پانچویں فصل
حقیقت تشیع
اسلامی فرقوں میں شیعہ کی مانند کسی فرقہ کو طعن و تشنیع کا مرکز نہیں بنایا گیا اور اس کے کچھ اسباب تھے جن میں سے ایک سبب یہ تھا کہ روز و شب کی گردش کے ساتھ ہمیشہ ان انحرافی نظریات کے مد مقابل رہا تھا جن کی بنیاد عالم اسلام پر قابض حکومتوں نے رکھی تھی اور ان حکومتوں نے اپنے تئیں اپنے تمام تر وسائل کو اس فرقہ کے خلاف استعمال کیا اور ان کو مسلمانوں کے سامنے اس طرح پیش کرنے کی انتھک کوشش کی کہ یہ فرقہ حق سے منحرف ہے، اور اس کو مبتدعہ (بدعتی فرقہ) کے نام سے مشہور کیا گیا۔
دوسری طرف شیعہ حضرات کا اہل بیت کی جانب جھکاو اور دوسروں کے بجائے ان کی تعلیم سے کسب ہدایت تھی، اور اہل بیت نبوی کی محبت و احترام میں تنہا تھے اور اسلامی معاشرہ اس میں شریک نہیں تھا۔
یہ حکومتیں اس بات سے خائف تھیں کہ اہل بیت کی تعلیم مسلمانوں کے درمیان رشد نہ کریں جو کہ اکثر ان انحرافی تعلیمات کی بھینٹ چڑھ گئیں جن کو ظالم حکومت نے رائج کیا تھا اور وہ جعلی حدیثیں جن کو رسول اکرم کی جانب منسوب کیا تھا ان ظالم حکومتوں کی کوشش ا س بات کے اظہار پر تھی کہ یہ اسلامی تعلیمات ہیں جن کو اسلامی حکومت نے مرتب کیا ہے، لہٰذا یہ اس بات کا لازمہ بنا کہ وہ شیعوں کے مد مقابل کھڑے ہوں اور شیعوں کو مسلمانون کے درمیان ان کی انقلابی فکروں کی تعلیم سے روکیں۔
لہٰذا اس حکومت کے پاس اس فرقہ کے لئے اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اپنے وسائل کو استعمال کرے جو ان کی باتوں کو روک سکے اور لوگوں کو اس بات سے نفرت دلائے کہ ان کے باطل عقائد اسلام حقیقی تک نہیں پہنچ سکتے یا اس کو اسلامی اور عربی معاشرہ میں ایک اجنبی فرقہ کے نام سے مشہور کرے ہم ان کے مختلف نظریات کو پیش کریں گے جو کہ اصل تشیع کے سلسلہ میں ہے ان کا اصل مقصد صرف اتنا تھا کہ حقائق کو مخدوش کردیں اور حقیقی چہرہ پر پردہ ڈال دیں تاکہ لوگ اس تک پہنچ نہ سکیں۔
اصول کا یہودی شبہ
شیعیت پر خطرناک تہمتوںمیں سے ایک یہ ہے کہ ان کی اصل و اساس یہودیت سے منشعب ہوتی ہے اور اس کی جڑ عبد اللہ بن سبا، یہودی کی ہے، جس نے آخری دنوں میں اسلام کا تظاہر (دکھاوا) کیا تھا اور اس کا نظریہ اس کے شہر سے نکل کر حجاز، شام، عراق، مصر، تک پہنچا اور اس کے باطل عقائد مسلمانوں کے درمیان سرایت کر گئے جس کا ایک عقیدہ یہ تھا کہ علی نبی کے وصی تھے۔
فریدی وجدی کہتا ہے کہ: ابن سوداء (عبد اللہ بن سبا) درحقیقت یہودی تھا اس نے اسلام کا تظاہر کیا اور اس بات کا خواہاں تھا کہ اہل کوفہ کا محبوب و سردار رہے، لہٰذا اس نے ان لوگوں کے درمیان یہ بات کہی کہ اس نے توریت میں دیکھا ہے کہ ہر نبی کا ایک وصی رہا ہے اور محمد کے وصی علی ہیں۔
یہ روایت درحقیقت طبری کی ہے
اور سیف بن عمر کے ذریعہ نقل ہوئی ہے، جس کی عدالت محدثین کی نظر میں شدت کے ساتھ ناقابل قبول ہے۔
طبری کے بعد آنے والے مورخین نے اس کو نقل کیا اور یہ روایت شہرت پاگئی اور جدید و قدیم فرقوں کے مولفین نے اس پر اندھادندھ بھروسہ کیا اور دقت و تفحص سے بالکل کام نہیں لیا۔
ابن حجر نے اس روایت کے بارے میں کہا ہے کہ: اس کی سند صحیح نہیں ہے۔
مولفین حضرات نے اس جانب بالکل توجہ نہیں کی اور صدیوں کے ساتھ اس کے سایہ تلے چلتے رہے۔
ابن تیمیہ کہتے ہیں: جب دشمنان اسلام اس دنیا کی قوت، نفاذ حکومت اور سرعت رفتار سے مبہوت ہوگئے تو حیران و سرگردان صورت میں کھڑے ہوگئے اس وقت ان کے پاس تلوار کے ذریعہ ابوحاتم نے اس کو متروک الحدیث کہا ہے اور اس کی حدیثوں کو واقدی کی حدیثوں سے تشبیہ دی ہے۔
ابوداو د نے کہا کہ: یہ حقیقت نہیں رکھتی، نسائی اور دار قطنی نے اس کو ضعیف کہا ہے۔
ابن عدی نے کہا کہ: اس کی بعض حدیثیں مشہور ہیں اور عام طور وہ ناقابل قبول ہیں اور ان کی کوئی پیروی نہیں کرتا۔
ابن جبان نے کہا کہ: یہ بات ثابت ہے کہ وہ جعلی حدیثیں بیان کرتا تھا اور کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ وہ حدیث گڑھتا تھا۔
ابن حجر نے ابن جبان کے بقیہ کلام کو یوں نقل کیا ہے کہ: ”اس پر ملحد ہونے کا الزام لگایا گیا“
برقانی نے دار قطنی کے حوالہ سے کہا ہے: کہ وہ متروک ہے۔
حاکم نے کہا کہ: اس پر ملحد ہونے کا الزام تھا، راوی کے اعتبار سے وہ ساقط الاعتبار ہے، تہذیب التہذیب، ج ۴ ، ص ۱۶۰ ۔ ۲۵۹
اس کا مقابلہ کرنے کی قوت نہیں تھی لہٰذا انھوں نے دوسرا حیلہ حربہ اور مکر کا استعمال کیا اور وہ تھا اسلام میں نفاق کا نفوذ و دخول، اور اندر سے اسلام کی بیخ کنی اور فتنہ کے ذریعہ اسلامی وحدت میں پھوٹ ڈالنا۔
جس نے اس بات کی فکر و تدبیر اپنائی پھر اس کو لوگوں کے سامنے پیش کیا وہ عبد اللہ بن سبا اور کے پیروکار تھے۔
ان دو اہم صورتوں کی جانب توجہ ضروری ہے جو عبد اللہ بن سبا کی شخصیت کو واضح کرتی ہیں:
۱ ۔ دائرہ اسلام میں برپا ہونے والے فتنوں کو اس کی جانب نسبت دینا۔
۲ ۔ خلیفہ سوم عثمان بن عفان کے دور حکومت میں پیدا ہونے والی مشکلات کو اس کے سر مڈھنا جس کی اصل و اساس طبری کی روایت ہے جو ابھی ابھی ذکر ہوئی ہے اور ابن سبا کو خیالی کردار عطا کرتی ہے اور نیک صحابہ کی ایک بڑی تعداد کو اسلام کا لبادہ اوڑھے اس یہودی کا تابع قرار دیتی ہے جبکہ دوسرا رخ یہ فرض کرتا ہے کہ عبد اللہ بن سبا، خیالی شخص ہے کیونکہ طبری کی اس سے نقل کردہ یہ روایت ضعیف ہے۔
بعض تاریخوں نے اس کے وجود کا اعتراف کیا ہے لیکن اس شخصیت کی طرف نسبت دیئے جانے والے عظیم کردار کا انکار کیا ہے، کیونکہ منابع میں موجود روایات اس بات کی تاکید کرتی ہیں کہ اس شخص کا وجود حضرت امیر کے دور خلافت میں ہوا اوراس نے آپ کی شان میں اس حد تک غلو کیا کہ آپ کو خدا جانا، اور اس انحرافی عقیدہ میں اس کے کچھ پیروکار بھی مل گئے لیکن اس کی یہ تحریک اس درجہ اہمیت کی حامل نہ تھی جس طرح بعض مورخین و محققین نے ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے پیش کیا۔
اگر عبد اللہ بن سبا اتنی اہمیت کا حامل ہوتا تواہل سنت کی احادیث کی کتابیں خاص طور سے صحاح اس بات کی جانب ضرور اشارہ کرتیں جبکہ یہ کتابیں اس کے تذکرے سے خالی ہیں۔
( ۱) بعض مستشرقین و سیرت نگاروں نے اس بات کو بھانپ لیا کہ ابن سبا کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے کچھ سیاسی مقاصد تھے تاکہ شیعوں سے بدلہ لیا جاسکے۔
فلہوزن کہتا ہے کہ: سبئیہ کا لقب صرف شیعوں کے لئے بولا جاتا تھا، لیکن اس کا دقیق استعمال صرف شیعہ غلاة کے لئے صحیح ہے، جبکہ ذم (مذمت) کا لفظ شیعہ کے تمام گروہ پر برابر سے صادق آتا ہے۔
ڈاکٹر محمد عمارہ کہتے ہیں: کہ جو ہمارے موضوع، یعنی تشیع کی نشو و نما کی تاریخ سے مربوط ہے (اس سلسلہ سے عرض ہے) کہ عبد اللہ بن سبا کا وجود (اگر اس نام کا شخص تھا) تو اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ شیعیت اس کے دور میں وجود میں آئی
اور شیعوں نے اس سے اس طرح کی کوئی چیز نقل نہیں کی ہے، لہٰذا یہ بات کہنا بالکل درست نہیں کہ شیعوں کے معروف فرقہ کی نشو و نما اس کے زمانے میں ہوئی۔
مشکل یہ ہے کہ ابن سبا کا قضیہ جمہوری عقائد میں ٹکڑوں میں بٹ گیا اور جس کے وجود کے سبب سیاست متاثر ہوئی۔
حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ سعودی رسالوں کے صفحات پر بڑی گھمسان نظریاتی جنگ ہوئی ہے، جیسے صحیفہ ریاض وغیرہ اساتذہ اور سیرت نگاروں کے بارے میں خیالی ابن سبا کے موضوع پر بڑی رد و قدح ہوئی ہے، ایک طرف اس بیچ ہونے والی بحثوں کا مقصد غیر منصف سیرت نگاروں کا شیعی عقائد کو اس کی طرف منسوب کرنا تھا تو دوسری جانب بعض انصاف پسند سیرت نگاروں نے ابن سبا کے مسئلہ کو جمہوری عقائد کا جزء تسلیم کیا ہے۔
ڈاکٹر حسن بن فہد ہویمل کہتے ہیں: کہ ابن سبا کے سلسلہ میں تین نظریات ہیں:
سطح اول:
اسلام کے سادہ لوح مورخین کے نزدیک اس کا وجود ہے اور اس کا زمانہ فتنہ و فساد کا عروج تھا۔
مستشرقین اور متاخر شیعہ اس کے وجود کے منکر ہیں اور اس کے کردار کے منکر ہیں، میں نے جو متاخر شیعہ کہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس مطلب کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ متقدم شیعوں نے ابن سبا کے وجود کا انکار نہیں کیا، ہر چند کہ اس کے بعض کردار کے مخالف ہیں۔
سطح دوم:
وہ ہے کہ عبد اللہ بن سبا کے وجود کا اثبات اور فتنہ انگیزی میں اس کے کردار کو کم گرداننا، اس بابت میں بھی اس کی طرف رجحان رکھتا ہوں۔
ڈاکٹر ہلابی اور ان کے بعد حسن مالکی اس شخصیت کے سختی سے منکرین افراد میں شمار ہوتے ہیں اور ان دونوں کی تحریروں پر جہاں تک میری نظر ہے اور اس کی من گڑھت شخصیت کے بارے میں میرا نظریہ جو قائم ہوا ہے وہ ان دونوں کے خلاف ہے اور میں اس کی تائید نہیں کرتا۔
کیونکہ اس کے شخصیت کی بیخ کنی درحقیقت بہت ساری چیزوں کی بنیادوں کو ختم کرنا اور مٹانا ہے جو بزرگ علماء کے آثار میں موجود ہے، جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن حجر، ذہبی اور ان دونوں کے علاوہ دیگر علماء اسلام۔
اس لئے کہ عبد اللہ ابن سبا، یا ابن سوداء نے ایک عقیدتی مذہب کی بنیاد رکھی ہے اور اگر قبول کیا جائے تو دیگر مواقف بھی معرض وجود میں آتے ہیں لیکن ہم ایسے زلزلہ سے دوچار ہیں جو بہت ساری عمارتوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
یہاں سے عبد اللہ بن سبا کا وجود اور اس کا افسانوی کردار بعض کے نزدیک عقائدی وجود کا حامل ہے۔
ابن سبا کے وجود کی بناء پر اس عظیم میراث کی قداست محفوظ ہو جاتی ہے چاہے ابن سبا کا وجود رہا ہو یا نہ۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ابن سبا کا مسئلہ در اصل شیعہ مخالف افراد کے پاس ایک ہتھکنڈہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جس کے ذریعہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اپنے عقائد اس ابن سبا کی طرف منسوب کردیں۔
اہل فارس کا شبہ
یہ بات واضح و روشن ہے کہ بنی امیہ کی حکومت خالص عربی تھی جس کی سیاست یہ تھی کہ نو مسلم افراد کو دور سرحدوں کی جانب شہر بدر کردیں اور عربوں کو ان نو مسلموں پر ہر چیز میں برتری دیں، اپنے دشمنوں پر عجم ہونے کا الزام لگاتی تھی وہ بھی نفسیاتی جنگ کا ایک ایسا حربہ تھا جس کو اس حکومت نے اختیار کر رکھا تھا اور یہ ایک صدی تک استعمال کیا جاتا رہا جس کی وجہ سے عام لوگوں کے ذہنوں میں نومسلموں عجم اور فاقد استعداد ہونے کی فکر راسخ ہوگئی۔
شیعہ موجودہ حکومت کے اہم حزب مخالف تھے اوران کے عقائد کے پھیلنے کے سبب اموی حکومت خطرہ میں پڑ رہی تھی، کیونکہ اس حکومت کے ذرائع ابلاغ نے ابن سبا کے ذریعہ شیعوں کی جانب یہودی عقائد منسوب کرنے کے الزام پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ انھوں نے یہ بات پھیلانے کی کوشش کی کہ درحقیقت شیعی عقائد ملک فارس کو فتح کرنے کے بعد ان کے عقائد شیعوں میں سرایت کر گئے ہیں۔
بعض معاصر مباحثین نے اس بات پر بہت زور آزمائی کی ہے بلکہ بسا اوقات حد سے بڑھ گئے اور یہودی و ایرانی عقائد کے درمیان جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔
احمد عطیة اللہ کہتے ہیں: سبیئہ کی تعلیمات شیعی عقائد سے منسوب ہوتے ہیں جن کی اصل یہودیت ہے اور یہ فارس سے متاثر ہیں اس فرقہ کا سرغنہ یمنی الاصل یہودی ہے، جبکہ ایرانیوں نے جزیرة العرب کے کچھ حصہ پر قبضہ کر رکھا تھا اس وقت کچھ ایرانی عقائد ان کے درمیان رائج ہوئے اس وجہ سے سبیئہ فرقہ کو ایران کے ہمسایہ عراق میں کچھ بہی خواہ مل گئے۔
دوسری جگہ کہتا ہے: (الحق الالٰہی) یہ نظریہ ایران سے سبیئہ کی جانب بطور خاص اور شیعہ میں بطور عموم سرایت کر گیا، وہ یہ ہے کہ نبی کے بعد حضرت علی ان کے وصی و خلیفہ ہیں اور حضرت علی نے امامت کے مسئلہ میں خدا کی مدد طلب کی اور یہ حق علی سے منتقل ہوکر اہل بیت تک بطور میراث پہنچا ہے۔
اس محقق نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اہل بیت کی میراثی امامت اور فارس کی وہ افکار جو لوگوں میں سرایت کر گئیں ہیں ان کے بیچ ایک ربط دے، اس لئے کہ یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ایرانی میراثی حکومت کے قائل تھے اور اسی نظریہ کی تائید بے شمار محققین اور بعض شرق شناسوں نے کی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اگر اس نظریہ پر غور و فکر کیا جائے تو ہم یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ اس نظریہ پر اموی حکمرانوں نے عمل کیا ہے، اس لئے کہ انھوں نے اس بات کی کوشش کی کہ یہ خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو جائے جس کو اولاد باپ داداو ں سے میراث میں پائے اوراموی حکومت تو خالص عربی حکومت تھی جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں۔
لہٰذا ان کا فارس کی تقلید کرنا بالکل ناممکن تھا اس بنا پر اس نظریہ کو شیعوں کی جانب زبردستی منسوب کرنا اور بھی نامعقول ہے، بلکہ محال ہے کیونکہ تشیع خالص عربی ہے جس کو ہم عنقریب ثابت کریں گے بعض محققین نے اس نظریہ کو تقویت دینے کی کوشش کی ہے کہ شروع کے اکثر شیعہ ایرانی تھے۔
شیخ محمد ابو زہرة کہتے ہیں: حق یہ ہے کہ جس کا ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ شیعہ ملوکیت اور اس کی وراثت کے سلسلہ میں ایرانیوں سے متاثر ہیں ان کے مذہب ایرانی ملوکیتی نظام کے درمیان مشابہت بالکل واضح ہے اور اس بات پر گواہ یہ ہے کہ اس وقت اکثر ایرانی شیعہ ہیں اور شروع کے سارے شیعہ ایران کے رہنے والے تھے۔
یہ بات کہ اس وقت اکثر اہل ایران شیعہ ہیں تو یہ صحیح ہے لیکن ابوزہرہ شاید یہ بات بھول گئے کہ بیشتر ایرانی آخری دور خاص طور سے صفوی حکومت کے دروان دائرہ تشیع میں داخل ہوئے ہیں۔
اور یہ بات کہ شروعات کے سارے شیعہ ایرانی تھے تو یہ بالکل غلط ہے اس لئے کہ یہ بات تاریخ کے مطالعہ سے بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اس وقت کے بیشتر شیعہ خالص عرب تھے اور اس بات کو متقدمین مولفین نے قبول و ثابت کیا ہے، یہ اور بات ہے کہ ایران کے بعض علاقہ شیعہ نشین تھے اوران کی سکونت کی شروعات شہر قم سے ہوئی، جبکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ سارے شیعہ (جو کہ قم میں سکونت پذیر تھے) سب عرب تھے ان میں سے کوئی ایرانی نہیں تھا۔
یاقوت حموی شہر (قم) کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اسلامی نوآبادیاتی شہر ہے اس میں پہلے سے عجم کا نام و نشان تک نہیں تھا، جس نے سب سے پھلے اس علاقہ کا رخ کیا وہ طلحہ بن احوص اشعری تھا اس کے اہل خاندان سب شیعہ تھے،حجاج بن یوسف کے زمانے ۸۳ ھء میں اس کو بسایا تھا
جب ابن اشعث نے شکست کھائی اور شکست خوردہ حالت میں کابل کی طرف پلٹا تو یہ ان بھائیوں کے ہمراہ تھا جن کو عبد اللہ، احوص، عبد الرحمن، اسحاق، نعیم کہا جاتا تھا یہ سب سعد بن مالک بن عامر اشعری کی اولاد تھے ان بھائیوں میں نمایاں عبد اللہ بن سعد تھا اس کا ایک بیٹا تھا جو کہ کوفہ میں تھا اور قدری عقائد کا مالک تھا وہاں سے قم کی جانب ہجرت کر گیا یہ شیعہ تھا، اسی نے تشیع کو اہل قم تک
پہنچایا لہٰذا قم میں کبھی کوئی بھی سنی موجود نہیں رہا ہے۔
جیسا کہ حموی نے ثابت کیا کہ شہر”ری“ میں شیعیت نہیں تھی یہ معتمد عباسی کے زمانے میں آئی ہے، وہ کہتا ہے کہ:اہل ری سب اہل سنت والجماعت تھے یہاں تک کہ احمد بن حسن مادراتی نے ری کو فتح کیا اور وہاں تشیع کو پھیلایا۔
اہل ری کا اکرام کیا اوراپنے سے قریب کیا، جب تشیع کے سلسلہ میں کتابیں لکھ دی گئیں تو لوگ اس حاکم کی طرف مائل ہوگئے۔
عبد الرحمن بن الحاتم وغیرہ نے اہل بیت کے فضائل میں کتابیں تصنیف کی اور یہ حادثہ معتمد عباسی کے زمانے میں ہوا اور مادراتی نے شہر ری پر ۲۷۵ ھ ء میں قبضہ کیا۔
مقدسی اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ اکثر ایرانی حنفی و شافعی مذہب کے پیرو تھے، مقدسی نے ایرانیوں کے درمیان تشیع کی وجود کی طرف بالکل اشارہ نہیں کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں: کہ میں نے مسلمانوں کی اکثریت صرف ان چار مذاہب کے پیروو ں میں دیکھی۔
مشرق میں اصحاب حنیفہ، مغرب میں اصحاب مالک، شوش و نیشاپور (ایران کے شہر) کے مراکز میں اصحاب شافعی، شام میں اصحاب حدیث، بقیہ علاقہ خلط ملط ہیں بغداد میں شیعیت و حنبلی کی اکثریت ہے، کوفہ میں کناسہ کے سوا کیونکہ وہاں سنی ہیں بقیہ سب شیعہ، موصل میں حنبلی اور کچھ شیعہ۔
ابن فقیہ نے ایک اہم نص کے ذریعہ محمد بن علی کی زبانی جو کہ اموی حکام کے خلاف عباسی انقلاب کا قائد و سربراہ تھا ہمارے لئے ایک اہم اقتباس نقل کیا ہے وہ اپنے گورنروں کو ہدیاات دیتے ہوئے اور ان کے محل حکومت کی تعیین کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کوفہ کی اکثریت علی اوراولاد علی کے شیعوں کا مرکز ہے، بصرہ کی اکثریت عثمانیوں کا گڑھ ہے جو نماز میں ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں، وہ تم سے کہیں گے کہ عبد اللہ مقتول بنو قاتل نہیں۔
جزیرہ عرب میں حروریہ اور جنگجو عرب ہیں اور اخلاق نصاریٰ کی صورت مسلمان ہیں، اہل شام صرف آل ابوسفیان کو جانتے ہیں اور بنی مروان کی اطاعت کرتے ہیں ان کی دشمنی پکی ہے اور جہالت اپنے گھیرے میں لئے ہے، مکہ و مدینہ میں ابوبکر و عمر کا سکہ چلتا ہے لیکن تمہاری ذمہ داری خراسان کے حوالے سے زیادہ ہے، وہاں کی تعداد زیادہ اور سخت جان ہیں ان کے سینے مضبوط اوردل قوی ہیں ان کو خواہشات تقسیم نہیں کرسکتی، عطا و بخشش ان کو ٹکڑوں میں بانٹ نہیں سکتی، وہ ایک مسلم فوج ہے وہ قوی جسموں کے مالک ہیں، وہ بھرے شانہ، دراز گردن، بلند ہمت، داڑھی مونچھوں والے، بھیانک آواز والے اور چوڑے دہانے کے شیرین زبان ہیں اس کے بعد میں چراغ کائنات اور مصباح خلق یعنی شرق کے بارے میں نیک فال سمجھتا ہوں۔
معاصر محققین و مستشرقین کی ایک بڑی تعداد نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے، چنانچہ ڈاکٹر عبد اللہ فیاض کہتے ہیں کہ عرب خصوصاً کوفہ میں تشیع کے ظہور کی تائید کرنے والی اہم تاریخی دلیلیں یہ ہیں:
۱ ۔ علی کے وہ انصار جنھوں نے ان کی مدد جنگ میں ان کے دشمنوں کے مقابلہ کی ان کی اکثریت حجاز و عراق کے لوگوں کی تھی، علی کے اہم عہددار یا سردار لشکر میں سے کسی ایک کے نام کی اطلاع ہم کو نہ ہوسکی جو ایرانی الاصل ہو۔
۲ ۔ ۶۰ ھء میں جن لوگوں نے کوفہ سے امام حسین کو خطوط لکھے تھے جیسا کہ ابو مخنف نے اپنی کتاب میں ان کے اسماء کا ذکر کیا ہے اس سے تو لگتا ہے وہ سب عربی قبائل کے سردار تھے جو کوفہ میں بسے ہوئے تھے۔
۳ ۔ سلیمان بن صرد خزاعی اور ان کے اصحاب جو توابین کی تحریک میں شامل تھے یہ سب کے سب عرب کے معروف قبیلوں میں سے تھے۔
فلھوزن نامی مستشرق نے اسی آخری نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔
نخلیہ میں جو چار ہزار توابین جمع ہوئے تھے ان میں عرب قبائل کے افراد شامل تھے ان میں اکثریت قاریان قرآن کی تھی اوران میں سے کوئی ایک بھی غیر عرب نہ تھا۔
ایرانیوں کے نفسانی رجحانات تشیع کی جانب مائل ہونے کے سلسلہ میں فلھوزن ہی کہتا ہے : یہ کہنا کہ شیعیت کے آراء ایرانیوں کے آراء سے موافق تھے تو یہ موافقت شیعوں کے ایرانی ہونے کی دلیل نہیں بلکہ تاریخی حقائق اس کے برعکس ہیں کہ تشیع شروع ہی سے دائرہ عرب میں تھی اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس کے بعد حدود عرب سے باہر آئی ہے۔
عبد اللہ فیاض، سنیون سے نقل کرتے ہیں کہ: ہمدان ایک عظیم اور صاحب شان و شوکت قبیلہ تھا جو تشیع کا حامی تھا۔
دوسری وجہ جس کو محققین، تشیع کے ایرانی ہونے کی دلیل پیش کرتے ہیں وہ حضرت امام حسین کا ایک ایرانی خاتون سے شادی کرنا۔
ڈاکٹر مصطفی شکعہ کہتے ہیں کہ: تشیع ابتداء میں سیاسی مذہب تھا نہ کی دینی عقیدہ ان کی دلیل یہ ہے کہ آج تک تمام ایرانی محبت آل علی پر اجماع کئے ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ایرانی اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ حسین کے برادر نسبتی ہیں اس لئے کہ انھوں نے شہر بانوں بنت یزدجرد سے شادی کی تھی، جب وہ مسلمانون کے ہاتھوں اسیر ہوکر آئیں تھیں، آپ کے بطن مبارک سے علی بن الحسین پیدا ہوئے، اس لحاظ سے ایرانی سب علی بن حسین کے ماموں ٹھہرے، اس طرح سے ان کی بیٹی کے بیٹے اور تشیع کے درمیان گہرا ربط پیدا ہوگیا، لہٰذا ان کا شیعہ مذہب اختیار کرنا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ ان لوگوں نے خالص شیعیت اختیار کی تھی، بلکہ ان کا تشیع قبول کرنا عصبیت کی بناء پر تھا عقیدتی تشیع نہیں تھا، اور تعصبی تشیع، سیاسی تشیع کے مساوی ہے، لہٰذا فکر تشیع ایران کی جانب سے کم از کم خالص سیاسی تشیع ہے، بلکہ بعض ایرانیوں نے علی بن الحسین زین العابدین کی مدد کا اعلان کیا جب انھوں نے دیکھا کہ ایران، امام حسین کے گھرانے سے نسبی اعتبار سے مربوط ہیں۔
ڈاکٹر شکعہ کی باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تمام شیعہ صرف ایرانی نہیں تھے کہ شکعہ کی اس تحلیل کو قبول کیا جاسکے کہ اگر ایرانیوں نے تشیع صرف ”ماموں“ کے رشتے کے سبب قبول کیا اس لئے کہ ان کے اور علی بن الحسین کے بیچ ایک رشتہ تھا، تو دیگر غیر ایرانی شیعہ حضرات کے بارے میں کیا کہیں گے خصوصاً ان عربوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو ایرانیوں کے شیعہ ہونے سے پہلے شیعہ کہلاتے تھے؟
دوسری بات یہ کہ اگر حضرت امام حسین کی جناب شہربانوں سے شادی ایرانیوں کے شیعوں ہونے کا سبب تھی تو صرف امام حسین ہی نے ایرانی شہزادی سے شادی نہیں کی تھی بلکہ وہاں پر دوسرے ایسے افراد بھی تھے جنھوں نے ایرانی شہزادیوں سے شادی کی تھی جو کہ مدینہ اسیر ہوکر آئیں تھیں۔
عبد اللہ بن عمر نے سلافہ (شہر بانو) کی بہن سے شادی کی تھی اوران سے سالم پیدا ہوئے تھے اگر حسین خلیفہ مسلمین کے فرزند تھے تو عبد اللہ بن عمر بھی تو فرزند خلیفہ تھے جو (بظاہر) حضرت علی سے پہلے خلیفہ تھے۔
اسی طرح محمد بن ابی بکر نے سلافہ (شہر بانو) کی دوسری بہن سے شادی کی اور ان سے معروف فقیہ قاسم پیدا ہوئے، خود محمد بن ابی بکر بھی تو خلیفہ کے بیٹے تھے اور ان کے باپ تو عبد اللہ بن عمر کے باپ سے پہلے خلیفہ تھے عمر بن الخطاب کے زمانے میں تین شادیاں ہوئیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دلیل بھی باطل ہے ، لہٰذا تشیع کو ایرانیوں کے نام سے منسوب کرنا بالکل غیر منطقی ہے۔
____________________