مقدمہ
الحمد للّٰه رب العالمين و الصلٰوة و السلام علي محمَّد و آله الطاهرين و صحبه المنتجبين
۔
جديدو قديم محققين و مولفين کے نزديک حقيقت تشيع اور اس کي نشو ونما بہت ہي توجہ کا حامل رہي ہے اس سلسلہ سے بہت ہي افکار و نظريات کي رد و بدل ہوئي ہے اکثر مولفين نے يہ نظريہ دياہے کہ شيعہ وہ فرقہ ہے جو کہ عقائد کي تقسيمات کے دور ميں وجود ميں آياہے اور امت مسلمہ کي جانب سے بہت ہي بسط و تفصيل کا موضوع قرار پاياہے جس کي وجہ يہ ہے کہ عقائدي اختلافات سياسي تقسيمات کے سبب وجود ميں آئے ہجرت سے ليکر تقريباً نصف صدي سے کم مدت ميں يہ کام ہوا ہے اور وہ حادثات جن کے سبب مسلمان مختلف گروہوں ميں تقسيم ہوگئے اورايک دوسرے کا خون حلال گرداننے لگے، اور ہر فرقہ يہ سمجھنے لگا کہ صرف وہي حق پر ہے اوراس کا حريف گروہ باطل پر ہے ، اسي کے سبب اسلامي فرقے اپنے نظريات کو ڈھالنے کے درپے ہوگئے اور اس کام کے لئے انھوں نے آيات قرآني اور احاديث نبوي کي غلط تاويل بھي کي، اس وقت يہ مسئلہ اور ہي خطرناک رخ اختيار کر گيا، جب ان فرقوں نے مناظرے شروع کر ديئے اور عصبيت کے سبب احاديث رسول کے سلسلہ ميں جرات و جسارت سے کام ليا، اور حديثوں کو گڑھنا اور بے جا و غير مناسب جگہ منسوب کرنا شروع کرديا جس کو وہ اپني نظر ميں بہتر سمجھتے تھے، اوردوسرے فرقہ کي مذمت ميں جعلي حديثوں کا دھندا شروع کرديا،ان جعلي اور جھوٹي حديثوں ميں ايسي حديثيں بھي وجود ميں آئيں:
”سيکون في امتي قوم لهم نبز يقال لهم الروافض اقتلوهم فانهم مشرکون
“
(عنقريب ميري امت ميں ايک گروہ پيدا ہوگا جن کي عادت دوسروں کو برے نام سے ياد کرنا ہوگي جن کو رافضي کہا جائے گا، ان کو قتل کر دينا کيونکہ وہ مشرکين ہيں)
جبکہ فرقوں کے سلسلوں ميں کتابيں لکھنے والوں کے نزديک يہ رائج ہے کہ جناب زيد بن علي بن الحسين نے رافضي کا نام، ان افراد کو ديا جنھوں نے آپ کے قيام ميں آپ کا ساتھ چھوڑ ديا تھا يہ لفظ اور اس کے علاوہ ديگر الفاظ، اہل سنت مخالف فرقوں کے لئے استعمال کئے گئے، جبکہ حيات رسول ميں بالکل نہيں پائے جاتے تھے ۔
احاديث متواتر ميں ايک وہ حديث جو فرقوں کي تہتر قسموں پر تقسيم کے سلسلہ ميں ہے کہ ايک نجات يافتہ ہے بقيہ سب جہنمي، اس کو سب نے نقل کيا ہے اور ہر فرقہ نے اس بات کي کوشش کي ہے کہ وہ يہ ثابت کرلے جائے، کہ اس کامياب فرقہ سے مراد ہم ہيں اور ہمارے علاوہ سب جہنمي ہيں۔
اس وقت تو اور مٹي خراب ہوگئي، جب شب و روز کي گردش کے ساتھ يہ عقائد سرايت کرنے لگے اور يہ جعلي حديثيں، حديثي مجموعوں ميں شامل ہوگئيں اور لوگ يہ سمجھنے لگے کہ يہ کلام نبي ہے جب کہ يہ اسماء و اصطلاحيں حيات رسول اور ان کي وفات کے بعد کچھ دن تک بالکل رائج نہيں تھيں اور لوگوں کے درميان اس وقت پھيلنا شروع ہوئيں، جب کلامي ”معرکہ“ شعلہ ور ہونے لگے اور يہ اس وقت وجود ميں آئے، جب اجنبي ثقافت والے مسلمان ہونے لگے يا مسلمان ان ثقافتوں سے متاثر ہونے لگے، جن کا عربي زبان ميں ترجمہ ہوا، ہر مکتب فکرنے اپنے عقيدہ کے لئے الگ فلسفہ بگھارنا شروع کرديا اور ان اصطلاحوں کي خول پہن لي جن کو يوناني، ايراني، ہندستاني، فلسفيوں نے ايجاد کيا تھا۔
جب تدوين و ترتيب کا سورج نصف النہار پر چمک رہا تھا اور اسلامي مفکرين مختلف علوم و فنون ميں دسترسي حاصل کر رہے تھے، اس وقت مختلف مکاتب فکر کے افراد نے خلافت و امامت اور اسلوب خلافت کے سلسلہ ميں مناظرہ کرنا شروع کيا مصيبت اس وقت آئي جب اديان و مذاہب پر کتابيں لکھي جانے لگيں، کيونکہ اس ميدان ميں قلم فرسائي کرنے والے شہرستاني و بغدادي جيسے بيشتر افراد کا تعلق ان اہل سنت سے تھا جو امت اسلاميہ کي اکثريت کے نظريہ کو مجسم کرتے تھے۔
يہ ساري تاليفات کا مرکز ايک معين نقطہ تھا اوران کي کوشش يہ تھي کہ اسلامي فرقوں کو تہتر فرقوں ميں تقسيم کرنا ہے اس کے بعد بہتّر ( ۷۲) کو گمراہ ثابت کر کے ايک فرقہ کو نجات يافتہ بنانا ہے اور وہ فرقہ اہلسنت و الجماعت کا ہے، اور ديگر فرقے جن ميں سے ايک شيعہ بھي ہے ايک بدعتي اور راہ حق سے گمراہ فرقہ ہے، اسي کے سبب اس فرقہ کے وجود و عقائد کے سلسلہ ميں نظرياتي اختلاف ہوئے، کبھي يہ کہا گيا کہ يہ فرقہ عبد اللہ بن سبا کي تخليق ہے اور اس کے عقائد کي بنياد يہودي ہے اور کبھي اس کا ڈھونگ يہ رچايا گيا کہ يہ فرقہ ايرانيوں کے مرہون منت ہے اور اس کے افکار و عقائد مجوسيوں سے متاثر ہيں، دوسرے مقامات پر يوں بدنام کيا گيا کہ اہل بيت پر ازحد مظالم، جيسے کربلا ميں حضرت امام حسين اور ان سے قبل حضرت امير کي شہادت، کے رد عمل کے طور پر يہ فرقہ وجود ميں آيا۔
اس طرح اس فرقہ کي نشو و نما کي تاريخ کے سلسلہ ميں اقوال بے شمار ہوگئے ، بعض نے يوں غم غلط کيا کہ اس کا وجود سقيفہ کے حادثہ کے بعد ہوا ہے، بعض نے يوں دل کا بوجھ ہلکا کيا کہ حضرت عثمان کے دور خلافت ميں فتنوں کے بعد رونما ہوا ہے، بعض نے يوں آنسو پونچھے کہ جمل يا صفين يا شہادت امام حسين کے بعد معرض وجود ميں آيا۔
ظہور تشيع کے سلسلہ ميں اس تشنہ نظريہ کي وجہ يہ ہے کہ وہ اسلام کي طرح شيعيت کے عقائد کي بالکل معرفت نہيں رکھتے، يہ امت مسلمہ کي سونچ اور باطل عقيدہ کے مطابق عام امتوں کي طرح ايک دم وجود ميں نہيں آئي ہے، بلکہ يہ اسلام کے عقائد کا مکمل اور حقيقي مظہر ہے اس کي بنياد رسول اکرم نے رکھي ہے اور روز بروز اہلبيت کرام کے زير سايہ پروان چڑھي ہے۔
اہلبيت نے اس کے رموز واسرار بيان کئے ہيں اور شبہات کا جواب ديا ہے اور سفاک مزاج افراد کے مد مقابل رہے ہيں اہل بيت کي کسر شان کرنے کے مقاصد ميں ايک اور اصل مقصد يہ تھا کہ اسلام کا نام و نشان مٹ جائے ،اسي لئے بعض افراد نے خلط ملط کيا۔
چنانچہ انھوں نے شيعوں ميں سرايت کرنے والے ان افراد کے عقائد کو شيعوں کي طرف يہ کہہ کر منسوب کرديا کہ يہ شيعي فکر اور عقيدہ کا مظہر ہيں،جو اسلام کي بربادي چاہتے ہيں اور اسلام ميں آمريت کے قائل ہيں۔
وہ تو يہاں تک کہہ بيٹھے کہ شيعيت ان تمام تخريبي افکار کي پناہ گاہ بن چکي ہے جن کا مقصد عربيت اور اسلام کا خاتمہ کرنا ہے۔
متقدمين اسي نظريہ پر چلے اور آنے والے افراد نے ان کي اتباع کي۔
واقعي افسوس کا مقام ہے کہ اس عصر کے محققين نے شيعہ و تشيع پر لعن طعن صرف گذشتہ افراد کے اقوال پر بھروسہ کے سبب کرنا شروع کرديا اور انھوں نے اتني زحمت برداشت کرنا گوارہ نہ کي، کہ ہر فرقہ کے عقائد و نظريات کو بخوبي درک و تحقيق کريں، خاص طور سے اس جديد ترقياتي دور نے ہر طرح کي تحقيق کا موقع فراہم کرديا ہے اور تمام طالبان حقيقت کے لئے علمي بحث کے وسائل فراہم کرديئے ہيں۔
حقيقت کو درک کرنے کے لئے ايک محقق کے لئے ضروري ہے کہ وہ تعصب سے کام نہ لے اور اگر يہ شرط ختم ہوگئي تو پھر اس کي تحريروں سے حقيقت کے ظاہر ہونے کي اميد نہيں کي جاسکتي ہے۔
اس زمانہ ميں ايسے محققين کا فقدان نہيں ہے خاص طور سے بعض شرق شناس (مستشرقين) ہيں جنھوں نے حق کے سوا کسي چيز کو نہيں تلاش کيا اور حق و حقيقت کے چہرے سے پردہ اٹھايا، جيسا کہ شيعہ مولفين و محققين نے اس حوالہ سے کتابيں تصنيف کيں اور راہ حق ميں تحقيق کي تاکہ اس راہ ميں جو بھي حق کو تلاش کرنا چاہے اس کے لئے آساني ہو۔
ہماري ان بحثوں کے ضمن ميں ايک ناچيز کوشش يہ بھي ہے اللہ سے اميد کرتے ہيں کہ اس سے مکمل طور پر ہر وہ شخص استفادہ کرے جو انتفاع کا ارادہ رکھتا ہے يا کچھ حق سننا چاہتا ہے، خدا اس پر گواہ ہے اور خدا سب کي نيتوں سے بخوبي واقف ہے۔