شرح دعائے کمیل

شرح دعائے کمیل0%

شرح دعائے کمیل مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

شرح دعائے کمیل

مؤلف: استاد حسین انصاریان
زمرہ جات:

مشاہدے: 26047
ڈاؤنلوڈ: 5234

تبصرے:

شرح دعائے کمیل
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26047 / ڈاؤنلوڈ: 5234
سائز سائز سائز
شرح دعائے کمیل

شرح دعائے کمیل

مؤلف:
اردو

”الٰهي وَمَوْلاٰيَ اجْرَیْتَ عَلَيّحُکْماً ا تَّبَعْتُ فیهِ هَویٰ نَفْسي، وَلَمْ احْتَرِسْ فیهِ مِنْ تَزْیینِ عَدُوِّي،فَغَرَّنِي بِمٰااهْویٰ وَاسْعَدَهُ عَلٰی ذٰلِکَ الْقَضٰٓاءُ فَتَجٰاوَزْتُ بِمٰاجَریٰ عَلَيَّ مِنْ ذٰلِکَ بَعْضَ حُدُودِکَ،وَخٰالَفْتُ بَعْضَ اوٰامِرِکَ“

”خدایا مولایا۔تونے مجھ پر احکام نافذ کئے اور میں نے خواھش نفس کا اتباع کیا اور اس با ت کی پرواہ نہ کی کہ دشمن (شیطان)مجھے فریب دے رھا ہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے خواھش کے سھارے مجھے دھوکہ دیا

اور میرے مقدر نے بھی اس کا سا تھ دےدیا اور میں نے تیرے احکام کے معاملہ میں حدود سے تجاوز کیا اور تیرے بہت سے احکام کی خلاف ورزی کر بیٹھا “۔

وظائف اور ذمہ داریاں

خداوندعالم جن چیزوں کے ذریعہ انسان کی زندگی کو سنوارنا چاہتا ہے، جیسے صحیح عقائد جن کی جگہ قلب ہے، اخلاق حسنہ جن کی جگہ نفس اور باطن انسان ہے،اور اعمال صالحہ، جن کو اعضاء و جوارح سے انجام دیا جاتا ہے، انھیں تمام چیزوں کو وظائف اور ذمہ داریاں کھاجاتا ہے، اور یہ چیزیں خدا کی ربوبیت، اس کے علم و حکمت، اور اس کی رحمت و احسان کے جلوے ہیںاور یہ انسان کی دنیا وآخرت کی بھلائی کے پیش نظر قرار دی گئی ہیں۔

بے شک اگر خداوندعالم کی طرف سے معین کردہ وظائف پر خلوص نیت اور عشق و محبت کے ساتھ عمل کیا جائے چاھے کسی بھی حالت میں انجام دئے جائیں انسان کمال اور سعادت کی منزلوں پر فائز ہوجائے گا، رضائے الٰھی اس کے شامل حال ہوگی، الیاء اللہ بھی اس سے خوش ہوں گے،اس کی زندگی طیب و طاھر ہوجائے گی، اور آخرت میں خدا کے لطف وکرم کے زیر سایہ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے انبیاء، صدیقین، شھداء اور صالحین کے ساتھ قرار پائے گا۔

خدا کی اطاعت اور اس کی فرمانبردای میں مانع ہونے والی چیزھوائے نفس ہے، جس کے معنی انسانی خواھشات کا بے لگام ہوجانا ہے، اور جب انسان ان خواھشوں کا شکار ہوجاتا ہے تو دنیاوی زرق و برق کو دیکھ کر ان میں غرق ہوجاتا ہے اور پھر گناھوں میں ڈوب جاتا ہے،

اور اپنی تمام تر طاقت کو انھیں کے لئے خرچ کرتا ہے، اگرچہ دوسروں پر ظلم و ستم اور ان کے حقوق کو پائمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے، اور اپنے اندر موجود شیطنت کی وجہ سے ایسے امور کی طرف دعوت دیتا ہے کہ نہ اسے اصول اعتقاد کی خبر رہتی ہے اور نہ ہی اخلاقی کردارکی، اور پھر یھاں تک آگے بڑھ جاتا ہے کہ نہ اپنے اوپر رحم کرتا ہے اور نہ ہی دوسروں پر،

اور ایک خطرناک حیوان کی طرح حقائق اور واقعیات کو نادیدہ کرتے ہوئے زندگی کو تباہ کرڈالتا ہے، یھاں تک کہ موت آکر اس کا گلا دبالیتی ہے، اور اس کی گندگی اور کثافت سے دنیا کو پاک کردیتی ہے۔

اگر رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ایک بہت اھم روایت کے ضمن میں فرمایا ہے:

اعدَی عَدُوِّکَ نَفسُک الَّتِی بَیْنَ جَنْبَیْکَ “[۱]

”(خبردار!) تمھارا سب سے بڑادشمن ؛ تمھارے دو پھلو وںکے درمیان موجود تمھارا مادّی نفس ہے“۔

تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان حق ہے اور نفس کے سلسلہ میں ایک بہت اھم چیلنج ہے۔

جی ہاں! نفس امّارہ، اور جس چیز کو قرآن کریم کی زبان میں ہوائے (نفس )سے تعبیر کیا گیا ہے، یہ انسان کاسب سے خطرناک دشمن ہے، کیونکہ انسان اسی ہوائے نفس کی بنا پر اپنی دنیا و آخرت کو تباہ کرڈالتا ہے، اور یھی ہوائے نفس ہوتی ہے جو انسان کو تمام برائیوں میں غرق کردیتی ہے اور ہر نیکی سے روک دیتی ہے۔

حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی ہے : کسی شخص نے مجھ سے دنیا و آخرت کی بھلائی کو جمع کرنے والی صفت کے بارے میں سوال کیا، تو میں نے کھا: اپنے نفس کی مخالفت کرو۔[۲]

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے:

افْضَلُ الجِهادِ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ الَّتِی بَیْنَ جَنْبَیْهِ “[۳]

سب سے بڑا جھاد ؛”جھاد بالنفس“ ہے۔

نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) حضرت علی علیہ السلام سے فرماتے تھے:

یَاعَلِیُّ افْضَلُ الجِهادِ مَنْ اصْبَحَ لَایَهُمُّ بِظُلْمِ احَدٍ “[۴]

”یا علی! سب سے بڑا جھادیہ ہے کہ انسان صبح اٹھے تو کسی پر ظلم و ستم کا ارادہ نہ رکھتا ہو“۔

اگر انسان ہوائے نفس کا شکار ہوجائے، یعنی اپنی بے حساب شھوت کے ذریعہ خداوندعالم کی مخالفت کرے تو ہوائے نفس اس کو قیدی بنا کر دھوکہ میں ڈال دیتی ہے، اور یاد خدا، یاد قیامت ، موقع حساب و کتاب ، وقت موت اور خدا کے واجب کردہ وظائف اور ذمہ داریوں کو بھلا دیتی ہے، اور اس وقت قضائے الٰھی جو اس سلسلہ میں انسان انسان کی آزادی اور اس کا اختیارھے اس دھوکا دھڑی میں غدّار دشمن کی مدد کرتی ہے، اور انسان کو اس آزادی اور اختیار سے ناجائز فائدہ اٹھانے پر مجبور کردیتی ہے، اور خداوندعالم کی اطاعت اور وظائف پر عمل کرنے کے بجائے، ظلم و ستم او ردوسروں پر تجاوز کرنے لگتا ہے، اورانسان خداوندعالم کی معین کردہ حدود اور دیگر اصول سے تجاوز کرتا ہے، اور خداوندعالم کے سعادت بخش احکام کی مخالفت کرتا ہے۔

فَلَکَ الْحَمْدُ عَلَيَّ فيجَمیعِ ذٰلِکَ،وَلاٰحُجَّةَ لِي فِیمٰاجَریٰ عَلَيَّ فیهِ قَضٰاوکَ،وَالْزَمَنِيحُکْمُکَ وَبَلٰاوکَ ،“

”بھر حال اس معاملہ میں میرے ذمہ تیری حمد بجالانا ضروری ہے اور اب تیری حجت ہر مسئلہ میں میرے اوپر تمام ہے اور میرے پاس تیرے فیصلہ کے مقابلہ میں اور تیرے حکم و آزمائش کے سامنے کوئی حجت و دلیل نہیں ہے “۔

انسان پر خدا کی حجتیں

انسان کے پاس ایسی کوئی حجت نہیں ہے جو دنیا میں اپنی ضلالت وگمراھی، کجی اور انحراف اور گناہ و معصیت کے سلسلہ میں خدا کی بارگاہ میں پیش کرسکے۔

مثلاً اگرانسان کھے: میں طاقت و قدرت نہیں رکھتا تھا، تو یہ تو بہت بڑا جھوٹ ہے، چونکہ اس کا بدن صحیح و سالم تھا، مختلف نعمتوں سے نوازا گیا تھا لہٰذا اپنے وظائف کو انجام دینے پر قدرت رکھتا تھا۔

اور اگرانسان کھے: عقل سے محروم تھا، یہ بھی بہت بڑا جھوٹ ہے،چونکہ اگر عقل سے محروم ہوتا تو کس طرح اپنے دنیا میں کاروبار، تجارت اور دوسرے امور انجام دیتا تھا؟!

اور اگرانسان کھے: اگر میری ہدایت کے لئے خدا کی طرف سے کوئی نبی، امام یا کتاب ہدایت کا انتظام ہوتا تو میں ان کی پیروی کرتا؛ تو پھر اس کے جواب میں کھا جائے گا: ہدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے گئے، بارہ معصوم امام ہدایت کے لئے معین کئے گئے، لیکن تجھے کیا ہوگیا تھا تو نے اپنے دنیاوی مسائل کو حل کرنے کے لئے ہر ممکن سعی و کوشش کی ، لیکن ہدایت کے سلسلہ میں کوئی قدم نہیں اٹھایا؟!

اور اگر انسان کھے: ہدایت کے لئے کوئی عالم دین، کتاب ہدایت اور معنویت سے آباد مسجد کا انتظام نہ تھا، تو کھا جائے گا: یہ جھوٹ او رتھمت ہے، کیونکہ ہماری ہدایت کی آواز ہر طرف سے آرھی تھی لیکن تیرا تکبر، خودپسندی اور ہوائے نفسانی ”صد ائے ہدایت“ سننے میں مانع ہوئی اور تو نے حق کی پیروی نہیں کی ہے!

قارئین کرام! مذکورہ حقائق کے پیش نظر خداوندعالم کی طرف سے دنیا و آخرت میں انسان کو محکوم کرنے کے لئے حجت کا دروازہ کھلا ہے، اور انسان کے لئے اپنا عذر پیش کرنے اور عذاب الٰھی سے بچنے کے لئے کوئی بھی بھانہ اور عذر قابل قبول نہیں ہے۔

اس واضح اور آشکار حقیقت(انسان پر خدا کی حجت حکم فرما ہے ، اور وہ عذاب الٰھی کا مستحق ہے) خدا کے پیش نظر ہم صرف ایک اھم روایت نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں، جو اسلامی معتبر کتابوں میں بیان ہوئی ہے۔

حمید بن زیاد نے حسن بن محمد کَندی سے اور انھوں نے احمد بن حسن میثمی سے، انھوں نے ابان بن عثمان سے اور انھوں نے عبد الاعلی سے روایت کی ہے :

سَمِعْتُ اباعَبدِ اللّٰهِ علیه السلام یَقولُ:یُوتَی بِالْمَراةِ الحَسناءِ یَوْمَ القِیامَةِ الَّتِی قَدِ افْتُتِنَتْ فِی حُسْنِها فَتَقولُ:یَارَبِّ حَسَّنْتَ خَلْقِی حَتَّی لَقِیتُ مَا لَقِیتُ؛فَیُجاءُ بِمَریَمَ علیها السلام فَیُقالُ:انْتِ احْسَنُ اوْهٰذِهِ؟ قَدْحَسَّنَّاهَا فَلَمْ تُفْتَتَنْ،وَ یُجاءُ بالرَّجُلِ الحَسَنِ الَّذِی قَدْ افْتُتِنَ فِی حُسْنِهِ فَیَقولُ:یَارَبِّ حَسَّنْتَ خَلْقِی حَتّی لَقِیتُ مِنَ النِّساءِ مَا لَقِیتُ فَیُجاءُ بِیُوسُفَ علیه السلام فَیُقالُ:انْتَ احْسَنُ اوْ هٰذَا؟قَدْ حَسَّنَّاهُ فَلَمْ یُفْتَتَنْ وَ یُجاءُ بِصاحِبِ البَلاَءِ الَّذِی قَدْ اصَابَتْهُ الفِتْنَةُ فِی بَلَائِهِ فَیَقُولُ :یَارَبِّ شَدَّدْتَ عَلَیَّ البَلَاءَ حَتَّی افْتُتِنْتُ فَیُوتَی بِایّوبَ علیه السلام ، فیقال:ابَلِیَّتُکَ اشَدُّ اوْ بَلِیَّةُ هٰذَا؟فَقَدْ ابْتُلِیَ فَلَمْ یُفْتَتَنْ “[۵]

”میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا: روز قیامت ایک حسین و جمیل عورت کو لایا جائے گا جس نے اپنے حسن و جمال کی وجہ سے دنیا میں گناہ ومعصیت کو اپنا شعار بنایا، تو وہ اپنی بے گناھی ثابت کرنے کے لئے کھے گی: پالنے والے! تو نے مجھے خوبصورت پیدا کیا لہٰذا میں اپنے حسن و جمال کی بنا پر گناھوں کی مرتکب ہوگئی، اس وقت جناب مریم (سلام اللہ علیھا) کو لایا جائے گا، اور کھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ہے یا یہ خاتون باعظمت؟ ہم نے اس کو بہت زیادہ خوبصورت خلق فرمایا لیکن پھر بھی انھوں نے اپنے کو محفوظ رکھا، اور برائیوں سے دور رھیں۔

اور پھر ایک خوبصورت مرد کو لایا جائے گاوہ بھی اپنی خوبصورتی کی بنا پر گناھوں میں غرق رھا ، وہ بھی کھے گا: پالنے والے ! تو نے مجھے خوبصورت پیدا کیا ، جس کی بنا پر میں نامحرم عورتوں کے ساتھ گناھوں میں ملوث رھا۔ اس وقت جناب یوسف (علیہ السلام) کو لایا جائے گا، اور کھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ہے یا یا عظیم انسان، ہم نے انھیں بھی بہت خوبصورت پیدا کیا لیکن انھوں نے بھی اپنے آپ کو گناھوں سے محفوظ رکھااور فتنہ و فساد میں غرق نہ ہوئے۔

اس کے بعد ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا، جو بلاء اور مصیبتوں میںگرفتار رہ چکا تھا اور اسی وجہ سے اس نے اپنے کو گناھوں میں غرق کرلیا تھا، وہ بھی عرض کرے گا: پالنے والے! چونکہ تونے مجھے مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار کردیا تھا جس سے میرا حوصلہ اور استقامت جاتی رھی اور میں گناھوں میں غرق ہوگیا، اس وقت جناب ایوب (علیہ السلام) کو لایا جائے گااور کھا جائے گا: تمھاری مصیبتیں زیادہ ہیں یا اس عظیم انسان کی ، یہ بھی مصیبتوں میں گھرے لیکن انھوں اپنے آپ کو محفوظ رکھا اور فتنہ وفساد کے گڑھے میں نہ گرے“۔

وَقَدْ اتَیْتُکَ یٰاالٰهِي بَعْدَ تَقْصیرِي وَاسْرٰافِيعَلٰی نَفْسِي،مُعْتَذِراًنٰادِماً مُنْکَسِراًمُسْتِقیلًا مُسْتَغْفِراً مُنیباًمُقِرّاً مُذْعِناًمُعْتَرِفاً،لاٰاجِدُ مَفَرّاًمِمّٰا کٰانَ مِنّي،وَلاٰمَفْزَعاًاتَوَجَّهُ الَیْهِ فيامْرِي غَیْرَ قَبُولِکَ عُذْرِي،وَادخٰالِکَ ایّٰايَ في سَعَةِ رَحْمَتِکَ ۔“

”اب میں ان تمام کوتاھیوں اور اپنے نفس پر تمام زیادتیوں کے بعد تیری بارگاہ میں ندامت انکسار، استغفار، انابت، اقرار، اذعان، اعتراف کے ساتھ حاضر ہو رھاھوں کہ میرے پاس ان گناھوں سے بھاگنے کے لئے کوئی جائے فرار نہیں ہے اور تیری قبولیت معذرت کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔صرف ایک ہی راستہ ہے کہ تواپنی رحمت کاملہ میں داخل کر لے “۔

عاشقانہ راز و نیاز اور مناجات

دعائے کمیل کے اس حصے میں حضرت علی علیہ السلام نے ان تمام چیزوں کی طرف اشارہ کیا ہے جن کی وجہ سے خدا کی رحمت اور بخشش شامل حال ہوتی ہے، جیسے:اپنی عبادت کو ناقص تصور کرنا، اپنے آپ کو شھوت پرست قرار دینا، شرمندگی کے ساتھ معذرت خواھی کرنا، دل شکستہ سے بخشش کی درخواست کرنا، خدا کی طرف رجوع کرتے ہوئے اس سے توبہ کرنا، گناھوں کا اعتراف کرنا اور خدا کی پناھگاہ کے علاوہ کسی دوسری پناھگاہ کا تصور ذھن سے نکال دینا۔

یہ آہ وبکا، گریہ و زاری اور توبہ و اقرار ؛ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو خداوندعالم اپنے گناھگار بندے اور توبہ کرنے والے سے سننے کو دوست رکھتا ہے۔ مروی ہے کہ :ایک صاحب جو عرفان و معرفت حاصل کرنا چاہتے تھے ،کسی ولی اللہ کے پاس گئے اور کھا: میں خدا کی بارگاہ میں حاضری دینا چاہتا ہوں اور اس کے حضور میں مشرف ہونا چاہتا ہوں، آپ بتائیں کہ ربّ ودود ، خدائے غفور اورمالک الملک کے لئے کیا تحفہ لے کر جاؤں؟ کیونکہ خالی ہاتھ جانا اس کی شان کے خلاف ہے۔چنانچہ اس ولی اللہ اور عاشق خدا نے کھا: وھاں وہ چیز تحفہ لے کر جاؤ جو وھاں نہ ہو، وھاں پر تمام کمالات: علم، حلم، قدرت، رحمت، مشیت، لطف، کرامت، صدق، عدالت، سطوت اورھیبت موجود ہے، لیکن وھاں یہ چیزیں نہیں ہیں: سوز دل، بہتے ہوئے آنسو، آہ و بکاراور تضرع و انکساری۔

جی ہاں! خداوندعالم، توبہ کرنے والے گناھگار اور ہر طرف سے مایوس و مغلوب بندہ کی آواز سننے کو بہت زیادہ پسند کرتاھے، اور یہ بات قابل انکار نہیں ہے کہ ہرمعشوق اپنے عاشق کی آواز اور التماس کو سننا چاہتا ہے، جیسا کہ ہر عاشق اپنے محبوب کی نظر التفات اور توجہ کا منتظر رہتا ہے نیز اس کے تقاضوں کوپورا کرنا چاہتا ہے۔

یوسف و زلیخا

بعض علماء کرام نے نقل کیا ہے: زلیخا نے اپنی قدرت سے ناجائز فائدہ اٹھاکر اپنے کو تھمت سے بری الذمہ کرنے کے لئے حضرت یوسف(ع) کو زندان میں تو ڈلوادیا، لیکن اپنی بے انتھا محبت اوردلسوز عشق کی تاب نہ لاسکی ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھ گئی کہ یوسف(ع) کے ایمان و تقویٰ کی بنا پر جناب یوسف سے وصال تو ممکن نہیں ہے،لہٰذا کم از کم محبوب کی آواز ہی سن لے، اور اس کے نالہ و فریاد کی آواز ہی کو سن لے، چنانچہ اس نے اپنے ایک غلام کو ساتھ لیا، اور زندان میں گئی، اس غلام سے کھا کہ یوسف کو تازیانے مارو، لیکن جیسے ہی غلام نے جناب یوسف کے حسن و جمال اور الٰھی ہیبت کو دیکھا تو ان کو تازیانے لگانے کی ہمت نہ کرسکا، ادھر اسے زلیخا کا بھی خوف تھا، اس نے جناب یوسف کو موٹے موٹے کپڑے پھنائے اور ان کے اوپر سے تازیانہ مارنے شروع کئے، تاکہ جناب یوسف کو اذیت نہ ہو۔

زلیخا بہت دیر تک انتظار کرتی رھی لیکن اپنے محبوب کی آواز نہ سن سکی، غلام سے کھا: زور سے مارو، اس وقت غلام نے جناب یوسف سے کھا: کھیں زلیخا مجھے زور سے نہ مارنے کی سزا نہ دینے لگے،آپ ان کپڑوں کو اتار دیجئے اور مجھے معاف کیجئے گا، جناب یوسف نے اپنی بزرگواری کے تحت اس بات کو قبول کرلیا، جیسے ہی آپ کے بدن پر تازیانے پڑے تو آہ ونالہ کی آواز بلند ہوئی جس سے زلیخا جیسی عاشق کے دل کو سکون ملا۔

چون زلیخا ز او شنید این بار آہ

گفت بس کین آہ بود از جایگاہ

پیش از ین آن آہ ہا ناچیز بود

آہ این باری زجای تیز بود

گر یود در ماتمی صد نوحہ گر

آہ صاحب درد را باشد اثر

قوم یونس(ع)

جس وقت قوم یونس کو یہ معلوم ہوا کہ یونس اس بستی سے چلے گئے ہیں اور انھوں نے عذاب الٰھی کے آثاردیکھ لئے تو ان کو یقین ہوگیا کہ اس عذاب سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ خداوندعالم کی بارگاہ میں توبہ او رگریہ و زاری اور اپنے گناھوں کا اعتراف ہے۔ چنانچہ سب چھوٹے بڑے، پیر و جوان اور مرد عورتیں پرانے لباس پھن کر پابرھنہ بیابان کی طرف چل دئے۔ مرد ایک طرف عورتیں دوسری طرف ، شیر خوار بچوں کو ان کی ماؤں سے الگ کردیا گیااور سب مل کر خدا کی بارگاہ میںگریہ و زاری کرنے لگے اور روروکر اس کی بارگاہ میں توبہ کرنے لگے۔

یھاں تک کہ حیوانات بھی نالہ و فریاد کرنے لگے، کلمہ توحید ان کی زبان پر جاری ہوا، دلسوز نالہ و فریاد اور محبت کے ساتھ توبہ اور پشیمانی کا اظھار کیا، شرک و معصیت اورنافرمانی سے باز آگئے، ان میں سے ایک گروہ نے پکار کر کھا: پالنے والے! یونس نے کھا تھا کہ غلاموں کو آزاد کردو تاکہ ثواب کے مستحق قرار پاؤ، اور جھاں بھی تمھیں کوئی شخص مشکلات اور پریشانی میں دکھائی دے اس کی مدد کرو، پالنے والے! اس وقت یہ غلام تیری بارگاہ میں بے چارہ ہیںتیرے علاوہ ہمارا کوئی فریادرس نہیں ہے لہٰذاھماری مدد فرما۔

چنانچہ جب اس قوم کا راز و نیاز اور سوز و گریہ اور مناجات، بارگاہ الٰھی میں قبول ہوئی تو ان کو نجات مل گئی، عذاب کا بادل چھٹ گیا، اور رحمت خدا کی گھٹا چھاگئی، سب کی توبہ قبول ہوگئی اور سب خوش وخرم شھر میں واپس آگئے، اور اپنے کاروبار اور زندگی میں مشغول ہوگئے۔ بھر حال خداوندعالم کی طرف توجہ کرنا اور اس کی بارگاہ میں گناھوں کا اقرار کرنا، اپنی بے چارگی کا اعلان کرنا اور خدا سے طلبِ بخشش کرنا ، حقیقی توبہ کے مقدمات ہیں جن کے ذریعہ خداوندعالم کا لطف و کرم شامل ہوتا ہے۔

”اللّٰهُمَّ فَاقُبَلْ عُذْري،وَارْحَمْ شِدَّةَ ضُرِّي،وَفُکَّنِيمِنْ شَدِّوَثٰاقِي،

یٰارَبِّ ارْحَمْ ضَعْفَ بَدَنِي،وَرِقَّةَ جِلْدي،وَدِقَّةَ عَظْمي،

یٰامَنْ بَدَاخَلْقِيوَذِکْرِي وَتَرْبِیَتِيوَبِرِّيوَتَغْذِیَتيهَبْني

لِابْتِدٰاءِ کَرَمِکَ وَسٰالِفِ بِرِّکَ بي“

”لہٰذا پروردگار میرے عذر کو قبول فرما ۔میری شدت مصیبت پر رحم فرما۔

مجھے شدید قید وبند سے نجات عطا فرما۔پروردگار میرے بدن کی کمزوری،

میری جلد کی نرمی اور میرے استخواں کی باریکی پر رحم فرما،اے میرے پیداکرنے والے ۔

اے میرے تربیت دینے والے! اے نیکی کرنے والے! اپنے سابقہ کرم اور گذشتہ

احسانات کی بنا پر مجھے معاف فرمادے“۔

محبوب کا دربار

دعا کے اس حصہ میں عارف عاشق ،تائب صادق اور بہترین مناجات کرنے والااحساس کرتا ہے کہ خداوندعالم کی رحمت اور لطف و کرم کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، اور ہمارا محبوب خدا ہمارے راز و نیاز سننے کے لئے تیار ہے؛ لہٰذا عرض کرتا ہے:

میرے عذرر کو قبول فرما، جو میری نادانی اور جھالت ہے، لڑکپن اور گناہ ہیں، میں ہوائے نفس کا قیدی ہوں اور میرا ارادہ ضعیف اور کمزور ہے، لیکن اب چونکہ تیری بارگاہ میں توبہ کی توفیق حاصل ہوگئی ہے، اور جھالت کے اندھیرے سے نکل آیا ہوں اور میری جوانی کا نشہ ختم ہوگیا ہے، ایک حد تک نفس پرستی سے چھٹکارا مل گیا ہے، اورگناھوں کے ترک کرنے اور تیری اطاعت کرنے پرمیرا ارادہ محکم ہوگیا ہے، لہٰذا میں نے گناھوں سے دوری اختیار کی ہے اور شیطان و ہوائے نفس سے دور بھاگ کرتیری بارگاہ میںحاضر ہوا ہوں، لہٰذا اپنے لطف وکرم اور عنایت سے میری گزشتہ برائیوں اور مفاسد کی اصلاح فرمادے۔

پالنے والے! میرے برے حالات کی سختی، خود غرضی، حرص، حسد ،بخل، طمع ریاکاری، خودنمائی اور دوسرے برے صفات کی وجہ سے ہیں، اگر یہ بدحالی میرے اندر باقی رھی تو ایک خطرناک بیماری اور ناسور میں بدل جائی گی، جو مجھے ہلاک کردے گی، جس کے علاج کے لئے کوئی راستہ باقی نہ بچے گا، لہٰذا میرے اس حال پر رحم فرما، اور اگر تیری رحمت میرے شامل حال ہوگئی تو میری بری حالت اچھی حالت میں بدل جائے گی، اورمیں اخلاق حسنہ سے مزین ہوجاؤں گا، تیرے کرم کے زیر سایہ میرا تکبر؛ تواضع میں، حرص؛ قناعت میں، حسد؛ رشک میں، بخل؛ جود و سخاوت میں، لالچ؛ رضایت میں اور ریاکاری؛ اخلاص میں بدل جائے گی۔

پالنے والے! میرے اعضاء و جوارح ، عقل و خرد، دل و جان ،ھاتھ پیر اور قلب و روح پر شیطان اور ہوائے نفس کی زنجیروں نے قبضہ کرلیا ہے، مجھے عبادت و طاعت اور کار خیر سے روکتے ہیں، او رتیری بارگاہ میں آنے سے میرے قدموں کو روک لیتے ہیں۔ پالنے والے! اب جبکہ تیری عطا کردہ توفیق کے سبب دل سے آہ و فغاں کررھا ہوں، آنکھوں سے ندامت اور حسرت کے آنسو بھارھا ہوں،تیری بارگاہ میں فریاد کررھا ہوں، اور تیرے حضور میں ان تمام زنجیروں سے رھائی کا طالب ہوں، پالنے والے!میرے اوپر اپنی رحمت اور لطف وکرم کا سایہ فرمادے، اور میرے ہاتھوں اور پاؤں سے شیطانی اور ہوائے نفس کی زنجیروں کو کھول دے، اور مجھے مکمل طریقہ سے آزاد بنادے، اور اس ذلت و روسوائی سے نکال دے۔

اگر آج جبکہ میں اس دنیا میں ہوں تیری رحمت میری فریاد کو نہ پھنچے اور مجھے ان زنجیروں کی سختیوں اور شیطانی وسوسوں اور ہوائے نفس کی تکلیفوں اور برے اخلاق نیز فرعونی اور قارونی حالات سے نجات نہ دی تو کل روز قیامت مجھے ان زنجیروں میں گرفتار ہونا پڑے گا، جن کے بارے میں قرآن مجید نے خبر دی ہے، کہ وہ زنجیریں کفار، مشرکین اور مجرمین کے ہاتھ پیروں میںڈالی جائےں گی اور ان کو جھنم کی طرف کھینچا جائے گا:

( إِنَّا اعْتَدْنَا لِلْکَافِرِینَ سَلَاسِلَاْ وَاغْلاٰلاً وَسَعِیرًا ) ۔“[۶]

”بے شک ہم نے کافروں کے لئے زنجیریں طوق اور بھڑکتے ہوئے شعلوں کا انتظام کیا ہے“۔

( خُذُوهُ فَغُلُّوهُ ثُمَّ الْجَحِیمَ صَلُّوهُ. ثُمَّ فِی سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُکُوهُ. إِنَّهُ کَانَ لاَیُؤْمِنُ بِاللهِ الْعَظِیم ) ۔“[۷]

”اب اسے پکڑلو اور گرفتار کرلو۔پھر اسے جھنم میں جھونک دو۔پھر ایک ستر گز کی رسی میں اسے جکڑ لو۔یہ خدائے عظیم پر ایمان نہیں رکھتا تھا“۔

اگر آج تونے مجھے ان زنجیروں اور قید و بند سے آزاد نہ کیاتو پھر ایک دن وہ بھی آئے گا کہ میری آزادی کے لئے کوئی بھی راستہ باقی نہیں رھے گا۔

قارئین کرام! جو افراد ان زنجیروں اور قید و بند سے آزاد ہیں، تووہ لوگ بڑے ہی شوق و اطمینان کے ساتھ خداوندعالم کی عبادت و اطاعت اور اعمال صالحہ میں مشغول ہوجاتے ہیں،اور اپنی عمر کے آخری روز ندائے”( ارْجِعِیٓ اِلَیٰ رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً ) “[۸]سن کر اپنے معشوق کی طرف پرواز کرنے کے لئے اپنے پروں کو پھیلاتے ہیں، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آغوش رحمت میں پھنچ جاتے ہیں۔

لیکن وہ لوگ جوان قید و بند اور زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں،وہ خدا کی اطاعت و بندگی اور نیک کام کی طرف قدم نہیں اٹھاسکتے، یہ لوگ اس چند روزہ دنیا میں شیطان کے قیدی اور ہوائے نفس کے اسیر ہوتے ہیںاور اپنی عمر کے آخری حصے میں بہت زیادہ حسرت و ناامیدی اور سخت پریشانی میں اپنی جان دیتے ہیں اور احساس کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنی تمام ہستی کو نابود کرلیا ہے اور ایسے لاچار ہوگئے ہیں کہ مال و دولت بھی ان کے کام نہیں آسکتے، ان کی روح آگ کی زنجیروں میں بندھی ہوئے دوزخ کی طرف کھینچی جارھی ہوگی!!

مرگ ہارون الرشید کا عجیب و غریب واقعہ

جس وقت خراسان میں ہارون الرشید کی بیماری بہت زیادہ بڑھ گئی، اس نے حکم دیا”طوس“ سے فلاںطبیب کو بلایا جائے، اور اس نے اپنا پیشاب ایک شیشی میں کیا، اور دوسرے لوگوں کا پیشاب بھی شیشی میں کرکے اس کے پاس بھیجا تاکہ پیشاب کے ذریعہ بیماری کا پتہ لگاسکے، طبیب نے ان شیشیوں کو چیک کیا اور ایک شیشی کو دیکھ کر کھا: جس شخص کا یہ پیشاب ہے اس سے کہہ دو کہ وصیت کرنے کے لئے آمادہ ہوجائے، چونکہ اس کی طاقت جواب دے چکی ہے، اور اس کے بدن کی بنیاد ڈھیر ہوچکی ہے۔ جیسے ہی ہارون الرشید نے یہ خبر سنی تو اپنی زندگی سے مایوس ہوگیا اور درج ذیل رباعی پڑھنے لگا:

ان الطبیب بطبه و دوائه

لا یستطیع دفاع نحب قد اتی

ما للطبیب یموت بالداء الذی

قد کان یبرء مثله فیما مضی

”طبیب اپنی طبابت اور دواؤں کے ساتھ آنے والی موت کا علاج کرنے پر قادر نہیں ہے، کیونکہ اگر قدرت رکھتا ہوتا تو جو جس بیماری کا وہ خود علاج کرچکا ہے اسی بیماری میں کیوں مرجاتا ہے“۔؟!

اسی وقت اس کو خبر دی گئی کہ اس کی موت کی خبر پھیل چکی ہے، چنانچہ اس خبر کو جھوٹی ثابت کرنے کے لئے ایک گاڑی پر سوار ہوا تاکہ اپنے آپ کو دکھائے کہ میں ابھی زندہ ہوں، لیکن جیسے ہی گاڑی پر بیٹھا حیوان کا پیر مڑگیا، تو اس وقت اس نے کھا: مجھے اتاردو، خبر پھیلانے والے سچ کہہ رھے ہیں، اور اس کے بعد اپنے لئے کفن منگوایا، اور ایک شخص کی طرف مخاطب ہوکر کھا: یھیں میرے بستر کے پاس میری قبر بناؤ، اور جب اس کی قبر تیار ہوگی، قبر کو دیکھ کر ان آیات کو پڑھا:

( مَا اغْنَی عَنِّی مَالِیَ هَلَکَ عَنِّی سُلْطَانِیه ) ۔“[۹]

”میرا مال بھی میرے کام نہ آیااور میری حکومت بھی برباد ہوگئی“۔

میں ایک ایسا مجرم ہوں جس کا کام تمام ہوچکا ہے، اور اس حقیقت کو اقرار کرتا ہوں:میرے مال و دولت نے مجھے عذاب خدا سے ذرہ برابر بھی نہ بچایا، اور آج جب میری مشکل کا وقت ہے تو انھوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا،اور نہ صرف یہ کہ مال و دولت نے میرا ساتھ نہیں دیا اور میری مشکل کو حل نہ کیا، بلکہ میری قدرت اور سلطنت بھی نابود ہوگئی اور میرے ہاتھوں سے جاتی رھے۔[۱۰]ے میرے خدا! روز قیامت کی زنجیروں اور قید وبند کے پیش نظر میرے جسم کی ناتوانی اور کمزوری، میری نازک کھال اور نرم ہڈیوں پر حم فرما، کہ اگر گناھوں کی یہ زنجیریں مجھے باندھے رھےں گیں، تو کل روز قیامت آگ کی زنجیریں میرے جسم، میرے تمام اعضاء و جوارح پر بندھی ہوں گی، اورمیں اپنے جسم کی ناتوانی، کمزوری، ہڈی اور کھال کی نرمی کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان زنجیروں میں بندھا رھوں گا، اور دوزخ کے طبقات میں جلتا رھوں گا، اور پھر کبھی مجھے موت بھی نہیں آئے گی!!

دقیق حساب و کتاب

قارئین کرام! ہم بھی اس شخص کی طرح جس کا نام توبہ تھا، اور شیخ بھائی کے قول کے مطابق اپنے نفس کا حساب و کتاب کیا کرتا تھا، روز و شب اپنا حساب و کتاب کریں۔اس شخص کی ساٹھ سال کی عمر تھی، اس نے اپنی عمر کا دنوں میں حساب لگایا،تو” ۲۱۶۰۰ “ دن ہوئے، تواس نے ایک چیخ ماری اورکھا: وائے بر من اگرھر روز میں نے کم سے کم ایک گناہ بھی کیا ہو تو ” ۲۱۶۰۰“ گناھوں کا مرتکب ہوا، کس طرح ان گناھوں کے ساتھ خدا سے ملاقات کے لئے جاؤں؟ یہ کہہ کر زمین پر گرا، اور اس دنیا سے چل بسا۔[۱۱]

پالنے والے! اے میرے غفور رحیم خدا! میں جیسا بھی ہوں، ہوں تو تیرا بندہ، تیرا خلق شدہ ہوں، تیری قدرت کے زیر سایہ ہوں، تیرے ارادے اور مرضی کا محکوم ہوں، کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے، اے وہ خدا جس نے مٹی سے میری خلقت کا آغاز کیا، اس کے بعد نطفہ سے، اس کے بعد علقہ بنایا، اس کے بعد مضغہ بنایا،یعنی جس وقت میں کچھ بھی نہیں تھا، مجھ پر توجہ کی اور لطف وکرم کیا مجھے یاد رکھا، مجھے خلق فرمایا، اور اس کے بعد میری مادی و معنوی تربیت کا انتظام کیا، مجھ پر لطف و کرم کی بارش کی، مختلف نعمتوں اوربہترین غذاؤں سے نوازا، اب میں نھایت خشوع و خضوع اور تواضع و انکساری کے ساتھ تیری بارگاہ میں درخواست کرتا ہوں کہ اسی گزشتہ کرم اور پھلے کی طرح احسان کے ذریعہ مجھے بخش دے،اور میرے گناھوں سے درگزر فرما، اور دنیا و آخرت کے عذاب سے رھائی عنایت فرما۔ (آمین یا رب العالمین)

”یٰاالٰهِي وَسَیَّدِي وَرَبِّي،اتُرٰاکَ مُعَذِّبِي بِنٰارِکَ بَعْدَ تَوْحیدِکَ،

وَبَعْدَمَاانْطَویٰ عَلَیْهِ قَلْبِيمِنْ مَعْرِفَتِکَ،وَلَهِجَ بِهِ لِسٰانِيمِنْ ذِکْرِکَ،

وَاعْتَقَدَهُ ضَمیرِي مِنْ حُبِّکَ،وَبَعْدَصِدْقِ اعْتِرٰافيوَدُعٰائيخٰاضِعاً

لِرُبُوبِیَّتِکَ“

”پروردگار!کیا یہ ممکن ہے کہ میرے عقیدہ توحید کے بعد بھی تو مجھ پر عذاب نازل کرے، یا میرے دل میں اپنے معرفت کے باوجود مجھے مورد عذاب قرار دے کہ میری زبان پر مسلسل تیرا ذکر اور میرے دل میں برابر تیری محبت جاگزیں رھی ہے۔میں صدق دل سے تیری ربوبیت کے سامنے خاضع ہوں “۔

نھیں، تیری ذات مقدس کی قسم! انبیاء اور ائمہ علیھم السلام، عارفین، عاشقین، عابدین، زاھدین اور توبہ کرنے والوں میں سے کوئی بھی تجھے ایسا نہیں مانتا کہ ان تمام حقائق اور معرفت کے بعد جو خود تیری توفیق سے مجھے حاصل ہوئے ہیں، مجھے آتش جھنم میںجلائے گا، بلکہ تجھے تو ایسا جانتے ہیں کہ مجھے قیامت کے روز اپنے لطف و کرم کے زیر سایہ رکھے گا، اور اپنی رحمت کا سھارا دے گا، میری برائیوں سے چشم پوشی کرے گا، اور اپنی بھشت میں مجھے جگہ دے گا، اور اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرے گا۔

توحید

جو شخص بھی قرآنی آیات اور روایات و احادیث، خصوصاً اللہ تعالیٰ کے بارے میں احادیث کو علماء سے سنا ہے اور آفرینش مخلوق میں غور و فکر کرنے اور اس جھان ہستی پر دقت کرنے نیز نظام خلقت میں اندیشہ کرنے سے خداوندعالم اور اس کے صفات کی معرفت حاصل کی ہے، وہ عقلی اور عملی طور پر اس کے علاوہ ہر معبود کو باطل اور اس کے علاوہ ہر مالک کو ہالک (یعنی ہلاک کرنے والا) جانتا ہے، اپنی زبان اور دل بلکہ اپنے وجود کے ہر ہر ذرہ سے کلمہ طیبہ ”لا الٰہ الا اللّٰہ“ کا اقرا رکرتا ہے، تو اس کا دل ”خانہ توحید“ ہے اور اس کا عمل ہر بت کی نفی کرتا ہے، اور ایسا ہی شخص شرعی اصطلاح میں ”موحّد“ کھا جاتا ہے۔ تمام انبیاء اور پیغمبروں کی دعوت اسی ”توحید“ کی طرف ہوتی تھی۔

سبھی انبیاء علیھم السلام تمام لوگوں کی اسی توحید کی دعوت کرتے تھے اوراسی کی یکتائی اور اکیلے ہونے پر ایمان رکھنے کی تبلیغ کرتے تھے؛ جیسا کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات سے بھی نتیجہ یھی نکلتا ہے کہ تمام انبیاء علیھم السلام کی دعوت ”توحید عملی“کا پھلو رکھتی تھی، اور غیر الٰھی نظام کو مردود جانتے تھے۔

”اعتقاد توحید“کے معنی و مفھوم یہ ہےں کہ انسان فکری لحاظ سے اپنے کو شرک و بت پرستی سے پاک رکھے، اس سلسلہ میں وہ مشرکین جو خدا کے لئے شریک کے قائل ہیںاسی طرح وہ لوگ جو ”خیر و شر“ کو ”یزدان اور اھریمن“ کی طرف سے جانتے ہیں، یا کسی میں خدا کے حلول کے قائل ہیں یا مختلف ارباب کے قائل ہیں، اسی طرح وہ افراد جو خدا کو مرکب شمار کرتے ہیں جیسے نصاریٰ، نیز فرقہ ”مجسمہ“ جو خدا وندعالم کے جسم کا قائل ہے، جن میںھمارے زمانہ میںجاہل ترین فرقہ ”وھابیت“ ہے۔

اسی طرح توحید کے عملی میدان میں جو اسی عقیدہ توحید کی ایک قسم ہے جو چیز اھمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ کہ صرف ایک خدا کی عبادت کی جائے اور اس کے علاوہ کسی غیر کی اطاعت سے پرھیز کیا جائے ان میں سے پھلا کام یعنی ”صرف ایک خدا کی عبادت“؛ خدا کی صحیح معرفت، اس کے بارے میں مستحکم عقیدہ اور اس پر پائیدار رھنے سے حاصل ہوتا ہے اور دوسرا یعنی ”غیر کی اطاعت سے پرھیز“ باطل کے غلط عقائد و نظریات سے پرھیز کی بنا پر اس لئے کہ باطل کے یھی کھوکھلے عقائد انسان کو غیر خدا کی عبادت و اطاعت پر آمادہ کرتے ہیں۔

اس عملی پھلو ( جو خدا ئے واحد و یکتاکی اطاعت و بندگی ہے) کی طرف آسمانی کتابوں اور انبیاء الٰھی نے دعوت دی ہے، چونکہ شرک فعلی اور عملی ”قولی شرک“ کی طرح عقیدہ شرک کی واضح نشانی ہے، اسی وجہ سے انبیاء علیھم السلام نے ”شرک عملی“ پر بہت توجہ دلائی ہے۔ اسی وجہ سے ”توحید عملی“ انسانی زندگی ، انسانی خاصیتوں کے ظھور اور غلامی کی زندگی سے نجات کے لئے بہت موثر ہے، اور جھوٹے خداؤں اورارباب کی اطاعت کی قدرت کو ختم کردیتی ہے،(یعنی اگر انسان” توحید عملی“کو دل و جان سے قبول کرتا ہو تو پھر وہ کسی طاقت کے سامنے سر نہیں جھکائے گا۔)

انبیاء علیھم السلام کی یہ کوشش رھی ہے کہ معاشرہ کو اس قسم کے شرک کو بھی پاک کیا جائے، اور انسانیت کو آزادی اور انسانی شرافت سے سرفراز کیا جائے۔ اور اپنے زمانہ کے فرعون اور ظالم و جابر حاکموں کے سامنے سر نہ جھکائیں، اگرچہ اس قسم کے لوگوں نے ہمیشہ توحید کا شدت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے، لیکن انبیاء علیھم السلام نے ہر موقع پر ”شرک عملی“ سے بھی پرھیز کی دعوت دی ہے۔

شرک عملی کے اثر کی دوسری علت یہ تھی کہ بعض نااہل لوگوں نے مستکبروں کی عبادت و پرستش کی عادت ڈال دی تھی جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( إِذَا قِیلَ لَهُمْ لاَإِلَهَ إِلاَّ اللهُ یَسْتَکْبِرُونَ ) ۔“[۱۲]

” ان سے جب کھا جاتا تھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نھیںھے تو اکڑ جاتے تھے“۔

کیونکہ انسان کو غلام بنانے اور ان کے حقوق کو پامال کرنے والوں کے لئے یہ کلمہ ایک بہت بڑا چیلنچ ہے، چونکہ عقیدہ توحید اور زبان سے کلمہ توحید کا اقرار کرنے کی وجہ سے مستکبرین کا ”واجب الاطاعة“ھونا خطرہ میں پڑجاتا ہے، اور ان کا حکم، جاہ و جلال او ران کے امتیازات مٹی میں مل جاتے ہیں[۱۳]

اس بنا پر خداوندعالم کی توحید کا عقیدہ اور یہ عقیدہ کہ اس کی ذات مقدس کی کوئی شبیہ، مانند اور شریک نہیں ہے، اس کی ذات عین صفات ہیں، اور وھی تمام چیزوں پر حاکم ہے، موت و حیات، ظاھر و باطن، ملک و ملکوت، غیب و شھود، پیداکرنے والا، مارنے والا، اس دنیا میں انقلاب برپاکرنے والا المختصر یہ کہ تمام کی تمام چیزیں اسی کے دست قدرت میں ہےں، دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا جائے: جس خدا کی معرفت انبیاء، ائمہ اور قرآن نے بیان کی ہے، اورزندگی کے تمام امور میں اس کے احکام کی اطاعت، ہر بت، بت پرست اور بت تراش کی نفی کرنااور ہر شیطان و طاغوت اور طاغوت خواھی کے ماحول کی نفی کرنا؛ھی ”توحید محض“ اور ”محض توحید“ ہے؛ کہ جو شخص دل و جان سے اس حقیقت کوقبول کرے، اور ”لا الہ الاالله“، ”لااثر فی الوجود الا الله“، اور ”لاحول و لا قوة الا بالله“ کا نعرہ بلند کرے،تو ایسا ہی شخص حقیقی موحّد (یعنی یکتا پرست)، واقعی مومن اور صراط مستقیم پر چلنے والا ہے۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی ذات مبارک جو اپنے دل کی آنکھوں سے حقائق کی حقیقتوں کا مشاھدہ فرماتے تھے، ”نہج البلاغہ“ کے مختلف خطبوں میں معرفت خدا کے بارے میں اس حقیقت کا انکشاف کیا ہے:

اول الدین معرفته ۔۔۔“۔[۱۴]

”دین کی ابتداء اس کی معرفت ہے اور معرفت کا کمال اس کی تصدیق ہے، تصدیق کا کمال توحید کا اقرار ہے اور توحید کا کمال اخلاص عقیدہ ہے اور اخلاص کا کمال زائد صفات کی نفی ہے،کہ صفت کا مفھوم خود ہی گواہ ہے کہ وہ موصوف سے کوئی الگ شئے ہے اور موصوف کا مفھوم ہی یہ ہے کہ وہ صفت سے جداگانہ کوئی ذات ہے۔ اس کے لئے الگ سے صفات کا اثبات ایک شریک کا اثبات ہے اور اس کا لازمی نتیجہ ذات کا تعدد ہے اور تعدد کا مقصد اس کے لئے اجزاء کا عقیدہ ہے اور اجزاء کا عقیدہ صرف جھالت ہے معرفت نہیں ہے، اور جو بے معرفت ہوگیا اس نے اشارہ کرنا شروع کردیا اور جس نے اس کی طرف اشار ہ کیا اس نے اسے ایک سمت میں محدود کردیا، اور جس نے محدود کردیا اس نے اسے گنتی کا ایک شمار کرلیا(جو سراسر خلاف توحید ذات ہے)۔

جس نے یہ سوال اٹھایا کہ وہ کس چیز میں ہے اس نے اسے کسی کے ضمن میں قرار دیدیا، اور جس نے یہ کھا کہ وہ کس کے اوپر قائم ہے اس نے نیچے کا علاقہ خالی کرالیا، اس کی ہستی حادث نہیں ہے او راس کا وجود عدم کی تایکیوں سے نہیں نکلا۔ وہ ہر شئے کے ساتھ ہے لیکن مل کر نھیں، اور ہر شئے سے الگ ہے لیکن جدائی کی بنا پر نھیں، وہ فاعل ہے لیکن حرکات و آلات کے ذریعہ نہیں اور وہ اس وقت بھی بصیر تھا جب دیکھی جانے والی مخلوق کا پتہ نہیں تھا۔ وہ اپنی ذات میں بالکل اکیلا ہے اور اس کا کوئی ایسا ساتھی نہیں ہے جس کو پاکر انس محسوس کرے اور کھوکر پریشان ہوجانے کا احساس کرے۔۔۔“۔

اسی طرح ایک دوسر ے خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

فاللهَ اللهَ ایُّهَاالنَّاسُ ۔۔۔۔“[۱۵]

”لوگو! اللہ کو یاد رکھو اور اس سے ڈرتے رھو اس کتاب کے بارے میں جس کا تم کو محافظ بنایا گیا ہے اور ان حقوق کے بارے میں جن کا تم کو امانت دار قرار دیا گیا ہے، اس لئے کہ اس نے تم کو بیکار نہیں پیدا کیا ہے اور نہ مھمل چھوڑدیا ہے اور نہ کسی جھالت اور تاریکی میں رکھا ہے، تمھارے لئے آثار کو بیان کردیا ہے۔ اعمال کو بتادیا ہے، اور مدت حیات کو لکھ دیا ہے۔ وہ کتاب نازل کردی ہے جس میں ہر شئے کا بیان پایا جاتا ہے اور ایک مدت تک اپنے پیغمبر کو تمھارے درمیان رکھ چکا ہے۔ یھاں تک کہ تمھارے لئے اپنے اس دین کو کامل کردیا ہے جسے اس نے پسندیدہ قرار دیا ہے اور تمھارے لئے پیغمبر کی زبان سے ان تمام اعمال کو پھنچا دیا ہے جس کو وہ دوست رکھتا ہے یا جن سے نفرت کرتا ہے، اپنے اوامر و نواھی کو بتادیا ہے، اور دلائل تمھارے سامنے رکھ دئے ہیں، اور حجت تمام کردی ہے، اور ڈرانے دھمکانے کا انتظام کردیا ہے، اور عذاب کے آنے سے پھلے ہی ہوشیار کردیا ہے، لہٰذا اب جتنے دن باقی رہ گئے ہیں انھیں میں تدارک کرلو اور اپنے نفس کو صبر پر آمادہ کرلو کہ یہ دن ایام غفلت کے مقابلہ میں بہت تھوڑے ہیں جب تم نے موعظہ سننے کا بھی موقع نہیں نکالا۔ خبردار! اپنے نفس کو آزاد مت چھوڑدو ورنہ یہ آزادی تم کو ظالموں کے راستہ پر لے جائے گی، اور اس کے ساتھ نرمی نہ برتو ورنہ یہ تمھیں مصیبتوں میں جھونک دے گا۔۔۔“۔

جو شخص عقیدہ توحید کو قرآن کریم، انبیاء، ائمہ علیھم السلام اور اولیاء اللہ سے حاصل کرے، اور اپنے واجبات پر عمل کرے، گناھوں اور معصیت سے دوری کرے اور اپنی زندگی سے خدا کے علاوہ دوسرے معبود کی نفی کرے؛ تو ایسا شخص موحّد(یکتا پرست) کھلانے کاحقدار ہے، اور اپنے اس اعتقاد توحید کی خاطر اور توحید کے مبنیٰ پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے یقینا وہ نجات یافتہ ہے اور خداوندعالم سے اس جزا کی بنا پراجر کریم، رزق بے حساب اور رحمت واسعہ سے مالامال ہوگا۔

قَالَ رَسولُ اللّٰہِ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم): ”خَیْرُالعِبَادَةِ قَوْلُ لاَاِلهَ اِلاَّ اللّٰهُ “[۱۶]

”حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشادھے: ”لاَاِلہَ اِلاَّ اللّٰہُ “ کھنابہترین عبادت ہے۔

قَالَ رَسولُ اللّٰهِ(ص): ”مَنْ مَاتَ وَلَا یُشْرِکْ بِاللّٰهِ شَیْئاً اَحْسَنَ اَوْ اساءَ دَخَلَ الجَنَّةَ “[۱۷]

”حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے: جو شخص اس حال میں مرجائے کہ اس نے کسی چیز کوخدا کا شریک قرار نہ دیا ہو ، چاھے اس نے نیکی کی ہو یا نہ کی ہو (برائیوں کی بخشش کے بعد) بھشت میں داخل ہوجائے گا“۔

عَن ابی جَعْفَرٍ (علیه السلام):مَا مِن شَیْءٍ اعْظَمُ ثَواباً مِن شَهَادَةِ انْ لَااِلهَ اِلاَّ اللّٰهُ؛لِانَّ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ لَایَعْدِلُهُ شَیْءٌ وَلَا یَشْرَکُهُ فِی الامْرِ اَحَدٌ “[۱۸]

”حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: ”لاَاِلہَ اِلاَّ اللّٰہُ “کی شھادت دینے کا ثواب ہر چیز سے بڑھ کرھے، کیونکہ کوئی بھی چیز خداوندعالم کے برابر نہیں ہے، اور کوئی بھی اس کے ساتھ خدائی میں شریک نہیں ہے“۔

”قَالَ اَبو عَبدِ اللّٰهِ (علیه السلام):اِنَّ اللّٰهَ تَبَارَکَ وَتَعَالی حَرَّمَ اجْسادَ المُوَحِّدِینَ عَلَی النَّارِ “[۱۹]

”امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے: بے شک خداوندعالم نے موحّد (یکتا پرست)کے جسم کو آتش جھنم پر حرام قرار دیا ہے“۔

قَالَ اَبوعَبدِ اللّٰهِ (علیه السلام):قَوْلُ لَا اِلهَ اِلاَّ اللّٰهُ ثَمَنُ الجَنَّةِ“[ ۲۰]

”نیز آپ کا فرمان ہے: ”لاَاِلہَ اِلاَّ اللّٰہُ “ کھناجنت کی قیمت ہے“۔

”قَالَ رَسولُ اللّٰهِ(ص): اِنَّ لَا اِلهَ اِلاَّ اللّٰهُ کَلِمةٌ عَظِیمَةٌ کَرِیمَةٌ عَلَی اللّٰهِ عَزَّ وَ جَلَّ ،مَنْ قَالَها مُخْلِصاً اسْتَوْجَبَ الجَنَّةَ،وَمَنْ قَالَها کَاذِباً عَصَمَتْ مَالُهُ وَدَمُهُ وَکاَنَ مَصیرُهُ اِلَی النَّارِ“ [۲۱]

”حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے:کلمہ ”لاَاِلہَ اِلاَّ اللّٰہُ “ خدا کے نزدیک ایک بااھمیت کلمہ ہے،جو شخص خلوص کے ساتھ اس کا اقرار کرے وہ جنت کا حقدار ہوتا ہے، اور اگر کوئی اس کو صرف زبان سے (جھوٹ)کھے تو (بھی) اس کی جان و مال محفوظ ہے، لیکن اس کا ٹھکانہ جھنم ہے“۔

”قَالَ رَسولُ اللّٰهِ(ص):وَالَّذِی بَعَثَنِی بِالْحَقِّ بَشِیراً لَا یُعَذِّبُ اللّٰهُ بِالنَّارِ مُوَحِّداً ابَداً “[۲۲]

”نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے: قسم اس پروردگار کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بشارت دینے والا بناکر مبعوث کیا خداوندعالم کسی بھی موحد (یکتاپرست) کو آتش جھنم میں عذاب نہیں کرے گا“۔

ان تمام باتوں کے مدّنظر:

اے خدائے مھربان! اے عاشق اہل توحید! کوئی بھی تجھے ایسا نہیں مانتا کہ اگر میں تیری توحید واقعی کا خالصانہ طور پر اقرار کروں اور تیری معرفت و شناخت کے ساتھ اپنے دل میں ہمیشہ ایمان رکھوں، اور میری زبان پر توحید کاکلمہ جاری ہو اور میرے باطن میں تیرا عشق موجود رھے، اور کیا تیری یکتائی کے سچے اقرارکے بعدتیری ربوبیت کے مقابلہ میں میر ی تواضع کے بعد (بھی)تو مجھے عذاب میں مبتلا کرے گا؟!

”هَیْهٰاتَ،انْتَ اکْرَمُ مِنْ انْ تُضَیِّعَ مَنْ رَبَّیْتَهُ،اوْ تُبْعِدَ مَنْ ادْنَیْتَهُ،

اوْتُشَرِّدَ مَنْ آوَیْتَهُ،اوْتُسَلِّمَ الَی الْبَلاٰءِ مَنْ کَفَیْتَهُ وَرَحِمْتَهُ“

”اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جسے تونے پالا ہے اسے برباد بھی کردے، جسے تونے قریب کیا ہے اسے دور کردے۔جسے تونے پناہ دی ہے اسے راندہ درگاہ بنادے اور جس پر تونے مھربانی کی ہے اسے بلاوں “۔

ربوبیت کے جلوے

ھمارے مھربان خدا نے انسان کی ابتدائے آفرینش سے مرتے دم تک کے لئے دو طرح کی تربیت کے اسباب فراھم کئے ہیں:

الف۔ مادّی تربیت۔

ب۔ معنوی تربیت۔

الف۔ مادی تربیت۔

مادی تربیت کے اسباب بے شمار نعمتیں ہیں جن سے یا تو انسان خود اپنے اختیار سے بھرہ مند ہوتا ہے جیسے کھانا، پینا اور سانس لینا وغیرہ، یا خداوندعالم کے ارادہ سے اس کے مادّی رشد و تکامل کے لئے موثر ہوتا ہے جیسے انسان کی تعجب خیز طاقت جو بدن میں مختلف مادّوں کے ذریعہ پیدا ہوتی ہے۔

سورہ یونس میں مختصر طور پر اس مطلب کی طرف اشارہ ہوتا ہے:

( قُلْ مَنْ یَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَاءِ وَالْارْضِ امَّنْ یَمْلِکُ السَّمْعَ وَالْابْصَارَ وَمَنْ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنْ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنْ الْحَیِّ وَمَنْ یُدَبِّرُ الْامْرَ فَسَیَقُولُونَ اللهُ فَقُلْ افَلاَتَتَّقُونَ ) ۔“[۲۳]

” پیغمبر ذرا ان سے پوچھئے کہ تمھیں زمین و آسمان سے کون رزق دیتا ہے اور کون تمھاری سماعت و بصارت کا مالک ہے اور کون مردہ سے زند ہ اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے اور کون سارے امور کی تدبیر کرتا ہے تو یہ سب یھی کھےں گے:”اللہ“تو آپ کہئے کہ اس سے کیوں نہیں ڈرتے“۔

ھم بدن کے اعضاء میں سے ایک عضو کی تشریح کرنے اور تمام حقائق کو سمجھنے سے عاجز ہیں اور اس کے شکر و سپاس سے ناتوان ہیں تو تمام بدن اور تمام اعضاء بدن نیز ان کے درمیان موجود ہم آھنگی اور نظم و ضبط کو کیسے سمجھ پائیں گے ، اسی طرح ان اعضائے بدن کے باھر کی دنیا سے رابطہ کو بھی اچھی اس مطلب کو سمجھنے سے ہم قاصر ہیں۔

بدن کے عصبی خلیوں کی تعداد جو تقریباً ۱۵ ارب ہیں،اوراس مشکل نظام کو دیکھتے ہوئے اقرار کرنا چاہئے جیسا کہ پروفیسر ”اشٹن بوخ“نے کھا ہے کہ اس طرح کے نظام اور مشین کو بنانے کے لئے ایک الکٹرونک ماھر کو چالیس ہزار سال کا وقت درکار ہے!!

( یُخْرِجُ الحَیَّ ) ۔۔۔“ انسان کو نطفہ سے اور نطفہ کو مٹی سے خلق کیا ہے، اسی طرح حیوان کو انڈوں سے اور نباتات کو تخم سے پیدا کیا ہے۔

وہ ذات کون ہے جو اس د نیا کے تعجب آور نظام کو چلاتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں تمام ہی لوگوں کی فطرت اور عقل یھی جواب دیگی: ”خدا“۔ تو پھر ان سے کہئے کہ پھر اس کے ساتھ شرک و کفر کیوں کرتے ہو؟! اور اس کے امر و نھی کی مخالفت سے پرھیز کیوں نہیں کرتے؟!

ب۔ معنوی تربیت کے اسباب:

عقل، فطرت، وجدان، نبوت، امامت، کتب آسمانی بالخصوص قرآن کریم جن کو خداوندعالم نے ہدایت اور تربیت کے اسباب قرار دیا ہے اور انسان کو آزادی و اختیار دیا ہے، تاکہ اس آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سعی و کوشش کرے اور اس کی بہترین تربیت ہوسکے، تاکہ خداوندعالم کا لطف و کرم اور اس کی رحمت شامل حال ہو اور خدا کی معرفت کے نتیجہ میںاس کی بھشت میں داخل ہوجائے۔

حضرت امیر المومنین دعائے کمیل کے اس حصہ میں خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: جو شخص مختلف مادّی اور معنوی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک حد تک خدا کی معرفت حاصل کرلیتا ہے اور اس کی ربوبیت و تربیت کے جلووں کو قبول کرلیتا ہے، جس کو خداوندعالم نے اپنے قرب کی بارگاہ اور فضائے رحمت میں پناہ دی ہے، تو بہت بہت بعید ہے کہ تو اس کو تباہ و برباد کرے اور اس کو برائیوں اور فساد کے حوالے کردے، اور چونکہ خدا نے پناہ دی ہے لہٰذا اب مجھے کیسے بھگادے گا؟!حالانکہ تو نے ہی مجھ پر فضل وکرم کیا اور اپنے رحمت کے زیر سایہ قرار دیا، تو کیا مجھے بلاء و مصیبت اور سختیوں کی خطرناک موجوں کو حوالے کردے گا؟!

تو اس قدر مھربان اور اس قدر کریم و بزرگوار ہے کہ جب انسان بہت سے گناھوں میں ملوث ہوجاتا ہے، اس موقع پر خطاب کرتا ہے:

نَادَیتُمُونِی فَلَبَّیتُکُم سَالتُمونِی فَاعطَیتُکُم،بَارَزتُمُونِی فَامهَلتُکُم ،تَرَکتُمُونِی فَرَعیتُکُم، عَصَیتُمُونِی فَسَتَرتُکُم ،فَاِن رَجَعتُم اِلیَّ قَبِلتُکُم ،وَاِن ادبَرتُم عَنِّی انتَظَرتُکُم،انَا اجوَدُ الاجوَدِینَ وَاکرَمُ الاکرَمِینَ وَارحَمُ الرَّاحِمِینَ “[۲۴]

”(اے میرے بندو!) تم نے مجھے پکارا میں نے جواب دیا، تم نے مجھ سے طلب کیا تو میں نے عطا کیا، میری مخالفت کی تو میں نے تھیں (توبہ کی) مھلت دی، تم نے مجھے چھوڑ دیا میں نے تمھاری رعایت کی، تم نے میری معصیت کی میں نے تمھاری پردہ پوشی کی، اگر اب بھی میری طرف پلٹ کر آجاؤ تو میں تمھیں قبول کرلوں گا، اور اگر مجھ سے منھ موڑ لیا تو میں تمھارا انتظار کرتا رھوں گا، میں سب سے زیادہ بخشنے والا اور سب سے زیادہ کریم و مھربان ہوں“۔

جناب موسیٰ (ع)اور قارن

علامہ مجلسی رحمة اللہ علیہ نے علی بن ابراھیم قمی سے اس طرح روایت کی ہے: جب قارون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کو جھٹلایا، اور زکوٰة دینے سے انکار کردیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تھمت لگائی ، تو حضرت موسیٰ نے پروردگار عالم کی خدمت میں شکایت کی، اس وقت آواز قدرت آئی: میں نے زمین و آسمان کو حکم دیدیا ہے کہ تیری اطاعت کریں، جو حکم بھی دینا چاھو دے سکتے ہو، (وہ اطاعت کریں گے)

جناب موسیٰ علیہ السلام قارون کے محل کی طرف روانہ ہوئے، جبکہ قارون نے اپنے خادموں کو حکم دیا تھا کہ موسیٰ کے لئے دروازہ نہ کھولنا، جس وقت جناب موسیٰ قارون کے محل پر پھنچے تو دیکھا کہ دروازہ بند ہے، جناب موسیٰ نے دروازے کی طرف اشارہ کیا تو تمام دروازے کھل گئے۔ جیسے قارون کی نگاہ جناب موسیٰ پر پڑی فوراً سمجھ گیا کہ موسیٰ عذاب کے ساتھ وارد ہوئے ہیں، تو اس نے کھا: اے موسیٰ! تمھیں ہمارے درمیان موجود رشتہ داری کا واسطہ ، مجھ پر رحم کرو، اس وقت جناب موسیٰ علیہ السلام نے کھا: اے پسر لاوی! مجھ سے بات نہ کر کیونکہ اب یہ تیری باتیں کوئی فائدہ نہیں دےں گی۔ اس وقت زمین کو حکم دیا: قارون کو نگل جا! فوراً پورا قصر اور جو اس میں موجود تھا، زمین میں دھنستا چلا گیا، قارون نے ایک بار پھر روتے ہوئے جناب موسیٰ کو رشتہ داری کا واسطہ دیا ، لیکن جناب موسیٰ نے جواب دیا: اے پسر لاوی! مجھ سے بات نہ کر۔ قارون نے بہت زیادہ استغاثہ کیا لیکن جناب موسیٰ علیہ السلام جو اس نا اہل کی حرکتوں سے رنجیدہ تھے؛ انھوں نے اس کی ایک نہ سنی۔ (اور وہ زمین میں دھنستا چلا گیا)

قارون کی ہلاکت کے بعد جب جناب موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر گئے، تو اس وقت خداوندعالم نے فرمایا: اے موسیٰ! قارون اور اس کی قوم نے تم سے استغاثہ اور فریاد کی لیکن آپ نے نہ سنی، مجھے میری عزت و جلالت کی قسم ! اگر(اس موقع پر بھی) وہ مجھ سے فریاد کرتا مجھ سے مدد مانگتا تو میں اس کی فریاد رسی کرتا، لیکن چونکہ اس نے تم سے فریاد کی اور تم سے توسل کیا لہٰذا اس کو تمھارے حوالے چھوڑ دیا!!

حق تعالیٰ گفت: قارون زار زار

خواند ای موسیٰ تو را ہفتاد بار

تو ندادی ہیچ بار او را جواب

گر بہ زاری یک رھم کردی خطاب

گر تو او را آفریدہ بودہ ای

در عذابش آرمیدہ بودہ ای

آنکہ بر بی رحمتان رحمت کند

اہل رحمت را ولی نعمت کند[۲۵]

(ترجمہ :خداوندعالم نے جناب موسیٰ سے کھا: اے موسیٰ ! تمھیں قارون نے روتے ہوئے ۷۰ مرتبہ پکارا۔

لیکن تم نے اس کی ایک مرتبہ بھی نہیں سنی، اس کے رونے اور چلانے کیسے تمھیں رحم نہ آیا۔

اگر تم نے اسے پیدا کیا ہوتا تو اس کو عذاب اور سزا کس طرح دیتے!!

جو شخص دوسروں پر رحم کرے اس پر خداوندعالم رحم کرتا ہے)

ماں اور عاق شدہ بیٹا

”تفسیر نیشاپوری“میں بیان ہوا ہے: حضرت رسول اکرم (ص)کے زمانہ میں ایک جوان کا آخری وقت آن پھنچا۔ آنحضرت سے درخواست کی گئی کہ اس جوان کی عیادت فرمائیں۔ چنانچہ آنحضرت اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے، دیکھا تو اس کی زبان ”شھادتین“ کی گواھی دینے کے لئے بند ہے!

آنحضرت نے سوال کیا: کیا یہ جوان تارک نماز ہے؟ لوگوں نے کھا نھیں۔

فرمایا: کیا زکوٰة نہیں دیتا تھا؟ لوگوںنے کھا: دیتا تھا۔

فرمایا: کیا باپ نے اسے عاق کیاھے؟ لوگوں نے کھا نھیں۔

فرمایا: کیا ماں کا عاق شدہ ہے۔ تو لوگوں نے جواب دیا: ہاں یا رسول اللہ۔

فرمایا: اس کی ماں کو بلایا جائے، اور جب وہ آگئی تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس سے بیٹے کو معاف کرنے کے لئے کھا۔

ماں نے کھا: میں کس طرح اس کو معاف کردوں، اس نے میری صورت پر طمانچہ مارا ہے،اور میری آنکھ خراب کردی ہے۔

اس وقت آنحضرت نے کھا: آگ لائی جائے، تو اس کی ماں نے فوراً سوال کیا: آگ کا کیا کیجئے گا؟ تو آنحضرت نے فرمایا: اس جوان کو سزائے اعمال تک پھنچایا جائے گا، اور اس کو جلایا جائے گا!

یہ سن کر ماں پکار اٹھی: میںاس کو جلانے پر ہرگز راضی نہیں ہوں ،کیونکہ میں نے اس کو نوماہ اپنے شکم میں رکھا ہے، اور اپنی جان کی بازی لگاکر اس کی تربیت کی ہے، اور دوسال تک دودھ پلایا ہے،سالوں تک یہ میرے پاس رھا ہے، اگر اس کو جلانے کی بات ہے تو میں اس کو معاف کئے دیتی ہوں، تاکہ وہ جلنے سے بچ جائے۔

قارئین کرام! جب مجازی تربیت کرنے والی ماں اس بات پر راضی نہیں ہے کہ اس کاگناھگار بیٹا آگ میں جلایا جائے، تو پھر حقیقی پالنے والا جس نے انسان کے ہر نقص اور کمی کو دور کرکے اسے منزل کمال تک پھنچایا، اگر وہ جھالت ونادانی اور ارادہ کی کمزوری کے تحت لغزشوں سے دوچار ہوجائے کیا وہ اپنے بندے کو آگ میں جلانے پر راضی ہوسکتا ہے ؟

هَیْهٰاتَ،انْتَ اکْرَمُ مِنْ انْ تُضَیِّعَ مَنْ رَبَّیْتَهُ “۔

حق نمک

”ایک روایت ہے : ”یزید بن مھلب“ کا شھر خراسان کے ایک بزرگوار بنام ”وکیع“ پر کچھ قرض تھا، اس نے اس وکیع کے نمائندہ سے اپنا قرض لینے کے لئے ایک شخص کو بھیجا، چنانچہ اس شخص نے وکیع کے نمائندہ پر سختی کی اور اس کو اذیت دی۔

ایک روز یزید بن مھلب کا نمائندہ، وکیع کے نمائندہ کو یزید بن مھلب کے پاس لے گیا تاکہ قرض ادا کرنے کے لئے مزید فرصت طلب کرے؛ اس وقت کھانے کے لئے دسترخوان بچھایا گیا، یزیدبن مھلب کے نمائندہ نے وکیع کے نمائندہ سے کھا:

اٹھو اور یھاں سے باھر نکل جاؤ۔ اس وقت وکیع کے نمائندہ نے کھا: چاھے میرے ہاتھ پیر توڑ ڈالو لیکن جب تک یھاں کھانا نہ کھالوں نہیں اٹھوں گا، اور کھانا کھانا شروع کردیا، کھانا کھانے کے بعد اس نے یزید بن مھلب سے مھلت مانگی، تو یزید بن مھلب نے اپنے نمائندہ سے کھا: اب وکیع کے نمائندہ سے قرض کا مطالبہ نہ کرنا، چونکہ اس نے ہمارے دسترخوان سے کھانا کھایا ہے اور ہمارا نمک چکھ لیا ہے، ہماری غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ اب اس کو اذیت دی جائے“۔

قارئین کرام ! یقینا وہ بندہ جس نے اپنے کریم مولا اللہ تعالیٰ کا مادی او رمعنوی نمک کھایا ہے تو اس کا لطف وکرم اور رحمت و بزرگواری اس کو عذاب میں جلانے کا اقتضاء نہیں کرتی ہے۔

میزبان پر مھمان کا حق

ارباب تاریخ نے لکھا ہے: ”معن بن زائدہ“ جو ایک بڑا سردار تھا؛ اس کے پاس کسی جگہ سے تین سو قیدی لائے گئے۔ معن نے ان سب کو قتل کرنے کا حکم دیدیا۔ اسیروں کے درمیان سے ایک نوجوان جو ابھی سن بلوغ تک نھیںپھنچا تھا اس نے کھا:

اے امیر! تجھے خدا کا واسطہ ، جب تک ہمیں تھوڑا تھوڑا پانی نہ پلادے اس وقت تک ہمیں قتل نہ کر۔ معن نے کھا: سب کو پانی پلادو۔ جب اسیروں نے پانی پی لیا، تو اس نوجوان نے کھا: اے امیر! اب ہم تیرے مھمان ہوگئے ہیں، اور مھمانوازی کرنا شرافت وبزرگی کی نشانی ہے۔ چنانچہ اس وقت معن نے کھا: تو نے سچ کھا، اور اسی موقع پر سب کو آزاد کرنے کا حکم صادر کردیا۔

جی ہاں! جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے بیان کیا ہے، بہت زیادہ بعید ہے کہ وہ خدائے مھربان جس نے بندوں کو اپنے دسترخوان سے مادّی اور معنوی نعمتیں کھلائی ہیں ؛ وہ ان کو عذاب میں بھی مبتلا کرے گا۔!!

”وَلَیْتَ شِعْري یٰاسَیِّدي وَالٰهي وَمَوْلٰايَ اتُسَلِّطُ النّٰارَعَلٰی وُجُوهٍ خَرَّتْ لِعَظَمَتِکَ سٰاجِدَةً،وَعَلٰی الْسُنٍ نَطَقَتْ بِتَوْحیدِکَ صٰادِقَةً، وَبِشُکْرِکَ مٰادِحَةً،وَعَلٰی قُلُوبٍ اعْتَرَفَتْ بِالٰهِیَّتِکَ مُحَقِّقَةً، وَعَلٰی ضَمٰائِرَحَوَتْ

مِنَ الْعِلْمِ بِکَ حَتّٰی صٰارَتْ خٰاشِعَةً،وَ عَلٰی جَوٰارِحَ سَعَتْ الٰی اوْطٰانِ

تَعَبُّدِکَ طٰائِعَةً،وَاشٰارَتْ بِاسْتِغْفٰارِکَ مُذ ْعِنَةً مٰاهٰکَذَاالظَّنُّ بِکَ،وَلاٰاُخْبِرْنٰابِفَضْلِکَ عَنْکَ یٰاکَریمُ،یٰارَبِّ“

”میرے سردار ۔میرے خدامیرے مولا ! کاش میں یہ سوچ بھی سکتا کہ جو چھرے تیرے سامنے سجدہ ریز رھے ہیں ان پر بھی توآگ کو مسلط کردے گا۔اور جو زبانیں صداقت کے ساتھ حرف توحید کو جاری کرتی رھی ہیں اور تیری حمد وثنا کرتی رھی ہیں یا جن دلوں کو تحقیق کے ساتھ تیری خدائی کا اقرار ہے یا جو ضمیر تیرے علم سے اس طرح معمور ہیں کہ تیرے سامنے خاضع وخاشع ہیں یا جو اعضاء و جوارح تیرے مراکز عبادت کی طرف ہنسی خوشی سبقت کرنے والے ہیں اور تیرے استغفا ر کو یقین کے ساتھ اختیار کرنے والے ہیں ؛ ان پر بھی تو عذاب کرے گا!!ھر گز تیرے بارے میں ایسا خیال بھی نہیں ہے اور نہ تیرے فضل وکرم کے بارے میں ایسی کو ئی اطلاع ملی ہے، یا کریم و یا رب“۔

مکمل عبادت

تمام عبادتوں میںجس عبادت کو جامع اور کامل عبادت کھا جاسکتا ہے وہ صرف نماز ہے، نمازی ؛ نماز کے ذریعہ اپنے مکمل خضوع و خشوع اور تواضع و انکساری کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوتا ہے، نماز کے ذریعہ خدا کی توحید اور اس کی یکتائی کا اقرار کرتا ہے، نمازی اسی نماز کے ذریعہ خداوندعالم کی بارگاہ میں اس کی نعمتوں کاشکریہ اداکرتا ہے۔ اور معرفت کی بنیاد پر اس کی خدائی کا اعتراف کرتا ہے، اور نمازی کے اعضاء و جوارح اس کے ارادہ کے تحت مکمل شوق کے ساتھ مساجد، خانہ کعبہ اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور ائمہ معصومین کے روضوں پر حاضری دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ،وہ اہل معرفت جنھوں نے خدا کو ،خود اپنے وجودکو اور اپنی غرض خلقت کو ایک حد تک پہچان لیا ہے۔ اس کی عظمت کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہےں، خلوت و بزم، سکون اور پریشانی کے عالم میں اسی کی یکتائی کا اقرار کرتے ہےں، زبان حال اور زبان مقال سے اس کی بے شمار نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہےں، اپنے نورانی دل اورمستحکم قلب میں تحقیق و معرفت کی بنیاد پر اس کی الوھیت کا اقرار کرتے ہےں، اس کی معرفت سے مملو باطن سے اس کی درگاہ باعظمت میں خضوع کرتے ہےں اور اس کی رضاء اور خوشنودی کو حاصل کرنے کے لئے اپنے اعضاء و جوارح سے مساجد و عبادت گاھوں میں جاتا ہے۔

یہ افراد کس طرح خداوندعالم کی نسبت بدگمان ہوسکتے ہیں؟ اور کیوں اس سے حسن ظن نہ رکھیں؟ کس نبی و پیغمبر، کس امام اور کس آسمانی کتاب نے یہ بیان کیا ہے کہ خدا ایسے بندوں کو عذاب میں مبتلا کرے گا،اور ایسے چھروں، زبانوں، دلوںاور اعضاء و جوارح کو آتش جھنم میں جلائے گا؟!

اس طرح کے افراد کو انبیاء، ائمہ علیھم السلام اور آسمانی کتابوںنے خبر دی ہے کہ مومنین، اعمال صالحہ انجام دینے والے اور بہترین کردار سے آراستہ افراد اگرچہ کھیں کھیں ان کے قدموں میں لغزش پیدا ہوگئی ہو لیکن وہ ان کو توبہ اور مغفرت کے ذریعہ جبران کردیتے ہیں، وہ لوگ ہرگز آتش جھنم اور فراق محبوب کی آگ میں نہیں جلائے جائیں گے۔

قارئین کرام! اب ہم یھاں پر جامع ترین عبادت یعنی نماز کے بارے میں کچھ احادیث نقل کرتے ہیں اور خداوندعالم کی بارگاہ میں بصد عاجزی کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ ہم سب کو اس کے تمام شرائط خصوصاً خلوص کے ساتھ انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمیں عذاب سے نجات مل سکے۔(آمین یا رب العالمین)

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے نماز کے سلسلے میں درج ذیل احادیث بیان ہوئی ہیں:

الصَّلاةُ مِن شَرایِعِ الدِّینِ،وَفِیهَا مَرضَاةُ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ،وَهِیَ مِنْهَاجُ الانْبِیاءِ “[۲۶]

”نمازدینی قانون ہے اس میں پروردگار عالم کی خوشنودی ہے اور نماز انبیاء علیھم السلام کا راستہ ہے“۔

جَعَلَ اللَّهُ جَلَّ ثَناوهُ قُرَّةَ عَیْنِی فِی الصَّلاةِ ،وَحَبَّبَ اِلَیَّ الصَّلاةَ کَمَا حَبَّبَ اِلَی الجائِعِ الطَّعَامَ،وَاِلَی الظَّمآنِ المآءَ، وَاِنَّ الجائِعَ اِذَااکَلَ شَبِعَ ،وَاِنَّ الظَّمآنَ اِذَا شَرِبَ رَوِیَ،وَانا لا اشْبَعُ مِن الصَّلاةِ “[۲۷]

”وہ خداوند عالم ، جس کی بڑی تعریفیں ہیں؛ اس نے نماز کو میری آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے، اور اس نے میرے لئے نماز کو محبوب قرار دیا ہے، جیسا کہ بھوکے کے لئے کھانا اور پیاسے کے لئے پانی محبوب ہوتا ہے، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ جب بھوکا کھانا کھالیتا ہے اور پیاسا پانی پی لیتا ہے تو سیر ہوجاتا ہے، لیکن میں نماز سے سیر نہیں ہوتا“۔

اِذَا قُمتَ اِلَی الصَّلاةِ وَ تَوَجَّهتَ وَقَرَاتَ امَّ الکِتابِ وَمَا تَیَسَّرَ مِنَ السُّوَرِ ثُمَّ رَکَعتَ فَاتمَمتَ رُکُوعَها وَ سُجودَها وَ تَشَهَّدتَ وَسَلَّمتَ ،غُفِرَلَکَ کُلُّ ذَنْبٍ فیمَا بَینَکَ وَ بَیْنَ الصَّلاةِ الَّتِی قَدَّمتَها اِلی الصَّلاةِ المُوخَّرَةِ “[۲۸]

”جب تم نماز کے لئے تیارھو،اور قبلہ کی طرف رخ کرلو اور سورہ حمد و دوسرا سورہ پڑھ چکو، اس کے بعد رکوع و سجدہ کیا اور رکوع و سجدے بجالاکر تشھد و سلام پڑھ چکو، تو اس نماز اور دوسری نماز کے درمیان تمھارے گناہ بخش دئے جائیں گے“۔

اسی طرح حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے نماز کے متعلق درج ذیل احادیث منقول ہوئی ہیں:

الصَّلاةُ تَستَنْزِلُ الرَّحْمَةَ “[۲۹]

”نماز کے ذریعہ رحمتیں نازل ہوتی ہیں“۔

الصَّلاةُ قُربَانُ کُلِّ تِقیٍّ “[۳۰]

”نماز ، ہر پرھیزگار شخص کو خدا سے نزدیک کرنے والی ہے“۔

اوصِیکُم بِالصَّلاةِ وَحِفْظِهَا،فَاِنَّها خَیْرُ العَمَلِ وَهِیَ عَمُودُ دِینِکُم “[۳۱]

”میں تم کو نماز قائم کرنے واور اس کی حفاظت کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ نماز بہترین عمل اور دین کا ستون ہے“۔

اِنَّ الِانسانَ اِذَا کَانَ فِی الصَّلاةِ فَاِنَّ جَسَدَهُ وَثِیَابَهُ وَکُلَّ شَیْءٍ حَولَهُ یُسَّبِّحُ “[۳۲]

”جب انسان نماز کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کے جسم و لباس اور جو چیز بھی اس کے اطراف میں موجود ہوتی ہے، وہ تسبیح پرودرگار کرتی ہے“۔

یَاکُمیلُ!لَیسَ الشَّانُ ان تُصَلِّیَ وَتَصُومَ وَ تَتَصَدَّقَ،اِنَّما الشَّانُ ان تَکُونَ الصَّلاةُ فُعِلَت بِقَلبٍ نَقِیٍّ،وَعَمَلٍ عِندَاللّٰهِ مَرضِیٍّ،وَخُشوعٍ سَوِیٍ “[۳۳]

”اے کمیل! نماز پڑھ لینا یا روزہ رکھ لینا اور صدقہ دینا کافی نہیں ہے، بلکہ نماز پاک دل سے پڑھی جائے اور اور کسی بھی کام کو خوشنودی خدا کے لئے انجام دیا جائے، اور خدا کے سامنے (ھر حال میں) خشوع و خضوع کے ساتھ رھا جائے“۔

نماز کے دنیاوی و اُخروی فائدوں کو حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم کے بعد شیعہ معتبر کتابوں جیسے: ”کتب اربعہ“، ”وسائل الشیعہ“ وغیرہ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

خدا سے حسن ظن رکھنا

حقیقت میںجو انسان ایک حد تک ایمان، عمل صالح اور اخلاق سے مزین ہواور انھیں چیزوں میں اپنی عمر کو تمام کرنا چاہتاھو، تو اس کوخداوندعالم کے لطف وکرم اور حمت و مغفرت کی نسبت حسن ظن رکھنا چاہئے؛ یعنی: اسے چاہئے کہ روز قیامت عذاب کے خوف کے ساتھ ساتھ اپنے کو یہ بشارت بھی دے کہ اس کا مولائے حقیقی ، وقت موت، عالم برزخ اور قیامت کے دن اس کے ساتھ لطف و کرم سے کام لے گا،اور اس کے گناھوں کو بخش دے گا، اور اس کے دینی کاموں کو قبول کرے گا، نیز اس کے لئے بھشت کے دروازے کھول دے گا، اور اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرے گا“۔

حضرات ائمہ معصومین علیھم السلام سے منقول روایت میں حسن ظن کو نیک کاموں کا نتیجہ بتایا گیا ہے:

قَالَ عَلِیٌّ علیه السلام: حُسنُ الظَّنِ ان تُخْلِصَ العَمَلَ، وَ تَرجُوَ مِنَ اللّٰهِ اَنْ یَعْفُوَعَنِ الزَّلَلِ “[۳۴]

”حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:(خدا سے) حسن ظن یہ ہے کہ اپنے نیک کاموں میں خلوص نیت سے کام لو اور خدا سے اپنے گناھوں کی بخشش و مغفرت کی امید رکھو“۔

عَن الصَّادِقِ علیه السلام:حُسنُ الظَّنِ بِاللّٰهِ ان لَا َترجُوَ اِلاَّ اللّٰهَ وَلا تَخافَ اِلاَّ ذَنبَکَ “[۳۵]

”حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: خدا سے حسن ظن یہ ہے کہ انسان خدا کے علاوہ کسی غیر سے امید نہ رکھے،اور اپنے گناھوں کے علاوہ کسی اور چیز سے نہ ڈرے“۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) حسن ظن کے بارے میں یوں ارشاد فرماتے ہیں:

وَالَّذِی لَااِلهَ اِلاَّ هُو ،لَا یَحُسنُ ظَنُّ عَبدٍ مُومِنٍ بِاللّٰهِ اِلاَّ کَانَ اللّٰهُ عِندَ ظَنِّ عَبْدِهِ المُومِنِ؛لِانَّ اللّٰهَ کَریمٌ بِیَدِهِ الخَیرَاتُ ، یَسْتَحیِی ان یکونَ عَبدُهُ المُومِنُ قَد احْسَنَ بِهِ الظَّنَّ ثُمَّ یُخلِفُ ظَنَّهُ وَرَجاهُ، فَاحسِنُوا بِاللّٰهِ الظَّنَّ وَارْغَبُو اِلَیْهِ “[۳۶]

”قسم اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے،کسی بھی بندہ مومن کا گمان خدا کی نسبت نیک نہیں ہوسکتا مگر یہ کہ گمان کرنے والا بندہ خدا پر ایمان رکھتا ہو،اس لئے خداوندعالم کریم ہے اور تمام خوبیاںاسی کے دست قدرت میں ہےں، کیونکہ جب بندہ مومن خدا سے نیک گمان کرتا ہے تو خدا کو شرم محسوس ہوتی ہے کہ اس کے نیک گمان سے خلاف ورزی کرے، پس خداسے نیک گمان کرو اور اس کے مشتاق رھو“۔

نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:

لَایَمُوتَنَّ احَدُکُم حَتَّی یَحْسُنَ ظَنُّهُ بِا للّهِ عَزَّ وَجَلَّ ؛فَاِنَّ حُسنَ الظَّنِّ بِاللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ ثَمَنُ الجَنَّةِ “[۳۷]

”تم سے کوئی شخص اس دنیا سے نہیں جاتا مگر یہ کہ خدا سے حسن ظن رکھتا ہو، چونکہ خدا وندعالم سے حسن ظن رکھنا، بھشت کی قیمت ہے“۔

نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے:

حُسنُ الظَنِّ بِاللّٰهِ مِن عَبادَةِ اللّٰهِ “[۳۸]

”خداوندعالم پر حسن ظن رکھنا، اس کی عبادت ہے“۔

”وَانْتَ تَعْلَمُ ضَعْفيعَنْ قَلیلٍ مِنْ بَلاٰءِ الدُّنْیٰاوَعُقُوبٰاتِهٰا،وَمٰا

یَجْرِي فیهٰامِنَ الْمَکٰارِهِ عَلٰی اهْلِهٰا،عَلٰی انَّ ذٰلِکَ بَلاٰءٌ

وَمَکْرُوهٌ قَلیلٌ مَکْثُهُ،یَسیرٌبَقٰائُهُ،قَصِیرٌمُدْتُهُ،فَکَیْفَ احْتِمٰالِي

لِبَلاٰءِ الْآخِرَةِ ، وَجَلیلِ وُقُوعِ الْمَکٰارِهِ فیهٰا،وَهُوَبَلاٰءٌ تَطُولُ مُدَّتُهُ،

وَیَدُومُ مَقٰامَهُ،وَلاٰیُخَفَّفُ عَنْ اهْلِهِ،لِانَّهُ لاٰیَکُونُ الاّٰ عَنْ غَضَبِکَ

وَانْتِقٰامِکَ ، وَسَخَطِکَ،وَهٰذٰا مٰالاٰتَقُومُ لَهُ السَّمٰاوٰاتُ وَالْاَرْضُ،

یٰا سَیِّدِي،فَکَیْفَ لي وَانٰاعَبْدُکَ الضَّعیفُ الذَّلیلُ

الْحَقیرُ الْمِسْکینُ الْمُسْتَکینُ“

” پروردگار اتو جانتا ہے کہ میں دنیا کی معمولی بلا اور ادنیٰ سی سختی کو برداشت نہیں کر سکتا اور میرے لئے اس کی ناگواریاں ناقابل تحمل ہیں جب کہ یہ بلائیں قلیل اور ان کی مدت مختصر ہے۔

تو میں ان آخرت کی بلاوں کو کس طرح برداشت کروں گا جن کی سختیاں عظیم،جن کی مدت طویل اور جن کا قیام دائمی ہے۔جن میں تخفیف کا بھی کوئی امکان نہیں ہے اس لئے کہ یہ بلائیں تیرے غضب اور انتقام کا نتیجہ ہیں اور ان کی تاب زمین وآسمان نہیں لاسکتے، تو میں ایک بندہ ضعیف و ذلیل و حقیر ومسکین وبے چارہ کیا حیثیت رکھتا ہوں؟!

دنیا و آخرت کی بلائیں

دنیا کی بلائیں اور مصیبتیں آخرت کی کی بلاؤں اور مصیبتوں سے چند لحاظ سے فرق رکھتی ہیں، جیسا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

اول: دنیا کی مصیبتیں اور بلائیں جیسے طوفان، زلزلہ، سیلاب، خشک سالی، قحطی، مھنگائی اور انسانی بیماریاںکم نقصان دہ اور کم مدت کے لئے ہوتی ہیں، لیکن آخرت کی بلائیں اور مصیبتیں عرصہ دراز کے لئے اور جاودانہ ہوتی ہیں۔

دوم: کبھی بلائیں انسان کے لئے امتحان کا پھلو رکھتی ہیں ، جن پرانسان کو صبر و ضبط سے کام لینا چاہئے تاکہ اس صبر کی وجہ سے اس کے ایمان میں اضافہ ہوجائے، اور خدا کی طرف سے عظیم ثواب کا مستحق بن جائے، نیز رضائے الٰھی حاصل ہوجائے، جیسا کہ انبیاء علیھم السلام نے اپنی قوم کے آزارو اذیت پر صبر کیا ہے، صبر و استقامت کی مثال جناب آسیہ، مومن آل فرعون، حبیب نجّار اور راہ خدا کے دیگر مجاھدین نے پیش کی ہے، لیکن آخرت کی بلائیں اور مصیبتیں صرف اور صرف گناہ و معصیت اور خدا کے نافرمانی کی سزا کا پھلورکھتی ہیں۔

اور یہ کہ آخرت کی بلائیں و مصیبتیں امتحان و آزمائش کا پھلو نہیں رکھتی، بلکہ انجام دئے ہوئے اعمال کی سزا ہوتی ہیں، اور ان پر سزا کا تصور بھی نہیں پایا جاتا، اور بفرض محال اگر کسی نے اس عذاب اور سزا پر صبر کر بھی لیا تو اس کا کوئی اجر و ثواب نہیں ہوگا!!

قرآن مجید میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر انسان خدا و رسول کی اطاعت میں صبر و استقامت کا اظھار کرے اور گناھوں کے مقابلہ میں صبر سے کام لے تو اس کو خدا وندعالم کی معیت (یعنی ہمراھی)حاصل ہوجاتی ہے۔

چنانچہ ارشاد خداوندعالم ہوتا ہے:

”۔۔۔( وَاصْبِرُوا اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّابِرِینَ ) ۔“[۳۹]

”اور صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے “۔

قرآن مجید نے صابرین کو بشارت دی ہے اور ان کو خدا کی صلوات و رحمت اور مغفرت کا مستحق قرار دیا ہے۔[۴۰]

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے:

الصَّبرُ ثَلاثةٌ:صَبرٌ عِندَ المُصِیبَةِ ،وَصَبرٌ عَلَی الطَّاعَةِ، وَصَبرٌعَنِ المَعْصِیَةِ “۔[۴۱]

”صبر ، تین طرح کا ہوتا ہے: مصیبت کے وقت صبر،( خدا و رسول کی)اطاعت پر صبر اور گناہ و معصیت کے مقابلہ میں صبر“۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے صابرین کی تفسیر میں بیان فرمایا ہے: صابرین وہ لوگ ہیں جو خدا (و رسول) کی اطاعت اور گناہ و معصیت پر صبر کریں، حلال طریقہ سے رزق و روزی حاصل کریں، حد اعتدال میں رہ کر راہ خدا میں خرچ کریں،اور اپنے خرچ سے باقی ماندہ مال و دولت کو آخرت کے لئے بھیج دیں، اس وقت صابرین کامیاب وکامران ہیں۔[۴۲]

عذاب برزخ اور قیامت

قرآن مجید کی بہت سی آیات خصوصاً تیسویں پارے کی آیات برزخ اور قیامت کے مختلف عذاب کے بارے میں اشارہ کرتی ہیں، اسی طرح بہت سی روایات میں بھی اس عذاب کے بارے میں بیان موجود ہے۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام دشمنان خدا کے بارے میں فرماتے ہیں:

”۔۔۔ اور جو شخص دشمن خدا ہوگا، اس پر ایک ایسا بدترین شکل کا فرشتہ جس کے بدن سے بدترین بدبو آرھی ہوگی؛ وہ اس سے آکر کھے گا: تجھے بشارت ہو بہت زیادہ کھولتے ہوئے پانی پینے کی اور جھنم میں داخل ہونے کی۔ دشمن خدا اپنے غسل دینے والے اور جنازہ اٹھانے والوں کو اچھی طرح جانتا ہے، ان کو قسم دے کر کھے گا: مجھے قبر کے حوالے نہ کرو، لیکن جب اس کو قبر کے حوالے کردیا جائے گا، تو دو فرشتے سوال کرنے کے لئے اس پر وارد ہونگے اور اس کا کفن ہٹاکر اس سے کھیں گے: تیرا خدا کون ہے، تیرا دین کیا ہے؟ او رتیرے پیغمبر کون ہیں۔ تو جواب دے گا: میں کچھ نہیں جانتا، دو فرشتے کھیں گے:تو نہیں جانتا ۔ پس اس کی زبان باھر نکلواکر اس پر کوڑے لگائیں گے، اور اس طرح ماریں گے جس سے ہر جاندار چیز خوف و وحشت زدہ ہوجائے، جن و انس اس کی آواز کو نہیں سنتے۔اس وقت یھی فرشتے اس کی قبر سے جھنم کی طرف ایک دروازہ کھول دیں گے، اور اس سے کھیں گے: اسی بدترین حالت میں لیٹا رہ، اور اس کو اس طرح فشار قبر دیں گے کہ اس کا مغز اس کے ناخن اور گوشت کے ذریعہ باھر نکلے گا، اور خداوندعالم اس پر زمین کے سب سے خطرناک سانپ اور بچھو کو مسلط کردے گا، اور وہ قیامت تک اس کو اسی طرح اذیت دیتے رھیں گے۔[۴۳]

اسی طرح شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے عذاب دوزخ کے بارے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے درج ذیل روایت نقل کی ہے:

”اہل جھنم دردناک عذاب کی سختیوں سے کتّوں اور بھیڑیوں کی طرح فریاد کریں گے، وھاں پر کسی کو موت نہیں آئے گی، ان کے عذاب میں کوئی تخفیف نہیں ہوگی، وھاں انھیں ہمیشہ بھوک و پیاس لگتی رھے گی، ان کی آنکھیں کمزور اور ان میں روشنی کم ہوگی،گونگے، بھرے اور اندھے ہوں گے، ان کے چھرے سیاہ ہوں گے، پشیمان ، مطرود اور غضب پروردگار میں مبتلا ہوں گے،ان پر کسی طرح کا رحم نہیں کیا جائے گا، اور ان کے عذاب میں تخفیف نہیں ہوگی،دوزخ ان کو جلائے گا اور ان کے پینے کے لئے کھولتا ہوا پانی ہوگا، علاوہ براین ان کے پینے کے لئے ایک بہت بدبودار اور زھر سے بدتر چیز ہوگی، ان پر آگ کے کوڑے برسائے جائیں گے، اور بڑے بڑے ہتھوڑوں سے ٹھوکا جائے گا، غضب کے فرشتے ان پر (ذرابھی) رحم نہیں کریں گے، ان کے چھرے جھلسے ہوئے ہوں گے، اور وہ لوگ شیطان کے ہم نشین ہوں گے،ان کو طوق و زنجیروں میں باندھا جائے گا، اگر وہ دعا (بھی) کریں گے تو قبول نہیں ہوگی، اگر ان کی کوئی حاجت ہوگی تو اس کو پورا نہیں کیا جائے گا، یہ ہے حال اہل جھنم کا ![۴۴]

علی بن ابراھیم قمی اپنی تفسیر میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں:

ایک روز جناب رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تشریف فرماتھے، کہ فرشتہ وحی جناب جبرئیل امین غمگین اور حزن و ملال کے عالم میں نازل ہوئے، ان کا چھرہ متغیر تھا، پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے سوال کیا: اے جبرئیل ! حزن و ملال کی وجہ کیا ہے؟ توجناب جبرئیل نے کھا: میں کیسے پریشان اور ملول نہ ہوں، آج خداوندعالم نے ”منافیخ دوزخ“ کو معین کیا ہے، آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: ”منافیخ دوزخ“ کیا ہیں؟

جبرئیل نے کھا: خداوندعالم نے آتش جھنم کو حکم دیا کہ ہزار سال تک جلے تاکہ سرخ ہوجائے، اس کے بعد دوسرا حکم دیا کہ ہزار سال تک جلے تاکہ سفید ہوجائے، اس کے بعد حکم دیا کہ ہزار سال جلے تاکہ سیاہ ہوجائے اور وہ سیاہ و تاریک مادہ بغیر روشنی کے ہے، اگر اس کی زنجیر کے ستّر ذراع کے حلقہ کو زمین پر رکھ دیا جائے تو ساری دنیا پگھل جائے گی، اور اگر ”زقّوم و ضریع“کا ایک قطرہ دنیا کے پانی میں ملادیا جائے تو تمام اہل زمین اس کی بدبو سے مرجائیں گے۔

اس وقت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور جبرئیل بہت روئے، یھاں تک کہ خداوندعالم نے ایک فرشتہ بھیجا کہ آپ کا پروردگار آپ پرسلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے: اگر (تمھاری امت) گناھوں کی مرتکب ہوئی تو اس کو اس عذاب سے محفوظ کردیا ہے۔[۴۵]

بدکاروں اور دشمنان خدا کو ایسی جگہ رکھا جائے گا کہ ہر طرف سے تنگی ہوگی اس کے راستے تاریک اور اس کی ہلاکت کے مراکز نامعلوم ہوں گے،اور ان کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسی جھنم میں ٹھکانہ ہوگا، اس کا شربت کھولتا ہوا پانی، اور ان کا مکان ”جحیم“ ہوگا، آگ کے شعلے اور اس کی لپٹیں گھیرے ہوں گی، ان کی آرزو موت ہوگی (لیکن موت کھاں؟!!) ان کی آزادی کا کوئی راستہ نہ ہوگا، ان کے پیروں کو ان کی پیشانی کے ساتھ باندھ دیا جاکے گا اور ان کے چھرے گناھوں کی تاریکی سے سیاہ ہوں گے، اور وھاں چلّاتے ہوں گے: اے داروغہ جھنم! ہم بے حال ہوچکے ہیں، داروغہ جھنم! زنجیروں نے ہمیں جکڑدیا ہے، اور ہماری کھال جلی جارھی ہے، لہٰذا ہمیں یھاں سے باھر نکال دے، کہ پھر کبھی گناہ نہیں کریں گے، اس وقت آگ کے شُعلے آواز دیں گے: یھاں سے تمھارا بھاگنا ممکن نہیں ہے، اب امان ملنے کی کوئی صورت نہیں ہے، یھاں سے باھر نکلنے کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند ہے، دور ہوجاؤ اور بکواس بند کرو، اگر تمھیں یھاں سے چھٹکارا مل بھی جائے تو تم پھر اسی طرح گناھوں میں ملوث رھوگے۔

اس موقع پر اہل دوزخ اپنی رھائی سے ناامید ہوجائیں گے، دنیا میں عبادت خدا کے سلسلہ میں کی ہوئی تقصیر کے بارے میں افسوس کریں گے، لیکن وہ پشیمانی ان کو نجات نہیں دے گی، اور ان کا غم و اندوہ سودمند ثابت نہیں ہوگا، ہاتھ پیر بندھے ہوئے ان کو زمین پر پھینک دیا جائے گا، اوپر ،نیچے، دائیں اور بائیں ہر طرف سے آگ ہی آگ ہوگی، ان کا کھانا آگ، پینا آگ، کپڑے آگ اور ان کا بستر بھی آگ ہی کا ہوگا۔

ان کو بھڑکتے ہوئے انگاروں، بدبودار گندے کپڑوں اورخطرناک گرز اور بھاری بھاری زنجیروں میں رکھا جائے گا، اور وہ چیخ رھے ہوں گے فریاد کریں گے اور موت کی تمنا کریں گے، لیکن جب بھی موت طلب کریں گے ان کے سر کے اوپر کھولتا ہوا پانی ڈالدیا جائے گا، اور آگ کے گرز مارے جائےں گے، ان کے منھ سے خون اور پیپ باھر نکلے گی، اور ان کا جگر پیاس کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا، ان کی آنکھیں باھر نکل آئیں گی، ان کے چھروں کی کھال اتر جائے گی، درد و تکلیف کی وجہ سے ان کے بال گرجائیںگے، جب ان کی کھال جل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری نئی کھال پیدا ہوجائے گی،ان کی ہڈیوں کا گوشت اتر جائے گا، ان کی آنکھیں اندھی، زبان گونگی اور ان کے کان بھرے ہوجائےں گے۔[۴۶]

قارئین کرام! آئیے خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:

پرورگارا! ان دردناک عذاب ،سختی اور پریشانیوں کو برداشت کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے، ہم تو تیرے ضعیف، کمزور، ذلیل، حقیر اور مسکین بندے ہیں!

اگر چہ میری عبادت کامل نہیں ہے، اور گناہ بھی کم نہیں ہے لیکن دل و جان سے تیرا عاشق ہوں۔ انبیاء(ع)اور ائمہ علیھم السلام کو دوست رکھتاھوں اور تیری عبادت و بندگی سے دورنھیں ہوں، میرا مشغلہ گناہ کرنا نہیں ہے، میرا کام خطا و عصیان نہیں ہے۔ اگر میرے گناہ زیادہ ہیں صرف ہوائے نفس اور شھوت کی وجہ سے ہیں، میں تیری کامل اور خالص عبادت انجام دینا چاہتا ہوں، میں تو یہ چاہتا ہوں کے میرا دامن ہر گناہ سے پاک ہو، میں شیطان اور طاغوت سے بیزار ہوں، ہوائے نفس کی شرارت سے نالاں ہوں۔ تیرے فراق کا مریض اور تیرے وصال کا بھوکا ہوں۔ پالنے والے ! مجھے معاف کردے، اور میری مدد فرما، مجھے میرے گناھوں سے چھٹکارا دے اور عبادت و بندگی میں مشغول کردے، مجھے آتش جھنم سے امان دیدے اورمیرے لئے بھشت کے دروازے کھول دے۔(آمین)

یٰاالٰهي وَرَبّي وَسَیِّدي وَمَوْلاٰيَ،لِايِّ الْاُمُورِالَیْکَ اشْکُو،وَلِمٰامِنْهٰااضِجُّ وَابْکی،لِالیمِ الْعَذٰابِ وَشِدَّتِهِ،امْ لِطُولِ الْبَلاٰءِ وَ مُدَّتِهِ،فَلَئِنْ صَیَّرْتَنيلِلْعُقُوبٰاتِ مَعَ اعْدَائِکَ،وَجَمَعْتَ بَیْنی وَ بَیْنَ اهْلِ بَلاٰئِکَ،وَفَرَّقْتَ بَیْنِی وَبَیْنَ احِبّٰائِکَ وَاوْلِیٰائِکَ،فَهَبْنِِي یٰاالٰهي وَسَیِّدِي وَمَوْلاٰيَ وَرَبِّي،صَبَرْتُ عَلٰی عَذٰابِکَ فَکَیْفَ اصْبِرُعَلٰی فِرٰاقِکَ،وَهَبْنِي صَبَرْتُ عَلٰی حَرِّ نٰارِکَ فَکَیْفَ اصْبِرُ عَنِ النَّظَرِالٰی کَرٰامَتِکَ،امْ کَیْفَ اسْکُنُ فِی النّٰارِ وَرَجٰائِي عَفْوُکَ “۔

”اے میرے خدا! پروردگارا! میرے سردار! میرے مولا! میں کس کس بات کی فریاد کروں اور کس کس کام کے لئے آہ وزاری اور گریہ وبکا کروں ،قیامت کے دردناک عذاب اور اس کی شدت کے لئے یا اس کی طویل مصیبت اور دراز مدت کے لئے کہ اگر تونے ان سزاوں میں مجھے اپنے دشمنوں کے ساتھ ملادیا اور مجھے اہل معصیت کے ساتھ جمع کردیا اور میرے اوراپنے احباء اور اولیاء کے درمیان جدائی ڈال دی۔ تو اے میرے خدا۔میرے پروردگار ۔میرے آقا۔میرے سردار! پھر یہ بھی طے ہے کہ اگر میں تیرے عذاب پر صبر بھی کر لوں تو تیرے فراق پر صبر نھیںکر سکتا۔اگر آتش جھنم کی گرمی برداشت بھی کر لوں تو تیری کرامت نہ دیکھنے کو برداشت نہیں کر سکتا ۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ میں تیری معافی کی امید رکھوں اور پھر میں آتش جھنم میں جلادیا جاوں ۔

محبوب سے شکایت

مولائے عاشقین حضرت امیر المومنین علیہ السلام دعا کے اس حصے ”لِايِّ الْاُمُورِالَیْکَ اشْکُو“میں اپنے محبوب کی بارگاہ میں اپنی پریشانیوں اور بلاؤں کی شکایت کرتے ہوئے گریہ و زاری کرتے ہیں؟

چنانچہ آپ اس شکایت میں کہتے ہیں: میں اپنی مشکلات، رنج و غم اور بلاؤں کو دور کرنے کے لئے تیرے علاوہ کسی کو نہیں پہچانتا۔ سبھی تیرے محتاج اور تیرے سامنے جھولی پھیلائے ہوئے ہیں، سبھی تیرے سامنے ناتواں اور کمزور ہیں، ان کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے، لہٰذا کسی ضعیف او رکمزور سی مشکل کے حل کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔

تمام مشکلات کو حل کرنے کی کُنجی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔

تمام دردوں اور بلاؤں کا علاج تیرے ایک اشارہ سے ہوجاتا ہے۔

تو ہی وہ ذات ہے جو اہل مشکل کی مشکل کشائی کرتا ہے اور رنج و غم میں گرفتار لوگوں کی پریشانیوں کو دور کرتا ہے۔

تو ہی وہ ذات ہے جس کی بارگاہ میں صدیقہ طاھرہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا برسات کے موسم کی طرح آنسو بھاتی ہوئی کہتی تھیں:

”پالنے والے!

(تیری بارگاہ سے کچھ چیزوں کی سوالی ہوں اور تو ہی ان کو عنایت کرسکتا ہے) تجھ سے ہدایت، تقویٰ، عفت، بے نیازی اور ایسے عمل کی توفیق چاہتی ہوںجس سے تو راضی و خوشنود ہوجائے۔

پالنے والے! ہمارے کمزوروں کو طاقت، غریبوں کو مال و دولت اور ہمارے جاہل وں کو علم و حلم کی دولت عطا فرما۔

پالنے والے! محمد و آل محمد پررحمت نازل فرما، اور ہمیں شکر، اپنی یاد، عبادت اور اطاعت پر مدد فرما، تجھے تیری مھربانی کا واسطہ، اے ارحم الراحمین“۔[۴۷]

توھی وہ ہے جس کے سامنے توحید کے علمبردار حضرت ابراھیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد اپنے دست دعا بلند کردئے اور نھایت خشوع و خضوع سے حقائق کی درخواست کی جن کو صرف تو ہی عطا کرسکتا ہے:

”پالنے والے!

کعبہ کے بنانے کو ہم سے قبول فرما، کیونکہ تو ہی (ھماری دعاؤں کا)سننے والا اور (ھمارے اخلاص سے)آگاہ ہے۔

”پالنے والے!

تو ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بندہ بنااور اور ہماری ذریت و اولاد کو بھی اپنا فرمانبردار بنااو رھم کو ہمارے حج کی جگہ دکھادے او رھماری توبہ کو قبول کرلے، کیونکہ تو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔

پروردگارا

! مکہ والوں میں انھی میں سے ایک رسول کو بھیج جو ان کے سامنے تیری آیات کی تلاوت کرے آسمانی کتابیں اور حکمت کی باتیں سکھائے، اور ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے ، بے شک توھی غالب اور صاحب تدبیر ہے“۔[۴۸]

”پالنے والے! تو ہی وہ ہے جس کے حضور میں نوح جیسا اولو االعزم پیغمبر اپنی قوم کے نو سو پچاس برس آزار و اذیت برداشت کرتا رھا تیرے لئے، اس کے بعد تیری بارگاہ میں شکایت کی اور تونے اپنی قدرت کا مزا چکھادیا اور ان پر دردناک عذاب نازل کیااور ان سب کو نیست و نابود کردیا اور جناب نوح اور آپ کے مومن ساتھیوں کو عذاب سے نجات بخشی۔

تو ہی وہ ہے جس نے جنگ بدر میں مسلمانوں کی قلیل تعداد (دشمن کے ایک سوم حصہ)کے ذریعہ دشمن کی یقینی فتح کو شکست سے بدل دیا اور مومنین کو پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی دعا کے ذریعہ دشمنوں پر فتحیاب کردیا۔

اب میں بلاء و مصائب اور پریشانیوں کی تیری بارگاہ میں شکایت کرتا ہوں۔

”پالنے والے!

تو ہی وہ ہے جو ایک نظر (رحمت) کے ذریعہ میری ساری پریشانیاںدور کردیتا ہے اور میرے لئے سکون اور اطمینان کے اسباب مھیا کردیتا ہے۔

”پالنے والے!

تو ہی وہ ذات ہے جس کے حضور میں ہر پیغمبر، امام،مومن،تائب اور پریشان حال نے اپنی شکایت پیش کی اور تیری بارگاہ میں گریہ و زاری کی تو تونے ہی اس کو پناہ دی، تسلی دیتے ہوئے اس کی پریشانیوں کو ختم کیا اور اس کے چین و سکون کے اسباب فراھم کئے۔

کون ایسا دردمند ہے جو تیری بارگاہ میں آیا ہو اور تو نے اس کے درد کا علاج نہ کیا ہو؟ کون ایسا محتاج ہوگا جو تیرے در پر سوالی بن کر آئے اور تو نے اس کی ضرورت کو پورانہ کیا ہو؟ کون ایسا حاجت مند ہوگا جو تیری چوکھٹ پر اپنی حاجت لے کر آیا ہو اور تو نے اس کو ناامید کیا ہو؟

کون ایسا غریب و فقیر ہوگا جو تیرے در پر آیا ہو اور تو نے اس پر اپنے فضل وکرم کی بارش نہ کی ہو؟ کون ایسا دعا کرنے والا ہوگا جس نے تجھ سے دعا کی ہو اور تو نے اس کو قبول نہ کیا ہو؟

کون ایسا پریشان حال ہوگا جو تیرے درِ رحمت پر آیا ہو اور تو نے اس کی مشکل کو حل نہ فرما یاھو؟ کون ایسا توبہ کرنے والا ہوگا جس نے تیری بارگاہ میں رو رو کر توبہ کی ہو اور تو نے اس کی توبہ کو قبول نہ کیا ہو؟ وغیرہ وغیرہ۔

گریہ و زاری

رونا اور آنسو بھانا، خداوندعالم کی عظیم نعمتوں میں سے ہے، رونا تواضع و انکساری کی نشانی اور باطن کی پاکیزگی کی علامت ہے۔

قرآن کریم نے گریہ و زاری، آہ و فغاں اور آنسوؤں کو مرد مومن اور خدا وندعالم کے عاشق و عارف کی نشانی قرار دی ہے۔[۴۹]

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے:

اُوصِیکَ یَا عَلِیُّ فِی نَفْسِکَ بِخِصالٍ فَاحْفَظْها، اللّهُمَّ اعِنْهُوَ الرَّابِعَةُ البُکاءُ لِلّٰهِ یُبنٰی لَکَ بِکُلِّ دَمْعَةٍ بَیتٌ فِی الجَنَّةِ “[۵۰]

”یا علی! تمھیں چند چیزوں کی خصلت کے بارے میں سفارش کرتا ہوں، ان کی حفاظت کرنا، خدایا! اس کی مدد فرما۔۔۔۔ان میں سے چوتھی خصلت خدا کے لئے رونا ہے، جس کے ایک آنسو پر جنت میں تمھارے لئے ایک گھر بن جائے گا“۔

نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے:

طُوبَی لِصُورَةٍ نَظَرَ اللّٰهُ اِلَیهَا تَبکِی عَلی ذَنْبِ مِنْ خَشیَةِ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ ،لَمْ یَطَّلِعْ عَلَی ذالکَ الذَّنبِ غَیرُهُ “[۵۱]

”خوشا نصیب اس صورت کے کہ جس پر خدا ایک نظر کرلے اور وہ گناھوں پر خدا سے ڈرتا ہو اور وہ بھی اس گناہ پر جس کو خدا کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا“۔

نیز آپ ہی کا فرمان ہے:

( وَلاَعَلَی الَّذِینَ إِذَا مَا اتَوْکَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لاَاجِدُ مَا احْمِلُکُمْ عَلَیْهِ تَوَلَّوا وَاعْیُنُهُمْ تَفِیضُ مِنْ الدَّمْعِ حَزَنًا الاَّ یَجِدُوا مَا یُنفِقُونَ ) ۔“ (سورہ توبہ آیت ۹۲)

”اور ان پر بھی کوئی الزام نہیں ہے جو آپ کے پاس آئے کہ انھیں بھی سواری پر لے لیجئے اور آپ ہی نے کہہ دیا کہ ہمارے پاس سواری کا انتظام نہیں ہے اور وہ آپ کے پاس سے اس عالم میں پلٹے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انھیں اس بات کا رنج تھاکہ ان کے پاس راہ خدا میںخرچ کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے“۔

وَمَنْ ذَرَفَتْ عَینَاهُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ کاَنَ لَهُ بِکُلِّ قَطْرِةٍ مِن دُمُوعِهِ مِثْلُ جَبَلِ احُدٍ یَکُونُ فِی میزانِهِ مِنَ الاجرِ “[۵۲]

”جس شخص کی آنکھیں خوف خدا میں آنسو بھائےں تو اس کے ہر آنسو کی جزا اس کے عمل کی ترازو میں کوہ احدکے ہم پلہ ہو“۔

نیز آپ نے فرمایا:

مَن خَرَجَ مِن عَینَیهِ مِثلُ الذُّبابِ مِنَ الدَّمعِ مِن خَشْیَةِ اللّٰهِ آمَنَهُ اللّٰهُ بِهِ یَوْمَ الفَزَعِ الاکبَرِ“[ ۵۳]

”اگرخوف خدا سے کسی شخص کی آنکھ سے پرِکاہ کے برابر بھی آنسو نکل آئے تو خداوندعالم اس کو روز قیامت کے عذاب سے امان دیدے گا“۔

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:

بُکاءُ العُیُونِ وَ خَشیَةُ القُلوبِ مِن رَحمَةِ اللّٰهِ تَعالی ذِکْرُهُ ،فَاِذا وَجَدتُمُوهَا فَاغْتَنِمُوا الدُّعاءَ “[۵۴]

”آنکھ کے آنسو اوردلوں میں خوف ؛ خدا کی رحمت ہے، جب یہ دونوں چیزیں حاصل ہوجائیں تو دعا کو غنیمت جانو کیونکہ خوف و گریہ کے ساتھ دعا مستجاب ہوتی ہے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

مَا مِن شَیْءٍ اِلاَّ وَلَهُ کَیلٌاو وَزنٌ اِلاَّ الدُّموعَ،فَاِنَّ القَطرَةَ مِنهَا تُطْفِیٴُ بِحاراً مِن نَارٍ،وَاِذَا اغْرَوْرَقَتِ الْعَینُ بِمائِها لَم یَرْهَق وَجْهَه قَتَرٌوَلاَذِلَّةٌ،فَاِذَا فاضَت حَرَّمَهُ اللّٰهُ عَلَی النَّارِ،وَلَوْانّ باکیاً بَکٰی فِی امَّةٍ لَرُحِمُوا “[۵۵]

”تمام چیزوں کے لئے ایک پیمانہ موجود ہے سوائے آنسوؤں کے،کہ آنسوؤں کا ایک قطرہ دریائے آتش کو خاموش کردیتا ہے، جس وقت آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں تو رونے والے شخص کو کوئی سختی اور پریشانی نہیں پھنچتی،اور اگر آنکھ سے آنسو بہہ نکلیں تو خدا وندعالم اس پر آتش جھنم کو حرام کردیتا ہے،اور اگر کسی بھی امت کا کوئی شخص آنسو بھائے تو اس پوری امت پر رحم کیا جائے گا“۔

یحیٰ بن معاذ کہتے ہیں: جو شخص خواب میں اپنے کوروتا ہوا دیکھے تو وہ شخص جاگتے ہوئے شاد و خرم ہوگا، زندگانی دنیا خواب کی طرح ہے اور آخرت بیداری کا عالم، لہٰذا دنیا میں گریہ کرو تاکہ آخرت میں شاد و خرمّ رھو۔

دوستوں کی جدائی

اگر کوئی شخص انبیاء، پیغمبر ، ائمہ علیھم السلام اور اولیاء الٰھی کو دوست رکھنے والا ہو اور اس کی تمام تر کوششیں ان کا وصال اور دیدار ہو، اورقیامت میں ان کے دیدار کا شیدائی ہو اور ان بزرگواروں کی ہمنشینی سے سرفراز ہونا چاہتا ہو، لیکن خداوندعالم بعض گناھوں کے سبب ان کے اور اس کے درمیان جدائی ڈال دے اور ان کی ہم نشینی کے بجائے ان کے دشمنوں کے ساتھ قرار دیدے تو در حقیقت اس کے لئے یہ ایک سخت عذاب ہوگا، جو عذاب دوزخ اور آتش جھنم سے زیادہ سخت ہوگا۔

دوست اور محبوب کی جدائی کا صدمہ بچھڑے یار سے پوچھئے لیکن اگر کسی نے محبوب کی جدائی کا درد نہ دیکھا ہو اس کے سامنے درد یار کا بیان بے معنی ہے!

فراق محبوب کا مزہ ، جناب آدم علیہ ا لسلام نے برداشت کیا ہے کہ ”درخت ممنوعہ“ کے نزدیک جانے سے اپنے اس عظیم مقام کو کھودیا اور فرشتوں کی ہم نشینی اور بھشت میں زندگی بسر کرنے سے محروم ہوگئے!

درد فراق کو جناب ایوب علیہ السلام نے چکھا ہے، جنھوں نے امتحان پرودگار کی خاطر اپنے اہل و عیال، مال و دولت اور جسم کی صحت و سلامت سب کو قربان کردیا۔

فراق محبوب کا مزہ ،جناب یونس علیہ السلام نے چکھا جو اس عظیم دنیا کی وسیع فضا سے محروم ہوکر شکم ماھی میں گرفتار ہوگئے۔

فراق محبوب کا مزہ ،جناب یعقوب علیہ السلام نے چکھا ہے جنھوں اپنے محبوب (بیٹے جناب یوسف) کے فراق میں اس قدر گریہ کیا کہ آنکھوں کی بینائی جاتی رھی۔

فراق محبوب کا مزہ ،جناب یوسف علیہ السلام نے چکھا ہے جو یعقوب(ع)جیسے شفیق باپ سے دور ہوگئے اور چاہ کنعان میں جاپھونچے۔

لیکن خداوند مھربان نے جناب آدم کے درد فراق کاآدم کی توبہ کے ذریعہ علاج کیا، اسی طرح جناب ایوب(ع) کے درد فراق کا ان کے گم شدہ اہل و عیال اور مال کو واپس کرکے علاج کیا، اور یونس(ع) کو کا شکم ماھی سے نجات دیکر علاج کیا ہے، اسی طرح یعقوب و یوسف کو ایک دوسرے سے ملاکر ان کا درد کا علاج کیا ہے۔

اے درد فراق میں بے قرار افراد کے علاج کرنے والے! ہم تیرے بندے ہیں اور تیرے انبیاء، ائمہ(ع)اوراولیاء کے چاھنے والے ہیں ہمیں قیامت کے دن ان کے فراق و جدائی میں مبتلا نہ کرنا، ان کے فراق کے عذاب اور عذاب جھنم سے نجات دیدے، بالفرض اگر ہم تیرے عذاب پر صبر بھی کریں اور اپنے انبیاء، ائمہ اور اولیاء ہم نشینی سے محروم کردے لیکن تیری جدائی اور دوری پر کس طرح صبر کا یارا ہوگا؟!!

اہل کرامت کے مقام کی آرزو

پالنے والے! بالفرض اگر میں نے تیری آگ کی حرارت کا مقابلہ کربھی لیا، لیکن جیسا کہ تو اپنے بندوں کے ساتھ لطف و کرم سے کیسے چشم پوشی کرسکتا ہوں؟

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ: ”خداوندعالم نے کسی کو نہیں پیدا کیا مگر یہ کہ اس کا جنت و جھنم میں مقام مقرر فرمادیاھے۔ جب اہل بھشت، بھشت میں اور اہل دوزخ دوزخ میں داخل ہوجائیں گے تواہل بھشت ایک آواز سنیں گے کہ اہل دوزخ کی طرف دیکھو، اس وقت جھنمیوں کے ٹھکانے دکھائے جائیں گے اور کھا جائے گا کہ اگر تم لوگ بھی خدا کی معصیت اور نافرمانی کرتے تو اسی (جھنم )میں داخل کئے جاتے۔ چنانچہ اس عذاب سے نجات ملنے پر اس قدر خوشحال ہوں گے کہ اگر بھشت میں موت ہوتی تو وہ مرجاتے۔

اس وقت منادی اہل جھنم سے کھے گاکہ اپنے اوپر کی طرف نگاہ کرو، جب وہ لوگ جنت میںان کے لئے مقرر کردہ اپنے مقام دیکھیں گے تو ان سے کھا جائے گا کہ تم خدا کی اطاعت و بندگی کرتے تو اس مقام تک پھنچ جاتے، چنانچہ یہ سن کر ان کی اس قدر حالت غیر ہوجائے گی کہ اگر جھنم میں موت ہوتی تو وہ مرجاتے“۔

پالنے والے! جیسا کہ تو اپنےنیکبندوں پر لطف وکرم کرے گا کیا میں اس کو دیکھ کر اس سے چشم پوشی کرلوں اور اس کی آرزو نہ کروں؟!

عفو و بخشش کی امید

اے میرے مولا! میں کس طرح جھنم میں آرام سے رہ سکتا ہوں حالانکہ میری ساری امید تیرے عفو و بخشش کے اوپر ہے، وہ عفو وبخشش جس کا قرآن مجید میں ،پشیمان گناھگاروں کو وعدہ دیا گیا ہے؟

پالنے والے! بہت سے مواقع پر بے چارے اور پریشان حال لوگ دوسروں سے لَو لگائے ہیں اور ان سے لطف و کرم اور عفو و بخشش کی امید رکھتے ہیں لیکن وہ محروم نہیں ہوتے، تو جن لوگوں نے تجھ سے لَو لگائی ہو اور تیرے عفو و بخشش کو سھارا بنایا ہو تو تو ان کو کیسے ناامید کرسکتا ہے۔

مرحوم عطّار اپنی کتاب ”الٰھی نامہ“ میں روایت کرتے ہیں: ایک بدکار، فاسق و فاجر اور رناچنے والی عورت مکہ میں رہتی تھی اور شھر کے ناچ گانے کے پروگراموں میں شرکت کیا کرتی تھی، اور اپنی اداؤں کے ذریعہ پروگرام کو گرم کئے رکھتی تھی۔رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ہجرت کے بعدجب اس عورت کا حسن و جمال ختم ہوگیا اور اس کی آواز جاتی رھی اس کا یہ دھنداٹھنڈا ہوگیا اور فقر و فاقہ میں گرفتار ہوگئی، مشکلات اور پریشانی کی وجہ سے مدینہ میں آئی اور رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئی، چنانچہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس سے سوال کیا کس غرض سے مدینہ آئی ہے؟ کیا دنیاوی تجارت کے لئے آئی ہے یا اُخروی تجارت کے لئے؟ اس نے کھا: نہ دنیا کے لئے اور نہ آخرت کے لئے، بلکہ میں نے آپ کے جود و کرم اور بخشش کے بارے میں سنا ہے لہٰذا آپ سے امیدیں لے کر اس شھر میں آئی ہوں؟ پیغمبر اکرم اس کی بات سے بہت خوش ہوئے او راپنی ردا اس کو عنایت کردی، اور اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا: تم میں سے جو شخص استطاعت رکھتا ہے اس کے لحاظ سے اس عورت کی مدد کرو۔

جی ہاں، ایک بدکار عورت تیرے بندے اور پیغمبر (جو تیرے بے نھایت لطف و کرم کا مظھر ہیں)کے جود و کرم کی امید میں مدینہ آئی اور بہت سا مال ودولت لے کر واپس گئی، کیا ممکن ہے کہ میں تیرے عفو و بخشش اور لطف و احسان کی امید پر تیری بارگاہ میں حاضر ہوں اور تیرے رحم و کرم کی بارگاہ سے خالی ہاتھ واپس لوٹ جاؤں۔؟!!

فَبِعِزَّتِکَ یٰا سَیِّدي وَمَوْلٰايَ اُقْسِمُ صٰادِقاًلَئِنْ تَرَکْتَني نٰاطِقاً،لَاضِجَّنَّ الَیْکَ بَیْنَ اهْلِهٰاضَجیجَ الْآمِلینَ، وَلَاصْرُخَنَّ الَیْکَ صُرٰاخَ الْمُسْتَصْرِخینَ،وَلَابْکِیَنَّ عَلَیْکَ بُکٰاءَ الْفٰاقِدینَ، وَلَاُنٰادِیَنَّکَ ایْنَ کُنْتَ یٰاوَلِيَّ الْمُومِنینَ، یٰاغٰایَةَ آمٰالِ الْعٰارِفینَ،یٰا غِیٰاثَ الْمُسْتَغیثینَ، یٰاحَبیبَ قُلُوبِ الصّٰادِقینَ،وَیٰا الٰهَ الْعٰالَمینَ “۔

”تیری عزت و عظمت کی قسم اے آقاو مولا! اگر تونے میری گویائی کو باقی رکھا تو میں اہل جھنم کے درمیان بھی امیدواروں کی طرح فریاد کروں گا۔اور فریادیوں کی طرح نالہ و شیون کروں گااور ”عزیز گم کردہ“ کی طرح تیری دوری پر آہ وبکا کروں گا اور تو جھاں بھی ہوگا تجھے آوازدوں گا کہ تو مومنین کا سرپرست، عارفین کا مرکز امید،فریادیوں کا فریادرس ۔صادقین کا محبوب اور عالمین کا معبود ہے“۔

قارئین کرام ! دعا کے اس حصے میں گزشتہ کی طرح صدق دل سے توبہ ،مناجات، راز و نیازاور دعا کرنے والا اپنے محبوب کی بارگاہ میں اس کی نظر رحمت کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے حاضر ہوتا ہے، اور اس فرض کے بعد کہ اس کو جھنم کا مستحق قرار دیا گیا ہے،اس کو جھنم سے نجات کا پروانہ عطا کردے۔

درحقیقت اگر کوئی شخص عذاب میں گرفتار ہو اور عذاب سے بھی سخت اپنے محبوب کے فراق اور اس کی جدائی کے غم میں گرفتار ہو اس کی حالت کیا ہوگی؟

کس درد مند کی آہ و فغاں اس سے زیادہ دلسوز ہوسکتی ہے جس نے اپنے محبوب و معشوق کھودیا ہو؟

کہتے ہیں : ایک ماں اپنے بیٹے کی قبر پر زار زار گریہ کررھی تھی، وھاں سے ایک عابد و عارف کا گزر ہوا ، اس عورت کی حالت زار دیکھ کر کھا: خوشا نصیب، اس ماں پر جو یہ جانتی ہے کہ وہ اپنے کس گوھر کو اپنے ہاتھ سے کھو بیٹھی ہے!!

طفل می گرید چو راہ خانہ را گم می کند

چون نگریم من کہ صاحب خانہ را گم کرداہ ام [۵۶]

”بچہ گھر کے گم ہونے پر گریہ کرتا ہے تو میں نے صاحب خانہ کو گم کردیا ہے لہٰذا میرا رونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے“۔

واقعاً قیامت کاکیا عجیب و غریب منظر ہوگا، لوگوں کے لئے وہ دن کیساعجیب و غریب ہوگا؛ خوشانصیب ہیں وہ لوگ جو اس دن رحمت خدا کے مستحق قرار پائیں گے اور رضائے الٰھی حاصل کرکے عذاب جھنم سے نجات حاصل کریں گے۔

کیا اچھا ہوگا کہ موت کا پیغام آنے سے پھلے پھلے اور ہمارے نامہ اعمال پر تالے لگانے سے قبل ہم اپنے آپ کو قرآن مجید کے سامنے پیش کریں تاکہ اس کے بیانات کی روشنی میں اپنی حالت سے مزید واقف ہوجائیں۔

ھارون اور بھلول

ھارون رشید حج سے واپس آکر کوفہ میں ٹھھرا، ایک روز راستہ سے چلا جارھا تھا، راستے میں بھلول نے اس کو نام لے کر تین دفعہ پکارا: ہارون،ھارون،ھارون، اس نے تعجب کیا کہ کون ہے جو مجھے نام لے کر پکار رھا ہے؟ کھنےوالوں نے کھا: بھلول دیوانہ، اس نے محمل کا پردہ اٹھایا اور بھلول سے کھا: مجھے پہچانتے ہو؟ کھا: ہاں، کھا میں کون ہوں؟ کھا کہ تو وھی ہے کہ اگر کسی نے مشرق میں ظلم کیا ہو اور تو مغرب میں ہو تو قیامت کے دن کا مالک تجھ سے باز پرس کرے گا، یہ سن کر ہارون رونے لگا اور کھا: بھلول میری حالت کو کس طرح پاتے ہو؟ تو بھلول نے جواب دیا: اپنے کو قرآن مجید کے سامنے پیش کر:

( اِنَّ الابْرَارَ لَفِی نَعِیمٍ وَاِنَّ الفُجَّارَ لَفِی جَحِیمٍ ) ۔“[۵۷]

” بیشک نیک لوگ نعمتوں میںھوںگے۔اور بدکار افراد جھنم میں ہوں گے“۔

کھا: ہماری سعی و کوشش کا کیاھوگا؟ تو بھلول نے کھا:

”۔۔۔ إ( ِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللهُ مِنْ الْمُتَّقِینَ ) ۔“[۵۸]

” خدا صرف صاحبان تقویٰ کے اعمال کو قبول کرتا ہے“۔

کھا: پیغمبر سے ہماری رشتہ داری کا کیاھوگا؟ تو بھلول نے کھا:

( فَإِذَا نُفِخَ فِی الصُّورِ فَلاَانسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَئِذٍ وَلاَیَتَسَائَلُونَ ) ۔“[۵۹]

” پھر جب صور پھونکا جائے گا تو نہ رشتہ داریاں ہوں گی اور نہ آپس میں کوئی ایک دوسرے کے حالات پوچھے گا“۔

کھا: رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی شفاعت کام نہ آئے گی؟ تو بھلول نے کھا:

( یَوْمَئِذٍ لٰا َتنْفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلاَّ مَنْ اذِنَ لَهُ الرَّحْمَانُ وَرَضِیَ لَهُ قَوْلاً ) (۔“[۶۰]

” اس دن کسی کی سفارش کام نہ آئے گی سوائے ان کے جنھیں خدا نے اجازت دےدی ہو اور وہ ان کی بات سے راضی ہو“۔

کھا: اے بھلول کیا تمھاری کوئی حاجت ہے؟ بھلول نے کھا: میرے گناھوں کو معاف کردے اور بھشت میں داخل کردے۔ تو ہارون نے کھا: مجھ میں اتنی قدرت نہیں کہ میں یہ کام انجام دے سکوں،لیکن میں نے سنا ہے کہ آپ مقروض ہیں، کیا میں آپ کا قرض ادا کردوں؟ تو بھلول نے کھا: قرض کو قرض کے ذریعہ ادا نہیں کیا جاتا، جو کچھ تیرے پاس ہے وہ لوگوں کا مال ہے لہٰذا تم ان سب کے مقروض ہو، لہٰذا تم پر ان کا مال ان کو واپس کردینا واجب ہے۔

ھارون نے کھا: کیا آپ کے لئے کوئی خدمت گزار معین کردوں کہ آخر عمر تک آپ کی خدمت کرتا رھے؟

بھلول نے کھا: میں خدا کا بندہ ہوں، اور اسی کا رزق کھاتا ہوں، کیا تم یہ سمجھتے ہوکہ خدا تمھیں یاد کئے ہوئے ہے اور مجھے بھول گیا ہے!

گنج زر گر نبود گنج قناعت باقی است

آن کہ آن داد بہ شاھان بہ گدایان این داد [۶۱]

”اگر زرو سیم کا خزانہ نہیں ہے تو قناعت کا خزانہ باقی ہے، (خدا) نے اس کو بادشاھوں تو دیا ہے تو (قناعت) فقیروں کو دی ہے۔

افَتُرٰاکَ سُبْحٰانَکَ یٰاالٰهي وَ بِحَمْدِکَ تَسْمَعُ فیهٰاصَوْتَ عَبْدٍ مُسْلِمٍ سُجِنَ فیهٰا بِمُخٰالَفَتِهِ،وَذٰاقَ طَعْمَ عَذٰابِهٰا بِمَعْصِیَتِهِ ،وَحُبِسَ بَیْنَ اطْبٰاقِهٰا بِجُرْمِهِ وَجَریرَتِهِ وَهُوَ یَضِجُّ الَیْکَ ضَجیجَ مُومِّلٍ لِرَحْمَتِکَ،وَیُنٰادیکَ بِلِسٰانِ اهْلِ تَوْحیدِکَ،وَیَتَوَسَّلُ الَیْکَ بِرُبُوبِیَّتِکَ “۔

”اے میرے پاکیزہ صفات ،قابل حمد وثنا پروردگار کیا یہ ممکن ہے کہ تواپنے بندہ مسلمان کو اس کی مخالفت کی بنا پر جھنم میں گرفتار اور معصیت کی بنا پر عذاب کا مزہ چکھنے والااور جرم و خطا کی بنا پر جھنم کے طبقات کے درمیان کروٹیں بدلنے والا بنادے اور پھر یہ دیکھے کہ وہ امید وار ِرحمت کی طرح فریاد کناں اور اہل توحید کی طرح پکارنے والا ، ربوبیت کے وسیلہ سے التماس کرنے والا ہے اور تو اس کی آواز نہیں سنتا ہے“۔

صاحب یقین ،متقی اور پرھیزگار افراد جب قرآن مجید اور احادیث میں دوزخ کے اوصاف کو پڑھتے ہیں توان کے بدن میں لرزہ پیدا ہوتا ہے، ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل میں خوف و وحشت طاری ہوجاتی ہے اور مبھوت ہوکر رہ جاتے ہیں، اپنے دل و جان سے اس ہولناک عالم سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں، واجبات کو ادا کرنے اور محرّمات کو ترک کرنے کے لئے مزید کوشش کرتے ہیں یھاں تک کہ کبھی کبھی تو اسی عالم میں اپنی جان بھی قربان کر بیٹھتے ہیں!!

سلمان اور خوف زدہ جوان

شیخ مفید علیہ الرحمہ ابن عمیر کے واسطہ سے حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں: سلمان کوفہ کے بازارسے گزر رھے تھے ، دیکھا کہ ایک جوان زمین پر پڑا ہوا ہے اور لوگ اس کے چاروں طرف جمع ہیں، (سوال کرنے پر)جناب سلمان کوبتایا گیا کہ یہ جوان غش کھاکر گرپڑا ہے، کچھ دعائیں پڑھ دیجئے تاکہ اس کو ہوش آجائے، جیسے ہی سلمان اس کے سرھانے پھنچے تو اس جوان نے کھا: اے سلمان! جو کچھ میرے بارے میں ان لوگوں نے کھا وہ صحیح نہیں ہے؛ میں جب اس بازار سے گزر رھا تھا تو لوھار کو ہتھوڑے کے ذریعہ لوھے کو مارتے دیکھا تو مجھے قرآن مجید کی یہ آیت یاد آگئی:

( وَلَهُمْ مَقَامِعُ مِنْ حَدِیدٍ ) ۔“[۶۲]

” اور ان کے لئے لوھے کے گرز مھیا کئے گئے ہیں“۔

عذاب خدا کے خوف کی وجہ سے میری عقل پریشان ہوگئی، سلمان نے اس جوان سے کھا: واقعاً تم ایک عظیم انسان ہو آج سے تم میرے (دینی) بھائی ہو، اور ان دونوں کے درمیان دوستی اور رفاقت پیدا ہوگئی، ایک روز جوان مریض ہوا،اس کی زندگی کے آخری لمحات تھے، سلمان اس کے سرھانے پھنچے ، سلمان نے کھا: اے ملک الموت! میرے بھائی کے ساتھ حسن سلوک کرنا، جواب آیا: میں ہر مومن کے ساتھ حسن سلوک کرتاھوں۔[۶۳]

ایک خاتون عذاب کی آیت سن کر بے ہوش گئی

عالم عالیقدر ملا فتح اللہ کاشانی تفسیر ”منہج الصادقین“ میں روایت کرتے ہیں: ایک روز رسول خدا مسجد میں نماز پڑھ رھے تھے، سورہ حمد کی تلاوت کے بعد سورہ حجر کی تلاوت فرمارھے تھے، جب اس آیت پر پھنچے:

( وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اجْمَعِینَ لَهَا سَبْعَةُ ابْوَابٍ لِکُلِّ بَابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ ) ۔“[۶۴]

” اور جھنم ایسے تمام لوگوں کی آخری وعدہ گاہ ہے۔اس کے سات دروازے ہیں اور ہر دروازے کے لئے ایک حصہ تقسیم کیاگیا ہے “۔

ایک اعرابی عورت جو رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ نماز پڑھ رھی تھی، اس نے ان دونوں آیات کوسن کرایک چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئی، رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) جب نماز سے فارغ ہوئے اور اس کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا: ا کے لئے پانی لے کر آؤ، پانی چھڑکنے سے اس کو ہوش آیا۔

چنانچہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس عورت سے فرمایا: کیوں تیری یہ حالت غیر ہوئی؟ اس نے کھا: یا رسول اللہ! جب آپ کو نماز پڑھتے دیکھا تو آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کا شوق دل میں پیدا ہوا ، لیکن جیسے ہی آپ نے ان دو آیات کی تلاوت کی تو میں سن کر تاب نہ لاسکی اور بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑی، اس کے بعد اس عورت نے کھا:افسوس کہ میرے بدن کا ہر حصہ دوزخ کے ساتوں دروازوں میں تقسیم ہوگا۔

آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: ایسا نہیں ہے، بلکہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ بدکاروں کے ہر گروہ کو اس کے گناہ کے لحاظ سے دوزخ کے دروازوں سے داخل کیا جائے گا۔ اس وقت اس عورت نے کھا: یا رسول اللہ میرے پاس سات غلاموں کے علاوہ کچھ نہیں ہے آپ گواہ رھنا کہ جھنم کے ہر دروازہ سے نجات کے لئے ساتوں غلاموں کو راہ خدا میں آزاد کرتی ہوں۔

چنانچہ جناب جبرئیل نازل ہوئے اور کھا: یا رسول اللہ! اس عورت کو بشارت دیدیجئے کہ خداوندعالم نے جھنم کے ساتوں دروازوں کو تجھ پر حرام قرار دیدیا ہے، اور تیرے لئے بھشت کے دروازوں کو کھول دیا ہے۔

حدیث قدسی میں بیان ہوا ہے:

اے فرزند آدم ! میں اس جھنم کوخلق نہیں کیا مگر کافر، بخیل ، غیبت کرنے والے، عاق پدر، عاق مادر، زکوٰة نہ دینے والے، سود لینے والے، زنا کرنے والے، (مال) حرام جمع کرنے والے، قرآن کو بھول جانے والے اور اپنے پڑوسیوں کو آزار و اذیت دینے والوں کے لئے۔ سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کرےں ، ایمان لے آئےں اور عمل صالح انجام دےں۔

اے میرے بندو! خود اپنے اوپر رحم کرو، کیونکہ تمھارے جسم کمزور، سفر طولانی، وزن زیادہ، (بال سے زیادہ)باریک راستہ، دہکتی ہوئی آگ، اسرافیل کی ندا اور رب العالمین کی قضاوت در پیش ہے۔[۶۵]

بہترین وخوبصورت نصیحت

ایک شخص سفر پر جانا چاہتا تھا، حاتم اصمّ سے کھا: آپ مجھے کچھ نصیحت کیجئے، تو حاتم نے کھا:

اگر دوستی چاہتے ہو تو تمھارے لئے خدا کی دوستی کافی ہے۔

اگر ساتھی چاہتے ہو تو تمھارے لئے کرام الکاتبین (یعنی نامہ اعمال لکھنے والے فرشتے) کافی ہیں۔

اگر عبرت چاہتے ہو تو تمھارے لئے یہ دنیا عبرت کے لئے کافی ہے۔

اگر مونس و ہمدم چاہتے ہو تو تمھارے لئے قرآن کریم کافی ہے۔

اگر کام چاہتے ہو تو عبادت تمھارے لئے کافی ہے۔

اگر نصیحت چاہتے ہو تو موت تمھارے لئے کافی ہے۔

اگر یہ چیزیں تمھارے لئے کافی ہوگئیں تو پھر دوزخ سے نجات مل جائے گی۔

قارئین کرام! (اگر خدا توفیق دے گا) تو خدا کی ربوبیت سے توسّل کی شرح ”یاربّ یاربّ یاربّ “ کے ذیل میں بیان کی جائے گی۔(انشاء اللہ)

”یٰامَوْلاٰيَ،فَکَیْفَ یَبْقٰی فِي الْعَذٰابِ وَهُوَیَرْجُوْمٰاسَلَفَ

مِنْ حِلْمِکَ،امْ کَیْفَ تُولِمُهُ النّٰارُوَهُوَیَامُلُ فَضْلَکَ وَرَحْمَتَکَ،

امْ کَیْفَ یُحْرِقُهُ لَهیبُهٰاوَانْتَ تَسْمَعُ صَوْتَهُ وَتَرٰی مَکٰانَهُ،امْ

کَیْفَ یَشْتَمِلُ عَلَیْهِ زَفیرُهٰاوَانْتَ تَعْلَمُ ضَعْفَهُ،امْ کَیْفَ یَتَقَلْقَلُ بَیْنَ

اطْبٰاقِهٰا وَانْتَ تَعْلَمُ صِدْقَهُ،امْ کَیْفَ تَزْجُرُهُ زَبٰانِیَتُهٰاوَهُوَ

یُنٰادیکَ یٰارَبَّهُ،امْ کَیْفَ یَرْجُوفَضْلَکَ فيعِتْقِهِ

مِنْهٰافَتَتْرُکُهُ فیهٰا“

”خدایا تیرے حلم و تحمل سے آس لگانے والا کس طرح عذاب میں رھے گا اور

تیرے فضل وکرم سے امیدیں وابستہ کرنے والا کس طرح جھنم کے الم ورنج کا شکار ہوگا۔

جھنم کی آگ اسے کس طرح جلائے گی جب کہ تواس کی آواز کو سن رھا ہو اور اس کی منزل کو دیکھ رھا ہو،جھنم کے شعلے اسے کس طرح اپنے لپیٹ میں لیں گے جب کہ تو اس کی کمزوری کو دیکھ رھا ہوگا۔وہ جھنم کے طبقات میں کس طرح کروٹیں بدلے گا جب کہ تو اس کی صداقت کو جانتا ہے ۔ جھنم کے فرشتے اسے کس طرح جھڑکیں گے جبکہ وہ تجھے آواز دے رھا ہوگا اور تو اسے جھنم میں کس طرح چھوڑ دے گا جب کہ وہ تیرے فضل و کرم کا امیدوار ہوگا۔“

خداوندعالم کا لطف و کرم اور رحمت

قرآن کریم اور احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ: خدا وندعالم اپنے تمام بندوں پر لطف و کرم اور احسان کرتا ہے، اسی وجہ سے اس نے اپنے بندوں کو مادی اور معنوی نعمتوں سے نوازا ہے،اس نے اپنے بندوں کو نعمت عطا کرنے میں کسی طرح کے بخل سے کام نہیں لیا ہے اور نہ ہی اُس سے کام لے گا۔

یہ تو بعض انسان ہیں جو مادی اور معنوی نعمتوں کے حصول میں سستی اور کاہل ی سے کام لیتے ہیں، اور خدا کے لطف و کرم اور احسان سے خود منھ موڑلیتے ہیں، اور خود بخود محرومیت کے کنویں میں گر پڑتے ہیں، اور خدا کی تمام تر نعمتوں سے مستفید ہونے کی لیاقت کو ختم کرلیتے ہیں۔

جو شخص بھی چاھے وہ جائز طریقہ سے کوشش کرکے خداوندعالم کی نعمتوں کو حاصل کرسکتا ہے بغیر کسی ممانعت کے، اور اپنی خالصانہ سعی و کوشش کے ذریعہ اور اپنے صحیح ایمان و اعتقاد کے ذریعہ خداوندعالم کی معنوی عنایات تک پھنچ سکتا ہے، اور دنیا و آخرت میں خدا کی خصوصی رحمت اس کے شامل حال ہوگی جس کے جلوے دنیاوی زندگی اور بھشت بریں میں ملاحظہ کرے گا۔ خدا وندعالم کے لطف و کرم اور احسان کے حیرت انگیز جلوے یہ ہیں کہ: خداوندعالم تھوڑے سے نیک کام پر بہت زیادہ اجر و ثواب عطا کرتا ہے۔

جناب سلیمان(ع) اور ایک دیھاتی

خداوندعالم کے منتخب رسول جناب سلیمان اپنے تمام تر شاھی شان و شوکت کے ساتھ ایک راستہ سے چلے جارھے تھے، راستہ میں ایک دیھاتی بھی سفر کررھا تھا، اس نے جناب سلیمان(ع) کو دیکھ کر کھا: پالنے والے! جناب داود کے بیٹے سلیمان کو کیا بادشاہت اور سلطنت عطا کی ہے، ہوا نے اس آواز کو جناب سلیمان تک پھنچادیا، حضرت سلیمان(ع) اس آواز کو سن کر اس کے پاس آئے او رکھا: جس چیز کی طاقت اورذمہ داری کو پورا کرنے کی قدرت تم میں نہیں ہے اس کی آرزو نہ کرو؛ اگر خداوندعالم تیری ایک تسبیح کو قبول کرلے تو سلیمان کی حکومت سے بہتر ہے، کیونکہ تسبیح کا ثواب باقی رہ جائے گا اور سلیمان کی حکومت فناھوجائے گی!![۶۶]

مرحوم شیخ صدوق علیہ الرحمہ اپنی گرانقدر کتاب ”ثواب الاعمال“ میں ایک بہت اھم روایت نقل کرتے ہیں:

عَن اِسماعِیلَ بنِ یَسارٍ قَالَ:سَمِعْتُ ابا عبدِ اللّٰهِ علیه السلام یَقُولُ:اِیّاکُم وَالکَسَلُ اِنَّ رَبَّکُم رحیمٌ یَشْکُرُ القَلیلَ،اِنَّ الرَّجُلَ لیُصلِّی الرَّکْعَتَیْنِ تَطَوُّعاً یُرِیدُ بِهِما وَجْهَ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ فَیُدخِلُهُ اللّٰهُ بِهِما الجَنَّةَ، وَاِنَّهُ لِیَتَصَدَّقُ بِالدِّرْهَمِ تَطَوُّعاً یُرِیدُ بِهِ وَجهَ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ فَیُدْخِلُهُ اللّٰهُ بِهِ الجَنَّةَ،وَاِنَّهُ لَیَصُومُ الیَوْمَ تَطَوُّعاً یُرِیدُ بِهِ وَجهَ اللّٰهِ فَیُدْخِلُهُ اللّٰهُ بِهِ الجَنَّةَ!!“ [۶۷]

”اسماعیل بن یسار کہتے ہیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سناھے: سستی اور کاہل ی سے پرھیز کرو، کیونکہ تمھارا پروردگار مھربان ہے، تھوڑے عمل پر بھی اجر کثیر عطا فرماتا ہے؛ جو شخص دو رکعت مستحب نماز پڑھے اور اس کا قصد رضائے پروردگار کا حصول ہو تو خداوندعالم اس کو ان دورکعت کے بدلے بھشت میں داخل کردے گا۔ اور اگر اپنی مرضی سے صدقہ دے اور اس صدقہ سے بھی رضائے الٰھی کا قصد ہو تو خداوندعالم اس کی وجہ سے اس کو بھشت میں داخل فرمادے گا، او راگر اپنی مرضی سے کسی ایک روز(مستحب) روزہ رکھے جبکہ خوشنودی پروردگار اس کے پیش نظر ہو تو خداوندعالم اسی ایک روزہ کے سبب بھشت میں جگہ عنایت فرمادے گا!!،،

امیر المومنین علیہ السلام حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے روایت نقل کرتے ہیں:

مَا مِنْ شَیءٍ اکْرَمُ عَلَی اللهِ مِنْ ابنِ آدمَ، قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللهِ! وَلاٰ الْمَلاٰئِکَةِ؟ قَالَ: الْمَلاٰئِکَةُ مَجْبُورُوْنَ بِمَنْزِلَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ “۔

”خداوندعالم کی نظر میں انسانوں سے قیمتی کوئی مخلوق نہیں ہے، لوگوں نے سوال کیا: یا رسول اللہ (ص)! کیا فرشتوں سے بھی بہتر ہیں؟ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: فرشتے چاند وسورج کی طرح عبادت اور دوسرے امور پر مجبور ہیں“۔

یہ انسان ہی تو ہے جوصاحب اختیا ر اور نعمت آزادی سے بھرہ مند ہے وہ جب بھی ان خدا داد نعمتوں کواطاعت الٰھی میں بروئے کار لائے تو خداوندعالم ایسی خاص رحمت و کرم اور بے نھایت لطف و کرم سے نوازے گا۔

ایک بہت اھم حدیث

”قاَلَ النَّبِیُّ (صلی الله علیه و آله و سلم) الصَّلاةُ عَمودُ الدِّینِ وَفِیهَا عَشرُ خِصالٍ:زَینُ الوَجهِ،وَنُورُالقَلبِ،وَراحَةُ البَدَنِ،وَانسُ القُبورِ،وَمُنزِلُ الرَّحْمَةِ،وَمِصباحُ السَّمآءِ، وَ ثِقْلُ المیزانِ، وَمَرضاةُ الرَّبِّ،وَثَمَنُ الجَنَّةِ،وَحِجابٌ مِنَ النَّارِ،وَمَن اقامَها فَقَد اقامَ الدّینَ، وَمَن تَرَکَها فَقَد هَدَمَ الدّینَ “[۶۸]

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے: نماز دین کا ستون ہے اور اس میں دس صفات پائے جاتے ہیں: چھرہ نورانی، دل میں روشنی، جسم میں راحت و سکون، مونس قبر، رحمت نازل کرنے والی، آسمان کا چراغ، روز قیامت اعمال کی ترازو میں وزن کا سبب، خوشنودی پروردگار، جنت کی قیمت اور آتش دوزخ میں رکاوٹ ہے، جو شخص نمازپڑھتا ہے (گویا) اس نے دین کو قائم کیا اور جو شخص نماز نہ پڑھتا ہو (گویا) اس نے دین کو نابود کردیا“۔

واقعاً تعجب کی بات ہے کہ خداوندکریم نے دو رکعت نماز پڑھنے والے کے لئے کیا کیا ثواب اور آثار قرار دئے ہیں!! جبکہ دو رکعت نماز پڑھنا کسی کے لئے باعث زحمت و مشقت بھی نہیں ہے۔

نیز آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے:

ما مِن صَلاةٍ یَحْضُرُ وَقتُها اِلاَّ نَادَی مَلَکٌ بَیْنَ یَدَیِ النَّاسِ:ایُّهَاالنَّاسُ! قُومُوا اِلَی نِیرانِکُمُ الَّتِی اَوْقَدْتُمُوهَا عَلَی ظُهُورِکُم فَاطْفِوهَا بِصَلاَ تِکُم “[۶۹]

”کسی بھی نماز کا وقت نہیں آتامگر یہ کہ ایک فرشتہ ان کے سامنے آکر اعلان کرتا ہے:اے لوگو! (اپنے گناھوں کے ذریعہ) جس آگ کو روشن کیا ہے، قیام کرو اور اس کو نماز کے ذریعہ خاموش کردو“۔

امام صادق اورایک وحشت زدہ قافلہ

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں : امام صادق علیہ السلام ایک قافلہ کے ساتھ ایک بیابان سے گزر رھے تھے۔ اہل قافلہ کو خبردار کیا گیا کہ راستے میں چور بیٹھے ہوئے ہیں۔ اہل قافلہ اس خبر کو سن کر پریشان اور لرزہ براندام ہوگئے۔ اس وقت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: کیا ہوا؟ تو لوگوں نے بتایا کہ ہمارے پاس (بہت) مال و دولت ہے اگر و ہ لٹ گیا تو کیا ہوگا؟! کیا آپ ہمارے مال کو اپنے پاس رکھ سکتے ہیں تاکہ چور آپ کو دیکھ کر وہ مال آپ سے نہ لوٹیں۔ آپ نے فرمایا: تمھیں کیا خبر شاید وہ ہمیں ہی لوٹنا چاہتے ہوں؟ تو پھر اپنے مال کو میرے حوالے کرکے کیوں ضایع کرنا چاہتے ہو، اس وقت لوگوں نے کھا: تو پھر کیا کریں کیا مال کو زمین میں دفن کردیا جائے؟ آپ نے فرمایا: نہیں ایسا نہ کرو کیونکہ اس طرح تو مال یونھی برباد ہوجائے گاھوسکتا ہے کہ کوئی اس مال کو نکال لے یا پھر دوبارہ اس جگہ کو تلاش نہ کرسکو۔ اہل قافلہ نے پھر کھا کہ تو آپ ہی بتائےے کیاکریں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کو کسی کے پاس امانت رکھ دو، تاکہ وہ اس کی حفاظت کرتا رھے ، اور اس میں اضافہ کرتا رھے، او رایک درھم کو اس دنیا سے بزرگ تر کردے اور پھر وہ تمھیں واپس لوٹادے، اور اس مال کو تمھارے ضرورت سے زیادہ عطا کرے!!

سب لوگوں نے کھا: وہ کون ہے؟ تب امام علیہ السلام نے فرمایا: وہ ہے”ربّ العالمین“ ہے۔ لوگوں نے کھا: کس طرح اس کے پاس امانت رکھیں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: غریب اور فقیر لوگوں میں صدقہ دیدو۔ سب نے کھا: ہمارے درمیان کوئی غریب یا فقیر نہیں ہے جس کو صدقہ دیدیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اس مال کے ایک تھائی صدقہ دینے کی نیت کرلو تاکہ خداوندعالم چوروں کی غارت گری سے محفوظ رکھے، سب نے کھا: ہم نے نیت کرلی۔ اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا:

فَانْتُمْ فِی امَانِ الله فَامْضُوْا “۔

”پس (اب) تم خدا کی امان میں ہو لہٰذا راستہ چل پڑو“۔

جس وقت قافلہ چل پڑا راستہ میں چوروں کا گروہ سامنے دکھائی پڑا، اہل قافلہ ڈرنے لگے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: (اب) تم کیوں ڈررھے ہو؟ تم لوگ تو خدا کی امان میں ہو۔ چور آگے بڑھے اور امام علیہ السلام کے ہاتھوں کو چومنے لگے اور کھا: ہم نے کل رات خواب میں رسول اللہ کو دیکھا ہے جس میں آنحضرتنے فرمایا: کہ تم لوگ اپنے کو آپ کی خدمت میں پھنچنواؤ۔ لہٰذا اب ہم آپ کی خدمت میں ہیں تاکہ آپ اور آپ کے قافلہ والوں کوچوروں کے شر سے محفوظ رکھیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: تمھاری کوئی ضرورت نہیں ہے جس نے تم لوگوں کے شر کو ہم سے دور کیا ہے وہ دوسرے دشمنوں کے شر کو ہم سے دور کرے گا۔ اہل قافلہ صحیح و سالم شھر میں پھنچ گئے؛ سب نے ایک سوم مال غریبوں میں تقسیم کیا، ان کی تجارت میں بہت زیادہ برکت ہوئی، ہر ایک درھم کے دس درھم بن گئے، سب لوگوں نے تعجب سے کھا:واقعاً کیا برکت ہے؟

امام صادق علیہ السلام نے اس موقع پر فرمایا:

”اب جبکہ تمھیں خدا سے معاملہ کرنے کی برکت معلوم ہوگئی ہے تو تم اس کام کو آگے بڑھانا“۔[۷۰]

اولیاء الٰھی کا لطف و کرم

حضرت امیر المومنین علیہ السلام جس وقت صفین کے علاقے میں پھنچے، تو معاویہ نے ہر طرف سے پانی بند کردیا تھا، تاکہ امام علیہ السلام کا لشکر پیاس کی شدت سے زیادہ نہ لڑسکے۔ امام علیہ السلام نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی سرپرستی میں کچھ لوگوں کو حکم دیا کہ پانی کا راستہ کھول دو، حضرت امام حسین(ع)نے چند لوگوں کے ساتھ مل کر حملہ کیا اور پانی تک پھنچ گئے، معاویہ کی طرف سے پانی پر معین شدہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے، اور پانی پر فرزندان توحید کا قبضہ ہوگیا۔ بعض لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کو مشورہ دیا کہ اب آپ بھی معاویہ کے لشکر پر پانی بند کردیں۔ تو آپ نے فرمایا: قسم بخدا ہم یہ کام ہر گز نہیں کریں گے۔ اس کے بعد آپ نے معاویہ کے پاس اپنے ایک نمائندہ کو بھیجا تاکہ اپنے لشکر کے سقاؤں کو بھیج کر ضرورت بھر کا پانی بھروالے!!

امام رضا علیہ السلام کا ایک عجیب خط

بزنطی جوشیعہ دانشمند راوی اور امام رضا علیہ السلام کے معتبر او رمطمئن صحابی بیان کرتے ہیں: میں نے اس خط کو پڑھا ہے جو امام رضا علیہ السلام نے خراسان سے حضرت امام جواد (محمد تقی) علیہ السلام کو مدینہ بھیجا تھا، جس میں تحریر تھا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ جب آپ بیت الشرف سے باھر نکلتے ہیں اور سواری پر سوار ہوتے ہیں تو خادمین آپ کو چھوٹے دروازے سے باھر نکالتے ہیں، یہ ان کا بخل ہے تاکہ آپ کا خیر دوسروں تک نہ پھنچے،میں بعنوان پدر اور امام تم سے یہ چاہتاھوں کہ بڑے دروازے سے رفت و آمد کیا کرو، اور رفت و آمد کے وقت اپنے پاس درھم و دنیار رکھ لیا کرو تاکہ اگر کسی نے تم سے سوال کیا تو اس کو عطا کردو، اگر تمھارے چچا تم سے سوال کریں تو ان کو پچاس دینار سے کم نہ دینا، اور زیادہ دینے میں خود مختار ہو، اور اگر تمھاری پھوپھیاں تم سے سوال کریں تو ۲۵ درھم سے کم نہیں دیں اگر زیادہ دینا چاھیں تو تمھیں اختیار ہے۔ میری آرزو ہے کہ خدا تم کو بلند مرتبہ پر فائز کرے، لہٰذا راہ خدا میں انفاق کرو ،اور خدا کی طرف سے تنگدسی سے نہ ڈرو![۷۱]

قارئین کرام! جب بندوں پر اولیاء الٰھی اپنے لطف و کرم کی بارش اس طرح کرتے ہیں تو پھر خدائے رحمن کا لطف وکرم اور اس کی رحمت کا کیا حال ہوگا؟!

خداوندعالم کے بے نھایت اسی لطف و کرم اور رحمت کے پیش نظر حضرت امیر المومنین علیہ السلام دعا کے اس حصہ میں یہ فقرہ کھنے کے بعد کہ: ”افتراک سبحانک یا الٰھی“کیا کوئی تجھے اس طرح جانتا ہے کہ اپنے مسلمان بندہ کو کچھ مخالفت کی وجہ سے جھنم میں ڈال کر اس کی آواز کو سنے۔۔۔۔؟ نھیں، نھیں، کوئی بھی اہل معرفت تجھے اس طرح سے نہیں پہچانتا، بلکہ ”ھیھات ماذلک الظن بک۔۔۔“۔

”هَیْهَاتَ مَاذٰلِکَ الظَّنُّ بِکَ،وَلاَالْمَعْرُوفُ مِنْ فَضْلِکَ،

وَلامُشْبِهٌ لِمٰاعٰامَلْتَ بِهِ الْمُوَحِّدینَ مِنْ بِرِّکَ وَاحْسٰانِکَ

فَبِا لْیَقینِ اقْطَعُ لَوْلاٰ مٰا حَکَمْتَ بِهِ مِنْ تَعْذیبِ

جٰاحِدیکَ،وَقَضَیْتَ بِهِ مِنْ اخْلاٰدِ مُعٰانِدیکَ لَجَعَلْتَ

النّٰارَکُلَّهٰابَرْداًوَ سَلاٰماً،وَمٰاکٰانَ لِاحَدٍ فیهٰامَقَرّاًوَلاٰمُقٰاماً،لٰکِنَّکَ

تَقَدَّسَتْ اسْمٰاوکَ اقْسَمْتَ انْ تَمْلَاهٰامِنَ الْکٰافِرینَ مِنَ

الْجِنَّةِ وَالنّٰاسِ اجْمَعینَ،وَ انْ تُخَلِّدَ فیهٰاالْمُعٰانِدینَ،

وَانْتَ جَلَّ ثَنٰاوکَ قُلْتَ مُبْتَدِئاً،وَتَطَوَّلْتَ

بِالْانْعٰامِ مُتَکَرِّماً،افَمَنْ کٰانَ مُومِناًکَمَنْ

کٰانَ فٰاسِقاً لاٰیَسْتَوُوْنَ“

” ہر گز تیرے بارے میں یہ خیال اور تیرے احسانات کا یہ انداز نہیں ہے ۔

تونے جس طرح اہل توحید کے ساتھ نیک برتاو کیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔

میں تویقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ تونے اپنے منکروں کے حق میں عذاب کا فیصلہ نہ کردیا ہوتا اور اپنے دشمنوں کوھمیشہ جھنم میں رکھنے کا حکم نہ دے دیا ہوتا تو ساری آتش جھنم کو سرد اور سلامتی بنا دیتا اور اس میں کسی کا ٹھکانا اور مقام نہ ہوتا۔

لیکن تونے اپنے پاکیزہ اسماء کی قسم کھائی ہے کہ جھنم کو انسان و جنات کے کافروں سے پُر کرے گا اور معاندین کو اس میں ہمیشہ ہمیشہ رکھے گا۔

اور تونے ابتداھی سے یہ کہہ دیا ہے اور اپنے لطف و کرم سے یہ اعلان کر دیا ہے کہ ”مومن اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے“۔

آغوش مھر و محبت

انبیاء، ائمہ معصومین علیھم السلام اور اولیاء الٰھی نیز عبادت گذار بندے ، خدا وندعالم کے بارے میں یہ گمان نہیں رکھتے کہ خداوندمھربان ان پر عذاب نازل کرے گا۔ وہ خدا جس نے قرآن کریم میں خود اپنے آپ کوسب سے زیادہ مھربان اور سب سے زیادہ رحم و کریم، غفور و رحیم، عزیز و ودود، ملک و قدّوس ، لطیف و صاحب فضل اور توبہ قبول کرنے والے کے نام سے تعارف کرایا ہے۔

عذاب قیامت کا اہل ایمان سے کوئی رابطہ نہیں ہے، عذاب خدا تو انکار حق اور خدا سے دشمنی کا نتیجہ ہے۔ عذاب آخرت متکبرین ، مغرورین اور گناھگاروں کے اعمال کا نتیجہ ہے۔ عذاب آخرت گناھوں اور آلودگیوں کا نتیجہ ہے۔ عذاب آخرت کو انسانی کارخانے نے وجود بخشا ہے اگر وہ اس کو پیدا نہ کرتا تو کوئی بھی اس کو وجود عطا نہیں کرسکتا تھا۔

جو شخص منکر اور معاند (دشمن) نہیں ہے اور اس کے دل میں توحید، ایمان اورعشق و محبت کا چراغ روشن ہے اور ایک حد تک اخلاق حسنہ اور عمل شائستہ سے مزین ہو تو پھر وہ عذاب میں کس طرح اور کیوں مبتلا ہو؟!

اس کا سامنا تو ایک مقدس، مھربان اور کریم ذات سے ہے، وھی جس نے ہر گناھگار کو توبہ کے لئے دعوت دی ہے تاکہ اس کو بخش دے، اور ہر روز (دنیا کے مصائب سے) ہارے ہوئے انسان کو آواز دیتا ہے تاکہ اس کو نجات دیدے، اور ہر دردمند کو دعوت دیتا ہے تاکہ اس کا علاج کردے۔

ایک شخص نے کسی عارف سے سوال کیا: میرا دامن گناھوں سے آلودہ ہے، کیا تمھارا گمان ہے کہ مجھے وھاں (قیامت) میں قبول کرلیا جائے؟ چنانچہ اس شخص کی بات سن کر اس عارف نے کھا: وائے ہو تم پر! خدا اپنے سے منھ موڑنے والوں اور پشت کرنے والوں کو حق و حقیقت کی دعوت دیتا ہے، کس طرح ممکن ہے کہ جو شخص خود اس کے دروازے پر التجا کررھا ہو اس کو اپنے دروازے سے دور بھگادے؟!!

مرحوم ابن فھد حلی اپنی کتاب ”عدة الداعی“ میں روایت کرتے ہیں: جس وقت خداوندعالم نے جناب موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کے پاس بھیجا، تاکہ اس کو (گناھوں سے )ڈرائےں، تو خداوندعالم نے فرمایا: فرعون سے کھو کہ میں غضب و عذاب کی نسبت، عفو و بخشش،گناھگاروں کے مقابلہ میں بردباری اور فقیروں کی دعاؤں قبول کرنے میں جلدی کرتا ہوں۔

گناھوں کے مقابلہ میں حضرت ابراھیم کی بے قراری

درج ذیل آیہ شریفہ:

( وَکَذَلِکَ نُرِی إِبْرَاهِیمَ مَلَکُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْارْضِ وَلِیَکُونَ مِنَ الْمُوقِنِینَ ) ۔“[۷۲]

”اور اسی طرح ہم ابراھیم کو آسمان و زمین کے اختیارات دکھلاتے ہیں اور اس لئے کہ وہ یقین کرنے والوں میں شامل ہوجائیں“۔

کے ذیل میں علمائے تفسیر نے لکھا ہے:

جس وقت خداوندعالم نے جناب ابراھیم علیہ السلام کی آنکھیں زمین و آسمان کے حقائق پر کھول دیں اور ان کی آنکھوں سے تمام حجابات اٹھادئے ، اور انھوں نے زمین اور جو کچھ اس میں تھا، اس کا مشاھدہ کیاتو ایک عورت اور مرد کو زنا کرتے دیکھا، آپ نے ان پر نفرین و لعنت کی ، چنانچہ وہ دونوں وھیں ہلاک ہوگئے، اس کے بعد پھر دو عورت و مرد کو اسی حالت میں دیکھا، ان کے لئے بھی نفرین کی تو وہ بھی ہلاک ہوگئے ، اس کے بعد ایک مرد و عورت کو پھر اسی حالت میں دیکھا، جناب ابراھیم نفرین کرنا ہی چاہتے تھے کہ وحی الٰھی نازل ہوئی: اے ابراھیم! میرے بندوں اور کنیزوں پر نفرین نہ کرو، بے شک میں بخشنے والا، مھربان، بردبار اور جبّار ہوں، میرے بندوں کے گناہ مجھے نقصان نہیں پھنچاسکتے، جیسا کہ بندوں کی اطاعت (بھی)مجھے کوئی فائدہ نہیں پھنچاتی ہے۔

میں اپنے بندوں کے ساتھ تین کاموں میں سے ایک انجام دوں گا: یا وہ توبہ کرلیں گے اور میں ان کی توبہ قبول کرلوں گا، ان کے گناھوں کو بخش دوں گا اور ان کے عیوب چھپادوں گا، یا ان سے اپنے عذاب کو د ور رکھوں گا، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ان کی نسل سے مومن اولاد پیدا ہوں گی،لہٰذا ان کے ناشکرے والدین کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتا ہوں تاکہ ان کے صلب سے مومن اولاد پیدا ہوجائیں، اور جب ان کے ذریعہ مومن اولاد پیدا ہوجاتی ہے تو اگر ان کے والدین نے توبہ نہیں کی تو ان کو عذاب میں مبتلاکردیتا ہوں۔ لیکن اگر دونوں گزشتہ باتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو ، تو ان کے لئے آخرت میں ایسا درد ناک عذاب تیار کررکھا ہے اور وہ اس سے کھیں زیادہ بزرگ ہے جتنا آپ ان کے لئے چاہتے ہیں۔

اے ابراھیم! میرے بندوں کو میرے حوالہ چھوڑدو، کیونکہ میں بردبار، دانا، حکیم اور جبّار ہوں، اپنے علم و دانائی کی بنا پر ان کی زندگی کی تدبیر کرتا ہوں، اور ان کے سلسلہ میں اپنی قضا وقدر کو جاری کرتا ہوں۔[۷۳]

تعجب آور حقیقت

کتاب با عظمت ”علم الیقین“ محدث بزرگ،فلسفی، حکیم اور عارف کم نظیر حضرت علامہ فیض کاشانی نے بیان کیا ہے:

ایک شخص کو قیامت میں حاضر کیا جائے گا ،اس کے گناھوں کا پلہ نیکیوں کے مقابلہ میں بھاری ہوگا، اس کے لئے جھنم کا حکم صادر ہوجائے گا، اس وقت خدا کی طرف سے جناب جبرئیل کو حکم ہوگا کہ میرے اس بندے کے پاس جاؤ اور اس سے سوال کرو کہ کیا دنیا میں کسی عالم کے پاس بیٹھتے تھے تاکہ وہ تمھاری شفاعت کرے، وہ گناھگار کھے گا: نھیں،خطاب ہوگا: کیا کسی عالم کے دسترخوان پر کھانا کھایا ہے؟ وہ کھے گا: نھیں، خطاب ہوگا: کیا کسی عالم کی جگہ پر بیٹھے ہو؟ گناھگار کھے گا: نھیں، اس سے کھا جائے گا: کیا کسی عالم کے ہمنام ہو؟کھے گا: نھیں، سوال ہوگا: کیا تمھارے کوئی ایسا دوست ہے جو عالم کا دوست ہو؟ اس موقع پر وہ کھے گا: ہاں۔ خطاب ہوگا: اے جبرئیل! میرے اس بندہ کو اپنے بے نھایت لطف و کرم کی بدولت بخش دیا، اس کے ساتھ نوازش کرو، اور اس کو جنت میں داخل کردو۔

جناب داؤد کے ہم عصر ایک جوان پر خدا کا لطف و کرم

شیخ صدوق علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں: ایک جوان حضرت داؤد علیہ السلام کی محفل میں شرکت کیا کرتا تھا،وہ جوان بہت کمزور اور پتلا دبلا تھا، زیادہ تر چپ چاپ رھا کرتا تھا۔

ایک روز ملک الموت جناب داؤد علیہ السلام کے پاس آئے، درآنحالیکہ اس جوان کو مخصوص طریقہ سے دیکھ رھے تھے، جناب داؤد نے کھا: اس پر نظر رکھے ہوئے ہو؟ اس نے کھا: جی ہاں، مجھے حکم ہے کہ سات روز کے بعد اس کی روح قبض کرلوں۔جناب داؤد علیہ السلام کو اس جوان پر رحم آیا اور اس سے کھا: اے جوان کیا تمھاری زوجہ ہے؟اس نے کھا: میں نے ابھی تک شادی نہیں کی ہے۔

جناب داود علیہ السلام نے کھا: فلاں صاحب عظمت شخص کے پاس جاؤ اور اس سے کھو کہ جناب داود علیہ السلام نے کھا ہے کہ اپنی لڑکی کی مجھ سےشادی کردو، اور مقدمات فراھم کرلو تاکہ آج ہی رات میں یہ شادی ہوجائے۔ اس کے بعد جناب داود علیہ السلام نے اس جوان کو کافی پیسہ دیاتاکہ اس کے ذریعہ ضروری سامان خرید لے او رکھا: سات دن کے بعد میرے پاس آنا۔

وہ جوان گیا اور شادی کے سات دن بعد حضرت داود علیہ السلام کے پاس آیا، انھوں نے اس کے حالات پوچھے تو اس نے کھا: میرا حال آپ سے بہتر ہے، حضرت داود علیہ السلام اس کی روح قبض ہونے کے منتظر تھے، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، فرمایا: جاؤ او ردوبارہ سات دن کے بعد میرے پاس واپس آنا۔

وہ جوان واپس چلا گیا، اور پھر سات دن کے بعد واپس آیا، پھر بھی اس کی موت نہیں آئی، آپ نے پھر ایک بار اس کو کھا: جا ؤاور سات دن کے بعد پھر آنا، وہ گیا اور سات دن کے بعد پھر واپس آگیا، اس روز ملک الموت پھر آگئے، تو حضرت داود علیہ السلام نے ملک الموت سے کھا: کیا تم نے نہیں کھا تھا کہ اس جوان کو سات دن کے بعد مرنا ہے؟ ملک الموت نے کھا: کھا تھا۔ حضرت داود علیہ السلام نے کھا: تو کیا وجہ ہے اس کو تین ہفتہ گذر گئے ہیں لیکن تم نے اس کی روح قبض نہ کی؟! ملک الموت نے کھا: اے داود، خداوندعالم نے اس جوان پر تمھارے رحم آنے کی بنا پر اس پر رحم کردیا اور اس کی عمر تیس سال بڑھادی ہے۔[۷۴]

قارئین کرام! خداوندعالم ، اگر کوئی انسان تھوڑا ساھاتھ پھیلائے تو اس کی طرف اپنے رحمت کی بارش کردیتا ہے، اور اس کو ہر طرف سے اپنے لطف و کرم سے نوازتا ہے۔

اسیر کی آزادی کے لئے پانچ صفات

ایک بہت اھم حدیث میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

چند اسیروں کو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں لایا گیا، آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ایک شخص کے علاوہ سب کو قتل کرنے کا حکم دیدیا، اس نے تعجب سے سوال کرتے ہوئے عرض کیا: آپ نے میری آزادی کا فرمان صادر کیا ہے؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: جبرئیل امین نے مجھے خبر دی ہے کہ تیرے اندر پانچ صفات ہیں جن کو خدا دوست رکھتا ہے:

الغَیْرَةُ الشَّدِیْدَةُ عَلٰی حَرَمِکَ، وَالسَّخَاءُ، وَحُسْنُ الْخُلُقِ، وَصِدْقُ الْلِسَانِ، وَالشُّجَاعَةُ “۔

”اپنے محرموں کے بارے میں بہت زیادہ غیرت، سخاوت، اخلاق حسنہ، زبان میں سچائی، اور شجاعت“۔

چنانچہ وہ شخص اس عجیب واقعہ کو دیکھ کر مسلمان ہوگیا، اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ جھاد کیا اور جام شھادت نوش کیا!![۷۵]

غلام اہل توحید

حضرت امام صادق علیہ السلام نے ایک خطاکار غلام کو تازیانے مارنے کا حکم دیا۔

اس غلام نے کھا: اے فرزند رسول! آپ اس کو تازیانہ مارنے کا حکم دیتے ہیں جس کا شفاعت کرنے والا آپ کے علاوہ کوئی نھیں، آپ کا فضل و کرم اور احسان کھاں ہے؟ اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کو رھا کردو۔

اس موقع پر اس غلام نے کھا: آپ نے مجھے رھا نہیں کیا ہے، بلکہ اس نے رھا کرایا ہے جس نے میری زبان پر یہ کلمات جاری کئے ہیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: پروردگار کعبہ کی قسم! یہ غلام اہل توحید ہے، اس نے خدا کے ساتھ کسی غیر خدا کو شریک نہیں کیا ہے!

ھاں! اہل توحید کے ساتھ فضل و کرم کے علاوہ معاملہ نہ ہوا ہے اور نہ ہی ایسا ہوگا۔جو شخص خدا کی وحدانیت کی گواھی دے اور ایک حد تک خداکی مرضی کے مطابق عمل کرے، تو ایسا شخص خدا وندعالم کے بے کراں لطف و کرم سے نوازا جائے گا۔

حضرت یوسف(ع) کی بے گناھی کی گواھی دینے والے کا انجام

قرآن مجید کی بعض تفاسیر میں منقول ہے: جب حضرت یوسف(ع)مصر کی مسند حکومت پر جلوہ افروز ہوئے، تو انھوں نے سوچا کہ اپنی حکومت کے لئے ایک وزیر کی ضرورت ہے، تاکہ معاشرہ کی اصلاح اور تربیت کا بندو بست کرے، اور ان کے ساتھ عدل و محبت کا سلوک کرے۔

اس وقت جناب جبرئیل امین نازل ہوئے او رکھا:

خدا فرماتا ہے کہ تمھیں ایک وزیر کی ضرورت ہے، جناب یوسف(ع) نے کھا: میں بھی یھی سوچ رھا ہوں، لیکن اس منصب کے لئے مناسب شخص کے بارے میں علم نہیں ہے؟

جبرئیل نے فرمایا:

کل جب آپ حکومت کے دروازے سے باھر نکلیں تو جو شخص سب سے پھلے آپ سے ملاقات کرے وھی اس عھدہ کا حقدار ہے، چنانچہ جب دوسرے روز حضرت یوسف باھر نکلے تو سب سے پھلے ایسا شخص ملا، جو بہت کمزور اور دبلا پتلا اور اچھی شکل والا نہ تھااور اپنی پیٹھ پر ایندھن لادے ہوئے ہے، جناب یوسف نے خود سے کھا:

یہ شخص وزارت کی صلاحیت نہیں رکھتا، اور چاھا کہ اس سے منھ پھیر کر چلے جائیں، لیکن جناب جبرئیل نازل ہوئے اور کھا:

اس کو مت چھوڑئےے اور اس کو اپنی وزارت کے لئے انتخاب کرلیجئے، کیونکہ اس کا آپ پر احسان ہے، یھی وہ شخص ہے جس نے عزیز مصر کے دربار میں آپ کی سچائی کی گواھی دی تھی، اس میں آپ کی وزارت کا عھدہ سنبھالنے کی صلاحیت ہے۔

قارئین کرام! جب خداوندعالم حضرت یوسف کی پاکیزگی کی صحیح گواھی دینے والے کو جناب یوسف کا وزیر بنادیا، تو اگر کوئی شخص پوری عمر اس کی وحدانیت کی گواھی دے تو اس کے ساتھ کیا کرے گا؟!!

جی ہاں، خدائے رحمن و مھربان کا لطف وکرم اوراس کا احسان کوئی ایسی شئے نہیں ہے جو کسی کی سمجھ میںآسکے، اس مقام پر عقلمندوں کی عقل اور خردمندوں کی خرد اور ہوشیاروں کے ہوش اُڑجاتے ہیں، اور کسی میں بھی ان حقائق کو کما حقہ سمجھنے کی طاقت نہیں ہے۔

” الٰهي وَسَیِّدِي،فَاسْالُکَ بِالْقُدْرَةِ الَّتي قَدَّرْتَهٰا،وَبِالْقَضِیَّةِ الَّتي حَتَمْتَهٰاوَحَکَمْتَهٰا،وَغَلَبْتَ مَنْ عَلَیْهِ اجْرَیْتَهٰا،انْ تَهَبَ

لِي فِي هٰذِهِ اللَّیْلَةِ وَفي هٰذِهِ السّٰاعَةِ کُلَّ

جُرْمٍ اجْرَمْتُهُ،وَکُلَّ ذَنْبٍ اذْنَبْتُهُ،وَکُلَّ قَبیحٍ اسْرَرْتُهُ،

وَکُلَّ جَهَلٍ عَمِلْتُهُ،کَتَمْتُهُ اوْاعْلَنْتُهُ،

اخْفَیْتُهُ اوْ اظْهَرْتُهُ“

” تو خدایا ۔مولایا۔میں تیری مقدر کردہ قدرت اور تیری حتمی حکمت و قضاوت

اور ہر محفل نفاذ پر غالب آنے والی عظمت کا حوالہ دے کر تجھ سے سوال کرتاھوں

کہ مجھے اِسی رات میں اور اِسی وقت معاف کردے۔ میرے سارے جرائم،

سارے گناہ اور ساری ظاھری اور باطنی برائیاں اور ساری جھالتیں جن پر میں

نے خفیہ طریقہ سے یا علی الاعلان، چھپا کر یا ظاھر کر کے عمل کیا ہے“۔

قارئین کرام ! دعا کے ابتدائی حصہ میں ”اللّٰھم اغفر لی الذنوب اللتی۔۔۔“ کے جملات میں گناہ اور اس کے آثار کے بارے میں تفصیل کے ساتھ شرح دی جاچکی ہے، دوبارہ شرح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام دعا کے اس حصہ میں خلوت اورجلوت میں ہونے والے گناھوں کی طرف اشارہ فرماتے ہیں اور خدا وندعالم کی بارگاہ میں ان کی بخشش کی دعا فرماتے ہیں۔

جی ہاں، شب جمعہ ، راز و نیاز کا وقت اور مناجات و توبہ کے لمحات ہیں، چشم پُرنم اور نالہ و زاری کے ساتھ تیری بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں، تاکہ تو میرے تمام گناھوں کو بخش دے، اور اس رات میں میرے اوپر رحمت و عنایت اور کرامت و مغفرت کے دروازے کھول دے۔(آمین)

آمد بہ درت امیدواری

کو را بہ جز از تو نیست یاری

محنت زداہ ای نیازمندی

خجلت زدہ ای گناھگاری

از یار جدا افتاد عمری

و ز دوست بماندہ روزگاری

شاید ز در تو بازگردد

نومید چنین امیدواری

بخشای ز لطف بر ”عراقی“ کو ماندہ کنون و زینھاری

تیرے دروازے پر ایک امیدوار شخص آیاھے کہ تیرے علاوہ اس کا کوئی ناصر و مددگار نہیں ہے۔

یہ گناھگار، شرمندہ ،پریشان حال اور نیاز مند ہے۔

ایک مدت تک اپنے محبوب (خدا) سے دور رھا اور اپنے دوست سے بے مروتی کی ہے۔

تیرے در سے خالی ہاتھ اور ناامید شاھد ہی پلٹے

”عراقی“ پر اپنا خاص لطف و کرم فرما تاکہ وہ بے یار و مددگار نہ رھے۔

” وَکُلَّ سَیِّئَةٍ امَرْتَ بِاثْبٰاتِهاَ الْکِرٰامَ الْکٰاتِبینَ،اَلَّذینَ

وَکَّلْتَهُمْ بِحِفْظِ مٰایَکُونُ مِنِّي،وَجَعَلْتَهُمْ شُهُوداً

عَلَیَّ مَعَ جَوٰارِحِي،وَکُنْتَ انْتَ الرَّقیبَ عَلَیَّ

مِنْ وَرٰائِهِمْ،وَالشّٰاهِدَ لِمٰاخَفِيَ عَنْهُمْ،وَبِرَحْمَتِکَ اخْفَیْتَهُ،

وَبِفَضْلِکَ سَتَرْتَهُ،وَانْ تُوَفِّرَحَظّي مِنْ کُلِّ خَیْرٍانْزَلْتَهُ ،

اوْاحْسٰانٍ فَضَّلْتَهُ،اوْ بِرٍّ نَشَرْتَهُ،اوْرِزْقٍ بَسَطْتَهُ،اوْذَنْبٍ

تَغْفِرُهُ،اوْخَطَاءٍ تَسْتُرُهُ“

” اور میری تمام خرابیاں جنھیں تونے درج کر نے کا حکم کراماً کاتبین کو دیا ہے جن کواعمال کے محفوظ کرنے کے لئے معین کیا ہے اور میرے اعضاء و جوارح کے ساتھ ان کو میرے اعمال کا گواہ قرار دیا ہے اور پھر تو خود بھی ان سب کی نگرانی کررھا ہے اور جوان سے مخفی رہ جائے اس کا گواہ ہے سب کو معاف فرمادے۔یہ تو تیری رحمت ہے کہ تونے انھیں چھپا دیا ہے اور اپنے فضل وکرم سے ان عیوب پر پردہ ڈال دیا ہے۔میرے پروردگار اپنی طرف سے نازل ہونے والے ہر خیر و احسان اور نشر ہونے والی ہرنیکی ۔ھر وسیع رزق۔ھر بخشے ہوئے گناہ۔ عیوب کی ہر پردہ پوشی میں سے میرا وافر حصہ قرار دے“۔

کرام الکاتبین اور انسان کے اعضاء وجوارح

کرام الکاتبین (فرشتوں)کے ذریعہ انسان کے تمام اعمال کا لکھا جانا اور ان کے ساتھ انسانی کردار پر اعضاء وجوارح کا گواھی دینا، یہ وہ حقیقت ہے جس پر قرآنی آیات اور روایات معصومین علیھم السلام دلالت کرتی ہیں۔

( وَاِنَّ عَلَیْکُم لَحَافِظینَ کِراماً کَاتِبینَ یَعْلَمونَ مَا تَفْعَلونَ ) ۔“[۷۶]

”اور یقینا تمھارے سروں پر نگھبان مقرر ہیں۔جو باعزت لکھنے والے ہیں“۔

( حَتَّی إِذَا مَا جَائُوهَا شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَابْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ .وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَیْنَا قَالُوا انطَقَنَا اللهُ الَّذِی انطَقَ کُلَّ شَیْءٍ ) ۔۔۔“[۷۷]

”یھاں تک کہ جب سب جھنم کے پاس آئےں گے تو ان کے کان ان کی آنکھیں اور جلد (کھال) ان کے اعمال کے بارے میں ان کے خلاف گواھی دیں گے۔ اور وہ اپنے اعضاء سے کھیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیسے شھادت دیدی تو وہ جواب دیں گے کہ ہمیں اسی خدا نے گویا بنایا ہے جس نے سب کو گویائی عطا کی ہے۔۔۔“۔

( ” یَوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ الْسِنَتُهُمْ وَایْدِیهِمْ وَارْجُلُهُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔“[۷۸]

”قیامت کے دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں سب گواھی دیں گے کہ یہ کیا کررھے تھے “۔

( ”الْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلَی افْوَاهِهِمْ وَتُکَلِّمُنَا ایْدِیهِمْ وَتَشْهَدُ ارْجُلُهُمْ بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ ) ۔“[۷۹]

”آج ہم ان کے منھ پر مھر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ بولیں گے اور ان کے پاؤں گواھی دیں گے کہ یہ کیسے اعمال انجام دیا کرتے تھے“۔

( مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَیْهِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ ) ۔“[۸۰]

”وہ کوئی بات منھ سے نہیں نکالتا مگر یہ کہ ایک نگھبان اس کے پاس موجود رہتا ہے“۔

کرام الکاتبین ، رقیب و عتید ، انسان کی زبان،کان، ہاتھ اور پیر کے علاوہ زمین پر انسان کے اعمال کی گواھی دے گی،اور انسان کی سعی و کوشش کے بارے میں خبر دے گی، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے:

( یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اخْبَارَهَا بِانَّ رَبَّکَ اوْحَیٰ لَها ) ۔“[۸۱]

”اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی کہ تمھارے پروردگار نے اسے اشارہ کیا ہے “۔

اسی طرح خدا و رسول اور ائمہ علیھم السلام بھی انسان کے اعمال کو دیکھتے ہیں اور روز قیامت ان کے خلاف گواھی دیں گے، جیسا کہ سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَقُلْ اعْمَلُوا فَسَیَرَی اللهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ۔“[۸۲]

”اور پیغمبر کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رھو کہ تمھارے عمل کو اللہ رسول اور صاحبان ایمان سب دیکھ رھے ہیںاور عنقریب تم اس خدائے عالم الغیب والشھادہ کی طرف پلٹا دئے جاؤگے اور وہ تمھیں تمھارے اعمال سے باخبر کرے گا“۔

البتہ اس طرح کی آیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گواھوں کی گواھی، کفار، معاندین (دشمن خدا و رسول) اور خدا و رسول کی مخالفت کرنے والے اور ماھر مجرمین کے خلاف ہوگی، کیونکہ مومنین اور توبہ کرنے والوں پر روز قیامت خداوندعالم کی رحمت نازل ہوگی، اور ان کے نامہ اعمال کسی غیر کے سامنےپیش نہ ہوں گے، اور خداوندمھربان گواھوں کی یاد داشت کو بھلا دے گا ، اور ان کی عزت و آبرو کو محفوظ رکھے گا۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

مَن تَابَ اللّٰهُ عَلَیهِ،امِرَتْ جَوَارِحُهُ انْ تَسْتُرَ عَلَیهِ،وَبِقاعُ الارضِ انْ تَکْتُمَ عَلَیهِ،وَانسِیَتِ الحفَظَةُ ماکَانَتْ تَکتُبُ عَلَیهِ “[۸۳]

”جو شخص خدا کی بارگاہ میں توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلے تو اس کے اعضاء و جوارح کوحکم ہوگا کہ اس کے گناھوں کو چھپادیں، اور زمین کے حصوں کو حکم دے گا کہ اس کے گناھوں کو چھپالیںاور جو کچھ بھی نامہ اعمال لکھنے والوں نے لکھا ہے ان کو بھی بھلادیں۔

حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اِذا تَابَ العَبدُ المُومنُ تَوْبةً نَصوحاً احَبَّهُ اللّٰهُ فَسَتَرَ عَلَیهِ فِی الدُّنیا وَ الٓاخِرةِ، قُلتُ وَ کَیْفَ یَسْتُرُ عَلَیْهِ؟قَالَ:یُنْسِی مَلَکَیْهِ ماَ کَتَبا علیه مِنِ الذُّنوبِفَیَلْقَی اللّٰهَ حِینَ یَلقَاهُ وَلیسَ شَیْءٌ یَشْهَدُ عَلَیهِ بِشَیْءٍ مِن الذُّنُوبِ “[۸۴]

”جب کوئی بندہ مومن خالص توبہ کرتا ہے تو خداوندعالم اس سے محبت کرنے لگتا ہے، اور دنیا و آخرت میں اس کے گناھوں کو چھپالیتا ہے۔ معاویہ بن وھب کہتے ہیں کہ (خداوندعالم) کس طرح اس کے گناھوں کو چھپالیتا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کے گناھوں کو لکھنے والے فرشتوں کو بھلا دیتا ہے، پس وہ روز قیامت اس حال میں خدا سے ملاقات کرے گا کہ کوئی بھی اس کے خلاف گواھی دینے والا نہ ہوگا“۔

”یٰارَبِّ یٰارَبِّ یٰارَبِّ، یٰاالٰهيوَ سَیِّدِي وَمَوْلٰايَوَمٰالَکَ

رِقّی،یٰامَنْ بِیَدِهِ نٰاصِیَتِي،یٰاعَلیماً بِضُرِّي

وَمَسْکَنَتي،یٰاخَبیراً بِفَقْرِي وَ فٰاقَتِي یٰارَبِّ یٰارَبِّ یٰارَبِّ،

اسْالُکَ بِحَقِّکَ وَقُدْسِکَ،وَاعْظَمِ صِفٰاتِکَ وَاسْمٰائِکَ،

انْ تَجْعَلَ اوْقٰاتِي مِنَ اللَّیْلِ وَالنَّهٰارِ بِذِکْرِکَ مَعْمُورَةً،

وَبِخِدْمَتِکَ مَوْصُولَةً، وَاعْمٰاليعِنْدَکَ مَقْبُولَةً،

حَتّٰی تَکُونَ اعْمٰاليوَاوْرٰادِي کُلُّهٰاوِرْداً وَاحِداً،وَحٰالِي

في خِدْمَتِکَ سَرْمَداً یٰاسَیِّدِي یَامَنْ عَلَیْهِ مُعَوَّلِي،

یٰا مَنْ الَیْهِ شَکَوْتُ احْوٰالي،یٰارَبِّ یٰارَبِّ یٰارَبِّ“

”اے میرے رب ۔اے میرے رب۔اے میرے رب۔اے میرے مولا اور آقا! اے میری بندگی کے مالک۔اے میرے مقدر کے صاحب اختیار۔ اے میری پریشانی اور بے نوائی کے جاننے والے۔ اے میرے فقر و فاقہ کی اطلاع رکھنے والے! اے میرے پروردگار۔ اے میرے رب۔اے میرے رب! تجھے تیری قدوسیت ۔تیرے حق اور تیرے عظیم ترین اسماء وصفات کا واسطہ دے کر یہ سوال کرتاھوں کہ دن اور رات میں جملہ اوقات اپنی یاد سے معمور کردے۔اپنی خدمت کی مسلسل توفیق عطا فرما۔میرے اعمال کو اپنی بارگاہ میں مقبول قرار دے تاکہ میرے جملہ اعمال اور جملہ اوراد (یعنی ورد کی جمع) سب تیرے لئے ہوں اور میرے حالات ہمیشہ تیری خدمت کے لئے وقف رھیں۔ میرے مولا۔میرے مالک! جس پر میرا اعتماد ہے اور جس سے میں اپنے حالات کی فریاد کرتا ہوں۔ اے رب۔اے رب۔اے رب!“

اسم اعظم

عرفاء اور اولیاء الٰھی کے ایک گروہ کا یہ عقیدہ ہے: لفظ مبارک ”ربّ“ جس کے معنی: مالک، پالنے والے اور صاحب اختیار کے ہیں جو اپنی مخلوق کی بے لوث تربیت کرتا ہے، یہ لفظ ”اسم اعظم“ ہے، جس کے ذریعہ انسان پر رحمت خدا نازل ہوتی ہے، اور اس کی پریشانیاںدور ہوجاتی ہیں، بلکہ اس کے گناہ اور خطائیں بخش دی جاتی ہیں گویا اس کے گناہ آب مغفرت سے دھل کر صاف ستھرے ہوجاتے ہیں۔

تمام انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کی دعا، مناجات اور مشکلات و پریشانی کے وقت اسی نام سے متوسل ہونے کی علت یھی ہو سکتی ہے کہ لفظ ”ربّ“ کو اسم اعظم جانتے تھے۔

حضرت آدم و حوا علیھما السلام نے توبہ کے وقت عرض کیا:

( رَبَّنَا ظَلَمْنَا انفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنْ الْخَاسِرِینَ ) ۔“[۸۵]

”پروردگار ہم نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے اب اگر تو معاف نہ کرے گا تو ہم خسارہ اٹھانے والوں میں ہوجائیں گے“۔

جناب نوح نے نو سو پچاس برس تک کفار و مشرکین کے ظلم و ستم سھنے اور ہدایت سے پریشان ہوکر بارگاہ الٰھی میں عرض کرتے ہیں:

”۔۔۔( رَبِّ لاَتَذَرْ عَلَی الْارْضِ مِنْ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا ) ۔“[۸۶]

”(اور نوح نے کھا)پروردگارا! اس زمین پر کافروں میں سے کسی بسنے والے کو نہ چھوڑنا“۔

حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنی دعا اور مناجات میں فرماتے تھے:

( رَبِّ هَبْ لِی حُکْمًا وَالْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ ) ۔“[۸۷]

”خدایا !مجھے علم و حکمت عطا فرما اور مجھے صالحین کے ساتھ ملحق کردے“۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نیاز اور احتیاج کے وقت عرض کرتے تھے:

”۔۔۔رَبِّ إِنِّی لِمَا انزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ ۔“[۸۸]

”عرض کی پروردگار یقینا میںاس خیر کا محتاج ہوں جو تو میری طرف بھیج دے“۔

حضرت سلیمان علیہ السلام مغفرت اور بے نظیر حکومت کی درخواست کرتے تھے:

”۔۔۔( رَبِّ اغْفِرْ لِی وَهَبْ لِی مُلْکًا لاَیَنْبَغِی لِاحَدٍ مِنْ بَعْدِی ) ۔۔۔“[۸۹]

”پروردگارا!مجھے معاف فرما اور ایک ایسا ملک عطا فرما جو میرے بعد کسی کے لئے سزا وار نہ ہو“۔

حضرت زکریا علیہ السلام اپنے لئے بیٹے کی درخواست ان الفاظ میں کرتے ہیں:

”۔۔۔( رَبِّ لَا تَذَرْنِی فَرْداً وَ انْتَ خَیْرُ الوَارِثِینَ ) ۔“[۹۰]

”پروردگار مجھے اکیلا نہ چھوڑدینا کہ تو تمام وارثوں سے بہتر وارث ہے“۔

حضرت یوسف علیہ السلام شکر گزاری اور اپنی حاجتوں کی برآری کے لئے عرض کرتے ہیں:

( رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنْ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِی مِنْ تَاوِیلِ الْاحَادِیثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْارْضِ انْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَالْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ ) ۔“[۹۱]

”پروردگار تو نے مجھے ملک بھی عطا کیا ہے اور خوابوں کی تعبیر کا علم بھی دیا ،تو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اور دنیا و آخرت میں میرا ولی اور سرپرست ہے مجھے دنیا سے فرما نبردار اٹھانا اور صالحین سے ملحق کردینا“

جناب ایّوب علیہ السلام بھی پریشانیوں کے عالم میں دست بہ دعا ہوتے ہیں:

”۔( وَایُّوْبَ إِذْ نَادَیٰ رَبَّهُ انِّی مَسَّنِیَ الضُّرُّوَانْتَ ارحَمُ الرَّاحِمِین ) ۔“[۹۲]

”اور ایوب کو یاد کرو جب انھوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے بیماری نے چھو لیا ہے اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے“۔

اسی طرح پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا:

( وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَانْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِین ) ۔“[۹۳]

”اور پیغمبر آپ کہئے کہ پروردگار میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم کر کہ تو بہترین رحم کرنے والا ہے“۔

صالحین اور مومنین ، جب زمین و آسمان کی خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں:

”۔۔۔( رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا ) ۔۔۔“[۹۴]

”خدایا !تو نے یہ سب بیکار نہیں پیدا کیا ہے“۔

وہ ابلیس جو نھایت تکبر اور عصیان کی حالت میں تھا، خدا سے روز قیامت تک کی مھلت اسی نام کے ذریعہ طلب کی :

( قَالَ انظِرْنِی إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ ) ۔“[۹۵]

”اس نے کھا پھر مجھے قیامت تک کی مھلت دیدے“۔

خدا کی بارگاہ کا مردود شیطان (بھی)خدا کو اس نام سے پکارتا ہے تو اس کو قیامت تک کی مھلت مل گئی۔

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے منقول ہے کہ جو شخص خداوندعالم کو ”یاربّ“ کہہ کر پکارے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔

اسی طرح منقول ہے کہ جب کوئی بندہ مومن خدا کو ایک بار اس نام سے پکارتا ہے اور کہتا ہے:”یاربّ“ تو خدا اس کے جواب میں کہتا ہے: ”لبیک“ اور جب بندہ مومن خدا کو اس نام سے دوسری اور تیسری بار پکارتا ہے تو خدا کہتا ہے: مانگ تیری کیا حاجت ہے، تاکہ تیری حاجت پوری کردوں۔[۹۶]

مقبول اعمال

تمام انبیاء، ائمہ معصومین علیھم السلام اور اولیاء الٰھی ہمیشہ بارگاہ رب العزت میں یہ دعا کرتے تھے: اے خدائے مھربان! ہمارے اعمال کو قبول فرما، اور ہمارے ساتھ لطف وکرم کا معاملہ فرما۔

یہ تمام بزگوار حضرات اس حقیقت سے آگاہ تھے: اگر کوئی شخص عمل انجام نہیں دے گا توکل روز قیامت اس کی جزا بھی نہیں ملے گی، اور اگر کسی شخص نے عمل انجام دئے ہیں لیکن عمل کے لئے ضروری شرائط جیسے ایمان اور اخلاص نہ ہو،تو بھی خدا کی رحمت سے محروم رھے گا۔لہٰذا عمل کو اس کے تمام شرائط کے ساتھ انجام دینا بہت زیادہ اھمیت کا حامل ہے، اور جب انسان شائستہ طریقہ سے اعمال انجام دے ، تو خداوندعالم کی بارگاہ میں اس کے قبول ہونے کی دعا کرے: ”وَاعْمٰالي عِنْدَکَ مَقْبُولَةً“۔

قرآن و حدیث میں اس بات کی بہت تاکید کی گئی ہے: وہ عمل قابل قبول ہے جس کا انجام دینے والا صاحب ایمان ہو اور خدا کی خوشنودی کے لئے ہو اور اس کے احکام وفرامین کے مطابق ہو۔

جاننا چاہئے کہ مومن کے ہی اعمال قبول ہوتے ہیں اور مومن ہی کے گناہ بخشے جائیں گے۔ کافر اور معاند (دشمن خدا و رسول) کے اعمال قبول نہیں ہوں گے چاھے وہ عمل کتنا ہی عظیم اور اھم ہو، او ران کا چھوٹے سے چھوٹا گناہ بھی قابل بخشش نہیں ہوتا۔

عمل کی اھمیت،اس کے حالات اور اس کے ثواب کے بارے میں بہت سی اھم روایات معتبر کتابوں میں بیان ہوئی ہیں، جن میں چند ایک کی طرف اشارہ کیا جارھا ہے:

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

الشَّرفُ عِندَ اللّٰهِ سُبحانَهُ بِحُسنِ الاعمَالِ لا بِحُسنِ الاقوَالِ “[۹۷]

” خدا کے نزدیک شرف اور بزرگواری اچھے اعمال کے سبب ہے، اچھی باتوں کے ذریعہ نھیں“۔

العَمَلُ شِعارُ المُومِنِ “[۹۸]

”عمل مومن کا شعار ہے“۔

المُداوَمَةَ المُداوَمَةَ!فَاِنَّ اللّٰهَ لَم یَجْعَل لِعَمَل المُو مِنینَ غَایَةً اِلاَّ المَوتَ “[۹۹]

”ھمیشہ اعمال صالحہ انجام دیتے رھو ،ھمیشہ اعمال صالحہ انجام دیتے رھو کیونکہ خداوندعالم نے مومن کے عمل کرنے کے لئے موت کے علاوہ اورکوئی حدقرار نہیں دی ہے “۔

اعلَی الاعمَالِ اِخلاصُ الإیمانِ وَ صِدْقُ الوَرَعِ وَالإیقَان “[۱۰۰]

”بہترین اعمال؛ ایمان میں اخلاص اور تقویٰ ویقین میں صداقت ہے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

دَعَا اللّٰهُ النَّاسَ فِی الدُّنیا بِآبائِهِم لِیَتَعَارَفُوا، وفِی الٓاخِرَةِ بِاعْمالِهِم لِیُجَازَوُا “[۱۰۱]

”خداوندعالم دنیا میں انسانوں کو ان کے باپ کے ناموں سے پکارتا ہے ،تاکہ ایک دوسرے کی پہچان ہوسکے، لیکن آخرت میں ان کے اعمال کے ذریعہ پکارے گا تاکہ ان کو جزا یا سزا دی جاسکے“۔ اس کے بعد فرمایا:

یَا ایُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوا، یَا ایُّهَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا “، حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے:

افضَلُ الاعمَالِ اِیمَانٌ بِاللّٰهِ وَتَصدیقٌ بِه وَجِهادٌ فِی سَبیلِ اللّٰهِ وَحَجُّ مَبرورٌ، وَاهوَنُ عَلیکَ مِن ذَالکَ اِطعامُ الطَّعامِ وَلِینُ الکَلامِ وَالسَّماحَةُ وَحُسنُ الخُلقِ، وَاهوَنَ عَلیکَ مِن ذَالکَ انْ لاٰ تَتَّهِمَ اللّٰهَ فِی شَیْءٍ قَضاهُ اللّٰهُ عَلَیکَ “[۱۰۲]

”سب سے بہتر ین اعمال، خدا پر ایمان اور اس کی تصدیق ہے، راہ خدا میں جھاد اور قبول شدہ حج ہے، ان سے کم درجہ فقیروں کو کھانا کھلانا، گفتگو میں نرم لہجہ اختیار کرنا اور خوش اخلاق ہونا ہے، اس سے کم یہ ہے کہ قضا قدر الٰھی میں چون و چرا کرکے اس پر بہتان نہ باندھو“۔

نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے:

سَیّدُ الاعمَالِ ثَلاثُ خِصالٍ :اِنصافُکَ النَّاسَ مِن نَفسِکَ،وَمُواسَاتُکَ الاخُ فِی اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ،وَذِکرُ اللّٰهِ تَعالی عَلی کُلِّ حالٍ “[۱۰۳]

”تین خصلتیں اعمال کی سردار ہیں: اپنے ساتھ انصاف کرنا، دینی بھائیوں کی امداد کرنااور ہر حال میں یاد خدا کرتے رھنا“۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

فَطُوبَی لِمَن اخلَصَ للّٰهِ عَمَلَهُ وَعِلمَه وَحُبَّه وَ بُغضَه وَاخذَه وَتَرکَه وَکَلامَه وَصَمتَه وَفِعلَه وَقَولَه “[۱۰۴]

”لائق مبارکبادھے وہ شخص جس کا علم و عمل، دوستی و دشمنی، لین دین، گفتگو اور سکوت اختیار کرنااور رفتار وگفتار خالص خدا کے لئے ہو“۔

حضرت رسول خدا (ص) جناب ابوذر سے وصیت فرماتے ہیں:

کُن بِالعَمَلِ بِالتَّقوَی اشدَّ اهتِمَاماً مِنکَ بِالعَمَلِ ؛فَاِنَّهُ لَایَقِلُّ عَمَلٌ بِالتَّقوَی،وَکَیفَ یَقِلُّ عَمَلٌ یُتَقَبَّل، یَقُولُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ :”اِنَّما یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ المُتَّقینَ ۔“[۱۰۵]

”عمل سے زیادہ تقویٰ الٰھی کااہتمام کرو، کیونکہ تقویٰ کے ساتھ کوئی بھی عمل قلیل نہیں ہے، کیونکہ جو عمل قبول ہوجائے وہ کم نہیں ہے، خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے: ”ھم صرف متقین کے (اعمال) قبول کرتے ہیں“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

اِنَّکَ لَن یُتَقَبَّلُ مِن عَمَلِکَ اِلاَّ مَا اخلَصتَ فِیهِ “[۱۰۶]

”یقینا تمھارے وھی اعمال قبول ہوں گے جن میں اخلاص پایا جاتا ہوگا“۔

بھر حال صاحب ایمان اور اہل یقین نیز پرھیزگارافراد کا عمل قابل قبول ہے، اعمال کے قبول ہونے کی اھمیت اس قدر زیادہ ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

مَن قَبِلَ اللّٰهُ مِنْهُ صَلاةً وَاحِدَةً لَم یُعَذِّبْهُوَمَن قَبِلَ مِنْهُ حَسَنَةً لَم یُعَذِّبْهُ “[۱۰۷]

”جس شخص کی ایک نماز بارگاہ الٰھی میں قبول ہوجائے تو وہ اس پرعذاب نہیں کرے گا، اسی طرح اگر کسی انسان سے ایک نیک کام قبول کرلیا گیاتو اس کو بھی عذاب نہیں ہوگا“۔

”مَن قَبِلَ اللّٰهُ مِنْهُ حَسَنَةً وَاحِدَةً لَم یَعَذِّبْهُ ابَداً وَدَخَلَ الجَنَّةَ“ [۱۰۸]

”جس شخص کا ایک نیک عمل بارگاہ الٰھی میں قبول ہوجائے تو اس پر عذاب نہیں ہو گا، اور اس کو بھشت میں داخل کیا جائے گا“۔

پالنے والے! ہم کو اعمال صالحہ بجالانے میں سستی اور کاہل ی سے محفوظ فرما، اور اپنی عبادت پر ہمارے کوششوں میں اضافہ فرما، اور ہمارے دل کو مکمل طور پر بیداری عنایت کردے!۔

____________________

[۱] بحار الانوار :۶۲۶۷،باب ۴۵،حدیث ۱۔

[۲] سفینة البحار ج۸ ص ۲۹۸۔

[۳] وسا یل الشیعہ:۱۶۳۱۵،باب ۱،حدیث۲۰۲۱۶۔

[۴] وسا یل الشیعہ:۱۶۲۱۵،باب ۱،حدیث۲۰۲۱۴۔

[۵]کافی:۲۲۸۸،حدیث یاجوج ماجوج،حدیث ۲۹۱؛بحار الانوار:۲۸۵۷،باب ۱۳،حدیث۳۔

[۶] سورہ انسان(دھر)آیت ۴۔

[۷] سورہ حاقہ آیت۳۰تا۳۳۔

[۸] سورہ فجر آیت ۲۸(اے نفس مطمئن اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس عالم میں کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے۔)

[۹] سورہ حاقہ آیت۲۸۔۲۹۔

[۱۰] تفسیر نمونہ ج ۲۴ ص ۴۶۴۔

[۱۱] تفسیر نمونہ، ج ۲۴ ص ۴۶۵۔

[۱۲] سورہ صافات آیت ۳۵۔

[۱۳] الٰھیات در نہج البلاغہ، ۱۲۹۔

[۱۴] نہج البلاغہ، خطبہ اول ، (ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی مرحوم ص ۲۷)

[۱۵] نہج البلاغہ، خطبہ۸۶، (ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی مرحوم ص ۱۵۱)

[۱۶] کافی:۵۰۶۲باب تسبیح ،حدیث ۵؛توحید صدوق:۱۸،باب ثواب الموحدین ،حدیث ۲۔

[۱۷] توحید صدوق:۱۹،باب ثواب الموحدین والعارفین،حدیث ۵۔

[۱۸] توحید صدوق:۱۹،باب ثواب الموحدین ،حدیث ۳۔

[۱۹] توحید صدوق:۲۰،باب ثواب الموحدین ،حدیث ۷۔

[۲۰] توحید صدوق:۲۱،باب ثواب الموحدین ،حدیث ۱۳۔

[۲۱] توحید صدوق:۲۳،باب ثواب الموحدین ،حدیث ۱۸۔

[۲۲] توحید صدوق:۲۹،باب ثواب الموحدین ،حدیث ۳۱۔

[۲۳] سوره یونس، آیت ۳۱.

[۲۴] تفسیر کشف الاسرار:۳۷۴۳۔

[۲۵] عطار نیشاپوری، منطق الطیر ،حکایت موسی و قارون۔

[۲۶] خصال :۵۲۲۲،حدیث ۱۱؛میزان الحکمة:۳۰۹۲۷،الصلاة ،حدیث ۱۰۵۲۸۔

[۲۷] مکارم الاخلاق:۴۶۱،الفصل الخامس؛میزان الحکمة:۷ ۳۰۹۲، الصلاة ،حدیث ۱۰۵۳۵۔

[۲۸] مالی صدوق:۵۴۹،حدیث ۲۲؛میزان الحکمة:۳۰۹۶۷،الصلاة ،حدیث ۱۰۵۵۶۔

[۲۹] غررالحکم:۱۷۵،حدیث۳۳۴۱،میزان الحکمة:۳۰۹۲۷،الصلاة ،حدیث ۱۰۵۳۲۔

[۳۰] خصال:۶۲۰۲؛میزان الحکمة:۳۰۹۴۷،الصلاة ،حدیث ۱۰۵۳۷۔

[۳۱] امالی طوسی:۵۲۲،حدیث۱۱۵۷؛میزان الحکمة:۳۰۹۴۷،الصلاة ،حدیث ۱۰۵۴۳۔

[۳۲] علل الشرایع:۳۳۶۲،باب ۳۳،حدیث۲؛میزان الحکمة:۳۱۰۴۷،الصلاة ،حدیث ۱۰۵۸۵۔

[۳۳] تحف العقول :۱۷۴۔وصیة لکمیل بن زیاد ،میزان الحکمة:۳۱۰۶۷،الصلاة ،حدیث ۱۰۵۹۲۔

[۳۴] غرر الحکم:۸۳،حدیث ۱۳۲۷؛میزان الحکمة:۳۴۰۲۷،الظن،حدیث ۱۱۵۹۰۔

[۳۵] کافی:۲ص۷۲،باب حسن الظن،حدیث۴،میزان الحکمة:۳۴۰۲۷، الظن،حدیث۱۱۵۸۹۔

[۳۶] کافی:۷۱۲،باب حسن الظن،حدیث۲:میزان الحکمة:۳۴۰۰۷،الظن ،حدیث ۱۱۵۸۲۔

[۳۷] امالی شیخ طوسی:۳۷۹،حدیث۸۱۴؛میزان الحکمة:۳۴۰۰۷،الظن ،حدیث ۱۱۵۸۲۔

[۳۸] میزان الحکمة:۳۴۰۰۷،الظن ،حدیث ۱۱۵۸۴۔

[۳۹] سورہ انفال آیت ۴۶۔

[۴۰] وَبَشِّرْ الصَّابِرِینَ۔الَّذِینَ إِذَا اصَابَتْہُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ۔“(سورہ بقرہ آیات ۱۵۵تا۱۵۶)

”۔۔۔اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدے جو مصیبت پڑنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانے والے ھیں“۔

[۴۱] کافی:۹۱۲،باب الصبر،حدیث۱۵۔

[۴۲] مکارم الاخلاق، ص ۴۴۶، الفصل الرابع فی موعظة رسول الله (ص) ؛ مستدرک الوسائل ج۱۱ص۲۶۱۔

[۴۳] تفسير قمي، جلد اول، ص ۳۷۰، ولوج النکرین فی القبر؛ محجۀ الیضاء، جلد۸، ص ۳۰۴، کتاب ذکر الموت و مابعده، بحار الانوار، جلد ۶، ص ۲۲۴، باب ۸، حدیث ۲۶.

[۴۴] امالی شیخ صدوق، مجلس ۸۲ حدیث ۱۴۔ محجة البضاء: ۸ص ۳۶۰، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، بحار الانوار ج ۸ص ۲۸۱، باب ۲۴ حدیث ۲۔

[۴۵] تفسیر قمی، ج۲ ص ۸۱، ذیل آیہ:”کلما ارادوا ان یخرجوا منھا۔۔۔“، محجة البضاء: ۸ص ۳۶۱، کتاب ذکر الموت ومابعدہ۔

[۴۶] محجة البضاء: ۸ص ۳۵۴، کتاب ذکر الموت، القول فی صفة جھنم۔

[۴۷] بحار الانوار ج۸۷ص ۳۳۸، باب ۹ حدیث ۵۳”یوم الخمیس“

[۴۸] سورہ بقرہ آیت ۱۲۷تا ۱۲۹۔” و اذ یرفع ابراھیم۔۔۔“[۴۹] ”وَإِذَا سَمِعُوا مَا انزِلَ إِلَی الرَّسُولِ تَرَی اعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنْ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنْ الْحَقِّ ۔۔۔“ (سورہ مائدہ آیت ۸۳۔)”اور جب اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر نازل ھوا ہے تو تم دیکھتے ھو کہ ان کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ھو جاتے ہے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا ہے۔۔۔“۔

[۵۰] بحار الانوار :۳۹۱۶۶،باب۳۸،حدیث۶۸؛میزان الحکمة:۵۳۶۲،البکاء ،حدیث ۱۸۲۹۔

[۵۱] جامع الاخبار:۹۷،الفصل الرابع و الخمسون؛میزان الحکمة:۵۳۶۲،البکاء ،حدیث ۱۸۳۰۔

[۵۲] امالی صدوق:۴۳۱،المجلس السادس و الستون ؛میزان الحکمة:۵۳۶۲،البکاء ،حدیث ۱۸۳۱۔

[۵۳] بحار الانوار:۳۳۶۹۰:باب۱۹،حدیث۳۰؛میزان الحکمة: ۵۳۶۲،البکاء ،حدیث ۱۸۳۴۔

[۵۴] مکارم الاخلاق؛۳۱۷،فی البکاء،میزان الحکمة:۵۳۶۲،البکاء،حدیث ۱۸۳۵۔

[۵۵] بحار الانوار : ۹۰ ۳۳۱، باب ۱۹ حدیث ۴۱؛ میزان الحکمة:۵۳۶۲،البکاء،حدیث ۱۸۴۱۔

[۵۶] صائب تبریزی ، دیوان اشعار شمارہ ۴۹۰۔

[۵۷] سورہ انفطار آیت ۱۳،۱۴۔

[۵۸] سورہ مائدہ آیت ۲۷۔

[۵۹] سورہ مومنون آیت ۱۰۱۔

[۶۰] سورہ طہ آیت ۱۰۹۔

[۶۱] حافظ شیرازی، دیوان اشعار شمارہ ۱۱۲۔

[۶۲] سورہ حج آیت ۲۱۔

[۶۳] امالی شیخ مفید ص ۱۳۶، مجلس ۱۳، حدیث ۴، بحار الانوار ج ۲۲ص ۳۸۵، باب ۱۱، حدیث ۲۷۔

[۶۴] سورہ حجر آیت ۴۳۔۴۴۔

[۶۵] کلمة الله ۔

[۶۶] ربیع الآثار ۔

[۶۷] ثواب الاعما ل:۳۹؛بحار الانوار :۲۵۳۹۳،باب۳۰،حدیث۱۹۔

[۶۸] مواعظ عددیہ :۳۷۱۔

[۶۹] من لایحضرہ الفقیہ:۲۰۸۱،باب فضل الصلاة،حدیث ۶۲۴۔

[۷۰] عیون اخبار الرضا ج۲ص ۴ باب ۳۰ حدیث۹؛ بحار الانوار :۹۳ ۱۲۰،باب۱۴،حدیث۲۳۔

[۷۱] عیون اخبار الرضا ج۲ص ۸، حدیث۲۰۔

[۷۲] سورہ انعام آیت ۷۵۔

[۷۳] تفسیر برھان ذیل آیہ ۷۵ سورہ انعام ، حدیث ۹۔

[۷۴] بحار الانوار ج۴ ص ۱۱۱، باب ۳حدیث ۳۱۔

[۷۵] وسائل الشیعہ، ج۲ص۱۵۵، حدیث ۲۵۲۹۱؛ بحار الانوار ج۶۸ص ۳۷۴، باب ۹۲ حدیث ۲۵۔

[۷۶] سورہ انفطار آیت ۱۰تا۱۲۔

[۷۷] سورہ فصلت آیت ۲۰تا۲۱۔

[۷۸] سورہ نور آیت ۲۴۔

[۷۹] سورہ یس آیت ۶۵۔

[۸۰] سورہ ق آیت ۱۸۔

[۸۱] سورہ زلزال آیت۴تا۵۔

[۸۲] سورہ توبہ آیت ۱۰۵۔

[۸۳] ثواب الاعمال:۱۷۹،باب۲۰،ثواب التوبة۔

[۸۴] بحار الانوار :۲۸۶،باب۲۰،حدیث۳۱۔

[۸۵] سورہ اعراف آیت ۲۳۔

[۸۶] سورہ نوح آیت ۲۶۔

[۸۷] سورہ شعراء آیت ۸۳۔

[۸۸] سورہ قصص آیت ۲۴۔

[۸۹] سورہ ص آیت ۳۵۔

[۹۰] سورہ انبیاء آیت ۸۹۔

[۹۱] سورہ یوسف آیت ۱۰۱۔

[۹۲] سورہ انبیاء آیت ۸۳۔

[۹۳] سورہ مو منون آیت ۱۱۸۔

[۹۴] سورہ آل عمران آیت۱۹۱۔

[۹۵] سورہ اعراف آیت ۱۴۔

[۹۶] مستدرک الوسائل ج۵ ص ۲۲۰، باب ۳۱ حدیث ۵۷۳۸، اصول کافی ج۲ ص ۵۲۰ ،باب من قال یا رب۔۔۔؛ وسائل الشیعہ ج۷ص ۲۸۵ باب ۳۲، مستدرک الوسائل ج۵ ص ۲۱۹ باب ۳۱؛ بحار الانوار ج۹۰ص ۲۳۳ باب ۱۲ و غیرہ میں اس سلسلہ کی بہت سی روایات بیان ھوئی ھیں۔

[۹۷] غررالحکم:۱۵۳،لاینفع قول بغیر العمل،حدیث۲۸۳۸؛میزان الحکمة: ۴۰۵۰۹، العمل، حدیث ۱۴۲۶۰۔

[۹۸] غررالحکم :۱۵۱،حدیث۲۷۷۷؛میزان الحکمة ۹:۴۰۵،النحل ،حدیث۱۴۲۶۴۔

[۹۹] مستدرک الوسائل :۱۳۰۱،باب۱۹،حدیث۱۷۷؛میزان الحکمة: ۴۰۶۰۹، العمل، حدیث۱۴۲۹۲۔

[۱۰۰] غرراحکم :۱۵۵،الاخلاص فی العمل وآثارہ،حدیث۲۸۹۹۔

[۱۰۱] بحا ر الانوار:۲۰۸۷۸،باب۲۳،حدیث۷۲۔

[۱۰۲] کنز العمّال :۴۳۶۳۹؛میزان الحکمة :۴۰۶۶۹،العمل،(۱)،حدیث۱۴۲۲۔

[۱۰۳] مشکاة الانوار:۵۵،الفصل الخامس عشر؛میزان الحکمة :۴۰۶۴۹،العمل،(۱)،حدیث۱۴۳۲۶۔

[۱۰۴] تحف العقول:۹۱؛بحار الانوار:۲۴۱۷۴،باب ۹،حدیث۱۔

[۱۰۵] بحار الانوار:۸۸۷۴،باب۴؛ میزان الحکمة:۴۰۶۶۹،العمل،حدیث۱۴۳۳۳۔

[۱۰۶] غررالحکم:۱۵۵،حدیث۲۹۱۳؛میزان الحکمة: ۴۰۶۶۹، العمل، حدیث۱۴۳۳۵۔

[۱۰۷] کافی :۲۶۶۳،باب فضل الصلاة ،حدیث۱۱؛میزان الحکمة: ۹ ۴۰۷۰، العمل، حدیث۱۴۳۵۰۔

[۱۰۸] مجموعہ ورّام:۸۶۲؛میزان الحکمة:۴۰۷۰۹،العمل ،حدیث۱۴۳۵۱۔