”اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ الْبَلآٰءَ
۔“۔
”ان گناھوں کو بخش دے جو نزول بلاء کا سبب ہوتے ہیں“۔
جن گناھوں کے ذریعہ بلائیں نازل ہوتی ہیں
جس گناھوں کے ذریعہ بلائیں نازل ہوتی ہے وہ تین گناہ ہیں:
۱ ۔ دل سوز اور پریشان حال کی فریاد پر بے توجھی کرنا۔
۲ ۔ مظلوم کی مدد نہ کرنا۔
۳ ۔ امر بالمعروف و نھی عن المنکر کو ترک کرنا۔
دل سوز اور صاحب حزن و ملال کی فریاد پر بے توجھی کرنا
جس انسان کا مالی نقصان ہوجاتا ہے، یا اس کا کوئی عزیز مرجاتا ہے، یا کسی دوسری مصیبت اور رنج و غم میں گرفتار ہوجاتا ہے،اور اگر وہ اپنے دینی برادران سے اپنی مشکلات کو دور کرنے میں مدد و فریاد کرتا ہے، تو انسانی شرافت اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی مددکے لئے قدم بڑھائے، اور حتی الامکان اس کے رنج و غم کو دور کرنے کی کوشش کرے۔
جو لوگ درد مندوں کے درد اور دل سوز لوگوں کی آہ و فریاد سن کر ان کی مدد کے لئے قدم نہیں اٹھاتے تو ایسا شخص نہ یہ کہ مسلمان نہیں ہے بلکہ آدمیت و انسانیت کے دائرہ سے(بھی) خارج ہے۔
تو کز محنت دیگران بی غمی
نشاید کہ نامت نھند آدمی
(اگر تجھے کسی دوسرے کے رنج و غم میں کا کوئی درد نہیں ہے تو پھر تجھے آدمی کھلانے کا بھی حق نہیں ہے)
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرماتے ہیں:
”مَنْ اصْبَحَ لَایَهْتَمُّ بِامُورِ المُسْلِمِینَ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ
“[۱]
”جو شخص صبح اٹھے لیکن مسلمانوں کے مسائل و حالات پر اھمیت نہ دے وہ مسلمان نہیں ہے“۔
ایک دوسرے کی امداد کرنا اور مسلمانوں کے مسائل پر توجہ کرنا خصوصاً فریادیوں کی فریاد رسی کرنا، خدا و رسولاور ائمہ علیھم السلام کا حکم ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے: جو کسی مرد مومن کے رنج وغم کو دور کرے، خداوندعالم اس کی آخرت کے رنج وغم کو دور کرے گا، اور مطمئن طور پر قبر سے نکلے گا۔ اور اگر کوئی شخص کسی مومن کی بھوک مٹائے،تو خداوندعالم اس کو بھشتی پھلوں سے نوازے گا، اور اگر کوئی شخص کسی مومن کو ایک گلاس پانی پلائے تو خداوندعالم اس کو رحیق مختوم سے سیراب فرمائے گا۔[۲]
اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو شخص کسی غم زدہ اور پیاسے مومن اور پریشانی کے وقت مدد کرے اور اس کاحزن و الم دور کرے اور اس کی حاجت روائی میں اس کی مدد کرے تو خداوند عالم اپنی طرف سے ۷۲ رحمتیں لکھ دیتا ہے جن میں سے ایک رحمت کے ذریعہ اس کی دنیا کے مسائل بہتر ہوجائیں گے اور ان میں کی ۷۱ رحمتیں قیامت کے ہولناک ماحول اور خوف و وحشت سے بچانے کے لئے محفوظ رھیں گی۔[۳]
مظلوم کی مدد نہ کرنا
اسلامی نقطہ نظر سے مظلوم کی مدد کرنا اس قدر اھمیت رکھتا ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام اپنی آخری عمرمیں (شب ۲۱ رمضان المبارک) میں حضرت امام حسن و حضرت امام حسین علیھما السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”کُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً وَلِلْمُظْلُومِ عَوْناً
“[۴]
”ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مدد گاررھو“۔
جی ہاں! ظلم و ظالم اور مظلوم کے سلسلہ میں یہ اسلامی بہترین عملی شعار ہے ۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:
مَنْ اخَذَ لِلْمَظْلُومِ مِنَ الظَالِمِ کاَنَ مَعی فِی الجَنَّةِ مُصاحِباً
“[۵]
”جو شخص ظالم سے کسی مظلوم کا حق دلائے وہ جنت الفردوس میں میرا ہم نشین ہوگا“۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”اگرکسی پر ظلم ہوتے دیکھو تو ظالم کے خلاف اس کی مدد کرو“۔[۶]
نیز آپ ہی کا فرمان ہے:
”احْسَنَ العَدْلِ نُصْرَةُ المَظْلُومِ
“[۷]
”بہترین عدل مظلوم کی مدد کرنا ہے“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
”کسی مومن کا ؛مظلوم کی مدد کرنا ایک ماہ کے روزے اور مسجد الحرام میں اعتکاف سے بہتر ہے، اور اگر کوئی شخص کسی مومن کی مدد کرنے کی قدرت رکھتا ہو اس کی مدد کرے تو خداوندعالم اس کی دنیا و آخرت میں مدد کرے گا، لیکن اگر کوئی شخص برادر مومن کی مدد کرسکتا ہو اور وہ مدد نہ کرے تو خداوندعالم بھی دنیا و آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا“۔[۸]
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے کہ خداوند عز وجل فرماتا ہے:
”اپنی عزت و جلالت کی قسم! میں دنیا و آخرت میں ظالم و ستمگر سے انتقام لوں گا، اسی طرح اگر کوئی شخص کسی مظلوم کو دیکھے اور اس کی مدد کرنے پر قدرت رکھتا ہو اور اس کی مدد نہ کرے تو اس سے بھی انتقام لوں گا۔[۹]
امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا ترک کرنا
امر بالمعروف و نھی عن المنکرالٰھی فرائض میں سے دو اھم فریضے ہیں،اور دینی واجبات میں سے دو واجب ہیں جن کو انجام دینے کے اگر شرائط پائے جاتے ہیں تو واجب ہے یعنی امر بالمعروف کرنے والا معروف ونیکی کو جانتا ہو اور خود بھی اس پر عمل کرتا ہو اور برائیوں سے دور ہو،اور ان دونوں فریضوں کو ترک کرنا گناہ عظیم اور سبب نزول بلاء ہیں۔
امر بالمعروف و نھی عن المنکر دین کا اھم ترین محور اور اس کی واضح حقیقت ہے جس کو برپا کرنے کے لئے انبیاء علیھم السلام مبعوث برسالت ہوتے تھے۔
اگر یہ دونوں فرائض (امر بالمعروف و نھی عن المنکر ) ختم ہوجائیں اور ان دونوں کے سلسلہ میں علم و عمل نہ ہو، تو پھرتحریک نبوت کا خاتمہ ہوجائے گا،اور دین تباہ و برباد ہوجائے گا، سب لوگ گمراہ ہوجائیں گے، اور ہر طرف جھل و نادانی پھیل جائے گی، لوگوں کے مسائل میں برائیاں جڑ پکڑ لیں گی، آبادی میں تباھی پھیل جائے گی اور انسانیت؛ ہلاکت کے گڑھے میں گرجائے گی۔
اس سلسلہ میں قرآن فرماتا ہے:
۱ ۔”(
وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ امَّةٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَامُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْهَوْنَ عَنْ الْمُنْکَرِ وَاوْلَئِکَ هُمْ الْمُفْلِحُونَ
)
“[۱۰]
”اور تم میں سے ایک گرو ہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے ،نیکیوں کا حکم دے ،بُرائیوں سے منع کرے اور یھی لوگ نجات یافتہ ہیں “۔
۲ ۔”(
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ اوْلِیَاءُ بَعْضٍ یَامُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْهَوْنَ عَنْ الْمُنکَرِ
)
۔۔۔“[۱۱]
”مومن مرد اور مومن عورتیں سب آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور مدد گار ہیں کہ یہ سب ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور بُرائیوں سے روکتے ہیں “۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:
”لَتَامُرُنَّ بِالمَعروفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ المُنْکَرِ او لَیُسَلِّطَنَّ اللهُ عَلَیْکُم شِرارَکُم ثُمَّ یَدعُو خِیارُکم فلا یُستَجَابُ لَهُم
“[۱۲]
”اے لوگو! (یا)تم امر بالمعروف و نھی عن المنکر کیا کرو، ورنہ دشمن تمھارے اوپر مسلط ہوجائیں گے، اور تم سے اچھے لوگ (بھی) دعا کریں گے لیکن دعا مستجاب نہیں ہوگی“۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے تھے: تم لوگ آنے جانے والوں کے راستہ پر نہ بیٹھا کرو، لوگوں نے کھا: ہم وھاں بیٹھ کر باتیں کرنے کے لئے مجبور ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: اگر تم لوگ مجبور ہو تو راستہ کے حق کا لحاظ رکھو۔ لوگوں نے سوال کیا: (یا رسول اللہ) راستہ کا کیا حق ہے؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: نامحرم کو نہ دیکھو، لوگوں کو اذیت نہ دو، سلام کرنے والوں کو جواب دو، امر بالمعروف و نھی عن المنکر کیا کرو۔[۱۳]
اسی طرح آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں: امر بالمعروف ، نھی عن المنکر اور ذکر خدا کے علاوہ انسان کی تمام باتیں اس کے نقصان میں ہیں۔[۱۴]
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: خداوندعالم نے (حضرت) شعیب پر وحی فرمائی: تمھاری قوم کے ایک لاکھ افراد پر جن میں سے چالیس ہزار برے لوگوں پر اور ساٹھ ہزار اچھے لوگوں پرعذاب کروں گا، (جناب شعیب(ع) نے) کھا: پالنے والے! برے لوگوں پر عذاب کرنا تو صحیح ہے، لیکن اچھے لوگوں پر کیوں؟ تو خداوندعالم نے فرمایا: (کیونکہ) نیک لوگوں نے برے لوگوں کے لئے بھلائی نہیں چاھی، ان کو برائیوں سے نہیں روکا، ان پر اعتراض نہیں کیا اور میرے خشم و غضب کی وجہ سے ان پر غضبناک نہیں ہوئے۔[۱۵]
قبیلہ ”خثعم“ کا ایک شخص پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں پھنچا اور کھا: یا رسول اللہ! آپ مجھے اسلام کی بہترین چیز سے باخبر فرمائیں؟
اس نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟
فرمایا: صلہ رحم۔
اس نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟
فرمایا: امر بالمعروف و نھی عن المنکر۔
اس نے سوال کیا: کونسا عمل خدا کے نزدیک سب سے بُرا ہے؟
آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:خدا کا شریک قرار دینا۔
اس نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟
فرمایا: قطع تعلق کرنا۔
اس نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟
آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: برائیوں کا حکم دینا اور نیکیوں سے روکنا۔[۱۶]
”اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي کُلَّ ذَنْبٍ اذْنَبْتُهُ،وَکُلَّ خَطٓیئَةٍ اخْطٰاتُهٰا
“۔
”خدایا میرے تمام گناھوں اور میری تمام خطاوں کو بخش دے “۔
گناہ کی لذت و کشش جب تک انسان کے دل میں مستحکم جگہ نہ بنالے بلکہ کبھی کبھی انسان کو بُرے اعمال میں مبتلاء کردے تو اسی کو اہل تحقیق کی نظر میں ”ذنب“ (گناہ) کھا جاتا ہے، اور جب یہ چیزیں انسان کے دل میں اپنی جگہ مستحکم کرلیں ، اور انسان کے دل میں راسخ ہوجائے یھاں تک کہ انسان کسی بھی جگہ ہو کیسا بھی موقع ہو ، کیسے بھی حالات ہوں؛ وھاں پر گناہ کرتا ہے، اہل لغت کی اصطلاح میں اس کو ”خطیئة“ کھاجاتا ہے۔
درگاہ ربّ العزت کا بھکاری اور خدائے مھربان کے در کا سوالی اپنے ان گناھوں کی طلب بخشش کے بعد جن کے ذریعہ خدااور انسان کے درمیان موجود پردہ ختم ہوجاتا ہے، اور جن کے ذریعہ بلاء ومصیبت اور عذاب نازل ہوتے ہےں اور جن کے ذریعہ نعمتیں بدل جاتی ہےں، اور جو دعا قبول ہونے میں مانع ہوتے ہیں، اور جن کے ذریعہ انسان پر بڑی بڑی مصیبت و بلاء نازل ہوتی ہیں؛ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں دعا کرتا ہے:
پالنے والے میرے تمام گناھوں کو بخش دے جو میری زندگی میں ہوئے ہیں چاھے چھوٹے گناہ ہوں یا بڑے گناہ، چاھے میں نے ان کو جان بوجھ کر انجام دیا ہو یا بھولے سے ہوگئے ہوں، چاھے بچپن کے گناہ ہوں یا نوجوانی کے، چاھے بلوغ کے شروعات کے ہوں یا بھر پور جوانی کے عالم میں، اور چاھے میں نے ان کو مخفی طور پر انجام دیا ہو یا علی الاعلان انجام دیا ہو،کیونکہ تیرے علاوہ کوئی ایسا نہیں ہے کہ تمام گناھوں کو بخش دے۔ تونے ہی اپنے لطف و مھربانی اور عظمت و بزرگی کا اعلان کیا ہے:
”لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ
۔“[۱۷]
”اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا بیشک اللہ تمام گناھوں کا معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ہے“۔
”اللّٰهُمَّ انّي اتَقَرَّبُ الَیْکَ بِذِکْرِکَ
“
”خدایامیں تیری یاد کے ذریعہ تجھ سے قریب ہو رھاھوں “۔
فانی دنیاکے کھنڈر
حد سے زیادہ مادی امور سے لگاؤ اورایسی محبت جو خدا اور بندے کے درمیان حجاب کی طرح حائل ہوجائے، حد سے زیادہ شھوات، لذت کی دنیا میں غرق ہوجانا،مال دنیا حاصل کرنے کے لئے دن رات ، ہفتوں اور مھینوں کا صرف کردینا، جاہل وں اور غافلوں کے ساتھ نشست و برخاست کرنا، خیر و خیرات سے دور رھنا، لباس و پوشاک میں اسراف (فضول خرچی) کرنا، مختلف سامان میں پیسے کو بے جا خرچ کرنا، عوام الناس اور رشتہ داروں سے بے خبر ہوجانا، واجبات کی ادائیگی میں سستی اور کاہل ی کرنا، محرمات وگناھوںمیں آلودہ ہونا اور معرفت و حقیقت سے خالی ہونا؛یہ تمام کی تمام چیزیں اس فانی دنیا میںزندگی بسر کرنے کی نشانی ہیں۔
اس فانی دنیاکے یہ کھنڈر ؛جن میںسانپ، بچھو، مکاری، دھوکہ بازی، حیوان صفتی، شیطنت و مستی، غارت ولوٹ مار، جھوٹ و ریاکاری و خود پسندی، غیبت و تھمت، سود و غصب، شھوت و خیانت، آلودگی و دنائت (پستی) زنا و چوری، قتل و شرارت، کبر و نخوت، حرص و طمع، بخل و حسد، کینہ و دشمنی، خشم وغضب اور گناہ و معصیت کے علاوہ اس میں کچھ نہیں ملتا!!
اس فانی دنیاکے یہ کھنڈر ؛ جس میں انسانیت کا (عظیم)خزانہ شیطان صفت لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جس سے انسان کی عمر تباہ و برباد ہوجاتی ہے اور انسان کا معنوی سرمایہ نابود ہوتا ہے، جھاں انسانیت کا جنازہ نکل جاتا ہے، اور انسان کو ہمیشہ کے لئے خسارہ اٹھانا پڑتا ہے،اور جس سے ناشکری، شرک و نفاق اور کفر کا سایہ دل پرچھاجاتا ہے۔
اس فانی دنیاکے یہ کھنڈر ؛ جس میں خرید و فروخت کا بازار شیطان صفت لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور جس میں اکثر لوگ انسان کی صورت میں حیوان ہوتے ہیں؛ جس کا ظاھر کافر کی قبر کی طرح زر و زیور سے مزین ہوتا ہے لیکن باطن میں دوزخ کے درد ناک عذاب سے بھرا ہوتا ہے۔
فانی دنیاکے یہ کھنڈر ؛ جس کے رھنے والے ظاھری طور پر انسان ہوتے ہیں لیکن کردار و عمل کے لحاظ سے حیوان، سبھی چون چرا میں مشغول، لیکن عبادت و بندگی کی لذت سے بے خبر، جن کی تصدیق تصور سے مبرّا، اور جن کی تحقیق حقیقت سے جدا، بیھودہ باتیں اور بکواس کرنے والے زیادہ، سبھی اندھے او رگونگے، وھم و گمان کرنے والے لیکن ایمان و یقین سے دورھوتے ہیں۔
یہ کھنڈر ؛ جس کے رھنے والے گناھوں میں مدھوش، فسق و فجور سے ہم آغوش، گناھوں کا پردہ چاک کئے ہوئے، شھوت کا پرچم اٹھائے ہوئے، سبھی ہوا و ہوس کے بستر پر سوئے ہوئے، عیاش مرد بدکار عورتوں کو لئے ہوئے، جس میںمکّار لڑکیاں غدّار لڑکوں کے ساتھ، جس کے جوان ناشناختہ اور بے کار، جس کے بوڑھے فاسق و بدکردار، جو طور و طریقہ کے لحاظ سے چوھے ہیں اور کردار کے لحاظ سے خرگوش، ایک سانپ کی شکل میں تو دوسرا بچھو کی شکل میں، یہ دانتوں سے کاٹتا ہے ، تو وہ دُم کی طرف سے، اس کھنڈر کا نام جنگل ہے جس کا بادشاہ جھل ہے تو اس کا سپاھی برائی، اس کا مادہ حرام ہے اور اس کا کام انسان کو نابود کرنا ہے!!
مُلک وصال اس فانی دنیا کے کھنڈروں سے کوچ کرنا عقل وشرع کے لحاظ سے واجب ہے، بے ثمر چیزوں کی محبت کا سنگین وزن دل سے نکال پھنیک دیا جائے اور مُلک وصال کے سفر کے لئے اپنے بال وپر کھول دئے جائیں، اور پوری طاقت سے اڑان بھری جائے اور ”ذکر و اذکار“ کی قدرت سے مدد لیتے ہوئے اس مُلک کے سفر کے لئے تیار ہوجائیں وہ مُلک جو معرفت و فضیلت، صدق و صفا، امانت و صداقت، حق و حقیقت، وفا و صفا، شور و وجد، بندگی و عبادت، شرافت و کرامت، محبت و صمیمیت، زھد و قناعت، صبر و توکل، بصیرت و استقامت، تقویٰ و پرھیزگاری، ورع و پارسائی، واقعیت و عزت اور احسان و عدالت کا مُلک ہے۔ (اس مُلک میں پھنچ کر) مقام قرب خدا کی چاشنی کا مزہ لیں، اور وصال محبوب کی خوشبو سونگھےں، اور معشوق کے اخلاق سے مزین ہوں، اور انبیاء و صدقین اور شھداء وصالحین جیسے دوستوں کی ہم نشینی حاصل کریں۔
قرآن مجید اس روحانی اور عاشقانہ سفرکے بارے میں جس میں تمام برائیوں اور پلیدیوں سے ؛ تمام اچھائیوں اور نیکیوں کی طرف کوچ کیا جاتا ہے ؛ فرماتا ہے:
”(
وَمَنْ یُهَاجِرْ فِی سَبِیلِ اللهِ یَجِدْ فِی الْارْضِ مُرَاغَمًا کَثِیرًا وَسَعَةً وَمَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَی اللهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ یُدْرِکْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اجْرُهُ عَلَی اللهِ وَکَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِیمًا
)
“[۱۸]
ذکر محققین فرماتے ہیں: لفظ ”بذکرک“ میں حرف ”با“سببت کے معنی میں ہے۔ لہٰذا اس نورانی جملہ کے معنی یہ ہوں گے: خدا یا! میں تیرے ذکر کے سبب تجھ سے تقرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔
معنی ذکر لفظ ”ذکر“ کے لئے تین معنی بیان کئے گئے ہیں:
۱ ۔ خداوندعالم پر توجہ اور دل میں اس کی یاد۔
۲ ۔ قرآن۔
۳ ۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور اہل بیت علیھم السلام۔
خداوندعالم پر توجہ اور دل میں اس کی یاد
توجہ اور یاد، ذکر و تذکر ؛ یہ سب غفلت کی ضد ہیں، خدا سے غافل رھنے والے کو کچھ پروا نہیں ہوتی کہ اس کی عمربر باد ہو، وہ گناھوں میں غرق ہوجائے، حقوق الناس کو پامال کرڈالے، عبادت و بندگی سے محروم ہوجائے، حرام خوری کرنے لگے اور بد بختی و شقاوت اس پر مسلط ہوجائے۔
لیکن جس شخص کے دل میں خدا کی یاد اور اس کا سینہ ذکر محبوب کا گھر ہو، اور اسی کے لئے اس کا دل دھڑکے، ایسا شخص اس حقیقت کو جانتا ہے کہ خداوندعالم نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے انبیاء علیھم السلام کو بھیجا، آسمانی کتابیں نازل کیں، اور نیکیوں کے لئے بہترین جزا مثل جنت قرار دی اور برائیوں کے لئے دوزخ جیسی سزا معین کی، ایسا شخص شب و رزعبادت و بندگی، انسانوں کی خدمت، محرمات سے دوری، حقوق الناس کی رعایت، تقویٰ و عفت کا لحاظ، علم و معرفت کی تحصیل، جائز کاموں کے ذریعہ کسب حلال، پریشان حال لوگوں کی دست گیری، ضرورت مندوں کی حاجت برآری او رغریب و فقراء کی امداد کرتا ہے، اور ان تمام کاموں میں صرف خوشنودی خدا کو مد نظر رکھتا ہے۔
خدا کا ذکر کرنا اس پر توجہ کرنا یہ باطن اور دل کا کام ہے، جس کی وجہ سے نیکیوں سے آراستہ ہونے کی قدرت عطا ہوتی ہے اور کچھ ہی مدت میں خداوندعالم کی بارگاہ کا محبوب بندہ ہوجاتا ہے، اور اس کی بارگاہ میں حاضری کے لئے بے چین رہتا ہے، اور اس سے مناجات ، عبادت اور بندگان خدا کی خدمت کی لذت محسوس کرتا ہے۔
جناب یونس(ع) کی قوم بہت زیادہ غفلت کی شکار ہوگئی تھی، ایک عالم و عارف کی تبلیغ سے خدا کی یاد آنے لگی، اور خدا کی یاد سے غفلت کا پردہ اس کی آنکھوں سے اٹھ گیا، اور یہ قوم جنگل و بیابان میں نکل گئی اور وھاں پر جاکر سجدہ ریز ہوگئی، آنسوؤں سے اپنے باطن کو صاف کیا اور حقیقی توبہ کے ذریعہ اپنے وجود کو پاک کیا ، اور اپنے اس کام سے آنے والے درد ناک عذاب (صاعقہ) کو اپنی بستی سے دور کردیا، اور پھر بارگاہ الٰھی میں حقیقی بندے بن گئے اور باقی عمر کو عبادت و بندگی میں صرف کیا اور آخر کار خوشنودی خدا اور رحمت الٰھی کے زیر سایہ ان کو موت آئی ، او رآخرت میں قدم رکھا یھاں تک کہ ہمیشہ کے لئے بھشت رضوان میں اپنی جگہ بنالی۔
بہت سے ایسے فاسق و گناھگار لوگ تھے جن کی عاقبت بخیر ہوگئی اپنے گناھوں سے ہاتھ کھینچ لیا اور ضلالت و گمراھی کے کھنڈر سے نور وھدایت کے باغ وبوستاں میں داخل ہوگئے ، اور اپنی شیطنت و مکاری سے ہاتھ روک کر سلامت و امنیت کے دائرہ میں آگئے، اور خدا کی عبادت و بندگی کے ذریعہ اپنے گزشتہ تمام گناھوں کا جبران کردیا۔ ایسے لوگ یاد خدا اور قلبی توجہ کی برکت سے اس بلندمقام پر پھنچے ہیں، اور اپنی توبہ کے ذریعہ آئندہ کے لئے نمونہ عمل بن گئے ہیں، اور خدا کی حجت کو تمام لوگوں پر تمام کردیا ہے۔
تاریخ کے اوراق پر ایسے حضرات کا ذکر ہمارے لئے نمونہ ہے اور ہماری زندگی کے لئے روشنی بخش ہے جیسے آسیہ، اصحاب کہف، بھلول نبّاش، حر بن یزید، فضیل عیاض وغیرہ، جن لوگوں نے اپنے گزشتہ گناھوں سے توبہ کرکے یاد خدا کو اپنا شعار بنالیا اور اپنی تاریک زندگی کو منور کرلیا، اور شیطان کے چنگل سے نکل کر رحمت الٰھی کے زیر سایہ آگئے، اور لمحات میںاپنے کو پستی سے نکال کرکرامت و سعادت کی بلندی پر پھنچادیا اور خدا کی رحمت و وصال تک پھنچ گئے۔
قرآن
خداوند مھربان نے متعدد آیات میں قرآن مجید کو ”ذکر“ سے یاد کیا ہے منجملہ:
”(
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
)
“[۱۹]
”ھم نے ہی اس قرآن کونازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں “۔
قرآن مجید میں ایسے معارف و احکام بیان ہوئے ہیں جن کے بروئے کار لانے سے انسان کو دنیا و آخرت کی سعادت حاصل ہوجاتی ہے۔
قرآن کریم ، ہماری زندگی کی کتاب ہے، اور انسان کی ہدایت کے لئے تمام مراحل میں پیش آنے والی ضرورتوں کے تمام حل اس میں موجود ہیں۔
قرآن کریم ، انسان کو بہترین اور مستحکم ترین راستہ کی طرف ہدایت کرتا ہے، اور اپنی آیات پر عمل کرنے والے کے لئے اجر کریم کی بشارت دیتا ہے۔
قرآن کریم کی آیات پر غور و فکر کرنے سے جھل جیسی خطرناک بیماری کا علاج ہوجاتا ہے اور انسان کا دل معرفت کامکان بن جاتا ہے۔
قرآن مجید کی نیکیاں بیان کرنی والی آیات پر عمل کرنا اسی طرح برائیوں کو بیان کرنے والی آیات پر عمل کرنے سے انسان کو نجات کی امید پیدا ہوتی ہے اور قرب خدا کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔
قرآن کریم پر عمل کرنے سے انسان تمام نیکیوں سے آراستہ ہوجاتا ہے، اور برائیوں سے دوری اختیار کرتا ہے، اور دنیاوی و اُخروی خطرات سے محفوظ رکھتا ہے۔
گزشتہ کا علم اور آئندہ کی خبر ، دردوں کا علاج اور امور زندگی کا نظم قرآن مجید میں موجود ہے۔
پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے قرآن کی تبلیغ کے ذریعہ برے لوگوں کو نیک و صالح افراد بنادیا، اور جاہل عرب و حقیقت سے دور عجم کو جھنم کی آتش سے نجات دلادی، اور آخرت کی خوشبختی و سعادت اور بھشت کی سر حد تک پھنچا دیا۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:
”فَإِذَا الْتَبَسَتْ عَلَیْکُمُ الفِتَنُ کَقِطَعِ اللَّیْلِ المُظْلِمِ فَعَلَیْکُم بِالْقُرآنِ فَإِنَّهُ شَافِعٌ مُشَفَّعٌ وَمَاحِلُ مُصَدَّقٌ وَمَنْ جَعَلَهُ امَامَهُ قَادَهُ إِلَی الجَنَّةِ وَمَنْ جَعَلَهُ وَرَاءَ هُ سَاقَهُ إِلَی النَّارِ
“[۲۰]
”جب فتنہ و فساد کی وجہ سے حقیقت کا پتہ نہ چل سکے، اس وقت قرآن کی طرف رجوع کرو، کیونکہ قرآن ایسا شفاعت کرنے والا ہے جس کی شفاعت مقبول ہے، اور ایسا شکایت کرنے والا ہے کہ اس کی شکایت (بھی) مقبول ہے، جو شخص قرآن کو اپنے لئے ہادی و رھبر قرار دے وہ اس کو بھشت میں لے جائے گا، اور اگر کوئی اس سے منھ موڑے تو اس کو جھنم میں ڈھکیل دے گا“۔
حضرت مام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:
”لَوْ مَاتَ مَنْ بَیْنَ المَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ ان یَکُونَ القُرآنُ مَعِی
“ [۲۱]
” مغرب و مشرق کے رھنے والے اگر تمام افرادمرجائیں اور قرآن میرے ساتھ ہو تو مجھے کسی چیز کا خوف نہیں ہوگا“۔
جی ہاں ،امام سجاد علیہ السلام کے وجود میں توحید کی آیات تحقق پیدا کرچکی تھیں جس کی بنا پر دل کی آنکھوں سے خدا کا مشاھدہ کرتے تھے، اور اپنے ازلی و ابدی محبوب سے انس رکھتے تھے، اور اخلاق کی آیات باطن کے مشرق سے طلوع کرکے روشن و منور تھیں، آپ احکام و وظائف کی آیات پر مکمل طور پر عمل کیا کرتے تھے، اور ان کو نافذ کرنےمیں مکمل طور پر اخلاص کی رعایت فرماتے تھے، اور قیامت کے بارے میں موجود آیات سے اس قدر مانوس تھے کہ اپنے کو نجات کے بلند درجہ پر دیکھتے تھے ، تنھائی کے عالم میں بھی ذرہ برابر خوف و وحشت نہیں تھا۔
چنانچہ آپ کا ارشاد ہے:
”آیاتُ القُرآنِ خَزَائِنُ فَکُلَّمَا فُتِحَتْ خَزانَةٌ یَنْبَغِی لَکَ انْ تَنْظُرَ مَا فِیهَا
“[۲۲]
”قرآن مجید کی آیات (ایک عظیم) خزانہ ہے اور جس وقت خزانہ کھلتا ہے تو پھر اس کا غور سے دیکھا جاناضروری ہے “۔
قرآن کریم کی آیات میں غور و فکر کرنے والا اور عرفانی و ملکوتی معنی و مفاھیم تک پھنچنے والا ان پر عمل کرکے اپنے ظاھر و باطن کو قرآن مجید کے سانچے میں ڈھال لیتا ہے، جس کی وجہ سے قرب خدا تک پھنچنے کے لئے قدرت و طاقت حاصل کرلیتا ہے، اور قرآن کریم ( جو ذکر خدا ہے) کے ذریعہ قرب محبوب کی بارگاہ میں قرار پاتا ہے، اور اپنے دل کی آنکھ سے ہر وقت اس کے جمال کا نظارہ کرتا رہتا ہے اور زبان حال سے کہتا ہے:
تا مرا نور در بصر باشد
بہ جمال ویم نظر باشد
نظری را کہ او کند نظری
آن نظر کیمیا اثر باشد
کافرم گر بہ جنب رخسارش
نظرم جانب دیگر باشد
( جب تک میری آنکھوں میں نور باقی رھے گا، اس کے حسن جمال کا نظارہ کرتا رھوں گا۔ اور اگر وہ مجھ پر ایک نظر کرلے تو اس کی یہ نظر کیمیاوی اثر رکھتی ہے۔ اگر میں اس سے نظر پھیر لوں تو میں کافر ہوجاؤں گا۔)
پیغمبر(ص) اور اہل بیت علیھم السلام
حضرت باقر العلوم علیہ السلام ایک بہت اھم روایت میں بہترین مطالب بیان فرماتے ہیں، مرحوم کلینی نے اس روایت کو اپنی گرانقدر کتاب ”کافی“ میں قرآن کی فضیلت میں پھلی روایت کے عنوان سے بیان کیا ہے جس میں قرآن مجید کی درج ذیل آیت کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے:
”(
إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَی عَنْ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُ اللهِ اکْبَرُ
)
“[۲۳]
”بیشک نماز ہر بُرائی اور بدکاری سے روکنے والی ہے اور اللہ کا ذکر بہت بڑی شئے ہے“۔
”وَنَحْنُ ذِکْرُ اللهِ وَنَحْنُ اکْبَرُ
“[۲۴]
بے شک ”ذکر“ سے مراد پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور بارہ امام ہیں، وہ بارہ امام جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ایمان واخلاق علم و معرفت اور بصیرت کے وارث ہیں۔
وہ بارہ امام جو مفسر قرآن، احکام بیان کرنے والے، محافظ دین اور خداوندعالم کی طرف حق کے امانتدار ہیں۔
وہ بارہ امام جو قرآن مجید کے عینی مصداق ، چراغ ہدایت، راھنمائے انسانیت اور دین و دنیا کی بھلائی دینے والے ہیں۔
ائمہ علیھم السلام حقائق کی طرف متوجہ کرنے والے، واقعیات کو واضح وروشن کرنے والے،علم و عرفان کا مخزن اور صفات الٰھی کا مظھر ہیں۔اور چونکہ ائمہ معصومین علیھم السلام قرآن ناطق ہیں لہٰذا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ھم ہی ذکر اللہ ہیں اور ہم ہی اکبر ہےں“۔
بے شک ائمہ علیھم السلام کی سرپرستی اور ان کی تعلیمات کو قبول کئے بغیرنیز حقیقی جانشین رسول کی اطاعت کئے بغیر، اور ان کی ولایت کے دائرہ میں آئے بغیر ؛ ایمان ناقص، اخلاق فاسد ، اعمال نامناسب، دنیا میں بے نظمی اور آخرت میں درد ناک عذاب تیار ہے۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنی آخری عمر میں یہ اعلان فرمایا: ”میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارھا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری عترت و اہل بیت، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی یھاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پھنچ جائیں گی، لہٰذا اگر تم ان دونوں سے متمسک رھے تو کبھی بھی میرے بعد گمراہ نہ ہوں گے“۔[۲۵]
اس حقیقت پر توجہ کرنا ضروری ہے کہ اپنے دل کو برائیوں اور آلودگی سے پاک کرا، اس کو برائیوں سے دھونا، خداوندعالم کے صفاتِ علیا اور اسماء حسنیٰ کے معنی و مفھوم کو دل میں حاضر کرنا، ان عظیم حقائق و کریم مراتب کو شیاطین جن و انس سے محفوظ کرنا، ہمیشہ اس کے حضور میں حاضر ہونا اور ہر کام میں اسی پر توجہ رکھنا، اور کسی بھی موقع پر اس کی یاد سے غافل نہ ہونانیز اپنے تمام واجبات کو بجالانا، اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر نیک کام اور عوام الناس کی خدمت کرنا ؛ ”ذکرخدا“ ہے۔
بعض صاحبان دل، اور آب و گِل سے آزاد شدہ حضرات اور بعض عارفین نیزذکر کی طرف دعوت دینے والی قرآن مجید کی آیات ، اسی طرح معصومین علیھم السلام سے وارد شدہ احادیث میں کلمہ ”ذکر“ کو ان ہی باطنی حقائق اور اعمال میں شمار کیا گیا ہے، اسی طرح قرآن مجید کی آیات ، کلمات نبوت اور روایات معصومین علیھم السلام کے ذریعہ اپنی زندگی کو ڈھالنا ”ذکر“ کے کامل مصداق میں سے ہے۔
جی ہاں! قرب الٰھی کو ذکر خدا ہی کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ہے،جیسا کہ گزشتہ حقائق کو ذکر کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے، اور ذکر خد ا کے علاوہ ؛ قرب الٰھی حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
قارئین کرام! ہمارے دل پر یاد خدا کی حکومت ہونا چاہئے، اور قرآن مجید کی آیات پر عمل کریں، اور دل وجان سے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی نبوت اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی امامت کو قبول کرتے ہوئے ان کی پیروی کریں، تاکہ قرب الٰھی حاصل ہوجائے، اور مقربین الٰھی کے دائرہ میں شامل ہوجائیں، اور انس خدا اور اس کے احکامات کو جاری کرکے نیز پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور اہل بیت علیھم السلام کی ہمراھی کی شیرینی کا احساس کریں، جس کے بعد تمام ہی سعادت و خوشبختی کو اپنی آغوش میں لے لیں۔
جس وقت ہمارا یہ دل خداوندعالم کے اسماء و صفات کے معنی و مفھوم کا مظھر قرار پائے، اور ان معنی و مفاھیم کے آثار ہماری روح اور اعضاء و جوارح میں سے ظاھر ہونے لگےں، خوشبو دینے والی محبت اور آگ لگانے والا عشق (جو خود معرفت اسماء الٰھی کا بہترین ثمرہ ہے) ہمارے دل میں اپنا گھر بنالے اور ”اشَدُّ حُبّاً لِلّہِ“[۲۶]”ایمان والوں کی تمام ترمحبت خدا سے ہوتی ہے “ھمارے تمام وجود پر سایہ کرلے اور انسان اس آیت
”(
رِجَالٌ لَا تُلْهِیهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَیْعٌ عِنْ ذِکْرِ اللّهِ
)
“[۲۷]
”وہ مرد جنھیں کارو بار یا دیگر خریدو فرخت ذکر خدا ،قیام نماز اور ادائے زکوةسے غافل نہیں کر سکتی “کا مصداق بن جائے جو خود ایک بلند وبالا مقام ہے تو پھر انسان مسند خلافت وجانشینی خدا پر بیٹھا ہوا نظر آتا ہے اور پھر قرب خدا کی شیرنی کی لذت حاصل کرتا ہے۔
یہ بلند و بالا مقام ہر جال میں پھنسانے والے شیطان سے محفوظ ہے اور جب انسان اس مقام پر پھنچ جاتا ہے تو پھر کوئی بھی طاقت اس کو خدا سے دور نہیں کرسکتی، اور اس نورانی مقام پر پھنچنے کے بعد وہ خدا کے علاوہ کسی اور کو نہیں پہچانتا، اور خدا کے علاوہ کسی غیر کو نہیں دیکھتا، خدا کے علاوہ کسی کو نہیں جانتا اور خدا کے علاوہ کسی کو نہیں پاتا ہے۔
سید العارفین، امام المتقین،اسوہ عاشقین، رھبر شیعیان، مقتداء بزرگان اپنے تمام وجود سے یہ عاشقانہ ترانہ زبان پر لاتا ہے:
”مَا رَایْتُ شَیْئاً اِلَّا وَرَایْتُ اللهَ قَبْلَهُ وَ مَعَهُ وَ بَعْدَهُ
“۔
”میں نے کچھ نہیں دیکھا مگر یہ کہ اس سے پھلے اس کے بعد اس کے ساتھ خدا کو دیکھا ہے“۔
حضرت امام حسین علیہ السلام ، دامن معرفت اور علم و بصیرت کی آغوش کے تربیت یافتہ؛ اپنی انتھائی بھوک و پیاس اور مصائب و آلام کی حالت میں ۷۱ ٹکڑے ٹکڑے لاشوں کے درمیان اور اہل حرم کے درد ناک نالہ و شیون کی آواز کو سنتے ہوئے بارگاہ رب العزت میں سجدہ کی حالت میں زبان پر ان کلمات کو جاری کرتے ہیں:
”اللّٰهُمَّ عَظُمَ سُلْطٰانُکَ“
”خدایا تیری سلطنت عظیم ہے“۔
خداوندعالم کی سلطنت اور بادشاھی ذاتی اور حقیقی ہے، جبکہ دوسری سلطنتیں اعتباری اور ختم ہونے والی ہیں؛ خداوندعالم کی سلطنت اور بادشاھی دائمی، ہمیشگی اور لا محدود ہے، جبکہ دوسری سلطنتیں کم مدت والی اور بہت محدود ہیں۔
خداوندعالم کی بادشاھی تمام چیزوں پر احاطہ کئے ہوئے ہے چاھے وہ ظاھری چیزیں ہوں یا پوشیدہ، حقیقت یہ ہے کہ اس کی سلطنت کے علاوہ کسی غیر کی سلطنت ہے ہی نھیں، کیونکہ اس کا غیر بھی خود اسی کا محتاج اور نیازمند ہے، اس کے پاس اپنا کچھ نہیں ہے۔
خدا کی حجت اور اس کی برھان عظیم اور مضبوط ہے، جبکہ اس کے بالمقابل کوئی دلیل، حجت اور برھان نہیں ہے۔ عقل، نبوت، قرآن اور امامت خدا کی حجتیں ہیں جن کے ذریعہ خداوندعالم تمام مخلوقات کا فیصلہ کرے گا، اور ان کے گناھوں کے ارتکاب اور عمل صالح سے دوری کے بھانوں کو ختم کردے گا۔
”وَعَلٰا مَکٰانُکَ“
”اور تیری منزلت بلندھے“۔
وہ پاک و پاکیزہ ذات جس نے اپنے کو قرآن مجید میں ”لیس کمثله شیء
“ [۱]
سے پہچنوایا ہے، وہ ہر عیب و نقص سے پاک و پاکیزہ ہے تمام صفات کمال و جلال اس میں موجود ہیں، اس کے صفات عین ذات ہیں، اعلیٰ صفات اور اسماء حسنیٰ اسی کی ذاتِ بابرکت سے مخصوص ہیں، تمام ظاھری اور پوشیدہ چیزوں کا وجود اس کی قیومیت کی وجہ سے ہے، یہ تمام کائنات اس کے علم و ارادہ اور قدرت و رحمت کا ایک جلوہ ہے، اس کے صفات کی کوئی حد نھیں، اس کی قوت تمام قوتوں سے بالاتر، اس کی قدرت تمام قدرتوں سے بلند، اس کی عظمت تمام عظمتوں سے مافوق ، اس کی سطوت تمام سطوتوں سے بلند وبالا ہے،اور اس کی شان و منزل اس کا مرتبہ ہر چیز سے اعلیٰ و ارفع ہے۔
”وَخَفِيَ مَکْرُکَ“
” اور تیری تدبیر مخفی ہے“۔
”مکر “خدا کے علاوہ حیلہ اور دھوکہ دینے کے معنی میں آتا ہے، جیسے کسی کو دھوکا دیا جائے، اس معنی میں خدا کے لئے یہ لفظ استعمال کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ مکر کے یہ معنی جاہل و عاجز انسان کی صفت ہے، جبکہ خداوندعالم جھل و عجزسے پاک و پاکیزہ ہے۔ اس کا وجود بے نھایتعلم، قدرت، رحمت اور کرم ہے،یہ ایک مسلّم اور ثابت حقیقت ہے کہ تمام موجودات اس کے محتاج ہیں،حالانکہ وہ سب سے بے نیاز ہے ۔
خدا کے سلسلہ میں”مکر“ کا استعمال کرنا اس کے عذاب و سزا کے معنی میں ہے یعنی جس کو مستحق عذاب سمجھے گا اس کو عذاب میں گرفتار کردے گا اور وہ اس سے بھاگ کر نکل بھی نہیں سکتا۔
گناھوںاور لذت دنیا میں غرق اور غرور و تکبر کرنے والوںکے لئے عذاب الٰھی کی مختلف صورتیں ہیں۔ جس کا پھلا مرتبہ بہ صورت استدراج و استھمال ہے یعنی:جس قدر گناھگار معصیت کا ارتکاب کرتا ہے اور گناھوںمیں بہت زیادہ غرق ہوتا جاتا ہے، تو خدا اس کی نعمتوں میں اضافہ کرتا رہتا ہے،یھاں تک کہ کثرت نعمت کی وجہ سے اس کی غفلت بڑھتی رہتی ہے،اور توبہ و استغفار کو بھول جاتا ہے، اور پھر اچانک اس پر عذاب نازل ہوجاتا ہے جس کے بارے میں وہ بالکل بھی نہیں سوچ پاتا اور وہ عذاب میں گرفتار ہوجاتا ہے، اور اس کی بے خبری کاانتقام لیا جاتا ہے، در حقیقت اس پر خفیّ طریقہ سے بلائیں نازل ہوتی ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
”إِذَا ارَادَ اللهُ بِعَبْدٍ خَیْراً فَاذْنَبَ ذَنْباً اتْبَعَهُ بِنِعْمَةٍ وَیُذْکِّرُهُ الاسْتِغفَارَ،وَإِذَا ارادَ بِعَبْدٍ شَراً فَاذْنَبَ ذَنْباً اتْبَعَهُ بِنِعْمَةٍ لِیُنْسِیَهُ الاستِغْفارَ وَتَمَادَی بِها وَهُوَ قولهُ: ”سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَیْثُ لاَیَعْلَمُونَ
۔“[۲] “[۳]
”بے شک جب خداوندعالم کسی بندے کے لئے خیرو نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو اگرانسان گناہ کرتا ہے، تو خدا اس کو نعمت عطا کرتا ہے ، اور اس کو اس نعمت کے ذریعہ توبہ و استغفار کی طرف متوجہ کرتا ہے، اور اگر خدا کسی کے لئے شر کا ارادہ کرتا ہے ، تو خدا اس کو (بھی) نعمت عطا کرتا ہے اور انسان اس نعمت کی وجہ سے توبہ و استغفار کو بھول جاتا ہے اور اس نعمت کی وجہ سے اس کے گناہ بڑھتے جاتے ہیں۔ اور یھی معنی ہیں خداوندعالم کے (مذکورہ بالا قول کے) کہ ان کو عذاب و بلاء میں اس طرح گرفتار کردیتا ہے کہ اس کو پتہ (بھی) نہیں چلتا (کہ کس چیز کی وجہ سے بلائیں نازل ہوئی ہیں)!“
”وَظَهَرَ امْرُکَ“
” اور تیرا امر ظاھرھے“۔
خدا کا حکم ایک مرحلہ میں ”فرمان تکوینی“ ہوتا ہے کہ جس کے سبب تمام موجوات جھان ہستی میں قدم رکھتے ہیں، اور ظھور کی کرسی پر بیٹھتے ہیں۔ اس کا دوسرا حکم ”فرمان تشریعی“ ہوتا ہے جس کی برکت سے قرآن مجید قلب رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر نازل ہوا ، اور اس حکم کے جلوے قواعد و احکامات اور حلال و حرام کی شکل میں ظاھر ہوئے، جو دوسری آسمانی کتابوں،انبیاء کی نبوت اور ائمہ علیھم السلام کی امامت کے ذریعہ تمام نوع بشر کے ذریعہ نشر ہوئے ہیں۔
” وَغَلَبَ قَهْرُکَ،وَجَرَتْ قُدْرَتُکَ“
”اور تیرا قھر غالب اور تیری قدرت نافذ ہے“۔
قھر و قدرت کی وضاحت اورضروری تفسیر شروع کتاب میں بیان ہوچکی ہے۔
”وَلٰا یُمْکِنُ الْفِرٰارُمِنْ حُکُومَتِکَ
“۔
” اور تیری حکومت سے فرار ناممکن ہے“۔
خداوندعالم کی ذات اقدس تمام چیزوں پر تمام موجودات پر اور ہر چیز پر محیط ہے، اور کوئی بھی چیز اس کے احاطہ سے باھر نہیں ہے۔ تمام موجودات اسی کے ارادہ سے وجود میں آئیں، لہٰذا تمام ہی چیزیں اس کے پاس موجود ہیں اور اس کی رحمت و لطف و کرم اور اس کی نعمتو ں کے زیر سایہ اپنی زندگی بسر کرتی ہیں، لہٰذا وہ ان سب کے ساتھ میں موجود ہے، اور تمام چیزیں اسی کی طرف پلٹیں گی، لہٰذا وہ سب چیزوں کے بعد میں بھی باقی رھے گا، تو پھر کونسا ایسا راستہ ہے جس کے ذریعہ کوئی بھی چیز اس کی حکومت سے فرار کرے؟!
ایک بہت اھم روایت میں بیان ہوا ہے کہ: ایک شخص حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کھا: میں ایک گناھگار شخص ہوں اورگناہ پر صبر نہیں کرسکتا، لہٰذا مجھے موعظہ فرمائیئے، تو امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا: تو پانچ چیزوں کو انجام دے اس کے بعد جو چاھے گناہ کرنا:
اول: خداکا عطا کردہ رزق نہ کھا۔
دوم: خدا کی حکومت و ولایت سے نکل جا۔
سوم: ایسی جگہ تلاش کر جھاں تجھے خدا نہ دیکھ رھا ہوں۔
چھارم: جس وقت ملک الموت تمھاری روح قبض کرنے آئے اس کو اپنے سے دور کردینا۔
پنچم: جب (روز قیامت) تجھے مالکِ دوزخ ، دوزخ میں ڈالنا چاھے تو اس وقت دوزخ میں نہ جانا۔[۴]
جی ہاں! اگر انسان بھاگنے کا ارادہ رکھتا ہے تو کیا اچھا ہو کہ انسان جھالت و نادانی سے نکل کر علم و معرفت کی طرف بھاگے، خبراور سنی ہوئی باتوں سے نکل کر مشاھدہ کی طرف فرار کرے، اور آخر کار مخلوق سے نکل کر خداوندعالم کی طرف فرار کرے، جس کے نتیجہ میں اس کو دنیاوی اور اُخروی منافع حاصل ہوں اور سعادت ابدی اس کے شامل حال ہو، در حقیقت یہ فرار ؛ھوائے نفس سے عقل و خرد ،دنیا سے آخرت نیز دوزخ سے بھشت کی طرف فرار ہو ، اور آخر کار شیطان سے خدا کی طرف فرار ہونا چاہئے۔
” اللّٰهُمَّ لاٰاجِدُ لِذُنِوبيغٰافِراً،وَلاٰ لِقَبٰائِحيسٰاتِراً،وَلاٰلِشَیْءٍ مِنْ عَمَلِيَ الْقَبیحِ بِالْحَسَنِ مُبَدِّلاً غَیْرَ کَ
“
”خدایا میرے گناھوں کے لئے بخشنے والا۔میرے عیوب کے لئے پردہ پوشی کرنے والا،میرے قبیح اعمال کو نیکیوں میں تبدیل کرنے والا تیرے علاوہ کوئی نہیں ہے “۔
گناھوں کا بخشنے والا
خداوندعالم کے اسماء حسنیٰ اور اس کے بلند و بالا صفات میں؛ صفت ”غافر“ اور ”غفور“ ہے، یعنی بخشنے والی ذات، بلکہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔ صرف شرط یہ ہے کہ انسان واقعی اور حقیقی توبہ کرے۔
گناھگار کو چاہئے کہ خدا کی صفت ”غفور“ پر توجہ کرے اور اسی سے امیدوار رھے، کہ اگر وہ اپنے گناھوں سے توبہ کرلے، برائیوں سے ہاتھ کھیچ لے، گناھوں سے دوری کرے اور ایمان و عمل صالح سے مزین ہوجائے تو یقینا خدا وندعالم اس کے تمام گناھوں کو معاف کردیتا ہے۔
اس سلسلہ میں ناامید اور مایوس ہونا ایک گناہ عظیم اور عذاب الٰھی کا سبب ہے، بلکہ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق کفر کے برابر ہے:
”۔۔۔لاَیَیْئَسُ مِنْ رَوْحِ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ
۔“[۵]
”اس کی رحمت سے کافر قوم کے علاوہ کوئی مایوس نہیں ہوتا“۔
قرآن مجید نے گناھگاروں کے بارے میں اعلان کیاھے کہ ان کوخدا کی رحمت سے ناامید اور مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ خداوند عالم تمام گناھوں کا بخشنے والا ہے۔
ارشاد الٰھی ہوتا ہے:
”(
قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ اسْرَفُوا عَلَی انْفُسِهِمْ لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ
)
“ ۔ [۶]
”پیغمبر آپ پیغام پھنچا دیجئے کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے، رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا، اللہ تمام گناھوں کا معاف کرنے والا ہے،اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ہے “۔
قارئین کرام ! درج ذیل آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا ہر گناہ کو بخش سکتا ہے:
” إ(
ِنَّ اللهَ کَانَ غَفُورًا رَحِیمًا
)
۔“[۷]
” یقینا اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ہے “۔
”ْ(
وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ
)
۔“[۸]
” اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ہے “۔
”(
فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَاصْلَحَ فَإِنَّ اللهَ یَتُوبُ عَلَیْهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ
)
۔“[۹]
”پھر ظلم کے بعد جو شخص توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو خدا اس کی توبہ قبول کرے گا کہ اللہ بڑا بخشنے والا اور مھربان ہے“۔
”۔۔۔(
وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ غَفورٌ رَحیمٌ
)
۔“[۱۰]
” اللہ سے ڈرو یقینا وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ہے “۔
جی ہاں! اگر کوئی شخص اپنے گناھوں سے توبہ کرے، توبہ کے بعد گناھان کبیرہ سے اجتناب کرے اور گناھان صغیرہ پر اصرار نہ کرے، اور اپنے قضا شدہ واجبات کو ادا کرے، لوگوں کے غصب شدہ مال کو ان تک لوٹادے، یقیناایسی ہی توبہ ، ”واقعی توبہ“ ہے جس کی بنا پر اس کی تمام برائیاں بخش دی جائیں گی۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) حقیقی طور پر توبہ کرنے والے کی نشانیاں بیان فرماتے ہیں:
”امَّا عَلّامةُ التّائِبِ فَاربَعَةٌ:النَصِیحَةُ لِلّٰهِ فِی عَمَلِهِ،وَتَرْکُ البَاطِلِ، وَلُزُومُ الحَقِّ وَالحِرْصُ عَلَی الخَیْرِ
“[۱۱]
”توبہ کرنے والے کی چار نشانیاں ہیں: اپنے اعمال و کردار میں خدا وندعالم کی مطلق طور پر فرمانبرداری کرنا، باطل کو چھوڑ دینا، حق کا پابند ہونا اور نیکی و بھلائی میں بہت زیادہ رغبت رکھنا“۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
”خدا ایسا نہیں کرتا کہ بندے کے لئے شکر کا دروازہ کھولے رکھے اور اس پر نعمتوں کے اضافہ کا دروازہ بند کردے، اسی طرح دعا کا دروازہ کھولے رکھے، لیکن باب اجابت کوبند کردے، نیز توبہ کا دروازہ کھلا رکھے اور عفو و بخشش کا دروازہ بند کردے“۔[۱۲]
برائیوں کو چھپانے والا
خداوندعالم کی ایک اھم صفت یہ ہے کہ جو شخص چھپ کر کسی گناہ کو انجام دیتا ہے اوریہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کے گناہ سے آگاہ ہوجائے، تو خدا بھی اس کو چھپاتا ہے۔
خداوندعالم نے خود کو ”ستار العیوب“ کھا ہے، تاکہ اس کے بندوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ جب تک وہ چھپ کر او رمخفی طریقہ سے گناہ کرتے ہیں تو ان کی عزت و آبروکی حفاظت کرتا ہے، اور دوسروں کے سامنے اس کے گناہ کی فایل کو نہیں کھولتا؛ مگر یہ کہ گناہ کرنے والا اپنی بے حیائی اور جرائت کی بنا پر سب کے سامنے گناھوں میں غرق ہوجائے اور اپنی عزت و آبرو کا خیال نہ کرے، کیونکہ اس صورت میں اس کے گناھوں پرپردہ ڈالنا اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنے کے کوئی معنی نظر نہیں آتے۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے منقول ہے:
”مَن تَابَ، تَابَ اللهُ عَلَیْهِ،وَاُمِرَتْ جَوارِحُهُ اَنْ تَسْتُرَ عَلَیْهِ،وَبِقاعُ الارْضِ انْ تَکْتُمَ عَلَیْهُ،وَانْسِیَتِ الحَفَظَةُ مَا کانَتْ تَکْتُبُ عَلَیهِ
“[۱۳]
”جو شخص توبہ کرے، تو خداوندعالم اس کی توبہ کو قبول کرلیتا ہے، اور اس کے اعضاء کو حکم دیتا ہے کہ اس کے گناھوں پر پردہ ڈالے رھو، اور زمین کو بھی حکم ہوتا ہے کہ اس کے گناھوں کو چھپائے رکھے، اور نامہ اعمال کے لکھنے والے فرشتوں کو اس کے گناھوں کو بھلا دیتا ہے“۔
معاویہ بن وھب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:
”إِذَا تَابَ العَبْدُ المُومِنُ تَوبَةً نَصوحاً اَحَبَّهُ اللهُ فَسَتَرَ عَلَیهِ فِی الدُّنْیا وَالآخِرةِقُلتُ فَکَیْفَ یَسْتُرُ عَلَیهِ؟قَالَ:یُنْسِی مَلَکَیْهِ مَا کَتَبا عَلَیهِ مِنَ الذُّنوبِفَیَلْقَی اللهَ حِینَ یَلْقاهُ وَلَیسَ شَیْءٌ یَشْهَدُ عَلَیهِ بِشَیْءٍ مِنَ الذُّنوبِ
“[۱۴]
”جس وقت مومن بندہ توبہ نصوح (یعنی خالص توبہ) کرتا ہے تو خدا اس سے محبت کرنے لگتا ہے، لہٰذا وہ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرتا ہے۔
میں نے عرض کیا: خدا کس طرح اس کی پردہ پوشی کرتا ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: گناھوں کے لکھنے والے فرشتوں کو بھلا دیتا ہے، لہٰذا جب وہ خدا سے ملاقات کرے گا تو کوئی بھی چیز اس کے خلاف گواھی دینے والی نہیں ہوگی“۔
تفسیر ”منہج الصادقین “ میں منقول ہے: جب روز قیامت برپا ہوگا، ایک بندے کو خدا کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا، اس وقت حکم ہوگا: ایک قبہ (بلند جگہ) بنایا جائے اور اس پر اس بندے کو لایا جائے۔ اس کے بعد خدا وندعالم اس سے خطاب فرمائے گا: اے میرے بندے! تو نے میری نعمتوں کو گناھوں میں خرچ کیا، اور جیسے جیسے میں نعمتوں میں اضافہ کرتا چلا گیا تو بھی گناھوں میں اضافہ کرتا رھا۔ اس وقت اس بندے کا سر شرمندگی کی وجہ سے جھگ جائے گا۔
اس وقت خطاب ہو گا: اے میرے بندے اپنے سر کو اوپر اٹھالے، جس وقت تو گناہ کرتا تھا میں تیرے گناھوں کو معاف کردیتا تھا۔
اس وقت ایک دوسرے بندے کو لائے جائے گا اس پر بھی لعنت و ملامت کی جائے گا، اس کا سر بھی شرمندگی سے جھک جائے گا اور رونے لگے گا، اس وقت خطاب ہوگا: اے میرے بندے، جس وقت تو گناہ کرتا تھا اور ہنستا تھا تجھے میں نے اس وقت شرمندہ نہ کیا، آج جبکہ تو گناہ بھی نہیں کررھا ہے اور گریہ و زاری کررھا ہے، کس طرح تجھے عذاب کروں، اور تجھے رسوا کروں؟ (جا) میں نے تجھے بخش دیا اور جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی!!
برائیوں کو نیکیوں میں بدلنے والا
خداوندعالم کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ جب انسان اپنے گناھوں سے توبہ کرلیتا ہے، اور ایمان سے مزین ہوکر اعمال صالحہ بجالاتا ہے تو خداوندعالم اس کے گناھوں کو حسنات سے اور برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیتا ہے۔
چنانچہ ارشاد الٰھی ہوتا ہے:
”إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاوْلَئِکَ یُبَدِّلُ اللهُ سَیِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِیمًا
۔“[۱۵]
” علاوہ اس کے جوشخص توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل بھی کرے کہ پروردگار اس کی برائیوں کو اچھائیوں میں تبدیل کردے گا“۔
”(
وَاقِمِ الصَّلَوٰةَ طَرَفَیِ النَّهارِ وَزُلَفاً مِنَ الَّیْلِ انَّ الحَسَناتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّئٰاتِ
)
۔۔۔ “[۱۶]
”اور پیغمبر آپ دن کے دونوں حصوں میں اور رات گئے نماز قائم کریں کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردینے والی ہیں ۔۔“۔۔
برائیوں کے نیکیوں میں بدل جانے کے سلسلہ میں اسلامی منابع میں بہت سے اھم مطالب ہیں جن میں سے بعض فلسفی ، بعض عرفانی، بعض ذوقی اور بعض روایتی پھلو رکھتی ہیں۔ اگرچہ ان کو بیان کرنا چاہئے تھا لیکن اس کتاب کے صفحات اجازت نہیں دیتے۔
صاحب ”تفسیر نمونہ“ (حضرت آیت اللہ مکارم شیرازی دام ظلہ) کہتے ہیں: برائیوں کے نیکیوں میں بدل جانے کے سلسلہ میں چند تفسیریں ہیں جن میں سے ہر ایک کو قبول کیا جاسکتا ہے۔
۱ ۔ جس وقت انسان توبہ کرتا ہے، اور خداپراپنے ایمان کو مضبوط کرتا ہے، تو اس کے پورے وجود میں ایک انقلاب پیدا ہوتا ہے، اور اسی اندرونی انقلاب کی بنا پربرائیاںنیکیوں میں بدل جاتی ہیں؛ اگر اس نے کسی کو قتل کیا ہے، تو پھر وہ آئندہ مظلوموں کے دفاع اور ظالم سے مقابلہ کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے، اور اگر زنا کار تھا اس کے بعد عفیف اور پاکدامن بن جاتا ہے، اور یہ اندرونی انقلاب ؛ ایمان او رتوبہ کے زیر سایہ پیدا ہوتا ہے۔
۲ ۔ اگر انسان توبہ کرتا ہے تو خداوندعالم اپنے لطف و کرم اور انعام کے تحت اس کی برائیوں کو مٹا دیتا ہے اور ان کے بدلے نیکیاں لکھ دیتا ہے، جیسا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے جناب ابوذر نے روایت کی ہے: جب روز قیامت بعض لوگوں کو محشر میں حاضر کیا جائے گا، حکم خدا ہوگا کہ (اس شخص کے) گناھان صغیرہ کو دکھادیا جائے اور گناھان کبیرہ کو چھپالیا جائے۔ اس سے کھا جائے گا: تو نے فلاں وقت فلاں گناہ صغیرہ انجام دیا تھا، اور وہ اس کو قبول کرے گا، لیکن گناھان کبیرہ کی وجہ سے اس کے دل میں خوف وھراس سے لرزہ رھے گا۔
اس موقع پر خداوندعالم اپنے لطف و کرم کی بنا پر حکم دے گا کہ اس کی برائیوں کے بدلے نیکیاں لکھ دی جائیں۔
اس وقت وہ بندہ عرض کرے گا: پروردگارا ! میں نے بہت بڑے بڑے گناہ بھی انجام دئے تھے، لیکن اب ان کو نہیں دیکھ رھا ہوں۔ جناب ابوذر کہتے ہیں کہ اس وقت پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) مسکرائے او رآپ کے دندان مبارک ظاھر ہوئے اور اس کے بعد درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:
” ۔۔۔(
فَاوْلَئِکَ یُبَدِّلُ اللهُ سَیِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ
)
۔۔۔“[۱۷]
”پروردگار اس کی کی برائیوں کو اچھائیوں میں تبدیل کردے گا“۔
۳ ۔ برائیوں سے مراد؛ خود وہ برائیاں نہ ہوںجن کو انسان انجام دیتا ہو، بلکہ ان کے برے آثار مراد ہوں جو انسان کے جسم و روح میں رچ بس جاتے ہیں، جس وقت انسان توبہ کرتا ہے، اور اپنے ایمان کو مستحکم کرتا ہے تو برائیوں کے برے آثار اس کے جسم و روح سے دھل جاتے ہیں اور نیک آثار میں تبدیل ہوجاتے ہیں،برائیوں کے حسنات اور نیکیوںمیں بدل جانے کا یھی مطلب ہے۔[۱۸]
”لاٰالٰهَ الاَّ انْتَ سُبْحٰانَکَ وَبِحَمْدِکَ
“
” تو وحدہ لا شریک ،پاکیزہ صفات اور قابل حمد ہے“۔
کلمہ ”توحید“ یعنی ”لا إلہَ إلّاانْتَ“ کو تھلیل کھا جاتا ہے اور” سبحانک“ سے مراد تسبیح ہے اور ”بحمدک“ سے مراد حمد خدا ہے۔
جو شخص اپنی زبان سے تسبیح و تھلیل کرتا ہے ،دل کی گھرائیوں سے سچے دل سے اس کا اقرار کرتا ہے ،اس میں اخلاص سے کام لیتا ہے ، نیز عملی میدان میں دوسرے معبود کی نفی کرتا ہے توایسا ہی شخص موحّد اور خدا پرست ہے نیز خداوندعالم کی امان میں ہے، اور اس پر دنیا و آخرت کی ذلت یقیناً حرام ہے، ایسا ہی شخص روز قیامت جنت الفردوس کا ساکن اور محبوب خدا ہے، نیز انبیاء علیھم السلام، صدیقین اور شھدائے کرام کی ہمنشینی کی صلاحیت رکھتا ہے۔
انسان کے اندر تھلیل کی حقیقت اس وقت جلوہ نما ہوتی ہے جب وہ قرآن و اہل بیت علیھم السلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے خداوندعالم کے اسمائے حسنیٰ اور صفات عُلیاکی معرفت حاصل کرلے،اور اپنے دامن کو گناھوں کی کثافت و گندگی سے محفوظ رکھے اور خداوندعالم کے واجب کردہ وظائف کو صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ انجام دے نیز حتی الامکان خلق خدا کی خدمت میںکوشاں رھے۔
جی ہاں! اگر انسان اس راستہ کو اپناتے ہوئے آگے بڑھے تو اس کے پورے وجود سے یہ آواز نکلے گی:
الاٰ کُلُّ شَیءٍ مَا خَلَا الله بَاطِلٌ
وَ کُلُّ نَعِیْمٍ لٰا مُحَالَةَ زَائِلٌ
”یقینا آگاہ ہوجاؤ کہ خدا کے علاوہ ہر چیز باطل ہے، اور لامحالہ ہر نعمت کا زوال ہے“۔
جب انسان دل کی آنکھوں سے اپنے پروردگار عالم کے نور پُر جمال کا مشاھدہ کرتا ہے تو اس کے بدن کا ہر عضو یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے:
”لا إلهَ إلّااللهُ “ ،”لا موثرَّ فی الوجود الا الله“، ”لا حول و لا قوة الا بالله“
کیا واقعاً اس کائنات میں خدا کے علاوہ کوئی خدا ہے جس کی بارگاہ میں اپنا سر تسلیم خم کیا جائے، یا اس سے روزی طلب کی جائے ،اپنی مشکل کشائی کی درخواست کی جائے، اور اس سے گناھوں کی بخشش اور برائیوں کے چھپانے کی التجاء کی جائے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ دعائے کمیل کے اس حصہ میں خداوندعالم کی تسبیح و تھلیل اور مدح و ثنا کی گئی ہے، کیونکہ دعا کرنے والا اپنی ذلت و بے چارگی اور فقر و محتاجگی نیز گناھوں کے اقرار کے بعد اس کی بارگاہ میں یہ عرض کرتا ہے: میں نے اپنے گناھوں کو بخشنے والا یا ان کو چھپانے والا کسی کو نہیں پایا، چونکہ دعا کرنے والا یہ جانتا ہے کہ یہ کام خداوندعالم ہی کا ہے، اوردوسرا کوئی بھی ان امور کو انجام نہیں دے سکتا۔ لہٰذااس موقع پر ”لا الہ الا انت“، ”سبحانک“ اور ”بحمدک“ کھنا بہت مناسب ہے۔
جنت کی قیمت
جو شخص معرفت و خلوص کے ساتھ اپنے پروردگار کی تسبیح و تھلیل کرے ،عملی طور پر دوسرے معبود کا انکار کرے ، نیزخداوندعالم کے علاوہ کسی غیر کی اطاعت نہ کرے، صرف اسی کی عبادت و پرستش کرے اور اسی کے سامنے اپنا سرتسلیم خم کرے، تودر حقیقت اس کا یہ قدم جنت کی قیمت ادا کرنا ہے اور خداوندعالم کے ہر عذاب سے محفوظ ہونے کے لئے اس کے قلعہ میں داخلہ ملنا ہے۔
حضرت امام رضا علیہ السلام نے اپنے آباء و اجداد کے حوالہ سے پیغمبر اسلام :(ص) سے نقل کیا ہے کہ خداوندعالم کا ارشاد ہے:
”لا إلهَ إلّااللهُ حِصْنی فَمَنْ دَخَلَ حِصنی امِنَ مِنْ عَذابی
“[۱۹]
”کلمہ توحید ”لا إلہَ إلّااللهُ “ میرا قلعہ ہے، لہٰذا جو شخص بھی اس قلعہ میں داخل ہوگیا وہ میرے عذاب سے نجات پاگیا“۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے:
”مَا جَزَاءُ مَن انْعَمَ الله عَزَّ وَجَلَّ عَلَیهِ بِالتَّوحیدِ إِلَّاالجَنّةَ“[
۲۰]
”جس شخص کو خداوندعالم نے” نعمت توحید“ سے نوازا ہے اس کی جزا بھشت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے“۔
(جو شخص خدا وندعالم کی توحید کو صدق دل سے قبول کرتا ہو اور اس کو عملی طور پر ثابت کرتا ہو تو اس کا مقام جنت ہے۔)
اسی طرح آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے:
”مَنْ مَاتَ وَهُوَ یَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ حَقٌّ دَخَلَ الجَنَّةَ
“[۲۱]
”جس شخص کو اس حالت میںموت آئے کہ خدا کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہو تو اس کا مقام بھشت ہے“۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
”قَوْلُ لَا إِلهَ اِلاَّ اللهُ ثَمَنُ الجَنَّةِ
“[۲۲]
”لا الٰہ الّٰا الله“کھنا جنت کی قیمت ہے۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
”مَنْ قَالَ لَا إِلٰه إِلاَّ اللهُ مُخْلِصاً دَخَلَ الجَنَّةَ،وَإِخلاصُهُ انْ تَحْجُزَهُ لَا إِلهَ إِلاَّ اللهُ عَمَّا حَرَّمَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ
“[۲۳]
”جس شخص نے خلوص کے ساتھ ”لَا إِلٰہ إِلاَّ اللهُ “ کھا وہ بھشت میں داخل ہوگیا، ”لَا إِلٰہ إِلاَّ اللهُ “کا اخلاص کے ساتھ کھنے سے مراد انسان کی خدا کی حرام کردہ چیزوں سے باز رھنا ہے“۔
ایک شخص حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر مذکورہ حدیث کے بارے میں سوال کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے، وہ شخص امام علیہ السلام کے پاس سے اٹھ کر چل پڑا جب وہ آپ کے دولت کدہ سے باھر نکل گیا،تو آپ نے فرمایااس شخص کو واپس بلاؤ، اس کے بعد فرمایا: کہ اس کلمہ ”لَا إِلٰہ إِلاَّ اللهُ “ کے شرائط ہیں اور ہم اس کے شرائط میں سے ہیں۔(کیونکہ ہم خدا کی طرف سے امامت کے لئے منتخب ہوئے ہیں اور ہماری اطاعت تمام امور میں واجب ہے)[۲۴]
بھر حال انسان کے لئے راہ نجات صرف اور صرف توحید (خدا) اور اس کے شرائط ہیں؛ یعنی: جب انسان خدا کی معرفت حاصل کرلے اوراس کو یہ یقین حاصل ہوجائے کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور یہ تمام موجودات اس کی مِلک ہے اور اسی کا عطا کردہ رزق کھاتے ہیں،نیز انبیاء علیھم السلام کی نبوت ، ائمہ اطھار علیھم السلام کی امامت اور قرآن پر ایمان رکھے ، اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزارے تو ایسا انسان راہ نجات پر یقیناھے۔
لہٰذا اگر انسان توحید کا اقرار کرتے ہوئے کوئی نیک کام کرے تو اس کا وہ عمل قابل قبول ہوگااور اگر اس سے غفلت کی وجہ سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو شرمندگی کے ساتھ توبہ کرنے پر اس کا گناہ معاف ہوجائے گا، لیکن اگر کوئی شخص خدا وندعالم پر ایمان ہی نہ رکھتا ہو تو اس کا کوئی بھی عمل قابل قبول نہ ہوگا اور اس کا چھوٹا سے چھوٹا گناہ بھی نہیں بخشا جائے گا۔
اگر مسلمان اپنے گناھان کبیرہ کی وجہ سے عذاب قیامت میں مبتلا ہوگا تو اسی توحید کی وجہ سے اسے نجات حاصل ہوگی۔ چنانچہ اس سلسلہ میں بہت سی اھم روایات معتبر و مستند کتابوں میں وارد ہوئی ہیں جن میں سے ہم نمونہ کے طور پر ایک حدیث نقل کرتے ہیں:
حضرت پیغمبر اکرمنے جناب جبرئیل سے فرمایا:
” (اے جبرئیل)دوزخ کے صفات بیان کرو۔ جناب جبرئیل نے دوزخ کی ایک ایک صفت کو بیان کرنا شروع کیا یھاں تک کہ (دوزخ کے )پھلے طبقہ کی بات آئی، اس وقت جناب جبرئیل خاموش ہوگئے، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: اس طبقہ میں کون لوگ رھیں گے؟ جواب دیا: اس طبقہ کا عذاب سب سے آسان ہے، اور اس طبقہ میں آپ کی امت کے گناھگار رھیں گے۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: کیا میری امت کے لوگ (بھی) دوزخ میں جائیں گے؟ اس وقت جناب جبرئیل نے کھا:( جی ہاں) اس میں آپ کی امت کے وہ لوگ جائیں گے جو گناہ کبیرہ سے آلودہ ہوں گے اور بغیر توبہ کئے اس دنیا سے چلے گئے ہوںگے“۔
پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) رونے لگے اور تین دن تک روتے رھے،یھاں تک کہ چوتھے روز حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا آپ کی زیارت کے لئے تشریف لائیں، اور جب آپ نے دیکھا کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) خاک پر منھ رکھے گریہ کررھے ہیں اور آنسووں سے مٹی گیلی ہوگئی ہے! تو جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے عرض کیا: بابا جان واقعہ کیا ہے؟ (آپ اس قدر کیوں گریہ فرمارھے ہیں؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: جناب جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت کے گناھگار دوزخ کے پھلے طبقہ میں رھیں گے، لہٰذا میں گریہ کررھا ہوں! جناب فاطمہ(ع) نے فرمایا: کیا آپ نے جبرئیل امین سے سوال کیا ہے کہ کس طرح آپ کے امتیوں کو دوزخ میں لے جایا جائے گا؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں ، مردوں کے بال اور عورتوں کے گیسو پکڑ کر جھنم کی طرف کھینچا جائے گا، چنانچہ جب وہ لوگ دوزخ کے قریب پھنچادئے جائیں گے اور وہ دوزخ کے داروغہ کو دیکھےں گے تو چلائیں گے اور داروغہ جھنم سے التماس کریں گے کہ ہمیں اپنے حال پر رونے کی اجازت دیدے، اس وقت داروغہ دوزخ اجازت دے گا، چنانچہ وہ لوگ اس قدر گریہ کریں گے کہ آنسووں کے بجائے خون کے آنسو بھائیں گے، اس وقت داروغہ جھنم آواز دے گا: کیا اچھا ہوتا کہ تم لوگ اس وقت گریہ کرنے کے بجائے دنیا میں گریہ کرتے اور روز قیامت کے خوف سے آنسو بھاتے!!
اس کے بعد داروغہ ان کو جھنم میں ڈال دے گا، یہ لوگ دوزخ میں پھنچتے ہی ”لا الہ الاّ الله“ کا نعرہ بلند کریں گے، (اس وقت) آگ ان سے دور ہوجائے گی، داروغہ جھنم آوازدے گا، اے آگ ان کو پکڑلے، آگ آواز دے گی: میں کس طرح ان کو پکڑوں حالانکہ یہ لوگ اپنی زبان پر ”لا الہ الاّ الله“جاری کررھے ہیں۔ اس کے بعد پھر داروغہ جھنم آواز دے گا اے آگ ان کو پکڑلے، اس وقت آواز قدرت آئے گی کہ ان کے چھروں کو نہ جلانا کیونکہ انھوں نے میرے سامنے سجدہ کیا ہے، اور ان کے دلوں کو بھی نہ جلانا کیونکہ انھوںنے ماہ مبارک (رمضان) میں پیاس کی شدت برداشت کی ہے۔ اور جب تک حکم خدا ہوگا یہ لوگ جھنم میں رھیں گے۔ اس وقت جبرئیل کو حکم ہوگا: ان گناھگار امتیوں کا حال معلوم کرو،اس وقت داروغہ جھنم پردہ ہٹائے گا ، تو وہ جناب جبرئیل کو خوبصورت شکل میں دیکھیں گے،اور سوال کریں گے: یہ کون اتنی اچھی شکل میں ہے؟ جواب دیا جائے گا: یہ جناب جبرئیل ہیں جو دنیا میں حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی طرف وحی لے کر نازل ہوتے تھے، جیسے ہی یہ لوگ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا اسم گرامی سنےں گے ایک نعرہ بلند کریں گے کہ ہماری طرف سے حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو سلام پھنچانا اور کھنا کہ آپ کے امتی دوزخ میں گرفتار ہیں!
جب جناب جبرئیل یہ خبرآنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پاس لے کر جائیں گے، تو آنحضرت یہ خبر سن کر بارگاہ الٰھی میں سجدہ ریز ہوجائیں گے اور عرض کریں گے (پالنے والے) تونے میرے امتیوں کو دوزخ میں ڈال دیا اب ان کو میرے حوالہ کردے، اس وقت آواز قدرت آئے گی کہ ہم نے ان کو آپ کے حوالہ کردیا۔ اس وقت رسول خدا ان لوگوں کو جھنم سے نکال لیں گے، اور چونکہ یہ لوگ جل کر کوئلہ کی مانند ہوجائیں گے ،لہٰذاان کو ”چشمہ حیات“ پر لے جایا جائے گا، اور جس وقت اس چشمہ سے شربت پئیں گے اور اس کو اپنے اوپر ڈالیں گے توان کی ظاھری اور اندرونی غلاظت دور ہوجائے گی، اور وہ پاک و پاکیزہ بن جائیں گے، اور ان کی پیشانی پر یہ تحریر ابھر آئے گی:
”عتقاء الرحمان من النار
“
”یہ خدائے رحمن کی طرف سے جھنم سے آزاد شدہ ہیں“
چنانچہ جب یہ لوگ جنت میں پھنچ جائےں گے تو اہل بھشت ان لوگوں کا ایک دوسرے سے تعارف کرائیں گے کہ یہ لوگ دوزخی تھے اور اب نجات پاگئے ہیں!
اس وقت وہ لوگ کھیں گے: پالنے والے تو نے ہمیں اپنی رحمت میں لے لیا ہے اور بھشت میں داخل کردیا ہے اس تحریر کو ہماری پیشانیوں سے ہٹادے۔ ان کی یہ دعا قبول ہوجائے گی، اور وہ تحریر ان کی پیشانی سے مٹ جائے گی“۔
حمدو تسبیح
تسبیح کا مطلب خداوندعالم کی ذات کو ہر نقص و عیب سے پاک و پاکیزہ ماننا ہے، دراصل خداوندعالم کے بے نھایت کمالات کے اقرار کا نام تسبیح ہے۔
طلحہ بن عبید اللہ کہتا ہے: میں نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ”سبحان اللہ“ کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: ”سبحان للہ“ کی تفسیر یہ ہے کہ خداوندعالم کو ہر نقص و عیب سے پاک سمجھا جائے۔[۲۵]
حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے ”سبحان اللہ“ کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: خدا وندعالم کے جلال کو بزرگ شمار کرنا اور اس کو ہر طرح کے شرک سے پاک و پاکیزہ جاننا، لہٰذا جس وقت انسان (اخلاص و یقین کے ساتھ) ”سبحان اللہ“ کہتا ہے تو تمام فرشتے اس پر درودبھیجتے ہیں۔[۲۶]
قرآن مجید میں بہت سی آیات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ دنیا کی تمام چیزیں خداوندعالم کی تسبیح کرتی ہیں:
”۔۔۔(
وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَکِنْ لاَتَفْقَهُونَ تَسْبِیحَهُمْ
)
۔۔۔“[۲۷]
”اور جو کچھ ان(زمین وآسمان) کے درمیان ہے سب اس کی تسبیح کررھے ہیںاور کوئی شئے ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہویہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو“۔
دعا کمیل کے اس حصہ میں خداوندعالم کی تسبیح شاید اسی وجہ سے ہو : چونکہ دعا کرنے والا انسان گزشتہ فقرات میں اپنی خطا و غلطی اور گناہ کا اقرار کر چکا ہوتا ہے، جو خدا اور اس کے درمیان دوری اور تاریکی کے اسباب تھے، اور وہ انسان خدا کی تسبیح و تقدیس اورحمد وثناء کے ذریعہ ظلمت و تاریکی سے نجات حاصل کرسکتا ہے، لہٰذا مناسب یہ ہے کہ دعا کرنے والا روتے ہوئے صدق دل اور خلوص کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں یوں عرض کرے: ”سبحانک و بحمدک“ تاکہ جناب یونس علیہ السلام کی طرح اسے تاریکی سے نجات مل جائے اور خدا کی قربت حاصل ہوجائے۔
جی ہاں! جب جناب یونس علیہ السلام شب کی تاریکی، دریا کی تاریکی اور شکم ماھی کی تاریکی میں گرفتار ہوئے تو کہتے ہیں:
”۔۔۔(
فَنادَیٰ فِی الظُّلُماتِ ان لَا إِلهَ إِلاَّ انْتَ سُبْحانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظّالِمِینَ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَ نَجَّیْنَاهُ مِنَ الغَمِّ وَ کَذٰالِکَ نُنجِی المُو مِنینَ
)
۔“[۲۸]
”پھر تاریکیوںمیںجاکر آوازدی کہ پروردگارا! تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تو پاک و بے نیاز ہے اور میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوںمیںسے تھا ،تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرلیا اور انھیں غم سے نجات دلا دی کہ ہم اسی طرح صاحبان ایمان کو نجات دلاتے رہتے ہیں“۔
صاحب تفسیر ”منہج الصادقین“ اس آیت کی تفسیر میں حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:
”مَا مِنْ مَکْرُوبٍ یَدْعُو بِهذا الدُّعاءِ إِلاَّ اسْتُجِیبَ لَهُ
“[۲۹]
”کوئی بھی پریشان حال ایسا نھیںجو یہ دعا پڑھے اور مستجاب نہ ہو“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام جناب امیر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں: اعمال کی ترازو تسبیح کے ذریعہ ثواب سے بھر جاتی ہے“۔[۳۰]
علامہ مجلسی رحمة اللہ علیہ اپنی عظیم الشان کتاب ”بحار الانوار“ میں حمد پروردگار کے سلسلہ میں ایک اھم روایت اس طرح نقل کرتے ہیں:
”کَانَ رَسولُ اللهِ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) إِذَا وَرَدَ عَلَیهِ امْرٌ یَسرُّهُ قَالَ:الحَمْدُ لِلّٰهِ عَلی هَذِهِ النّعْمَةِوَإِذَا وَرَدَ عَلَیهِ امْرٌ یَغْتَمُّ بِهِ، قَالَ:الحَمْدُ لِلّٰهِ عَلَی کُلِّ حَالٍ
“[۳۱]
”جس وقت پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے سامنے کوئی خوش حال کرنے والا واقعہ پیش آتا تھا تو آنحضرت فرماتے تھے: ”الحَمْدُ لِلّٰهِ عَلی هَذِهِ النّعْمَة
“ اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کیا کرتے تھے اور اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آتا تھا جس سے آپ کو رنج پھنچتا تھا تو آپ فرماتے تھے:”الحَمْدُ لِلّٰهِ عَلَی کُلِّ حَالٍ
“ الٰھی ہر حال میں تیرا شکر ہے“۔
”ظَلَمْتُ نَفْسي،وَتَجَرَّاتُ بِجَهْلي،وَسَکَنْتُ الٰی قَدِیمِ ذِکْرِکَ لي، وَ مَنِّکَ عَلَيَّ
۔“
” خدایا میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے۔اپنی جھالت سے جسارت کی ہے اور اس بات پر مطمئن بیٹھاھوں کہ تونے مجھے ہمیشہ یا د رکھا ہے اور ہمیشہ احسان فرمایا ہے“۔
اپنے اوپرظلم
حالانکہ میں نے اپنے غور و فکر اوراس کائنات کی حیرت انگیز چیزوں کو دیکھنے اور علماء و دانشوروں کی باتوں کو سننے او ران کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد تجھے ایک لازمی حد تک پہچان لیا ہے،لیکن تیری طرف رجوع نہیں کیا، اور تیرے حکیمانہ احکام کی اطاعت نہیں کی ،نیز تیری رضا کو اھمیت نہیں دی اور اپنے سر کو تیرے سامنے نہیں جھکایا تیری عبادت میں اپنا سر کو خاک پر نہیں رکھا اورتیرے سامنے اپنی جھولی نہیں پھیلائی ہے، المختصر اپنے تمام ہی امور میں تجھ سے غفلت کی، لہٰذا یہ وہ ستم تھا جسے میں نے اپنے اوپر ہمیشہ روا رکھا اور یہ میں نے بہت بڑا ظلم اپنے اوپر کیا ہے۔
حالانکہ میںنے علماء کی زبان اور تاریخ کے مطالعہ کے بعد تیرے انبیاء(ع)کو پہچان لیا اور یہ معلوم ہوگیا کہ وہ تیری راہ کی ہدایت کرنے والے،انسانیت کے لئے دلسوز اور مھربان ہیں اور ان کا انسان کی سعادت و خوشبختی کے علاوہ کوئی مقصد نھیں، صرف انسانیت کو گمراھی اور شیطانی و سوسوں سے نجات دلانا چاہتے ہیں ان کے امر و نھی باحکمت اور انسانیت کے لئے مفید ہوتے ہیں، اور چونکہ میں مسلمان ہوںلہٰذا میں نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی معرفت ضروری حد تک حاصل کرلی، لیکن پھر بھی میں نے انبیاء(ع)سے روگردانی کی، اپنی زندگی میں دوسروں کے دروازے پر گیااور غیروں کی تہذیب کو اپنایا، اورتیرے انبیاء علیھم السلام کی زحمتوں کی قدر نہ کی، ان کے وجود جیسی نعمت کا شکر ادا نہ کیااپنی منحوس زندگی پر بھروسہ کیاجو نور نبوت سے خالی تھی اورگمراھی و ضلالت کی راہ پر چلتا رھا،یہ ستم میں نے اپنے ہی اوپر ڈھایاھے اور یہ عظیم ظلم اپنے ہی نفس پر کیا ہے!!
حالانکہ میں مجالس و محافل اور دینی کتابوں کے مطالعہ سے کافی حد تک معارف الٰھی اور تعلیمات قرآن سے آشناھوگیا ہوں، نیز مجھے اس حقیقت کا علم ہوگیا ہے کہ یہ قرآن جس کو تو نے اپنے پیغمبرمحمد مصطفی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر نازل کیا ، تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے اور یہ ایک کامل ترین کتاب ہے جس میں مکمل اورمفیدمطالب سمائے ہوئے ہےں،اور ایک ایسی کتاب ہے جو حکیمانہ احکامات، اھم معارف، محکم آیات، استوار قواعد و ضوابط اور جھنجھوڑنے والے موعظوں پر مشتمل ہے، گویا قرآن ایک بلند ترین اور زیبا ترین دستور العمل ہے، لیکن میں نے اس سے منھ موڑ لیااور اس کی آیات کو چھوڑ دیااس کے حقائق سے دوری اختیار کی، اس پر عمل کرنے میں غفلت کی ،اس سے دور رہ کر زندگی بسر کی۔ یہ ستم میں نے اپنے ہی اوپر کیا ہے اور یہ عظیم ظلم اپنے ہی نفس پر کیا ہے!!
حالانکہ مختلف قسم کے وسائل کی مدد سے ائمہ طاھرین علیھم السلام کو پہچان لیااور یہ معلوم ہوگیا کہ یہ حضرات بندوں میں تیری حجت ہیں، تیرے راستہ کی ہدایت کرنے والے کامل انسان ہیں، نیز پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے بعد ان کو ولایت و رھبری کے عنوان سے پہچنوایا ہے، تاکہ لوگوں کی ہدایت و رھنمائی کریں، نیز انھوں نے دین اسلام کے حقائق کی تعلیم دی اور حق و باطل کو پہچنوایا، اور قرآن مجید کی تفسیر بتائی جبکہ ان پر دشمنوں نے بہت ظلم اور بڑے بڑے مصائب ڈھائے غرض ہر ایک کو کسی نہ کسی طریقہ سے شھید کیا؛ لیکن ان حضرات نے اپنی ذمہ داری نبھانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی، اور انسانی ہدایت سے ہاتھ نہیں کھینچا، بلکہ احکام الٰھی ، حلال و حرام اور دینی فرائض کو ہر ممکن صورت میں بیان کرتے رھے، جس کو ان کے اصحاب نے چارسو کتابوں میں جمع کیا، تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی اس عظیم دریائے معرفت سے سیراب ہوسکیں، لیکن میں نے ان تمام حقائق کو نظر انداز کردیا، او رائمہ طاھرین علیھم السلام کی اطاعت نہ کی اورفیض ہدایت کے ان مراکز سے منھ موڑکر گمراہ ہوگیایا ،سیدھے راستہ پر چلنے کے بجائے ٹیڑھے راستہ کا انتخاب کیا اور میں اپنی ہوا و ہوس کا شکار ہوگیا اور اس پر بضدرھا، خدا و آخرت سے بے خبر استاد وں سے تعلیم حاصل کی اور ان جاہل و گمراہ لوگوں(جن کی ضلالت و گمراھی پوری دنیا پھیلی ہوئی ہے؛) کو عظیم الشان ائمہ پر ترجیح دی ۔ یہ ستم میں نے اپنے اوپر کیا ہے اورمیں نے اپنے نفس پر یہ عظیم ظلم کیا ہے!!
حالانکہ میں جانتا تھا کہ ”نہج البلاغہ“ جیسی عظیم الشان کتاب ؛جس میں حضرت علی علیہ السلام کے بے کراں دریائے علم کا ایک قطرہ ہے جس میں ہدایت کا بے بھا خزانہ ہے جس کے ذریعہ انسان کو خیر و سعادت اور پاک و پاکیزہ زندگی کی ہدایت ملتی ہے، جس میں خطبوں، خطوط اورحکمت آمیز کلمات کا موجیں مارتا ہوا الٰھی معرفت کا سمندر ہے ، جس کی اھمیت کے لئے یھی کافی ہے کہ اس کو ”تحت کلام الخالق فوق کلام المخلوق“ جیسا لقب دیا گیا ہے۔
حالانکہ میں جانتا تھا کہ ”صحیفہ سجادیہ“ جس میں امام عاشقین، مولائے عابدین سید الساجدین حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ۵۴ دعاؤں میں انسان کے تمام وظائف اور ذمہ داریوں کو دعا کی زبان میں بیان فرمایا ہے، جس کے بارے میںائمہ طاھرین علیھم السلام نے توجہ دلائی ہے۔
حالانکہ میں جانتا تھا کہ احکام الٰھی، حلال و حرام اور اسلامی معارف و اخلاقی مسائل، ”اصول کافی“، ”تہذیب“، ”استبصار“، ”من لایحضرہ الفقیہ“، ”تحف العقول“،”روضة الواعظین“،”وافی“،”شافی“، ”بحارالانوار“، ”وسائل الشیعہ“، ”روضة المتقین“، ”جامع احادیث شیعہ“ اور دوسری ہزاروں کتابوں میں موجود ہیں، لیکن میں نے اپنی آخرت کو سنوار نے کے لئے ان کتابوں کو پڑھنے کی زحمت نہیں کی، ان کے مطالعہ کے بجائے بےھودہ رسالوں، اخباروں اور دین مخالف مضامین ، اور گھٹیا قسم کی کتابوں کے مطالعہ میں لگا رھا، اور اپنی زندگی کے بہترین شب و روز کو یوں ہی گزار دیا جس سے میں نے اپنا ہی نقصان کیا۔ یہ ستم میں نے اپنے ہی اوپر کیا ہے اور یہ عظیم ظلم اپنے ہی نفس پر کیا ہے!!
نادانی کی وجہ سے گناھوں پر جرائت و جسارت
چونکہ میں نے علم و آگاھی حاصل نہیں کی اور دینی تعلیمات سے محروم رھا اور حق و حقانیت سے بے خبر رہتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرتا رھااور اپنی پُر طلاطم زندگی کو جھالت کی کشتی پر سوار کیا جس کی وجہ سے میں گناھوں کے دلدل میں پھنستا ہی چلا گیا۔
اورجھالت و نادانی کے سبب اپنی آخرت سے غافل ہوگیا اور حقائق کو سمجھنے سے قاصر رھا، جس کے انجام کے بارے میں نہیں سوچا، اور اپنے اعمال کے حساب و کتاب کی فکر نہیں کی، پل صراط اورجنت و جھنم کی پروا نہیں کی، لہٰذا میں نے تیری مخالفت کی اور مختلف گناھوں سے آلودہ ہوگیا، آخر کار اپنی نادانی کی بنا پر گناھوں کے سلسلے میں تیرے سامنے جرائت اور جسارت کی اور ادب واخلاقی متانت کے خلاف قدم اٹھایا!!
گناھوں کا اقرار
پالنے والے! جس وقت میںرحم مادر میں تھا، اس وقت سے لے کر اب تک تیرے لطف و کرم میرے شامل حال رھے۔یہ تیرا احسان و کرم ہی تو تھا جس نے ایک نجس نطفہ کو کامل انسان بنادیامیرے لئے ضروری اعضاوجوارح عطا کئے، عقل و خرد سے نوازا، دل و جان عطا کئے، گوشت، ہڈّی، نسیں، مغز،خون، سلول، تنفسی نظام آنکھیں، کان ،ھونٹ اورعقل و ہوش عطا کیا، اس کے بعد مجھے دنیا میں بھیجنے کے لئے میری والدہ کے جسم میں طاقت دی تاکہ صحیح و سالم دنیا میں آسکوں، اس کے بعد دودھ سے بھرے پستان مادر سے میرے جسم کی ضرورت پوری کی، پیار بھری آغوش مادر اور محبت سے مالا مال قلب پد ر معین کیا ، آھستہ آھستہ غذا اورتیرے محافظین خصوصاً والدین کی حفاظت میں پروان چڑھا ، اور جھاں تک پھنچنا تھا مجھے پھنچادیا، اس کے بعد میری زندگی کے لئے مختلف اسباب فراھم کئے، وغیرہ وغیرہ۔
پالنے والے! تو نے مجھ پر اب تک یہ تمام لطف و احسان کئے لیکن میں مغرور ہوگیا اور یہ سوچنے لگا کہ اگر میں گناہ بھی کرتا رھوں تو تیرا لطف و کرم پھر بھی میرے شامل حال رھے گا، اور کسی طرح کا کوئی عذاب نہیں ملے گا حالانکہ گزشتہ نعمتوں کے پیش نظر مجھے غرور نہیں کرنا چاہئے تھا اور گناھوں کی وادی میں قدم نہیں رکھنا چاہئے تھا۔
اور اب تیرے لطف و کرم سے میںخواب غفلت سے تھوڑا بیدار ہوا ہوں، اور اپنی تاریک زندگی اور ظلمت کی حالت سے آگاہ ہوا ہوں، اپنے تمام وجود سے تیرے دروازے پر آیا ہوں او رآہ وبکا ، اشک ریزی کے ساتھ ؛ اپنے گناھوں کا اقرار کرتا ہوں اور اعتراف کرتا ہوں کہ: ”ظلمتُ نفسی“ (یعنی میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا) اور یہ بھی جانتا ہوں کہ میرا یہ اقرار و اعتراف در حقیقت گناھوں کا اقرار ہے اور ایک طرح سے توبہ اور سبب نجات ہے، جیسا کہ یہ بات قرآنی آیات، انبیاء و ائمہ علیھم السلام کی تعلیمات میں موجود ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:
”وَاللهِ مَا یَنْجُو مِنَ الذَّنْبِ إَلاَّ مَنْ اَقَرَّ بِهِ
“[۳۲]
”خدا کی قسم! انسان راہ نجات حاصل نہیں کرسکتا مگر یہ کہ وہ گناھوں کا اقرار و اعتراف کرے“۔
نیز حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ہی سے یہ روایت بھی ہے:
”لَا وَاللهِ مَا ارادَ اللهُ مِنَ النَّاسِ إِلاَّ خَصْلَتَیْنِ:اَنْ یُقِرُّوا لَهُ بِالنِّعَمِ فَیَزِیدَهُم،وَبِالذُّنُوبِ فَیَغْفِرَها لَهُمْ
“[۳۳]
”خدا کی قسم! خدا، اپنے بندوں سے دو چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا، ایک تو اپنی نعمتوں کا اقرار، تاکہ ان میں اضافہ کرے، اوردوسرے گناھوں پر اعتراف، تاکہ وہ ان کو بخش دے“۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
”المُقِرُّ بِالذَّنْبِ تائِبٌ
“[۳۴]
”اپنے گناھوں کا اقرار و اعتراف کرنے والا،توبہ کرنے والا شمار ہوگا“۔
نیز آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:
”شافِعُ المُذْنِبِ إِقْرارُهُ وَتَوْبَتُهُ اعْتِذارُهُ
“[۳۵]
”گناھگار کی شفاعت کرنے والا خود اس کا اقرار کرنا ہے، او راس کی توبہ عذر خواھی ہے“۔
کتاب ”تذکرة الاولیاء“ میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے:
”جس گناہ کی ابتداء خوف و وحشت کے ساتھ اور اس کا آخر عذر خواھی کے ساتھ ہو، تو اس عمل سے بندہ خدا سے نزدیک ہوجاتا ہے، اورجس اطاعت کی ابتداء خود بینی اور اس کی انتھا خود پسندی ہو توایسی اطاعت انسان کو خدا سے دور کردیتی ہے!“
ایک جوان گناھگار کا اقرار
منصور بن عمّار کہتے ہیں: ایک روز رات کے وقت میں گھر سے باھر نکلا جب ایک گھر کے نزدیک پھنچا تو مجھے دروازے سے ایک جوان کے راز و نیاز اور مناجات کی آواز سنائی دی ، میں نے غور سے سنا تووہ بارگاہ رب العزت میں اس طرح مناجات کررھا تھا:
”پالنے والے! میں جب گناہ کرتا تھا تو تیری مخالفت اور نافرمانی کے قصد سے نہیں بلکہ میرا نفس مجھ پر مسلط تھا اور شیطان نے مجھے دھوکا دیاتھا، جس کے نتیجہ میں،میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہوگیا اور اب میں تیرے عذاب کا مستحق ہوگیا ہوں“۔
جب میں نے ان کلمات کو سنا تو اپنے سر کو دروازے پر دے مارا او رقرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت کی:
”ٰیاایُّهَا الَّذِینَ ء امَنُوا قُوٓا انْفُسَکُمْ وَاهْلِیکُمْ نَاراً وَقودُهَا النَّاسُ وَالحِجارَةُ عَلَیْهَا مَلَائِکَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لَا یَعْصُونَ اللّٰهَ ما امَرَهُم وَ یَفْعَلونَ مَا یُومَرونَ
۔“[۳۶]
”(اے) ایمان لانے والو! اپنے نفس اور اپنے اہل کو اس آگ سے بچاؤ کہ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر وہ ملائکہ معین ہوں گے جو سخت مزاج اور تند و تیز ہیںاو رخدا کے حکم کی مخالفت نہیں کرتے او رجو حکم دیا جا تا ہے اسی پر عمل کرتے ہیں“۔
جب میں نے اس آیت کی تلاوت کی تو اس جوان کے مزید رونے اور چلانے کی آوازسنائی دی ، اور میں نے وھاں سے اپنی راہ لی۔
دوسرے روزجب میں اسی گھر کے پاس سے گزرا تو وھاں پر ایک بُڑھیا کو دیکھا جو زار و قطار رورھی ہے اور فریاد کررھی ہے کہ ہائے میرا بیٹا!! جو راتوں کو خوف خدا سے رویا کرتا تھا کل رات جب وہ مناجات میں مشغول تھا تو کوئی شخص دروازے پر آیا اور اس نے عذاب الٰھی سے متعلق ایک آیت پڑھی ، جس کو سن کر اس کی ایک چیخ نکلی اور روتے روتے مرگیا۔
میں نے کھا: اماں جان! وہ آیت میں نے ہی پڑھی تھی جس کے سبب اس کی روح عالَم بقا کی طرف پرواز کرگئی، کیا مجھے اجازت ہے کہ اس کو غسل ( و کفن )دوں؟اس نے اجازت دی، جیسے ہی میں نے اس کے اوپر سے کپڑا ہٹایاتو دیکھا اس کی گردن پر ایک اورکپڑا ہے جیسے ہی میںنے اس کپڑے کو ہٹایا تو دیکھا کہ اس کے سینہ پر ہرے رنگ سے لکھا ہوا ہے:
”ھم نے اس بندے کو آبِ توبہ سے غسل دیدیا ہے!“[۳۷]
توبہ کرنے والے گناھگار کا انجام
عبد الواحد بن زید ،ایک گناھگار، فاسق و فاجر اور بدکار شخص تھا، ایک روزوہ یوسف بن حسین نامی عابد و زاھد کی مجلس وعظ میں پھنچ گیا، دیکھا کہ وہ عابد و زاھد اس قول کے بارے میں بیان کررھے تھے:
”دَعَاهُم بِلُطْفِهِ کَانَّهُ مُحْتَاجٌ إلِیْهِمْ
۔“
”خداوندعالم اپنے گناھگار بندوں کو اپنے خاص لطف و کرم سے اس طرح دعوت دیتا ہے کہ گویا وہ بندوں کا محتاج ہے“۔
عبد الواحد نے جیسے ہی یہ کلام سنا، اس نے اپنے کپڑے اتارے اور روتا چلاتا قبرستان کی طرف چل پڑا۔ اسی رات یوسف بن حسین نامی اس عابد و زاھدنے عالم خواب میں دیکھا کہ خدا آواز دے رھا ہے:
”ادرک الشاب التائب
“
”اس گناھوں سے توبہ کرنے والے جوان کو درک کرو“۔
یعنی اسے مغفرت و بخشش کی بشارت دیدو۔ عابد اس کی عظمت کو پہچاننے کے لئے تین دن کے بعد قبرستان میں گیا، تو دیکھاکہ وہ اپنا سرزمین پر رکھے مناجات او رگریہ و زاری میں مشغول ہے۔ پھر جب اس نے عابد کو اپنے پاس دیکھا تو کھا: آپ کو میرے پاس بھیجے ہوئے تین دن گزر گئے ہیں اور آپ اب آرھے ہیں؟! یہ کہتے ہی اس کی روح پرواز کرگئی۔!!
”اللّٰهُمَّ مَوْلاٰيَ کَمْ مِنْ قَبیحٍ سَتَرْتَهُ،وَکَمْ مِنْ فٰادِحٍ مِنَ الْبَلآٰءِ اقَلْتَهُ،
وَکَمْ مِنْ عِثٰارٍ وَقَیْتَهُ،وَکَمْ مِنْ مَکْرُوهٍ دَفَعْتَهُ،وَکَمْ مِنْ ثَنٰاءٍ جَمیلٍ لَسْتُ اهْلاً لَهُ نَشَرْتَهُ“
”خدایا میرے کتنے ہی عیب ہیںجنھیں تونے چھپا دیا ہے اور کتنی ہی عظیم بلائیں ہیں جن سے تونے بچایا ہے۔کتنی ٹھوکریں ہیں جن سے تونے سنبھالا ہے اور کتنی برائیاں ہیں جنھیں تونے ٹالا ہے۔کتنی ہی اچھی تعریفیں ہیں جن کا میں اہل نہیں تھا اور تونے میرے بارے میں انھیں نشر کیا ہے“۔
لفظ’ ’ مَوْلاٰيَ “کے ذکر میں کیا لذت ہے وہ بھی ایک محتاج کی زبان پرگریہ وزاری کی حالت میں،رات کے سناٹے میں خصوصاًشب جمعہ میں،یقینا اس طرح کی لذت اس دنیا میں نہیں پائی جاتی اور شاید اسی وجہ سے جناب موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا ہے:”إنَّ لِی فِی کَشْکُوْلِ الْفَقْرِ مَا لَیْسَ فِی خَزَانَتِکَ
“
”(پالنے والے)میرے فقر و نیازمندی کے کشکول میں ایسی چیز ہے جو تیرے کسی بھی خزانہ میں نہیں پائی جاتی ہے“۔
آواز قدرت آئی کہ اے موسیٰ وہ کیا ہے؟ جناب موسی علیہ السلام نے عرض ک: تیرے مثل ایک خدا میرے کشکول میںھے۔[۳۸]
اپنے بندوں کی برائی، بدی اور عیوب کو چھپانا خداوندعالم کی بہت بڑی نعمتوںاور اس کے عظیم احسانات میں سے ایک ہے۔ جب خداوندعالم اپنے بندے کی برائی کو دوسروںسے چھپاتا ہے اورلوگوں کے سامنے اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرتا ہے، تو پھر یقینی طور پر قیامت کے روز بھی وہ اپنے گناھگار مومن اور توبہ کرنے والے بندوں پر خاص توجہ کرے گا، چنانچہ حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد ہے:
”مَا سَتَرَ عَلَی عَبدٍ فِی الدُّنیَا إِلاَّ سَتَرَ عَلَیهِ فِی الآخِرَةِ
“[۳۹]
”کسی بندے کی کوئی بھی برائی اس دنیا میں نہیں چھپائی گئی مگر یہ کہ روز قیامت بھی اس کو چھپایا جائے گا“ ( یعنی جس گناہ کو خدا اس دنیا میں چھپاتا ہے اس کو روز قیامت بھی چھپائے گا“)
خداوندعالم کے ستّار العیوب ہونے کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے ماثور ہ دعاؤں میں وسیع پیمانہ پراشارہ ہوا ہے، جو گناھگاربندوں کے لئے ایک بشارت ہے : خداوندعالم اپنے بندے کی عزت و آبرو پائمال نہیں کرے گا، اس کی برائیوں کو چھپائے گا، اور کسی ایک کو بھی اپنے بندوں کے گناھوں سے مطلع نہیں کرے گا۔
نمونہ کے طور پرھم یھاں ایک اھم روایت نقل کرتے ہیں جس کو ابن فھد حلّی مرحوم نے اپنے کتاب ”عدة الداعی“ کے آخر میں نقل کیا ہے:
ابن فھد روایت کرتے ہیں : جبرئیل امین پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر یہ دعا لے کر نازل ہوئے جبکہ جبرئیل مسکراتے ہوئے بشارت دینے کی حالت میں تھے۔ آکر کھا: اے محمد ! تم پر سلام ہو، آنحضرت نے فرمایا: اے جبرئیل تم پر بھی سلام ہو، اس کے بعد جناب جبرئیل نے کھا: پروردگار عالم نے آپ کی خدمت میں تحفہ بھیجا ہے۔ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے سوال کیا وہ کیا ہے؟ تو جبرئیل نے عرض کیا: وہ آسمانی خزانوں کے چند کلمات ہیں جن کے ذریعہ خداوندعالم نے آسمانوں کو بلندی عطا کی ہے۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: وہ کلمات کیا ہےں؟ تو جناب جبرئیل نے کھا:
یَا مَنْ اظْهَرَ الْجَمِیْلَ وَ سَتَرَ الْقَبِیْحَ، یَا مَنْ لَمْ یُواخِذَ بِالْجَرِیْرَةِ وَلَمْ یَهْتِکِ السِّتْرَ، یَا عَظِیْمَ الْعَفْوِ یَا حَسَنَ التَّجَاوُزِ، یَا وَاسِعَ الْمَغْفِرَةِ یَا بَاسِطَ الْیَدَیْنِ بِالرَّحْمَةِ، یَا صَاحِبَ کُلِّ نَجْویٰ َومُنْتَهیٰ کُلِّ شَکْویٰ، یَا کَرِیْمَ الصَّفْحِ، یَا عَظِیْمَ الْمَّنِّ، یَا مُبْتَدِا بِالنِّعَمِ قَبْلَ اسْتِحْقَاقِهَا، یَا رَبَّنَا یَا سَیِّدَنَا یَا مَوْلاٰنَا یَا غَایَةَ رَغْبَتِنَا، اسْئَلُکَ یَا اللهُ انْ لاٰتُشَوِّهَ خَلْقِی بِالنَّارِ
“
”اے وہ جس نے نیکیوں کو ظاھر کیا اور برائیوں کی پردہ پوشی کی، اے وہ جس نے میرے گناھوں پر عذاب نہیں کیا، اور حرمت کے پردہ کو چاک نہیں کیا، اے وہ جس کا عفو عظیم ہے، جس کی بخشش بہترین ہے اور جس کی مغفرت وسیع ہے، اے وہ جو اپنی رحمت کے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے ہے، اے ہر راز کے مالک اور ہر شکایت کی حدآخر،اے گناھوں سے درگزرکرنے والے کریم، اے وہ جس کی نعمت عظیم ہے اے وہ جس نے مجھے مستحق نعمت ہونے سے پھلے مجھ پر نعمتوں کی بارش کی، اے میرے پروردگار! اے میرے مولا! اے میرے شوق و رغبت کی غایت، اے میرے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میرے جسم کو آتش جھنم میں نہ جلا“۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جبرئیل سے فرمایا:ان کلمات کا ثواب کیا ہے؟ تو جبرئیل نے کھا: ہیھات! ہیھات! ان کلمات کے ثواب کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، اگر ساتوں آسمان و زمین کے فرشتہ مل کر روز قیامت تک اس دعا کے ہزار اجزاء میں سے ایک جز ء کا حساب لگانا چاھیں تو نہیں لگاسکتے۔
جس وقت بندہ کہتا ہے:”یَا مَنْ لَمْ یُواخِذَ بِالْجَرِیْرَةِ وَلَمْ یَهْتِکِ السِّتْرَ
“،تو خدا اس کے گناھوں کو چھپالیتا ہے، دنیا میں اس پر رحمت نازل کرتا ہے، آخرت میں اس کی پریشانیوں کو دور کردے گا، اوراس کو دنیا و آخرت میں ہزار پردوں سے ڈھانپ دے گا۔
اور جس وقت بندہ کہتا ہے: ”یَا مَنْ لَمْ یُواخِذِ بِالْجَرِیْرَةِ وَلَمْ یَهْتِکِ السِّتْرِ
“تو خداوندعالم روز قیامت اس کا حساب نہیں لے گا، اور جب (دوسروں کے) پرد ہ اٹھائے جائیں گے تو اس وقت اس کاپردہ نہیں اٹھایا جائے گا۔
اور جس وقت بندہ کہتا ہے: ”یَا عَظِیْمَ الْعَفْوَ
“تو خداوندعالم اس کے تمام گناھوں کو معاف کردیتا ہے چاھے وہ کفِ دریا کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔
اور جس وقت بندہ کہتا ہے: ”یَا حَسَنَ التَّجَاوُزِ“تو خدا وندعالم اس کے گناھان کبیرہ جیسے چوری ،شراب خوری وغیرہ کو بخش دیتا ہے اور دنیا کے خوف و ہراس سے نجات عطا کرتاھے۔
اور جس وقت بندہ کہتا ہے: ”یَا وَاسِعَ الْمَغْفِرَةِ
“تو خداوندعالم اس رحمت کے ستّر دروازے کھول دیتا ہے، اور بندہ مرتے وقت تک رحمت خداکے زیر سایہ رہتا ہے۔
اور جس وقت بندہ کہتا ہے:”یَا بَاسِطَ الْیَدَیْنِ بِالرَّحْمَةِ،
“تو خداوندعالم اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔
اور جس وقت بندہ کہتا ہے:” یَا صَاحِبَ کُلِّ نَجْویٰ َومُنْتَھیٰ کُلِّ شَکْویٰ،“تو خدا وندعالم اس کو ہر مصیبت اور بلاء چاھے وہ اس پر نازل ہوئی ہو ں یا نہ، چاھے وہ سالم ہو یا بیمار، قیامت تک ثواب عطا کرتا رھے گا۔
اور جس وقت بندہ کہتا ہے:”یَا کَرِیْمَ الصَّفْحِ، یَا عَظِیْمَ الْمَّنِّ
، “تو خداوندعالم اس کی آرزوںکو اپنی تمام خلائق کے برابر عطا کرتا ہے۔
اور جس وقت بندہ کہتا ہے:”یَا مُبْتَدِا بِالنِّعَمِ قَبْلَ اسْتِحْقَاقِهَا
،“تو خداوندعالم اس کو اس شخص کے جیسا ثواب عطا کرتا ہے جو خدا کی نعمتوں کا شکرگز ار ہوتا ہے۔
اور جس وقت بندہ کہتا ہے:”یَا رَبَّنَا یَا سَیِّدَنَا
“ تو خدا کہتا ہے کہ اے میرے فرشتو! گواہ رھنا کہ میں نے اس کو بخش دیا، اور اس کو تمام مخلوقات کی تعداد کے برابرچاھے وہ جنت میں ہوں یا دوزخ میں، یاساتوں زمین و آسمان میں، یا چاند و سورج اور ستاروں، یا بارش کے قطرے، تمام پھاڑھوں یا ذرات زمین ، یا کرسی و غیرہ کے برابر اجر و ثواب دیا!!
اور جس وقت بندہ کہتا ہے:”یَا مَوْلاٰنَا
“تو خداوندعالم اس کے دل کو ایمان سے بھر دیتا ہے۔
اور جس وقت بندہ کہتا ہے:”یَا غَایَةَ رَغْبَتِنَا،“
تو خداوندعالم روز قیامت اس کو تمام مخلوقات کی خواھشات کے برابر عطا کرے گا۔
اور جس وقت بندہ کہتا ہے:”اسْئَلُکَ یَا اللهُ انْلاٰتُشَوِّهَخَلْقِی بِالنَّارِ
،“تو اس وقت خداوندعالم فرماتا ہے: میرا بندہ آتش جھنم سے آزادی چاہتا ہے،اے فرشتو! گواہ رھنا میں نے اس کو، اس کے ماں باپ، بھائیوں اور اہل و اولاد اور اس کے پڑوسیوں کو آتش جھنم سے آازد کردیا ہے، اور اس شخص کو ایک ہزار لوگوں کی شفاعت کا حق دیا ہے جن پر جھنم واجب ہوچکی ہے،اور ان سب کو آتش جھنم سے امان دیدی ہے۔
اس کے بعد جناب جبرئیل عرض کرتے ہیں: اے پیغمبرخدا! ان کلمات کو متقی اور پرھیزگار لوگوں کو تعلیم دیجئے، لیکن منافقین کو ان کی تعلیم مت دیجئے گا،دعا کرنے والے کے لئے یہ دعا مستجاب ہے، اور یہ دعائے اہل بیت المعمور ہے جب وہ اس کا طواف کریں۔[۴۰]
قارئین کرام! اس بات پر توجہ رکھنا ضروری ہے کہ مذکورہ دعا کا عظیم ثواب سن کر تعجب نہیں کرنا چاہئے اور اس کو حقیقت سے دور نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ خدا وندعالم کا لطف و کرم اور اس کی رحمت بے نھایت اور اس کے خزانے تمام ہونے والے نہیں ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام ”کَمْ مِنْ قَبیحٍ سَتَرْتَهُ
“پڑھتے وقت بارگاہ الٰھی میں عرض کرتے ہیں: تو نے کتنی خطرناک بلائیں مجھ سے دور کیں (جیسے زلزلہ، طوفان، سیلاب، صاعقہ، آتش سوزی، تصادم، آسمانی بلائیں، قحطی، مھنگائی، سخت مصائب، عزیزوں کا داغ وغیرہ وغیرہ)۔ اور مجھے بہت سے لغزشوں سے محفوظ کیا، (اگر ان لغزشوں سے دوچار ہوجاتا تو میرا ایمان ختم ہوجاتا، میرے اخلاق کا شجرہ طیبہ جل اٹھتا، میرے نیک اعمال تباہ و برباد ہوجاتے، مخلوقات میں میری آبرو ختم ہوجاتی وغیرہ وغیرہ) اگر میں ان لغزشوں میں گرفتار ہوجاتا تو میری زندگی کا چین و سکون اٹھ جاتااور پریشانی و اضطراب میں غرق ہوجاتا، میری آنکھوں سے نیند اڑجاتی، میرے دل و جان میں تنگی اور سختی پیدا ہوجاتی،(تو نے ان تمام پریشانیوں کو مجھ سے دور کیا،حالانکہ میرا نامہ اعمال گناھوں سے بھرا ہوا ہے، لیکن )تو نے لوگوں کے سامنے (مثلاً ماں باپ، بھائی بھن اور رشتہ داروں کے درمیان) میری بہت زیادہ تعریف اور نیکیاں پھیلادیں، اور ان کے سامنے مجھے ایسا آبرومند اور صاحب عزت بنادیا(کہ وہ مجھے سب سے اچھا سمجھتے ہیں اور میری مدح و ثنا کرتے ہیں) حالانکہ میں اس چیز کا اہل نہیں تھا!!
”اللّٰهُمَّ عَظُمَ بَلاٰئِي،وَافْرَطَ بيسُوٓءُ حٰالي،وَقَصُرَتْ بياعْمٰالِی،وَقَعَدَتْ بِياغْلاٰلِي
،“‘
” خدایا میری مصیبت عظیم ہے ۔میری بدحالی حد سے آگے بڑھی ہوئی ہے ۔میرے اعمال میں کوتاھی ہے۔مجھے کمزوریوں کی زنجیروں نے جکڑکر بٹھا دیا ہے“۔
یہ فقرات اس معنی کی نشاندھی کررھے ہیں : گناھوں کا بیمار، معصیت کا اسیر اورمادی تعلقات کی وجہ سے نھایت پریشان ؛ ماھر طبیب اور حکیم و قادر و توانا کے حضور پھنچ گیا ہے۔ ایسا مھربان طبیب جس نے اپنی رحمت و محبت کی بنا پر خود بیمار کو دعوت دی ہے تاکہ اسے شفا بخش معجون کھلائے، اس کے درد کا علاج کرے اور اس کو مادی پریشانیوں اور سختیوں سے نجات دے۔
بلاء کے معنی
صاحبان کرامت ،اہل دل اور علماء عرفان نے ”اللّٰهُمَّ عَظُمَ بَلاٰئِي،وَافْرَطَ
“ میں لفظ ”بلاء“ کے معنی بیان کرتے ہوئے درج ذیل حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے:
۱ ۔ گناہ و معصیت
علماء عرفان فرماتے ہیں:”بلاء“ سے مراد گناہ و معصیت ہے جو سب سے بڑی بلاء اور سب سے بڑی بیماری ہے۔ گناہ ایک ایسی خطرناک بیماری ہے کہ اگر انسان توبہ کرکے خدا کی طرف نہ پلٹے اوراعمال صالحہ بجالاکر ان کا تدارک اورعلاج نہ کرے تو اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے اور جب انسان کادل مرجاتا ہے تو پھر خدا اور روز قیامت سے اس کا رابطہ ٹوٹ جاتا ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ جب انسان کا خدا اور روز قیامت سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے تو انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بد بخت ہوجاتا ہے اور رحمت الٰھی سے محروم ہوجاتا ہے۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام ”توبہ کرنے والوں کی مناجات“ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں:
”امَاتَ قَلْبِی عَظِیْمُ جِنَایَتِی
“
”میرے عظیم ظلم و جنایت نے (جو میرے گناہ ہیں) میرے دل کو مردہ کردیا ہے“۔
جناب ابوذر سے سوال کیا گیا:
کس بیماری میں مبتلا ہو؟
جواب دیا: اپنے گناھوں کی بیماری میں گرفتار ہوں۔
ایک اھم سوال و جواب
امین اسلام مرحوم طبرسی اپنی عظیم الشان تفسیر ”مجمع البیان“ میںسورہ واقعہ کی تفسیر کے مقدمہ میں روایت بیان فرماتے ہیں: عثمان بن عفان، عبد اللہ بن مسعود کی مرض الموت کے وقت عیادت کے لئے جاتے ہیں، اور عبد اللہ سے سوال کرتے ہیں: آپ کس چیز سے پریشان ہیں؟ تو انھوں نے کھا: اپنے گناھوں سے۔ سوال کیا کس چیز کی طلب ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا: رحمت پروردگار کاطالب ہوں۔ پوچھاکیا کسی طبیب کو بلاؤں؟ تو جواب دیا: طبیب نے مجھے مزید بیمار کردیا ہے، کھا کہ کیا بیت المال سے تمھارا حق دیدوں،فرمایا: جس وقت اس کی ضرورت تھی تو تم نے نہ دیا اور اب جبکہ اس کی ضرورت نہیں ہے دینے کے لئے تیار ہو! کھا : کچھ پیش کئے دیتا ہوں تاکہ تمھاری بچیوں کے کام آسکے، توفرمایا: میری لڑکیوں کو بھی اس کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ میں نے ان سے کہہ رکھا ہے کہ سورہ واقعہ کو پڑھتی رھا کریں، کیونکہ میں نے رسو ل خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے سنا ہے کہ جو شخص ہر شب سورہ واقعہ کی تلاوت کرے گا،تو ہر گزوہ فقرو فاقہ میں نہ رھے گا۔
اُویس قرنی سے گفتگو
عطّار ”تذکرة الاولیاء“ میں ہرم بن حیان سے روایت کرتے ہیں : ہرم کہتا ہے کہ میں نے جس وقت اویس قرنی کی شفاعت کے بارے میں سنا تو ان کی ملاقات کے لئے بے قرار ہوا ،اورکوفہ کی طرف روانہ ہوا اور ان کو تلاش کرنے لگا، یھاں تک کہ ان کو ڈھونڈ لیا، دیکھا کہ وضو فرما رھے ہیں، مجھے دیکھتے ہی فرمایا: اے ابن حیان!تم یھاںکیوں آئے ہو؟کھا: آپ سے قربت حاصل کرنے کے لئے، اویس قرنی نے جواب دیا: میں ہر گز یہ گمان نہیں کرتا کہ جو شخص خدا سے قربت رکھتا ہو وہ اس کے علاوہ کسی غیر سے انس حاصل کرے، میں نے کھا: آپ مجھے نصیحت فرمائیں۔ ( اویس قرنی نے نصیحت کرنا شروع کی:)
”اے حیان کے بیٹے جب سونے کے لئے بستر پر جاؤ تو موت کو تکیہ کے نیچے تصور کرو، اور جب اٹھو تو موت کو اپنے اردگرد تصور کرو۔ اے ابن حیان! یہ نہ دیکھو کہ گناہ چھوٹے ہیں یا کم، بلکہ خداوندعالم کی کبریائی کو مد نظر رکھو کہ کس عظیم خدا کی مخالفت کررھے ہو، کیونکہ اگر گناہ کو سُبک سمجھ رھے ہو تو تم نے خدا کو بھی سُبک سمجھ لیا ہے!!
۲ ۔ مقام قرب سے دوری
فرماتے ہیں: ”بلاء“ سے مراد خداوندعالم کے مقام قرب سے دور ہونا ہے، وہ بلند مقام جو ایمان، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے، وہ مقام جس کی وجہ سے انسان خداوندعالم کی خوشی و خوشنودی کوحاصل کرلیتا ہے، نیز اسی مقام کی بنا پر انسان روز قیامت انبیاء، صدیقین اور شھداء و صالحین کا ہم نشین قرار پائے گا۔
جو لوگ اس عظیم مقام سے ہمیشہ دوررہتے ہیں آخر کار ان کے اندر سے انسانیت اور آدمیت، ایمان و عمل صالح اور نیک کردار کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ جھاں پر شیطانوں، چوپایوں اور وحشی جانوروں کی جگہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے کہ جھاں پر انسان ظلم و ستم، فسق و فجوراور گناہ و معصیت کے علاوہ انجام ہی نہیں دیتا!!
لیکن جو افراد مقام قرب کی طرف ہمیشہ قدم بڑھاتے ہیںوہ خداوندعالم کے خاص لطف و کرم سے فیضیاب ہوتے ہیں، جس کے سبب مکمل خوشی اور شوق و رغبت کے ساتھ عبادت الٰھی اور خدمت خلق میں مشغول رہتے ہیںاور ہمیشہ نیک کاموں میں لگے رہتے ہیں۔
یہ افراد ہمیشہ اس معنوی تحریک میں ہمہ تن مشغول رہتے ہیں اور مخلصانہ بندگی کے علاوہ کوئی اور مشغلہ نہیں رکھتے، نیز معشوق کے دیدار کے علاوہ کسی چیز کی خواھش نہیں رکھتے۔
ان حضرات کا دل ہمیشہ بارگاہ الٰھی سے فیضیاب ہوتا رہتا ہے اور پھر انسان کے سارے وجود میں اس کا اثر پھنچتا رہتا ہے۔
حضرت یوسف قرب الٰھی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے اورفیض الٰھی کو حاصل کرتے ہوئے اپنے چھوٹے سے مکان کو مسجد اور مکان عبادت میں تبدیل کرتے ہیں، اور اپنے راستہ میں خواب کے عالم میں آئندہ زمانے کی طرف پرواز کرتے ہیںاور اپنے بلند مقام و عظمت کا مشاھدہ کرتے ہیں، وہ کنویں کی گھرائی کو اپنے معشوق سے راز و نیاز کا بہترین مکان قرار دیتے ہیں، اور عزیز مصر کے محل کو (جو زلیخاکی پسپائی و بد بختی کی جگہ تھی) اپنے لئے تقویٰ و پرھیزگاری کی معراج کا محل بناتے ہیں، زندان مصر کو اپنے لئے عبادتگاہ اور دوسروں کی ہدایت کا مرکز قرار دیتے ہیں، خزانہ کی ذمہ داری ، امانت داری کا مرکز اور عزیز مصر کے عھدہ کو بندگان خدا کی خدمت کا مقام قرار دیتے ہیں اور ان تمام چیزوں کے ذریعہ خداوندعالم کے مقام قرب کو حاصل کرلیتے ہیں۔
۳ ۔ جھل و نادانی
علمائے ربّانی کہتے ہیں کہ ” بلاء “ سے مراد جھل و نادانی ہے جو تمام ہی بلاؤں اور بدبختیوں کا سرچشمہ اور ابدی شقاوت کا مرکز ہے۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام ”جھل اور جاہل “ کے سلسلہ میں چند حدیث بیان فرماتے ہیں:
”الجَهْلُ داءٌ وَعَیاءٌ
“[۴۱]
”جھل بیماری اور ناتوانی ہے“۔
”الجَهْلُ اَدْوَا الدَّاءِ
“[۴۲]
”جھل و نادانی سب سے بڑی بیماری ہے“۔
”الجَهْلُ مُمیتُ الاحْیاءِ وَمُخَلِّدُ الشَّقاءِ
“[۴۳]
”جھل زندگی کو تباہ کرنے والا اور ہمیشگی شقاوت و بدبختی کا باعث ہے“۔
”الجَاهِلُ لَا یَعْرِفُ تَقْصِیرَهُ وَلَا یَقبلُ مِنَ النَّصِیحِ لَهُ
“[۴۴]
”جاہل اپنی غلطی کو نہیں پہچانتا اور دوسروں کی نصیحت کو قبول نہیں کرتا“۔
”الجَاهِلُ مَیِّتٌ وَاِنْ کَانَ حَیّاً
“[۴۵]
”جاہل مردہ ہے اگرچہ (بظاھر) زندہ ہے“۔
”الجَاهِلُ صَخْرَةٌ لَا یَنْفَجِرُ مَاوها،وَشَجَرَةٌ لَا یَخْضَرُّ عُودُها،وَارْضُ لَا یَظْهَرُ عُشْبُهَا
“[۴۶]
”جاہل ایک ایسا کوہ سنگ ہے جس سے پانی نہیں نکلتا، اور ایک ایسا درخت ہے جس کی شاخیں ہری نہیں ہوتیں، اور ایسی زمین ہے جھاں پر گھاس نہیں اُگتی“۔
حضرت علی علیہ السلام اپنی ایک دعا میں بارگاہ ربّ العزت میں عرض کرتے ہیں:
”انَا الجَاهِلُ عَصَیْتُکَ بِجِهْلِی،وَارْتَکَبتُ الذُّنُوبَ بَجَهْلِی،وَسَهَوتُ عَنْ ذِکْرِکَ بِجِهْلِی،وَرَکَنْتُ إِلَی الدُّنْیَا بِجِهْلِی
“[۴۷]
”میں وہ جاہل ہوں جس نے اپنے جھل کی بنا پر نافرمانی کی، اور اسی جھل کی بنا پر گناھوں کا مرتکب ہوا، اسی جھل کی بنا پر تجھے بھول گیا اور اسی جھل کی بنا پر دنیا سے رغبت پیدا کی“۔
بد حالی
بد حالی سے مراد اخلاقی برائیاں اور حالات کے نشیب و فراز ہیں جو خطرناک اور تباہ کن بیماریوں میں سے ایک ہے،علماء اہل بصیرت کی نظر میں یہ سب سے سخت اور سب سے بڑا پردہ ہے جس کی وجہ سے انسان حقائق اور الٰھی لطف و کرم اور خوشنودی پروردگار،راہ مستقیم پر چلنے اور قرآن و حدیث کے معنی سمجھنے سے محروم ہوجاتا ہے ،اور خداوندعالم کی بارگاہ سے دور ہوجاتا ہے!
”کَلّا اِنَّهُم عَن رَبِّهِم یَوْمَئِذٍ لَمَحجُوبونَ
۔“[۴۸]
”یاد رکھو انھیں روز قیامت پروردگار کی رحمت سے محجوب کردیا جائے گا“۔
خداوندعالم نے جس قدر برے صفات سے دوری کرنے اور نیک کردار اپنانے پر توجہ دی ہے،دوسری کسی چیز پر اتنی تاکید نہیں کی ہے۔ خداوندعالم نے قرآن مجید میں گیارہ قسمیںکھانے کے بعداہل تزکیہ کی کامیابی اور برے صفات والوں کی ناکامی کو بیان کیا ہے:
”قَد افْلَحَ مَنْ زَکَّاهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا
۔“[۴۹]
”بیشک وہ کامیاب ہوگیاجس نے نفس کو پاکیزہ بنا لیا اور وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے آلودہ کردیا ہے“۔
بد حالی کی نشانیوں میں سے؛ چشم باطن کا اندھاپن، حقائق سے دوری،خدااور رسولکی باتوں کو سننے کے لئے بھراپن اور خداوندعالم کی رحمت کی خوشبو کو سونگھنے کے لئے قوہ شامہ میںخلل پیدا ہونا ہے:
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:
”خَصلَتَانِ لَا تَجْتَمِعانِ فِی مُومِنٍ:البُخلُ وَسُوءُ الخُلْقِ
“[۵۰]
”دو خصلتیں مومن میں جمع نہیں ہوسکتیں، ایک بخل اور دوسری بد اخلاقی“۔
حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:
”لَا وَحْشَةَ اوْ حَشُ مِن سُوءِ الخُلْقِ
“[۵۱]
”اخلاقی برائی سے ڈراؤنی کوئی چیز نہیں ہے“۔
نیز آپ ہی کا ارشاد ہے:
”سُوءُ الخُلْقِ شَرُّ قَرینٍ
“[۵۲]
”بد خلقی بد ترین ہم نشین ہے“۔
حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا:
”اِنَّ العَبْدَ لَیَبْلُغُ مِنْ سُوءِ خُلقِهِ اسْفَلَ دَرَکِ جَهَنَّمَ
“[۵۳]
”بے شک انسان اپنے برے اخلاق کی وجہ سے جھنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ڈالا جائے گا“۔
عمل میں کوتاھی
اگر انسان سعادت مندی کا خواھش مند ہے، اور روحانی کمالات اور بھشت کا طالب ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ قرآنی تعلیمات اور احادیث اہل بیت علیھم السلام کے مطابق عمل انجام دے۔ نیز شوق اور خلوص کے ساتھ کمر ہمت باندھے، تاکہ اپنے اعمال کی وجہ سے سعادت اُخروی، کمالات معنوی اور بھشت کے داخلہ کی قدرت حاصل کرسکے۔
انسان کے اعمال، اگر لباس معرفت سے برھنہ ہوں، رضائے الٰھی کے مطابق نہ ہوں، ان میں شوق و ہمت نہ ہو، سستی او رکاہل ی کاسایہ ان پر ہو، خلوص کا نور ان پر جلوہ گر نہ ہو، اعمال کرنے والا؛ حق الناس، بخل، حسد، طمع، تکبراور غرور و نخوت سے آزاد نہ ہو تو پھر یہ اعمال کس طرح انسان کو ساحل نجات تک پھنچا سکتے ہیں اور اس کو ہلاکت سے بچا سکتے ہیں؟
حضرت علی علیہ السلام حالانکہ معنوی دولت سے مالا مال تھے، اپنی شب کی مناجات میں خداوندعالم کی بارگاہ میں گریہ و زاری کے عالم میں عرض کرتے ہیں:
”آه مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ وَبُعْدِ السَّفَرِ وَوَحْشَةِ الطَّریقِ
!“[۵۴]
”ھائے زاد راہ کی قلت ، طولانی سفر اور راہ کے خوف و خطر سے“۔
کبھی کبھی ضروری ہے کہ اولیاء اللہ کی عبادت کی تشریح کے سلسلہ میں گرانقدر کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تاکہ ان کے شوق عبادت اور اخلاص عمل کو دیکھ کر ہمارے اندر بھی شوق و جذبہ پیدا ہو، شاید اس طرح سے ہمارے دل میں نور کی چمک پیدا ہو اور ہماراضمیر جاگ جائے،ھمارے قدم خلوص کے ساتھ اٹھےںتاکہ منزل مقصود تک پھنچ جائیں اور معنوی حیات کی لذت کو حاصل کرسکیں۔
شھید راہ حق قاضی نور الله شوشتری اپنی کتاب ”مجالس المومنین“ میں بیان کرتے ہیں: جناب اویس قرنی نماز شب پڑھتے وقت کہتے تھے: یہ رکوع کی رات ہے،چلو اس رات کو رکوع کی حالت میںگزاردوں،دوسری رات میں کہتے تھے: یہ سجدہ کی رات ہے، چلو اس رات کو سجدہ کی حالت میں بسر کردوں! کسی نے ان سے کھا: اے اویس قرنی! تم میں اتنی لمبی رات کو عبادت کی طاقت کھاں سے آتی ہے؟
اویس قرنی جواب دیتے تھے: یہ رات کھاں طولانی ہیں، اے کاش یہ رات تا ابد رہتی تو میں اس کو سجدہ میں بسر کردیتا!!
زنجیر اور بیڑی
علمائے عرفان دعا کے اس فقرہ: ”وَقَعَدَتْ بِياغْلاٰلِي،“کی وضاحت میں بیان کرتے ہیں کہ یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ ”اغلال“ سے مراد گناہ کبیرہ ہوں جن کی وجہ سے انسان زمین گیر (اوراپاہج) ہوجاتا ہے، جوا طاعت و عبادت میں مانع ہوجاتے ہیں، اور فیض الٰھی سے محرومیت کے سبب انسان کنویں میں گرجاتا ہے۔ اس بات کے ثبوت پرحضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی ایک اھم روایت بھی ہے جس میں کسی شخص نے آکر سوال کیاکہ مولا! میں نماز شب پڑھتا تھا، لیکن ایک مدت سے نماز شب پڑھنے کی توفیق چھن گئی ہے، ! تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
”انْتَ رَجُلٌ قَدْ قَیَّدَتْکَ ذُنُوبُکَ
“[۵۵]
”تیرے گناھوں نے تیرے پیر میںزنجیر ڈال دی ہے (اور تجھے راتوں میں عبادت کرنے سے روک دیا ہے، اور تجھے اپاہج کردیا ہے)
نیز یہ بھی احتمال ہے کہ ”اغلال“ سے دنیاوی اور مادی امور سے بہت زیادہ لگاؤمراد ہو جس کی وجہ سے انسان معنوی کمالات اور نیک کام کرنے سے رُک جاتا ہے۔
نیز یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے وہ بے ہودہ کام مردا ہوں جن کے نتیجہ میں انسان حقیقی مقصد سے دور ہوتا چلا جاتا ہے، حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے:
”مِن حُسْنِ إِسلامِ المَرْءِ تَرکُهُ مَا لَا یَعْنِیهِ
“[۵۶]
”ایک مسلم مرد کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ خود کو بے کار اور بے ہودہ امور سے روکے رکھے“۔
”وَحَبَسَنِي عَنْ نَفْعِی بُعْدُ امَلِی
۔“
” اور مجھے دور دراز امیدوں نے فوائد سے روک دیا ہے۔“
طولانی آرزوئیں
امید اور آرزو وہ نعمت ہے جس کو خداوندعالم نے انسانی وجود میں قرار دیا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعہ نیک کاموں میں مشغول رھے اور ان کے اچھے منافع و نتائج کی امید پر جیتا رھے۔ اگر یہ عظیم نعمت نہ ہوتی تو پھر کوئی انسان کسی کام میں مشغول نہ ہوتا، کسی کام میں دل نہ لگتا اور کسی طرح کی سعی و کوشش نہ کرتا۔
ایک روایت میں منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک بیابان میں بیٹھے ہوئے تھے ، انھوں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی کھیتی کرنے میں لگاھوا ہے، جناب عیسیٰ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھادئے اور عرض کیا: پالنے والے! اس کے دل سے آرزوں کو ختم کردے! جناب عیسیٰ کی دعا قبول ہوئی تو دیکھا کہ اس بوڑھے نے بیلچہ زمین پر رکھ دیا اوروھیں پر سوگیا، اور گھنٹوں تک اسی طرح سوتا رھا، جناب عیسیٰ نے پھر دعا کی کہ خدایا! اس کی آرزو کو واپس پلٹادے، (دعا قبول ہوئی تو) وہ بوڑھا اٹھا اورپھلے کی طرح اپنے کامیں لگ گیا۔[۵۷]
حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے:
”میری امت کے لئے آرزو رحمت ہے، اگر آرزو نہ ہوتو پھر کوئی ماں اپنے بچے کو دودھ نہ پلاتی، اور کوئی کسان کسی درخت کو نہ لگاتا“۔[۵۸]
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں:خدایا! آرزوں میں جو حقیقی ترین آروزھے وہ عطا کر۔
”اَسْالُکَ مِنَ الآمَالِ اوفَقُها
“[۵۹]
”خدایا!میں تجھ سے سب سے بہتر آروز کی درخواست کرتا ہوں“۔
انسان کی نیک آروزئیں جیسے علم کے بلند درجات کی آروز، اخلاقی کمالات کی آرزو، سعادت دنیا و آخرت کی آرزو، اطاعت خدا اور خدمت خلق کی آروزاسی طرح باقیات الصالحات کی آرزو جیسے مساجد، مدرسے، امام بارگاہ، لائیبریریاں، ہاسپٹل، راستے وغیرہ بنانے کی آرزو، یہ وہ آرزوھیں جن کے ذریعہ انسان کے ایمان اور بلند ہمت کا اندازہ ہوتا ہے۔
لیکن اگر یہ آرزوئیں اور تمنائیں صرف دنیاوی اور مادی چیزوں سے متعلق ہوں اور حد سے زیادہ ان کا شیدائی ہو، اس حد تک کہ انسان کا چین و سکون چھن جائے، انسان میں حرص و لالچ اور بخل پیدا ہوجائے، حقوق الناس پامال ہونے لگے اور انسان میں خودپسندی اور غرور آجائے ، تو یہ وہ آرزوئیںھیں جو ناپسند، باطل اور ناحق ہیںاور یہ وہ شیطانی صفات ہیں، جن کی وجہ سے انسان خدا اور قیامت کو بھول جاتا ہے ، اور خدا کی اطاعت و بندگی سے محروم ہوجاتا ہے۔
اس سلسلہ میں اہل بیت علیھم السلام سے منقول روایات میں بہت سے اھم نکات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، لہٰذا ہر مومن کا فریضہ ہے کہ وہ ان چیزوں پر توجہ کرے (اور ان پر عمل بھی کرے ۔)
حضرت امیر المومنین علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
”الَامَلُ کَالسَّرَابٍ یَغِرُّ مَن رَآهُ وَیُخْلِفُ مِنْ رَجَاهُ
“[۶۰]
”(باطل و ناحق) آرزو،سراب کی مانند ہوتی ہےں کہ جو بھی اس کو دیکھتا ہے وہ دھوکا کھا جاتا ہے اور جو اس پر امید رکھے اس کی امید خاک میں مل جاتی ہے“۔
”اَلامَلُ خَادِعٌ غَارٌّ ضَارٌّ
“[۶۱]
”آرزوایک دھوکا دینے والی اور نقصان دہ چیز ہوتی ہیں“۔
”الامَانِیُّ تُعْمِی عُیونَ البَصَائِرِ
“[۶۲]
”آرزو ، انسان کی بصیرت کو اندھا کردیتی ہے“۔
”الامَلُ سُلْطَانُ الشَّیاطِینِ عَلَی قُلوبِ الغَافِلینَ
“[۶۳]
”آرزو، غافل لوگوں کے دلوں پر شیطانی حکمراں ہے“۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا سے مناجات کرتے ہوئے آواز سنتے ہیں کہ:
”یَا مُوسَی!لَا تُطَوِّلْ فِی الدُّنْیَا امَلَکَ فَیَقْسُوَ قَلْبُکَ،وَالقاسِی القلبِ مِنّی بَعیدٌ
“[۶۴]
”اے موسیٰ! دنیا میں اپنی آرزؤں کو نہ بڑھاؤ کیونکہ آرزوئیں تمھارے قلب کو سخت کردیں گی اورجو شخص سنگ دل ہوجاتا ہے وہ مجھ سے دور ہوجاتا ہے“۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام دعائے عرفہ میں بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے ہیں:
”اعوذُ بِکَ مِن دُنیا تَمْنَعُ خَیرَ الآخرَةِ، وَمِنْ حَیاةٍ تَمْنَعُ خَیرَالمَمَاتِ،وَمِن امَلٍ یَمْنَعُ خَیْرَ العَمَلِ
“[۶۵]
”پالنے والے! میں تجھ سے پناہ مانگتاھوں اس دنیا کے بارے میں جو بہترین آخرت سے روک دیتی ہے، اور اس زندگی سے جو بہترین (طریقہ سے)مرنے سے روک دیتی ہے، اور ان آرزؤں سے جو بہترین عمل سے روک دیتی ہیں“۔
حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:
”مَنْ ایْقَنَ انَّهُ یُفَارِقُ الاحْبَابَ وَیَسْکُنُ التُّرابَ وَیُواجِهُ الحِسَابَ وَیَسْتَغْنِی عَمّا خَلَّفَ وَیَفْتَقِرُ إِلَی مَا قَدَّمَ،کاَنَ حَرِیّاً بِقِصَرِ الامَلِ وَطُولِ العَمَلِ
“[۶۶]
”جس شخص کو اس بات کا یقین ہے کہ (ایک روز یہ )موت دوستوں سے جدا کردے گی، اور مٹی کا گھر بنادے گی اور کل خداوندعالم کی بارگا ہ میں سارا حساب و کتاب دینا ہے اور جو چیزیں چھوڑکر جارھا ہے ان سے بے نیازھوگیا ہے اور جن چیزوں کو پھلے بھیج چکا ہے ان کی ضرورت ہے،تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنی آرزوںکو مختصر اورتلاش و جستجو کو زیادہ کرے“۔
لمبی لمبی آرزوں کی وجہ سے بعض اوقات انسان کوایسے ناقابل جبران نقصانات سے دوچار ہوناپڑتا ہے، جن کے ذریعہ انسان ہلاکت کے گڑھے میں گرپڑتا ہے اور خداوندعالم کے لطف و کرم سے محروم ہوجاتا ہے۔
انسان، پیدائش کے وقت ایک آمادہ کھیت کی طرح ہوتا ہے؛ اور جب تک اس کی یہ قابلیت باقی رہتی ہے تو فیض الٰھی کی بارش سے ایمان، اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کے گل کھل اٹھتے ہیں ، لیکن اگر یہ صلاحیت و قابلیت غرور ، تکبر اور غفلت و حرص خصوصاً لمبی لمبی آرزؤںکی وجہ سے کھودے تو وہ بنجر زمین میں تبدیل ہوجاتا ہے،اور اس میں اخلاق حسنہ کے پھول اور عمل صالح کا شجرنھیں اگ پاتا۔
”وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِی خَبُثَ لاَیَخْرُجُ إِلاَّ نَکِدًا
۔۔۔“[۶۷]
”اور پاکیزہ زمین کا سبزہ بھی اس کے پروردگار کے حکم سے خوب نکلتا ہے اور جو زمین خبیث ہوتی ہے اس کا سبزہ بھی خراب نکلتا ہے“۔
لمبی لمبی آرزوئیں جو مکڑی کے جالے اور ریشم کے کیڑے کی مانند انسان کے تمام باطن کو گھیر لیتی ہیں اور اس سے غور و فکر کی طاقت کو چھین لیتی ہیںاس وقت انسان حقائق کی طرف سے آنکھیں بند کرلیتا ہے اور خدا و قیامت کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے۔
یقیناً انسان اپنی اس چند روزہ زندگی میں (لمبی لمبی ) آرزوں اور خیالات میں ڈوب جاتا ہے، اور ہر وقت آرزوں کے اس سراب میں اپنی امیدوں کو حاصل کرنے کے لئے، بے حساب مال و دولت اور دنیا بھر کے ساز و سامان اکٹھا کرنے میںھی اپنی پوری زندگی صرف کردیتا ہے اور اپنی تمام تر توجھات کو دنیاوی امورمیں مصروف کرلیتا ہے ،پھر ایسا انسان کس وقت خدا کو یاد کرپائے گا، اور نیک اعمال انجام دینے کے لئے وہ کس وقت فرصت پائے گا ، اور اپنی اصلاح اور گزشتہ گناھوں کی تلافی کے لئے کب وقت نکال پائے گا۔!!
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ایک بہت اھم روایت میں بیان فرماتے ہیں:
”اِنَّ اَخْوَفَ مَااَخافَ عَلَیْکُم خَصْلَتَانِ اِتِّباعُ الهَوَی وَطُولُ الامَلِ ،امَّا اِتِّباعُ الهَوَی ،فَیَصُدُّ عَنِ الحَقِّ، وَامَّا طُولُ الا مَلِ، فَیُنْسِی الآخِرَةَ
“[۶۸]
”میں تمھارے بارے میں دو خصلتوں سے ڈرتا ہوں: ایک ہوائے نفس کی پیروی سے دوسرے لمبی لمبی آرزوں سے کیونکہ ہوائے نفس کی پیروی آدمی کو حق قبول کرنے سے روکتی ہے، اور لمبی لمبی آرزوئیں آخرت کی یاد کو بھلادیتی ہیں۔
ان خطرناک زنجیروں اور تباہ کنندہ بیڑیوں سے رھائی کے لئے ضروری ہے کہ ہم گزشہ افراد کے حالات کو دیکھیں، دینی پروگراموں میں شرکت کریں، تاریخی کتابوں کی ورق گردانی کریںاور قرآن و اہل بیت علیھم السلام کی احادیث پر دقت کریں، نیز قبرستانوں میں جائیں قبروں کے درمیان سے گزریںاور قبر میں سوئے ہوئے مردوں کے حالات کے بارے میں غور و فکر کریں، یہ تمام چیزیں ان زنجیروں اور بیڑیوں سے نجات دے سکتی ہیں۔
جی ہاں! جس وقت انسان کے دل میں آرزوں کا سیلاب اٹھ رھا ہو اور بے جا خواھشات کا طوفان جان و دل میں ٹھاٹیں مار رھا ہو تو پھر انسان دنیا و آخرت کے حقیقی فائدوں، زندگی کے حقیقی منافع اور عقل و فکر جیسی بے بھا اشیاء کو کھو بیٹھتا ہے۔
ایک عجیب و غریب حکایت
”عطّار نیشاپوری“ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز ”حسن بصری“کسی جگہ چلے جارھے تھے، راستہ میں ”دجلہ“سے گزرنا تھا کشتی کے انتظار میںکھڑا تھا، اچانک دیکھا کہ ”حبیب اعجمی“ (جو بہت بڑے عابد و زاھد تھے) چلے آرھے ہیں، انھوں نے کھا: آپ یھاں کیوں کھڑے ہوئے ہیں؟ جواب دیا کہ میں کشتی کے انتظار میں ہوں، حبیب نے کھا : اے استاد میں نے آپ سے تعلیم حاصل کی اور اسی کے دوران آپ سے یہ بات بھی سیکھی ہے :
”لوگوں سے حسد اور لمبی لمبی آرزؤں کو دل سے نکال دو، یھاں تک کہ دنیا (کے حصول )کی آگ تمھارے اندر خاموش ہوجائے، اس وقت (خداوندعالم اس مقام پر پھنچادے گا کہ) پانی پر پیر رکھتے ہوئے اس سے گزر جاؤ گے“۔
یہ کہہ کر حبیب نے پانی پر چلنا شروع کر دیا اور دریا کے اس طرف پھنچ گئے؛ یہ دیکھتے ہی حسن بصری بے ہوش ہوگئے، اور جب ہوش آیا تو لوگوں نے ان سے پوچھا:
”تمھیں کیا ہوگیا ہے؟ جواب دیا کہ اس شخص نے مجھ سے علم حاصل کیا اور آج مجھے ملامت کرتا ہوا پانی سے گزر گیا، اگر کل روز قیامت آواز قدرت آئے کہ پل صراط سے گزر جاؤ اور میں اسی طریقہ سے رہ جاؤں توپھر کیا ہوگا!!۔
اس کے بعد حبیب سے سوال کیا آپ اس عظیم مقام تک پھنچے ہو؟ تو انھوں نے جواب دیا: اے حسن! میں دل کو سفید کرتا ہوں اور تم کاغذ کو سیاہ کرتے ہو!! اس وقت حسن بصری نے کھا:
”عِلْمِی یَنْفَعُ غَیْرِیْ وَ لم یَنْفَعْنِی
۔“
”میرا علم دوسروں کو فائدہ پھنچاتا ہے اور میں اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا“۔
”وَخَدَعَتْنِی الدُّنِّیٰا بِغُرُورِهٰا
۔“
” اور دنیا نے دھوکہ میں مبتلا رکھا ہے“
دنیا کی اچھائیوں اور برائیوں نیز اس کے مکر و فریب کو نفسانی حالات اور انسانی تفکرات کی ترازو میں تولنا چاہئے جو شخص اپنے نفس کا اسیر ہو اور اس پر بے ہودہ خیالات کا غلبہ ہو، نیز تکبر، غرور، طمع و لالچ اور بخل جیسی بری عادتوں میں غرق ہو ، اور خدا و قیامت سے غافل ہواسی طرح وہ انبیاء کی نبوت اور ائمہ علیھم السلام کی امامت سے بے خبر ہو ، دنیاوی زرق و برق مال و منال اورمقام و ریاست سے دھوکا کھائے ہوئے ہو اور یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ یھی چیزیں بنیادی اور اصل ہیں ان کے علاوہ سب چیزیں بے حقیقت ہیںاور اپنی پوری زندگی انھیں کے لئے خرچ کردے،ایسا انسان موت کے وقت جب ان مادی نعمتوں کے چھوڑنے کا وقت آتا ہے تو بےدار ہوتا ہے، تب اسے یہ سب چیزیںبے حقیقت نظر آتی ہیںاور جن چیزوں کے لئے دن رات محنت کرتا تھا اور اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لاتا تھا وہ سب ایک دھوکا دکھائی دینے لگتی ہےںاور اس وقت وہ ایمان اور عمل صالح کی دولت سے خالی ہاتھ نظرآتا ہے اور اس دوسری دنیا میں منتقل ہوجاتا ہے ۔
تاریخ کے فرعون اور قارون پیدائش کے وقت سے فرعون و قارون نہیں تھے، بلکہ ان کے غلط تفکرات اور خواھش نفسانی نے ان کو فرعون اور قارون بنا دیاتھا۔
لیکن اگر انسان ہوائے نفس کی گندگی سے پاک ہو ، ناپاک خیالات سے دور ہو، اخلاقی برائیوں کا طوفان اس کے دل میں نہ اٹھتا ہواور خداورسول ، ائمہ(ع) اور قیامت کی معرفت رکھتا ہوتو وہ اس دنیا کو آخرت کے سنوارنے اور اعمال صالحہ بجالانے کا وسیلہ سمجھتا ہے اور اپنی تمام زندگی کوانھیں حقائق کوحاصل کرنے میں صرف کردیتا ہے۔
حضرات ائمہ معصومین اور انبیاء علیھم السلام بھی انسان تھے لیکن اس دنیا کے زرق و برق اور مادی امور میں گرفتار نہیں ہوئے اور امور دنیا سے دھوکا نہیں کھائے۔
وہ اہل بصیرت علماء جو دل کی آنکھ سے تمام چیزوں کی حقیقت کا مشاھدہ کرتے ہیں، ان حضرات نے لوگوں کو پند و نصیحت کی ہے تاکہ ان کے دل بیدار ہوجائیں ہمیں ان سے عبرت حاصل کرنا چاہئے ۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: میں باغ فدک کے ایک حصے میں بیلچہ سے کام کررھا تھا (وہ فدک جو جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا سے مخصوص تھا) اچانک ایک عورت کو دیکھا، جو شریف اور بزرگوار دکھائی دے رھی تھی مجھے محسوس ہوا کہ یہ ”ثنّیہ بنت عامر جمحی“ھے، جو قریش کی عورتوں میں حسن و جمال سے مشھور تھی۔
مجھے دیکھ کر وہ کھنے لگی : کہ: اے ابن ابی طالب! کیا مجھ سے شادی کروگے؟ اگر آپ چاھیں تو میں تیار ہوں، اس صورت میں، میں تمھاری مددگار ثابت ہوں گی، اور اپنی معاشی زندگی کے لئے آپ کو اس طرح کا کام نہیں کرنا پڑے گا، میں زمین کے خزانوں سے با خبر کردوں گی اور ایسے مواقع فراھم کروں گی کہ دنیا میں بادشاہ بن جائیں گے۔
میں نے کھا: تو کون ہے جو میں تجھ سے شادی کروں؟
اس نے جواب دیا: میں دنیاھوں۔
میں نے کھا: جا، میرے علاوہ کسی دوسرے کو تلاش کر، جا میں نے تجھے تین بار طلاق دی جس کے بعد رجوع کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔[۶۹]
قارئین کرام ! جو شخص دنیاوی امور اور اس کے زرق و برق میں کھوگیا گویا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہلاک ہوگیا، اور اس نے دنیا سے صحیح فائدہ نہ اٹھاکر اپنی آخرت کو تباہ کرلیا لیکن اگر کوئی شخص اس دنیا سے بے رغبت ہو تو ایسا شخص آخرت کے ابدی فائدوں اور خوشنودی خدا کے خزانہ سے مالا مال ہوجاتا ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
”مَنْ زَهِدَ فِی الدُّنْیَا اثبَتَ اللهُ الحِکمَةَ فِی قَلْبِهِ ،وَانطَقَ بِهَا لِسانَهُ، وَ بَصَّرَهُ عُیوبَ الدُّنْیَا وَ داءَ ها وَ دَواءَ ها ،وَ اخرَجَهُ مِنَ الدُّنْیَا سَاِلماً اِلَی دارِ السَّلامِ
“[۷۰]
”جو شخص دنیا سے اعراض کرے او ر اس سے بے رغبتی دکھائے، تو خداوندعالم اس کے دل میں حکمت کو قائم کردیتا ہے، اور اس کی زبان پر حکمت کے کلمات جاری کردیتا ہے، اور اس کے دل کی آنکھوں کو دنیاوی عیوب، بیماری اوراس سے شفا کی طرف کھول دیتا ہے، اور اس کو دنیا سے صحیح وسالم اور بے عیب نکال کر دار السلام کی طرف لے جاتا ہے“۔
جناب لقمان حکیم اپنے بیٹے سے فرماتے ہیں:
”یا ُبنَیَّ! اِنَّ الدُّنْیاَ بَحْرٌ عَمیقٌ ،قَدْ غَرِقَ فِیهَا عَالَمٌ کَثیرٌ،فَلْتَکُنْ سَفِینَتُکَ فیهَا تَقْوَی اللّٰهِ ،وَحَشْوُهَا الإیمَانَ،وَ شِراعُهَا التَّوَکُّلَ ،وَ قَیِّمُهَاالعَقْلَ،وَدَلِیلُهَا العِلْمَ،وَ سُکّانُهَا الصَّبرَ
“[۷۱]
” بیٹا! یہ دنیا ایک گھرا سمندر ہے، جس میں بہت سے غرق ہوچکے ہیں، لہٰذا اس میں تقویٰ الٰھی کی کشتی بناؤ، اور اس میں ایمان (وعمل صالح) کو رکھو، اس کے بادبان کو توکل خدا قرار دو اور عقل کو اس کا ناخدابناؤاور علم و معرفت کا اس میں چراغ جلاو اور صبر و استقامت کو اس کی سواری قرار دو“۔
حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے:
”کُن فِی الدُّنْیَا کَانَّکَ غَرِیبٌ اوْ کَانَّکَ عابِرٌ سَبیلٍ،وَعِدَّ نَفسَکَ فِی اصحَابِ القُبورِ
“[۷۲]
”دنیا میں مسافر کی طرح رھو، یا اس دنیا میں گزرنے والے ہو، تم اپنے کو اہل قبور میں شمار کرو“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے تھے:
”یَابْنَ جُنْدَبٍ! اِنْ احْبَبْتَ انْ تُجَاوِرَ الجَلیلِ فِی دَارِهِ، وَتَسْکُنَ الفِردَوْسَ فِی جَوَارِهِ فَلْتَهُنْ عَلَیْکَ الدُّنْیَا
“[۷۳]
”اے جندب کے بیٹے ! اگر تم یہ چاہتے ہو کہ آخرت میں خداوند عالم کے پڑوسی قرار پاؤ اور اس کے نزدیک جنت الفردوس میں مسکن قرار دو، تو تم دنیا کو کوئی اھمیت نہ دو“۔
قرآن مجید کی آیات اور اہل بیت علیھم السلام کی روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اگر دنیا کو نیک کام کرنے اور اعمال صالحہ بجالانے کا وسیلہ قرار دیا گیا اور اس دنیا کے ذریعہ آخرت کو آباد کیا گیا تو یقینایہ دنیا ایک باارزش اور قیمتی چیز ہے، لیکن اگر اس دنیا کو ظلم و ستم اور گناہ ومعصیت کی جگہ قرار دیا گیا جس کی وجہ سے انسان کی آخرت تباہ ہوجاتی ہے تو یہ دنیا ناپسندیدہ اور بے ارزش ہے غرض یہ کہ دنیا کی خوبی اور برائی انسان کے عقائد وحالات کے لحاظ سے ہوتی ہیں، اگر انسان اس دنیا میں رہ ایمان، عمل صالح اور بلند اخلاق کو اپنا شعار بنائے تو واقعاً یہ دنیا انسان کے لئے سو فی صد مفید ہے، لیکن اگر اس دنیا میں ر ہ کر کفر و شرک ، گناہ و معصیت اور ناشکر ی و بداخلاقی میں گرفتار ہوجائے تو پھر یھی دنیا انسان کے لئے سو فی صد نقصان دہ ہے۔
قارئین کرام! انسان کے دنیا سے رابطہ رکھے بغیر دنیا کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل ہے، لہٰذا دنیا کے بارے میں گفتگو اسی رابطہ کی جاسکتی ہے اور اس کی اچھائیوں اور برائیوں کے بارے میں فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔اس دنیا کے لگاؤ کی بنا پر انسانی فکر وشعور میں جو خلل واقع ہو تا ہے اسی وجہ سے اس کو مکر و فریب کا مرکز کھا جاتا ہے۔دنیا کی برائیاں ایسی ہیںکہ گویاوہ ایک مکان میں جمع ہوگئی ہیں جس کی کنجی خود اسی دنیا کی محبت ہے۔
اس دنیا میں آنا آسان ہے، لیکن اس سے صحیح و سالم چلے جانا بہت مشکل ہے،اگر آخرت مٹی کے برتن کی طرح ہوتی لیکن ہمیشہ رھنے والی ا ور یہ دنیا سونے کے برتن کی طرح ہوتی لیکن فانی توبھی دنیا کی نسبت آخرت کے بارے میںزیادہ رغبت ہونا چاہئے تھی اور جب معاملہ ہی الٹا ہو یعنی آخرت سونے کے برتن کی طرح اور باقی رھنے والی اور دنیا مٹی کے برتن کی طرح اور فانی تو پھر توآخرت کی طرف اور بھی زیادہ رغبت ہونا چائیے ۔
ابو حازم مکّی کہتے تھے: تمھیں دنیا سے بچنا چاہئے، کیونکہ مجھ تک یہ بات پھنچی ہے کہ روز قیامت بندہ کو حساب و کتاب کے لئے لایا جائے گا اور خدا کی طرف سے منادی ندا دے گا کہ یہ وہ بندہ ہے جس نے خدا کی سُبک کردہ چیزوں کو اھمیت دی ہے ا ور جس چیز کو خدا نے ناپسند فرمایا تھا اس نے اس کو دوست اور پسندیدہ قرار دیا ہے ۔
”وَنَفْسی بِجِنٰایَتِهٰاوَمِطٰالی
۔“
”اور نفس نے خیانت اور ٹال مٹول میں مبتلا رکھا ہے۔“
نفس، ایک ایسی چیز ہے جس کی حقیقت کو سمجھنا یا بہت مشکل یا ناممکن ہے؛ لیکن اس کے آثار کی شناخت قرآن و حدیث کی روشنی میں کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
اگر نفس کی تربیت و تذکیہ نہ کیا جائے تو نافرمانی اور ہواو ہوس کا شکار ہوجائے گا اور پھر اس کے ذریعہ کوئی بھی گناہ انجام دینا بہت آسان ہوجائے گا۔
”ھوا“ کے لغوی معنی :” راستہ کے انتخاب میں اوپر سے نیچے اور ہلاکت کی طرف گرنے۔“کے ہیں، جس کے معنی یہ ہوںگے کہ ”مادی یا معنوی امور سے بہت زیادہ محبت رکھنا“۔
”ھوس“ کے لغوی معنی: ”ٹوٹنا، فساد اور حیرت وپریشانی میں سرگراں ہونے“ کے ہیں۔
نفسیات کے لحاظ سے”ھوس“ کے معنی: ”اضطراب کی حالت میں کسی سلسلہ میں کوئی قدم اٹھانا جس کی بنا پر ہوس باز کو کسی طرح کا کوئی آرام نصیب نہ ہو، جیسے: حبّ، بغض، کینہ، خشم اور نفرت“۔
جو شخص ہر وقت اپنی ہوس کا شکار ہوتا ہے اسے ”بو الھوس“ اور ”دم دمی“ کھا جاتا ہے، بو الھوس اور بے قرار میں کمال کی طرف ایک قدم اٹھانے کی بھی طاقت نہیں ہوتی ہے۔
کمال و بلندی کی طرف حرکت کرنے کی شرط یہ ہے کہ انسان چین و سکون سے ہولیکن جب انسان ہوس کاشکار ہوجاتا ہے تو وہ پریشان رہتا ہے اوراس کی عقل کام نہیں کرتی۔
بچوں پر ہوس کی حکومت ہوتی ہے لہٰذا ان کی دیکھ بھال ضروری ہے تاکہ ان میں ہوس ہمیشہ کے لئے اپنی جگہ نہ بنالے اور وہ ہوس باز نہ بن جائیں۔
اسی طرح عورت پر بھی فطری لحاظ سے ہوس کا غلبہ ہوتا ہے، اور چھوٹی سے چھوٹی چیزپر نظر رکھتی ہے،اور (عورت کو )ھونا بھی ایسا ہی چاہئے، کیونکہ اس کی خلقت کی حکمت کی بنا پر گھر کے اندر کی ذمہ داری اسی پر ہوتی ہے، لہٰذا اس کو چھوٹی چھوٹی چیزوں کی طرف متوجہ رھنا چاہئے، اور عورت حسد کی وجہ سے زیادہ پریشان ہوتی ہے،پس اس سرکش خواھش کوتعلیم و تربیت اور عقل کی اطاعت کے ذریعہ ختم کیا جانا چاہئے۔
عام طور پر جب ہوس کو آزاد کردیا جاتا ہے یعنی جب ہوس پر عقل کی لگام نہیں ہوتی تو یہ شھوت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور جب خود اپنی عقل یا دوسروں کی عقل کے ذریعہ اس پر کنٹرول نہ کیا جائے تو حد سے آگے بڑھ جاتی ہے یھاں تک کہ مرض او رجنون کی حد تک پھنچ جاتی ہے!!
بعض انسانوں میںاس مرض اور جنون کو حرص ، لالچ اور جاہ طلبی کی صورت میں اچھے طریقہ سے دیکھا جاسکتا ہے، آپ حضرات دیکھےں کہ وہ لوگ کس طریقہ سے اندھے او رگونگے بن جاتے ہیں اور اپنے مقصد تک پھنچنے کے لئے کسی بھی طرح کے ظلم و ستم اوربرائی سے باز نہیں آتے، یھاں تک کہ اسلام کے مسلّم اصول کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں،اور یھی نہیں بلکہ وطن فروش اور دشمن کے غلام بننا پسند کرلیتے ہیں۔
اس طرح کے لوگوں سے دوستی اور عھدو پیمان کی کوئی توقع نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ ان کا معشوق ایک ہوتا ہے جس پر تمام چیزوں یھاں تک کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی قربان کردیتے ہیں!!
ایسے لوگوں کے نزدیک وھی دوست اور مقرب ہوتا ہے جو ان کے برے مقاصد تک پھنچنے کا ذریعہ ہوتا ہے ، اور یہ لوگ دلی طور پر متقی افراد سے بیزار ہوتے ہیں۔
قارئین کرام! جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ ہوس؛ شھوت میں اور شھوت؛ جنون میں بدل جاتی ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ شھوت کے مقابلہ میں اپنی عقل کھوبیٹھتے ہیں، دیوانہ وھی ہوتا ہے جو اپنی عقل سے کام نھیںلے سکتا ہے، اور مریض وھی ہوتا ہے جو اپنے مرض کے مقابلہ میں مغلوب ہوجاتا ہے۔
جاہ طلبی کی خواھش، دوسری شھوتوں سے زیادہ شدید ہوتی ہے، دنیا نے اس شھوت کی بنا پر بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے، اس سلسلہ میں تاریخ کے خونین واقعات شاھد ہیں، باپ نے اپنی اولاد، بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کو قتل کرڈالا ہے، اور اولاد نے بھی اپنے ماں باپ کے خون سے ہاتھ لال کئے ہیں!!
البتہ نفس کی پیروی کی ممانعت اور خواھش نفسانی کی پیروی سے رکاوٹ اسی صورت میں ہے جب انسان کا نفس بری چیزوں کی طرف رغبت رکھتا ہو اور حیوانی خواھشات لئے ہوئے ہو، نہ یہ کہ تمام خواھشات نفسانی کو پامال کردیا جائے، اور اسی غلط فھمی میں خودکشی کرلے، جیسا کہ بعض ارباب سلوک نے یھی سمجھتے ہوئے اس پر عمل بھی کیا ہے۔
علماء اور بزرگوں نے نفس اور نفسانیت کی جو اس قدر مذمت کی ہے اور خواھشات نفسانی کی پیروی سے ڈرایا ہے، ان کا مطلب بری خواھشات سے پرھیز کرنا ہے، اور چونکہ عام طور پر خواھشات نفسانی برائیوں کے سلسلہ میں ہوتی ہیں اسی وجہ سے مطلق طو رپر نفس کی مذمت کی ہے، جیسا کہ مثال مشھور ہے کہ ”بہ مرگ گرفتہ اند کہ بہ تب راضی شویم۔“(موت سے نجات ملنے پر بخار پر راضی ہوں) اسی وجہ سے اپنی تقریروں اور وعظ و نصیحت میں امید سے زیادہ ڈرایا ہے، ورنہ تو ہماری خواھشات اور رغبت تو تمام چیزوں میں انفرادی اور اجتماعی طور پر پائی جاتی ہے، یہ خواھشات انسان کی فطرت میں مختلف شکلوں میں پائی جاتی ہے،اس فطرت کو حکمت الٰھی نے ہمارے وجود میں ہمارے محفوظ رھنے اور کمال کی منزلوں کو طے کرنے لئے ودیعت کیا ہے۔
لہٰذا اس خودی کو خدا اور قیامت پر ایمان کے ذریعہ، انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کی اطاعت اور احکامات شرعیہ پر عمل کرنے کے ذریعہ نیز حقوق الناس کی رعایت کے ذریعہ قابو میں کیا جاسکتا ہے،البتہ خودی خود خواھی کی منزل تک نہ پھنچائے، بلکہ ہم خواھشات کی پیروی اس حد اعتدال سے کریں کہ شھوت اور جنون کی منزل تک نہ پھنچ جائےں، اور خود غرض اور صرف اپنے ہی فائدے کی فکر میںنہ لگے رھےں۔
قارئین کرام! یہ خود غرضی جیسی بری صفت جس میں بھی پائی جاتی ہے تو پھلے مرحلہ میںخود اسی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اور اس کے بعد معاشرہ اور سماج کے لئے ضرر رساں واقع ہوتی ہے، مثال کے طور پر غصہ خودخواھی کے لئے ایک لازمہ ہے لیکن خشم و غصہ کو صرف اپنی جان و مال اور عزت و ناموس اورحق و حقیقت نیز وطن کے دفاع کے لئے بروئے کار لائے، نہ یہ کہ کمزور اور اپنے ماتحت لوگوں پر برس بڑے، بہت زیادہ غصہ کرنا حیوانیت کی نشانی ہے، اور غصہ نہ کرنا بے پروائی اور بے غیرتی کی نشانی ہے۔ (لہٰذا اس سلسلہ میں انسان سوچ سمجھ کر قدم بڑھائے)
آزادی ، زندگی کا ایک بہترین پھل اور کمال ارادہ کی شرط ہے، کیونکہ اگر انسان آزاد ہو تو پھر وہ دوسروں کی مرضی پر نہیں چلے گا، لیکن توجہ رھے کہ یہ آزدای جو فطری چیز ہے اپنی حد اعتدال میں باقی رھے اور اس پر عقل و شعور کی حکومت ہو، کیونکہ آزادی کی افراط انسان کو طغیان اور سرکشی کی منزلوں تک پھنچادیتی ہے اور آزادی میں تفریط (کمی) ہونا اپنے کو ظلم و ستم کے حوالہ کرنا ہے۔
حبّ مال کی خواھش اچھی ہے لیکن جب تک بخل، حقوق الناس کی پامالی ،جوا، سٹہ، چوری اور دھوکا دھڑی وغیرہ کی منزل تک نہ پھنچے۔
دوسروں سے تعلقات برقرار کرنانیک کام ہے لیکن اس میں بھی میانہ روی اختیار کی جائے، ایسا نہ ہو کہ خود اپنے اوپر یا اپنے گھر والوں کے اوپر ظلم و ستم کا باعث بن جائے۔
حسن معاشرت، اور دوسروں کو خوشحال کرنا اچھا کام ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ اس ہنسی مذاق سے کسی کی توھین ہوجائے۔ دوستوں کے اچھے صفات کا ذکر کرناان کو شوق دلانا صحیح ہے لیکن یہ کام چاپلوسی کی منزل تک نہ پھنچ جائے۔[۷۴]
قارئین کرام! گزشتہ مطالب کے پیش نظر اگر نفس کی تربیت نہ ہو اور اخلاق اسلامی سے آراستہ نہ ہو تو پھر اس کے نقصانات اور خیانت کو اچھی طرح سے سمجھا جاسکتا ہے۔
اوصاف نفس
قرآن مجید میں نفس کے چند صفات ذکر کئے گئے ہیں، جو انسان میں واقعیات اور دینی و اخلاقی حقائق سے بے توجھی کے نتیجہ میں ظاھر ہوتے ہیں:
۱ ۔ نفس امّارہ۔ ۲ ۔ نفس دسّائی۔ ۳ ۔ نفس سفھی ۔ ۴ ۔ نفس تسویلی۔ ۵ ۔ نفس رھینہ ای۔ ۶ ۔ نفس ہوائی۔ ۷ ۔ نفس حسرتی۔
ان تمام اوصاف کو بیان کرنے والی آیات حسب ذیل ہیں:
”۔۔۔إِنَّ النَّفْسَ لَامَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّی
۔۔۔“[۷۵]
”نفس بھر حال برائیوں کا حکم دینے والا ہے“۔
”وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسَّا هَا
۔“[۷۶]
” اور وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے آلودہ کردیا ہے“۔
”وَمَنْ یَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِیمَ إِلاَّ مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ
۔۔۔“[۷۷]
”اور کون ہے جو ملت ابراھیم سے اعراض کرے مگر یہ کہ اپنے ہی کو بے وقوف بنائے“۔
”۔۔۔قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ انفُسُکُم
۔۔۔“[۷۸]
”(یعقوب نے)کھا کہ یہ بات صرف تمھارے دل نے گھڑی ہے “۔
”کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَهِینَةٌ
۔ “[۷۹]
”ھر نفس اپنے اعمال میںگرفتار ہے“۔
”وَا مَا مَنْ خَافَ مَقامَ رَبِّهِ وِ نَهَیٰ النَّفْسَ عَنِ الهَوَیٰ فَاِنَّ الجَنَّةَ هِیَ المَاوَیٰ
۔“[۸۰]
”اور جس نے رب کی بارگاہ میںحاضری کا خوف پیداکیا ہے اور اپنے نفس کو خواھشات سے روکا ہے تو جنت اس کا ٹھکانا اور مرکز ہے“۔
”انْ تَقُولَ نَفْسٌ یَاحَسْرَتَا عَلَی مَا فَرَّطْتُ فِی جَنْبِ اللهِ
۔“[۸۱]
”پھر تم میں سے کوئی نفس یہ کھنے لگے گا کہ ہائے افسوس میں نے خدا کے حق میں بڑی کوتاھی کی ہے“۔
شیخ بھائی اپنی عظیم الشان کتاب ”اربعین“ میں تحریر فرماتے ہیں:روایات کی روشنی میں ”نفس“ سے مراد حیوانی طاقت جیسے شھوت ،غیظ و غضب اور غصہ ہے۔
غزالی اپنی کتاب ”مدارج القدس“ میں ایک جملہ میں اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
”یُطلق النفسُ علی الجامعِ للصِّفاتِ المَذْمومةِ المُضَادَّةِ لِلْقِوَی العَقْلِیَّةِ
۔“
”نفس ان تمام برے صفات پر اطلاق ہوتا ہے جو عقل کے مخالف ہو“۔
حکمائے الٰھی کہتے ہیں:”جھاد بالنفس“ کو جھاد بالنفس اس لئے کھا جاتا ہے کہ اس نفس کا بدن سے تعلق ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس نفس سے درندگی اور شیطانی صفات پیدا ہوتے ہیں، ورنہ تو ان چیزوں کے علاوہ نفس میں عقل اورفرشتوں کے صفات پائے جاتے ہیں، اور اپنی خلقت کے اعتبارسے نفس کے ذریعہ خدا کی عبادت کی جاتی ہے، اور اسی کے ذریعہ بھشت کو حاصل کیا جاتا ہے۔ لہٰذا نفس کے برے صفات سے جھاد کیا جائے تاکہ انسان کو سکون حاصل ہوسکے اور وہ حیوانوں کے شر سے محفوظ رہ سکے، ورنہ تو اس گھر میں ہمیشہ ایک طوفان اور جنگ و جدل برپا رہتاھے!
ایران کے مشھورشاعر مرحوم سعدی کہتے ہیں:ایک شخص سے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی اس حدیث کے بارے میں سوال کیا، جس میں آنحضرت نے ارشادفرمایا تھا کہ:
”اعدَی عَدُوِّکَ نَفْسُکَ الَّتِی بَیْنَ جَنْبَیْکَ
“[۸۲]
”تیرا سب سے بڑا دشمن (خود تیرا )نفس ہے، جو تیرے ہی پھلو میں موجود ہے“۔
چنانچہ اس نے جواب دیا: کیونکہ اگر کسی بھی دشمن کے ساتھ احسان کرو گے وہ تمھارا دوست بن جائے گا، سوائے نفس کے کیونکہ جتنا اس کے ساتھ جتنا احسان کرو گے جس قدر اس کی پیروی کرو گے اور اس کا کھنا مانوگے تو وہ اتنی ہی مخالفت اور دشمنی زیادہ کرے گا۔!!
قارئین کرام ! یہ ایک حقیقت ہے کہ ہوائے نفس کی پیروی کرنے والے (چونکہ عقل سے کام نہیں لیتے، لہٰذا) پاگل اور دیوانے ہوجاتے ہیں۔
جناب بھلول سے سوال کیا گیا: شھر میں دیوانوں (اور پاگلوں) کی تعداد کتنی ہوگی؟ تو انھوں نے جواب دیا:
ان کا شمار کرنا مشکل ہے، عقلاء کے بارے میں پوچھو تومیں بتا سکتا ہوں۔
اصلاح نفس کے سلسلہ میں حضرت علی علیہ السلام کا نظریہ
حضرت علی علیہ السلام جو ہر چیزکے بارے میں مکمل بصیرت رکھتے تھے اور ان کے تمام رموز سے آگاہ تھے، آپ نے اصلاح نفس کے لئے چند چیزوں کی رھنمائی کی ہے، جن کوایک عظیم الشان شیعہ عالم دین علامہ آمدی نے اپنی گرانقدر کتاب ”غرر الحکم“ میں بیان کیا ہے:
”اَذِا رَغِبتَ فِی صَلاحٍ فَعَلَیْکَ بِالاِقْتِصادِ وَ القُنوعِ وَالتَّقَلُّلِ
“[۸۳]
”جس وقت تم اپنے نفس کی اصلاح کرنا چاھو تو میانہ روی اور قناعت کو اپنا شعار بناؤ، اور تھوڑی سی دنیا پر اکتفاء کرو“۔
”صَلاحُ النَّفْسِ مُجاهَدَةُ الهَوَی
“[۸۴]
”نفس کی اصلاح کے لئے ہوائے نفس سے جھاد کرناھوگا جس کے سبب نفس پر غلبہ حاصل ہوجائے گا۔
”سَبَبُ صَلاحِ النَّفْسِ العُزُوفُ عَنِ الدُّنْیَا
“[۸۵]
”اصلاح نفس کا طریقہ خود کو دنیا سے دور رکھنا ہے“۔
”دَواءُ النَّفْسِ الصَّوُم عَنِ الهَوَی
“[۸۶]
”نفس کا علاج اس کے بے حساب و کتاب خواھشات سے اجنتاب کیا جانا ہے“۔
”سَبَبُ صَلاحِ النَّفْسِ الوَرَعُ
“[۸۷]
”گناھوں سے دوری، اصلاح نفس کا سبب ہے“۔
”اِنَّ تَقْوَی اللّٰهِ دَواءُ دَاءِ قُلوبِکُم وَ طَهُورِ دَنَسِ انْفُسِکُم
“[۸۸]
”تقویٰ الٰھی تمھارے دلوں کی بیماریوں کی دوا اور نفسانی گندگی کو پاک کرنے والا ہے“۔
”آفَةُ النَّفْسِ الوَلَهُ بِالدُّنْیَا
“[۸۹]
”دنیا کا عشق وبائے جان ہے“۔
”رَاسُ الآفَاتِ الوَلَهُ بِاللَّذَّاتِ
[۹۰]
”ناجائز لذات کا شیدائی ہونا تمام مفاسد کی جڑ(اور بنیاد) ہے“۔
”طُوبَی لِمَنْ عَصَی فِرْعَوْنَ هَوَاهُ وَاطَاعَ مُوْسیٰ عَقْلِهِ
“۔
”خوشا نصیب اس شخص کا جو اپنے نفس کے فرعون کی مخالفت کرے اور اپنی عقل کے موسیٰ کی اطاعت کرے“۔
لیکن ان روحانی اور ملکوتی فقرات میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ہر شخص کے اندر (یعنی اس عالم صغیر میں) ایک موسی اور ایک فرعون ہوتا ہے، لہٰذا اگر حضرت موسیٰ کے کمال کو اختیار کرنا چاھے تو اپنے نفس کے فرعون کی مخالفت کرنا ہوگی، ورنہ تو پھر فرعون کی طرح دریائے ہلاکت میں غرق ہونا ہوگا، لیکن اگر اپنی عقل کے موسیٰ کی اطاعت کی توانسان پھر جناب موسیٰ کی طرح پروردگار کی رحمت خاص کا حق دار اور خاص مومنین میں شمار ہوگا۔
ارشاد الٰھی ہوتا ہے:
”سَلاَمٌ عَلَی مُوسَی وَهَارُونَ
۔“[۹۱]
”سلام ہو موسیٰ اور ہارون پر“۔
”إِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِینَ
۔“[۹۲]
”بیشک وہ دونوں ہمارے مومن بندوں میںسے تھے“۔
جو شخص اپنی عقل کے موسیٰ کی پیروی کرے تو پھرآسمانوںمیںجناب موسیٰ کا ہم پرواز ہوجائے گا، لہٰذا خوشا
نصیب ہے وہ شخص جو اپنے نفس کے فرعون کی مخالفت اور اپنی عقل کے موسیٰ کی اطاعت کرے۔
”طَهِّرُوا انْفُسَکُم مِن دَنَسِ الشَّهَواتِ تُدرِکُوا رَفِیعَ الدَّرَجاتِ
“[۹۳]
”اپنے نفس کو حرام شھوتوں اور کثافتوں سے پاک کرو، تاکہ معنوی بلند درجات تک پھنچ جاؤ“۔
جی ہاں، اگر کوئی شخص بلند مقامات اور معنوی درجات حاصل کرنا چاھے، اور اس دنیا کے تنگ پنجرے سے حکمت و معرفت کے باغوںکی طرف پرواز کرنا چاھے، تو پھر نفس کو گندگی، کثافتوں اور حیوانی شھوات سے پاک کرنا پڑے گا، اور اپنی روح کو ظاھری لذت کے شوق سے طیب و طاھر کرنا پڑے گا تاکہ شھوات سے خالی ہوکر فرشتوں کے صفات سے آراستہ ہوجائے بلکہ فرشتوں سے بھی بلند ہوجائے۔[۹۴]
حکمائے الٰھی فرماتے ہیں: انسان درج ذیل چار طریقوں سے اپنے نفس کا تذکیہ کرسکتے ہیں: ۱ ۔ بے ادب لوگوں سے ادب سیکھے۔ ۲ ۔ اہل ادب حضرات کی صحبت اور ہم نشینی اختیار کرے۔ ۳ ۔ اپنے دوستوں سے اپنے عیوب کے بارے میں سوال کرے۔ ۴ ۔اپنے بارے میں دشمنوں سے سنے ہوئے عیوب کو دور کرے۔[۹۵]
شرح و مطالی(ٹال مٹول)
توبہ اور برائیوں کی اصلاح،قیامت کے لئے زاد راہ کی فراھمی، اعمال صالحہ اور کار خیر کی انجام دھی، نیز گناہ اور معصیت سے دوری، اور حکمت و معرفت کے حصول کے لئے برسوںسے ”آج کل“ کررھا ہوں لیکن اپنے وعدہ پر وفادار نہیں ہوں، اور آج کل کے اس وعدہ نے مجھے دھوکا دیا ہے اور نیک کردار اپنانے سے روک دیا ہے۔
لہٰذا تجھ سے درخواست ہے کہ مجھے مستحکم ارادہ اور وفائے عھد کی قدرت اور آج کل کھنے سے نجات عطا فرما، کیونکہ یہ عدم استقلالی آخر کار مجھے سخت خسارے اور نقصان میں مبتلا کردے گی، اور تیری رحمت اور بخشش سے محروم کردے گی، نیز مجھے (نیک) بندوں کی صف سے خارج اور نافرمانوں اور گروہ شیطان میں شامل کردے گی۔
” یٰاسَیَّدِي،فَاسْالُکَ بِعِزَّتِکَ انْ لاٰ یَحْجُبَ عَنْکَ دُعٰائِي سُوٓءُ عَمَلِي و َفِعٰالِي،
” میرے آقا و مولا!تجھے تیری عزت کا واسطہ ۔میری دعاوں کو میری بد اعمالیاں روکنے نہ پائیں۔“
اے میرے مھربان خدا! میرے برے اعمال اور میرے افعال کی برائی کو اپنی بارگاہ میں دعا قبول نہ ہونے اور باب استجابت کے بند ہونے کا سبب نہ قرار دے۔
باب استجابت کے بند ہونے کی وجہ
گناہ و معصیت ایک ایسا حجاب ہے کہ اگر انسان توبہ نہ کرے تو خدا کی بے انتھارحمت، عظیم لطف و کرم اور قبول دعا سے محروم ہوجاتا ہے۔ برے اعمال کی برائی کے سبب ہے کہ انسان دعا کی حالت کھوبیٹھتا ہے، اور خدائے مھربان کی بارگاہ میں دعا کرنے سے محروم ہوجاتا ہے، اور اگر دعا کی توفیق ہو بھی جائے تو وہ باب اجابت سے نہیں ٹکراتی ہے ۔
باب اجابت کا بند ہوجانا، اور دعاکرنے والے کی دعا قبول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے مولاکی بارگاہ میںبے وقعت اور مردود ہے۔
ایک زاھد و عارف سے نقل ہوا ہے: میرے لئے میں دعا کرنے سے محروم ہوجانا تو میرے لئے دعا قبول ہونے سے محروم کئے جانے سے سخت ہے۔
دعا کے اس حصے میں دعا کرنے والا شخص خدا وندعالم کی بارگاہ میں اس کی عزت کے توسل سے اسی سے درخواست کرتا ہے :
”اے میرے مولا و آقا ! میرے برے اعمال اور گناھوں کو دعا قبول ہونے میں مانع نہ ہونے دے، تاکہ اعمال کی برائی مجھے دعا کرنے سے نہ روک پائے، اور میں تیرے در پر سوالی بنا بیٹھا رھوں اور تو بھی اپنی رحمت سے میری دعا کو قبول فرما۔
ایک روایت میںمنقول ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اپنے چند اصحاب کے ساتھ ایک راستہ سے گزررھے تھے راستہ میں ایک جوان کو دیکھا کہ دیوار پر سر رکھے اپنی دعا قبول ہونے کے لئے خدا کو اس کی عزت کی قسم دے رھا ہے، تو آپ نے اس کو دیکھ کر فرمایا: ”اس قسم کے ذریعہ اس جوان کی دعا ضرور قبول ہوگی“۔
جی ہاں! خدائے مھربان و قادرموثر چیزوں کے اثرکو ختم کرنے، اور بند راستوں کو اپنے بندے کے لئے کھول دےنے کی قدرت رکھتا ہے۔ خدا وہ ہے جو جناب ابراھیم کو بچانے کے لئے آگ سے جلانے کی طاقت چھین لیتا ہے، اسی طرح جناب اسماعیل کو بچانے کے لئے تیز چاقو کے اثر کو ختم کردیتا ہے، وھی خدادعا قبول نہ ہونے میں گناہ کے اثر کو ختم کرسکتا ہے، اور اپنے بندے کی حاجتوں کو پورا کرنے اور اس کو منزل مقصود تک پھنچانے میں مدد کرسکتا ہے۔
”وَلاٰ تَفْضَحْنِي بِخَفِيِّ مَا اطَّلَعْتَ عَلَیْهِ مِنْ سِرِّي
“
” اور میں اپنے مخفی عیوب کی بنا پر بر سر عام رسوانہ ہونے پاوں ۔“
پردہ پوشی
قارئین کرام ! ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ خداوندعالم کا علم ہر خشک و تر اور ہر ظاھر و باطن اور ہر ذرہ ذرہ پر احاطہ کئے ہوئے ہے، اس کے یھاں بے توجھی اور غفلت نہیں ہوتی ہے۔ وہ ماضی اور آئندہ کے تمام حوادثات اور حالات سے باخبر ہے، اس کے سامنے ماضی اور حال سبھی حاضر ہیں۔ اس کے سامنے لوگوں کی خلوت بھی ظاھر ہے، اور چاھے کھیں بھی چھپ کر کوئی کام کریں تو خدااس کو دیکھتا ہے۔ اگر وہ ہمارے گناھوں کو ماں باپ اوربیوی بچوں کے سامنے ظاھر کردے تو ہماری ساری آبرو خاک میںمل جائے گی،اگر یہ سب لوگ ہمارے مخفی گناھوں سے آگاہ ہوجائیں تو وہ اپنے پاس سے دور بھگادیں گے، اور ہماری کسی بات کا جواب دینے کے لئے تیار نہ ہوں گے۔
دعاکرنے والا دعا کے اس حصہ میں اپنے گریہ و زاری اور خواھش و درخواست کے ذریعہ اپنی آبرو کی حفاظت چاہتا ہے اور ستّار العیوب سے درخواست کرتا ہے کہ اس کو مخفی گناھوں کی بنا پر جس کو فقط وھی جانتا ہے؛ رسوا اور ذلیل نہ کرے۔
جو شخص ان عظیم فقروں کے ذریعہ بارگاہ الٰھی میں راز و نیازکررھا ہو اس کو یہ یقین ہونا چاہئے کہ خداوندعالم اپنے گناھگاربندے کو توبہ کرنے کے بعد ذلیل اور رسوا نہیں کرتا، اس کا ستّار العیوب ہونا اس حدتک ہے کہ بندوں کے حساب و کتاب کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ خداوندعالم خود ان کا حساب و کتاب کرے گا، یھاں تک کہ اپنے محبوب پیغمبر جو اپنی امت پر بہت زیادہ روف اور مھربان ہیں، ان کے سامنے بھی بندوں کے گناھوں کو ظاھر نہیں کیا جائے گا تاکہ بندہ، رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے سامنے شرمندہ ہو۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام دعائے ابو حمزہ ثمالی میں خداوندعالم کے بعض صفات کا اس طرح تذکرہ فرماتے ہیں:
”سَتَّارُ الْعُیُوْبْ، غَفَّارُ الذُّنُوبْ، تَسْتُرُ الذَّنْبَ بِکَرَمِکَ وَ تُوخِّرُ الْعُقُوبَةَ بِحِلْمِکَ
“۔
”برائیوں کو چھپانے والے، گناھوں کو بخشنے والے، مخفی چیزوں کو بھی جاننے والے، تو گناھوں کو اپنے کرم سے چھپاتا ہے اور اس کی سزا کو بردباری کی بنا پر تاخیر میں ڈال دیتا ہے“۔
خدا کے بعض بندے ، حالانکہ محدود وجود رکھتے ہیں ، دوسروں کے عیوب پر پردہ ڈالنے کی اس قدر طاقت رکھتے ہیں کہ ان کے حیرت انگیز واقعات سن کر انسان تعجب کرنے لگتا ہے، لیکن وہ خدا جس کا وجود بے نھایت اور لامحدود ہے تو پھر اس کی پردہ پوشی کا کیا عالم ہوگا؟!
جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے جناب یوسف سے اپنے بھائیوں کے ظلم و ستم کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے صرف یہ جواب سنا:
”عَفَا اللّٰهُ عَمَّا سَلَفَ
۔۔۔“[۹۶]
”اللہ نے گذشتہ معاملات کو معاف کردیاھے“۔
پردہ پوشی کے سلسلہ میں ایک عجیب و غریب واقعہ
ابو عبد الرحمن،حاتم بن یوسف اصمّ جو خراسان کے بزرگواروں اور کم نظیرصاحب علم و تقویٰ افراد میں سے تھے؛ ان کے بارے میں لکھا ہے:
ان کی شھرت ”اصم“[۹۷] کے نام سے اس وجہ سے تھی کہ ایک عورت کوئی مسئلہ معلوم کرنے کے لئے ان کے پاس آئی ،گفتگو کے دوران اس عورت کی ریح خارج ہوگئی، اس وقت وہ عورت بہت شرمندہ اور خجالت زدہ ہوگئی، حاتم نے اپنے کان کی طرف اشارہ کیا یعنی میں کم سنتا ہوں ذرا زور سے بولو، وہ عورت بہت خوش ہوئی اور اس وجہ سے خدا کا شکر ادا کرنے لگی کہ ایک عالم دین کے سامنے اس کی عزت و آبرو بچ گئی، اس واقعہ کے بعد جس سے کوئی بھی باخبر نہیں تھا ان کا نام حاتم اصم مشھور ہوگیا، اور جب تک وہ عورت زندہ رھی انھوں نے اسی طرح (یعنی بھروں کی طرح) زندگی بسر کی ، جب وہ اس دنیا سے چلے گئے توکسی بزرگوار نے ان کو خواب میں دیکھا ان سے سوال کیا:
”مَا فَعَلَ اللّٰهُ بِکَ
“
” خدا نے تمھارے ساتھ کیسے سلوک کیا“۔
تو انھوں نے کھا: چونکہ میں نے ایک سنی ہوئی بات کو اَن سنی کردی تھی، لہٰذا اس نے میرے (برے) اعمال اور تمام سنی ہوئی باتوں پر قلم عفو پھیر دیا ہے۔
”وَلاٰ تُعٰاجِلْني بِالْعُقُوبَةِ عَلٰی مٰا عَمِلْتُهُ فيخَلَوٰاتي مِنْ سُوٓءِ فِعْلِي وَاسٰائَتِي،وَدَوٰامِ تَفْریطيوَجَهٰالَتِي،وَکَثْرَةِ شَهَوٰاتيوَغَفْلَتِي
۔“
”اور میں نے تنھا ئیوں میں جو غلطیاں کی ہیں ان کی سزا فی الفور نہ ملنے پائے، چاھے وہ غلطیاں بد عملی کی شکل میں ہو ں یا بے ادبی کی شکل میں،مسلسل کوتاھی ہو یا جھالت یا کثرت خواھشات و غفلت“۔
اسلامی تعلیمات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اگرخداوند عالم سزا اور عقوبت میںجلدی کرتا تو زمین پر چلنے والا کوئی بھی انسان یا حیوان باقی نہ رہتا۔ لیکن خداوندعالم نے اپنی رحمت کی بنا پر اپنے بندوں کے عذاب اور سزا میں جلدی نہیں کی ہے، اور اُس نے بندوں کو یہ فرصت اس لئے عطا کی ہے کہ گناھگار اس فرصت کو غنیمت جان کر خدا کے ساتھ اپنا رابطہ صحیح کرلیں اور اپنے گناھوںسے سچی توبہ کریں تاکہ ان کے گناھوں کے آثار ختم ہوجائیں اور اپنی گزشتہ برائیوں کی اصلاح کرلےں، اور ترک شدہ واجبات کی ادائیگی کریں۔
بندوں کی سزا میں وہ اس لئے جلدی نہیں کرتا کہ اگر اس کی نسل سے کوئی مومن پیدا ہونے والا ہوتا ہے تو یہ سزا اس کی پیدائش میں مانع نہ ہوجائے۔
یا بچوں کے گریہ و زاری ،یا مومنین کی خلوص کے ساتھ دعاوں، یا پھر عابدوں اور زاھدوں کاراتوں میں رونے کی بنا پر عذاب اور سزا میں تاخیر ہوتی ہے؛ یا توبہ کے ذریعہ وہ عذاب ٹل جاتا ہے، اور اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو پھر خدا کو عذاب کرنے میںجلدی کرنے سے کوئی مانع نہیں ہوسکتا۔
بھر حال اس کے نظام کے تحت گناھگار کی بے توجھی کی بنا پر عذاب میں جلدی کرنا پایاجاتا ہے لہٰذا اس عذاب کی عجلت کو دعا گریہ و زاری اور توبہ کے ذریعہ سے روکا جاسکتا ہے، جیسا کہ قوم یونس نے عذاب کے وقت اپنے پروردگار کی بارگاہ میں توبہ اور گریہ وزاری کی جس کی وجہ سے عذاب ٹل گیا۔
قارئین کرام ! اس اھم نکتہ کی طرف بھی توجہ فرمائیںکہ کبھی کبھی اس دنیا میں عذاب الٰھی ، قحط سالی، آسمانی بلائيں ، مھنگائی، ایک دوسرے پر عدم اعتماد اور آخر کار انسان کے باطن کےمسخ ہونے کی صورت میں ظاھر ہوتا ہے۔
باطن کے مسخ ہونے کی نشانی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے منقول روایت میں بیان ہوئی جوآنحضرت نے حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب فرماتے ہوئے بیان فرمائی ہے:
”یَاعَلِیُّ اِنَّ القَوْمَ سَیُفْتَنُونَ (بَعْدِی) بِامْوَالِهِمْ،وَ یَمُنُّونَ بِدِینِهِمْ عَلَی رَبِّهِمْ،وَ یَتَمَنَّوْنَ رَحْمَتَهُ،وَ یَامَنُونَ سَطْوَتَهُ،وَ یَسْتَحِلُّونَ حَرَامَهُ بِالشُّبُهَاتِ الکَاذِبَةِ وَالْاهْوَاءِ السَّاهِیَةِ،فَیَسْتَحِلُّونَ الخَمْرَ بِالنَّبِیذِ وَ السُّحْتَ بِالهَدِیَّةِ،وَالرِّبَا بِالْبَیْعِ
“[۹۸]
”یا علی!میری امت کا میرے بعد مال و دولت کے ذریعہ امتحان لیا جائے گا، یہ لوگ اپنے دین کو خدا کے اوپر ایک احسان سمجھتے ہیں، اور خدا کی رحمت کے متمنی رہتے ہیں، اور اپنے کو عذاب الٰھی سے محفوظ گردانتے ہیں، او راپنے جھوٹے اعتراضات اور فراموشی پیدا کرنےوالے خواھشات نفسانی سے اس کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں، یہ لوگ شراب کو آب انگور یا آب خرما کہہ کر پیتے ہیں، اور مالِ حرام کو ہدیہ اور تحفہ کا نام دے کر حلال جانتے ہیں اور سود کو خرید و فروخت کا نام دے کر حلال سمجھتے ہیں“۔
واقعاً اگر انسان کا باطن گناھوں اور شیطانی وسوسوں کے ذریعہ مسخ نہ ہوتا تو پھر کس طرح خدا کی حرام کردہ چیزوں کو حلال گردانتے، اور شراب، مال حرام اور سود کو اپنے لئے حلال سمجھتے؟ یہ تمام چیزیں انسان کے باطن کےمسخ ہونے کی نشانی ہےں کیونکہ باطن کا مسخ ہونا درحقیقت عذاب الٰھی کی ایک قسم ہے؛
جیسا کہ ظاھری طور پر بنی اسرائیل کی نافرمان قوم کے لئے ایسا ہوا بھی ہے اور اس قوم کے گناھگار لوگ خدا کے عذاب آور خطاب سے مخاطب ہوئے ہیں۔
ارشاد الٰھی ہوتا ہے:
”۔۔۔(
کُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِینَ
)
۔“[۹۹]
”(تو ہم نے حکم دیدیاکہ)اب ذلت کے ساتھ بندر بن جائیں“۔
امام علیہ السلام مذکورہ جملوںاور ”مِنْ سُوٓءِ فِعْلِي وَاسٰائَتِي“ کے بعد چار چیزوں کی طرف اشارہ فرماتے ہیں:
۱ ۔ تفریط۔
۲ ۔ جھل۔
۳ ۔ شھوت۔
۴ ۔ غفلت۔
تفریط :
یھاں پر”تفریط “ سے مراد خداوندعالم کی اطاعت و بندگی اور مخلوق خدا کی خدمت میں کوتاھی کرنا ہے۔
اسلامی تعلیمات میںتفریط سے پرھیز پر زور دیا گیاھے، اور تفریط کو خطرناک نقصان کا باعث اور فیوضات الٰھی سے محرومی کا سبب قرار دیا ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام بہت سی اھم روایات بیان فرماتے ہیں:
”التَفْرِیطُ مُصِیبَةُ القَادِرِ
“[۱۰۰]
”کوتاھی کرنا ،ایک بہت بڑی مصیبت اور بلاء ہے“۔
”ثَمَرَةُ التَّفْرِیطِ النَّدامَةُ ،وَ ثَمَرَةُ الحَزْمِ السَّلَامَةُ
“[۱۰۱]
”کوتاھی کرنے کا نتیجہ : پشیمانی، اور دور اندیشی کا نتیجہ: سلامتی ہے“۔
”الجَنَّةُ غَایَةُ السَّابِقینَ ،وَالنَّارُ غَایَةُ المُفَرِّطِینَ
“[۱۰۲]
”بھشت ، سابقین کا سرانجام ہے اور جھنم کوتاھی کرنے والوں کا انجام کار ہے“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
”مَنْ فَرَّطَ تَوَرَّطَ
“[۱۰۳]
”کوتاھی کرنے والا شخص سخت پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے“۔
جھل:
حقائق کے سلسلہ میں جھل و نادانی اور امور دنیا و آخرت، نیز وظائف شرعی اور حقوق الناس سے بے خبر ہونا بہت خطرناک بیماری ہے کہ اگر انسان علم و معرفت کے ذریعہ اس بیماری کا علاج نہ کرے توپھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بدبختی اور رسوائی نیز ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا ہوگا۔ قارئین کرام ! جھل و نادانی سے متعلق روایات ہم ”تَجَرَّاتُ بِجَہْلِی“ کی شرح میں بیان کرچکے ہیں (دوبارہ مطالعہ فرمائیں)
شھوت:
شھوت کے معنی : ”کسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے اس میں بہت زیادہ لگاؤ اور رغبت کا اظھار کرنے کے ہیں“، اگر یہ رغبت اور شدید لگاؤ کسی ناپسند اورحرام کام کے بارے میں ہو تو اس کی بنا پر انسان گناہ اور معصیت کے گڑھے میں گرپڑتا ہے اور آخر کار انسان کی عقل و روح کا خون ہوجاتا ہے جس کے نتیجہ میں دنیا و آخرت میں عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے۔
شھوت میں ہیجان پیدا کرنے والا سبب ، دنیا سے بے انتھا عشق و محبت ہے جو شیطانی وسوسوں، برے لوگوں کی صحبت اور خدا سے بے توجھی کے نتیجہ میں ایک درخت کی طرح رشد و نمو کرتی ہے جس پر شھوت کی شاخیں نکلتی ہیں اور شجر ملعونہ[۱۰۴] میں تبدیل ہوجاتی ہیں، جس کا پھل گناھوں کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا، جس کو کھاکر انسان خدا و
”اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے اور ہم لوگوں کوڈراتے رہتے ہیںلیکن ان کی سرکشی بڑھتی ہی جارھی ہے“۔
رسول سے دور ہوتا چلا جاتا ہے، اور اس کے نتیجہ میں رحمت خدا سے محروم ہوجاتا ہے، اوردنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا مستحق ہوجاتا ہے نیز جھنم اس کا ٹھکانہ بن جاتا ہے۔
یہ خطرناک درخت جھنم کے درختوں خصوصاً درخت ”زقّوم“ کاایک نمونہ ہے جو وعظ و نصیحت ، خدا پر توجہ، توبہ، عاقبت کے بارے میں غور و فکر اور حوادث زمان سے عبرت حاصل کئے بغیر جڑ سے نہیں اکھڑسکتا ہے۔
علمائے دین فرماتے ہیں: اس خطرناک درخت کی سات شاخیں ہیں جو بہت سے لوگوں میں پائی جاتی ہیں، جن کی بنا پر انسان گناھوں اور برائیوںمیں مبتلا ہوجاتا ہے، شاخوں کے نام اس طرح ہیں:
۱ ۔ جاہ طلبی کی خواھش۔
۲ ۔ مال و دولت اور مُلک و منال کی خواھش۔
۳ ۔ بڑے بڑے محل اور عمارتیں بنانے کی خواھش۔
۴ ۔ خوبصورت اور ناز برادر حوروں جیسی عورتوں سے مباشرت کرنے کی شھوت۔
۵ ۔ لذیذ سے لذیذ کھانوں اور مست کنندہ چیزوں کو کھانے کی خواھش۔
۶ ۔ ریشمی، رنگ برنگے اور فاخرہ لباس پھننے کی خواھش۔
۷ ۔ گناھگاروں، فاسق و فاجر لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست کرنے کی خواھش۔
یہ سات شھوتیں انسان کے اندر خواہ نخواہ درج ذیل سات شیطانی صفات پیدا کردیتی ہیں:
۱ ۔ تکبر۔
۲ ۔ ریاکاری اور خود نمائی۔
۳ ۔بعض و حسد ۔
۴ ۔حرص و طمع
۵ ۔بخل۔
۶ ۔ظلم و ستم۔
۷ ۔غیظ و غضب۔
ان ساتوں شھوتوں اور ضرر رساں صفات(جن کی وجہ سے انسان دوزخی بن جاتا ہے)؛ کی تشریح کرنے کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے۔
محبت دنیا کے کنویں میں گرنے والے اورشھوات کی تاریکی میں غرق ہونے والوں کے سامنے موت کا پیغام آتا ہے تو بیدار ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ واقعاً بہت زیادہ نقصان میں ہیں، اور سمجھ جاتے ہیں کہ اس چند روزہ پریشان حال زندگی کے بدلے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عاقبت خراب ہوگئی ہے !!
ایک بد بخت شاہزادہ
محبت دنیاکے کنویں میں گرنے والوں اور شھوتوں کی تاریکی میں غرق ہونے والوںکا حال اس شہزادہ کی طرح ہوتا ہے کہ جب بادشاہ نے اپنے بیٹے کی شادی کرنا چاھی، اور ایک شریف خاندان سے پری جیسی خوبصورت لڑکی سے نکاح کردیا۔
جب شادی کی تیاریاں مکمل ہوگئیں، تو سب خواص و عوام نے اپنے اپنے لحاظ سے تحائف پیش کئے، بادشاہ نے بھی اپنے خزانہ کو غریبوں، محتاجوں حتی کہ مالداروں کے لئے قربان کردیا، سب لوگ خوش و خرم تھے،سبھی جاننے والے اور نہ جاننے والے شادی میں جمع تھے اور اس عجیب و غریب شادی کے سازو سامان کو دیکھ کر حیرت زدہ تھے۔
حور مانند دلھن کو اپنے تمام تر زیورات سے سجا کر ڈولی میں بٹھایا گیا، لیکن اس وقت دولھا غائب تھا، اس کو تلاش کیا جانے لگا، لیکن آخر کار وہ نہ ملا، کیونکہ اس رات میں دولھا نے بہت زیادہ شراب پی تھی جس کی بنا پر مدھوش تھا ، اسی وجہ سے سب لوگوں سے پیچھے رہ گیا اوربے بسی کے عالم میں گلیوں و کوچوں میں گھومتا ہوا مجوسیوں کے مردہ خانہ تک پھوچ گیا، مجوسی اپنے رسم و رواج کے مطابق مردوں کو وھاں رکھ کر ان کے لئے شمعیں روشن کرتے تھے، شراب کے نتیجہ میں مدھوشی کی بنا پر وہ شہزادہ مردہ خانہ کو حجلہ عروسی سمجھ بیٹھا، اور اس کے اندر جاکر دیکھا تو ایک بوڑھی عورت کا جنازہ رکھا ہوا تھا۔
اس شہزادہ نے اس مردہ بوڑھی عورت کو اپنی شھوت اور رغبت کاشکار کیا اور صبح تک مشغول رھا۔
لیکن جب صبح ہوئی، نسیم سحری نے اس کو بے ہوشی اور مستی سے بیدار کیا تو اس نے اپنے کو اس بھیانک سرداب اور مردہ بوڑھی عورت کے پاس پایا، اس کی حالت غیر ہوگئی قریب تھا کہ ہلاک ہوجائے، شرمندگی اور خجالت کی وجہ سے زمین میں دھنسا جارھا تھا۔ سوچ رھا تھا کہ کھیں ایسا نہ ہو کہ کوئی اس کے اس شرمناک فعل سے آگاہ ہوجائے اور قیامت تک کے لئے اس کا دامن داغ دار ہوجائے، اچانک دیکھا کہ بادشاہ کے نوکر اور خادم پھنچ گئے، اور انھوں نے اس منظر کا مشاھدہ کیا!!
قارئین کرام ! یہ ہے محبت دنیا کے کنویں اور شھوت کے گڑھے میںغرق ہونے والے لوگوں کا حشر، کہ آخرت کی دلھن کو دنیا کی مستی اور شھوت پرستی اور وہ بھی بد صورت مردہ بوڑھی عورت سے ؛ بدل لیتے ہیں۔!!
حضرت امام صادق علیہ السلام اپنے آباء و اجداد کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:
”طُوبَی لِمَنْ تَرَکَ شَهْوَةً حَاضِرَةً لَمَوْعُودٍ لَمْ یَرَهُ
“[۱۰۵]
”خوش نصیب ہے وہ شخص جو نادیدہ جنت کے بدلے دنیا کی شھوتوںکو ترک کرے “۔
نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا-:
”حُفَّتِ الجَنَّةُ بِالْمَکَارِهِ وَحُفَّتِ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ
“ [۱۰۶]
”بھشت عبادت و بندگی سے احاطہ شدہ ہے اور جھنم شھوات سے محاصرہ شدہ ہے“۔
ایک شخص حضرت امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں آکر کہتا ہے: میری عبادت ضعیف اور روزہ کی تعداد کم ہوگئی ہے، لیکن مجھے امید ہے کہ حلال روزی کے علاوہ کوئی چیز نہ کھاؤں۔ اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: کونسا عمل حرام خوری ،اور شھوات سے دوری کرنے سے بہتر ہے؟[۱۰۷]
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے:
”اکْثَرُمَا تَلِجُ بِهِ امَّتِی النَّارَ الاجْوَفَانِ :البَطْنُ وَ الفَرْجُ
“[۱۰۸]
” میری امت کے جھنم میں جانے والوں میں سب سے زیادہ شکم پرست اور شھوت پرست ہوں گے۔
غفلت
غفلت، یعنی: ہر اس چیز سے بے خبر رھنا جس پر زیادہ توجہ رکھنا چاہئے۔
دنیاوی امور اور سرگرمی میں حد سے زیادہ مشغول رھنا، صبح و شام دنیا کو حاصل کرنے کے لئے دوڑنا اور ہواوھوس کا شکار ہونا یہ تمام چیزیں خدا، قیامت ، بندگی، اطاعت او ردینداری سے غفلت کا نتیجہ ہےں۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام اپنے کلام بلاغت میں غفلت کے نقصانات اور خسارے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:
”الغَفْلَةُ اضَرُّ الاعْدَاءِ
“[۱۰۹]
”غفلت سب سے زیادہ خطرناک دشمن ہے“۔
”وَیْلٌ لِمَنْ غَلَبَتْ عَلَیْهِ الغَفْلَةُ فَنَسِیَ الرِّحْلَةَ وَلَمْ یَسْتَعِدَّ
“[۱۱۰]
””وائے ہو اس شخص پر جو غفلت کا شکار ہوجائے، جس کے تحت آخرت کے سفر کو بھول جاتا ہے اور اس کے لئے کوئی تیاری نہیں کرتا“۔
”مَنْ غَلَبَتْ عَلَیْهِ الغَفْلَةُ مَاتَ قَلْبُهُ
“[۱۱۱]
”جس شخص پر غفلت کا غلبہ ہوجائے تو اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے“۔
”دَوَامُ الغَفْلَةِ یُعْمِی البَصِیرَةَ
“[۱۱۲]
”ھمیشہ غفلت میںرھنے سے چشم باطن نابینا ہوجاتی ہے“۔
حضرت امام حسن علیہ السلام کا ارشاد ہے:
”الغَفْلَةُ تَرکُکَ المَسْجِدَ وَ طَاعَتُکَ المُفْسِدَ
“[۱۱۳]
”مسجد کو ترک کرنا اور مفسد کا اطاعت کرنا غفلت ہے“۔
”وَکْنِ اللّٰهُمَّ بِعِزَّتِکَ لي فی کُلِّ الْاحْوٰالِ رَؤُوفاً،وَعَلَيَّ في جَمیعِ الْاُمُورِ عَطُوفاً
۔“
”خدایا مجھ پرھر حال میں مھربانی فرما اور میرے اوپر تمام معاملات میں کرم فرما“۔
خداوند عالم کی رحمت و مھربانی اس قدر زیادہ ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا عالم اگرچہ تمام ہی علوم کا مالک کیوں نہ ہو ؛اس کی تشریح نہیں کرسکتا۔ قرآن کریم اور احادیث معصومین علیھم لسلام میں غور و فکر کے بعد صرف اس کی رحمت کے ایک گوشہ کو دیکھا جاسکتا ہے؛ اس کے لطف و کرم اور مھربانی کو سمجھنے کے لئے سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ ان اعضاء کو دیکھا جائے جھاں سے لطف و مھربانی کا سر چشمہ ہے۔
حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے مروی ہے: میں نے خدا سے چند چیزوں کی درخواست کی، جن میں سے ایک یہ تھی: پالنے والے میری امت کا حساب میرے حوالے کردے۔ آواز آئی: اے میرے حبیب اگرچہ میں نے تمھیں”رحمةٌ للعالمین“ بنایا ہے لیکن ”ارحمُ الراحمین“ صرف میری ہی ذات ہے،اگرآپ کو ان لوگوں کی بعض خطاؤں اور گناھوں کا علم ہوجائے تو آپ ان سے بیزار ہوجائیں گے، چھوڑئے لہٰذا صرف مجھے ان کے گناھوں سے آگاہ رھنے دیں۔
اے میرے حبیب! ان کا حساب اس طرح کروں گا کہ آپ بھی ان کے برے اعمال سے آگاہ نہ ہوں گے، لہٰذا جب ان کے گناھوں کو آپ سے چھپاؤں گا، جبکہ آپ دونوں عالم کے لئے رحمت ہیں، تو پھر دوسروں سے بطریق اولیٰ ان کے گناھوں کو چھپاؤں گا۔
اے میرے حبیب اگر آپ ان کے اوپر نبوت کی مھربانی رکھتے ہیں تو میں ان پر رحمت خدائی رکھتا ہوں۔ اور آپ ان کے پیغمبر ہیں تو میں ان کا خدا ہوں۔ اگر آپ آج ان کو دیکھ رھے ہیں تو میں ہمیشہ ان پر نظر رکھے ہوئے ہوںاورنظر رکھوں گا۔
گناھگار اور عفو الٰھی
شیخ بھائی تحریر کرتے ہیں: میں نے ایک قابل اعتماد شخص سے سنا کہ ایک گناھگار اس دنیا سے چل بسا، اس کی بیوی نے اس کے غسل و کفن اور دفن کے لئے لوگوں سے مدد چاھی، لیکن وہ لوگ اس کے گناھوں سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ کوئی بھی اس کے جنازہ میں شریک نہ ہوا، مجبوراً اس عورت نے کسی مزدور کو بلایا اور اس سے کھا کہ اس کو شھر کی مسجد میں لے جاؤ، شاید مومنین اس کے جنازہ میں شریک ہوجائیں،لیکن کوئی بھی اس کام کے لئے حاضر نہیں ہوا،! اس کے بعد وہ عورت اس مزدور کے ساتھ جنگل کی طرف روانہ ہوئی تاکہ اس کو غسل و کفن اور نماز کے بغیر ہی دفن کردے۔
جیسے ہی اس جنگل میں پھنچی، وھاں ایک زاھد اور عابد کو دیکھا جواپنی پوری زندگی عبادت میںمشغول تھا، اور اس علاقہ میں ”زاھداور متقی“ کے نام سے مشھور تھا۔ جیسے ہی اس نے جنازہ کو دیکھا اپنی عبادتگاہ سے باھر نکلا، تاکہ اس کے جنازہ میں شرکت کرے، جس وقت علاقہ والوں نے اس کو دیکھا کہ وہ اس کے جنازہ میں شرکت کررھا ہے وہ بھی اس کے جنازہ میں شریک ہونے کے لئے آگئے۔
علاقہ والوں نے اس عابد و زاھد سے اس کے جنازہ میں شرکت کی وجہ پوچھی ، تو اس نے جواب دیا: مجھ سے عالم خواب میں کھا گیا کہ کل اپنی عبادتگاہ سے نکل کر فلاں جگہ پر جاؤ اور وھاں ایک جنازہ لایا جائے گا، جس کے ساتھ صرف ایک عورت ہوگی، اس کی نماز جنازہ پڑھنا، کیونکہ اس کی بخشش ہوگئی ہے۔
یہ سن کر لوگوں کو بہت تعجب ہوا ، اور دریائے تعجب میں غرق ہوگئے، اس عابد و زاھدنے اس کی زوجہ کو بلایا اور اس کے حالات معلوم کئے، اس بیوہ نے کھا: اکثر اوقات گناھوں میں ملوث رہتا تھا۔ اس عابد نے سوال کیا: کیا اس نے کبھی کوئی کار خیر (بھی) انجام دیا ہے؟ اس نے جواب دیا: جی ہاں! میرا شوھر تین کار خیر انجام دیتا تھا:
۱ ۔ ہر روز گناہ کرنے کے بعد اپنے لباس کو بدلتا تھا اور وضو کرکے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھتا تھا۔
۲ ۔ اس کا گھر کبھی بھی یتیم سے خالی نہیں رہتا تھا، اور اپنے بچوں سے زیادہ یتیم پر احسان کرتا تھا۔
۳ ۔ رات کے وقت جب بھی بیدار ہوتا تھا روتا تھا اور کہتا تھا: پالنے والے! اپنے اس گناھگار بندے کو دوزخ کے کس طبقہ میں رکھے گا؟!
عبد اللہ مبارک کا غلام
عطّار نیشاپوری کہتے ہیں: عبد اللہ مبارک کا ایک غلام تھا، جس سے یہ معاھدہ تھا کہ کام کرکے اپنی قیمت ادا کردو ، تاکہ میں تمھیں آزاد کردوں۔ ایک روز عبد اللہ سے کسی نے آکر کھا: تمھارا غلام رات کو قبرستان میں جاتا ہے اور قبر کھول کر مردوں کا کفن نکالتا ہے اور اس کو بازار میں بیچ کر درھم و دینار تمھیں لاکر دیتا ہے!!
عبد اللہ نے جیسے ہی یہ خبر سنی، بہت ناراض ہوئے، ایک رات چھپ کر غلام کے پیچھے پیچھے چل دئے، یھاں تک کہ قبرستان میں پھنچ گئے، دیکھا کہ غلام ایک قبر میں داخل ہوا، اور وہ ایک بوسیدہ لباس پھنے تھا او راپنی گردن میں زنجیر ڈالے تھا اس عالم میں وہ تمام تر خشوع و خضوع کے ساتھ بارگاہ الٰھی میں راز و نیاز اور مناجات و دعا اور گریہ و زاری میں مشغول ہوگیا۔
عبد اللہ نے اس کو دیکھا تو آھستہ آھستہ وہ بھی رونے لگے۔ چنانچہ وہ غلام سحرکے وقت تک مناجات اور دعا میں مشغول رھا، سحر کے وقت قبر سے نکلا اور شھر کی طرف چل دیا، اور راستہ کی پھلی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے وارد ہوا، نماز صبح پڑھنے کے بعد کھا: اے میرے حقیقی مولا! رات دن میں بدل گئی، اب بھی میرا مجازی مولا مجھ سے درھم و دینار کا طالب ہے۔ خدا یا! تو ہی لاچارلوگوں کے لئے چارہ ساز ہے، اور فقیروں اور مفلسوں کا سرمایہ بھی توھی ہے۔ چنانچہ اس وقت ایک نور چمکا اور اس غلام کے ہاتھ میں سونے کے دیناردیدئے گئے۔
جب عبد اللہ نے یہ ماجرا دیکھا تو بے ساختہ ،اس کے پاس گئے اور اس کو اپنے سینے سے لگالیا اور کھا:
”ایسے غلام پر ہزار جانیں قربان ہوں، اے کاش تو میرا آقا ہوتا اور میں تیرا غلام!!“
غلام نے جیسے ہی ان حالات کو دیکھا تو کھا: پالنے والے! اب تک میرے راز سے کوئی آگاہ نھیںتھا، اب جبکہ میرا راز فاش ہوگیا ہے تو اب مجھے زندگی نہیں چاہئے پالنے والے! تو مجھے اپنے پاس بلالے، ابھی وہ دعا اور مناجات ہی کررھا تھا، کہ عبد اللہ کی آغوش میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا!
عبد اللہ نے اس کو اسی پرانے لباس میں دفن کردیا، اسی رات میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو خواب میں دیکھا کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے ساتھ براق پر سوار ہیں اور اس کی طرف چلے آرھے ہیں، اور جب عبد اللہ کے نزدیک پھنچے تو کھا: اے عبد اللہ کیوں تم نے ہمارے اس محبوب اور دوست کو پرانے لباس میں دفن کردیا؟!!
جی ہاں، خداوندعالم تمام ہی حالات اور تمام ہی امور میں اپنے بندوں پر مختلف صورتوں میں لطف و کرم کرتا ہے، اور اپنے بندوں کو خصوصاً دعا و مناجات اور توبہ کے وقت خاص لطف و کرم سے نوازتا ہے۔
”الٰهي وَرَبّي مَنْ لي غَیْرُکَ،اسْالُهُ کَشْفَ ضُرّي، وَالنَّظَرَ فيامْرِي
“
”خدایا! پروردگارا! میرے پاس تیرے علاوہ کون ہے جو میرے نقصانات کو دور کر سکے اور میرے معاملات پر توجہ فرماسکے“۔
اے میرے معبود ! اے میرے پروردگار! میرے لئے تیرے علاوہ فیض وکرم کا چشمہ کون ہے؟ لہٰذا سختیوں اور پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے، جسم و روح کی بیماریوں سے نجات کے لئے اور دنیا و آخرت کی زندگی پر لطف و کرم کرنے کے لئے تیری ہی بارگاہ اقدس میں درخواست کرتا ہے۔
اے میرے مولا و آقا! کیا کوئی ایسا توانا اور صاحب قدرت ہے جو میری مشکلات کو دور کرسکے، اور اپنے لطف و کرم کی بارش کرے، جس کے وجود میں بخل نہ پایا جاتا ہو، اور مجھ پر لطف و کرم اور احسان کرنے میںکوئی چیز رکاوٹ نہ بنے؟!! صرف تیری ہی ذات تمام کمالات کی حامل اور ہر عیب سے پاک و پاکیزہ ہے۔
پالنے والے! میں تیرے علاوہ جس کی پناہ تلاش کروں اور اپنی حاجت روائی اور مشکلات کو دور کرنے کے لئے درخواست کروں، یا تو مجھ پر مھربان اور دلسوز نہیں ہے یا اس کام کے کرنے پر وہ قادر نہیں ہے، اور مجبور و لاچار ہے، یا بخل سے کام لیتا ہے، یا تیری مشیت اور تیرا ارادہ میرے اور اس کے درمیان حائل ہے؛
لہٰذا وہ میری مشکل کو حل نہیں کرسکتا، لہٰذا مجھ پر واجب اور ضروری ہے کہ تیرے دروازے پر جھولی پھیلاؤں اور مخلوق سے بیزار ہوجاؤں، مکمل طور پر تیرے اوپر اعتماد اور بھروسہ کروں، اوراپنا کاسہ گدائی تیرے ہی سامنے پھیلاؤں،غیروںخصوصاً دوستوں اور رشتہ داروں سے ناامید ہوکر صرف تیری ہی ذات سے امیدوار رھوں، تیری ہی ذات بابرکت سے تواضع، انکساری اور ذلت طلب کروں، کہ ہر نقصان کومجھ سے دور فرمااور تمام پریشانیوں کی سختی کو دور فرما، اور میری بری صفات اور برے حالات کو دور کردے، اور مجھے ہر ظاھری و باطنی سختیوں سے نجات بخش دے، ہرجسمی اور روحانی بیماری کو مجھ سے دور فرما، اور ہر آسیب اور آفت کو میری زندگی سے دور فرمادے۔
جی ہاں! انسان کو چاہئے کہ دریا میں غرق ہونے والے کی طرح بے سھارا ہوکر صرف رحمت خدا کے ساحل کا امیدوار ہو، خدا کی بارگاہ میں گریہ وزاری کرے تاکہ اس کی دعامخلوق سے منقطع ہوکر باب اجابت سے ٹکرائے۔ جیسا کہ خداوندعالم نے حضرت عیسیٰ( علیہ السلام) سے فرمایا ہے:
”یَاعیسَی! اُدْعُنِی دُعاءَ الغَرِیقِ الَّذِی لَیْسَ لَهُ مُغِیثٌ
“[۱۱۴]
”اے عیسیٰ! مجھے اس طرح پکارو جیسے غرق ہونے والے کو کوئی بچانے والا نہ ہو“۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
”اِذَا ارادَ احَدُکُم انْ لَایَسالَ رَبَّهُ شَیْئاً اِلَّا اعْطاهُ فَلْیَیْاسْ مِنَ النَّاسِ کُلِّهِم وَلَایَکُونَ لَهُ رَجاءٌ اِلاَّ عِنْدَ اللّٰهِ،فَاِذَا عَلِمَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ ذَالِکَ مِنْ قَلْبِهِ لَمْ یَسْالِ اللّٰهَ شَیْئاًاِلاَّ اعْطاهُ
“[۱۱۵]
”جب بھی تم سے کوئی یہ چاھے کہ خدا اس کی درخواست کو ردّ نہ کرے، تو تمام لوگوں سے مایوس ہوجائے اور خدا کے علاوہ کسی سے امید نہ رکھے، کیونکہ جب خداوندعالم بندہ کی اس حالت کو دیکھتا ہے تو بندہ جو چاہتا ہے اس کو عطا کردیتا ہے“۔
جو شخص بھی اپنی زبان پر ان فقرات کو جاری کرے: ”یا الٰھی وسیدی، اے میرے معبود! “ تو اپنے دل سے معبود حقیقی کے علاوہ دوسروں کی امید کو دل سے نکال دینا ضروری ہے، اور دنیا کے مال و دولت، عھد ہ اور مقام اور دنیا کی دوسری ظاھری چیزوں کو نعمت اور وسیلہ تصور کرے کہ خداوندعالم نے اس کی زندگی کے لئے وسائل فراھم کئے ہیں، اور ان میں سے کسی ایک کو بھی معبود یا حاکم کے عنوان سے انتخاب کرنے سے بہت زیادہ پرھیزکرے، کیونکہ اگرخدا کے علاوہ کسی بھی چیز کو معبود کے عنوان سے اختیار کرے تو (گویا) اس نے شرک کیا ہے، اور کسی بھی مشرک کی دعا قبول نہیں ہوگی۔
جو شخص کہتا ہے: ”رَبّی“ اے میرے مالک اور پالنے والے!تو اس کو چاہئے کہ ظاھری و باطنی فرعون جیسے معبود کی عبودیت سے دل کو آزاد کرے اور صرف الٰھی رنگ اختیار کرے، کیونکہ اگر کوئی شخص باطل ارباب کی پیروی کرے اور ان کے رنگ کو اپنائے اگرچہ وہ مضطر اور پریشان ہوکر دعا کرے،لیکن پھر بھی اس کی دعا قبول نہیں ہوگی۔
جی ہاں! کوئی بھی مخلوق اس پروردگار کے اجازت کے بغیر ذرہ برابر بھی کسی کو فائدہ نہیں پھنچا سکتی، لہٰذا دوسروں سے مایوس ہوکر خدائے رحمن کی رحمت پر امید رکھے، کیونکہ جو شخص اس طرح خدا کی اطاعت کرے گا، وہ بلند مقام پر پھنچ جائے گا، اور پھر دنیا وآخرت میں کسی بھی چیز کی کمی نہ ہوگی،اور اگر خدا اس کے ساتھ نہیں ہے یعنی وہ خدا کا مطیع و فرمانبردار بندہ نہیں ہے تو پھر دنیا وآخرت دونوں ہی میں خسارہ ہے۔
خدا کے عاشق بندے، جو خدا اور اس کی مخلوقات کی معرفت رکھتے ہیں (اور جانتے ہیں کہ مخلوقات میں اتنی طاقت نہیں ہے اس کی مشکلات کو حل کرسکے، اور نہ ہی اس دنیا کی چکی کسی غیر کے ارادہ و اختیار سے چل رھی ہے،)؛ وہ ہمیشہ اپنے محبوب اور معشوق حقیقی کی نسبت وجد اور نشاط میں ہوتے ہیں، اور زندگی کے تمام مراحل میں اپنے معبود سے راضی اور خوشحال رہتے ہیںنیز اپنی مشکلات کو حل کرنے کے لئے اس کے علاوہ کسی غیر کو حلّال مشکلات نہیں سمجھتے، اسی وجہ سے اس خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:
”الٰهيوَرَبّيمَنْ لي غَیْرُکَ،اسْالُهُ کَشْفَ ضُرّي،وَالنَّظَرَ فيامْرِي
“۔
اور جناب موسیٰ علیہ السلام کی طرح عاشقانہ بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے ہیں:
”إلٰهِی اِنَّ لِی فِی کَشْکُوْلِ الْفَقْرِ مَا لَیْسَ فِی خَزَانَتِکَ
“
”پالنے والے! میرے کشکول گدائی میں ایسی چیز ہے جو تیرے خزانہ میں (بھی) نہیں ہے“۔
آواز آئی : (اے موسیٰ!) تمھارے کشکول گدائی میں کیا چیز ہے جو میرے خزانہ قدرت میں نہیں ہے، تو (جناب موسیٰ نے) عرض کیا: میرے خزانہ میں تجھ جیسا خدا ہے جو تیرے پاس نہیں ہے“۔[۱۱۶]
ایک ماں بیٹے کا واقعہ
ایک عارف و زاھد سے مروی ہے: ایک ماں نے اپنے نوجوان بیٹے کو اس کی نافرمانی اور نصیحت قبول نہ کرنے کی وجہ سے گھر سے نکال دیا اور اس سے کھا: جا، تو میرا بیٹا نہیں ہے، وہ باھر چلا گیا اور گھنٹوں تک بچوں کے ساتھ کھیلتا رھا یھاں تک کہ مغرب کا وقت آگیا، سب بچے اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ جب اس نے دیکھا کہ سب دوستوں نے اسے تنھا چھوڑدیا ہے اور کسی نے بھی وفا داری نہیں کی، اپنے گھر پلٹ آیا، گھر کا دروازہ بند ملا، دروازہ کھٹکھٹانے لگا، اور گریہ و زاری کے ساتھ ماں سے کہتا تھا کہ ماں دروازہ کھول دے، لیکن ماں نے دروازہ نہ کھولا۔ ادھر سے ایک عالم بزگوار کا گزر ہوا اس نوجوان کو اس حالت میں دیکھ کر رحم آیا، دروازہ کھٹکھٹایا اور اس کی ماں سے اس کی شفاعت و سفارش کی، تاکہ اس کو گھر میں آنے کی اجازت دیدے۔
چنانچہ اس عالم کی سفارش سن کر اس کی ماں نے کھا: حضور آپ کی شفاعت کو قبول کرتی ہوں، لیکن شرط یہ ہے آپ مجھے ایک تحریر لکھ کر دیں کہ اگر اس نے دوبارہ میری مخالفت کی اور میری باتوں کو نہ سنا تو اس کو دوبارہ گھر سے نکال دوں گی اور پھر آنے نہ دوںگی، اور پھر مجھے یہ ماں کھنے کا بھی حقدار نہ ہوگا۔ اس عالم نے اسی مضمون کی ایک تحریر اس کو لکھ کر دی، اور آخر کار اس طرح ماں بیٹے دونوں میںصلح ہوگئی۔
چند روز کے بعد اس عالم کا دوبارہ وھاں سے گزر ہوا، دیکھا تو وہ نوجوان دوبارہ اسی طریقہ سے نالہ و فریاد کر رھا ہے، اور کہہ رھا ہے: اے ماں جو چاھے کرلے لیکن دروازہ کھول دے، اور مجھے اندر بلالے۔ لیکن ماں نے دروازہ نہ کھولااور کھا: میں دروازہ نہیں کھولوں گی، تجھے اندر آنے نہیں دوں گی۔
وہ عالم کہتے ہیں: کہ میں یہ ماجرا دیکھ کر وھیں کھیںبیٹھ گیا کہ آخر کار دیکھوں کہ ہوتا کیا ہے؟ دیکھا کہ وہ نوجوان روتے روتے زمین پر گرپڑا اور بے ہوش ہوگیا، ناگھاں اس کی ماں، جو دروازے کی اوٹ سے دیکھ رھی تھی، اس کی ممتا جوش میں آئی، دروازہ کھولا اور اپنے بچے کو آغوش میں اٹھایا، پیار کیا اور کھنے لگی: اے میرے نور نظر! اٹھ جا، آ گھر میں چلتے ہیں، میں تجھے گھر آنے سے جو روک رھی تھی کوئی دشمنی نہیں تھی بلکہ میں تو یہ چاہتی تھی کہ تو گناہ اور مخالفت سے باز آجا، اور مطیع و اطاعت گزار بن جا۔
قارئین کرام! اگر گریہ و زاری کے وقت بھی ہمیں یہ احساس ہو کہ اس کی دعا قبول نہیں ہوئی ہے تو ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اس نوجوان کی طرح مکرر بارگاہ خداوندی میں گڑگڑائیں تاکہ اس کی رحمت کو جوش آجائے، تاکہ اس کی محبت، رحمت اور مغفرت ہمارے شامل حال ہوجائے۔
خداوندعالم کی ذات اقدس اگر انسان کے امور پر نظر کرے تو چونکہ اس کی رحمت اور لطف و کرم بے انتھا اور عظیم ہے تو انسان کے حالات کی اصلاح ہوجاتی ہے ، اس کے دردکا علاج ہوجاتا ہے اور اس کا ظاھری اور باطنی فقر ختم ہوجاتا ہے۔
کارگر نظر
محمود غزنوی جس نے ایک مختصر مدت تک حکومت کی ہے، اس کی زندگی کے بارے میں ملتا ہے: ایک روز دریا کے کنارے سے اس کاگزر ہوا، دیکھا کہ ایک نوجوان رنجیدہ خاطر حزن و ملال کے ساتھ دریا میں جال ڈالے ہوئے بیٹھا ہے۔
بادشاہ نے اس کی پریشانی معلوم کی تو اس نے جواب دیا: میں کیوں رنجیدہ خاطر اور پریشان نہ ہوں، میں اور میرے سات بھائی یتیم ہیں اور ہماری ماں بہت بوڑھی ہے، باپ کے مرنے کے بعد سے گھر کا سارا خرچ میں ہی چلاتا ہوں،اپنے خرچ کے لئے ہر روز دریا سے مچھلی پکڑنے کے لئے آتاھوں، کبھی ایک مچھلی کا شکار کرتا ہوں اور کبھی دو مچھلیاں جال میں پھنستی ہیں، جس سے بمشکل اس یتیم گھر کا خرچ چلتا ہے، محمود غزنوی نے کھا: کیا تم مجھے بھی اپنے شکار میں شریک کرسکتے ہو؟ وہ جوان راضی ہوگیا، بادشاہ نے کھا: اپنے شریک کے نام سے جال دریا میں ڈالو اور باھر نکالو، چنانچہ اس جوان نے تھوڑی دیر بعد جال کو کھینچنا شروع کیا تو اس کو نہیں کھینچ سکا، بادشاہ کے ہمراہ افراد نے اس کی مدد کی اور جال باھر نکالا تو دیکھا کہ اس میں بہت سی مچھلیاں ہیں۔
بادشاہ واپس آگیا، دوسرے روز اپنے شریک کو دربار میں بلا بھیجا، اور جب وہ محمود غزنوی کے دربار میں پھنچا تو بادشاہ نے اس کو اپنے پاس بٹھایا، اس کی احوال پرسی کی اوراس کی دلجوئی کی۔ لیکن یہ دیکھ کر درباریوں نے کھنا شروع کیا: بادشاہ سلامت! یہ ایک غریب اور نادارانسان ہے، اس کو شاھی مسند پر نہیں بٹھانا چاہئے؛ یہ سن کر بادشاہ نے کھا: کچھ بھی ہو، ہے تو ہمارا شریک، لہٰذا جو بھی ہمارے پاس ہے، اس سے یہ بھی فائدہ اٹھاسکتا ہے۔
جی ہاں! اگر ایک چار دن والا غیر حقیقی بادشاہ ایک لاچار انسان کو اس طرح سے رشد ترقی کی منزل تک پھنچا سکتا ہے، اور اس کی پریشانیوں کو ختم کرسکتا ہے، تو بادشاہ حقیقی اور مالک الملک ،جس کے کمالات اور صفات بے نھایت ہےں اس کے لطف و کرم کا خزانہ بے نھایت ہے، اگر کوئی اس کی بارگاہ میں اپنی پریشانیوں اور مادی و معنو ی ضرورتوں کو پیش کرے تو کیاخداوندعالم اس کی مرادپوری نہیں کرے گا؟!
خداوندعالم کی نظر رحمت ایسی نظر ہے جس نے حضرت نوح اور ان کے ہمراہ مومنین کو اس عظیم طوفان سے نجات دی،جناب موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں خشک عصا کو اژدھا بنا کر فرعون کی ہیبت کو ختم کردیا، بنی اسرائیل کو موجیں مارتے ہوئے سمندر سے ساحل نجات تک پھنچادیتا ہے، حضرت ایوب علیہ السلام کو مصیبتوں کے پھاڑوں سے نجات عطا کی، اور جناب یوسف علیہ السلام کو اندھیرے کنویں سے نکال کر بادشاہ مصر بنادیا، و۔۔۔۔
حاتم اصمّ کی حیرت کُن داستان
حاتم اصمّ اپنے زمانے کے ایک مشھورعابد و زاھد تھے، اپنے علمی اور روحانی مقام کے بعد بھی گھر یلو خرچ کے لئے پریشانی اٹھاتے تھے، لیکن خدا وندعالم پر بے انتھا توکل اور بھروسہ رکھتے تھے۔
ایک رات کا واقعہ ہے کہ کچھ دوست اور رفقاء بیٹھے ہوئے تھے، حج اور زیارت کی گفتگو ہونے لگی، ان کے دل میں بھی حج و زیارات کا شوق ہوا،وہ سر زمین وحی جس پر حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنی پیشانی خاک پر رکھی اور خداوندعالم کی عبادت کی ، اس کی زیارت کے لئے ان کا دل بے چین ہوگیا، اور ان کے دل میں تمناؤں کا سمندر امنڈ آیا۔
گھر میں آئے تو اپنی زوجہ اور بچوں سے کھنے لگے اگر تم لوگ راضی ہو ںتو میں خانہ محبوب (خانہ کعبہ)کی زیارت کے لئے چلاجاؤں اور وھاں پر تم لوگوں کے لئے بھی دعا کروں۔ یہ سن کر ان کی زوجہ بولی: اس حالت میں جبکہ تنگدستی میں زندگی بسر کررھے ہیں آپ کس طرح حج کے لئے جارھے ہیں؟ حج تومالدار لوگوں پر واجب ہے ، اسی طرح ان کے صاحبزادہ نے بھی اپنی ماں کی باتوں کی تائید کی، لیکن ان کی چھوٹی لڑکی نے کھا: کیا پریشانی ہے کہ اگر ہم اپنے باپ کو سفر حج کی اجازت دیدیں؟ جانے دیجئے، ہمارا رزق کا ذمہ دار تو خدا ہے، باپ فقط اس میں وسیلہ ہیں، خداوندقادر ہماری روزی کسی دوسرے طریقہ سے پھنچاسکتا ہے۔ اس ہوشیاربچی کی یہ بات سن کر سب لوگ حقیقت کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کو حج خانہ کعبہ کی اجازت دیدی، اور کھا: ہمارے لئے بھی خانہ خدا میں دعا کرنا۔
حاتم صاحب بہت خوش ہوئے، اور انھوں نے سفر کی تیاری شروع کردی، اور کاروان حج کے ساتھ روانہ حج ہوگئے۔ جب پڑوسیوں کو یہ معلوم ہوا کہ حاتم صاحب حج کے لئے چلے گئے ہیں تو اس لڑکی کے پاس آکر اس کی ملامت کرنے لگے، کہ کیوں تم نے اپنے باپ کو حج کی اجازت دیدی؟! جبکہ تمھاری حالت اچھی نہیں ہے، اور پھر اس سفر میں کئی مھینے لگ جاتے ہیں،اب تم ہی بتاؤ تمھارا خرچ کس طرح چلے گا؟
ان کی بیوی نے بھی اس بچی سے کھا کہ اگر تو چپ رہتی تو ہم ان کو حج کی اجازت نہ دیتے!
بچی بہت زیادہ رنجیدہ خاطر ہوگئی اور غم و اندوہ کی وجہ سے اس کی معصوم آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، اور اس نے دست دعا بلند کردئے، اور کھا: پالنے والے! یہ لوگ تیرے احسان وکرم کے عادی ہوگئے ہیں، اور ہمیشہ تیری نعمتوں سے بھرہ مند ہوتے ہیں، ان کو شرمندہ نہ کر اور مجھے بھی ان کے سامنے شرمندہ نہ کر۔
سب لوگ تعجب کررھے تھے کہ ان کے لئے کھانے پینا کا سامان کون لائے گا، اچانک حاکم شھر جو شکار کرکرکے واپس لوٹ رھا تھا اور پیاس سے برا حال تھا، اس نے پانی کی تلاش میں اپنے خادموں کو بھیجا تاکہ اس کے لئے پانی کی کوئی سبیل کریں۔
چنانچہ وہ لوگ حاتم کے دروازے پر آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، حاتم کی زوجہ دروازے پر آکر کہتی ہے کہ تم کون لوگ ہو اور کیا کام ہے؟ انھوں نے کھا: تمھارے دروازہ پر حاکم آیا ہے اور پیاسا ہے پانی پینا چاہتا ہے۔ زوجہ نے تعجب سے آسمان کی طرف دیکھ کر کھا: پالنے والے! کل ہم لوگ بھوکے ہی سوگئے تھے اور آج ہمارے دروازے پر حاکم پانی مانگ رھا ہے!!
اس کے بعد مٹی کے کٹورے میں پانی بھر کر اس کو پیش کیا اور کھا کہ معاف کرنا ہمارے پاس مٹی کے ہی برتن ہیں۔
امیر نے اپنے ساتھیوں سے کھا: یہ کس کا گھر ہے؟ کھا: حاتم اصم کا، جو بہت ہی زیادہ عابد و زاھد انسان ہیں اور اس وقت حج کے لئے گئے ہوئے ہیں، ادھر ان کے بال بچے پریشانی کی زندگی بسرکر رھے ہیں۔ حاکم نے کھا: ہم نے ان سے پانی مانگ کر ان کو زحمت میں ڈال دیا ہے، یہ ہماری شان کے خلاف ہے کہ ایسے غریب لوگوں کو زحمت میں ڈالیں۔
یہ کہہ کر اس نے اپنا سونے کا کمر بند (پٹکا) نکالا اور ان کے مکان کی طرف ڈال دیا اور اپنے ساتھیوں سے کھا: جو بھی مجھے چاہتا ہے، اپنے کمربند کو یھاں ڈال دے، چنانچہ یہ سن کر سب نے اپنا اپنا کمر بند نکال کر ان کے حوالے کردیا، اور واپس لوٹتے وقت حاکم نے ان سے کھا: خدا رحمت کرے تم لوگوں پر، میں ابھی وزیر کو بھیجتا ہوں تاکہ ان کمربندوں کی قیمت لاکر تمھیں دیدے اور یہ کمر بند لے جائے، کچھ ہی دیر بعد وزیر آیا او ران کی قیمت ادا کرکے کمربندوں کو لے گیا!!
جیسے ہی اس لڑکی نے اس ماجرے کو دیکھا اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، لڑکی کو روتے دیکھ کر سب کھنے لگے، روتی کیوں ہو؟ یہ تو خوشی کا موقع ہے، کیونکہ خداوندعالم نے تم پر اتنا لطف و کرم کیا اور ہماری بھی آنکھیں کھول دی ہیں۔ یہ سن کر وہ لڑکی بولی: میں تو اس وجہ سے رو رھی ہوں کہ کل رات ہم لوگ بھوکے سوئے تھے اور آج مخلوق خدا نے ہم پر ایک نظر کرم کیا اور ہمیں بے نیاز کردیا، لہٰذا اگر خداوندمھربان کسی پر ایک نظر کرلے تو اس کی نظر کیا کرے گی؟!
اس کے بعد اس لڑکی نے اس طرح اپنے باپ کے لئے دعا کی: پالنے والے! جیسا تو نے ہمارے ساتھ احسان کیا اور ہماری مشکل کو آسان فرمایاھے ہمارے باپ کو بھی مشکلوں سے نجات دے اور ان کے سفر کو آسان فرما۔
ادھر حاتم اصم اپنے قافلہ کے ساتھ سفر کررھے تھے، نہ سواری تھی اور نہ زیادہ خرچ، لیکن جو لوگ ان کو پہچانتے تھے راستے میں ان کی مدد کیا کرتے تھے۔
ایک رات اچانک امیر کارواں کے بہت شدید درد اٹھا، کارواں میں موجود طبیب نے اس کو لاعلاج کہہ دیا، اس موقع پر رئیس قافلہ نے کھا: کیا کوئی ہمارے قافلہ میں ایسا شخص ہے جس کی دعا اثر کر جائے، لوگوں نے بتایا : ہاں!حاتم اصم موجود ہیں، امیر کارواں نے کھا: جلد اس کو میرے پاس بلالاؤ شاید ان کی دعا کچھ اثر کرجائے، یہ سن کر اس کے ساتھی دوڑے دوڑے حاتم کے پاس آئے اور ان کو لے کر امیر کے پاس پھنچے،حاتم نے سلام کیا، امیر کارواں کے سرھانے کھڑے ہوکر اس کی شفاکے لئے دعا کی، اور ان کی دعا کی برکت سے امیر کو شفا مل گئی، جس کے بعد امیر کارواں نے ان کو بہت نوازا اور کھا: ان کو ایک سواری دی جائے، اور ان کے آنے جانے کا تمام خرچ ہمارے ذمہ ہے۔
حاتم نے امیر کارواں کا شکریہ ادا کیا اور اس رات میں ایک مخصوص حالت میں خداوندعالم کے ساتھ راز و نیاز کیا، جب بستر پر سوئے تو عالم خواب میں دیکھا کہ کوئی کہہ رھا ہے:
”اے حاتم! جو شخص اپنے کاموں کو ہمارے اوپر چھوڑ دیتا ہے اور ہم پر بھروسہ کرتا ہے، ہم بھی اس کو تنھا نہیں چھوڑتے اور اس پر اپنے لطف و کرم کی بارش کردیتے ہیں، اے حاتم! تم اپنے اہل و عیال کی طرف سے بھی فکر مند نہ رھنا ہم نے ان پر بھی اپنا خاص لطف وکرم کیا۔ حاتم جیسے ہی خواب سے بیدار ہوئے،خداوندعالم کا شکر ادا کیا اور خداوندعالم کے اس لطف و کرم سے حیرت زدہ ہوگئے۔
جس وقت وہ سفر سے لوٹے، ان کے اہل و عیال ان کے استقبال کے لئے آئے اور سب لوگ خوش و خرم تھے، لیکن حاتم سب سے زیادہ اپنی بچی سے پیار کرتے ہیں، اس کو آغوش میں لیتے ہیں اور چومتے ہیں اور کہتے ہیں: ایسا ہوسکتا ہے کہ ظاھراً چھوٹے بچے ہوں لیکن اندر سے بہت بزرگ افراد ہوں، خدا عمر کے لحاظ سے اپنے بندوں پر نظر نہیں کرتا بلکہ ان کی معرفت کے لحاظ سے نظر رحمت کرتا ہے، لہٰذا خداوندعالم کی معرفت اور اس پر اعتماد رکھنا چاہئے، کیونکہ جو شخص بھی اس پر توکل اور بھروسہ کرتا ہے وہ اس کو تنھا نہیں چھوڑتا ہے“۔[۱۱۷]
نظرکیمیا اثر
فاضل بزرگوار سید جعفر مزارعی روایت کرتے ہیں: حوزہ علمیہ نجف اشرف میں ایک طالب علم معاشی زندگی کے لحاظ سے بہت زیادہ پریشان تھا۔ ایک روز اس حالت کی شکایت کرنے کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے حرم میں مشرف ہوا ، اور عرض کیا: آپ کے روضہ مبارک پر اس قدر فانوس اورقندیلیں لگی ہوئی ہیں، ہمارے پاس کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں!!
رات ہوئی تو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ فر مارھے ہیں: اگر نجف میں میرے پڑوسی بنے رھنا چاہتے ہوں تو یھی طلبگی نان و نمک ہے، اور اگر اچھی زندگی چاہتے ہو، تو ”حیدر آباد دکھن“ (ھندوستان ) فلاں شخص کے مکان پر جاؤ اور جب مالک مکان نکل کر آئے تو صاحب مکان سے کھنا:
بہ آسمان رود و کار آفتاب کند
خواب سے بیدار ہوا تو پھر حرم میں گیا اور عرض کی ، میں یھاں پریشان ہوں اور آپ مجھے ہندوستان بھیج رھے ہیں!!
دوسری رات پھر حضرت علی علیہ السلام کو خواب میں دیکھا اور کھا: بات وھی ہے جو ہم نے کھی ہے، اگر ہمارے پڑوس میں اس طرح زندگی نہیں گزارسکتے تو ہندوستان جاؤاور فلاں راجہ کو تلاش کرکے اس سے کھو:
بہ آسمان رود و کار آفتاب کند
خواب سے بیدار ہوا، صبح ہوتے ہی اپنی کتابیں اور سامان جمع کیا اور سب کو بیچ دیا تاکہ ہندوستان جانے کا زاد راہ جمع کرے، بعض دوسرے صاحبان حیثیت نے بھی اس کی مدد کی اور یہ طالب علم حیدر آباد میں اس راجہ کی تلاش میں چل دیا، جب لوگوں نے اس سیدھے سادھے طالب علم کو راجہ کی تلاش میں دیکھا تو بہت تعجب کیا۔
لیکن آخر کار تلاش کرتے کرتے اس راجہ کے مکان پر پھنچ گیا، جب اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو دروازہ کھول کر ایک شخص باھر آیا جیسے ہی اس شخص کو دیکھا تو اس سے کھا:
بہ آسمان رود و کار آفتاب کند
یہ سنتے ہی راجہ صاحب نے اپنے نوکروں سے کھا: مولانا صاحب کو فلاں کمرے کی طرف لے کر چلو، تھوڑا آرام کرنے کے بعد ان کونھلا دھلاکر بہترین قیمتی کپڑے پھنائے گئے۔
بہترین مھمان داری ہورھی تھی، دوسرے روز دیکھا کہ شھر کے بڑے بڑے لوگ اور علماء کرام تشریف لارھے ہیں، اور سب ایک ہال میں جمع ہورھے ہیں، مولانا صاحب نے اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے شخص سے پوچھا: کیا پروگرام ہے؟ تو اس نے بتایا: راجہ صاحب کی لڑکی کا عقد ہے، مولانا صاحب نے دل ہی دل میں کھا: جب سے اس مکان پر آیا ہوں ، تمام عیش و آرام کے وسائل موجود ہیں۔
جب محفل سج گئی، راجہ صاحب اس ہال میں تشریف لائے، ان کے احترام میں سب لوگ کھڑے ہوگئے، اور وہ اپنی مخصوص جگہ پر آکر تشریف فرما ہوگئے۔
اس وقت راجہ صاحب نے اہل محفل کی طرف مخاطب کرکے کھا: بھائیوں میں نے اپنی آدھی ملکیت، (پیسہ، محل،زمین اورباغات وغیرہ) نجف اشرف سے آنے والے ان مولانا کو ہدیہ کردی، اور آپ لوگ جانتے ہیں کہ میری دو ہی لڑکیاں ہیں ان میں سے جو زیادہ خوبصورت ہے اس کے ساتھ ان کاعقد کرتا ہوں، اور موجود علماء کرام سے خطاب کیا، آپ لوگوں میں سے کوئی ایک عقد پڑھنے کے لئے تیار ہوجائے۔
نکاح پڑھ دیا گیا،اس وقت مولانا صاحب کو بہت تعجب ہوا، اور اس واقعہ کی تفصیل کے بارے میں سوال کیا؟
راجہ صاحب نے کھا: میں نے چند سال پھلے سے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ایک شعر کھا ہے، لیکن اس پر مصرعہ نہیں لگاسکا، میں نے ہندوستانی فارسی شعراء سے بھی مدد مانگی، لیکن وہ بھی کوئی ڈھنگ کا مصرعہ نہ لگاسکے، ایرانی شعراء کی طرف بھی رجوع کیا، وہ بھی دل کو نہ بھایا، میں نے دل میں سوچا، میرا شعر حضرت علی علیہ السلام کی نظر کیمیا اثر میں مقبول نہیں ہے ، لہٰذا میں نے نذر کی کہ اگر کوئی اس شعر پر اچھامصرعہ لگادے تو میں اس کو اپنی آدھی دولت بخش دوں گااور اپنی لڑکی کا نکاح کردوں گا، مولانا صاحب! آپ نے میرے شعر پر مصرعہ لگادیا، میں نے دیکھا کہ واقعاً یہ مصرعہ ہر لحاظ سے بہت عمدہ اورھم آھنگ ہے، مولانا صاحب نے کھا: پھلا مصرعہ کیا تھا؟ راجہ نے جواب میں یہ مصرعہ پڑھا:
بہ ذرّہ، گر نظر لطف بوتراب کند
مولانا صاحب کہتے ہیں: یہ دوسرا مصرعہ میرا نہیں ہے، بلکہ حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب کا ہے، اس وقت راجہ نے سجدہ شکر ادا کیا اور کھا:
بہ ذرّہ، گر نظر لطف بوتراب کند
بہ آسمان رود و کار آفتاب کند
قارئین کرام! جب حضرت علی علیہ السلام کی کیمیا اثر نظر کے صدقہ میں ایک نیازمند اور پریشان حال کی مشکلات اس طرح بدل سکتی ہے تو اگر خداوند مھربان اپنے بندے پر نظر رحمت کرلے تو کیا حال ہوگا؟
____________________