی طرح پکارنے والا ،ربوبیت کے وسیلہ سے التماس کرنے والا ہے اور تو اس کی آواز
إِلَیْکَ بِرُبُوبِیَّتِکَ
نھیں سنتا ہے۔
یٰامَوْلاٰيَ،فَکَیْفَ یَبْقٰی فِي الْعَذٰابِ وَهُوَیَرْجُوْمٰاسَلَفَ مِنْ حِلْمِکَ،امْ کَیْفَ تُولِمُهُ
خدایا تیرے حلم و تحمل سے آس لگانے والا کس طرح عذاب میں رھے گا اور تیرے فضل وکرم سے امیدیں وابستہ
النّٰارُوَهُوَیَامُلُ فَضْلَکَ وَرَحْمَتَکَ،امْ کَیْفَ یُحْرِقُهُ لَهیبُهٰاوَانْتَ تَسْمَعُ صَوْتَهُ وَتَرٰی
کرنے والا کسطرح جھنم کے الم ورنج کا شکار ہوگا۔جھنم کی آگ اسے کس طرح جلائے گی جب کہ تواس کی آواز کو سن رھا ہو
مَکٰانَهُ،امْ کَیْفَ یَشْتَمِلُ عَلَیْهِ زَفیرُهٰاوَانْتَ تَعْلَمُ ضَعْفَهُ،امْ کَیْفَ یَتَقَلْقَلُ بَیْنَ اطْبٰاقِهٰا
ور اس کی منزل کو دیکھ رھا ہو،جھنم کے شعلے اسے کس طرح اپنے لپیٹ میں لیں گے جب کہ تو اس کی کمزوری کو دیکھ رھا ہوگا۔
وَانْتَ تَعْلَمُ صِدْقَهُ،امْ کَیْفَ تَزْجُرُهُ زَبٰانِیَتُهٰاوَهُوَ یُنٰادیکَ یٰارَبَّهُ،امْ کَیْفَ یَرْجُوفَضْلَکَ
وہ جھنم کے طبقات میں کس طرح کروٹیں بدلے گا جب کہ تو اس کی صداقت کو جانتا ہے ۔ جھنم کے فرشتے اسے کس طرحجھڑکیں گے
فيعِتْقِهِ مِنْهٰافَتَتْرُکُهُ فیهٰا،هَیْهَاتَ مَاذٰلِکَ الظَّنُّ بِکَ،وَلاَالْمَعْرُوفُ مِنْ
جبکہ وہ تجھے آواز دے رھا ہوگا اور تو اسے جھنم میں کس طرح چھوڑ دے گا جب کہ وہ تیرے فضل و کرم کا امیدوار ہوگا ،ھر گزتیرے بارے
فَضْلِکَ،وَلامُشْبِهٌ لِمٰاعٰامَلْتَ بِهِ الْمُوَحِّدینَ مِنْ بِرِّکَ وَاحْسٰانِکَ
میں یہ خیال اور تیرے احسانات کا یہ انداز نہیں ہے ۔تونے جس طرح اہل توحید کے ساتھ نیک برتاو کیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔
فَبِا لْیَقینِ اقْطَعُ لَوْلاٰمٰاحَکَمْتَ بِهِ مِنْ تَعْذیبِ جٰاحِدیکَ،وَقَضَیْتَ بِهِ مِنْ إِخْلاٰدِ
میں تویقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ تونے اپنے منکروں کے حق میں عذاب کا فیصلہ نہ کردیا ہوتا اور اپنے دشمنوں کوھمیشہ جھنم
مُعٰانِدیکَ لَجَعَلْتَ النّٰارَکُلَّهٰابَرْداًوَ سَلاٰماً،وَمٰاکٰانَ لِاحَدٍ فیهٰا مَقَرّاً وَلاٰ مُقٰاماً، لٰکِنَّکَ
میں رکھنے کا حکم نہ دے دیا ہوتا تو ساری آتش جھنم کو سرد اور سلامتی بنا دیتا اور اس میں کسی کا ٹھکانا اور مقام نہ ہوتا۔
تَقَدَّسَتْ اسْمٰاوکَ اقْسَمْتَ انْ تَمْلَاهٰا مِنَ الْکٰافِرینَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنّٰاسِ اجْمَعینَ،وَ انْ
لیکن تونے اپنے پاکیزہ اسماء کی قسم کھائی ہے کہ جھنم کو انسان و جنات کے کافروں سے پُر کرے گا اور معاندین کو اس میں
تُخَلِّدَ فیهٰاالْمُعٰانِدینَ،وَانْتَ جَلَّ ثَنٰاوکَ قُلْتَ مُبْتَدِئاً،وَتَطَوَّلْتَ بِالْإِنْعٰامِ مُتَکَرِّماً،افَمَنْ
ھمیشہ ہمیشہ رکھے گا۔اور تونے ابتداھی سے یہ کہہ دیا ہے اور اپنے لطف و کرم سے یہ اعلان کر دیا ہے کہ ”مومن
کٰانَ مُومِناًکَمَنْ کٰانَ فٰاسِقاً لاٰیَسْتَوُوْنَ
اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے“۔
إِلٰهي وَسَیِّدِي،فَاسْالُکَ بِالْقُدْرَةِ الَّتي قَدَّرْتَهٰا، وَ بِالْقَضِیَّةِ الَّتي
تو خدایا ۔مولایا۔میں تیری مقدر کردہ قدرت اور تیری حتمی حکمت و قضاوت اور ہر محفل نفاذ پر غالب آنے والی عظمت کا حوالہ دے کر
حَتَمْتَهٰا وَ حَکَمْتَهٰا، وَغَلَبْتَ مَنْ عَلَیْهِ اجْرَیْتَهٰا،انْ تَهَبَ لِي فِي هٰذِهِ اللَّیْلَةِ وَفي هٰذِهِ السّٰاعَةِ
تجھ سے سوال کرتاھوں کہ مجھے اِسی رات میں اور اِسی وقت معاف کردے ۔میرے سارے جرائم،سارے گناہ اور ساری
کُلَّ جُرْمٍ اجْرَمْتُهُ،وَکُلَّ ذَنْبٍ اذْنَبْتُهُ،وَکُلَّ قَبیحٍ اسْرَرْتُهُ،وَکُلَّ جَهَلٍ عَمِلْتُهُ،کَتَمْتُهُ
ظاھری اور باطنی برائیاں اور ساری جھالتیں جن پر میں نے خفیہ طریقہ سے یا علی الاعلان ،چھپا کر یا ظاھر کر کے عمل کیا ہے اور میری
اوْاعْلَنْتُهُ،اخْفَیْتُهُ اوْ اظْهَرْتُهُ،وَکُلَّ سَیِّئَةٍ امَرْتَ بِإِثْبٰاتِهاَ الْکِرٰامَ الْکٰاتِبینَ،اَلَّذینَ وَکَّلْتَهُمْ
تمام خرابیاں جنھیں تونے درج کر نے کا حکم کراماً کاتبین کو دیا ہے جن کواعمال کے محفوظ کرنے کے لئے معین کیا ہے اور میرے
بِحِفْظِ مٰایَکُونُ مِنِّي،وَجَعَلْتَهُمْ شُهُوداًعَلَيَّمَعَ جَوٰارِحِي،وَکُنْتَ انْتَ الرَّقیبَ عَلَيَّ
اعضاء و جوارح کے ساتھ ان کو میرے اعمال کا گواہ قرار دیا ہے اور پھر تو خود بھی ان سب کی نگرانی کررھا ہے اور جوان سے مخفی
مِنْ وَرٰائِهِمْ، وَالشّٰاهِدَ لِمٰاخَفِيَ عَنْهُمْ، وَبِرَحْمَتِکَ اخْفَیْتَهُ، وَبِفَضْلِکَ سَتَرْتَهُ،وَانْ تُوَفِّرَ حَظِّي
رہ جائے اس کا گواہ ہے سب کو معاف فرمادے۔یہ تو تیری رحمت ہے کہ تونے انھیں چھپا دیا ہے اور اپنے فضل وکرم سے ان عیوب پر پر
مِنْ کُلِّ خَیْرٍانْزَلْتَهُ ،اوْإِحْسٰانٍ فَضَّلْتَهُ،اوْ بِرٍّ نَشَرْتَهُ،اوْرِزْقٍ بَسَطْتَهُ،اوْذَنْبٍ
دہ ڈال دیا ہے۔میرے پروردگار اپنی طرف سے نازل ہونے والے ہر خیر و احسان اور نشر ہونے والی ہرنیکی ۔ھر وسیع رزق۔
تَغْفِرُهُ،اوْخَطَاءٍ تَسْتُرُهُ
ھر بخشے ہوئے گناہ۔عیوب کی ہر پردہ پوشی میں سے میرا وافر حصہ قرار دے۔
یٰارَبِّ یٰارَبِّ یٰارَبِّ، یٰاإِلٰهي وَسَیِّدِي وَمَوْلٰايَ وَمٰالَکَ رِقّي، یٰامَنْ بِیَدِهِ
اے میرے رب ۔اے میرے رب۔اے میرے رب۔اے میرے مولا اور آقا! اے میری بندگی کے مالک۔اے
نٰاصِیَتِي،یٰاعَلیماً بِضُرِّي وَمَسْکَنَتي،یٰاخَبیراً بِفَقْرِي وَ فٰاقَتِي
میرے مقدر کے صاحب اختیار۔ اے میری پریشانی اور بے نوائی کے جاننے والے ۔اے میرے فقر و فاقہ کی اطلاع رکھنے والے!
یٰارَبِّ یٰارَبِّ یٰارَبِّ،اسْالُکَ بِحَقِّکَ وَقُدْسِکَ،وَاعْظَمِ صِفٰاتِکَ
اے میرے پروردگار ۔اے میرے رب۔اے میرے رب! تجھے تیری قدوسیت ۔تیرے حق اور تیرے عظیم ترین اسماء
وَاسْمٰائِکَ،انْ تَجْعَلَ اوْقٰاتِي مِنَ اللَّیْلِ وَالنَّهٰارِ بِذِکْرِکَ مَعْمُورَةً،وَبِخِدْمَتِکَ
وصفات کا واسطہ دے کر یہ سوال کرتاھوں کہ دن اور رات میں جملہ اوقات اپنی یاد سے معمور کردے۔اپنی خدمت کی مسلسل توفیق عطا
مَوْصُولَةً،وَاعْمٰاليعِنْدَکَ مَقْبُولَةً،حَتّٰی تَکُونَ اعْمٰاليوَاوْرٰادِي کُلُّهٰاوِرْداً
فرما۔میرے اعمال کو اپنی بارگاہ میں مقبول قرار دے تاکہ میرے جملہ اعمال اور جملہ اوراد (یعنی ورد کی جمع) سب تیرے لئے
وَاحِداً،وَحٰالِي في خِدْمَتِکَ سَرْمَداً
ھوں۔ اور میرے حالات ہمیشہ تیری خدمت کے لئے وقف رھیں۔
یٰاسَیِّدِي یَامَنْ عَلَیْهِ مُعَوَّلِي،یٰا مَنْ إِلَیْهِ شَکَوْتُ احْوٰالي،یٰارَبِّ یٰارَبِّ
میرے مولا۔میرے مالک! جس پر میرا اعتماد ہے اور جس سے میں اپنے حالات کی فریاد کرتا ہوں۔
یٰارَبِّ،قَوِّعَلٰی خِدْمَتِکَ جَوٰارِحِي،وَاشْدُدْ عَلَی الْعَزیمَةِ جَوٰانِحِي،وَهَبْ لِيَ الْجِدَّ في
۔اے رب۔ اے رب۔ اے رب! اپنی خدمت کے لئے میرے اعضاء و جوارح کو مضبوط کر دے اور اپنی طرف رخ کرنے کے لئے میرے ارادہ دل کو
خَشْیَتِکَ،وَالدَّوٰامَ فِي الْإِتِّصٰالِ بِخِدْمَتِکَ،حَتّٰی اسْرَحَ إِلَیْکَ فيمَیٰادینِ السّٰابِقینَ،وَ
مستحکم بنادے۔اپنا خوف پیدا کرنے کی کوشش اور اپنی مسلسل خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرما تاکہ تیری طرف سابقین کے ساتھ آگے
اسْرِعَ إِلَیْکَ فِي الْبٰارِزینَ،وَاشْتٰاقَ إِلٰی قُرْبِکَ فِي الْمُشْتٰاقینَ،وَادْنُوَ مِنْکَ
بڑھوں اور تیز رفتار افراد کے ساتھ قدم ملا کر چلوں ۔مشتاقین کے درمیان تیرے قرب کا مشتاق شمار ہوں اور مخلصین کی طرح تیری
دُنُوَّالْمُخْلِصینَ،وَاخٰافَکَ مَخٰافَةَ الْمُو قِنینَ،وَ اجْتَمِعَ فِي جِوٰارِکَ مَعَ الْمُومِنینَ
قربت اختیار کروں۔صاحبان یقین کی طرح تیرا خوف پیدا کروں اور مومنین کے ساتھ تیرے جوار میں حاضری دوں۔
اللّٰهُمَّ وَمَنْ ارٰادَنِي بِسُوءٍ فَارِدْهُ وَمَنْ کٰادَنِيفَکِدْهُ،وَاجْعَلْنِيمِنْ احْسَنِ عَبیدِکَ
خدایا جو بھی کوئی میرے لئے برائی چاھے یا میرے ساتھ کوئی چال چلے تو اسے ویساھی بدلہ دینا اور مجھے بہترین حصہ پانے
نَصِیباً عِنْدَکَ،وَاقْرَبِهِمْ مَنْزِلَةً مِنْکَ،وَاخَصِّهِمْ زُلْفَةً لَدَیْکَ،فَإِنَّهُ لاٰیُنٰالُ ذٰلِکَ
والا ،قریب ترین منزلت رکھنے والا اور مخصوص ترین قربت کا حامل بندہ قرار دینا کہ یہ کا م تیرے جود وکرم کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
إِلاّٰبِفَضْلِکَ،وَجُدْ لِي بِجُودِکَ،وَاعْطِفْ عَلَيَّ بِمَجْدِکَ،وَاحْفَظْنِي بِرَحْمَتِکَ،وَاجْعَلْ
خدایا میرے اوپرکرم فرما۔اپنی بزرگی سے، رحمت نازل فرما اپنی رحمت سے میرا تحفظ فرمااورمیری زبا ن کو اپنے ذکر سے گویا فرما۔
لِسٰانِي بِذِکْرِکَ لَهِجاً،وَقَلْبِي بِحُبِّکَ مُتَیَّماً،وَمُنَّ عَلَيَّ بِحُسْنِ إِجٰابَتِکَ،وَاقِلْنِي
میرے دل کو اپنی محبت کا عاشق بنادے اور مجھ پر بہترین قبولیت کے ساتھ احسان فرما۔
عَثْرَتِي،وَاغْفِرْ زَلَّتِي،فَإِنَّکَ قَضَیْتَ عَلٰی عِبٰادِکَ بِعِبٰادَتِکَ،وَامَرْتَهُمْ
میری لغزشوں سے در گذرفرما۔تو نے اپنے بندوں پر عبادت فرض کی ہے ۔انھیں دعا کا حکم دیا ہے
بِدُعٰائِکَ،وَضَمِنْتَ لَهُمُ الْإِجٰابَةَ
اوران سے قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے۔
فَإِلَیْکَ یٰارَبِّ نَصَبْتُ وَجْهِي،وَإِلَیْکَ یٰارَبِّ مَدَدْتُ یَدِي،
اب میں تیری طرف رخ کئے ہوئے ہوں اور تیری بارگاہ میں ہاتھ پھیلائے ہوں ۔تیری عزت کا واسطہ میری
فَبِعِزَّتِکَ اسْتَجِبْ لِيدُعٰائِي،وَبَلِّغْنِي مُنٰايَ،وَلاٰتَقْطَعْ مِنْ فَضْلِکَ رَجٰائِي،
دعا قبول فرما، مجھے میری مراد تک پھنچادے۔ اپنے فضل وکرم سے میری امیدوں کو منقطع نہ فرمانا۔مجھے تمام
وَاکْفِنِي شَرَّ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ مِنْ اعْدٰائِي
دشمنان جن وانس کے شر سے محفوظ فرمانا۔
یٰا سَریعَ الرِّضٰا،إِغْفِرْ لِمَنْ لاٰیَمْلِکُ إِلَّا الدُّعٰاءَ،فَإِنَّکَ فَعّٰالٌ لِمٰا تَشٰاءُ،یٰا مَنِ
اے بہت جلد راضی ہوجانے والے ! اس بندہ کو بخش دے جس کے اختیار میں سوائے دعا کے کچھ نہیں ہے کہ توھی ہر شے کا
اسْمُهُ دَوٰاءٌ،وَذِکْرُهُ شِفٰاءٌ،وَطٰاعَتُهُ غِنیً،إِرْحَمْ مَنْ رَاسُ مٰالِهِ الرَّجٰاءُ،وَسِلاٰحُه الْبُکٰاءُ،
صاحب اختیار ہے۔اے وہ پروردگار جس کانام دوا،جس کی یاد شفا اور جس کی اطاعت مالداری ہے، اس بندہ پر رحم فرماجس کا سرمایہ فقط
یٰاسٰابِغَ النِّعَمِ،یٰادٰافِعَ النِّقَمِ،یٰا نُورَ الْمُسْتَوْحِشینَ فِي الظُّلَمِ ،یٰا عٰالِماً لاٰ یُعَلَّمُ،صَلِّ عَلٰی
امیداور اس کا اسلحہ فقط گریہ ہے، اے کامل نعمتیں دینے والے ۔ اے مصیبتوں کو رفع کرنے والے اور تاریکیوں میں وحشت زدوں کو
مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ،وَافْعَلْ بِي مٰاانْتَ اهْلُهُ،وَ صَلَّی اللّٰه عَلٰی رَسُولِهِ وَالْائِمَّةِ الْمَیٰامینَ مِنْ
روشنی دینے والے ۔محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور میرے ساتھ وہ برتاو کر جس کا تواہل ہے۔اپنے رسول اور ان کی مبارک ”آل
آلِهِ ،وَسَلَّمَ تَسْلیماً کَثیراً
آئمہ معصومین(ع)“پر صلوات و سلام فراوان نازل فرما۔
دعا کی اھمیت
دعا؛ خداوندعالم کی بارگاہ میں احتیاج اور ضرورت کے اظھار کا نام ہے۔
دعا؛ کائنات کے مالک اور ہر شئے سے بے نیازکی بارگاہ میں فقر وناداری کے بیان کا نام ہے۔
دعا؛ کریم باوفا کے دروازہ پر بے نوا فقیر کی التجا اور قادر مطلق کی بارگاہ میںکمزوروناتواںکے جھولی پھیلانے کا نام ہے۔
دعا؛ رحمن ورحیم ،حکیم وکریم ،سمیع وبصیرپروردگارکی بارگاہ میں ؛ضعیف و ناتواں، فقیر و مسکین اور ذلیل و مستکین بندہ کی امداد طلب کرنے کا نام ہے۔
دعا؛ خداوندکریم ، مالک الملک ، غفور وودود ،علیم وقدیرخدائے یگانہ اور بے عیب حکمراںکی بارگاہ میں تواضع وانکساری خشوع اور خضوع سے پیش ہونے کا نام ہے۔
دعا؛ محبوب خدا، معشوق زاھدین، نور چشم عارفین،راز ونیاز مشتاقین، مصیبت کے ماروں کی رات کا اجالا،غریبوں کی تکیہ گاہ اور محتاجوں کے دل کا چراغ ہے۔
دعا ،قرآن کی روشنی میں
فیض بے نھایت کا مرکز، جود وکرم کا موجیں مارتا ہوا سمندر، ہدایت ورھبری کا انتظام کرنے والا، علم ودانش کو نازل کرنے والاخداوندرب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
”(
قُلْ مَا یَعْبَا بِکُمْ رَبِّی لَوْلاَدُعَاؤُکُمْ
)
۔۔۔“[۲]
”(اے پیغمبر ! ) کہہ دو اگر تمھاری دعائیں نہ ہوتیں تو پروردگار تمھاری پروا بھی نہ کرتا“۔
دعا؛ خدا وندعالم کی توجہ کا وسیلہ اور دعا کرنے والے پر رحمت الٰھی کے نزول کا سبب ہے، جس کے ذریعہ انسانی زندگی سے شقاوت اور بدبختی کا خاتمہ ہوجاتا ہے، اور دعا کرنے والے کی زندگی میں سعادت او رخوش بختی آجاتی ہے۔
محبت کرنے والوں کا محبوب، عشق کرنے والوں کا معشوق، یاد کرنے والوں کا مونس و غنموا اور شکر گزاروں کا ہمنشین،نیز بندوںکا ناصر ومدد گار اور اہل دل حضرات کا معتمد قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
”(
وَإِذَا سَالَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ اجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِی إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُونَ
)
۔“[۳]
”اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں، پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں، جب بھی پکارتا ہے ،لہٰذا مجھ سے طلب قبولیت کریں اور مجھ پر ہی ایمان و اعتماد رکھیں شاید اس طرح راہ راست پر آجائیں“۔
جی ہاں! خدا کے علاوہ کوئی بھی بندوں سے قریب نہیں ہے، وہ ایسا قریب ہے جس کی وجہ سے انسان وجود میں آیا ہے، اسی نے شکم مادر میں اس کی پرورش کی ہے، رحم مادر سے اس دنیا میں بھیجا ہے، اپنے اس مھمان کے لئے دنیا کی تمام مادی اور معنوی نعمتیں فراھم کی ہےں، اس کی ہدایت اور دنیا وآخرت میں اس کی سعادت اور خوشبختی کے لئے انبیاء کرام کو بھیجا ہے، اور قرآن کریم اور ائمہ معصومین علیھم السلام جیسی بے مثال نعمت سے نوازا ہے، اس کی پیاس کے وقت صاف اور شفاف پانی پیدا کیا ، اس کے کھانے کے لئے مناسب ترین لذیذ غذائیں فراھم کی ہیں اور اس کی بیماریوں کے علاج کا بندوبست کیا۔تنھائی کو دور کرنے کے لئے بیوی بچے اور دوست مھیا کئے۔بدن چھپانے کے لئے مختلف قسم کے کپڑے پھنائے۔لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈالی، اس کی سخت سے سخت مشکلات کو آسان کیا اس کی صحت و سلامتی کو باقی رکھا ،اس کے مرتبہ اور وقار میں اضافہ کیا۔
یہ تمام نعمتیں خدا کے علاوہ اور کون دے سکتا ہے، اور خدا کے علاوہ کون ہے جو انسان کی تمام ضرورتوں اور حاجتوں کو جانتا ہو؟ یقینا صرف خدا ہی ہے جو انسان کے سب سے زیادہ نزدیک ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
”(
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ اقْرَبُ إِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیدِ
)
۔“[۴]
” اور ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نفس کیا کیا وسوسے پیدا کرتا ہے اور ہم اس سے رگِ گردن سے زیادہ قریب ہیں“۔
انبیائے کرام جو عقل ودرایت ، بصیرت اور کرامت کے لحاظ سے تمام انسانوں سے افضل ہیں اور ان کے دل ودماغ دوسروں سے زیادہ نورانی ہیں، ان کا علم غیب و شھود دونوں کی بہ نسبت کامل اور ایک جیسا ہے، اور تمام چیزوں کی حقیقت کو اسی طرح جانتے ہیں جس طرح سے ہیں، وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کے ساتھ وابستگی قائم کئے رکھتے تھے اور ان کی زندگی میں کوئی دن ایسا نہ آتا تھا جس میں اپنی عمر کا کچھ حصہ دعا میں بسر نہ کرتے ہوں، اور دعا کے ذریعہ اپنے محبوب کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوتے ہوں۔
کیوں نہ ہو یہ حضرات دعا کو اپنی ترقی کا ذریعہ ،روح کے لئے رشد ، دل کی پاکیزگی اور باطن سے مادیت کا غبار ہٹانے کا ذریعہ اور زندگی کی راہ میں خداوندعالم کے فراق سے پیدا ہونے والی تمام مشکلات کا حل سمجھتے تھے،انھیں اس بات کا یقین تھا کہ خدا کی بارگاہ میں دعا کرنے والا کوئی بھی انسان اپنی حاجت لئے بغیر واپس نہیں پلٹتا۔ اسی وجہ سے دعا کے قبول ہونے پر ایمان رکھتے تھے اور ذرہ برابر بھی شک وترد ید کا شکار نہیں ہوتے تھے، وہ اپنی تمام دعاؤں کے قبول ہونے کے لئے نھایت خضوع کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں درخواست کرتے تھے اور انھیں سوفیصد اطمینان ہوتا تھا کہ ایک محتاج اور نیازمند کی دعا بے نیاز کی بارگاہ میں قبول ہوگی۔
قرآن مجید نے اس حقیقت کو واضح طور پر حضرت ابراھیم علیہ السلام کی زبان سے اس طرح بیان کیا ہے:
”(
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی وَهَبَ لِی عَلَی الْکِبَرِ إِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبِّی لَسَمِیعُ الدُّعَاءِ
)
۔“[۵]
”شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق جیسی اولاد عطا کی، بے شک میرا پروردگار دعاؤں کا سننے والا ہے“۔
دعااس طاقت کا نام ہے کہ جس کے ذریعہ حضرت زکریا علیہ السلام نے بڑھاپے کے عالم میں خداوند رحمن کی بارگاہ میں بیٹے کی درخواست کی اور خداوندعالم نے آپ کی دعا کو مستجاب فرمایا اور آپ اور آپ کی بیوی (جو دونوں ہی بوڑھے تھے) کو حضرت یحییٰ جیسا فرزند عطا کیا۔[۶]
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے اصحاب کی خواھش اور اصرار پر خداوندعالم کی بارگاہ میں آسمان سے دسترخوان نازل ہونے کی دعا فرمائی، جس کو خداوندعالم نے مستجاب فرمایا اور ان کے اصحاب ودوستوں کے لئے آسمان سے بہترین غدا نازل فرمائی۔[۷]
خداوندعالم نے اپنے بندوں کو ہر حال میں دعا کرنے ، ہرخوشی اورغم میں اپنی بارگاہ میں سرِ تسلیم خم کرنے کا حکم دیاھے، اور اس کی بارگاہ رحمت میں اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کریں اور ٹوٹے ہوئے دل کی وجہ سے آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو وؤں کے ساتھ اپنی حاجتوں کو خدا کے سامنے پیش کریں اوراس کے حتمی وعدے کے پیش نظر اپنی دعا کے قبول ہونے کی امید رکھےں، اس کا واضح اعلان ہے :”جو شخص دعا سے منھ موڑے گا، ذلیل وخوار ہوگا، اور آخر کار جھنم میں داخل کردیا جائے گا، جیسا کہ سورہ مومن (غافر) میں خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:
”(
وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِی اسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَ
)
۔“[۸]
”اور تمھارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعائیں کرو میں قبول کروں گا، اور یقینا جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جھنم میں داخل ہوں گے“۔
دعا کی اھمیت احادیث کی روشنی میں
خداوندعالم کا تمام مخلوقات پربہت بڑا احسان ہے خصوصاً انسان پرکہ اس نے اپنی بے انتھا رحمت کا دسترخوان بچھایا اور اس کا لطف و کرم سبھی کے لئے عام ہے۔
اس کی بارگاہ سے کوئی ناامید نہیں ہوتا، اس کی بارگاہ سے کسی کو دھتکارا نہیں جاتااور اس کی بارگاہ میں کسی طرح کا کوئی بخل روا نہیں ہے۔
اس کا جود وکرم اور اس کی بخشش دائمی ہے، اور اس کی عطا سبھی تک پھنچے والی ہے، اور وہ خود منتظر ہے کہ اس کے بندے اس کی درگاہ میں پیش ہوں۔
حضرت داؤد علیہ السلام سے خطاب ہوا:
اہل زمین سے کھو: کیوں مجھ سے دوستی نہیں کرتے؟ کیا میں اس کا اہل نہیں ہوں، میں ایسا خدا ہوں جس کے یھاں بخل نہیں ہے، اورمیرے علم میں جھل کا تصور نھیں، میرے صبر میں کمزوری کا دخل نھیں،میری صفت میں تبدیلی کا کوئی تصور نھیں، میرا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہوتا، میری رحمت بے کراں ہے، اور اپنے فضل وکرم سے واپس نہیں پلٹتا، روز ازل سے میں نے عھد کیا ہے، اور محبت کی خوشبومیں جل رھا ہوں، میں نے اپنے بندوں کے دل میں نور معرفت روشن کیا ہے، جو مجھے دوست رکھتا ہے میں بھی اس کو دوست رکھتا ہوں، اور جو میرا رفیق (اور ہمدم)ھے میں بھی اس کا رفیق (اور ہمدم )ھوں، اس کا ہم نشین ہوں جو شخص خلوت میں میرا ذکر کرتا ہے، اور اس کا مونس ہوں جو میری یاد سے مانوس ہوتاھے۔
اے داؤد ! جو شخص مجھے تلاش کرے گا میں اسے مل جاؤں گا، اور جس شخص کو میں مل جاؤں پھراس کو مجھے گم نہیں کرنا چاہئے۔ اے داود ! (تمام) نعمتیں ہماری طرف سے ہیں(تو پھر) دوسروں کا شکر کیوں ادا کیا جاتا ہے، ہم ہی تو بلاؤں کو دور کرتے ہیں، (پھر کیوں) دوسرے سے امید رکھی جاتی ہے، ہم ہی سب کو پناہ دینے والے ہیں تو پھر کیوں دوسروں کی پناہ تلاش کی جاتی ہے، مجھ سے دور بھاگتے ہیں لیکن آخر کار میری طرف آناھی پڑے گا۔!!
قارئین کرام ! ایسی خوبصورت اور معنی سے لبریز عبارتیں اسلامی کتب میں بہت زیادہ ملتے ہیں، اور ایسے کلمات، قرآن کریم کی آیات کے ساتھ ساتھ خداوندعالم کی طرف سے ایک عظیم خوشخبری ہے، جن کے ذریعہ خداکے بندے اس کے فضل وکرم کے امیدوار ہوسکتے ہیں، اور اپنی حاجت روائی کے لئے اس کی عظیم باگارہ میں دست دعا پھیلاسکتے ہیں، اور اس یقین کے ساتھ کہ اپنے مقاصد کو دعا ہی کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ہے، اور ایسا کم ہوتا ہے کہ انسان بغیر دعا کے اپنے کسی اھم مقصد تک پھونچ جائے۔ اسی وجہ سے اسلامی روایات خصوصاً اہل بیت وعصمت وطھارت علیھم السلام کے کلمات میں دعا کی عظمت اوراھمیت بیان کی گئی ہے۔
حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے:
”إنَّ الدُّعاءَ هُو العِبادَة
“[۹]
”یقینا دعا ہی عبادت ہے“۔
اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے یہ بھی نقل ہوا ہے:
”الدُّعاءُ مُخُّ العِِبادَةِ
“[۱۰]
”دعا مغز عبادت ہے“۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:
”افضَلُ العِبادَةِ الدُّعاءُ
“[۱۱]
”دعا بہترین عبادت ہے“۔
اسی طرح آپ نے ارشاد فرمایا:
”۔۔مَا مِن شیءٍ افضَلُ عِندَاللّهِ عزَّوجلَّ مِن ان یُسئَلَ ویُطْلَبَ مِمّا عِندَه ،ومااحَدٌ ابغضُ إِلی الله مِمّن یَستَکبِرُعَن عِبادَتِهِ وَلا یَسئَلُ ماعِندَهُ
“ [۱۲]
”خدا کے نزدیک کوئی بھی چیز اس سے بہتر نہیں ہے کہ اس سے ان فیوض و برکات کی درخواست کی جائے جن کا وہ مالک ہے، اور کوئی شخص خدا کے نزدیک اس شخص سے زیادہ مبغوض نہیں ہے جو خدا کی بارگاہ میں دعا کرنے سے منھ موڑے، اور خدا کی بارگاہ سے فضل وکرم کا طلب گار نہ ہو“۔
حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے روایت ہے :
”اَحَبُّ الاعْمَالِ إلَی اللهِ تَعَالیٰ فِی الْارْضِ اَلدُّعَاءُ
“۔[۱۳]
”روئے زمین پر خدا کے نزدیک سب سے محبوب عمل دعا ہے“۔
اسی طرح آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
”الدُّعاءُ مَفاتِیحُ النِّجَاحِ،ومَقالیدُ الفَلاحِ،وَخَیْرُ الدُّعاءِ مَاصَدَرَ عَن صَدْرٍ نَقِیٍّ وَقَلْبٍ تَقِیٍّ، وَفِی المُناجاةِ سََبَبُ النَّجاةِ وَبِالإخلاصِ یَکُوْنُ الْخَلاٰصُ،فَاذا اشتَدَّ الفَزَعُ فَإلَی اللّهِ المَفزَعُ
“[۱۴]
”دعاکامیابی کی کلیداورکامرانی کا خزانہ ہے۔ اور بہترین دعا وہ ہے جو پاک وپاکیزہ سینہ اور پرھیزگار قلب سے نکلے، مناجات، نجات کا وسیلہ اور چھٹکارے کا ذریعہ ہے، اور جب انسان مشکلات میں گھر جائے تو اس کو چاہئے کہخدا کی بارگاہ کو اپنی پناہ گاہ قرار دے“۔
اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
” ۔۔۔فَإذا نَزَلَ البَلاءُ فَعَلَیکُم بِالدُّعاءِ وَالتَّضَرُّعِ إلَی اللّهِ
“[۱۵]
”جس وقت بلائیں نازل ہوں تو تمھیں چاہئے کہ دعا کرو اور بارگاہ رب العزت میں گریہ وزاری کے ساتھ حاضر ہو“۔
اسی طرح آپ کا ارشاد ہے:
”عَلَیکَ بِالدُّعاءِ؛فَإنَّ فیهِ شِفاءً مِن کُلِّ داءٍ
“[۱۶]
”تم لوگوں کو دعا کرنا چاہئے کیونکہ یھی ہر درد کی دوا ہے“۔
ایک ساتھ مل کر دعا کرنے کی اھمیت
جس وقت مومنین ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دعا کرتے ہیں اور اجتماعی شکل میں خداوندعالم کی بارگاہ میں راز ونیاز ،توبہ اور گریہ وزاری کرتے ہیں اور تمام لوگ اس کی بارگاہ میں دست گدائی پھیلاتے ہیں حقیقت میں ان کی دعا باب اجابت سے نزدیک ہوجاتی ہے، کیونکہ دعا کرنے والے اس مجمع میں کوئی نہ کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جس کا دل ٹوٹا ہوا ہو یا جو حقیر و بے نواھو یا کوئی خدا کا عاشق یا کوئی عارف ہوگا یا کوئی باایمان مخلص ہوگاجس کے اخلاص ،گریہ وزاری اور اضطرار اور نالہ وفریاد کی وجہ سے سب لوگ رحمت الٰھی کے مستحق قرار پائیںاور سب کی دعا مستجاب ہوجائے اور خداوندعالم کی مغفرفت کی بوچھار ہوجائے،جیسا کہ اسلامی روایات میں وارد ہواھے کہ ہوسکتا ہے خداوندعالم اپنے اس ایک بندہ کی وجہ سے سب لوگوں کی دعا قبول کرلے اور اس کی گریہ وزاری کی وجہ سے تمام لوگوں پر رحمت نازل کردے، سب کی حاجتیں پوری کردے اور ان سب کو معاف کردے، اور ان کی خالی جھولیوں کواپنے مخصوص فیض و کرم سے بھر دے۔
اس سلسلے میں وحی الٰھی کے منبع علم الٰھی کی منزل معرفت کے خزانہ ، رحمتوں کے باب یعنی ائمہ معصومین علیھم السلام سے روایات وارد ہوئی ہیںجن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
”عَن ابی عَبدِاللّهِ(ع)قال:مَااجتَمَعَ اربَعَةٌ قَطُّ عَلی امرٍواحِدٍ فَدَعَوا إلّا تَفَرَّقواعَن إجَابَةٍ
“[۱۷]
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جب چار افراد مل کر کسی ایک چیز کے بارے میں دعا کرتے ہیں ، جب وہ ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں ان کی دعا قبول ہوچکی ہوتی ہے،(یعنی ان کے جدا ہونے سے پھلے پھلے ان کی دعا قبول ہوجاتی ہے)
”قَال النَّبِیُّ(ص) :لا یَجتَمِعُ اربَعونَ رَجُلاً فی امرٍ واحِدٍ إلّااسْتَجابَ الّلهُ تَعالی لَهُم حَتّی لَو دَعَوْا عَلی جَبَلٍ لَازالُوهُ
۔ “[۱۸]
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا: کوئی چالیس افراد مل کر کسی کام کے لئے دعا نہیں کرتے مگر یہ کہ خدا ان کی دعا قبول کرلیتا ہے یھاں تک کہ اگر یہ لوگ کسی پھاڑ کے بارے میں دعا کرےں تو وہ بھی اپنے جگہ سے ہٹ جائے گا۔
عالم ربانی ، عارف عاشق ”ابن فھد حلّی“ اپنی عظیم الشان کتاب ”عدّة الداعی“ میں روایت نقل کرتے ہیں (جیسا کہ صاحب وسائل الشیعہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے):
”إن الله اوحَی إلی عیسَی علیه ا لسلام : یا عِیسَی! تَقَرَّبْ إلَی المُومِنینَ،وَمُرْهُم ان یَدعُونِی مَعَکَ
“[۱۹]
”خدا وندعالم نے جناب عیسیٰ علیہ السلام پر وحی کی کہ اے عیسیٰ! مومنین کے مجمع کے قریب ہوجاؤ اور ان کو حکم دو کہ میری بارگاہ میں تمھارے ساتھ دعا کریں“۔
”عَن ابی عَبدَاللهِعلیه ا لسلام قالَ:کانَ ابی علیه ا لسلام إذا احْزَنَهُ امرٌجَمَعَ النِساءَ وَالصِّبیانَ ثُم دَعا وَامَّنُوا
“[۲۰]
”حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ہمارے والد بزرگوار ہمیشہ اس طرح کیا کرتے تھے کہ جب کسی کام کی وجہ سے غمگین اور پریشان ہوتے تھے تو عورتوں او ربچوں کو جمع کیا کرتے تھے اوراس وقت آپ دعا فرماتے تھے اور وہ سب آمین کہتے تھے“۔
ناامیدی اور مایوسی کفار سے مخصوص ہے
دعا کرنے والے کو اس کا علم ہونا چاہئے کہ خداوندعالم نے خود اس کو دعا کا حکم دیا ہے اور اس کے قبول ہونے کی ضمانت بھی لی ہے،نیز دعا کا قبول کرنا خداوند عالم کے لئے بہت ہی آسان ہے، کیونکہ اس کائنات کی تمام چیزیں اس کی حکمرانی کے تحت گردش کرتی ہیں اور وہ صرف ایک اشارہ سے دعا کرنے والوںکی دعا قبول ہونے کے سارے اسباب فراھم کرسکتا ہے۔
لہٰذا کسی بھی شخص کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ خدائے رحمن جس کی قدرت، بصیرت، کرم، لطف، فیض اور اس کی رحمت بے انتھا ہے؛ اس سے مایوس اور نا امید ہو چونکہ خداوندعالم اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے خصوصاً جب کوئی بندہ اس سے راز ونیاز اور دعا میں مشغول ہوتا ہے، اورمایوسی او رناامیدی قرآن مجید کے فرمان کے مطابق کفار سے مخصوص ہے:
” وَلاَتَیْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اللهِ إِنَّهُ لاَیَیْئَسُ مِنْ رَوْحِ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ
۔“[۲۱]
”اور رحمت خدا سے مایوس نہ ہونااس کی رحمت سے کافر قوم کے علاوہ کوئی مایوس نہیں ہوتا“۔
قرآن مجید نے واضح طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ رحمت خدا سے ناامید اور مایوس نہ ہوں:
”۔۔۔لاٰ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ
۔۔۔“ [۲۲]
نیز اس سلسلہ میں حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرماتے ہیں:
”الفَاجِرُ الرَّاجِی لِرَحْمَةِ اللهِ تَعالَی اقْرْبُ مِنْها مِنَ العَابِدِ الْمُقَنَّطِ
“[۲۳]
”رحمت الٰھی سے مایوس عبادت گزار کے مقابلہ میں رحمت الٰھی کا امیدوار بدکار ، رحمت الٰھی سے زیادہ نزدیک تر ہے“۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
”الیَاسُ مِن رَوحِ اللهِ اشدُّ بَرداً مِنَ الزَّمهَریرِ
“۔ [۲۴]
”رحمت خدا سے ناامیدی کی ٹھنڈک ، تیز سردی کی ٹھنڈک سے بھی زیادہ ہے“۔
معارف اسلامی اور روایات معصومین(ع) میں رحمت خدا سے مایوسی اور ناامیدی کو گناہ کبیرہ میں شمار کیا گیا ہے،اور رحمت خدا سے مایوسی کے لئے عذاب کا حتمی وعدہ دیا گیا ہے۔
اگر دعا کرنے والے شخص کی دعا جلدی قبول نہ ہو تو اس کو مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ دعا کا قبول ہونا اس کے لئے مفید نہ ہوجیسا کہ قرآن کریم اور روایات معصومین(ع)سے معلوم ہوتا ہے، شاید دعا قبول ہونے کا موقع اور محل نہ ہو، اور شاید اس کی ایک وجہ یہ ہوکہ خدا چاہتا ہو کہ دعا کرنے والا اور مناجات کرنے والا اپنی دعا اور مناجات میں لگا رھے اس وجہ سے اس کی دعا قبول نہ ہوئی ہو، یا ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ دعا کرنے والے کو ا اس دعا کے بدلے میں آخرت میں ایک عظیم مرتبہ ملنے والا ہو، اور قیامت کے روز اس کی دعا قبول ہونے والی ہو، بھر حال رحمت خدا سے مایوسی کسی بھی صورت میں عقلی، شرعی، اخلاقی اور انسانی فعل نہیں کھا جاسکتا، اور ایک مومن کبھی بھی رحمت الٰھی سے مایوس نہیں ہوتا۔
چنانچہ دعاسے مربوط مسائل کے سلسلہ میں اسلامی کتب میں بہت اھم روایات بیان ہوئی ہیں، لہٰذا ہم یھاں پر اپنے موضوع کے لحاظ سے ان میں سے بعض کا تذکرہ مناسب سمجھتے ہےں:
۱ ۔ ”عَنْ ابِی عَبْدِ اللهِ عَلَیْهِ السَّلاٰمُ قَالَ : إِنَّ الْعَبْدَ لَیَدْعُو فَیَقُوْلُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمَلَکَیْنِ قَدِاُسْتَجَبتُ لَهُ، َولٰکِنِ اْْحْبِسُوهُ بِحاجَتِِهِ، فَاِنِّی احِبُّ انْ اسمَعَ صَوْتَهُ واِنَّ الْعَبْدَ لَیَدْعُو فَیَقُوْلُ اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی : عَجِّلُوْا لَهُ حَاجَتَهُ، فَاِنِّی اُبْغِضُ صَوْتَهُ
!![۲۵] “
”حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: بے شک جب بند ہ اپنے خدا کی بارگاہ میںدعا کرتا ہے، تو خداوندعالم اپنے دو فرشتوں سے فرماتا ہے: میں نے اس کی دعا قبول کرلی ہے، لیکن تم اس کی حاجت براری کوفی الحال روک لو، تاکہ وہ دعا کرتا رھے: کیونکہ میں اس کے گڑگڑانے کی آواز (بار بار)سننا چاہتا ہوں۔ اور کبھی بندہ کے دعا کرتے ہی خدااپنے فرشتوں سے فرماتا ہے: اس کی حاجت کوبہت جلد پورا کردو کیونکہ مجھے اس کی آواز اچھی نہیں لگ رھی ہے“۔
۲ ۔”عن منصور الصیقل قال: قُلتُ لِابِی عَبدِاللهِعلیه السلام:رُبَّما دَعا الرَّجُلُ بِالدّعاءِ فَاستُجیبُ لَه ثُمّ اخِّرَ ذَلکَ اِلی حینٍ قالَ فقالَ :نَعَمْقُلتُ:وَلِمَ ذَاکَ لِیَزدَادَ مِنَ الدُّعاءِ؟قالَ نَعَمْ
“۔[۲۶]
”منصور صیقل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت مبارک میں عرض کیا: کبھی کوئی شخص دعا کرتا ہے اور(دعا کرتے ہی) اس کی دعا قبول ہوجاتی ہے ، اور ایک زمانہ تک اس کی حاجت پوری نہیں ہوتی ہے۔ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاںایسا ہی ہے، تو میں نے عرض کیا: ایسا کیوںتاکہ وہ اس سے بار بار مانگے ؟
تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں (ایسا ہی ہے)“۔
دعا کے شرائط
دعا کرنے والا اگریہ چاھے کہ اس کی دعا قبول ہوتواس کے لئے ضروری ہے کہ دعا سے پھلے دعا کے شرائط کا لحاظ کرے، اور یہ شرائط اہل بیت علیھم السلام سے مروی رویات کی صورت میں مختلف معتبر کتابوں جیسے کتاب”اصول کافی“ ،”محجة البیضاء“ ، ”وسائل الشیعہ“ اور ”جامع احادیث الشیعہ “وغیرہ میں بیان ہوئے ہیں۔
دعا کے شرائط بغیر کسی تفسیر ووضاحت کے اس طرح ہیں:
طھارت جیسے وضو، غسل اور تیمم ، حق الناس کی ادائیگی، اخلاص، دعا کو صحیح طریقہ سے پڑھنا، حلال روزی، صلہ رحم، دعا سے پھلے صدقہ دینا، خدا کی اطاعت کرنا، گناھوں سے پرھیز، اپنے عمل کی اصلاح، سحر کے وقت دعا، نماز وتر میں، فجر صادق کے وقت، طلوع آفتاب کے وقت اللہ سے گڑگڑا کر اپنی حاجت پوری ہونے کی دعا کرنا، بدھ کے روز ظھر وعصر کی نماز کے درمیان دعا کرنا دعاسے پھلے صلوات پڑھنا۔[۲۷]
شب جمعہ
اہل بیت عصمت وطھارت علیھم السلام کی روایات میں شب جمعہ کو دعاکابہترین اور مناسب وقت قرار دیا گیا ہے، اور شب جمعہ کو عظمت کے لحاظ سے شب قدر کی طرح قرار دیا گیا ہے۔
بزرگ علماء کرام، اہل بصیرت اوراولیاء اللہ کہتے ہیں:
اگر ہوسکے تم لوگ شب جمعہ کو دعا،ذکراور استغفار میںبسر کرو اور اس کے انجام سے غفلت نہ کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ مومنین پر رحم وکرم کرتے ہوئے اعمال کے اجرمیں اضافہ کے لئے فرشتوں کو آسمان اول پر بھیجتا ہے تاکہ تمھاری نیکیوں میں اضافہ کریں اور تمھارے گناھوں کو مٹادیں۔
ایک معتبر حدیث میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے:
ھوسکتا ہے کہ کوئی مومن کسی چیز کے لئے دعا کرے، اور خداوندعالم اس کی حاجت پوری کرنے میں دیر کرے، یھاں تک کہ جمعہ کا روز آجائے اور اس دن اس کی حاجت پوری کی جائے۔[۲۸]
اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ جس وقت برادران یوسف(ع) نے اپنے باپ سے یہ درخواست کی کہ وہ خدا کی بارگاہ میں ان کے گناھوں کی بخشش کی دعا فرمائیں توجناب یعقوب علیہ السلام نے فرمایا: میں عنقریب تم لوگوںکی مغفرت کے لئے خداوندعالم سے استغفار کروں گا، اور اس دعا اور طلب مغفرت کو شب جمعہ کی سحر تک روکے رکھا تاکہ ان کی دعا (شب جمعہ کی سحر میں) قبول ہوجائے[۲۹]
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
خداوندعالم ہر شب جمعہ اپنے فرشتوں کوحکم دیتا ہے کہ اے فرشتو! اپنے رب اعلیٰ کی طرف سے شب جمعہ کی ابتداء سے آخر تک یہ آواز دیتے رھو کہ کیا کوئی ایسا مومن بندہ ہے جو طلوع فجر سے پھلے پھلے دنیا وآخرت کی حاجت کے لئے اپنے پروردگار کوپکارے، تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کیا کوئی ایسا مومن بندہ ہے جو طلوع فجر سے پھلے پھلے اپنے گناھوں کی توبہ کرے تاکہ میں اس کی توبہ قبول کروں؟ کیا کوئی ایسا مومن بندہ ہے جس کی روزی میں نے کم کردی ہواور وہ مجھ سے روزی زیادہ کراناچاہتا ہو تاکہ میں طلوع فجر سے پھلے پھلے اس کی روزی زیادہ کردوں؟ تاکہ اس کی روزی میں وسعت کردوں۔کیا کوئی مومن مریض ہے اور طلوع صبح سے پھلے پھلے مجھ سے صحت وسلامتی چاہتاھے تاکہ میں اس کو شفا اور عافیت عطا کردوں؟کیا کوئی بندہ مومن غمگین اور قیدی ہے،اوروہ طلوع صبح سے پھلے پھلے مجھ سے زندان سے رھائی چاھے تاکہ میں اس کی دعا کو مستجاب کرلوں؟ کیا کوئی مظلوم مومن بندہ ہے جو طلوع صبح سے پھلے پھلے مجھ سے ظالم سے چھٹکارہ پانے کی درخواست کرے کہ میں ظالم سے بدلہ لوں اور اس کا حق اس کو دلوادوں؟ چنانچہ فرشتہ صبح تک اس طرح کی آواز لگاتا رہتا ہے۔[۳۰]
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
شب جمعہ گناھوں سے پرھیز کرو کیونکہ اس شب میں گناھوں کی سزا کئی گُنا ہوجاتی ہے، جیسا کہ نیکیوں کا ثواب بھی چند برابر ہوتا ہے، اور جو شخص شب جمعہ میں معصیت خدا کو ترک کرے خداوند عالم اس کے گزشتہ گناھوں کو اس شب کی برکت سے معاف کردیتا ہے، اور اگر کوئی شخص شب جمعہ علی الاعلان گناہ کا مرتکب ہو تو خداوندعالم اس کی عمر کے برابر اس کوعذاب میں مبتلا کردیتا ہے، اور شب جمعہ علی الاعلان گناہ کرنے کا عذاب اس وجہ سے چند برابر ہوجاتا ہے کیونکہ اس نے ”شب جمعہ کی حرمت“ کو پامال کیا ہے۔[۳۱]
قارئین کرام ! شب جمعہ کے لئے بہت سی دعائیں ، ذکر اور ورد بیان ہوئے ہیں جن میں سے دعاء کمیل خاص اھمیت کی حامل ہے۔
کمیل بن زیاد نخعی
شیعہ سنی بزرگ علماء نے کمیل بن زیاد کی قوت ایمان، قدرت روح، پاک وپاکیزہ فکر، خلوص نیت، اخلاق حسنہ اور بہترین اعمال سے آراستہ ہونے کے لحاظ سے تعریف وتوصیف کی ہے۔
دونوں فرقوں کے علماء کمیل بن زیاد کی عدالت، جلالت، عظمت اور ان کی کرامت کے سلسلہ میں متفق ہےں۔
کمیل بن زیاد حضرت امیر المومنین اور حضرت امام حسن مجتبیٰ علیھما السلام کے خاص اصحاب میں سے تھے [۳۲]
حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنے دس قابل اطمینان اصحاب میں شمار کیا ہے۔[۳۳]
جناب کمیل بن زیاد حضرت علی علیہ السلام کے بہترین شیعہ، عاشق ، محب اور دوستدار تھے۔[۳۴]
جو وصیتیں اور نصیحتیں حضرت علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو فرمائی ہیں ، وہ کمیل بن زیاد کے بہترین ایمان اور معرفت پر دلالت کرتی ہیں۔
اہل سنت حضرات جو حق وعدالت اور انصاف ومروت سے دوری کی وجہ سے اہل بیت علیھم السلام کے چاھنے والوں کے سلسلہ میں مثبت نظریہ نہیں رکھتے ہیں؛ لیکن پھر بھی کمیل بن زیاد کو تمام امور میں مورد اطمینان قرار دیتے ہیں۔[۳۵]
عرفاء ،صاحبان سیر وسلوک اور دیدار محبوب کے مشتاق افراد کمیل بن زیاد کو حضرت علی علیہ السلام کا ہمراز اور آپ کے معنوی معارف کا خزانہ سمجھتے ہیں۔
کمیل بن زیاد نے پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی حیات طبیہ میں ۱۸ سال زندگی گزاری اور شمع رسالت کے نور سے بھرہ مند رھے۔
جناب کمیل ؛ایک عظیم انسان اور طیب وطاھر وجود کے مالک تھے، جو اپنی لیاقت کی بنا پر حجاج بن یوسف ثقفی کے ہاتھوں شھادت کے عظیم درجہ پر فائز ہوئے، جیسا کہ آپ کے محبوب (حضرت علی علیہ السلام) نے ان کی شھادت کے بارے میں پیشن گوئی فرمائی تھی۔
جب خونخوار حجاج بن یوسف ظالم اموی حکمراںکی طرف سے عراق کا گورنربنایا گیا، اس وقت اس نے کمیل بن زیاد کو تلاش کرنا شروع کردیاتاکہ ان کو محبت اہل بیت علیھم السلام کے جرم میں اور شیعہ ہونے کے جرم میں جو بڑا جرم تھا قتل کرے۔
کمیل بن زیاد ؛ حجاج کی نگاھوں سے چھپے ہوئے تھے ، جس کی بنا پر حجاج نے کمیل بن زیاد کے رشتہ داروں کا وظیفہ بیت المال سے بند کردیا ، جس وقت جناب کمیل کو اس چیز کی خبر پھنچی کہ میرے رشتہ داروں کا وظیفہ
میری وجہ سے بند کردیا گیا ہے، تو آپ نے فرمایا:
”اب میرا آخری وقت ہے میری وجہ سے میرے رشتہ داروں کا وظیفہ اور رزق بند ہونا مناسب نہیں ہے“۔
یہ کہہ کر اپنی مخفی گاہ سے باھر نکلے اور حجاج کے پاس خود چلے گئے، حجاج نے کھا:میں تجھے سزا دینے کے لئے تلاش کررھا تھا۔
جناب کمیل بن زیاد نے کھا: جو تو کرسکتا ہے کر گزر، یہ میری آخری عمر ہے، اور عنقریب ہی ہم اورتم خدا کی بارگاہ میں جانے والے ہیں، میرے مولا (علی بن ابی طالب علیہ السلام) نے مجھے پھلے ہی یہ خبر دے دی ہے کہ تو میرا قاتل ہے۔
حجاج نے حکم دیا کہ کمیل بن زیاد کا سر قلم کردیا جائے اس وقت اس مرد الٰھی اور نورانی شخصیت کی عمر ۹۰ سال تھی، چنانچہ حجاج کے ہاتھوں آپ کی شھادت واقع ہوگئی، آپ کامرقد مطھر ”ثویّہ“ نامی علاقے میں ہے جو نجف اور کوفہ کے درمیان ہے جھاں پر ہر روز عام وخاص سیکڑوں افرادیارت کے لئے جاتے ہیں۔
دعاء کمیل
عارفین عاشق اور عاشقین عارف، بیدار دل اور حقائق سے آشنا حضرات کی نظر میں دعاء کمیل کی وھی اھمیت ہے جو تمام مخلوقات میں انسان کی ہے، جس طرح انسان کو اشرف المخلوقات شمار کیا جاتاھے اسی طرح دعاء کمیل کواشرف دعا شمار کیا جاتا ہے، اور اس کو ”انسان الادعیہ“ (دعاؤں کا انسان) کھا جاتا ہے۔
علامہ کم نظیر ، محقق خبیر اور محدث بصیر حضرت علامہ مجلسی نے اس دعا کو دو سری اور دعاؤ ں میں سب سے بہتر قرار دیا ہے۔
چنانچہ علامہ موصوف اپنی کتاب ”زاد المعاد“ میں سید بن طاووس کی کتاب ”اقبال“ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”جناب کمیل نے فرمایا: ایک روز میں شھر بصرہ میں اپنے مولا وآقا حضرت علی علیہ السلام کی خدمت بابرکت میں حاضر تھا، اس وقت ۱۵ شعبان المعظم کے سلسلہ میں گفتگو ہونے لگی، آپ نے فرمایا: جو شخص اس رات کو جاگ کر گزارے اور حضرت خضر علیہ السلام کی دعا پڑھے، تو اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔ جس وقت آپ وھاں سے گھر تشریف لائے تومیں بھی آپ کے پیچھے پیچھے پھونچا، جب امام علیہ السلام نے مجھے دیکھا تو فرمایا: کیا کوئی کام ہے؟ میں نے عرض کیا:
مولا! دعائے حضرت خضر(ع)کی خاطر آپ کی خدمت میں آیا ہوں۔
آپ نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، اس کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا:
اے کمیل! جب اس دعا کو یاد کرلو تو اس کو ہر شب جمعہ یا مھینہ میں ایک بار یا سال میں ایک بار یا (کم سے کم) اپنی زندگی میں ایک بار (ضرور) پڑھ لینا، اس دعا کے پڑھنے سے دشمن کے شر سے محفوظ رھوگے، اور تمھاری غیبی مدد ہوگی، روزی زیادہ کردی جائے گی، اور تمھارے گناہ بخش دئے جائیں گے۔
اے کمیل ! (یاد رکھو) تمھارا ہمارے ساتھ زیادہ رھنا اور ہماری زیادہ تعریف کرنا اس بات کا سبب بنا کہ اس عظیم الشان دعاسے تمھیں سرفراز کروں۔
اور اس کے بعد آپ نے پوری دعا تلقین فرمائی۔
با معرفت مناجات کرنے والے عالم ربّانی مرحوم کفعمی اپنی عظیم الشان کتاب ”مصباح“ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام اس دعا کو سجدہ کی حالت میں پڑھتے تھے۔[۳۶]
اس دعا کو پڑھنے والے کو چاہئے کہ شب جمعہ کو تمام شرائط کا لحاظ کرنے کے ساتھ روبقبلہ ہو اور خشوع وخضوع کے ساتھ آنسووں سے بھری آنکھیں اور لرزتی ہوئی آواز میں اس دعا کو پڑھے ، کہ اس طرح دعا پڑھنا باب اجابت سے نزدیک ہے اور اس کے آثار جلدی ظاھر ہوتے ہیں۔ [۳۷]
آنسو بھر ی آنکھیں خداوندعالم کی نظر میں بہت اھمیت رکھتی ہیںاور آنسو بھری آنکھیں اور سوز دل سے رونااور گڑ گڑانا گناھوں کی بخشش اور خدا وندعالم کے غضب کو خاموش کرنے نیز رحمت الٰھی نا زل ہونے کا سبب ہوتی ہیں۔[۳۸]
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
”گریہ ونالہ اورفریاد کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کے لئے کوئی پیمانہ نہ ہو، کیونکہ گریہ کا ایک قطرہ دریامیں لگی آگ کو خاموش کردیتا ہے، جب آنکھیں آنسووں سے نم ہوجائیں، جب چھرہ پر ذلت و خواری کے آثار ظاھر ہوں اور جب انسان کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑیں تو خداوندعالم اس پر آتش جھنم کوحرام کردیتا ہے، بےشک اگر امت میں کوئی ایک بھی رونے والا موجود ہو تو تمام امت شامل رحمت الٰھی ہوجاتی ہے۔[۳۹]
اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ بھی ارشاد ہے کہ قیامت کے دن تین آنکھوں کے علاوہ سب آنکھیں گریاں کناں نظر آئیں گی:
۱ ۔ وہ آنکھ جو خدا کی حرام کردہ چیزوں کو نہ دیکھے۔
۲ ۔ وہ آنکھ جو راہ خدا میں جاگے۔
۳ ۔ وہ آنکھ جو راتوں کو خوف خدا سے روتی رھے۔[۴۰]
” بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
“
”شروع کرتا ہوں اس اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے۔“
دعاء شریف کمیل کا آغاز بے نھایت نورانی مرکز ” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ سے ہونے کی چند دلیلیں ہوسکتی ہیں:
حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام ؛ حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: پرودگار عالم کاارشاد ہے:
۱ ۔”کُلّ امرٍ ذِی بالٍ لا یُذکَر بِسمِ اللهِ فِیهِ فَهُوَ ابتَرُ “[
۴۱]
”ھر وہ اھم کام جو خدا کے نام سے شروع نہ کیا جائے وہ بے فائدہ ہے یعنی وہ مقصد تک نہیں پھونچ سکتا“
۲ ۔ مرحوم طبرسی نے اپنی عظیم الشان کتاب ”مکارم الاخلاق“ میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے:
”مَا مِن احدٍ دَهَمَهُ امرٌ یَغُمُّهُ اوکَرَّبَتهُ کُرْبَةٌ فَرَفَعَ رَاسَهُ اِلَی السَّمَاءِ ثُمَّ قالَ ثَلاثَ مَرّاتٍ بِسمِ اللهِ الرَّحمَنِ الَّرحِیمِ اِلّا فَرَّجَ اللهُ کُربَتَهُ وَاذْهَبَ غََمَّهُ اِن شآءَ اللهُ تَعالی
“[۴۲]
” کوئی پریشان اور غمگین شخص ایسا نہیں جو اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاکر تین بار ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ پڑھے ، اور خدا اس کی پریشانی اور غم واندوہ کودور نہ کرے، اگر خداوندمتعال کا ارادہ شامل حال ہو “۔
۳ ۔ ”لایُرَدُّ دُعاءٌ اوَّلُهُ ”بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
“[۴۳]
”جس دعا کی ابتداء ”بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
“ سے کی جائے وہ بارگاہ الٰھی میں ردّ نہیں ہوگی“۔
۴ ۔حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جھنم کے شعلوں کو ۱۹ شمار کیا ہے اور فرمایا جو شخص ان ۱۹ شعلوں سے محفوظ رھنا چاھے اس کو ہمیشہ ”بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
“ کا ورد کرتے رھنا چاہئے ، جس کے ۱۹ حرف ہیں تاکہ خداوندعالم اس کے ہر حرف کو جھنم کے ایک شعلہ کے لئے سپر قرار دے۔
۵ ۔ نیز حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے روایت ہے کہ جب کوئی استاد اپنے شاگرد کو ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ کی تعلیم دے تو خداوندعالم اس بچے ، اس کے ماں اور اس استاد کے لئے آتش جھنم سے نجات کا پروانہ لکھ دیتا ہے۔
۶ ۔ اسی طرح پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے روایت ہے کہ میری امت کو روز قیامت حساب وکتاب کے میدان میں روک لیا جائے گا، اور ان کے اعمال کا حساب وکتاب کیا جائے گا ، اور ان کے اعمال کو ایک ترازو میں رکھا جائے گا ان کی نیکیاں ؛ برائیوں پر بھاری ہیں، یہ دیکھ کر دوسری امتیں چلائیں گی کہ اس امت کی تھوڑی سی نیکیوں کی وجہ سے کیوں ان کا پلہ بھاری ہے؟ تو اس وقت ان کے نبی جواب دیں گے: کیونکہ یہ امت اپنے ہر کام کا آغاز خداوندعالم کے تین ناموں سے کیا کرتی تھی: ”اللّٰہِ“”الرَّحْمٰنِ“”الرَّحِیْمِ“ کہ اگر ان ناموں کو ترازوکے ایک پلہ میں رکھ دیا جائے اور دوسرے پلڑے میں تمام انسانوں کی نیکیاں اور برائیاںرکھ دیں جائیں تو ان تینوں ناموں کا پلڑا بھاری رھے گا۔
۷ ۔ حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی ہے کہ ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ اسم اعظم سے اتنا نزدیک ہے جتنی آنکھ کی سیاھی سے سفیدی نزدیک ہوتی ہے۔[۴۴]
بے شک جب کوئی دعا (خصوصاً دعاء کمیل)حضرت حق کے اسم اعظم سے شروع ہو تو یقیناً باب اجابت سے ٹکرائے گی، اور پڑھنے والے کی مرادیں پوری ہوںگی۔
”بسم الله“ وہ شراب طھور ہے کہ اسے جس وقت ساقی عشق کے ہاتھوں سے دل وجان نوش کریں تو ایسا وجد اور نشاط طاری ہوتا ہے جس کی توصیف کرنا مشکل ہے، اور وہ معشوق کے عشق میں کھوجائے اور اپنے محبوب کے وصال کے لئے بغیر کسی خستگی اور تھکن کے راستہ کو طے کرتا چلا جاتا ہے۔
”بِسْمِ اللّٰہِ“ کے کچھ دل چسپ نکات
لفظ”اسم“ علم صرف ونحو کے لحاظ سے ”سمّو“ سے نکلا ہے جس کے معنی رفعت، بلندی، بزرگی اور برتری کے ہیں۔
خداوندمھربان نے اپنے اس نورانی اور اثر بخش کلام میں لفظ”اسم“ سے حرف ”با“ کو متصل کیا ہے، تاکہ انسان اس لفظ کو جاری کرتے وقت یہ توجہ کرے کہ محبوب کے نام سے محبوب کی بارگاہ میں متوسل ہونا چاہتا ہے اور اس محبوب سے متوسل ہونا صرف زبان سے اس کا نام لینا کافی نہیں ہے بلکہ جب تک اپنے دل سے اخلاقی اور معنوی گندگی کو دور نہ کرے اور اپنی زبان کو اور بے ہودہ باتوں نیز غیر خدا کے ذکر سے استغفار کے پانی سے پاک نہ کرے اس وقت تک اپنے اندر محبوب سے متوسل ہونے اور اس کے جلوہ کے نظارہکا امکان پیدا نہیں ہوسکتا، نیز اس اھم بات کی طرف بھی توجہ رھے کہ دل و جان کی طھارت، اخلاص نیت، اور اپنی نیازمندی اور حضرت حق کی بے نیازی کے اقرار کے بغیر ، خداوندمنان کا نام زبان پر جاری کرنا اس کی شان میں بے ادبی اور گستاخی ہے:
ہزار بار بشویم دھان بہ مشک وگلاب
ھنوز نام تو بردن کمال بی ادبی است
(اگر ہزار بار بھی مشک وگلاب سے اپنا منھ دھوکر بھی تیرا نام لیا جائے تو بھی انتھائی بے ادبی ہے)
خداوندمتعال چونکہ مصدرپاکیزگی، طھارت اور تقدس ہے اور یہ خاکی انسان بالکل بے بضاعت اور ہیچ ہے، لہٰذا یہ ادنیٰ درجہ والا انسان بغیر کسی واسطہ کے عزت وجلالت کی طرف عروج نہیں کرسکتا، اس لئے خداوندعالم نے ”بسم اللہ“ کو اپنے اور اس کے درمیان واسطہ قرار دیاتاکہ انسان اس عظیم المرتبت اور آسمانی کلام کے ذریعہ اپنے دل وجان میں اس کے اثرات مرتب کرکے رفعت وبلندی کی سیڑھی پر قدم رکھے اورغیبی طور پر جمال وجلال کا مشاھدہ کرنے کی صلاحیت کا راستہ ہموار کرے۔
ایک عارف عاشق اور صاحب دل فرماتے ہیں: حرف ”ب“ حرکت اور سلوک کی ابتداء پر اشارہ کرتاھے اور حرف ”ب“ سے حرف ”س“ تک معرفت کا ایک عظیم مید ان ہے، حرف”ب“ اور” اسم“کے درمیان سے لفظ ”اسم“ کے الف کا نہ پڑھا جانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب تک اس راستہ پر چلنے والے کی انانیت اور غرور؛ نور توحید میں غرق نہ ہوجائے اور وہ اپنے کو دوست کی محبت کے عشق کی آگ میں نہ جلادے اس طرح کہ وہ تسلیم اور بندگی کا پتلا بن جائے ، اس وقت تک وہ رازِ معرفت تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا ہے، اور اس نورانی سلسلہ میں ”میم“ تک نہیں پھونچ پائے گا۔
بعض حضرات کا کھنا ہے کہ ”ب“ اس کی نیکی واحسان کی طرف اشارہ ہے جو سب کے لئے ہے، اور اکثر اوقات عام لوگوں سے تعلق رکھتا ہے، اور ”سین“ سے مراد خداوندعالم کے اسراران خاص افراد کے لئے ہیں جو دل والے ہیں، اور ”میم“ اس محبت کی نشانی ہے جو خاص الخاص اور اصحاب اسرار کے لئے مخصوص ہے۔
عظیم الشان کتاب ”اصول کافی“ ، ”توحید صدوق“، ”معانی الاخبار“ اور ”تفسیر عیاشی“ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ان تینوں حروف سے خدا کے ایک ایک اسماء حسنیٰ کی طرف اشارہ ہے، ”با“ سے بھای الٰھی ، ”سین“ سے سناء الٰھی (جس کے معنی بلندی اور رفعت نور کے ہیں) اور ”میم“ سے خداوندعالم کی مجد اور عظمت مرادھے۔
بعض عرفاء کا کھنا ہے : ”با“ سے بصیر کی طرف اشارہ ہے اور سین سے سمیع کی طرف اور میم سے”مُحصی“ (شمار کرنے والے) کی طرف اشارہ ہے۔
گویا” بسم اللہ“ پڑھنے والے کو درج ذیل معنی کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے:
میں بصیر ہوں؛ لہٰذا(اے انسان) تیرے ظاھری اور باطنی تمام اعمال کو جانتا ہوں، اورمیں سمیع ہوں جس کے نتیجہ میں تیری تمام باتوں اور دعاؤں کو سنتا ہوں، اور مُحصی ہوں جس کے نتیجہ میںتیرے ہر سانس کوشمار کرتا ہوں۔ اس بنا پر اپنے عمل میں ریاکاری اور خود نمائی سے اجتناب کر، تاکہ اس کی جزا میں تجھے دائمی ثواب عنایت کردوں، اور میرے سمیع ہونے کے سایہ میں باطل اور بے ہودہ باتوں سے پرھیز کر، تاکہ تجھے فیض وصفا اور غفران وصلاح کی خلعت پھناؤں، اور چونکہ میں مُحصی ہوں لہٰذا ایک لمحہ کے لئے بھی مجھ سے غافل نہ ہو تاکہ اس کے بدلے میں اپنی بارگاہ میں ملاقات کے لئے بلالوں۔
محبوب کے عشق میں مجذوب اور اس کی راہ میں آگے بڑھنے والے اس کی محبت میںجلنے والے عرفاء کہتے ہیں:
”بسم اللہ“ کے آسمانی اور عرفانی معنی سے وھی شخص واقف ہوسکتا ہے جو محبوب (خدا) کی بلاؤں پر صبر کرے، اور اپنے باطن کو صراط مستقیم پر قائم رکھے تاکہ ”میم“ کی نورانی فضا کا مشاھدہ کرسکے۔
لفظ مبارک ”الله“ اس ذات مقدس کا نام کامل اور اسم جامع ہے جس میں تمام صفات کمال وجمال اور جلال سبھی جمع ہیں۔
بعض علماء نے کلمہ ”الله“ میں تین معنی پوشیدہ بتائے ہیں:
۱ ۔دائم ازلی، قائم ابدی اور ذات سرمدی۔
۲ ۔ وھم وخیال اور عقل اس کی معرفت میں حیران اور سرگرداں ہے،اور روح ودرک اس کی طلب میں پریشان اور ناتواں ہے۔
۳ ۔ خدا کی ذات تمام مخلوقات اور موجودات کے پلٹنے کی آخری منزل اور سب کا مرجع ہے۔
علماء عرفان نے کھا ہے کہ لفظ ”الله“ اسم اعظم ہے اور توحید کی بنیاد اسی پر ہے ، اور یھی کلمہ اگر کافر اپنی زبان سے جاری کرے تو ایمان کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے (بشرطیکہ اس کا دل اس کی زبان کی تصدیق کرے)
کافر اسی کلمہ کے زبان پر لانے سے غفلت ، کثافت اوروحشت کی دنیا سے نکل کرے ہوشیاری، پاکیزگی و محبت اور امن کی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے، لیکن اگر کوئی کافر ”لا الہ الا الله“ کے بجائے ”لا الہ الا الرحمن“ کھے تو وہ اپنے کفر سے نہیں نکل سکتا اور اسلام کے دائرہ میں داخل نہیں ہوسکتا۔ بندگان الٰھی کی فلاح ونجات اسی نوارانی اور طیب وطاھر کلمہ کے زیر سایہ ہے۔
ذکرکرنے والوں کا کمالِ منقبت اسی شریف اور کامل اسم کی وجہ سے ہے، ہر کام کی ابتداء اسی نام سے ہوتی ہے اور اس کا اختتام اسی کے انتظام میں ہے۔ رسالت کی بنیاد کا استحکام اسی نام سے ہے کہ ”محمد رسول الله“ اور بنیادی ولایت کی پائیداری اسی کے ذریعہ ہے جو ” علی ولی الله“ ہے۔
کلمہ ”الله“ کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اگر اس کے شروع سے ”الف“ کوہٹا دیا جائے تو ”لله“ باقی بچتا ہے،: ۔۔۔”(
لِلّٰهِ الامْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ
)
۔۔۔“[۴۵] اور اگر اس کے شروع سے ”لام“ ہٹا دیا جائے تو ”لہ“ باقی بچتا ہے: ”۔۔۔(
لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ
)
۔۔۔“ [۴۶]اور اگر دوسرے ”لام“ کو بھی ہٹا دیا جائے تو ”ھو“ باقی بچتا ہے جو ذات حق پر دلالت کرتا ہے: ”(
قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ
)
“[۴۷]لہٰذا جو نام اس قدر خصوصیت رکھتا ہے وہ اسم اعظم ہے۔
لفظ ”رحمن“ رحمت سے نکلا ہے، اور علماء صرف ونحو اور لغوی حضرات کے لحاظ سے یہ کلمہ مبالغہ کا صیغہ ہے، جو کثرت (رحمت) پر دلالت کرتا ہے، لیکن علماء اسلام اور الہٰیات کے ماھر علماء کے نزدیک ”رحمن“ کے معنی ”تمام موجودات اور مخلوقات پر عام رحمت کرنے والے کے ہےں جس میں عبادت اور خدمت کو نہیں دیکھا جاتا“ (یعنی چاھے کوئی عبادت خدا کرتا ہو یا نہ کرتا ہو اس کی رحمت عام سب کو شامل ہوتی ہے)
لیکن صاحبان کشف ویقین کے نزدیک ”رحمن“ کے معنی تمام ذرات کو اپنی قابلیت اور استعدادکے مطابق وجود او رکمالات سے نوازتا ہے“ کیونکہ اگر یہ عطا نہ ہوتا تو نہ کوئی وجود ہوتا اور نہ کوئی کمال !۔
بعض اہل بصیرت نے کھا ہے کہ ”رحمن“ کے معنی :”حضرت حق کا تمام موجودات کو خیر اور احسان پھونچانے کا ارادہ، اور ان سے شر کو دور کرنے کے ہیں“
تمام ظاھری اور باطنی نعمتیں اس ذات حق کے رحمانیت کے جلوے ہی ہیں جس کے بعض پھلو سورہ مبارکہ ”الرحمن“ میں بیان ہوئے ہیں۔
لفظ ”رحیم“ علماء لغت کے نزدیک صفت مشبہ ہے اور ثبات اور دوام (ھمیشگی) پر دلالت کرتا ہے، یعنی وہ خدا جس کی رحمت اور مھربانی ہمیشگی اور ثابت ہے۔
اس سلسلہ میں علماء اسلام نے کھا ہے: خداوندعالم کی رحمت رحیمیہ (رحیم ہونے کے لحاظ سے) مومنین اور صاحبان یقین سے مخصوص ہے، کیونکہ ان افراد نے ہدایت کوقبول کیا ہے اور خداوندعالم کے حلال وحرام کو مانا ہے، اور اخلاق حسنہ سے مزین ہیں نیز اس کی نعمتوں پر شکر گزار ہیں۔
اسلامی کتب میں بیان ہوا ہے : خدا وندعالم کی رحمت رحمانیہ کے معنی یہ ہیں: ”وہ تمام موجودات اور تمام انسانوں چاھے وہ مومن ہوںیاکافر، صالح ہوں یا بدکار ، کو روزی پھونچاتا ہے“ ،اور رحمت رحیمیہ کے معنی : ”نوع بشریت میں معنوی کمالات کا ودیعت فرمانا“ اور ”دنیا وآخرت میں مومنین کی بخشش کرنا ہے“۔
”رحمانیت “ اور ”رحیمیت“ میں عافیت کے معنی درج ہیں: ایک دنیاوی عافیت اور دوسری اُخروی عافیت۔ اور رحمت رحیمیہ صرف اطاعت گزاروں کے لئے ہے جن کی نیکیاں اور عبادات قبول ہیں، اور ان گناھگاروں کے لئے بھی ہے جو اہل ایمان ہیں جن کی وجہ سے ان کے لئے بخشش اور برائیوں کو مٹانے کے اسباب ہیں، نیک افراد اپنی عبادتوں کے سبب رحمت کے منتظر رہتے ہیں، اور برے اور بدکار لوگ اپنی نیاز مندی، مفلسی، بے چارگی اور شرمندگی کی وجہ سے اس عطا کے امیدوار رہتے ہیں۔
ابن مبارک کہتے ہیں کہ ”رحمن“ اسے کہتے ہیں کہ اگر اس سے کوئی چیز طلب کی جائے تو وہ عطا کردے اور ”رحیم“ وہ ہے جس سے کوئی چیز طلب نہ کی جائے تو ناراض ہوجائے!
ایک عارف نے فرمایا: خداوندعالم تمام جاندارووں کو روزی دینے کی وجہ سے رحمن ہے اور صرف اہل ایمان کی برائیوں کو معاف کرنے میں رحیم ہے۔ روزی روٹی کے بارے میں خدا کی رحمانیت پر بھروسہ کر اپنے کاروبار اور تجارت پر نھیں، لیکن اپنے کاروبار اور تجارت کو بھی نہ چھوڑدینا کہ ایسا کرنا عقل وشرع کے خلاف ہے، لیکن گناھوں کی بخشش کے لئے اس کی رحیمیت پر بھروسہ کر اپنے عمل پر نھیں، لیکن اپنے عمل کوبھی ترک نہ کر، کیونکہ ایسا کرنا خداوندعالم کی مرضی کے خلاف ہے اورایسا کرنے میں شیطان کی ہمراھی ہے۔
بعض علماء عرفان کا کھنا ہے : بندہ کی تین حالتیں ہوتی ہیں:
۱ ۔ حالت عدم جس میں وہ ہستی کا محتاج تھا۔
۲ ۔ حالت ہستی ، جس میں وہ باقی رھنے کے اسباب کا محتاج تھا۔
۳ ۔ قیامت میں حاضر ہونے اورمغفرت کی ضرورت کی حالت، اور یہ تین حالتیں ان تینوں ناموں میں درج ہیں:
”اللہ“ یعنی اس کی ذات تمام صفات وکمال کے جمع ہونے کا مرکز ہے، غور کر کہ اس نے کس طرح تجھے نیستی اور عدم سے خلعت وجود دے کر اس دنیامیں بھیج دیا۔
وھی”رحمن“ ہے ، سوچ کہ کس طرح تیری زندگی کی بقاء کے اسباب ووسائل فراھم کئے ہیں۔
وھی ”رحیم“ ہے کل روز قیامت دیکھنا کہ کس طرح تجھے اپنی رحمت رحیمیت میں شامل کرتا ہے اور کس طرح تیرے گناھوں کی پردہ پوشی کرتا ہے۔
اہل بصیرت، صاحبان درایت اورعاشقان حقیقت کہتے ہیں: انسان کے دل میں، نفس اور روح ہوتی ہے، نفس کو رزق اور احسان کی ہوس ہوتی ہے، دل کو تمنائے معرفت و ایمان ہوتی ہے، روح کو رحمت ورضوان کی آرزو ہوتی ہے، اور ان میں سے ہر ایک ان اسماء کی برکت سے کسب فیض کرتے ہیں:
دل ”اللہ“ کے نام سے ذوق معرفت اور ایمان حاصل کرتا ہے، اور نفس اسم ”رحمن“ سے رزق واحسان حاصل کرتا ہے، اور روح اسم ”رحیم“ کے نام سے رحمت ورضوان سے مالا مال ہوتی ہے۔
اگر کسی شخص کی روح ان تین مبارک ناموں سے انس پیدا کرلے تو پھر وہ خدائے وحدہ لاشریک کے علاوہ کسی بھی معبود کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوگا ، اور دوسرے بندگان خدا کی نسبت بخشنے والا اور لطف ومھربانی کرنے والا ہوگا۔
لہٰذا اس کلام نورانی اورخزانہ فیض ربانی (یعنیبِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
)کا ذکر ہر موقع ومحل اور ہر کام کی ابتداء میں بہترین اورمحبوب ہے؛ اور اس بسم اللہ کا پڑھنے والا اس کے معنی اور مفھوم پر توجہ اور خلوص نیت سے خداوندعالم سے توسل کرنا چاہتا ہے اور روح کی پاکیزگی اور مادیت سے طھارت اور مشکلات کو دور کرنے کے لئے اس بسم اللہ کو پڑھے تاکہ اس کے عظیم فوائد اورمھم آثار سے بھرہ مند ہوجائے۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے مروی ہے کہ جو شخص دن میں دس بار ”(
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
)
“)اور ”(
لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم
)
“ پڑھے تو وہ تمام گناھوں سے پاک ہوجاتا ہے، اور خداوندعالم اس کو ۷۰ بلاؤں جن میں سے برص، جذام اورفلج ہے؛ سے محفوظ رکھتا ہے
نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے مروی ہے کہ جو شخص بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھے تو حق تعالیٰ اس کے ہر بسم اللہ کے بدلے چار ہزار نیکیاں لکھ دیتا ہے اور چار ہزار برائیاں مٹا دیتا ہے۔
ایک روایت میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ جو شخص کھانا کھانے سے پھلے ” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ کھے تو اس کی برکت کی وجہ سے شیطان اس کا ساتھی نہیں ہوگا، لیکن اگر کوئی شخص بسم اللہ کھنا بھول جائے اور کھانا کھانا شروع کردے تو شیطان اس کا رفیق بن جاتا ہے۔
”اللّٰهُمَّ اِنّيِ اسْا لُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتي وَ سِعَتْ کُلَّ شَيْءٍ
“
”خدایا میراسوال اس رحمت کے واسطہ سے ہے جو ہر شے پر محیط ہے۔“
اس آسمانی جملے اور ملکوتی فقرہ میں اور اس عرشی خزانہ کے ہر لفظ کے رموز واشارات اور اسرار موجود ہیں، لیکن ہم اپنے لحاظ سے ان کی شرح اور تفسیر کررھے ہیں:
”اللّٰهُمَّ
“ کی اصل ”یا اللہ“ تھی جس میں سے ”یا“ کو حذف کردیا گیا اور جس کے بدلے آخر میں ”میم“ مشدد قرار دیدیا تاکہ خداوندعالم کی عظمت اور بزرگی کا اظھار ہوسکے، جس طرح اس کا وجود تمام موجودات اور مخلوقات سے مقدم اور پھلے ہے، اور تقدم ازلی رکھتا ہے یعنی کوئی چیز اس پر مقدم نہ تھی، لہٰذا کلمہ ”اللہ“ میں اس حقیقت کا لحاظ رکھا گیا ہے اور اس کو تمام حرف پر مقدم رکھا گیا ہے، تاکہ وجود حقیقی اور وجود لفظی کے درمیان ایک رابطہ برقرار رھے، اور حقیقی اور لفظی شان میں ذرہ برابر بھی فرق نہ رہ جائے۔
دعا کرنے والا جو خداوندعالم کی طرف توجہ کرتا ہے اور اسی کی ذات اقدس کو پکارتا ہے اور اپنی زبان حال و مقال سے ”اللّٰهُمَّ
“ کہتا ہے اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر خود خداوند منان کی طرف سے اس کی اذن واجازت اور کشش اور جاذبہ نہ ہوتا تو پھر یہ بندہ حقیر اپنے معشوق سے ایک حرف بھی نہیں کہہ سکتا تھا اوراسے اس کی بارگاہ میں دعا کرنے کی طاقت ہی نہ ہوتی، اس کا ناطقہ بند رہتا اور اپنے دل کی بات کو معبود کے سامنے رکھنا محال ہوتا۔
خدا وندعالم کو پکارنے والی زبان؛ حضرت حق سے متصل ہونے کے بعد ”اللّٰهُمَّ
“ کہتی ہے اور دعا کرنے والے کی زبان حال اس کے لطف وکرم سے گویا ہوتی ہے، دعا پڑھنے والے کو اس حقیقت سے باخبر ہونا چاہئے کہ جب تک خدا نہ چاھے اس وقت تک اپنی درخواست کو بیان نہیں کیا جاسکتا، اور جب تک حضرت حق کا ارادہ بندہ میں تجلی نہ کرے تو اس وقت تک بندہ دعا اور اپنی حاجت کو طلب کرنے کے لئے حاضر نہیں ہوسکتا۔
جی ہاں! دعا اس کی تعلیم کردہ شئے ہے، دعا پڑھنے والے کی حیات اس کے امر کی وجہ سے ہے، دعا پڑھنے والے کی زبان حال و مقال اسی کے ارادہ پر موقوف ہے، لہٰذا حقیقت میں انسان کی تمام چیزیں اس مالک الملک کے قبضہ اور قدرت میں ہےں۔
”إِنّیِ اسْا لُکَ
“ إِنّیِ”میں“ کے معنی میں ہے لیکن یھاں پر اس ”میں“ سے جس میں فرعونیت کی بو آتی ہے؛ مراد نہیں ہے ، اور نہ ہی اس فقرہ اورباقی دعا کے تمام ہی فقروں میں طبیعی، عقلانی، عالی، وجودی اور استقلالی ”میں“ مراد نہیں ہے ، بلکہ اس معنوی سلسلہ (دعا) میں ذاتی فقر ، خالی ہاتھ ہونا اور نیازمندی اور خاکساری کے معنی میں ہے۔
دعا پڑھنے والا اس مقام پر ”میں“ کہہ کر اپنی ذات میں فقر وناداری، ذلت اور بے چارگی، تضرع و زاری ، خشوع وخضوع اور ذلت وخواری، فقر و ناداری کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتا ہے، اور خداوند رحمن سے رحمت، کرامت، لطف ومحبت، احسان وعدالت، عفو ومغفرت کے علاوہ کسی دوسری چیز کا مشاھدہ نہیں کرتا ہے، اسی وجہ سے اپنی جھولی پھیلادیتا ہے تاکہ اس معبود کریم سے لطف وکرم کی بھیک لے اور ایک بے نیاز سے ایک نیازمند،اور ایک ناچیز و خاک نشین فقیر ایک بلند مرتبہ اور غنی بالذات کی طرف دست سوال پھیلادیتا ہے اور اپنی درخواست اور سوال کو اس کی رحمت کے پیش نظر ظاھر کرتا ہے۔
”بِرَحْمَتِکَ الَّتي وَ سِعَتْ کُلَّ شَيْءٍ
“ محبوب کی رحمت تمام چیزوں کے شامل حال ہے اور ظاھر وباطن تمام چیزوںپر احاطہ کئے ہوئے ہے۔
یہ خدا کی و سیع رحمت اور فیض عام ہے جس کی برکت سے تمام چیزیں نِیستی کے اندھیرے سے نکل کر نورانی وجودکی طرف رواں دواں ہیں جس کی بنا پر ہر چیز اپنے محل پر مستقر ہے، اور رشد ونمواور بلندی کے تمام تر وسائل، مادی او رمعنوی تربیت اپنی اپنی لیاقت، قابلیت اور استعداد کے لحاظ سے بغیر کسی بخل کے ان کو عطا کردی گئی ہے۔
عظیم الشان کتاب ”انیس اللیل“[۴۸]میں بیان ہوا ہے کہ خداوندعالم کے فیض عام کی داستان او رمثال روز روشن کی طرح ہے جو افق سے طلوع ہوکر تمام چیزوں پر نور ا فشانی میں ذرہ برابر بھی بخل نہیں کرتا اور اپنی شعاووں سے مستفید ہونے میں ذرہ برابر بھی دریغ نہیں کرتا،اور جب اس کا نور تمام مخلوقات پر پڑتا ہے تو ہر چیز اپنی اپنی استعداد او رقابلیت کے لحاظ سے بھرہ مندھوکر کسب فیض کرتی ہے۔
اسی طرح تمام غیبی اور شھودی (ظاھری) مخلوقات چاھے وہ بڑی سے بڑی ہوں یا چھوٹی سے چھوٹی یہ تمام رحمت الٰھی کے زیر سایہ ہیں، اگر چھوٹی سے چھوٹی چیز بڑے میکرواسکوپ" Maicroscope "کے ذریعہ دیکھی نہ جاسکتی ہوں تب بھی وہ چیزیں خداوندرحمن کے دائرہ رحمت سے باھر نہیں ہیں، اور وہ تمام اپنی استعداد اور قابلیت کے لحاظ سے خدا کی رحمت سے فیضیاب ہوتی رہتی ہیں، اور اسی کے زیر سایہ پروان چڑھ کر اپنے مادی اور معنوی کمال تک پھنچتی رہتی ہیں۔
کائنات کے اس کنارے سے اس کنارے تک اور اس کے غیب وشھود ،اس کے ظاھر وباطن غرض اس کے تمام نشیب و فراز اپنے وجود کے لحاظ سے خداوندعالم کے فیض بے نھایت اور رحمت واسعہ کے زیر سایہ زندہ ہیں، اور ایک لحظہ کے لئے بھی خدا کی رحمت اور اس کے فیض سے الگ نہیں ہیں، اور یھی نہیں بلکہ جدا ہونے کی قدرت بھی نہیں رکھتی ہیں، اور اگر بالفرض جدا بھی ہوجائیں تو ان کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا اوران کا نام ونشان تک باقی نہ رھے گا۔
ایجاد موجودات، رزق مخلوقات، رشد ونمو نباتات، کمالِ جمادات، نزول آیات، ظھور بینات، بعثت انبیاء ہدایت گمراھان، بھٹکے ہووںکی راھنمائی، جانداروں کی زندگی، فرشتوں کا خلقت وجود پھننا، مردوں کا زندہ ہوجانا، نیکو کاروں کا ثواب حاصل کرنا، بدکاروں کو عذاب ملنا، مومنین کی شائستگی، کافروں کی ذلت، قیامت کا برپا ہونا، بھشت و دوزخ کا ظاھر ہونا، خطاکار مومنین کا بخشا جانا اوردنیا بھر کی وہ تمام چیزیں جن میں خیر ہے وہ تمام کی تمام خداوندعالم کے فیض عام اور رحمت واسعہ کی ایک شعاع اور اس کی ایک جھلک ہیں۔
خداوندعالم کی رحمت واسعہ اور اس کا فیض عام نیز بے کراں عنایت؛ ہم لوگوں کی سمجھ سے باھر ہے، طائر فکر اس فضا میں پرواز نہیں کرسکتا اور شاھباز عقل اس کی حقیقت کو معلوم کرنے سے قاصر ہے۔
”کل شیٍ“ کا شمار کرنا یا ان تمام مخلوقات کا گننا جو خدا کی رحمت کے زیر سایہ اپنا وجود رکھتے ہیں، سب پر اسی کا احاطہ ہے، اگرچہ تمام درخت قلم بن جائیں اور تمام دریا روشنائی بن جائیںاور جن وانس اور ملائکہ اس کو لکھنا شروع کردیں تو اس کے موجودات کا شمار کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ ان میں سے ایک حصہ کو بھی نہیں لکھ سکتے۔
قارئین کرام ! ہم یھاں پر خداوندعالم کی رحمت واسعہ کو کسی حد تک سمجھنے کے لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ بعض مخلوقات کی حقیقت کے بارے میں بیان کریں تاکہ ان کے مادی یا معنوی حقائق سے باخبر ہوں، شاید ہماری تشنہ روح اس دریائے عظیم سے ایک قطرہ آب حاصل کرکے اپنی پیاس بجھانے کا سامان فراھم کرسکے، اور روحانی آفتاب کے طلوع ہونے کا نظارہ کریں جو آھستہ آھستہ افق وجود پر طلوع ہوتا ہے۔
جھان ہستی
خداوندعالم کی رحمت واسعہ کے زیر سایہ زندگی گزارنے والی موجودات کو شمار کرنا طول وعرض اور حجم کی شمارش کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
لیکن اس جھان ہستی کا ایک حصہ جس میںیہ انسان چند دنوں کا مھمان ہے اور اس کے لئے جو نعمتیں قرار دی گئی ہیں یا آسمان سے نازل ہونے والی نعمتوں سے فائدہ حاصل کرتا ہے اگر ان کو دانش وعلم کی نگاہ سے دیکھا جائے تاکہ اس کے ایک معمولی سا نظارہ کرسکیںگے اور پھر سمجھ میں آئے گاکہ خدا کی رحمت واسعہ کے کیا معنی ہیں اور یہ معلوم ہوجائے گا کہ واقعاً یہ کتنی عظیم حقیقت اور حیران کن حقیقت ہے؟!
جھان ہستی کی تمام چیزیں باریک باریک بکٹری" Bacteria " اور چھوٹے چھوٹے وائرس " Virus " جو ایک ہزارم ملی میٹر سے بھی چھوٹے ہیں؛ سے لے کر بڑے بڑے کہکشانوں او رستاروں تک جو کروڑوں کلو میڑ سے بھی دور ہیں؛ تمام کی تمام چیزیں ذرہ " Itome "سے بنی ہیں۔
ذرہ اتنا باریک ہوتا ہے کہ بڑی سے بڑی خوردبین میکرو اسکوپ " Maicroscope "کے ذریعہ بھی نہیں دیکھا جاسکتاھے، ایک سر کے بال میں ۵۵ ملین در ملین در ملین(۵۵,۰۰۰,۰۰۰,۰۰۰,۰۰۰,۰۰۰,۰۰۰.) جوھری ذرات ہوتے ہیںاگر مثال کے طور پر اس بال کے سرے کو ایک بہت بڑی عمارت کے برابر بڑا کریں تو اس کا ہرذرہ اس کے ہر ستون پر مکھی کی طرح چلتا دکھائی دیگا۔
اور یہ ذرہ ”رحمت الٰھی “ کی بنا پر درج ذیل تین ذروں سے تشکیل پاتا ہے:
۱ ۔الکٹرن" E'lectron "
۲ ۔پروٹان " Proton "
۳ ۔نیوٹران " Neutron "
اور الکٹرون الکٹریسیٹ" Electricity "کا ایک منفی واحد ہے ، اسی طرح پروٹان " Electricity "کا ایک مثبت واحد ہے جبکہ نیوٹران برقی رو کے لحاظ سے خثنیٰ " Neturan " ہے۔
پروٹان اورنیوٹران مل کر اٹم کے مرکز کو تشکیل دیتے ہیں اور الکٹران ایک مرکز کے اردگردگھومتے ہیںجس طرح سے چاند زمین کے مدار میں گھومتا ہے۔ [۴۹]
تو جب اس جھان ہستی کی عمارت میں موجود ذرہ کو کوئی شمار نہیں کرسکتا تو ان کی خلقت اور اس عمارت میں لگی دوسری چیزوں اور ان کی پیدائش کی کیفیت کے بارے میں خدائے وحدہ لاشریک کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں ہے:
”(
مَا اشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالْارْضِ وَلاَخَلْقَ انفُسِهِمْ
)
۔۔۔“[۵۰]
”ھم نے ان شیاطین کو نہ زمین و آسمان کا گواہ بنایا ہے، اور نہ خود انھیں کی خلقت کا۔۔“۔۔
قارئین کرام ! جس کی تائید قرآن کریم بھی کرتا ہے اور بڑے بڑے دانشوروں نے بھی اپنی اپنی تحقیق کے اعتبارسے اپنی کتابوں میں لکھا ہے وہ یہ ہے کہ اس جھان ہستی کی عمارت میں کام آنے والے ساز وسامان یہ تھے: ذرات، دھواں اور گیس ، جو فضامیں بھٹک رھے تھے، لیکن ایک دوسرے سے اتنے دور تھے کہ کبھی کبھی ایک دوسرے سے مل پاتے تھے:جیسا کہ ارشاد رب العزت ہوتا ہے:
”(
ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ وَهِیَ دُخَان
)
۔۔۔“[۵۱]
”اس کے بعد ہم نے آسمان کا رخ کیا جو بالکل دھواں تھا۔۔“۔
اس آسمان کو اس نے ستاروں کے ذریعہ سجایااس طرح سے کہ کروڑوں ذرات اور گیس بادلوں کی شکل میں پیدا ہوگئے، اور بادلوں کے ٹکڑے ان ذروں کو ایک مرکز کی طرف جذب کرنے لگے، اور آخر کار بادل ایک جگہ جمع ہوگئے، اور وہ ذرات ایک دوسرے کے نزدیک ہوگئے، اور جب ان ذروں میں رگڑ پیدا ہوتی ہے تو گرمی ہونے لگتی ہے، اور کبھی کبھی ان بادلوں میں اس قدر گرمی پیدا ہوتی ہے کہ جن سے تاریک فضا میں روشنی ہونے لگتی ہے، آخر کارکروڑوں بادل ستاروں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے تاریک فضا میںروشنی پھیل جاتی ہے اور آسمان؛ ستاروں سے جگمگااٹھتا ہے۔
ادھر وسیع وعریض جنگل اور بیابانوں میں بادلوں کے جھرمٹ سبھی جگہ پر ہوتے ہیں، مادہ کے ذرات ٹکراکرپھر آپس میں مل جاتے ہیں،اور بادل متلاطم دریا کی مانند منڈلاتے ہوئے گیس میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور ادھر اُدھر دوڑنے لگتے ہیں، اور یہ دھویں اور گیس کا دریا اس طرح گھومتے ہیں اور گڑگڑاتے ہیں ، اور یہ موج کا مخفی تلاطم اور ان مخفی امواج کا ٹوٹنا جو کہ ان میں سے ہر ایک بہت بڑا اقلیم ہوتا ہے، اس دریاکے اندر ایک طوفان برپا کردیتا ہے، موجیں آپس میں ٹکراتی ہیں اور پھر مل جاتی ہیں۔
اس متلاطم دریا کے درمیان جوار بھاٹا کی طرح ایک دائرہ پیدا ہوا جس کے درمیان ایک ابھار تھا اس سے آھستہ آھستہ روشنی نکلی یہ سانپ کی چال جیسا راستہ جس کا نام ”کہکشان راہ شیری“ ہے اس کے ایک حصہ میں منظومہ شمسی پایا جاتا ہے۔ (تو آپ حضرات اس مخلوق کا اندازہ لگاسکتے ہیں)
خدا کی رحمت کے زیر سایہ اور اس کی قدرت کی وجہ سے آفتاب اور منظومہ (شمسی) کی خلقت کچھ اس طرح سے تھی کہ کہکشاں کے ایک حصہ میں پر آشوب طوفان پیدا ہوا، اور گیس کے تیز دوڑنے کی وجہ سے وہ گھومنے لگا، جس سے ایک بڑے گول پہئے کی طرح بن گیا اور اس کے اطراف سے روشنی نکلنے لگی۔
یہ بڑا گول دائرہ اس تعجب آور کہکشاں میںاسی طرح گھومتا رھا، یھاں تک کہ آھستہ آھستہ اس کی گیس اس کے مرکز تک پھنچ گئی، اس وقت اس بڑے دائرہ کی شگل بن گئی اور آخر کار آفتاب کی شکل میں ظاھر ہوگیا:
”(
وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِیهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا
)
۔“[۵۲]
”اور قمر کو ان میں روشنی اور سورج کو روشن چراغ بنادیا“۔
اس کے بعد سورج کے اردگرد موجود گیس اور غبار نے ایک کنڈل کی شکل اختیار کرلی وہ اس سے جدا ہوگئے جس کا ہر ایک حصہ ایک گرداب (گڑھا) کی شکل بن گیا، جن میں سے ہر ایک گڑھے کا راستہ الگ الگ تھا اور وہ سب خورشید کے ارد گرد گھومتے رہتے تھے جن میں سے بعض نزدیک اور خورشید سے دورتھے۔
سورج کے نزدیک والی بھنورمیں گرمی اور دور والی میں سردی ہوتی تھی۔
اور ہر بھنور میں گیس اور غبار کے ذرات گھومتے رہتے تھے جن میں سے گیس کے ذرات سے بخار بنتا تھا اور شبنم کی طرح غبار کے ذرات پر گرتا تھا اور جب ذرات غبار پر گرتے تھے تو شبنم کی تری سے وہ ایک دوسرے سے چپک جاتے تھے، اور بعض اوقات پانی اور مٹی برف کی صورت اختیار کرلیتے تھے۔
ھر بھنور میں اس طرح کے ملیونوں حصے تھے ، قوت جاذبہ ان کو اپنی طرف کھینچتی تھی جس کی وجہ سے یہ حصہ ایک دوسرے سے مل جاتے تھے اور اس سے زیادہ بڑے بڑے ٹیلہ بن جاتے تھے جس سے ایک گھومتی ہوئی گیندبن جاتی تھی، اور یہ عظیم گینداپنی جاذبہ قوت کی بنا پر اپنے حصوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی جس کی بنا پر ہر روز بڑی سے بڑی ہوتی چلی جاتی تھی، آخر کار خدا کی قدرت اور اس کی رحمت سے یہ گیند زمین کی شکل میں بن گئی۔
اس کے بعد دوسرے سیاروں نے بھی گرداب سے نکلنا شروع کیا اور اپنے راستہ پر سورج کے اطراف گھومنا شروع کیا، عطارد سورج سے سب سے زیادہ قریب تھا اور اس کے بعد زھرہ، زمین اور مریخ تھے، اور مریخ کے اس طرف مشتری ،زحل اورانوس اور نیٹون جیسے عظیم سیارے سورج کے چاروں طرف گھومتے تھے اور نپٹون سے تھوڑے فاصلہ پر پلوٹو نامی سیارہ تھا۔[۵۳]
قارئین کرام ! یہ دنیا اتنی ہی بڑی ہے جتنا چھوٹا ایک ذرہ ہوتا ہے جس طرح انسان ایک ذرہ کی حدتک نہیں پھنچ سکتا اسی طرح وہ دنیا کی سرحد تک نہیں پھنچ سکتاھے، اس کی حد کو معین کرنا نوع بشر کے بس کی بات نہیں ہے۔ نور حیرت انگیز تیزی کے ساتھ ہر سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیڑ کی رفتار سے دوڑتا ہے ، اور اس رفتار کے پیش نظر ہمارے نزدیک والے ستارے کی روشنی چار سال کی مدت میں ہم تک پھنچ سکتی ہے۔!!
”کالی فورنیا “کی ایک ٹیلی اسکوپ " Telescop "جس کے شیشہ کا حجم پانچ میٹر ہے ، اس کے ذریعہ ایسے ستاروں کا پتہ لگایا گیا ہے جو ہم سے اتنی دور ہیں کہ ایک ہزار ملین سال کے بعد اس کا نور ہم تک پھونچتا ہے!!
ستاروں کی تعداد ان ٹیلی اسکوپوں کے ذریعہ دیکھا جائے تو ان ستاروں کی تعداد اس سے زیادہ ہے کہ اگر سو سال بھی دن رات ان کو شمار کریں اور ہر سیکنڈ میں ایک ستارہ کو شمار کریں تو بھی اس مدت میں تمام ستاروں کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔
کہکشاں ایک بہت بڑا دائرہ ہے جس کا مرکزی حصہ موٹا ہے جس میںہزار ملین ستارے ہوتے ہیں ، جس کی لمبائی ایک لاکھ نوری سال کے برابر ہے اور اس کے مرکز کی چوڑائی بیس ہزار نوری سال کے برابر ہے!!
اگر ہم آج کل کی بڑی سے بڑی نجومی دوربین کے ذریعہ آسمان پر موجود کہکشانوں کو دیکھ سکیں تو ایک احتمال کی بنا پر اس کائنات میں ۱۵۰ ملین کہکشاں پائے جاتی ہیں،اور ہر کہکشاں کا فاصلہ ایک دوسرے سے دو ملین نوری سال کے برابر ہے۔[۵۴]
قارئین کرام ! یہ سب کچھ اس ناشناختہ دنیا کا ایک حصہ ہے جو آج کل کی ٹیلی اسکوپ کے ذریعہ دیکھا جاسکتا ہے، لیکن اس عالم ہستی کی اکثر چیزیں ٹیلی اسکوپ وغیرہ کے ذریعہ بھی نہیں دیکھی جاسکتیں، لہٰذا اس دنیاکی حدود کو معین کرنا انسانی علم کے بس میں نہیں ہے، اور ان کے خالق کے علاوہ کوئی دوسرا ن کی حقیقت سے باخبر نہیں ہوسکتا۔
بصیر بے نظیر، آیت کبیر ، صالح خبیر حضرت امیر علیہ السلام کے قول کے مطابق: تمام مخلوقات، خدا کی رحمت کے زیر سایہ ہےں، وہ رحمت جس کی وجہ سے ان تمام مخلوقات کی خلقت ہوئی اور ان میں رشد ونمو ہوئی اور ان تک ان کے لئے ضروری غدا پھنچائی گئی اور نقصان دہ چیزوں کو دور کیا گیا۔
انسان کائنات کاسب سے شریف مھمان
جب خداوندعالم نے اس کائنات کو آراستہ کیا ،اس کے لئے نظام معین کیا ،ضروری اشیاء وسامان فراھم کیا،نیز اپنی کامل نعمتوں کا دسترخوان بچھایا، اس وقت خداوندمنان نے یہ ارادہ فرمایا کہ اپنی رحمت ومھربانی کی بنا پر ایک شریف مھمان، ایک محترم موجود جو جسم ، جان، روح، مغز، دل، فطرت اور کرامت سے مرکب ایک مخلوق کو اپنے معنوی خلیفہ کے عنوان سے اس قلیل مدت کے لئے ایک مھمان سرا میں ذمہ داریوں کے ساتھ بھیجاتاکہ اس کائنات کی تمام تر نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جسم میں قدرت اور طاقت جمع کرے اور اس قدرت کو کتاب آسمانی ،انبیاء علیھم السلام اور ائمہ علیھم السلام کے حکم کے مطابق خدا کی عبادت وبندگی اور مخلوق کی خدمت میں بروئے کار لائے،اور اس کے بعد موت کے راستہ سے دوسری دنیا میں پھنچ جائے اور وھاں پر ہمیشہ کے لئے اپنے کئے ہوئے اعمال کی جزا پائے، اور ہمیشہ حضرت حق کی رحمت کے زیر سایہ ایک مثالی زندگی بسر کرے۔
قارئین کرام ! ہم یھاں پر خداوندعالم کی وسیع رحمت جو ہر طرف سے انسان کو گھیرے ہوئے ہے اس کا ایک نظاھر کرتے ہیں،لہٰذا چند نکات کی طرف اشارہ کررھے ہیں:
انسانی زندگی کے مراحل:
قرآن مجید نے انسانی زندگی کے مراحل کو مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہے، ارشاد رب العزت ہورھا ہے:
”(
وَقَدْ خَلَقَکُمْ اطْوَارًا
)
۔“[۵۵]
”جب کہ اسی نے تمھیں مختلف انداز میں پیدا کیا ہے“۔
پھلا مرحلہ : خاک
ارشاد قدرت ہوتا ہے:
”(
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِنْ سُلاَلَةٍ مِنْ طِینٍ
)
۔“[۵۶]
”اور ہم ہی نے انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے“۔
اس انسانی نطفہ کی مختلف غذا ئیںھےں جو گھاس ، گوشت، دودھ وغیرہ سے تشکیل پاتی ہیں، حیوانات بھی نباتات سے اپنی غذا حاصل کرتے ہیں اور نباتات خاک او رمٹی سے اپنی غذا حاصل کرتے ہیں۔
لہٰذا یہ نطفہ جو بعد میں انسان کی شکل میںظاھر ہوا، یہ بھی خاک سے پیدا ہوا ہے، آج کل کی ہوئی ریسرچ نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ زمین میں پائے جانے والے عناصر جیسے آئیرن، مس کیلشم او راجزائے نمک وغیرہ ، یہ تمام چیزیں انسان کے اندر بھی پائی جاتی ہیں، اور یہ انسان ہمیشہ نباتات اور حیوانات کے ذریعہ مٹی کے عناصر سے فائدہ حاصل کرتا ہے، اور پھر اسی طرح اس کی نسل آگے بڑھتی ہے۔
دوسرا مرحلہ: پانی
خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:
”(
وَهُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنْ الْمَاءِ بَشَرًا
)
۔۔۔۔“[۵۷]
”اور وھی وہ ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا ہے“۔
ماھرین زمین نے انسان کو ایک سوختہ کی مانند بتایا ہے جس میں پانی بھرا ہوا ہے ۔ ۷۰ کلو وزن والے انسان میں ۵۰ لیٹر پانی ہوتا ہے، اور ہمیشہ یھی نسبت باقی رہتی ہے۔
اور اگر کسی شخص کا ۲۰ فی صد پانی خشک ہوجائے تو پھر اس کی صحت وسلامتی خطرہ میں پڑجاتی ہے۔
انسان کے بدن کے خلیہ " Cellule "میں موجود پانی کے اندر کافی مقدار میں پوٹیشیم " Potassium "ھوتا ہے جس میں عملی طور پر نمک نہیں ہوتا اس کے برخلاف باھر کے پانی کے اجزاء میں " Potassium "نھیں ہوتا، بلکہ ایک مقدار میں نمک ہوتا ہے، باھر کے پانی کی یہ ترکیب بالکل دریا کے پانی سے مشابہ ہوتی ہے کیونکہ کروڑوں سال پھلے کسی جاندار کی زندگی دریا سے شروع ہوئی تھی اور جب دریائی موجودات نے زمین کی طرف رخ کیا اور دریا کے اندر کی اشیاء کو اپنے ساتھ لائے کیونکہ ان کے لئے بغیر ان کے خشکی میں زندگی بسر کرنا ممکن نہ تھا۔
جی ہاں! یہ ہے قرآن مجید کا تعجب خیز معجزہ کہ اس خشک وگرم صحراء میں بغیر کسی سائنسی آلات کے جاہل لوگوں میں یہ اعلان کیا: ”وھی (خدا) ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا ہے“۔
تیسرا مرحلہ: علق
”(
خَلَقَ الإنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ”
)
[۵۸]
”اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے خلق کیا ہے“۔
لغت میں ”علق“ کے معنی ایک کیڑے کے ہیں جو رحم مادر کے پردہ سے چپکا رہتا ہے؛ نیز خون میں موجود ایک خاص قسم کے جراثیم کو بھی ”علق“ کھا جاتا ہے، جو ”جونک“ کی مانند ہوتا ہے آج جب سائنس نے ترقی کی اور اسپرمیٹوزائیڈ " Spermatozoide " [۵۹] کو مائیکرواسکوپ " Maicroscope " کے ذریعہ دیکھا تو اس میں بہت سے ایسے خلیے دیکھے گئے جو خون میں دوڑرتے ہیں اور جب یہ کیڑے عورت کے رحم میں جاتے ہےں تو وہ جوک مانند کیڑا رحم سے چمٹ جاتا ہے۔
اسپرمیٹوزائید" Spermatozoide " تقریباً چار سینٹی میٹر مکعب ہوتا ہے جس کے ایک سینٹی میٹر میں سو سے دوسو ملین تک کیڑے ہوتے ہیں اور یہ تعجب آور کیڑے سب کے سب عورت کے مادے بنام”اوول“ کی طرف دوڑتے ہیں۔
ایک جوان لڑکی کے رحم میں تقریباً تین لاکھ نارسیدہ تخم (کچے انڈے) ہوتے ہیں لیکن ان میں سے تقریباً چار رسیدہ (پکے) ہوتے ہیں۔
جس وقت عورت کو حیض آتا ہے اس وقت وہ تخم اپنی تھیلی سے نکل جاتے ہیں اور تخم دان اور بچہ دانی کے درمیان جو نالی ہوتی ہے ؛اس میں دوڑتے ہوئے بچہ دانی تک پھونچتے ہیں اور مرد کے نطفہ کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں!۔
چوتھا مرحلہ: ناچیز پانی سے پیدائش
”(
ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِنْ سُلاَلَةٍ مِنْ مَاءٍ مَهِینٍ
)
۔“[۶۰]
”اس کے بعد اس کی نسل کو ایک ذلیل پانی سے قرار دیا ہے“۔
یہ منی کا خلیہ اور قرآن کے الفاظ میں ”علق“ اورمرد کی منی جب عورت کے رحم میںپھونچتی ہے تو پھر ان میں عجیب جنگ شروع ہوجاتی ہے۔
اس عجیب وغریب جنگ میں تقریباًبیس کروڑ " Sper " جنگ کرتے ہیں اور ۱۵ کلومیٹر گھنٹہ کی رفتار سےعورت کی تخم دانی کی طرف دوڑتے ہوئے تھوڑی ہی دیر میں پھلی لائن میں موجود " Sper " تخم داں کے پردہ کی دیوار تک پھونچ جاتے ہیں۔
اور اچانک ہزاروں کیڑے عورت کے تخم داںکے چاروں طرف جمع ہوجاتے ہیں اور وہ کیڑے اپنی دُم ( پونچھ) ہلاتے رہتے ہیں ، اور اگر ان کو ذرہ بین کے ذریعہ دیکھا جائے تو ایک ایسا منظر دیکھنے کو ملتا ہے جیسے کوئی چمن ہوا چلنے کی وجہ سے لھرارھا ہو، اور جب تک ایک کیڑا اس انڈے کے اندر داخل نہ ہوجائے تو یہ جنگ جاری رہتی ہے۔
ھر " Sper " یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ سب سے پھلے اس انڈے کے اندر پھنچ جائے اور جب پھلا " Sper " انڈے میں سوراخ کرکے اس کے اندر جاتا ہے اور اس کی دم جو پھلے سے زخمی رہتی ہے اس کے داخل ہوتے ہی اس حصہ میں ورم آجاتا ہے ادھر انڈے کے درمیان موجود پروٹوپلازم " Protoplasm " ایک پانی چھوڑتا ہے جس کی وجہ سے کوئی دوسرا کیڑا س انڈے کے اندر داخل نہ ہوپائے۔
اس بنا پر بیس کروڑ " Sper "میں سے صرف ایک " Sper " اس انڈے میں داخل ہوتا ہے جس سے انسان بنتا ہے؛ اور اگر خدا کی رحمت واسعہ شامل حال ہوجائے تو دو یا تین " Sper "بھی داخل ہوسکتے ہیں جس کے بنا پر جڑوا ںبچے پیدا ہوتے ہیں۔
پانچواں مرحلہ: امشاج ”انڈے کا خلیہ“
”(
إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ امْشَاجٍ
)
۔۔۔“[۶۱]
”یقینا ہم نے انسان کو ایک ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا ہے“۔
انسان کی پیدائش کے لئے پھلے (عورت کا)انڈایعنی عورت کے جنسی خلیہ جس میں مرد کا " Sper " داخل ہوچکا ہے؛ اس کو عورت کے رحم میں داخل ہونا چاہئے ، اور یہ انڈا مرد کے جنسی " Sper " سے ۲۵ لاکھ برابر بڑا ہوتا ہے ؛ اور جب اس پر مرد کے جنسی " Sper " کا حملہ ہوتا ہے تو ایک " Sper " کو اندر داخل کرلیتا ہے اور مرد کے کرموزوم " Chromosome "نامی خلیہ جن کی تعداد آدھی رہ جاتی ہے عورت کے انڈے کے کرموزوم" Chromosome " نامی خلیے سے مل جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں ” تخمی خلیہ“ بنتا ہے جس کو قرآن کی زبان میں ”امشاج “کھا گیا ہے۔
اگر مرد اور عورت کے ان خلیوں کے لئے بہترین زندگی کا موقع فراھم کیا جائے تو پھر بھی یہ زندہ نہیں رہ سکتے اور جلد ہی ان کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
لیکن جب یہ ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں تو پھر ان میں زندہ رھنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ان کو ”تخمی خلیہ“ یا قرآن کی اصطلاح میں ”امشاج“ کھا جاتا ہے۔
اور جب اس طریقہ سے نطفہ ٹھھر جاتا ہے تو ” تخمی خلیہ“ تقسیم کرنا شروع کردیتا ہے پھلے دوحصوں میں پھر چار حصوں میں اور اس کے بعد آٹھ حصوں میں تقسیم ہوتا اور اسی طرح تقسیم ہوتے ہوتے ان خلیوں کا ایک ڈھیر لگ جاتا ہے۔
چھٹا مرحلہ: جنین کی صورت اختیار کرنا
(
هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِیٴُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ
)
۔۔۔“[۶۲]
”وہ ایسا خدا ہے جو پیدا کرنے والا ہے، ایجاد کرنے والااور صورتیں بنانے والا ہے، اس کے لئے بہترین نام ہیں“۔
جب یہ خلیے پورے ہوجاتے ہیں یعنی جنین کے جسم کے ضروری ساز وسامان مھیا ہوجاتے ہیں تو پھر انسانی جسم کو تیار کرنے کے بہت سے خلیے رحم مادر کو دئے جاتے ہیں اور اس طرح شکم مادر میں انسان رشد ونمو کرتا ہے:
خدا کی رحمت واسعہ کے زیر سایہ اور اس کی قدرت سے یہ بے شمار خلیے سب سے پھلے ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں اور ہر خلیہ اپنی مخصوص جگہ چلا جاتا ہے، مغزی خلیہ، آنکھ کا خلیہ اور کان وغیرہ کے خلیے، اور ہر ذرہ اپنے مخصوص حصہ کو حاصل کرکے انسان کے اعضاء کو تشکیل دیتے ہیں جس کی بنا پر یہ خلیے آھستہ آھستہ انسان کی شکل پیدا کرلیتے ہیں۔
جنین کی بائیں طرف ایک چھوٹی سی گولی جیسی ایک چیزھوتی ہے جو جنین کا غذائی مرکز قرار پاتی ہے اور یہ گولی خون میں دوڑتی رہتی ہے ، اور غذا، پانی اور سانس جو نظام ہاضمہ اور اوکسجن" Oxygen "کے ذریعہ خون میں داخل ہوتی ہیں؛ سے حاصل کرکے ناف کے ذریعہ بچے کے بدن میں داخل ہوتی ہے!
قارئین کرام! یہ ہے خدا کی رحمت واسعہ ، جس کے آثار خلقت کے ذرہ ذرہ میں آفتاب سے بھی زیادہ روشن ہے۔
ساتواں مرحلہ: تین پردوں میں بچہ کا لپٹا ہونا:
”(
یَخْلُقُکُمْ فِی بُطُونِ امَّهَاتِکُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِی ظُلُمَاتٍ ثَلاَثٍ
)
۔۔۔“[۶۳]
”وہ تم کو تمھاری ماؤں کے شکم میں تخلیق کی مختلف منزلوں سے گزارتا ہے، اور یہ سب تین تاریکیوں میں ہوتا ہے۔۔“۔
آھستہ آھستہ بچہ کے اوپر درح ذیل تین قسم کے پردے پیدا ہوتے ہیں :
۱ ۔ Amnionic Membran ،پردہ امینوس اس پردہ کو کہتے ہیں جو بچہ کے باھری رشد ونمو کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور پھر وہ موٹا ہوتا رہتا ہے جس کی بنا پر بچہ کی پیٹھ پر امینوس نام کا گڈھا پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے بچہ سانس لیتا ہے۔
۲ ۔ chorion Membran ،پردہ کوریون امینوس کے پردہ کے اوپر ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچہ محفوظ رہتا ہے۔
۳ ۔ Disidua Membran ، یہ پردہ بچہ کے شکم کے پاس ہوتا ہے جو اس کے نظام ہاضمہ سے متعلق ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بچہ کی غذا ہضم ہوتی ہے، اور یھی پردہ ہوا، نور، پانی اور (معمولی) چوٹ سے کوئی نقصان نہیں ہونے دیتا، نیز امینوس اور بچہ کے درمیان ایک پانی ہوتا ہے جو شکم مادر پر کوئی چوٹ لگنے پر سیال بن جاتا ہے جس کی وجہ سے بچے پر (معمولی) چوٹ کا کوئی ضرر نہیں پھونچتا۔
یہ ہے خدا کی رحمت واسعہ جو تمام چیزوں کے شامل حال ہے، اور جس کی ایک جھلک بچہ کے حالات میں دیکھی جاسکتی ہے۔
ٹھواں مرحلہ: روح کا پھونکا جانا
(
” ثُمَّ انشَانَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللهُ احْسَنُ الْخَالِقِینَ
)
۔“[۶۴]
”پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنادیا ہے تو کس قدر بابرکت ہے وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والا ہے“۔
بچہ کی صورت بننے کے بعد جو خود ایک تعجب خیز دنیا ہے اور خدا کی قدرت کا ایک مظھر ہے، اور جس کی بہت سی چیزیں ابھی پوشیدہ ہےں جس کو آج کی سائنس نے بھی کشف نہیں کیا ہے؛ روح پھونکنے کی باری آتی ہے جو خود بھی بہت حیرت انگیز چیز ہے۔
خداوندعالم اپنی رحمت او رارادہ کے ذریعہ جنین میں ایک اور تعجب خیز حالت پیدا کرتا ہے یعنی اس میں روح پیدا کردیتا ہے اور مردہ جنین کو زندگی عطا کردیتا ہے!!
اس کے بعد بچہ اپنی انگلی چوسنے لگتا ہے تاکہ پیدائش کے بعد فوراً ماں کا دودھ پی سکے!!
نواں مرحلہ: پیدائش
”(
وَاللهُ اخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُونِ امَّهَاتِکُمْ
)
۔۔۔“[۶۵]
”اور اللہ ہی نے تمھیںشکم مادر سے اس طرح نکالا ہے کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے“۔
بچہ کی پیدائش کا مرحلہ بھی ایک حیرت انگیزحقیقت ہے جو اس نظام خلقت میں رونما ہوتی ہے، وہ بچہ جو نو مھینہ تک شکم مادر کے اندھیرے میں زندگی بسر کرتا ہے ، اور اس کے بعد خدا کی رحمت واسعہ کے سایہ میں اس نئی دنیا میں قدم رکھتا ہے جو اس کی پھلی منزل سے بالکل مختلف ہے، لیکن خداوندعالم نے اپنی وسیع رحمت سے اس بچے میںوہ صلاحیت عطا کی ہے جس کی بنا پر اس دنیا کی فضا سے اپنے آپ کو ہم آھنگ کرسکے۔
شکم مادر میں بچہ ۳۷ درجہ گرمی میں رہتا ہے لیکن جب اس دنیا میں آتا ہے تو کھیں اس سے زیادہ گرمی ہوتی ہے اور کھیں سردی، لیکن پھر بھی اس نئی فضا سے اپنے کو ہم آھنگ کرلیتا ہے۔البتہ یہ کیسے ہوتاھے یہ علم طب کا ایک معمہ ہے، یہ بچہ جو اندھیرے سے روشنی میں قدم رکھتا ہے اور اس دنیا کی چکاچوندھ روشنی اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے برداشت کرتا ہے۔ مرطوب اور چپکی ہوئی جگہ سے خشک مکان میں قدم رکھتا ہے، لیکن پھر بھی اس دنیا کی فضا سے اپنے کو ہم آھنگ کرلیتا ہے۔ ولادت سے پھلے تک ناف کے ذریعہ اپنی غذا حاصل کرتا تھا لیکن اب منھ کے ذریعہ اپنی غذا حاصل کرنا شروع کردیتا ہے، اور براہ راست ہوا کے ذریعہ سانس لینے لگتاھے۔[۶۶]
قارئین کرام ! یہ خداوندعالم کی رحمت واسعہ کے جلوے ہیں جو سب چیزوں پرسایہ فگن ہے، اور انسان اس مقام پر اپنے تمام وجود کے ساتھ خداوندعالم کی بے شمار نعمتوں پر شکر کرنے کے لئے قدم بڑھا دیتا ہے اور اپنے حال دل اور زبان سے روتے گڑگڑاتے ہوئے اپنے لئے مادی اور معنوی نعمتوں میں اضافہ کے لئے درخواست کرتا ہوا نظر آتا ہے:
”اللّٰهُمَّ اِنّیِ اسْا لُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتي وَ سِعَتْ کُلَّ شَيْءٍ
“
رحمت خدا کے عجیب وغریب جلوے
قارئین کرام ! یھاں پر انسان کے سلسلہ میں خداوندعالم کی عجیب وغریب رحمت کے بارے میں وضاحت کی جانامناسب ہے ،شاید اس کے بعد ہمارے دل کے آئینہ سے حجاب غفلت اٹھ جائے، ہماری روح اس کے نور سے روشن ہوجائے، ہماری عبادت اور خلوص میں اضافہ ہوجائے، اور حتی الامکان ہم گناھوں سے نفرت کرنے لگیں۔
انسان کا دماغ سائنس کے لحاظ سے ایک عجیب وغریب مشین ہے، اور ایسے ایسے کام انجام دیتا ہے جو آج کی ترقی یافتہ مشین بھی انجام دینے سے قاصر ہے۔
اس دماغ کا کام مختلف واقعات اور حادثات کو محفوظ رکھنا ہے، جس کو قوہ حافظہ کھا جاتا ہے۔ انسان کا حافظہ مغز کے صرف تھوڑے سے حصہ سے متعلق ہوتا ہے، حافظہ کی قدرت کو دکھانے کے لئے ایک مثال پیش کی جاتی ہے:
فرض کیجئے ایک ۵۰ سال کا انسان ہواور اپنی سوانح حیات کو بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لکھنا چاھے، تو اس کو لکھنے کے لئے تقریباًبیس صفحات پر مشتمل ۱۶ کروڑ اخباروں کی ضرورت ہے جس میں باریک باریک لکھا جائے ۔ گزرے زمانہ کی یاداشت کو ذھن میں لاناٹیپ آڈیو کیسٹ کی طرح ہے ، بس فرق یہ ہے کہ انسان کے ذھن کی کیسٹ خود انسان کے ذھن سے چلتی ہے لیکن اس کو گھمانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ایک دقیق حساب کے لحاظ سے اگر کوئی ایسی مشین بنائی جائے جو انسانی دماغ کے تمام کام انجام دے تو ایک ایسی بڑی مشین بنانے کی ضرورت ہوگی جو اس دنیا کی سب سے بڑی عمارت سے دگنی ہو، اور اس کے لئے بڑے سے بڑے جھرنوںکے ذریعہ بننے والی بجلی کی ضرورت ہے، اور چونکہ الکٹرونیک بلب اور تار وغیرہ اس میں اتنی گرمی پیدا کردیں گے جس سے اس کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اس جھرنے کا سارا کا پانی درکار ہوگا، تو اس وقت بھی ایسی مشین نہیں بنا پائےںگے جو ایک معمولی انسان کے تمام خیال وفکر کا کام انجام دے سکے۔
پستان مادر سے دودھ پینے کا حکم بچہ کے ذھن سے ہونٹوں کے ذریعہ جاری ہوتا ہے اور بچہ بغیر کسی غلطی کے ماں کادودھ پینے لگتا ہے۔
ماں کے جسم میں ایک اٹومیٹک کیمیائی " chimie "کارخانہ ہوتا ہے جو خون کو بہترین اور مفید غذا (یعنی دودھ) میں تبدیل کردیتا ہے، اور بچہ کے نظام ہاضمہ کے لئے بھی مناسب ہوتا ہے۔
اس کارخانہ سے حاصل شدہ دودھ پستان مادر میں جمع ہوجاتا ہے اور بچہ کے پیٹ میں داخل ہوکر بچے کے بدن کا جز بن جاتا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس پستان کی نوک بچہ کے منھ کے لحاظ سے ہوتی ہے اور اس میں باریک باریک سوراخ ہوتے ہیں کہ جب بچہ دودھ پینا شروع کرتا ہے تو وہ سوراخ کھل جاتے ہیں، اور پھر خود بخود بند ہوجاتے ہیں تاکہ بچہ کا دودھ برباد نہ ہونے پائے۔
جس وقت سے عورت حاملہ ہوتی ہے اسی وقت سے دودھ بنانے والا سسٹم اپنی کارکردگی شروع کردیتا ہے اور جتنا بچہ رشد ونمو کرتا ہے اسی لحاظ سے یہ سسٹم بھی اپنی فعالیت میں اضافہ کردیتا ہے، اور ولادت کے وقت تک بچہ کے مزاج کے مطابق دودھ آمادہ ہوجاتا ہے۔
ولادت کے بعد بچہ جس قدر بڑا ہوتاجاتا ہے اور اس کا نظام ہاضمہ طاقتور ہوتا رہتا ہے اسی لحاظ سے دودھ کے ویٹامن بڑھتے رہتے ہیں!
قارئین کرام!
یہ عجیب وغریب اور حیرت انگیز حقائق ، فعل وانفعالات اور تغیر وتبدیلی تمام کی تمام انسان کی رشد ونمو کے لئے ہے، اور یہ سب بے انتھا رحمت الٰھی اور اس کے لطف وکرم ہی کا نتیجہ ہے؟!!
لہٰذا انسان کوان تعجب آور چیزوں پر غور وفکر کرنا چاہئے تاکہ ان کو دیکھ کر خدا کی شکر گزاری اور اس کی عبادت میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرے جس کے نتیجہ میں خدا کے لطف وکرم اور مادی ومعنوی نعمتوں میں اضافہ ہوسکے اور انھیں تمام چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے اس کے درِ رحمت پر کاسہ گدائی پھیلاتے ہوئے کھے:
”اللّٰهُمَّ اِنّیِ اسْا لُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتي وَ سِعَتْ کُلَّ شَيْءٍ
“
تنفسی نظام ( Respiratoy System )
انسان کی عام زندگی میں پھیپھڑے کی فعالیت ۵۰۰ ملین بار انجام پاتی ہے۔
تنفسی مشین میں لاکھوں غدّے ہوتے ہیں جن میں سے ایک چپکنے والا پانی نکلتا رہتا ہے، اور ان غدوں کا کام نقصان دہ ذرات کو اپنی طرف جذب کرلینا ہے تاکہ جب انسان کے منھ میں گرد وغبار جائے تو وہ اس کے بدن میں داخل نہ ہونے پائے۔
اگر ان غدوں میںیہ پانی نہ ہوتا تو انسان کے سانس کی نالی منٹوں میںبند ہوجاتی اور انسان مرجاتا۔
سانس کی نالی میں بہت باریک باریک بال ہوتے ہیں جو اس نالی کو صاف کرتے رہتے ہیں۔
یہ بال ایک سیکنڈ میں ۱۲ دفعہ تمام نالی کو جھاڑو دیتے ہیں اور نقصان دہ گرد وغبار کے ذرات کو ہاضمہ سسٹم میں پھنچادیتے ہیں جھاں پھونچ کر وہ نقصان نہیں کرتے۔
سانس کی نالی ، ۷۵۰ ملین تھیلیوں کو صاف ہوا پھونچاتی ہے جھاںخون میں موجود کاربن " Carbon " آکسیڈ " oxide " زندگی بخش اوکسجن " Oxygen "میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
یہ سانس والی نالی، کتنی چھوٹی ہے لیکن کتنے عظیم اور حیرت انگیزکام انجام دیتی ہے اور ”کل شیءٍ“کاایک مصداق ہے جس پر خداوندعالم کی بے انتھا رحمت سایہ فگن ہے۔
کھال:
انسانی بدن کی کھال بھی بہت مفید ہیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
۱ ۔ کھال میں بہت ہی باریک باریک سوراخ ہوتے ہیں جن کے ذریعہ سانس کا کام بھی لیا جاتا ہے ؛ اور اگر یہ سوراخ بند ہوجائیں تو انسان موت کے گھاٹ اترجائے۔
۲ ۔ کھال میں بہت سے غدے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے پسینہ باھر نکلتا ہے تاکہ جسم کی گرمی مناسب رھے اور زیادہ نہ ہونے پائے۔
۳ ۔ کھال میں چربی کے غدے بھی ہوتے ہےں جن کی وجہ سے بال نرم اور صحیح وسالم رہتے ہیں۔
۴ ۔ کھال کی وجہ سے بہت سے جراثیم بدن میں داخل نہیں ہوسکتے۔
۵ ۔ بدن میںپیدا ہوجانے والا زھر پسینہ بن کر اسی کھال سے باھر نکلتا ہے، اور اس سے انسان کے گردوں کو مدد ملتی ہے۔
۶ ۔ یہ غدّے بدن کے مفید پانی کو نکلنے سے روکتے ہیں۔
۷ ۔ حسّ لامسہ (چھونے والی قدرت) کا مرکز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے سردی، گرمی، صاف، نرم ،سخت ، موٹا اور نازک وغیرہ جیسی چیزوں کا احساس ہوتا ہے۔
المختصر : انسان کی کھال بھی ان چیزوں میں سے جن پر خدا کی رحمت واسعہ سایہ فگن ہے اور اگر خدا کی رحمت نہ ہوتی تو پھر انسانی زندگی میں یہ فعل وانفعال اور مفید تبدیلیاں ممکن نہیں تھیں جن کی وجہ سے انسان زندہ ہے۔
بدن کا دفاعی نظام
جس وقت خداوندعالم نے انسان کے جسم کو پیدا کیا تو اپنے لطف وکرم اور محبت ورحمت کی بنا پر اس کے اندر ایسی قدرت عطا کی جس کی وجہ سے وہ حملہ آور دشمنوں سے مقابلہ کرسکتا ہے یعنی وہ ” میکروب “ " Microbe " اور بیماریاںاس سے (حتی الامکان) دور رہتی ہیں اور انسان کو اپنا دفاع کرنے کے لئے پانچ قدرت عطا فرمائیں:
۱ ۔ کھال، جس نے ہمارے پورے بدن کو ایک قلعہ کی طرح محفوظ بنایا ہے۔
۲ ۔ بافت ہای لنفی،" Lymphe "یہ انسان کے جسم کی کھال کے نیچے ہوتے ہیں جو کریم رنگ کے ہوتے ہیں اور کبھی کبھی ان کا رنگ بدل بھی جاتا ہے۔
اور یہ جسم کے بعض حصے میں موٹے موٹے ہوتے ہیں اور کبھی کبھی نازک ، اور جب ” میکروب “ " Microbe "اور بیماری کھال کے اندر داخل ہوجاتے ہیں تو یہ اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔
۳ ۔ پردہ مخاط: یہ وہ پردہ ہوتا ہے جو جسم کے اعضاء پر ہوتا ہے اور اس کا رنگ اسی عضو کے لحاظ سے ہوتا ہے اور اس کا کام بھی اس عضو کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔
بعض اعضاء بدن جیسے دل پر دو پردے ہوتے ہیں ایک دل کے باھر ہوتا ہے جس کو ”مخاط خارجی“ کھا جاتا ہے اور دوسرا دل کے اندر ہوتا ہے جس ”مخاط داخلی“ کھا جاتا ہے۔
۴ ۔ معدہ کی ترشی: بالفرض اگر کوئی بیماری ان پردوں سے مقابلہ کرکے جسم کے اندر پھنچ جاتی ہے اور معدہ تک پھنچتی ہے تو معدہ کی ترشی (کھٹاس) اس کو نابود کردیتی ہے۔
۵ ۔ سفید گلوبل: یہ سفید گلوبل " Globule" ([۶۷ ]جو گیند جیسے ہوتے ہیں اور جب گندے ” میکروب “ " Microbe "بدن میں داخل ہوکر خون میں وارد ہوجاتے ہیں، تو یھی سفید گلوبل ان سے جنگ کرتے ہیں یھاں تک ان کو نیست ونابود کردیتے ہیں۔
قارئین کرام! یھاں پر ایک قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ یہ سفید گلوبل؛ اگر بدن میں مفید میکروب داخل ہوتے ہیں تو ان سے مقابلہ نہیں کرتے بلکہ ان کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔[۶۸]
قارئین کرام! یہ تمام نعمتیں انسان کو مختلف بیماریوں اور حوادث سے محفوظ رکھنے کے لئے ہےں اور یہ تمام رحمت الٰھی اور رحمت رحمانیہ کی وجہ سے ہیں جو تمام انسانوں کے شامل حال ہےں، جن کی وجہ سے انسان کو زندگی کے پیچ وخم سے گزرنے میں مدد ملتی ہے۔
قارئین کرام! کیا واقعاً ہم اندازاہ لگاسکتے ہیں کہ خداوندعالم کی رحمت کس قدر ہمارے ساتھ ہے؟! وہ رحمت خدا جس نے ہمارے ذرہ ذرہ کے ظاھر وباطن پر سایہ کیا ہوا ہے اور ایک لمحہ کے لئے بھی ہمیں تنھا نہیں چھوڑتی؟!!
گھاس اور ان کے تعجب خیز فوائد
گھاس اور نباتات کی تعداد اور ان کی کارکردگی نیز ان کے اندر موجود ویٹامن وغیرہ؛ انسانی زندگی کے لئے کس قدر مفید ہیں ان کو پیدا کرنے والے خدا کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا۔
اور جیسا کہ گھاس اور نباتات بھی ”کل شیءٍ“ میں شامل ہیں اور رحمت الٰھی ان کے شامل حال ہے لہٰذا ان کے بعض اھم فوائد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
ھوا کے اندر کافی مقدار میں گیس اور اوکسجن" Oxygen "ھوتا ہے ، اوکسجن وہ حیات بخش شئے ہے جس سے انسان او رتمام حیوانات کا فطری تعلق ہے اس کے بغیر انسان اور حیوان کی زندگی ناممکن ہے۔
انسان کے سانس لیتے وقت ایک مقدار اوکسجن پھیپھڑے میں داخل ہوکرخون میں وارد ہوجاتا ہے اور پھر وہ وھاں سے بدن کے مختلف حصوں میں پھنچا دیا جاتا ہے۔
اوکسجن کا کام انسان کی غذا کو بدن کے مختلف خلیوں میں آھستہ آھستہ اور کم حرارت سے جلادینااور جنسی شھوت کو پیدا کرنا ہے۔ اور اس جلانے کی وجہ سے ایک زھریلی گیس بنام کاربن " Carbon "پیدا ہوتی ہے ، جو پھیپھڑے اورخون میں داخل ہوکر سانس کے ذریعہ باھر نکلتی ہے۔
سبھی جاندار ہواسے اوکسیجن لیتے ہیں اور کاربن باھر نکالتے ہیں۔
یھاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے:
ھوا میں کس قدر اوکسیجن ہوتا ہے جوتمام ہی نہیں ہوتا، آخر ہوا میں موجود اوکسیجن کی ایک معین مقدار ہوگی ، اور اربوں انسانوں اور حیوانوں کے سانس لینے سے اس مقدار میں کمی کیوں نہیں آتی، اس کو ہزاروں سال پھلے ہی تمام ہوجانا چاہئے تھا۔!!
ھر انسان ۲۴ گھنٹے میں تقریباً ۲۵۰ گرام خالص کاربن اپنے پھیپھڑے سے نکالتا ہے ۔ اگر بالفرض پوری دنیا کی آبادی کو تین ارب بھی مان لیں تو ایک سال میں تمام انسان ۲۷۳۷۵۰۰۰۰ ٹن زھریلا کار بن ہوا میں چھوڑتے ہیں اور تقریباً اتنا ہی جانوروں کے ذریعہ کاربن ہوا میں آتا ہے۔
یہ زھریلا کاربن ہر سیکنڈ چند گنا بڑھتا رہتا ہے تو پھر یہ جاتا کھاں ہے؟ اگر ہوا میں اوکسیجن اور کاربن ہوتا ہے تو یہ کاربن زیادہ ہوجانا چاہئے تھا کیونکہ آکیسجن کے مقابلہ میں کاربن کی مقدار بڑھتی جارھی ہے، یہ انسان اور حیوانات کس طرح زندہ ہیں یہ مر کیوں نہیں جاتے؟!!
قارئین کرام! اس سوال کا جواب یہ ہے:
رحمت الٰھی کی وجہ سے یہ مشکل آسان ہوگئی ہے اوربہت ہی آسان طریقہ سے خداوندعالم نے اس کا انتظام کیا ہے اور ان کو مرنے سے بچالیا ہے۔
خداوندعالم نے اس دنیا میں بہت سی مخلوقات پیدا کی ہیں جن کی تعداد کوئی نہیں جانتا، اس نے بہت سی ایسی جاندار چیزیں پیدا کی ہیں جن کا سانس لینا اس کے برخلاف ہے۔
جب وہ سانس لیتی ہیں تو ہوا میں موجود کاربن حاصل کرتی ہیںاور اوکسیجن ہاھر نکالتی ہیں ، جس کی بنا پر ہوا صحیح وسالم باقی رہتی ہے ، اوراس دیرینہ خدمت گزار موجود کا نام ”نباتات“ او رگھاس ہے۔
نباتات اپنے پتوں کے ذریعہ کاربن حاصل کرتی ہےں اور اپنے تنے میں اس کاربن کو محفوظ کرلیتی ہےںاور اس کے بدلے اوکسیجن ہوا میں چھوڑتی ہے ، اسی وجہ سے اکثر نباتات میں کاربن پایا جاتا ہے۔
قرآن کریم کی آیات ،امام متقین امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے نورانی کلام اور دعاء کمیل کی روشنی میںخداوندعالم کی رحمت درختوں کے ہرھر پتے میں شامل ہے جس کی بنا پر انسان موت کے خطرہ سے محفوظ ہے ، لہٰذا انسان ان تمام چیزوں کے پیش نظر پتے پتے اور ڈالی ڈالی میں رحمت خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔ اور اگر ان تمام چیزوں کے واضح ہونے کے بعد بھی کسی کورحمت خدا دکھائی نہ دے تو وہ بیمار ہے جس کو جھل وغفلت کا کینسر ہے۔
انسان خدا داد عقل وشعور کے ذریعہ؛ سبزی، اناج اور پھلوں سے لذت اوراپنی سلامتی حاصل کرتا ہے اورانھیں کے ذریعہ اپنی بھوک مٹا تا ہے، یہ تمام چیزیں بدن کے عظیم کارخانے کے لئے ضروری اشیاء میںتبدیل ہوجاتی ہیں جیسے رنگ، ہڈی، کھال، رگ، خون، بال، ناخن، طاقت اور حرارت وغیرہ وغیرہ۔
زندگی میں حیوانات اور حشرات کا کردار
خشکی اور دریا میں بے شمار حیوانات ، حشرات (کیڑے مکوڑے) اور پرندہ نیز خزندے پائے جاتے ہیں جو عالم ہستی کو کتنے عظیم فائدے پھونچاتے ہیں، اور ان سبھی پر رحمت الٰھی سایہ فگن ہے ۔
خدا وندعالم کی بے انتھا رحمت کی وجہ سے ان کے اندر اتنے فوائد پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے انسان کو فائدہ پھنچتا ہے۔ لہٰذا ان میں چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱ ۔ بارور کرنے والے حشرات: پھل دار درختوں میں بھی بعض درخت نر ہوتے ہیں اور بعض مادہ، ان میں سے بعض گردہ دار ( نرخلیہ) ہوتے ہیں جس طرح مرد کا نطفہ ہوتا ہے اور بعض تخمہ دار جو مادہ ہونے کی نشانی ہوتی ہے، اگر درخت نرکا خلیہ مادہ کے تخم تک نہ پھنچے یا اس کے برعکس تو پھر اس درخت پر پھل نہیں لگتے ۔
خداوندعالم نے اپنی رحمت واسعہ کی بنا پراس کام کو انجام دینے کے لئے چھوٹے چھوٹے حشرات پیدا کئے جو اس کام کو آسانی اور بہترین طریقہ سے انجام دیتے ہیں اور وہ ایک درخت کے خلیے کو دوسرے درخت تک پھنچادیتے ہیں۔
قارئین کرام! تعجب کی بات تو یہ ہے کہ یہ حشرات اپنے اس کام میں کسی طرح کی کوئی غلطی نہیں کرتے، مثلاً سیب کے درخت کے خلیے آم کے درخت پر ڈالدیں یا آلو بخارہ کے خلیے کو خربوزہ کی بیل پر ڈال دیں بلکہ سیب کے خلیے کو سیب اور آلو بخارہ کو آلو بخارہ کے درخت ہی کے حوالے کرتے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ درخت بھی ان حشرات کو بغیر انعام دئے واپس نہیں کرتے بلکہ یہ درخت اپنے اندر موجود مٹھاس کو ان کے حوالے کردیتے ہیں ، یہ حشرات اس مٹھائی کو کھاتے ہیں اور دولھا کو دلھن کے پاس پھنچادیتے ہیں تاکہ اپناثمر انسان کے حوالے کردیں، لیکن یہ حضرت انسان ہے جو تمام خدا داد نعمتوں سے فائدہ حاصل کرنے کے بعد بھی شکر خدا سے غافل رہتا ہے!!
۲ ۔ بکری اور گائیں: ماھرین کا کھنا ہے کہ” دنیا میں ہر چیز موجودات کے لحاظ سے ہے“ یہ بات واقعاً بالکل صحیح ہے۔
جی ہاں، پستاندار (یعنی بچہ دینے والے ) حیوانات میں، ماں کے شکم میں بچے کو پلانے بھر کی مقدار میں دودھ ہوتا ہے، لیکن خداوندعالم نے اپنی رحمت کاملہ کی بنا پر گائے،بھینس اور بھیڑ بکری کو اس عام قانون سے الگ رکھا ہے، کیونکہ ان کا دودھ صرف ان کے بچوں ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ ان کا دودھ انسان کے لئے بہترین غذا شمارھوتا ہے۔
گائے، بھینس اور بکری کا دودھ بچوں اور بڑوں کے لئے بہت زیادہ مفید ہے اور دودھ سے حاصل ہونے والی چیزیں انسان کی غذا میں ایک بڑی ضرورت ہے۔[۶۹]
قارئین کرام! کیا ان تمام چیزوں کو ملاحظہ کرنے کے بعد بھی خدا وندعالم کا لطف وکرم نظر نہیں آتااور رحمت خدا دکھائی نہیں دیتی؟!! خداوندمنان نے اپنی رحمت واسعہ کے ذریعہ ان حیوانات کو انسانی خدمت کے لئے خلق فرمایا ہے، ان حیوانات کے بے شمار فوائد ہےں اور احتمالی نقصانات بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں۔
انسان؛ بھینس بکری کے تمام اعضاء سے فائدہ حاصل کرتا ہے اور یہ حیوانات ہر طرح سے انسانی خدمت کے لئے خلق کئے گئے ہیں۔
تعجب اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گوسفند (بھیڑ) کی تین قسمیں ہیں: پشم رکھنے والے، گوشت رکھنے والے اور دودھ دینے والی، جبکہ ان سب کی غذا ایک ہی ہے، واقعاً یہ قدرت خدا ہی کا ایک جلوہ ہے جو ایک ہی حیوان سے ایک ہی غذا کو تین چیزوں میں تبدیل کردیتی ہے، اور انسان کی غذا او رلباس اس کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں۔
گائے، بھینس اور بھیڑ بکری ”کل شیءٍ“کا ایک حصہ ہے جن پر رحمت الٰھی سایہ فگن ہے ، خدا کی رحمت کاملہ کے جلوے اس قدر زیادہ ہیں کہ اس کتاب میں ان کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔
۳ ۔ شھد کی مکھی : ماھرین کا کھنا ہے کہ اکثر پھول ہر وقت اپنا رس باھر نہیں نکالتے، بلکہ اس کا بھی ایک معین وقت ہے، اور اس کی مدت تین گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتی، اور سب پھولوں کے رس نکلنے کا وقت بھی ایک نہیں ہوتا بلکہ بعض میں سے صبح کے وقت اور بعض سے ظھر کے وقت اور بعض سے ظھر کے بعد رس نکلتا ہے، شھد کی مکھی گیاہ شناس (یعنی پھولوں کو پہچانتی ہے) اور وقت شناس بھی ہیں، یعنی پھولوں کو بھی پہچانتی ہے اور ان سے رس نکلنے کے وقت کو بھی، لہٰذا اسی وقت معینہ پر ان میں رس اخذ کرتی ہے۔[۷۰]
اس کے بعد شھد کی مکھی پھولوں کے رس کو ایک بہترین ،لذیذ خوش رنگ اور طاقت بخش شئےمیں تبدیل کردیتی ہے جس کو شھد کھا جاتا ہے، جو تمام غذاؤں میں بے نظیر ہوتا ہے اور وہ خراب بھی نہیں ہوتا، نیز انسانوں کے لئے دواکا کام بھی کرتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
”فِیْهِ شَفَاءٌ لِلنّٰاسِ
“( ۱)
”جس میں پورے عالم انسانیت کے لئے شفاء کا سامان ہے“۔
شھد کی مکھی اور اس کی زندگی کے بارے میں سیکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں جس کے ہر صفحہ پر خدا وندعالم کی رحمت واسعہ کے جلوے ہر پھلو سے ظاھر ہےں، اگرچہ یہ چھوٹی سی مخلوق ہے لیکن حقیقت میں بہت اھم مخلوق ہے۔
ھدایت ،بے مثل نعمت
جب خداوندعالم کے لطف کرم اور اس کی مھربانی نے یہ طے کرلیا کہ انسان کوکچھ دن کے لئے اس دنیا میں بھیجے، اور اس کو آفتاب ومہتاب اور زمین وآسمان جیسی مختلف نعمتوں سے نوازا ،تاکہ ان سے فائدہ حاصل کرے نیز سبزی، اناج اور پھل وغیرہ کے ذریعہ اس کی طاقت کو مکمل کیا اور دریائی، خشکی اور ہوائی جانوروں کے ذریعہ اس کے لئے حلال گوشت کا انتظام کیا، نیز اس کی زندگی میں پیش آنے والے مختلف ساز وسامان مھیا کئے تاکہ وہ اپنی عقل وخرد اور اپنے ارادہ واختیار اور آزادی وحریت پر بھروسہ کرتے ہوئے ہدایت تشریعی کا انتخاب کرے جس کو صراط مستقیم کھا جاتا ہے جو تمام آسمانی کتابوں، انبیاء علیھم السلام کی نبوتوں اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی ولایت خصوصاً قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے ، جس کا شمار خداوندعالم کی بے نظیر نعمتوں میں ہوتا ہے، تاکہ وہ خداوندعالم کی ان نعمتوں کے عوض میں جو ذمہ داری اور وظائف اس کے کاندھوں پر عائد ہوتے ہیں ان کو خلوص کے ساتھ صادقانہ طور پر انجام دے سکے، اور پھراپنے رشد وکمال کی منزلوں کو طے کرے، اس چند روزہ زندگی میں اپنی اُخروی اوردائمی زندگی کو سنوارے اورجنت الفردوس میںجانے کے بعد اپنے کو خدا وندعالم کی خوشنودی سے بھرہ مند ہونے کے لئے آمادہ کرے۔
انسان اگر خداوندعالم کی تمام مادی اور معنوی نعمتوں کو دیکھے اور ان پر غور وفکر کرے تو اس کو معلوم ہوجائے گا کہ خداوندمنان کی رحمت رحیمیہ اور اس کے فیضان خاص و عام نے اس کے ظاھر وباطن پر سایہ کررکھاھے، اور رحمت خدا زندگی کے ہر موڑ پر اس کے ساتھ ساتھ ہے ، خداوندعالم کی رحمت نے اس کو اس قدر چھپا رکھا ہے ، کہ اپنے مقرب ترین فرشتوں کو اس قدر اپنی رحمت ولطف وکرم عنایت نہیں کیا ہے!!
اور جب انسان معرفت کے ساتھ اپنے وظائف پر عمل کرتا ہے اور ایمانی طاقت کے بل بوتے پر خدا ئے محبوب سے ملاقات کے لئے قدم بڑھاتا ہے اور ایک منٹ کے لئے بھی عبادت خدا او رخدمت خلق سے غافل نہیں ہوتا اور اپنے تمام وجود اور اعضاء وجوارح کے ذریعہ مکمل خضوع وخشوع کے ساتھ شب وروز اپنے پروردگار کی بارگاہ میںاس کی رحمت کی بھیک مانگتا ہے۔ انسان صراط مستقیم اور ہدایت الٰھی کے انتخاب اور وظائف الٰھی پر عمل کرنے نیز حلال وحرام کی رعایت کرنے اور خلق خدا کی خدمت (جو قرآن مجید کے فرمان کے مطابق اجر عظیم، اجر غیر ممنون، اجر کریم، اجر کبیر، رضاء حق او رھمیشہ کے لئے جنت الفردوس میں قیام، یہ تمام رحمت خدا کے جلوے ہیں) ؛کے ذریعہ رحمت الٰھی سے بھرہ مند ہوتا چلاجاتا ہے۔
رحمت خدا
انسان اگر اپنی زندگی میں جھل ونادانی یا غفلت ونسیان یا دوسرے اسباب کی بنا پر گناہ و معصیت میں ملوث ہوجائے تو انسان خدا کی بارگاہ میں توبہ اور گناھوں کی تلافی(جیسا کہ بیان ہوا ہے)؛کے ذریعہ اس کی بخشش ومغفرت اور رحمت کا حقدار ہوجاتا ہے، خصوصاً اگر اس کی توبہ اور استغفارشب جمعہ دعاء کمیل کے ذریعہ ہو، کیونکہ یہ شب؛ شب رحمت ہے ،یہ وہ رات ہے جس میں دعاء کمیل کے پڑھنے سے عفو بخشش اور رحمت خدا کی بارش ضرورھونے لگتی ہے:
(
”قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ اسْرَفُوا عَلَی انْفُسِهِمْ لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ
)
۔“[۷۱]
”اے پیغمبر آپ پیغام پھنچادیجئے کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناھوں کا معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مھر بان ہے“۔
قرآن مجید میں درج ذیل آیات کے علاوہ بہت سی آیات ہیں جن میں رحمت خدا او راس کی عفو وبخشش کو بیان کیا گیا ہے:
” إ(
ِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ
)
“[۷۲] ”(
وَاللهُ رَووفٌ بِالْعِبَادِ
)
“[۷۳]”ِ(
وَاللهُ یَدْعُو إِلَی الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ
)
“([۷۴] ”(
انَّ اللهَ غَفُورٌ حَلِیمٌ
)
“ [۷۵]”(
وَاللهُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ یَشَاء
)
“”(
وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ
)
“[۷۶] ”إ(
ِنَّ اللهَ کَانَ عَفُوًّا غَفُورًا
)
“[۷۷]”ا(
ِٕنَّ اللهَ کَانَ تَوَّابًا رَحِیمًا
)
“ [۷۸]”(
وَهُوَ ارْحَمُ الرَّاحِمِینَ
)
“[۷۹]”إ(
ِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَة
)
“[۸۰]
قارئین کرام ! اگر کوئی انسان ان آیات میں غور وفکر کرے تو پھر وہ خدا وندعالم کی طرف پلٹنے اور اس کی بارگاہ میں توبہ کو واجب قرار دے گااور اس کی رحمت سے مایوسی او رناامیدی کو حرام او رگناہ کبیرہ مانے گا۔
رحمت کے سلسلہ میں احادیث
جناب ابوسعید خدری نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے روایت کی ہے : جب گناھگار مومنین کو دوزخ کی آگ میں لے جایا جائے گا تو وہ ان کو نہیں جلائے گی، اس وقت خداوندعالم اپنے فرشتوں کو خطاب فرمائے گا: ان لوگوں کو میرے فضل وکرم اور رحمت کی بنا پر بھشت میں داخل کردو، چونکہ میرے لطف وکرم اور فضل واحسان کا دریا بے انتھا ہے۔
اہل بیت علیھم السلام سے روایت ہوئی ہے کہ جب روز قیامت آئے گا تو خداوندعالم مومنین کو ایک جگہ جمع کرکے فرمائے گا:
”تم پر جو میرے حقوق تھے میں ان کو معاف کرتا ہوں تم بھی ایک دوسرے کے حقوق کو معاف کردو تاکہ تم (سب) کو بھشت میں داخل کردیا جائے“۔
ایک روایت میں اس طرح وارد ہوا ہے کہ جب روز قیامت آئے گا ، اہل ایمان میں سے ایک بندہ کو حاضر کیا جائے گا اور اس سے خطاب ہوگا: اے میرے بندے ! تونے میری نعمتوں کو گناہ اور معصیت میں استعمال کیا، اور جیسے جیسے میں تجھ پر نعمتوں میں اضافہ کرتا گیا تو گناھوں میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ اس وقت اس بندہ کا سر شرم کی وجہ سے جھک جائے گا۔ بارگاہ رحمت سے ایک بار پھر خطاب ہوگا: اے میرے بندے اپنے سر کو اوپر اٹھالے، جس وقت تو گناہ کرتا تھا میں اسی وقت تیرے گناھوں کو معاف کرتا جاتا تھا۔
اسی طرح یہ روایت بھی ملاحظہ فرمائیں: جب روز محشر ایک بندہ کولایا جائے گا،تو گناھوں کی وجہ سے اس کا سر بہت زیادہ جھکا ہوگااور شرم کی وجہ سے رونے لگے گا، اس وقت بارگاہ رحمت سے خطاب ہوگا: جس وقت تو گناہ کرتا ہوا ہنستا تھا، میں نے اس وقت تجھے شرمندہ نہ کیا آج جب کہ تو میری بارگاہ میں شرم کی وجہ سے سر جھکائے ہوئے ہے اور گریہ وزاری کررھا ہے اور گناہ بھی نہیں کررھا ہے تو میں کس طرح تجھے عذاب دوں؟ اے میرے بندے میں نے تیرے گناھوں کو معاف کردیا اور تجھے جنت میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہوں۔
حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے مروی ہے کہ خدا کی سو رحمتیں ہیں، اور ان میں سے صرف ایک دنیا میں جلوہ فگن ہے جس کو اپنی تمام مخلوقات میں تقسیم کیا ہے، اور ۹۹ رحمت خداوندمنان کے خزانہ میں موجود ہے تاکہ روز قیامت اس ایک رحمت کو ۹۹ گنا کرکے اپنے بندوں پر نثار کرے گا۔[۸۱]
رئیس محدثین ، محدث کم نظیر حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمة معصومین علیھم السلام سے روایت کرتے ہیں کہ جب قیامت برپا ہوگی، خدا کی رحمت واسعہ اس قدر جلوہ نما ہوگی اور گناھگاروں کی فوج کی فوج معاف کردی جائے گی، یھاں تک کہ بارگاہ الٰھی کا مردود شیطان خدا کی عفوو بخشش کی امید کرنے لگے!!
ایک بہت اھم روایت میں وارد ہوا : جب کسی مومن بندہ کو قبر میں رکھا جائے اور قبر کو ڈھک دیا جائے، اور رشتہ دار اور احباء وھاں سے جدا ہوجائیں، اور وہ قبر میں تنھا رہ جائے، اس وقت خداوندعالم اپنی رحمت ومحبت کی بنا پر
خطاب فرمائے گا: اے میرے بندے! تو قبر کی تاریکی میں تنھا رہ گیا ہے ،اور جن کی خوشی کے لئے تو نے میری معصیت کی ہے اور ان کی رضا کی خاطر میری ناراضگی اختیار کی ہے، وہ لوگ تجھ سے جدا ہوگئے اور تجھے تنھا چھوڑگئے ہیں ، آج تجھے اپنی اس رحمت سے نوازوں گا جس سے مخلوقات تعجب کرنے لگے ، اس وقت فرشتوں کو خطاب ہوگا: اے فرشتو! میرا بندہ غریب وبے کس اور بے یار ومددگار ہے اور اپنے وطن سے دور ہوگیا ہے اور اس قبر میں میرا مھمان ہے، جاؤ اس کی مدد کرو، اور جنت کا دروازہ اس کی طرف کھول دو، اور عطروغذا اس کے پاس لے کر جاؤ ، اور اس کے بعد میرے اوپر چھوڑ دو تاکہ میں قیامت تک اس کا مونس وھمدم رھوں۔[۸۲]
رحمت کے بارے میں واقعات
ایک روایت میں منقول ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی، ایک بندہ کو حساب و کتاب کے لئے حاضر کیا جائے گا، اور اس کے نامہ اعمال جو گناھوں سے سیاہ ہوچکا ہے؛ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، وہ بندہ اپنے نامہ اعمال کو لیتے وقت دنیا کی عادت کی طرح ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ کھے گا، اور جب رحمت خدا کے ذکر سے اس نامہ اعمال کو کھولے گا تو اس کو بالکل سفید پائے گا، جس میں کچھ بھی لکھا نہ ہوگا، یہ دیکھ کر کھے گا کہ اس میں تو کچھ بھی لکھا نہیں ہے میں کیسے پڑھوں، اس وقت فرشتے کھیں گے: اس نامہ اعمال میں تیری برائیاں اور خطائیں لکھی ہوئی تھیں لیکن اس بسم اللہ کی برکت سے تمام ختم ہوگئیں ہیں اور خداوندمنان نے تجھے معاف کردیا ہے۔[۸۳]
جناب عیسیٰ (ع) اور گناھگار
روایات میں بیان ہوا ہے کہ ایک روز جناب عیسیٰ علیہ السلام اپنے کچھ حواریوں کے ساتھ ایک راستہ سے گزر رھے تھے ناگھاں ایک بہت گناھگار شخص جو فسق وفجور سے معروف تھا راستہ میں ملا ، آتش حسرت اس کے سینے میں جلنے لگی، اور اس کی آنکھوں سے ندامت کے آنسو بھنے لگے، اس نے اپنے اوپر ایک نظر کی ، افسوس کے ساتھ اس نے جگر سوز اور خون دل سے ایک آہ نکالی اور زبان حال سے کھا:
یارب کہ منم دست تھی چشم پر آشوب
جان خستہ ودل سوختہ وسینہ کباب
نامہ سیہ وعمر تبہ کار خراب
از روی کرم بہ فضل خویشم دریاب
”پالنے والے میرا ہاتھ خالی اور آنکھیں پُر آشوب ہیں،ذھن پراکندہ، دل جلا ہوا اور سینہ کباب ہے“۔
نامہ اعمال سیاہ ہے اور عمر برباد کار و کوشش بے ثمر ، لہٰذا اپنے فضل و کرم ہی سے میری مدد فرما“۔
اور اس نے یہ سوچا کہ میں نے عمر بھر کوئی کار خیر انجام نہیں دیا ہے لہٰذا میں کس طرح پاک افراد کے ساتھ چل پاؤں گا،لیکن چونکہ یہ خدا کے محبوب بندے ہیں اگر انھوں نے قبول کرلیا تو چند قدم ان کے ساتھ چلنے میں کوئی حرج (بھی) نہیں ہے، لہٰذا ان اصحاب کے ساتھ کتے کی شکل میں فریاد کرتا ہوا چلنے لگا۔
ایک حواری نے جب اس مشھور ومعروف بدکار کو اپنے پیچھے پیچھے آتا ہوا دیکھا تو کھا: یا روح اللہ! یہ مردہ دل اور نجس آدمی ہم لوگوں کے ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتا او راس ناپاک کے ساتھ چلنا کس مذھب میں جائز ہے؟ اس کو بھگادیجئے تاکہ یہ ہمارے پیچھے نہ آئے ایسا نہ ہو کہ اس کے گناھوںکا دھبہ ہمارے دامن پر بھی لگ جائے!!
اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کچھ سوچنے لگے کہ اس شخص سے کیا کھےں ، اور کس طرح اس شخص سے معذرت کرےں(کہ ہمارے ساتھ نہ چلے) ناگاہ خداوندعالم کی طرف سے وحی نازل ہوئی: اے روح اللہ! اپنے اس خود پسند دوست سے فرمادیجئے کہ اپنی زندگی( کے اعمال کو دوبارہ شروع کرو) کیونکہ آج تک جو اس نے نیک کام کئے تھے وہ سب نامہ اعمال سے محو کردئے گئے کیونکہ اس نے میرے بندہ کو حقارت کی نظر سے دیکھا ہے اور اس فاسق کو بشارت دیدو کہ میں نے اس کی شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے اس کے لئے اپنی توفیق کا راستہ کھول دیا ہے اور اس کی ہدایت کے اسباب مھیا کردئے ہےں۔[۸۴]
ایک گناھگار جوان
مرحوم ملّا فتح اللہ کاشانی نے تفسیر ”منہج الصادقین“ میں اور آیت اللہ کلباسی نے کتاب ”انیس اللیل“ میں یہ واقعہ نقل کیا ہے :
”مالک دینار“ کے زمانہ میں ایک گناھگار او رنافرمان شخص کی موت ہوگئی، عوام الناس نے اس کے گناھوں کی وجہ سے اس کی تجھیز وتکفین نہیں کی، بلکہ ایک گندی جگہ کوڑے کے ڈھیر میں ڈال دیا۔
مالک دینار نے رات میں خواب دیکھا کہ خدا وندعالم کا حکم ہے : ہمارے اس بندہ کو وھاں سے اٹھاؤ اور اس کو غسل وکفن کے بعد صالح افراد کے قبرستان میں دفن کرو، اس نے عرض کی : خدایا! وہ تو بدکاروں اور فاسقوں میں سے تھا، کس طرح اور کس چیز کی وجہ سے درگاہ احدیت میں مقرب بن گیا؟ تو جواب آیا: اس نے آخری موقع پر گریہ کناں آنکھوں سے یہ جملہ پڑھا:
”یَامَنْ لَہُ الدُّنْیَا وَالآخِرَةُ إِرْحَمْ مَنْ لَیْسَ لَہُ الدُّنْیَا وَالآخِرَةُ“۔
(اے وہ جودنیا وآخرت کا مالک ہے، اس شخص کے او پر رحم کر جس کے پاس نہ دنیا ہے او رنہ آخرت۔)
اے مالک! کون ایسا درد مند ہے جس کے درد کا ہم نے علاج نہ کیا ہو اور کون ایسا حاجت مند ہے جو ہماری بارگاہ میں روئے اور ہم اس کی حاجت پوری نہ کریں؟[۸۵]
مستجاب دعا
ایک بڑے عابد و زاھد منصور بن عمارکے زمانہ میں ایک مالدار شخص نے محفل معصیت سجائی اور اس نے اپنے غلام کو چار درھم دئے تاکہ وہ بازار سے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید لائے۔
غلام راستہ میں چلا جارھا تھا کہ اس نے دیکھا منصور بن عمار کی نششت ہورھی ہے، سوچا کہ دیکھوں منصور بن عمار کیا کہہ رھے ہیں؟ تو اس نے سنا کہ عمار اپنے پاس بیٹھنے والوں سے کچھ طلب کررھے ہیں اور کہہ رھے ہیں کہ کون ہے جو مجھے چار درھم دے تاکہ میں اس کے لئے چار دعائیں کروں؟ غلام نے سوچا کہ ان معصیت کاروں کےلئے طعام وشراب خریدنے سے بہتر ہے کہ یہ چار درھم منصور بن عمار کو کو دیدوں تاکہ میرے حق میں چار دعائیں کردیں۔
یہ سوچ کر اس نے وہ چار درھم منصور کو دیتے ہوئے کھا: میرے حق میں چار دعائیں کردو، اس وقت منصور نے سوال کیا کہ تمھاری دعائیں کیا کیا ہیں بیان کرو، اس نے کھا: پھلی دعا یہ کرو کہ خدا مجھے غلامی کی زندگی سے آزاد کردے، دوسری دعا یہ ہے کہ میرے خواجہ (آقا) کو توبہ کی توفیق دے، اور تیسری دعا یہ کہ یہ چار درھم مجھے واپس مل جائیں، اور چوتھی دعا یہ کہ مجھے اور میرے خواجہ اور خواجہ کے اہل مجلس کو معاف کردے۔
چنانچہ منصور نے یہ چار دعائیں اس کے حق میں کیں اور وہ غلام خالی ہاتھ اپنے آقاکے پاس چلا گیا۔
اس کے آقا نے کھا: کھاں تھے؟ غلام نے کھا: میں نے چار درھم دے کر چار دعائیں خریدی ہیں، تو آقا نے سوال کیا وہ چار دعائیں کیا کیا ہیں؟ تو غلام نے کھا: پھلی دعا یہ میں آزاد ہوجاؤں، تو اس کے آقا نے کھا جاؤ تم راہ خدا میں آزاد ہو، اس نے کھا: دوسری دعا یہ تھی کہ میرے آقا کو توبہ کی توفیق ہو، اس وقت آقا نے کھا: میں توبہ کرتا ہوں، اس نے کھا: تیسری دعا یہ کہ ان چار درھم کے بدلے مجھے چار درھم مل جائیں، چنانچہ یہ سن کر اس کے آقا نے چار درھم عنایت کردئے ، ’اس نے کھا: چوتھی دعا یہ کہ خدا مجھے ،تجھے اور اہل محفل کو بخش دے ، یہ سن کر اس آقا نے کھا: جو کچھ میرے اختیار میں تھا میں نے اس کو انجام دیا، تیری ، میری اور اہل مجلس کی بخشش میرے ہاتھ میں نہیں ہے۔چنانچہ اسی رات اس آقا نے خواب میں دیکھا کہ ہاتف غیبی خدا کی طرف سے آوازدے رھا ہے کہ اے میرے بندے! تو نے اپنے فقر وناداری کے باوجود اپنے وظیفہ پر عمل کیا،کیا ہم اپنے بے انتھا کرم کے باوجود اپنے وظیفہ پر عمل نہ کریں، ہم نے تجھے، تیرے غلام اور تمام اہل مجلس کو بخش دیا۔
خدائے کریم کی بارگاہ میں حاضری
ایک مرد حکیم ایک راستہ سے چلا جارھا تھا راستہ میں اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ ایک جوان کو اس کے گناہ وفساد کی وجہ سے اس علاقہ سے باھر نکال رھے ہیں، اور ایک عورت اس کے پیچھے پیچھے بہت زیادہ روتی پیٹتی ہوئی جارھی ہے، میں نے سوال کیا کہ یہ عورت کون ہے؟ تو لوگوں نے جواب دیا اس کی ماں ہے، میرے دل میں رحم آیا لہٰذا میں نے ان لوگوں سے اس کے بارے میں سفارش کی اور کھا کہ اس دفعہ اس کو معاف کردو، اور اگر اس نے دوبارہ یھی کام کیا تو پھر اس کو شھر بدر کردینا۔
وہ مرد حکیم کہتا ہے: ایک زمانہ کے بعد اس قریہ سے دوبارہ گزر ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایک دروازہ کے پیچھے سے نالہ و فریاد کی آوازیں بلند ہیں، میں نے دل میں سوچا شاید اس جوان کو گناھوں کی وجہ سے شھر بدر کردیا گیا ہے اور اس کی ماں اس کی جدائی میں نالہ وفریاد کررھی ہے، میں آگے بڑھا اور دروازہ پر دستک دی ، ماں نے دروازہ کھولاتو میں نے اس جوان کے حالات دریافت کئے تو ماں بولی: وہ تو مرگیا ہے لیکن کس طرح مرا ہے، جس وقت اس کا آخری وقت تھا تو اس نے کھا: اے ماں! پڑوسیوں کو میرے مرنے کی خبر نہ کرنا، میں نے ان کو بہت تکلیف دی ہے، اور ان لوگوں نے بھی میرے گناھوں کی وجہ سے میری سرزنش کی ہے ، میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ لوگ میرے جنازے میں شریک ہوں، لہٰذا خود ہی میری تجھیز وتکفین کرنا ، اور ایک انگوٹھی نکال کر دی اور کھا کچھ دنوں پھلے میں نے اس کو خریدا ہے اور اس پر”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ لکھا ہوا ہے، اس کو بھی میرے ساتھ دفن کردینا او رقبر کے پاس خدا سے میری شفاعت کرنا تاکہ خدا میرے گناھوں کو بخش دے۔
چنانچہ میں نے اس کی وصیت پر عمل کیا اور جس وقت اس کی قبر کے پاس سے واپس آرھی تھی تو گویا مجھے ایک آواز سنائی دے:
”اے ماں! اطمینان سے چلی جاؤ، میں خدا وندکریم کے پاس پھنچ گیا ہوں“۔[۸۶]
توبہ کے بعد توبہ
عطّار ”منطق الطیر“ میں روایت کرتے ہیں: ایک شخص مسلسل گناہ اور معصیت کے بعد توبہ کرنے کی توفیق حاصل کرتا ہے، اور توبہ کے بعد پھر ہوائے نفس کے غلبہ کی وجہ سے گناہ کا مرتکب ہوجاتا ہے، ایک بار پھر اس نے توبہ کی ، لیکن پھر اپنی توبہ کو توڑ ڈالا اور گناھوں کا مرتکب ہوگیا، یھاں تک کہ اپنے بعض گناھوں کی سزا میں مبتلا ہوگیا، اور وہ اس نتیجہ پر پھنچ گیا کہ اس نے اپنی عمر کو تباہ کرڈالا ہے اور جب اس کا آخری وقت آگیا تو ایک بار پھر توبہ کے بارے میں سوچا، لیکن شرمندگی اور خجالت کی بنا پر توبہ نہ کرسکا، لیکن جلتے توے پر بھنتے دانہ کی طرح کرب وبے چینی میں کروٹیں بدلنے لگا، یھاںتک کہ سحر کا وقت ہوگیا، اس موقع پر ہاتف غیبی نے ندا دی : اے گناھگار خداوندعالم فرماتا ہے: جب تو نے پھلی دفعہ توبہ کی تو میں نے تجھے بخش دیا، لیکن تونے اپنی توبہ کوتوڑ ڈالا، حالانکہ میں تجھ سے انتقام لے سکتا تھا لیکن میں نے تجھے مھلت دی یھاں تک کہ تونے دوبارہ توبہ کی اور میں نے تیری توبہ قبول کرلی، لیکن تونے تیسری مر تبہ بھی اپنی توبہ کو توڑ ڈالا، اور گناہ ومعصیت میں غرق ہوگیا؛ اور اگر تو اب بھی توبہ کرنا چاہتا ہے تو توبہ کرلے میں تیری توبہ قبول کرلوں گا۔[۸۷]
دعا کے ذریعہ گمراھی سے نجات
عطّار ”منطق الطیر“ میں روایت کرتے ہیں: ایک روز حضرت روح الامین ”سدرة المنتھیٰ“ پر تھے دیکھا کہ پروردگار عالم کی طرف سے لبیک لبیک کی آواز آرھی ہے، لیکن یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ لبیک کس کے جواب میں کھی جارھی ہے، سوچا کہ اس شخص کو پہچانے جس کے جواب میں یہ لبیک کھی جارھی ہے، تمام زمین وآسمان میں نظر دوڑائی ، کوئی نظر نہیں آیا دیکھا اس وقت بھی بارگاہ رب العزت سے مسلسل لبیک لبیک کی آواز آرھی ہے۔
اس کے بعد پھر دیکھا کوئی ایسا شخص نظر نہیں آیا جو خداوندعالم کے لبیک کا مستحق ہو،عرض کیا: پالنے والے مجھے اس بندہ کو دکھادے جس کے گریہ وزاری کے جواب میں تو لبیک کہہ رھا ہے، اس وقت خطاب پروردگار ہوا: سر زمین روم پر دیکھ، دیکھا تو روم کے ایک بت کدہ میں ایک بت پرست ابر باراں کی طرح گریہ کر رھا ہے او راپنے بت کو پکارھا ہے۔
جناب جبرئیل نے اس واقعہ کو دیکھ کر جوش وخروش میں آکر عرض کی: پالنے والے میری آنکھوں سے حجاب اٹھالے کہ ایک بت پرست اپنے بت کو پکاررھا ہے اور اس کے سامنے رو رھا ہے اور توھے کہ اپنے لطف وکرم سے اس کے جواب میں لبیک کہہ رھا ہے!!
توآواز قدرت آئی: میرے بندہ کا دل سیاہ ہوچکا ہے اسی وجہ سے وہ راستہ بھٹک گیا ہے، لیکن چونکہ مجھے اس کا راز ونیاز اچھا لگا، لہٰذا اس کا جواب دے رھا ہوں،اوراس کی آواز پر لبیک کہہ رھا ہوں تاکہ اسی وجہ سے راہ ہدایت پر آسکے، چنانچہ اسی وقت اس کی زبان پر خداوند مھربان کا کلمہ جاری ہوگیا!!۔[۸۸]
بد بختوں کی فھرست سے نام کاٹ کر نیک بختوں کے فھرست میں لکھا گیا
صاحب تفسیر ”فاتحة الکتاب“ (جو عرفانی اور علمی کتابوں میںسے ایک اھم کتاب ہے اور فیض کاشانی کے زمانہ کے بعد ایک دانشور نے لکھی ہے) کہتے ہیں: بنی اسرائیل میں ایک عابد وزاھد تھا ، جس نے تمام لوگوں کو چھوڑ کر ایک خلوت گاہ بنائی ، اور ایسی عبادت کیا کرتا تھا جس کی بنا پر وہ محبوب ملائکہ بن گیا تھا ، وحی پروردگار کے رازدارجناب جبرئیل نے اس کی زیارت کی تمنا کی اور آسمان سے زمین پر آنے کی اجازت طلب کی تو آواز قدرت آئی: اے جبرئیل لوح محفوظ میں دیکھو اس کا نام کھاں لکھا ہے۔؟
جبرئیل نے دیکھا کہ اس کا نام بد بختوں کی فھرست میں لکھا ہوا ہے، تعجب کیا ، اور اس کے دیدار کے ارادے کو ترک کردیا اور بارگاہ پروردگار میں عرض کیا: پالنے والے! تیرے حکم کے مقابلہ میں کوئی بھیتاب نہیں رکھتا ، مجھ میں اس عجیب وغریب نظارہ کو دیکھنے کی طاقت نہیں ہے۔
خطاب ہوا: چونکہ تمھارے دل میں اس کے دیدار کی تمنا تھی لہٰذا اس کے پاس جاؤ اور جو کچھ دیکھا ہے اس کو باخبر کرو۔
جناب جبرئیل اس عابد کی خانقاہ کی طرف روانہ ہوئے دیکھا تواس کا بدن بہت نحیف وکمزور ہے اس کے دل میں شوق ومحبت کی آگ لگی ہوئی ہے کبھی پروانہ کی طرح محراب عبادت میں سوزناک انداز میںعبادت کرنے میں مشغول ہوتا ہے اور کبھی سجدہ کی حالت میں گریہ وزاری اور تضرع کرتا ہے۔
جناب جبرئیل اس کو سلام کرتے ہیں اور کہتے ہیں: اے عابد! خود کو زحمت میں نہ ڈال، کیونکہ لوح محفوظ میں تیرا نام بدبختوں کی فھرست میں لکھا ہوا ہے۔
چنانچہ جب اس عابد نے یہ سنا تو نسیم سحر کی وجہ سے گلبرگ کے پھول کی طرح کھِل اٹھا ؛ ہنسا اوربلبل شیرین سخن کی طرح اپنی زبان پر ”الحمد لله“ جاری کیا۔
اس وقت جناب جبرئیل نے کھا: ا ے ناچار بوڑھے ! تجھے تو اس دلسوز درد ناک غم کی خبر سن کر ”انا لله“ کھنا چاہئے تھا او رتو ہے کہ ”الحمد لله“ کہتا ہے؟!! تیرے لئے تو تعزیت اور تسلیت کا مقام تھا تو خوشی اور مسرت کا اظھار کرتا ہے؟!!
یہ سن کر اس عابد نے کھا: ان باتوں کو چھوڑ، میں بندہ اور غلام ہوں اور وہ آقا ومولا، غلام کامولا کی باتوں سے کیا مقابلہ، اس کے مقابلہ میں کسی کی نہیں چلتی، وہ جو کچھ کرنا چاھے کرسکتا ہے، قدرت کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے، جھاں بھی ہمیں رکھنا چاھے رکھ سکتا ہے، سب کچھ اسی کی مشیت کے تحت ہے جو چاھے کرے، ”الحمد لله“ اگرمیں بھشت میں جانے کے لئے اس کی شایان شان نہیں ہوں تو کوئی بات نہیں میں دوزخ کا ایندھن بننے کے کام تو آسکتا ہوں۔
یہ سن کر جناب جبرئیل اس کی حالت پر رونے لگے، چنانچہ اسی حالت میں بارگاہ رب العزت میں پلٹ گئے، اس وقت حکم خدا ہوا اے جبرئیل دوبارہ لوح محفوظ کو دیکھو کہ ”یمحو الله ما یشاء ویثبت“[۸۹] کے لکھنے والے نے کیا لکھا اور ”یفعل الله ما یشاء“ [۹۰]کے مالک نے کیا کیا ہے؟
جبرئیل نے دیکھا تو اس کا نام نیک بختوں کی فھرست میں لکھا ہوا ہے، جناب جبرئیل کو بہت تعجب ہوا، عرض کیا: پالنے والے اس واقعہ کا راز کیا ہے ، کس طرح ایک مجرم ؛ مَحرم میں بدل جاتا ہے؟
جواب پروردگار آیا: اے امین اسرار وحی ! اور اے مھبط انوار امر ونھی، چونکہ وہ عابد اپنے لئے مقرر کی ہوئی جگہ کی خبر سن کر رویا نہیں اس نے نالہ وفریاد نہیں کیا بلکہ وادی صبر میں قدم رکھا اور حکم الٰھی پر راضی رھا نیز اپنی زبان پر ”الحمد لله“ جاری کیا اور مجھے میرے تمام صفات سے پکارا، میرے کرم اور رحمت کو جوش آگیا کہ ”الحمد لله“ کھنے والے کو بدبختوں کی فھرست سے نکال نیک بختوں کی فھرست میں لکھ دوں، لہٰذا میں نے اس کا نام نیک بختوں کی فھرست میں لکھ دیا ہے۔[۹۱]
____________________