”قَوِّعَلٰی خِدْمَتِکَ جَوٰارِحِي،وَاشْدُدْ عَلَی الْعَزیمَةِ
جَوٰانِحِي،وَهَبْ لِيَ الْجِدَّ في خَشْیَتِکَ،وَالدَّوٰامَ
فِي الْاتِّصٰالِ بِخِدْمَتِکَ،حَتّٰی اسْرَحَ الَیْکَ فيمَیٰادینِ
السّٰابِقینَ،وَ اسْرِعَ الَیْکَ فِي الْبٰارِزینَ،وَاشْتٰاقَ الٰی
قُرْبِکَ فِي الْمُشْتٰاقینَ، وَادْنُوَ مِنْکَ دُنُوَّالْمُخْلِصینَ،
وَاخٰافَکَ مَخٰافَةَ الْمُوقِنینَ،وَ اجْتَمِعَ فِي جِوٰارِکَ
مَعَ الْمُو مِنینَ“
” اپنی خدمت کے لئے میرے اعضاء و جوارح کو مضبوط کر دے اور اپنی طرف رخ کرنے کے لئے میرے ارادہ دل کو مستحکم بنادے۔اپنا خوف پیدا کرنے کی کوشش اور اپنی مسلسل خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرما تاکہ تیری طرف سابقین کے ساتھ آگے بڑھوں اور تیز رفتار افراد کے ساتھ قدم ملا کر چلوں ۔مشتاقین کے درمیان تیرے قرب کا مشتاق شمار ہوں اور مخلصین کی طرح تیری قربت اختیار کروں۔صاحبان یقین کی طرح تیرا خوف پیدا کروں اور مومنین کے ساتھ تیرے جوار میں حاضری دوں“۔
توانائی کی درخواست
عارف عاشق، حقیقی مناجات کرنے والے اور معلم معرفت حضرت امیر المومنین علیہ السلام دعا کے ان فقروں کو زمزمہ کرتے وقت اپنے اوپر رحمت خدا کے کھلے دروازے اور اپنے محبوب کی طرف سے دعا قبول ہونے کا راستہ ہموار دیکھ کر اپنی اھم اھم دعاؤں کو بارگاہ رب العزت میں پیش کرتے ہیں جو سوفی صد معنوی ہوتی ہیں، کیونکہ ان چیزوں کی درخواست سے انسان کمال کی اعلیٰ منزل تک پھنچ جاتا ہے، اور یہ تمام چیزیں دعا کرنے والے کی خدا کی نسبت عرفان،معرفت اور شناخت پر دلالت کرتی ہیں۔
خداوندمنان کی بارگاہ میں دعا ہے کہ میرے اعضاء و جوارح کو اپنی خدمت جو در واقع خالصانہ عبادت اور مکمل بندگی ہے، اور مومن بندوں کی خدمت جو حقیقت میں خدا کی خدمت ہے، کے لئے مضبوط او رقوی بنادے۔
جس وقت یہ معنوی قدرت اور روحانی طاقت خداوندعالم کی طرف سے عابد و زاھد کے ساتھ شامل ہوجاتی ہے تو پھر اس کو عبادت خدا اور خدمت خَلق میں بہت مزہ آتا ہے۔
خدا کی خاص نعمتوں کے حصول کے لئے چند شرائط
اہل ایمان اور عبادت گذار بندہ اگر چاھے کہ خداوندعالم کی خاص نعمتیں اس کے شامل حال ہوں تو درج ذیل نکات پر توجہ کرنا نھایت ضروری ہے:
۱ ۔ ایسے لوگوں کی بزم سے دوری اختیار کرنا جوتقویٰ کے سلسلہ میں لاؤ ابالی ہوں، اور ایمان و تقویٰ کو حاصل کرنے کے لئے کوشش بھی نہ کرتے ہوں۔ دوسری طرف اولیاء اللہ اور علمائے ربانی اور عرفاء کہ جنھوں نے اللہ کی طرف سیر و سلوک کے مراحل کو ایک حدتک طے کرلیا ہے، ان کے ساتھ ہم نشینی کرنا۔
۲ ۔ شبہ ناک لقمہ سے اجتناب کرنا، حرام روزی کھانا تو درکنار وہ تو بہت ہی زیادہ خطرناک ہے، اسی طرح ان لوگوں کی مھمانی میں نہ جانا جونامعلوم کس کس طرح اپنا مال و دولت اکٹھا کرتے ہیں۔
۳ ۔ اپنے باطن کو اخلاقی برائیوں ، نفسانی خباثت اور حیوانی شھوتوں سے پاک و پاکیزہ کرنا، اور ان کو اخلاق حسنہ اور معنوی حقائق سے آراستہ کرنا۔
۴ ۔ پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے پرھیز کرنا کیونکہ اس چیز کے ذریعہ شیطانی وسوسوں کا راستہ کھل جاتا ہے اور الٰھی الھام اور آسمانی درک کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔
۵ ۔ بہت زیادہ سونے اور بہت زیادہ آرام کرنے سے اجتناب کرنا، جس کی وجہ سے انسان اطاعت الٰھی کے سلسلہ میں سستی محسوس کرنے لگتا ہے اور روح انسانیت کا جنازہ نکل جاتا ہے۔
بے دین لوگوں کے ساتھ ہم نشینی، لقمہ حرام کھانا، اخلاقی پستی اور شکم پروری میں مبتلاھوجانا نیز زیادہ سونے اور بہت زیادہ آرام طلب ہونے کے سلسلہ میں اسلامی معتبر کتابوں میں بہت سی احادیث بیان ہوئی ہیں، جن میں سے ہم بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
زندگی اور زندگی بسر کرنے والا
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے:
”اوحَشُ الوَحشَةِ قَرینُ السُّوءِ
“[۱]
”سب سے زیادہ خطرناک بُرادوست اور ساتھی ہے“۔
حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
”اِحذَرْ مُجَالَسةَ قَرینِ السّوءِ،فَاِنَّهُ یُهلِکُ مُقارِنَهُ وَیُردِی مُصاحِبَهُ
“[۲]
”برے دوست کی ہم نشینی سے پرھیز کرو، کیونکہ وہ اپنے دوست کو بھی ہلاک کردے گا اور اس کومادی و معنوی لحاظ سے نابود کردے گا“۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام کا ارشاد ہے:
”اِیّاکَ وَمُصَاحَبَةَ الشَّریرِ فَاِنَّهُ کاَلسَّیفِ المَسْلُولِ یَحسنُ مَنظَرُهُ وَ یَقبَحُ اثَرُهُ
“[۳]
”شریر لوگوں کی صحبت سے دور رھو کیونکہ وہ ایک تیز تلوار کی طرح ہے جو دیکھنے میں اچھی لگتی ہے لیکن اس کا نتیجہ برا ہوتا ہے“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
”اِحذَرْ مِنَ النَّاسِ ثَلاثَةً:الخائِنَ وَالظَّلومَ وَالنَّمامَ،لِانَّ مَن خَانَ لَکَ خَانَکَ،وَمَن ظَلَمَ لَکَ سَیَظْلِمُکَ وَمَن نَمَّ اِلَیکَ سَیَنُمُّ عَلَیکَ
“[۴]
”تین لوگوں کی دوستی اور صحبت سے پرھیز کرو: ۱ ۔ خائن۔ ۲ ۔ ظالم۔ ۳ ۔ چغل خور؛ کیونکہ اگر کسی نے تمھارے فائدہ کے لئے خیانت کی ہے تو دوسرے دن تمھارے نقصان کے لئے بھی خیانت کرسکتا ہے، اور کوئی تمھاری خاطر دوسروں پر ظلم کرسکتا ہے تو تم پربھی ظلم کرے گا،اگر کوئی تمھارے سامنے دوسروں کی چغل خوری کرے (اور تم سنتے رھو) تو وہ دوسروں کے سامنے تمھاری چغل خوری کرنے میں دریغ نہ کرے گا“۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
”صَاحِبِ الحُکَمَاءَ وَجالِسِ الحُلَمَاءَ وَاعرِض عَنِ الدُّنیَا تسکن جَنَّةَ المَاوَی
“[۵]
”صاحبان حکمت کے ساتھ ہم صحبت بنو، بردبار لوگوں کے پاس بیٹھو اور دنیا سے منھ موڑلو، جس کے نتیجہ میں جنت الماویٰ میں اپنی جگہ بنالو“۔
حرام روزی
اس سلسلہ میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:
”مَن اکَلَ لُقمَةً مِن حَرامٍ لَم تُقبَل لَهُ صَلاةٌ اربَعینَ لَیلةً
“[۶]
”جو شخص مال حرام سے ایک لقمہ کھائے اس کی چالیس رات کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی“۔
اِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ حَرَّمَ الجَنَّةَ جَسَداً غُذِّیَ بِحَرامٍ
“[۷]
”بے شک خداوندعالم نے اس جسم پر جنت حرام کی ہے جس میں مال حرام بھرا گیا ہو“۔
”اِذَا وَقَعَتِ اللُّقمِةُ مِن حَرامٍ فِی جَوفِ العَبدِ لَعَنَهُ کُلُّ مَلَکِ فِی السَّماواتِ وَالارضِ
“[۸]
”جس وقت کسی انسان کے شکم میں لقمہ حرام چلاجائے تو زمین و آسمان کے تمام فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں“۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
”اِنَّ الرَّجُلَ اِذَا اصابَ مَالاً مِن حَرامٍ لَم یُقبَل مِنهُ حَجٌّ وَلاعُمرَةٌ وَلاَ صِلَةُ رَحِمٍ
۔۔۔[۹]
”جب انسان مالِ حرام حاصل کرلےتا ہے تو اس کا حج و عمرہ اور صلہ رحم قبول نہیں ہوتا“۔
اخلاقی برائیاں
حضرت امام سجاد علیہ السلام صحیفہ (سجادیہ) کی دعا نمبر ۸ میں بہت سی اخلاقی برائیوں کو بیان کرتے ہیں اور ان سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں: ”لالچ میں زیادتی، نظر میں سختی، حسد پر عملی اقدام، قناعت کی کمی، اخلاق کی بدی، شھوت میں افراط (زیادتی)،تعصب میں جاہل وں کا اتباع، شدت پسندی پر اصرار، ہوائے نفس کی پیروی، ہدایت کی مخالفت، خواب غفلت، اپنی طاقت سے زیادہ کسی چیز میں کوشش، حق پر باطل کو ترجیج دینا، گناھوں پر اصرار، گناھوں کو سبک سمجھنا، اطاعت کو زیادہ سمجھنا، مال و دولت پر فخر و مباھات کرنا، غریبوں اور محتاجوں کو ذلیل سمجھنا، اپنے ماتحت لوگوں کے حق میں کوتاھی کرنا، نیکی کرنے والوں کی احسان فراموشی کرنا، ظالم کی مدد کرنا اور مظلوم کو بے یار و مددگار چھوڑ دینا وغیرہ وغیرہ۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے کھا گیا: فلاں عورت دن میں روزہ رکھتی ہے اور راتوں کو نمازیں پڑھتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے، اپنے پڑوسیوں کو بُرا بھلا کہتی ہے۔ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: اس میں خیر نہیں پایا جاتا، وہ جھنمی ہے۔[۱۰]
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے تھے:
”اِنَّ سُوءَ الخُلُقِ لَیُفسِدُ العَمَلَ کَمَا یُفسِدُ الخَلُّ العَسَلَ
“[۱۱]
”بد خلقی سے انسان کے اعمال تباہ ہوجاتے ہیں، جیسا کہ سرکہ شھد کو خراب کردیتا ہے“۔
شکم پروری
شکم پروری (زیادہ کھانا کھانے) کے سلسلہ میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
”۔۔۔مَن کَثُرَ طُعامَهُ سَقُم بَطنُهُ وَقَسا قَلبُهُ
“[۱۲]
”جو شخص زیادہ کھانا کھائے گا اس کا جسم بیمار ہوجائے گا اور اس کا دل سخت ہوجائے گا“۔
”مَنْ کَثُرَ اکلُه قَلَّت صِحَّتُهُ وَثَقُلَتْ عَلی نَفسِهِ مُونَتُه
“[۱۳]
”جو شخص پُر خوری کرے گا اس کی صحت خراب ہوجائے گی اور اخراجات بڑھ جائیں گے“۔
”کَثْرَةُ الاکلِ مِنَ الشَّرَهِ ،وَالشَّرَهُ شَرُّ العُیُوبِ
“[۱۴]
”پُرخوری (بے جا)رغبت کی نشانی ہے، اور (بے جا )رغبت سب سے بڑا عیب ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
”لَیسَ شَیْءٌ اضَرَ لِقَلبِ المُومِنِ مِن کَثْرَةِ الاکلِ،وَهِیَ مُورِثَةٌ لِشَیئَینِ: قَسْوَةِ القَلبِ وَهَیَجانِ الشَّهوَةِ
“[۱۵]
”مومن کے دل کے لئے سب سے خطرناک چیز پُرخوری ہے، زیادہ کھانا کھانے سے انسان سنگ دل ہوجاتا ہے اور اس کی شھوت میں طغیان پیدا ہوجاتا ہے“۔
زیادہ سونا
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ:جناب موسیٰ نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا: (اے پالنے والے) اپنے بندوں میں سب سے زیادہ کس سے دشمنی رکھتا ہے؟ آواز آئی: جو شخص رات بھر اپنے بستر پر مردے کی طرح پڑا رھے، اور دن میں بے ہودگی اور وقت گزرانی میں مشغول رھے“۔[۱۶]
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے: جناب سلیمان کی ماں نے ان سے کھا: رات میں زیادہ نہ سونا چاہئے کیونکہ زیادہ سونے سے کل روز قیامت اس کا ہاتھ خالی ہوگا۔[۱۷]
حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:
”بِئْسَ الغَریمُ النَّومُ ؛یُفنِی قَصیرَ العُمرِوَیُفَوِّتُ کَثیرَالاجرِ
“[۱۸]
”(زیادہ)سوناایک بہت بڑا دشمن ہے، جس سے عمر کم ہوجاتی ہے اور زیادہ ثواب کو بھی ختم کردیتا ہے“۔
اسلام کی نظر میں ناپسند زندگی سے اجتناب، لقمہ حرام سے پرھیز، اخلاقی برائیوں سے دوری، زیادہ سونے اور زیادہ کھانے سے پرھیز سے عبادت خدا کے لئے انسانی بدن قوی ہوجاتا ہے، اور اسی کے پیش نظر انسان کی آنکھ میں اتنی طاقت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ صرف حق اور جس کو حق پسند کرتا ہے؛ دیکھتی ہے، اسی طرح کان صرف اور صرف خداو رسول اور ائمہ علیھم السلام نیز اولیاء اللہ کی باتوں کو سنتا ہے، اسی طرح اس کی زبان سے حق و انصاف کی باتیں نکلتی ہیں، ہاتھ نیک کاموںکی طرف ہی اٹھے گا، صرف حلال روزی ہی کھائے گا،شھوت کو حلال طریقہ سے بروئے کار لائے گا، اس کے قدم راہ حق میں اٹھےں گے، مسجد امامبارگاہ کی طرف چلیں گے، المختصر وہ دل و جان سے عبادت خدا اور
عبادت حق
عبادت و بندگی کی اھمیت ہمارے لئے (پوری طرح) قابل فھم نہیں ہے چونکہ ہم اس دنیا میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔اسی طرح دوسری چیزوں کے دروازے ہمارے لئے تا قیامت بند ہیں، (ایک معمولی انسان ان کو سمجھ نہیں سکتا)
خداوندعالم کی عبادت و بندگی انسانی رشد و کمال اور معنوی حیات نیز بھشت کے حصول کے لئے ضروری ہے۔
حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) حق عبادت و بندگی کے سلسلے میں بیان فرماتے ہیں:
”افضَلُ النَّاسِ مَنْ عَشِقَ العِبادَةَ فَعَانَقَها وَاحَبَّها بِقَلبِهِ وَباشَرَها بِجَسَدِهِ وَ تَفَرَّغَ لَها فَهُولَا یُبالِی عَلَی مااصْبَحَ مِنَ الدُّنیا عَلی عُسرٍ ام عَلی یُسْرٍ
“[۱۹]
”لوگوں میں سب سے افضل وہ شخص ہے جو عبادت کا شیدائی ہو، ہر حال میں عبادت خدا کرتا رھے، اور دل میں عبادت سے لگاؤ ہو ، بدن کے ذریعہ بجالائے، اور عبادت کے لئے دوسرے کاموں سے فرصت حاصل کرے اور دنیاوی زندگی سختیوں اور آسانیوں میں گزرنے کا کوئی خوف نہ ہو“۔
”یَقولُ رَبُّکُم :یَابنَ آدَمَ ،تَفَرَّغْ لِعِبادَتِی املَا قَلبَکَ غِنًی وَاَمْلَا یَدَیکَ رِزقاً،یَابنَ آدَمَ لا تَباعَد مِنِّی فَاملا قَلبَکَ فَقراً وَ امْلا یَدَیکَ شُغلاً
“[۲۰]
”تمھارا پروردگار فرماتا ہے: اے اولاد آدم! میری عبادت کے لئے ہر کام سے فرصت نکالو، تاکہ تمھارے دل کو بے نیاز بنادوں اور تمھارے ہاتھوں کو روزی سے بھر دوں؛ اے اولاد آدم! مجھ سے دور نہ ہونا ورنہ تم محتاج ہوجاؤگے اور دوسرے کاموں میں مشغولیت بڑھ جائے گی“۔
(خداوندعالم نے) شب معراج فرمایا:اے احمد! جانتے ہو کہ انسان کب میری عبادت کرسکتا ہے؟
عرض کیا: نھیں، تو خداوندعالم نے فرمایا: جب انسان میں سات صفات پیدا ہوجائیں: ایسا تقویٰ جو اسے گناھوں سے دور رکھے، غیر مفید باتوں پر سکوت اختیار کرنا، ایسا خوف جس سے ہر روز اس کے رونے میں اضافہ ہو، خلوت میں مجھ سے حیا کرنے سے پرھیز کرے، وہ کھانا کھائے جس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، دنیا سے میری دشمنی کی خاطر دشمنی رکھے، نیک افراد سے میری دوستی کی بنا پر دوستی کرے۔[۲۱]
منقول ہے کہ خداوندعالم نے بعض آسمانی کتابوں میں فرمایا:
اے اولاد آدم! میں وہ زندہ ہوں جس کے لئے موت نہیں ہے، میرے احکامات میں میری اطاعت کرو تاکہ تمھیں بھی ایسی زندگی عطا کردوں جس کے بعد موت نہ ہو۔
اے اولاد آدم! میں جس چیز کو ”کُن“ (ھوجا) کہہ دیتا ہوں وہ فوراً ہوجاتی ہے، تم میری اطاعت و بندگی کرو ، تمھیں بھی ایسا ہی بنادوں گا کہ جب تم کسی چیز کے بارے میں کھو گے تو وہ ہوجائے گی۔[۲۲]
بعض روایات میں درج ذیل حقائق کو بہترین عبادت شمار کیا گیا ہے۔
معرفت خدا اور اس کے سامنے خشوع و خضوع کرنا، خدااور اس کی قدرت میں غور و فکر کرنا، ”لا الہ الا الله“ اور ”لا حول ولا قوة الاّ بالله“کھنا، اخلاص سے کام لینا، عفت نفس، زھد ، غور و فکر کرنا، مومن کے حق کی ادائیگی، سکوت، حج، روزہ، دعا، محرمات سے دوری کرنا، مخفی طور پر بندگی کرنا، خضوع و خشوع، واجبات کی ادائیگی، طلب حلال، نرم لہجہ اختیار کرنا اور اہل بیت علیھم السلام کی محبت و ولایت۔
خدمتِ خَلق
احادیث قدسیہ اور دیگر روایات میں مومنین کو اس قدر اھمیت دی گئی ہے کہ مومن کے احترام کوخدا کا احترام شمار کیا گیا ہے، اور ان کی توھین کو خدا کی توھین قرار دیا گیا ہے۔
حضرت رسول خدا ،جبرئیل کے واسطہ سے خداوندعالم کا قول نقل کرتے ہیں:
مَن اهَانَ لِی وَلِیّاً فَقَدْ بارَزَنِی بِالْمُحَارَبَةِ“[
۲۳]
”جو شخص میرے مومن بندوں کی اھانت کرے تو اس نے خدا سے جنگ کی تیاری کی ہے“۔
اسی وجہ سے مومنین کی خدمت کو خدا کی عبادت و بندگی کا عنوان دیا گیا؛ کیونکہ مومنین کی خدمت خدا کی خدمت ہے“۔
حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے:
”مَن قَضی لِاخِیهِ المُومِنِ حَاجَةً،کاَنَ کَمَنْ عَبَدَ اللّٰهَ دَهرَهُ
“[۲۴]
”جو شخص اپنے برادر مومن کی حاجتوں کو پورا کرے تو گویا اس نے پوری زندگی خدا کی عبادت کی ہے“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
”مَن قَضَی لِاخِیهِ المُومِنِ حَاجةً قَضَی اللّٰهُ عَزَّوَ جَلَّ لَهُ یَومَ القِیامَةِ مِائَةَ الفِ حاجَةٍ مِن ذالک اوَّلُها الجَنَّةُ
“[۲۵]
”جو شخص کسی بندہ مومن کی ایک حاجت کوپورا کرے تو خداوندعالم روز قیامت اس کی ایک لاکھ ایسی حاجتوں کو پورا کرے گا جن میں سے پھلی بھشت ہے“۔
نیز امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے:
”اِنَّ العبدَ لَیَمشِی فِی حَاجَةِ اخِیهِ المُومِنِ فَیُوکِّلُ اللّٰهُ عَزَّوَ جَلَّ بِهِ مَلَکَیْنِ وَاحِدٌ عن یمینِه وَ آخَرُ عَن شَمالِهِ یَستَغْفِرَانِ لَهُ رَبَّهُ وَ یَدعُوانِ لَهُ بِقضَاءِ حَاجَتِهِ
“[۲۶]
”جب کوئی انسان اپنے برادر مومن کی حاجت روائی کے لئے قدم بڑھائے تو خداوند عز و جل دوفرشتوں کواس پر معین کرتا ہے، ایک داھنی طرف دوسرا بائیں طرف، اور وہ دونوں فرشے خداوندعالم سے اس شخص کے لئے طلب مغفرت کرتے ہیں اور اس کی حاجت روائی کے لئے دعا کرتے ہیں“۔
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے سوال کیا گیا کہ خدا کے نزدیک کونسا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ایک مردمسلمان کو خوش کرنا، عرض کیا: مسلمان کو کس طرح خوشحال کیا جائے؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: بھوکے کو کھانا کھلانا، اس کے رنج و غم کو دور کرنا اور اس کے قرض کی ادائیگی میں مدد کرنا۔[۲۷]
امام صادق علیہ السلام خداوندعالم کا قول نقل کیا ہے:
”الخَلْقُ عیالی فَاحَبُّهُم اَلَیَّ الطَفَهُم بِهِم،وَاسعَاهُم فِی حَوَائِجِهِم
“[۲۸]
”تمام مرد و زن میرے نان خور ہیں(یعنی میرے دسترخوان پر مھمان ہےں)ان میں سے میرے نزدیک وہ شخص زیادہ محبوب ہے جو زیادہ مھربان ہو، اور ان کی حاجت روائی میں زیادہ کوشش کرتا ہے“۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام خدمت خدا کے لئے اپنے اعضاء و جوارح کی طاقت و قدرت کا سوال کرنے کے بعد اپنے دل کے استحکام اور اس خدمت کے لئے عزم و اراد ہ کے طالب ہیں،اور اس کے خوف و خشیت میں کوشش اور خداوندعالم کی پیھم خدمت کرنے کی اسی سے درخواست کرتے ہیں، تاکہ ہمیشہ اس کی عبادت و خدمت میں مشغول رھیں اورخدا سے درخواست کرتے ہیں کہ سبقت کرنے والوں کے میدان میں تیرے حضور میں آنے کے لئے آگے بڑھتارھوں اور تیری خدمت میں پھنچنے کے لئے جلدی کرنے والوں میںتیزرھوں اور مجھے تیرا قرب حاصل کرنے کا شوق رکھنے والوں کا شوق ہو اور تیری بارگاہ میں خلوص رکھنے والوں کا ساقرب حاصل ہواور تجھ پر یقین رکھنے والوں کا ساخوف مل جائے اور تیری بارگاہ میں مومنین کے ساتھ میں بھی جمع ہوجاؤں۔
یقین
فلیسوف کبیر عارف خبیر صاحب تفسیر” المیزان“ علامہ طباطبائی مرحوم یقین کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
یقین، وہ دانش اور علم ہے جس میں کسی طرح کا شک اور غلطی کا احتمال تک نہ پایا جائے۔[۲۹] (مثلاً انسان ظھر کے وقت یہ یقین رکھتا ہے کہ اس وقت دن ہے، اور رات کے اندھیرے میں یقین رکھتا ہے کہ اب رات ہے اور اپنے اوپر یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ ایک زندہ اور صاحب آثار و صفات ہے)
اسی طرح یقین کے تین درجے بیان کئے ہیں: علم الیقین ، عین الیقین اور حق الیقین ۔
ایک مثال کے ذریعہ تینوں کے درمیان فرق واضح ہوجائے گا:
اگرکسی مکان سے دھویں کو دیکھ کر آگ کے بارے میں یقین کرلے تو علم الیقین ہے اور اگر اپنی آنکھوں سے آگ کو دیکھ لے تو عین الیقین ہے اور اگر اس آگ میں چلا جائے تو حق الیقین ہے۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں: اہل یقین کے چھ صفات ہوتے ہیں: خدا پر یقین ہوتا ہے، اور وہ بھی ایسا یقین جو حق الیقینی ہو، لہٰذا اس پر اس یقین کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں؛ یقین رکھتے ہیں کہ موت برحق ہے، لہٰذا اس کے آثار سے خوف زدہ رہتے ہیں؛یہ یقین رکھتے ہوں کہ مرنے کے بعد ان کو اٹھایا جانا برحق ہے، لہٰذا وہ قیامت کی ذلت و رسوائی سے ڈرتے ہیں؛ یقین رکھتے ہیں کہ بھشت حق ہے، لہٰذا اس میں جانے کے لئے مشتاق رہتے ہیں؛ یقین رکھتے ہیں دوزخ حق ہے، لہٰذا اس سے نجات کی کوشش کرتے ہیں؛ یقین رکھتے ہیں کہ حساب و کتاب حق ہے، لہٰذا وہ اپنا حساب و کتاب کرتے رہتے ہیں تاکہ اس سخت حساب میں گرفتار نہ ہوں۔[۳۰]
یقین کے ان تینوں درجات کو قرآن و حدیث اہل بیت علیھم السلام کے ذریعہ سے معلوم کیا جاسکتا ہے، اگر کوئی یقین کے ان دونوں مرکز (قرآن و اہل بیت علیھم السلام) سے یقین کی منزل تک نہ پھنچے تو وہ پھر کسی بھی چیز کے ذریعہ یقین کی منزل تک نہیں پھنچ سکتا۔
قرآن کریم کے ذریعہ یقین حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ: پھلے قرآنی آیات پر غور وفکر کرکے اس کی حقانیت اور اس کے وحی ہونے کا یقین کریں، اور اس حقیقت کی طرف توجہ کریں کہ قرآن فرماتا ہے: ”اگر اس کتاب (قرآن) کے بارے میں شک ہو تو ایک(ھی) سورہ اس کے مثل لے آؤ“۔[۳۱]
دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے: (اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تمام جن و انس مل کر اس قرآن کی مثل لاناچاھو تو نہیں لاسکتے، اگرچہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں“۔[۳۲]
ان دونوں آیات کے پیش نظر انسان کو یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ یہ کتاب (قرآن) خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی ہے، اس کے بعد انسان پورے قرآن پر یقین حاصل کرلے گا اور اس میں موجود تمام باتو ںکا یقین حاصل کرلے گا، اسی طرح اہل بیت علیھم السلام کی تعلیمات جو قرآن کی توضیح اور تفسیر ہے؛ پر یقین حاصل ہوجائے گا، اور آخر کار انسان اہل یقین کے دائرہ میں شامل ہوجائے گا۔
”اللّٰهُمَّ وَمَنْ ارٰادَنِي بِسُوءٍ فَارِدْهُ وَمَنْ کٰادَنِيفَکِدْهُ،
وَاجْعَلْنِيمِنْ احْسَنِ عَبیدِکَ نَصِیباً عِنْدَکَ،وَاقْرَبِهِمْ
مَنْزِلَةً مِنْکَ،وَاخَصِّهِمْ زُلْفَةً لَدَیْکَ،فَانَّهُ لاٰیُنٰالُ
ذٰلِکَ الاّٰبِفَضْلِکَ،وَجُدْلِي بِجُودِکَ،وَاعْطِفْ عَلَيَّ
بِمَجْدِکَ،وَاحْفَظْنِي بِرَحْمَتِک“
”خدایا جو بھی کوئی میرے لئے برائی چاھے یا میرے ساتھ کوئی چال چلے تو اسے ویساھی بدلہ دینا اور مجھے بہترین حصہ پانے والا ،قریب ترین منزلت رکھنے والا اور مخصوص ترین قربت کا حامل بندہ قرار دینا کہ یہ کا م تیرے جود وکرم کے بغیر نہیں ہو سکتا،خدایا میرے اوپرکرم فرما۔اپنی بزرگی سے، رحمت نازل فرما اپنی رحمت سے میرا تحفظ فرما“۔
وہ دشمن جو انسانیت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیںوہ شیطان، ہوائے نفس اور پست و ذلیل ہم نشین ہےں یھی انسان کے ساتھ مکر و فریب کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی دشمنی، اغوا کرنا، وسوسہ ڈالنا اور ان کا مکر وفریب اس حد تک خطرناک ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ان دشمنوں کو شکست دینے کے لئے خداوندعالم سے مدد طلب کرتے ہیں۔
گزشتہ صفحات میں شیطان، ہوائے نفس اور پست و ذلیل ہم صحبت کے بارے میں تفصیل بیان ہوچکی ہے۔
اگر انسان خداوندعالم سے زیادہ بھرہ مند ہونے اور اس کے قرب کے سب سے اعلیٰ درجہ پر فائز ہونے نیز اس کی بارگاہ میں مقرب ترین فرد قرار پانا چاھے تو اس کے لئے واجب اور ضروری ہے کہ یقین و اخلاص کے ساتھ ایمان رکھے، قابل قبول اعمال، نیک کردار اور تقویٰ الٰھی؛(جس کے ذریعہ انسان گناھوں سے محفوظ رہتا ہے)؛ اختیار کرے ، کیا خداوندعالم نے قرآن مجید میں ارشاد نہیں فرمایا:
”۔۔۔(
إِنَّ اکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اتْقَاکُمْ
)
۔۔۔“[۳۳]
”۔۔۔بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وھی ہے جو زیادہ پرھیزگار ہے۔۔۔“۔
تقویٰ الٰھی جو انسان کی دنیا و آخرت میں سعادت و خوش بختی کا ضامن ہے؛ اس کے تین مرحلہ ذکر کئے گئے ہیں: عام تقویٰ،خاصتقویٰ، اخص تقویٰ۔
عام تقویٰ: یعنی واجبات کو انجام دینا اور حرام چیزوں سے پرھیز کرنا۔
خاص تقویٰ: یعنی مکروھات بلکہ مباح چیزوں (ضرورت کے علاوہ) سے پرھیز کرنا۔
اخص تقویٰ: یعنی ہر اس چیز سے پرھیز کرنا جو یاد خدا میں رکاوٹ بنے۔
خواجہ نظام الملک اور باتقویٰ شخصیت
کتب تواریخ میں خواجہ کی سوانح عمری میں درج ہے کہ: ایک روز خواجہ کی ملاقات ایک باتقویٰ اور پرھیزگار شخص سے ہوتی ہے، اس سے کھا: مجھ سے کوئی چیز طلب کرو تو میں تمھیں عطا کروں؛ کیونکہ میں غنی اور صاحب مال ہوں، یہ سن کر اس متقی شخص نے کھا: میں خدا کے علاوہ کسی اور سے کچھ نہیں مانگتا، غیر خدا سے کوئی سوال کرنا تو واقعاً کم ظرفی ہے۔
خلاف طریقت بود کاولیا
تمناکنند از خدا جز خدا
جب میں خدا سے اس کے علاوہ کچھ طلب نہیں کرتا تو آپ سے کیسے کچھ طلب کرسکتا ہوں؟
اس وقت خواجہ نے اس سے کھا: اگر تم مجھ سے کوئی چیز طلب نہیں کرسکتے تو میں آپ سے کوئی چیز طلب کروں، اس متقی شخصیت نے کھا: تمھاری کیا حاجت ہے؟ تو خواجہ نے کھا: جس وقت تم یاد خدا میں ہو اس وقت مجھے بھی یاد کرلینا، یہ سن کر اس متقی شخص نے کھا: جب میں یاد خدا میں ہوتا ہوں تو اپنے آپ کوبھول جاتا ہوں ، تو بھلا تجھے کیسے یاد کرسکتا ہوں؟!![۳۴]
اے صاحب عزت و شرافت! اے مالک عظمت و کرامت! اے تمام صفات کمال کے مالک! ان تمام صفات کا ملازمہ یہ ہے کہ تو محبت و مھربانی کرے، اور اس محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے بندوں پر بخشش و عطا کے دروازے کھول دے، لہٰذا اے میرے معبود! میرے اوپر اپنی نظر لطف فرما، اگر اپنے لطف و کرم کی نظر مجھ پر فرمائے گا تو اپنی محبت و مھربانی سے دریغ نہیں کرے گا، اور آخر کار یہ تیرے نادار بھکاری تیری عطا و بخشش سے بے نیاز ہوجائے گا: ”وَاعْطِفْ عَلَیَّ بِمَجْدِکَ“۔
احمد خضرویہ اور ایک چور
خدا کے خاص بندے جو خدا کے اخلاق و اطوار سے مزین ہوتے ہیں وہ اسی اخلاق سے دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں، درحقیقت ان کی رفتار و گفتار اخلاق الٰھی کا ایک جلوہ ہوتی ہے۔
منقول ہے کہ احمد خضرویہ کے گھر میں ایک چور آگیا، لیکن اس کو لے جانے کے لئے کوئی خاص چیز نظر نہ آئی، جب وہ خالی ہاتھ واپس جانے لگا توشیخ احمد صاحب کی بزرگواری اور محبت نے گوارا نہ کیا کہ وہ خالی ہاتھ ان کے گھر سے واپس جائے، اسے آواز دی اور کھا: اے چور! مجھے یہ گوارہ نہیں ہے کہ تو میرے یھاں سے خالی ہاتھ واپس لوٹے!! کنویں سے پانی نکالو، غسل توبہ کرو اور وضو کرکے نماز، توبہ اور استغفار کرو، شاید خداوندعالم کوئی انتظام کردے تاکہ تم خالی ہاتھ نہ جاؤ، (چنانچہ اس چور نے ایسا ہی کیا) اور جب صبح نمودار ہوئی توکوئی بزرگوار سو اشرفی شیخ کو ہدیہ دے گیا، شیخ نے وہ سو اشرفی اس چور کو دی اور کھا: یہ تمھاری ایک شب کی خالصانہ عبادت و توبہ کا ظاھری ثواب ہے۔ یہ دیکھ چور کی حالت بدل گئی، اور اپنے تمام گناھوں سے توبہ کی اور خدا کا نیک بندہ بن گیا۔
”وَاجْعَلْ لِسٰانِي بِذِکْرِکَ لَهِجاً،وَقَلْبِي بِحُبِّکَ مُتَیَّماً،
وَمُنَّ عَلَيَّ بِحُسْنِ اجٰابَتِکَ،وَاقِلْنِي عَثْرَتِي، وَاغْفِرْ زَلَّتِي،
فَانَّکَ قَضَیْتَ عَلٰی عِبٰادِکَ بِعِبٰادَتِکَ،وَامَرْتَهُمْ بِدُعٰائِکَ،
وَضَمِنْتَ لَهُمُ الْاجٰابَةَ، فَالَیْکَ یٰارَبِّ نَصَبْتُ وَجْهِي،
وَالَیْکَ یٰارَبِّ مَدَدْتُ یَدِي،فَبِعِزَّتِکَ اسْتَجِبْ لِيدُعٰائِي،
وَبَلِّغْنِي مُنٰايَ، وَلاٰتَقْطَعْ مِنْ فَضْلِکَ رَجٰائِي،وَاکْفِنِي
شَرَّ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ مِنْ اعْدٰائِي“
”اورمیری زبا ن کو اپنے ذکر سے گویا فرما۔میرے دل کو اپنی محبت کا عاشق بنادے اور مجھ پر بہترین قبولیت کے ساتھ احسان فرما۔میری لغزشوں سے در گذرفرما۔تونے اپنے بندوں پر عبادت فرض کی ہے۔ انھیں دعا کا حکم دیا ہے اوران سے قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے،اب میں تیری طرف رخ کئے ہوئے ہوں اور تیری بارگاہ میں ہاتھ پھیلائے ہوں ۔تیری عزت کا واسطہ میری دعا قبول فرما، مجھے میری مراد تک پھنچادے۔ اپنے فضل وکرم سے میری امیدوں کو منقطع نہ فرمانا۔ مجھے تمام دشمنان جن وانس کے شر سے محفوظ فرمانا“۔
زبان
خداوندعالم کی عظیم نعمتوں میں سے زبان بھی ایک عظیم نعمت ہے؛ اور اگر زبان وہ ہو جس کے ذریعہ حق بات کھی جائے اور اپنے مافی الضمیر کو ادا کرے اور(الٰھی) اھداف و مقاصد کو دوسروں تک پھنچائے۔
جس طرح زبان کے نیکیاں اور حسنات ہوسکتے ہیں اسی طرح زبان کے ذریعہ برائیاں اور بدی بھی بہت زیادہ ہیں، یھاں تک کہ اس سلسلہ میں علماء کہتے ہیں:
”اللسان جِرمةٌ صغیرةٌ و جُرمُهُ عظیمٌ
“ (زبان اگرچہ چھوٹی ہوتی ہے لیکن اس کے گناہ بڑے بڑے ہوتے ہیں۔)
زبان کے سلسلہ میں محدث بزگوار صاحب فلسفہ و حکمت اور عاشق عارف ملا محسن فیض کاشانیاپنی کتاب ”محجة البیضا“ میں فرماتے ہیں: زبان کے ذریعہ تقریباً بیس گناہ کبیرہ ہوتے ہیں: جیسے غیبت، تھمت، سخن چینی،چغلی ، دوسروں کا مسخرہ کرنا، افواھیں پھیلانا، جھوٹ، لوگوں کو ذلیل کرنا وغیرہ وغیرہ۔[۳۵]
قرآن مجید نے بھی زبان کھولنے کے لئے صرف دس چیزوں کی اجازت دی ہے۔ اگر انسان کی زبان انھیں دس باتوں کے لئے کھلتی ہے تو گویا وہ خدا کی عبادت کرتی ہے اور اگر ان دس باتوں کے علاوہ کسی اور چیز کے لئے کھلتی ہے تو وہ گناھوں سے آلودہ ہے، در حقیقت شیطان کی بندگی کرتی ہے، اور وہ دس باتیں درج ذیل ہیں:۔
۱ ۔ قول حسن۔
۲ ۔ قول احسن۔
۳ ۔ قول عدل۔
۴-قول صدق۔
۵ ۔ قول کریم۔
۶ ۔ قول نرم۔
۷ ۔ قول محکم۔
۸ ۔قول سدید ۔[۳۶]
۹ ۔ قول معروف۔
۱۰ ۔ قول بلیغ۔
قول حسن، عوام الناس کے ساتھ خوش زبانی ہے
قول احسن، لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دینا ہے۔[۳۷]
قول عدل، خدا ئی عدالت میں شھادت اور گواھی دینا ہے۔[۳۸]
قول صدق، سچی بات کھنا اور معاشرہ کے گذرے ہوئے اور موجود مومنین ذکر خیر کرنا۔[۳۹]
قول کریم، ماں باپ سے گفتگو کرنا۔[۴۰]
قول لیّن، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے وقت گفتگو کرنا۔[۴۱]
قول ایمان، خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی رسالت کا اقرار ہے۔[۴۲]
قول سدید، ہر شرائط اور ہر حالات میں حق بات کھنا ہے۔[۴۳]
قول معروف، یتیموں اور بیواؤں کے ساتھ گفتگو کرناھے۔[۴۴]
قول بلیغ، موثر اور واضح گفتگو کرنا ہےجو موعظہ، حکمت اور برھان کے ساتھ ہو۔[۴۵]
انسان ان دس طرح کی باتوں کے ذریعہ ایسی تجارت میں مشغول رھے کہ جس کا فائدہ صرف خداوندعالم ہی جانتا ہے۔ انھیں دس باتوں کی شرح کرنے کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے۔ ہم یھاں پر صرف قول احسن کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے ذریعہ لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دی جاتی ہے، اور باقی باتوں کی تفصیل الگ کتاب کے لئے چھوڑے دیتے ہےں۔
جب رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی علیہ السلام کو یمن کے لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا تو ان سے فرمایا:
یا علی! کسی سے بھی اس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک اس کو حق کی دعوت نہ دیدو۔
”وَایْمُ اللّٰهِ لانْ یَهْدِیَ اللّٰهُ عَلَی یَدَیْکَ رَجُلاً خَیرٌ لَکَ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَیْهِ الشَّمسُ وَ غَرَبَتْ
۔۔۔“[۴۶]
”خدا کی قسم! اگر خدا نے تمھارے ذریعہ کسی ایک انسان کی ہدایت فرمادی تو یہ آپ کے لئے زمین و آسمان کی تمام چیزوں سے بہتر ہے“۔
زبان کے ذریعہ نماز پڑھی جاتی ہے تو یہ ذکر خدا ہے، قرآن زبان کے ذریعہ پڑھا جاتا ہے تو یہ بھی ذکر خدا ہے، اہل بیت علیھم السلام سے ماثور دعائیں اور مخصوص زمان و مکان میں پڑھی جاتی ہیں وہ بھی ذکر خدا ہیں، مذکورہ بالا دس طرح کی باتیں کرنا وہ بھی ذکر خدا ہیں، اور ان سب سے بہتر و بالاتر اور بہت زیادہ ثواب رکھنے والی چیز کسی گمراہ کی دین خدا کی طرف ہدایت کرناھے۔
بدکار عو رت کی بخشش
ثقة الاسلام شیخ کلینی اپنی کتاب ”روضہ کافی“ جو اس عظیم کتاب کا آخری حصہ ہے، حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں: ایک عابد و زاھد بہت زیادہ عبادت کرتا تھا جس سے شیطان کی کمر ٹوٹ چکی تھی، ایک روز اپنے لشکر کو ساتھ لایا اور ان سے کھا: تم میں کون ایسا ہے جو اس شخص کو عابد سے منحرف کردے؟ کسی نے کچھ بتایا کسی نے کچھ، لیکن شیطان کو ان کا حربہ پسند نہ آیا،آخر کار ایک نے کھا: میں اس کو نمازی کے لباس میں جاکر گمراہ کرتا ہوں، شیطان نے اس کی بات کوپسند کیا اور اس کو بہکانے کے لئے بھیج دیا!!
شیطان کا وہ کارندہ اس عابد کی عبادتگاہ میں آیا اور بڑے زور و شور سے عبادت کرنے لگا، یھاں تک کہ اس عابد کو سوال کرنے تک کی فرصت نہ دی تاکہ وہ اس طرح کی عبادت کا راز پوچھے، عابد انتظار کرتا رھا تاکہ کوئی فرصت ملے اور اس سے اس انداز کی عبادت کا حال دریافت کرے، موقع غنیمت جان کر اس نے سوال کرھی دیا ، تو اس نے جواب دیا: میں نے گناہ کئے اور پشیمان ہوگیا، گناھوں سے پشیمانی نے مجھے عبادت سے اس قدر لگاؤ پیدا کردیا ہے کہ میں کبھی بھی عبادت سے تھکتا نہیں ہے، اور نہ ہی میری امنگ ختم ہوتی!!
اس عابد نے اس بات پر غور کئے بغیر کہ اگر وہ گناہ کرتے وقت ہی مرجائے تو کیا ہوگا؟ اس سے راھنمائی کی درخواست کی۔ شیطان کے اس کارندے نے اس سے کھا کہ اس شھر کی فلاں عورت بدکاری میں بہت زیادہ مشھور ہے، اس کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ عابد اس عورت کی طرف روانہ ہوگئے، اس عورت نے جیسے ہی اس نورانی شخص کو اس محلہ میں دیکھا تو بہت تعجب کیا ، اور سوچا کہ اس سیدھے سادے عابد کو کسی نے دھوکہ دیا ہے، چنانچہ اس سے کھا: اے عابد! انسان کبھی بھی گناہ کے ذریعہ ، مقام عبادت اور مقام قرب خدا تک نہیں پھنچ سکتا، جس شخص نے بھی تمھیں اس کام کی راھنمائی کی ہے، اس کا مقصد تمھیں گمراہ کرنا تھا، گناہ ؛تنزل اور سقوط کا باعث ہے ، ترقی اور صعود کا باعث نہیں ہے، جاؤ اپنی عبادت گاہ میں جاؤ اس کام کے شوق دلانے والے کو نہیں پاؤگے،جاؤ اگر اس کو وھاںنہ پایا،تو یقین کرلینا کہ وہ شیطان تھا۔
چنانچہ وہ عابد خواب غفلت سے چونکا اور واپس پلٹا، جیسے ہی وھاں پھونچا تو اس شیطان کو نہ پایا۔ بہت خوش ہوئے کہ اس عورت نے اس کو گناہ سے بچالیا، اتفاق سے اسی رات اس عورت کا انتقال ہوگیا۔ خداوندعالم نے اس زمانہ کے پیغمبر کو حکم دیا کہ لوگوں کے ساتھ اس عورت کے جنازہ میں شریک ہو کیونکہ میں نے اپنے ایک بندہ کی ہدایت کی خاطر اس عورت کے تمام گناہ بخش دئے ہیں، اور اس کو معاف کردیا ہے، اور اس کو اپنی رحمت و بخشش میں داخل کرلیا ہے۔
استجابت دعا کی ضمانت
اگرچہ قرآن مجید نے فرمایا ہے:
”(
وَإِذَا سَالَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ اجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِی
)
“[۴۷]
”اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کرےں تو میں ان سے قریب ہوں پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں جب بھی پکارتا ہے“۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ فرمایا ہے:
”۔۔۔(
ادْعُونِی اسْتَجِبْ لَکُمْ
)
۔۔۔۔“[۴۸]
”۔۔۔مجھ سے دعائیں کرو میں قبول کرو ں گا۔۔۔“۔
لیکن اس حقیقت پر بھی توجہ کرنا ضروری ہے کہ استجابت دعا کی ضمانت ہر دعا کے لئے نہیں ہے، بلکہ اس دعا کے لئے ہے جس دعا کا کرنے والے اور خود دعا میں تمام شرائط پائے جائیں، جن کا تذکرہ قرآن وحدیث میں ملتا ہے۔
ممکن ہے کوئی شخص گریہ و زاری کے ساتھ خدا سے یہ دعا کرے کہ ساری دنیا کا مال و دولت مجھے مل جائے،اور قیامت تک کے لئے میری عمر میں اضافہ ہوجائے، اور میری شکل و صورت کو جناب یوسف(ع) سے بھی خوبصورت قرار دیدے، میری آواز لحن داؤد سے بھی بہتر بنادے، میری شجاعت حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے بھی زیادہ کردے، اور مجھے پوری دنیا کی حکومت مل جائے، اور تمام لوگوں کو میرے حوالے کردے، تاکہ میں ان کے لئے خیر و شر کی درخواست کو قبول کروں!!
اس طرح کی دعاؤں میں دعا کرنے والے اور خود دعا کے ضروری شرائط نہیں پائے جاتے، توخداوندعالم کی طرف ایسی دعا کے مستجاب ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
عرفاء ، زاھدین و عابدین اور صاحب کمال جن میں دعا کے ضروری شرائط پائے جاتے ہیں اور ان کی دعائیں بھی دنیا و آخرت کی مصلحتوں کی بنا پر ہوتی ہے۔ اگر دعا کرنے والے کی دعااس دنیا میں قبول ہوجاتی ہے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور اگر ان کی دعا اس دنیا میں قبول نہ ہو تو ان کو ذرا بھی ملال نہیں ہوتا بلکہ صبر و ضبط سے کام لیتے ہیں، اور منتظر رہتے ہیں کہ قبول ہونے کا وقت پھنچ جائے (تاکہ اس موقع پر وہ دعا قبول ہوجائے)۔
روایات میں منقول ہے: دعا انبیاء(ع)اور مومنین کا اسلحہ ہے۔دعا کے ذریعہ یقینی موت بھی ٹل جاتی ہے، اور دعامقدر کو پلٹادیتی ہے ، دعا کے ذریعہ انسان کی بلائیں دور ہوجاتی ہےں اور ہر درد و مصیبت سے شفا مل جاتی ہے۔
اہل بیت علیھم السلام کی احادیث میں دعا اور دعا کرنے والے کی شرائط اس طرح بیان کئے گئے ہیں:
دعا میں اخلاص، اور اس چیز کی معرفت رکھنا کہ تمام چیزیں اس کے قبضہ قدرت میں ہیں، اپنے واجبات پر عمل کرنا، اپنے دل کو پاک و صاف رکھنا، سچی زبان، حلال روزی کھانا، حقوق الناس کی ادائیگی، حضور قلب، رقت قلب، دعا کے شروع میں ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“پڑھنا،محمد و آل محمد پر صلوات بھیجنا، گناھوں کا اقرار کرنا، رونا گڑگڑانا، زمین پر پیشانی رکھنا، دورکعت نماز پڑھنا، دعا قبول ہونے پر یقین رکھنا، دوسروں کے لئے اپنے سے پھلے دعا کرنا، نامناسب دعاؤں سے پرھیز کرنا، مجموعی طور پر دعا کرنا،خلوت میں دعا کرنا اور دعا کے مستجاب ہونے کی امید رکھنا۔
جس وقت دعا کرنے والے میں دعا کرنے کے شرائط جمع ہوجائیں اور دعا کے شرائط کی بھی رعایت کی جائے تو یقینا ایسی دعا ضرور قبول ہوگی۔
تین گرفتاروں کی دعا
”جابر جعفی“ حضرت امام محمد باقر اور حضرت امام صادق علیھما السلام کے زمانہ کے معتبر روایوں میں سے تھے حضرت رسول اکرمسے روایت کرتے ہیں: تین مسافر سفر کرتے ہوئے ایک پھاڑ کی غار میں پھنچے، وھاں پر عبادت میں مشغول ہوگئے ، اچانک ایک پتھر اوپر سے لڑھکا ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ دروازہ بند کرنے کے لئے بنایا گیا اور اس نے دروازہ بند کردیا، ان کے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہ دیا!
چنانچہ وہ لوگ ایک دوسرے سے کھنے لگے: خدا کی قسم یھاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، مگر یہ کہ خدا ہی کوئی لطف و کرم کرے ، کوئی نیک کام کریں خلوص کے ساتھ دعا کریں اور اپنے گناھوں سے توبہ کریں۔
ان میں سے پھلا شخص کہتا ہے: پالنے والے! تو(تو جانتا ہے)کہ میں ایک خوبصورت عورت کا عاشق ہوگیا بہت زیادہ مال و دولت اس کو دیا تاکہ وہ میرے ساتھ آئے، لیکن جونھی اس کے پاس گیا، دوزخ کی یاد آگئی جس کے نتیجہ میں اس سے الگ ہوگیا؛ پالنے والے ! اسی عمل کا واسطہ ہم سے یہ مصیبت دور فرما اور ہمارے لئے نجات کا سامان فراھم کردے ، دیکھا تو وہ پتھر توڑا سا کھسک گیا۔
دوسرے نے کھا: پالنے والے! تو جانتا ہے کہ ایک روز میں زرعی کام کے لئے کچھ مزدور لایا، آدھا درھم ان کی مزدوری معین کی، غروب کے وقت ان میں سے ایک نے کھا: میں نے دو مزدورں کے برابر کام کیا ہے لہٰذا مجھے ایک درھم دیجئے، میں نے نہیں دیا، وہ مجھ سے ناراض ہوکر چلا گیا، میں نے اس آدھے درھم کا زمین میں بیج ڈالدیا، اور اس سال بہت برکت ہوئی۔ ایک روز وہ مزدور آیا اور اس نے اپنی مزدوری کا مطالبہ کیا، تو میں نے اس کو اٹھارہ ہزار درھم دئے جو میں زراعت سے حاصل کئے تھے، اور چند سال تک اس کو رکھے رکھا تھا، اور یہ کام میں نے تیری رضا کے لئے انجام دیا تھا، تجھے اسی کام کا واسطہ ہم کو نجات دیدے۔ چنانچہ وہ پتھر تھوڑا اور کھسک گیا۔
تیسرے نے کھا: پالنے والے! (تو جانتا ہے) ایک روز میرے ماں باپ سورھے تھے میں ان کے لئے کسی ظرف میں دودھ لے کر گیا، میں نے سوچا کہ اگر وہ دودھ کا ظرف اگر زمین پر رکھ دوں تو کھیں اٹھ نہ جائے، اور میں نے ان کو خود نہیں اٹھایا بلکہ وہ دودھ کا ظرف لئے کھڑارھا تاکہ وہ خود بیدار ہوں۔ تو تو جانتا ہے کہ میں نے وہ کام وہ زحمت صرف تیرے لئے اٹھائی تھی، پالنے والے ہمیں اسی کام کے صدقہ میں اس سے نجات دیدے۔ چنانچہ اس شخص کی دعا سے پتھر او رکھسکا اور یہ تینوں اس غار سے باھر نکل آئے۔[۴۹]
ایک گمنام غلامِ سیاہ کی دعا
منقول ہے کہ بنی اسرائیل کے زمانہ میں سات سال تک قحط پڑا، ستر ہزار لوگ دعا کی بارش کے لئے جنگل میںآئے تاکہ ان کی برکت سے باران رحمت نازل ہوجائے۔ آواز قدرت آئی:
اے موسیٰ! ان سے کہہ دو کہ میں تمھاری دعا کیسے قبول کرلوں در حالیکہ تم لوگ گناھوں میں غرق ہو، اور تمھارے باطن میں خباثت بھری ہوئی ہے۔ مجھے پکاررھے ہیں حالانکہ مجھ پر یقین نہیں رکھتے، اور میرے انتقام سے خوف امن میں نہیں ہیں۔ میرے بندوں میں سے ایک بندہ کو بلاؤ جس کا نام ”بُرخ“ ہے،تاکہ وہ دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں۔
جناب موسیٰ علیہ السلام ”بُرخ“ کی تلاش میں نکلے، لیکن وہ نہ مل سکا، یھاں تک کہ ایک روز راستہ سے چلے جارھے تھے، ایک سیاہ فام غلام کو دیکھا جس کی پیشانی پر سجدوں کے نشانات تھے اور اپنی گردن میں کوئی چیز ڈالے ہوئے ہے، جناب موسیٰ علیہ السلام نے احساس کیا کہ یھی وہ ”بُرخ“ ہے، آگے بڑھے اس کو سلام کیا اور اس سے نام معلوم کیا۔ اس نے کھا: میرا نام ”بُرخ“ ہے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام نے کھا:
ایک مدت سے تمھاری تلاش کررھا ہوں، آؤ اور ہمارے لئے باران رحمت کی دعا کرو۔
چنانچہ ”بُرخ“ ایک بیابان کی طرف نکلے اور خدا سے یوں مناجات کرنے لگے:
پالنے والے! اپنے بندوں پربارش کا بند کردینا تیرے کاموں میں سے نھیں، تیری بارگاہ میں بخل کا بھی کوئی وجود نہیں ہے، کیا تیرا لطف و کرم ناقص ہوگیا ہے یا تیری ہوا نے اطاعت سے مخالفت کی ہے یا تیرے خزانے ختم ہوگئے ہیں، یا گناھگاروں پر تیرے خشم میں جوش آگیا ہے، کیا تو خطاکاروں کی خلقت سے پھلے غفّار اور بخشنے والا نہیں تھا؟! چنانچہ سب نے دیکھا کہ وہ اسی طرح مناجات کرتا رھا یھاں تک کہ بارش ہونے لگی اور ایسی بارش ہوئی کہ بنی اسرائیل سیراب ہوگئے۔[۵۰]
امام سجاد علیہ ا لسلام کے غلام کی دعا
سعید بن مسیب مدینہ منورہ کے بزرگ فقھاء میں سے تھے اور حضرت امام سجاد اور حضرت امام موسیٰ کاظم علیھما السلام نے آپ کی تعریف فرمائی ہے ۔
عبد الملک مروان نے مدینہ میں اپنا ایک ایلچی بھیجا تاکہ سعید کی لڑکی سے جو حسن و جمال اور صورت و سیرت میں بہت نیک تھی؛رشتہ طلب کرے، سعید نے مدینہ کے گورنر سے کھا میں ہر گز اپنی لڑکی کی شادی ملک کے بادشاہ وقت سے نہیں کروں گا!!۔
ایک روز انھوں نے اپنے شاگروں میں سے کسی اےک سے کھا: کئی روز سے آپ درس میںنھیں آرھے ہیں؟ تو اس نے کھا: میری بیوی کا انتقال ہوگیا ہے، جس کی بنا پر درس میں شرکت نہیں کرپایا ہوں۔ سعید نے کھا: ایک دوسری شادی کرلو۔ تو اس نے کھا: میرے پاس مال دنیا میں سے دو درھم سے زیادہ نہیں ہے۔ انھوں نے کھا: کیا میری لڑکی سے شادی کرو گے؟ اس نے کھا: جیسا آپ حکم کریں۔ چنانچہ استاد نے اس کا نکاح اپنی لڑکی سے کردیا۔
سعید چالیس سال سے کسی کے دروازے پر نہیں گئے تھے، شاگرد کہتا ہے: ایک روز شام کا وقت تھا، دق الباب ہوا ، میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا استاد ہیں، اور اپنے ساتھ اس لڑکی کو لے کر آئیں ہیں ، لڑکی کو میرے حوالے کیا اور واپس چلے گئے۔ میں نے اس لڑکی سے سوال کیا: تو اس نے بتایا میں ”حافظ قرآن“ ہوں، اس نے مھرکے بارے میں سوال کیا: تو اس لڑکی نے کھا:
”جِهادُ المَراةِ حُسْنُ التَّبَعُّلِ
“[۵۱]
”عورت کا جھاد بہتر شوھر داری ہے“۔
جناب سعید تقویٰ و پرھیزگاری اور فضل و کرم کی اس عظیم منزل پر فائز تھے، کہتے ہیں: ایک سال مدینہ میں قحط پڑگیا اور بارشیں کم ہونے لگیں، لوگوں نے نماز و دعا پڑھنا شروع کی، میں بھی ان کے ساتھ گیالیکن اس مجمع میں کسی کی دعا قبول نہ ہوئی، ایک غلام کو دیکھا کہ ایک بلند مقام پر عبادت کررھا ہے اور اپنا سر سجدے میں رکھے ہوئے دعا کررھا ہے اس کی دعا قبول ہوئی اور بہت زیادہ بارش ہونے لگی۔ میں اس کے پیچھے چل دیا دیکھا تو وہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے گھر میں داخل ہوا، میں بھی امام کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ سے اس غلام کو طلب کیا، امام علیہ السلام نے فرمایا: سب غلام جمع ہوجائیں، جب سب جمع ہوگئے تو میں نے اس سیاہ فام غلام کونھیں دیکھا، میں نے کھا: جس کو میں چاہتا ہوں وہ ان میں موجود نہیں ہے، اس وقت کھا گیا: صرف اصطبل والا غلام نہیں آیا ہے، امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کو بھی بلایا جائے، جب وہ آیا تو وھی تھا جس کو میںچاہتا تھا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اے غلام! میں نے تجھے سعید کو بخش دیا۔ یہ سن کر غلام بہت زیادہ رونے لگا، اور کھا: اے سعید! مجھے امام زین العابدین سے جدا نہ کر۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ بہت زیادہ رورھا ہے ، میں نے اپنا ارادہ ترک کردیا، اور امام کے مکان سے واپس آگیا، میرے آنے کے بعد جب اس کا راز فاش ہوگیا تو اس نے اپنا سر سجدے میں رکھا، اور خدا سے ملاقات کی آرزو کی، اسی وقت اس کی دعا پوری ہوگئی ، امام علیہ السلام نے مجھ سے کھلوایا کہ اس کی تشیع جنازہ میں شرکت کے لئے آجاؤ۔
دعائے امام حسین علیہ السلام
”مناقب“ ابن شھر آشوب عظیم الشان کتاب ”تہذیب شیخ طوسی“سے روایت نقل کرتے ہیں:
ایک عورت خانہ کعبہ کا طواف کرنے میں مشغول تھی، ایک مرد بھی اسی ردیف میں طواف کررھا تھا۔ اس مرد نے بری نیت سے اس عورت کی طرف ہاتھ بڑھایا؛اس کا ہاتھ عورت کے جسم پر چپک گیا، دونوں کا طواف قطع ہوا، وھاں مامور خادموں نے ان دونوں کو امیر مکہ کے پاس پھنچادیا،یہ دیکھ کر اس نے اس عجیب و غریب واقعہ کو دیکھ کر علماء کو فتوے کے لئے بلایا۔ چنانچہ سب نے کھا کہ اس مرد نے خانہ کعبہ کے نزدیک بہت بڑی خیانت کی ہے لہٰذا اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے، ان میں سے ایک شخص نے کھا: اس کا ہاتھ کاٹنے سے پھلے امام حسین(ع) کا نظریہ بھی معلوم کرلیں۔ جس وقت امام حسین علیہ السلام کو خبر ملی آپ خانہ کعبہ کی طرف تشریف لائے۔ اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور بارگاہ رب العزت میں گریہ و زاری کی او ردعا کی اس مرد کا ہاتھ اس عورت سے الگ ہوجائے، (اور آپ کی دعا کی وجہ سے اس مرد کا ہاتھ الگ ہوگیا) لوگوں نے کھا: اس پر جرمانہ کیا جائے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: جب خداوندعالم نے اس کو بخش دیا تو تم کیا چاہتے ہو؟[۵۲]
آدھی رات میں ایک زندانی کی دعا
”عبد اللہ بن طاھر“ کی حکومت کے زمانہ میں راستوں اور سڑکوں پر نا امنی پھیل گئی اور لوگوں کا گزرنا مشکل ہوگیا۔ امیر عبد اللہ نے بعض لوگوں کو سڑکوںپر تعینات کیا تاکہ راستہ چلنے والوں کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ ایک راستہ سے دس چوری کی واردات میں ملوث لوگوںکو پکڑ کر دار الحکومت کی طرف بھیج دیا گیا، لیکن ان میں سے ایک رات کے وقت بھاگ نکلا۔ داروغہ نے سوچاکہ شاید امیر عبد اللہ بن طاھر یہ سوچے کہ اس نے رشوت لے کر اس کو بھاگنے کا موقع دیدیا ہے، لہٰذا اس کے بدلے میں اسی کو سز ا ہوگی، روئی دُھننے والے کو جو اپنی زندگی اسی کام سے چلاتا تھا اور ایک شھر سے دوسرے شھر میں جاکر یہ کام کیا کرتا تھا، اس بے گناہ کو پکڑ لیا اور چوروں کی تعدا پوری کرنے کے لئے ان میں شامل کردیا، ان دس چوروں کو امیر عبد اللہ بن طاھر کے پاس حاضر کیا گیا، اس نے حکم دیا کہ ان سب کو قید خانہ میں ڈال دیا جائے۔
ایک رات پولیس کا ایک سپاھی قیدخانہ آیا اور دو چوروں کو پھانسی دینے کے لئے لے گیا، اس موقع پر اس روئی دُھننے والے نے کھا: میرے بچے سوچ رھے ہوں گے کہ میں کسی جگہ کام کے لئے رک گیا ہوں لیکن ان کو کیا خبر ظالموں نے مجھے بے گناہ پکڑ کر چوری کے الزام میں قیدخانہ میں ڈال دیا ہے۔ اسی رات کے وقت اٹھا دو رکعت نماز پڑھی اور سرسجدہ میں رکھ کر بارگاہ الٰھی میں راز و نیاز اور دعا کرنے لگا۔
اسی رات میں عبد اللہ بن طاھر نے خواب دیکھا کہ اس کا تخت چار بار زمین پر گرا، اٹھا اور دو رکعت نماز پڑھی پھر سوگیا، ایک بار پھر اس نے خواب میںدیکھا کہ چار سانپ اس پر حملہ کررھے ہیں اور اس کے تخت کونیچے گرادیا ہے؛ بیدا رھوا، اپنے خادموں کو بلایااورکھا: کسی مظلوم نے اس وقت بارگاہ الٰھی میں شکایت کی ہے اس کو تلاش کیا جائے، بہت زیادہ تلاش کرنے کے بعد قیدخانہ میں پھنچے تو اس روئی دُھننے والے کو عجیب و غریب عالم میں دیکھا اس کو امیر کے پاس لایا گیا، اس نے سارا واقعہ بیان کیا، جب معاملہ واضح ہوگیا تو امیر عبد اللہ نے حکم دیا کہ اس دُھونے کو دس ہزار دینار سے نوازا جائے، اور اس سے کھا: میری تم سے تین خواھشیں ہیں: ۱ ۔ مجھے معاف کردو۔ ۲ ۔ اس تحفے کو قبول کرلو۔ ۳ ۔ جب بھی کوئی حاجت ہو تو میرے پاس چلے آنا، تاکہ تمھاری حاجت روائی کردوں۔
اس دُھونے نے کھا: میں آپ کی تین خواھشوں میں سے دو کو قبول کئے لیتا ہوں، آپ کو معاف کرتا ہوں اور اس تحفہ کو قبول کرتا ہوں، لیکن تیسری خواھش کو ہرگز قبول نہیں کرسکتا؛ کیونکہ یہ واقعاً بڑی بیوقوفی ہوگی کہ اس بارگاہ کو چھوڑدوں جس نے میرے نالہ و فریاد کے ذریعہ تیری حکومت کی چولیں ہلادیں اور ایک ضعیف و کمزور کی بارگاہ میں اپنا سر تسلیم خم کرلوں!!
پالنے والے! تیری بارگاہ میں میری التجا ہے کہ میرے گناھوں سے درگزر فر ما، اور توفیق دے کہ آئندہ میں گناھوں سے دور رھوں، اور تیری عبادت خلوص کے ساتھ انجام دوں، اور میرے اعضاء و جوارح کو طاقت دے تاکہ میں تیری اور تیرے بندوں کی خدمت کرسکوں، میرے دل کو اپنے عشق سے مالا مال کردے، میری روحی اور فکری بیماریوں کا علاج فرما، آخرت میں اپنے محبوب بندوں کی شفاعت اور ان کی ہم نشینی میرے نصیب میں لکھ دے۔ اے میرے محبوب اور میری تمام امید! یھی میری آرزو ہے، لہٰذا میری تمناؤں کو پورا کردے اور میری امید کو مایوسی میں تبدیل نہ کر، اے صاحب فضل و کرم۔
منقول ہے کہ ایک شخص حالت احتضار میںتھا، رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس سے کھا: اپنے آپ کو کس حالت میں پاتے ہو؟ تو اس نے کھا: یا رسول اللہ (ص)اپنے گناھوں سے خوف زدہ ہوں اور خدا کی رحمت کا امیدوار ہوں۔ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: یہ چیز کسی کے دل میں جمع نہیں ہوگی مگر یہ کہ خداوندعالم جس سے وہ خوف رکھتا ہو اس سے محفوظ کردے گا اورجس چیز کی امید رکھتا ہوگا اس کو پوری کردے گا۔
پالنے والے! تیری بارگاہ میںمیری بے جا آرزو نہیں ہے اور تیری بارگاہ میںبے جا آرزوئیں نہیں ہےں۔ تو نے خود قرآن مجید میں اپنے کو غفّار و غفور و شکور و کریم اور ارحم الراحمین و دیگر صفات سے تعارف کرایاھے۔ میں اگرچہ اپنے گناھوں کی نسبت خوف زدہ ہوں لیکن پھر بھی تیرے فضل و کرم کا امید وار ہوں۔ اگر دعائے کمیل کے ساتھ تیری بارگاہ میں آیا ہوں تو اس میں بھی تیرا لطف و کرم اور بزرگی سبب بنی ہے کہ میں تیری خدمت میں حاضر ہوں۔ میں اس بات کا یقین رکھتا ہوں کہ تیرے درسے کوئی بھی سائل خالی ہاتھ نہیں جاتا، تیری بارگاہ میں کسی کو مایوس نہیں کیا جاتا، اس دروازے سے کسی کو بھگایا نہیں جاتا۔
پالنے والے! تو نے حر بن یزید ریاحی کو ان عظیم گناھوں کے باوجود، فرعون کی بیوی کو ایمان لانے کے بعد فضیل بن عیاض کو توبہ کرنے کے بعد اور اسی طرح ہزارھا دوسرے گناھگاروں کوان کی توبہ کے بعد بخش دیا اور ان کو اجر و ثواب سے نوازا؛ لہٰذا میں کس طرح تیری بارگاہ سے ناامید ہوکر پلٹ جاؤں، حالانکہ تو نے خود قرآن مجید میں مایوسی کو کفر کے برابر مانا ہے![۵۳]
باران رحمت
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے آباء و اجدا سے نقل کرتے ہیں: اہل کوفہ حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بارش نہ ہونے کی شکایت کی، اور عرض کیا: ہمارے لئے خدا سے بارش کی دعا فرمائےے۔ چنانچہ آپ نے امام حسین علیہ السلام سے فرمایا: خدا سے بارش کی دعا کرو۔ امام حسین علیہ السلام نے خدا کی حمد و ثنا کی اور رسول خدا پر درود بھیجا اور خدا کی بارگاہ میں عرض کیا: اے خیر و برکت نازل کرنے والے! ہمارے لئے باران رحمت نازل فرما، تاکہ تیرے بندوں کو مشکلات سے نجات مل جائے، اور مردہ زمینیں زندہ ہوجائیں، آمین یا رب العالمین۔
جیسے ہی امام حسین علیہ السلام کی دعا ختم ہوئی اچانک بارش شروع ہوگئی، اور اتنی بارش ہوئی کہ اطراف کوفہ کے رھنے والے بعض لوگ آپ کی خدمت میں آئے اور کھا: اتنی بارش ہورھی ہے کہ پانی کی موجیں سیلاب میں تبدیل ہوا چاہتی ہیں۔[۵۴]
پالنے والے! تونے کوفہ والوں کے لئے اپنے خاص بندے کی دعا کے صدقہ میں باران رحمت سے سیراب کردیا، ہمارے اوپر بھی رحمت و مغفرت کی بارش فرما، تاکہ ہمارے گناھوں کی گندگی اور کثافت ہمارے نامہ اعمال سے دُھل جائے اور ہمیں گناھوں کے بوجھ سے نجات عطا فرما، اور معنویت کا اوڑھنا اور عبادت و بندگی کے درخت سے ہمارے وجود کی سر زمین میں جان ڈال دے،کیونکہ ہم تیری امید پر ہی تیری بارگاہ میں حاضر ہوئے ہیں، عذر خواھی اور توبہ کرتے ہوئے تیری چوکھٹ پر سر جھکائے ہوئے ہیں اور تیرے در پر جھولی پھیلائے ہوئے ہیں اور اپنی حاجتوں کو تیرے ہی حضور میں لے کر آئے ہیں، اور اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ اپنے لطف و کرم کی بدولت ہمیں بخش دے گا۔
کرم کی امید
ایک جوان ایک گلی سے گزر رھا تھا، ایک درخت پر ایک شکار کو دیکھا اور اس پر ایک تیرچلایا، وہ تیر اس پرندہ کو نہیں لگا بلکہ اس سے گزر کر باغ کے مالک کے لڑکے کو جالگا، اور وہ مرگیا،باغ کے اطراف سے ہی بعض لوگوں کو پکڑلیا گیا اور آپس میں جھگڑا ہونے لگا، وہ جوان بھی وھاں پھنچا، اور سوال کیا واقعہ کیا ہے؟ تو انھوں نے بتایا کہ یہ لڑکا کسی شکاری کے تیر سے مرگیا ہے، اس نے کھا: تیر اٹھا کر لایا جائے تاکہ میں اس کو دیکھ کر فیصلہ کروں۔ تیر لایا گیا تو اس جوان نے کھا: اگر میں فیصلہ کروں تو کیا تم ان لوگوں کو چھوڑدوگے؟ تو اس باغ کے مالک نے کھا: جی ہاں۔ تب اس جوان نے کھا: یہ تیر میں نے شکار کے لئے چلایا تھا لیکن اس جوان کو جا لگا، میں اس کا قاتل ہوں، جو بھی کرنا چاھو میں حاضر ہوں۔ اس لڑکے کے غم زدہ باپ نے کھا: اے جوان جب مجھے تیری غلطی کے بارے میں علم ہوگیا ہے تو پھر تیرا اعتراف و اقرار کیا معنی رکھتا ہے؟ تو اس جوان نے کھا: تمھارے کرم کی امید، کہ اگر میں اقرار کرلوںتو تم مجھے معاف کردوگے۔ یہ سن کر اس باپ نے اس جوان کو معاف کردیا۔[۵۵]
اے اکرم الاکرمین! اب ہم تیرے بے نھایت کرم کے امیدوار ہیں تواضع و انکساری کے ساتھ اپنے گناھوں کا اقرار کرتے ہیں اور اپنی معصیت اور غلط کاموں کا اعتراف کرتے ہیں۔(لہٰذا تو بھی ہمارے گناھوں کو بخش دے۔)
”یٰا سَریعَ الرِّضٰا،اغْفِرْ لِمَنْ لاٰیَمْلِکُ الَّا الدُّعٰاءَ،فَانَّکَ فَعّٰالٌ
لِمٰا تَشٰاءُ،یٰا مَنِ اسْمُهُ دَوٰاءٌ،وَذِکْرُهُ شِفٰاءٌ،وَطٰاعَتُهُ غِنیً ارْحَم
ْ مَنْ رَاسُ مٰالِهِ الرَّجٰاءُ،وَسِلاٰحُهُ الْبُکٰاءُ،یٰا سٰابِغَ النِّعَمِ،یٰادٰافِعَ
النِّقَمِ،یٰا نُورَالْمُسْتَوْ حِشینَ فِي الظُّلَمِ ،یٰا عٰالِماً لاٰ یُعَلَّمُ،صَلِّ
عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَافْعَلْ بِي مٰاانْتَ اهْلُهُ،وَ
صَلَّی اللّٰه عَلٰی رَسُولِهِ وَالْائِمَّةِ الْمَیٰامینَ
مِنْ آلِهِ ،وَسَلَّمَ تَسْلیماً کَثیراً“
”اے بہت جلد راضی ہوجانے والے! اس بندہ کو بخش دے جس کے اختیار میں سوائے دعا کے کچھ نہیں ہے کہ توھی ہر شے کا صاحب اختیار ہے۔ اے وہ پروردگار جس کانام دوا،جس کی یاد شفا اور جس کی اطاعت مالداری ہے، اس بندہ پر رحم فرماجس کا سرمایہ فقط امیداور اس کا اسلحہ فقط گریہ ہے، اے کامل نعمتیں دینے والے ۔ اے مصیبتوں کو رفع کرنے والے اور تاریکیوں میں وحشت زدوں کو روشنی دینے والے ۔محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور میرے ساتھ وہ برتاو کر جس کا تواہل ہے۔اپنے رسول اور ان کی مبارک ”آل ائمہ معصومین(ع)“پر صلوات و سلام فراوان نازل فرما “۔
آسمانی اور ملکوتی حقائق
اس بندے سے خدا کا بہت جلد راضی ہوجانا جس پر خدا ناراض ہوگیا ہو اور اس کی بارگاہ سے دھتکار دیا گیا ہو اور اس توبہ و انابہ اور دعا کے ذریعہ اس کی بارگاہ میں متوسل ہوا ہو ، اس کی وجہ خداوندکریم کی بے نھایت رافت و مھربانی اور اس کا لطف و کرم ہے۔ اسی وجہ سے اگر کوئی شخص اپنی پوری زندگی گناھوں میں غرق رھا ہو اور کوئی رات بھی ایسی نہ گزری ہو جس میں گناہ نہ کیا ہو، صرف ایک پشیمانی ، شرمندگی اور توبہ کے ذریعہ اس کو بخش دیتا ہے اور اس کے تمام گناھوں سے چشم پوشی کرلیتا ہے، او راس کے قلیل عمل ہی کو قبول کرلیتا ہے اور اس کو اپنی خاص رحمت میں شامل کرلیتا ہے!
اسی وجہ سے حضرت امیر المومنین علیہ السلام ”یا سریعَ الرضا“ کے فقرے کے بعد بارگاہ الٰھی میں عرض کرتے ہیں: پالنے والے اس کو بخش دے جس کے پاس دعا کے علاوہ کچھ نہیں ہے؛ کیونکہ حقیقی دعا او رگریہ و زاری ؛ فقر و نداری، ذلت و مسکنت اور بے چارگی پر دلالت کرتی ہیں اور یہ کہ دعا کرنے والے کے پاس طاعت و عبادت اور خیرات کا ذخیرہ نہیں ہے جس کے بل بوتے پر مستحق رحمت ہوں، اپنے سے نفع و نقصان کو دور نہیں کرسکتا اور دعا و زاری کے ساتھ جو تیری بارگاہ میں حاضر ہوں یہ بھی تیری ہی توفیق اور لطف کے سبب ہے، درحقیقت یہ دعا اور گریہ و زاری تیری ہی رحمت کا ایک جلوہ ہے، کہ اگر تو مجھ پر نظر لطف نہ کرتا تو میں تیری بارگاہ میں حاضر نہ ہوتا اور میں تیری بارگاہ میں دعا کے لئے زبان نہ کھولتا، دل و جان سے تیری طرف متوجہ نہ ہوتا، اور اپنی آنکھوں سے آنسو نہ بھاتا۔
ایسا بندہ تیری رحمت و مغفرت اور محبت اور تیری چاہت کا سزاوار ہے، اور اگر تضرع و انکساری اور آہ وفغاں کے ساتھ تیری ہی بارگاہ میں عرض کیا جائے:
”کریم لوگ فقیر اور نادار سے نہیں پوچھتے کہ کیا لائے ہو بلکہ اپنے لطف و کرم کی بنا پر اس سے سوال کرتے ہیں کہ تمھیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے“۔؟
اور یہ بھی کھاجائے: پالنے والے جیسا کہ تو نے فرمایا ہے کہ تم میری طرف ایک قدم بڑھاؤ؛ میںتمھاری طرف دس قدم بڑھاؤںگا، اے میرے مھربان مولا و آقا! میں تو اس قدر لاچار و مضطر ہوں اور ایسا زمین گیرھوں کہ تیری طرف ایک قدم بڑھانے کی بھی طاقت نہیں رکھتا، اے میرے مولا! میں غریب و نادار اور ہوائے نفس کا اسیراورشیطانی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہوں کہ میری طرف توھی ایک قدم اوربڑھادے اور ان سے نجات دیدے تاکہ تیری رحمت و مغفرت میرے شامل حال ہوجائے۔
اے اکرم الاکرمین !(اے کریموں کے کریم!) کہتے ہیں: تیرے عاشق بندے نے جناب سلمان فارسی کے کفن پر یہ اشعار لکھے:
وَ فَدْتُ عَلَی الکَریمِ بِغَیرِ زَادٍ
مِنَ الحَسَناتِ وَالقَلبِ السَّلِیمِ
وَحَملُ الزّادِ اقبَحُ کُلّ شَیءٍ
اِذَاکاَنَ الوُفُودُ عَلَی الکَرِیمِ [۵۶]
(خالی ہاتھ، اور نیکیوں سے خالی کشکول اور مریض دل کے ساتھ کریم کے یھاں مھمان ہوا ہوں،اور کریم کے یھاں مھمانی میں جاتے وقت کھانا پینا لے کر جانابہت زیادہ قبیح ہے۔)
پالنے والے! میں تو تیری بارگاہ میں خالی ہاتھ آیا ہوں اور میرے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو تیری شان کے مطابق ہو، اس محتاج فقیر کو اپنے خزانہ کرم سے اس قدر نوازدے کہ تمام گناہ بخش دئے جائیں، اور اس کے بدن پر آتش دوزخ حرام ہوجائے اور جنت الفردوس کا دروازہ کھل جائے اور سعادت دنیا و آخرت وتیری مرضی و خوشنودی حاصل ہوجائے۔
اے وہ ذات پاک! جو ہر کام کو جب چاہتی ہے اپنی حکمت و مصلحت اور عدل و انصاف اور رحمت کی بنا پر انجام دے لیتی ہے،اور جس کام کو انجام دیتی ہے کسی کو چون چرا کرنے کا حق نہیں ہے۔
اے وہ ذات! جس کا نام ہمارے درد کی دوا ہے،اس مقام پر علماء عرفان اور اہل حقیقت بزرگوں نے بہت سے اھم مطالب بیان کئے ہیں، ان میں سے بعض کا کھنا ہے: شاید اس نام سے مراد یھی الفاظ ہوں کہ جن کی برکت اور خواص بہت زیادہ ہیں، جن میں سے ایک اثر یہ ہے کہ جب دعا کرنے والا عاشق اپنے محبوب کو اس کے اسماء حسنیٰ اور دیگر ناموں سے پکارتا ہے تو اس کا محبوب اپنے بہترین نام کو دیکھ کر اپنے دوست کو جواب دیتا ہے۔
”(
وَلِلَّهِ الْاسْمَاءُ الْحُسْنَی فَادْعُوهُ بِهَا
)
۔“[۵۷]
”اور اللہ ہی کے لئے بہترین نام ہےں لہٰذا اسے انھیں کے ذریعہ پکارو“۔
جس وقت ایک محتاج بندہ اس کے سامنے دست دعا دراز کرے اس امید میں کہ رحمت خدا اس پر نازل ہوگی، دلسوز انداز میں اپنی پاک زبان سے چاھے خلوت ہو چاھے بزم، چاھے دوستوں کے درمیان ہو یا تنھائی کا عالم ہو، فریاد کرتا ہے:” یا الله“،” یا رحمن“،” یا کریم“، ”یا ربّ“، ”یا ارحم الراحمین“،تو پھر محال ہے کہ خدائے مھربان جیسا کریم خدا اس کی دعا کو مستجاب نہ کرے۔
روایت میں منقول ہے: ”اسماء اور نام الٰھی“ سے امام معصوم، ولی کامل اور جامع صفات انسان مراد ہے، جو اسماء کے معنی و مفھوم کے مکمل طور پر جلوہ گاہ ہیںکہ جب کوئی درد مند اور روحانی و باطنی بیماریوں میںمبتلا ہوجاتا ہے اس کے ذریعہ علاج ہوتا ہے۔
جی ہاں! انسانِ کامل(نبی اور امام) کے وسیلہ سے ہی انسان کو ہدایت اور سعادت کے دروازے کھل جاتے ہیں، اور شرک و کفر و نفاق اور اخلاق و عمل کی بیماری سے نجات مل جاتی ہے۔
انسانِ کامل ”اسم اعظم“ھے جو اس کائنات کی چکی میں محور کا کام کرتا ہے جیسا کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے بارے میں منقول ہے:
”وَهو الذِی بِبَقَائهِ بَقِیْتِ الدُّنیا، وَ بِیُمْنِهِ رُزِقَ الوَرَی، وَ بِوَجُوْدِهِ ثَبَتَتِ الٴَارْضُ وَ السَّمَاءُ
“۔
”دنیا ان کے وجود کی برکت سے باقی ہے اور انسانوں کی روزی انھیں کی برکت سے بندوں تک پھنچتی ہے اور زمین و آسمان اسی کی ذات بابرکت کے وجود سے باقی ہےں“۔
بھر حال عاشق، اپنے معشوق کے نام اور وجہ تسمیہ(یعنی وجہ اسم گذاری)سے آگا ہی رکھتا ہے اور اسی کے نام کے وسیلہ سے اس کی بارگاہ میں مشرف ہوتا ہے،او راپنے دردو پریشانی کا اسی کی نظر لطف سے علاج کرتا ہے، اور اس کے معشوق کا نام لینے اور اس کا نام سننے سے بہتر اس دنیا کی کوئی چیز اس کے لئے لذت بخش نہیں ہے۔
روایت میںمنقول ہے کہ جناب ابراھیم خلیل خدا کے پاس بہت ساری گوسفند تھےں ، بعض فرشتوں نے یہ گمان کیا کہ ان کی دوستی اور مال و دولت کی دوستی میں کوئی رابطہ ہے۔ خداوندعالم نے ان کو متوجہ کرنے کے لئے جناب جبرئیل امین کو ایک بلندی پر بھیجا تاکہ اس طرح خدا کو پکارے:”سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلاٰئِکَةِ وَالرُّوْحِ“۔
حضرت ابراھیم نے جیسے ہی اپنے محبوب کا نام سنا تو بے تاب ہوگئے اور زبان حال سے کھنے لگے:
این مطرب از کجاست کہ برگفت نام دوست
تا جام و جامہ بذل کنم بر پیام دوست
(یہ آواز کھاں سے آرھی ہے یہ تو میرے محبوب کو پکارا جارھا ہے، میں اپنے محبوب کے پیام پر جان قربان کردوںگا۔) آواز کے سھارے اس بلندی کی طرف دوڑے لیکن کوئی نہیں ملا، آپ نے آواز دی : اے بہترین شیرین زبان والے! اگر ایک بار اور میرے معشوق کا نام اپنی زبان پر جاری کردے تو میں اپنی آدھی بھیڑ بکریاں تجھے دیدوں، یہ سن کر جناب جبرئیل نے ایک بار اور ”سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلاٰئِکَةِ وَالرُّوْحِ“زبان پرجاری کیا، جناب خلیل شدت اشتیاق سے وجد میں آگئے، اور جب عام حالت پر پلٹے تو آواز دی : اگر ایک بار اور میرے محبوب کا نام زبان پر جاری کردے تو میں تمھیںساری بھیڑ بکریاں بخش دوں گا،جناب جبرائیل نے ایک بار اور ”سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلاٰئِکَةِ وَالرُّوْحِ“ کھا، اس بار جناب خلیل اللہ نے اپنے محبوب کا نام سنا،تو ایک فریاد بلند کی اور کھا: اب میرے پاس کچھ نہیں جس کو اپنے محبوب کے نام پر نثار کروں آ اور میرے وجود کا مالک ہوجا!!
اے میرے مولا و آقا ! اے میرے محبوب! جس کا سرمایہ امید، اور ساز و سامان گریہ و زاری ہو، اس بندہ پر رحم کر تاکہ تیری رحمت کی بدولت ہر طرح کی ناداری سے نجات مل جائے اور تیرا نام اس کے درد کی دوا بن جائے تیری یاد اس کے درد کے لئے شفابن جائے اور تیری عبادت اس کی توانگری کا باعث بن جائے۔
” یا الله“، ”یا ربّ“،”یا کریم“، ” یا حبیب“،”یاانیس“،”یا مونس“،”یا اکرم الاکرمین“،”یا ارحم الراحمین“، ”یا سابغ النعم“، ”یا دافع القنم“، ”یا نور المستوحشین فی الظلم“ ، ”یا عالماً لایعلم“،صلّ علی محمد و آل محمد“۔
پایان شرح دعائے کمیل
۲۵ شوال ، مطابق روز شھادت امام برحق مصحف ناطق حضرت امام صادق علیہ السلام
مطابق ۱۰۱۰ ۱۳۸۱ ھ ش۔