علي، اعلم امت
اس ميں کوئي شک نہيں کہ ديني اور دنيوي حکومت دونوں کا مدافع ہونا اس بات کا متقاضي ہے کہ امور دين و شريعت کا مکمل عالم ہو اور سياست و قيادت کي باريکيوں سے بخوبي واقف ہو۔
اوراق تاريخ اس بات پرگواہ ہيں کہ رسول کے بعد امت کے سب سے بڑے عالم، فيصلہ کرنے والے، اور قاضي حضرت علي ہيں۔
اس بات کي شہادت سب سے پہلے رسول نے دي اس کے بعد اصحاب رسول نے اور واقعات نے بڑھ کر اس حقيقت ميں رنگ بھرديا، محدثين نے ابن عباس اور دوسرے افراد سے روايت نقل کي ہے کہ نبي کريم نے فرمايا: ”انا مدينة العلم و عليٌّ بابها فمن اراد المدينة فليات بابها
“ ميں شہر علم ہوں علي اس کا دروازہ ، جو شہر ميں آنا چاہے اس کو چاہيئے کہ در سے آئے۔
دوسري جگہ فرمايا:
”انا دار الحکمة و عليٌّ بابها
“
ميں دار حکمت ہوں اور علي اس کا دروازہ ۔
بعض احاديث ميں رسول نے امت کي توجہات کو مبذول کرايا ہے حضرت علي کے اس علم کي جانب جو رسول کے بعد مرجعيت عامہ کي اہليت پر دلالت کرتا ہے، رسول نے دونوں کے درميان واضح طور پر ربط کو بيان کيا ہے۔
سلمان کہتے ہيں کہ ميں نے رسول سے عرض کيا يا رسول اللہ! ہر نبي کا ايک وصي رہا ہے اور آپ کا وصي کون ہے؟ آپ نے خاموشي اختيار کرلي، پھر دوبارہ جب ميري ملاقات ہوئي تو فرمايا: ”سلمان“ ميں جلدي سے بڑھ کر آگے گيا اور عرض کي: ”لبيک يارسول اللہ! “
آپ نے فرمايا: جانتے ہو موسيٰ کا وصي کون تھا؟
ميں نے کہا: ہاں، يوشع بن نون۔
آپ نے فرمايا: کيوں؟ ميں نے کہا کہ وہ اپني امت ميں سب سے اعلم تھے۔
آپ نے فرمايا: ميرے وصي ميرے اسرار کا مرکز، ميرے بعد سب سے عظيم ہستي، ميرے وعدوں کو پورا کرنے والے ميرے قرضوں کو ادا کرنے والے علي ابن ابي طالب ہيں۔
بعض اصحاب کرام نے ان حقيقتوں کا اظہار بھي کيا ہے جو انھوںنے نبي کريم سے درک کيا تھا اور براہ راست جن حقائق کا مشاہدہ کيا تھا۔
بعض لوگوں نے ابن عباس سے سوال کيا: کہ علي کون تھے تو ابن عباس نے کہا: رسول اکرم کي قرابت داري کے ساتھ ساتھ علم، حکمت، شجاعت و شہامت آپ ميں کوٹ کوٹ کر بھري ہوئي تھي۔
عمروبن سعيد بن عاص کہتے ہيں کہ ميں نے عبد اللہ بن عياش بن ابي ربيعہ سے پوچھا کہ، لوگ حضرت علي ہي کي کيوں گاتے ہيں يعني کيوں لوگ انھيں کي طرف کھنچے چلے جاتے ہيں؟ انھوں نے کہا بھتيجے! علي، علم کے غير مفتوح بلندي کا نام ہے جو چاہو حاصل کرسکتے ہو، وہ خاندان کا سخي ، اظہار اسلام ميں پيش قدم، داماد رسول ،سنت رسول سے آگاہ، ميدان جنگ ميں بے خوف لڑنے والا اور بخشش ميں کريم ہے۔
عبد الملک بن سليمان کہتے ہيں کہ ميں نے عطاء سے کہا کہ اصحاب محمد ميں علي سے زيادہ کوئي جاننے والا تھا؟ تو انھوں نے کہا: ”لاواللہ لااعلم“ بخدا مجھے کسي کا علم نہيں۔
خود امير المومنين فرمايا کرتے تھے: مجھ سے کتاب خدا (قرآن) کے بارے ميں پوچھو اس ميں کوئي ايسي آيت نہيں جس کے نزول کے بارے ميں مجھے علم نہ ہو کہ يہ آيت رات ميں ا تري يا دن ميں وادي ميں آئي يا پہاڑ پر۔
ابن عباس سے روايت ہے کہ عمر نے کہا: ”اقضانا عليٌّ“ ہم ميں سب سے بہتر فيصلہ کرنے والے علي ہيں۔
ابن مسعود کہتے ہيں کہ ہم آپس ميں بات کيا کرتے تھے کہ اہل مدينہ ميں سب سے بہتر فيصلہ کرنے والے علي ابن ابي طالب ہيں۔
ان ميں سے کوئي ايک بھي ايسا نہيں ہے جو رسول کے اس قول ”علي ميري امت کے بہترين قاضي ہيں“ کا گواہ نہ ہو۔
يہ وہ روايات تھيں جو ا يک کثير تعداد ميں موجود ہيں ليکن ان کا کچھ حصہ پيش کيا ہے جو اس بات کو ثابت کرتي ہيں کہ حضرت علي ميں شرط اعلميت بدرجہ اتم پائي جاتي تھي جس طرح سے ان سے پہلے جناب طالوت ميں پائي جاتي تھي، حد يہ ہے کہ دشمنوں نے بھي اس فضيلت کا اعتراف کيا ہے، جب حضرت امير کي شہادت کي خبر معاويہ کو ملي تو اس نے کہا کہ:
ذهب الفقه والعلم بموت عليّ ابن ابي طالب
، علي کي موت در حقيقت علم و فقہ کي موت ہے۔
امت کي شجاع ترين فرد علي
کوئي دو فرد بھي ايسي نہيں ہے جو علي کي شہامت اور دشمن کو دھول چٹا دينے کے سلسلہ ميں اختلاف رائے رکھے، اور دوستوں سے پہلے دشمنوں نے اس حقيقت کا اعتراف کيا ہے اور يہ بات تواتر و شہرت کي اس حد تک پہنچ گئي ہے کہ تاريخ کے عظيم افراد نے اس کو ذکر کيا ہے، آپ ہر ميدان جنگ ميں رسول کے پرچم دار تھے۔
حضرت علي اور جنگ بدر
جنگ بدر ميں حضرت علي کا بہت بڑا امتحان تھا، تاريخ و سيرت نگاروں نے لکھا ہے کہ اس فيصلہ کن معرکہ ميں مارے جانے والے بيشتر مشرکين آپ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
جنگ احد ميں مسلمانوں کي جانب سے پرچمداروں کو قتل کيا گيا اور ان پرچمداروں کو قتل کرنے والے حضرت علي تھے جب حضرت علي ان کو قتل کرچکے تو نبي نے مشرکين کے ايک جتھ کو ديکھا اور حضرت علي کو حکم ديا: ان پر حملہ کرو! آپ نے قتل کيا بقيہ تتربتر ہوگئے، اس کے بعد لشکر کا دوسرا ٹکڑا دکھائي ديا آپ نے ان پر حملہ کيا قتل کيا، بقيہ بھاگ کھڑے ہوئے، رسول نے دوسري ٹکڑي کو ديکھا اور جناب امير سے کہا: ”ان پر حملہ کرو“ آپ نے ان پر حملہ کيا قتل کيا اور بھگاديا، جبرئيل نے کہا: يارسول اللہ يہ ہے (ايثار و فداکاري)
تو آپ نے فرمايا: ميں علي سے ہوں اور علي مجھ سے ہيں۔
جبرئيل نے کہا: ”اور ميں آپ دونوں سے ہوں“ اس وقت لوگوں نے ايک آواز سني، ”لافتي الا عليّ لاسيف الا ذوالفقار
“
حضرت علي اور جنگ خندق
جنگ خندق ميں سلمان فارسي کے مشورہ کے تحت مسلمانوں نے خندق کھودي تھي جس کے سبب تھوڑا محفوظ تھے ليکن کچھ جگہيں کم فاصلہ کے سبب بہت ہي غير محفوظ تھيں، رسول اسلام اور
مسلمان وہاں پر پڑاؤ ڈالے تھے اور مشرکين ان کا محاصرہ کئے ہوئے تھے اور جنگ کي شروعات ابھي نہيں ہوئي تھي۔
قريش کے کچھ جنگجو، من جملہ عمربني عامر بن لوي کا ايک بہادر شخص عمربن عبدود ابوجہل مخزومي، ھبيرہ بن ابي وھب مخزومي، بني کارب بن فہر کا ايک شخص ضرار بن الخطاب، شاعر ابن مرواس، نے لباس جنگ پہنا گھوڑوں پر سوار ہوئے اور بني کنانہ کے خيمہ گاہ کے پاس آئے او رکہا کہ، اے بني کنانہ !جنگ کے لئے تيار ہو جاؤ، آج تم کو معلوم ہوگا کہ بہادر کون ہے؟۔
انھوں نے گھوڑوں کو ايڑ لگائي اور خندق کے پاس آکر کھڑے ہوگئے جب خندق ديکھي تو کہا کہ رب کي قسم يہ تو ايک قسم کي چال ہے عربوں ميں اس طرح کي چال کسي نے نہيں چلي۔
انھوں نے خندق کا ايک چکر لگايا جہاں سے خندق تنگ نظر آئي اس طرف چل پڑے اور وہاں پہونچ کر ان کے جانور رک گئے، حضرت علي نے اپنے کچھ ہمراہيوں کے ساتھ ان کو جاليا، جس جگہ وہ گھوڑوں سميت پريشاني ميں مبتلا تھے، ان کے شہسوار آگے آگے اور ان کے گھوڑے قدم سے قدم ملا کر چل رہے تھے۔
عمروبن عبدود جنگ بدر ميں شريک تھا او رزخمي ہوگيا تھا جس کے سبب احد ميں نہيں آسکا تھا جنگ خندق ميں حالات کا جائزہ لينے کے لئے باہر آيا تھا اوراپنے گھوڑے کو روک کر مبارز و مقابل کو طلب کيا، حضرت علي اس کے مقابل کو نکلے اور اس سے کہا کہ عمرو تم نے قسم کھا رکھي ہے کہ جب بھي کسي قريشي سے جنگ ميں مڈبھيڑ ہوگي تو اس کي دو شرطوں ميں ايک شرط کو ضرور قبول کروگے۔
اس نے کہا: ہاں، بالکل ايسا ہي ہے۔
آپ نے فرمايا: ميں تجھ کو خدا و رسول اور راہ اسلام کي طرف دعوت ديتا ہوں۔
اس نے کہا: مجھے ان سب چيزوں سے کوئي واسطہ نہيں ہے۔
آپ نے فرمايا: تو ميري دوسري پيشکش يہ ہے کہ تو گھوڑے سے نيچے اتر آ۔
اس نے کہا: بھتيجے ايسا کيوں؟خدا کي قسم ميں تم کو قتل کرنا نہيں چاہتا۔
تو امير المومنين نے فرمايا: خدا کي قسم ميں تجھ کو قتل کرنا چاہتا ہوں۔
عمرو کا چہرہ سرخ ہوگيا وہ گھوڑے سے کود پڑا اور اس کو زخمي کرديا اور اس کے چہرے پر کوڑے سے مارا اس کے بعد حضرت علي کي جانب بڑھا، دونوں سپاہي پيدل حملوں کي ردو بدل کرنے لگے آپ نے اس کو قتل کرديا اور اس کے ساتھيوں کے گھوڑے ہنہناتے ہوئے سوار سميت بھاگ کھڑے ہوئے۔
سيوطي نے اپني تفسير در منثور ميں اس آيت(
وَ رَدَّ اللّٰهُ الَّذِينَ کَفَرُوا بِغَيظِهِم لَم يَنَالُوا خَيراً وَ کَفٰي اللّٰهُ المُو مِنِينَ القِتَالَ
)
کے ضمن ميں نقل کيا ہے اور ابن ابي حاتم نے ابن مُردويہ نيز ابن عساکر نے ابن مسعود سے نقل کيا ہے کہ وہ اس حرف کو ايسے پڑھتے تھے(
وَ کَفيٰ اللّٰهُ المُو مِنِينَ القِتَالَ
)
بعليّ بن ابي طالب
۔
ذہبي نے بھي نقل کيا ہے کہ ابن مسعود يوں پڑھا کرتے تھے(
وَ کَفيٰ اللّٰهُ المُو مِنِينَ القِتَالَ
)
بعليّ
۔
عمروبن عبدود کي شہامت کے باعث مسلمان اس کے مقابل جانے سے کترا رہے تھے، خود رسول اکرم بھي حضرت علي کا اس کے مقابل جانا پسند نہيں کر رہے تھے۔
ابوجعفر اسکافي نے اس واقعہ اور رسول کي کيفيت کي تفصيل ابن ابي الحديد معتزلي سے کچھ يوں نقل کي ہے جو اس نے تاريخ سے ليا ہے، ”رسول عمرو کے مقابل علي کے جانے سے احتراز کر رہے تھے آپ نے (حضرت علي ) کي حفظ و سلامتي کي دعا کي ہے، جب حضرت علي روز خندق عمرو بن عبدود کے مقابل نکلے تو رسول نے اصحاب کے جھرمٹ ميں اپنے دست مبارک کو اٹھا کر يہ دعا فرمائي: ”اللّٰہم انک اخذت مني حمزة يوم احد و عبيدہ يوم بدر فاحفظ اليوم علياً“ خدا يا! تو نے احد ميں حمزہ کو اور بدر ميں عبيدہ کو مجھ سے لے ليا لہٰذا آج کے دن علي کي حفاظت فرما، اور يہ کيفيت اس وقت طاري ہوئي جب عمرو بن عبدود نے مبارز طلب کيا تو سارے مسلمان خاموش تماشائي بنے تھے اور علي ہي آگے بڑھے تھے اور اذن جہاد طلب کيا تھا، خود رسول نے اس وقت فرمايا تھا: ”علي يہ عمرو ہے“ حضرت علي نے جواب ديا تھا: ”ميں علي ہوں“
آپ نے علي کو قريب کيا اور آپ کے بوسے لئے اپنا عمامہ ان کے سر پر رکھا اور چند قدم آپ کے ساتھ وداع کرنے کے ارادے سے آئے، آپ پرشاق ہو رہا تھا اور آنے والے لمحات کا انتظار کر رہے تھے، آسمان کي جانب اپنے ہاتھ اور چہرے کو بلند کيئے (دعا کر رہے تھے) اور مسلمانوں ميں سنّاٹا چھايا ہوا تھا گويا ان کے سروں پر پرندے بيٹھے ہيں۔
جب غبار جنگ چھٹااور اس ميں سے تکبير کي آواز سنائي دي تو لوگوں نے جانا کہ علي کے ہاتھوں عمرو قتل ہوچکا ہے ،رسول نے صدائے تکبير بلند کي اور مسلمانوں نے ايک آواز ہوکر رسول کا ساتھ ديا جس کي گونج خندق کے اس پار افواج مشرکين کے کانوں سے ٹکرائي۔
اسي وجہ سے حذيفہ يماني نے کہا ہے کہ اگر روز خندق علي کي فضيلت کو تمام مسلمانوں پر تقسيم کرديا جائے تو سب کو اپنے احاطہ ميں لے ليگي۔
ابن عباس اس قول خدا کے بارے ميں کہتے ہيں:(
وَ کَفيٰ اللّٰهُ المُو مِنِينَ القِتَالَ
)
،بعليّ ابن ابي طالب
!!
حضرت علي خيبر ميں
ساتويں ہجري ميں خود رسول اکرم شريک لشکر تھے اور خيبر کے قلعوں کي فتح چاہتے تھے جہاں وہ لوگ پناہ لئے ہوئے تھے آپ نے بعض اصحاب کو اس مہم کو سر کرنے کے لئے بھيجا مگر ان سے کچھ نہ بن پڑا۔
بريدہ سے روايت ہے کہ جب کبھي آپ طاقت فرسا سفر کرتے تھے تو ايک يا دو دن باہر نہيں آتے تھے اور جب رسول نے يہ دشوار سفر طے کيا تو آپ باہر نہيں آئے ابوبکر نے علم رسول اٹھايا اور جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اپنے تئيں حملات کيئے اور واپس آگئے، پھر عمر نے علم رسول کو سنبھالا اورابوبکر سے زيادہ جنگ ميں شدت پيدا کرنے کي کوشش کي سر انجام فتح کے بغير واپس آگئے۔
جب رسول کو ان حادثات کي خبر دي گئي تو آپ نے فرمايا: کل ميں اس کو علم دوں گا جو مرد ہوگا اللہ و رسول کو دوست رکھتا ہوگا اور اللہ و رسول اس کو دوست رکھتے ہوں گے اور وہ قلع کو فتح کرے گا-:اس وقت علي وہاں نہيں تھے، سارے قريش اس بات کي آس لگائے بيٹھے تھے اور اس بات کے اميدوار تھے کہ اے کاش! آنے والے کل، ميں ہي ہوتا۔
صبح نمودار ہوئي علي اپنے اونٹ پر سوار ہوکر آئے اوراس کو خيمہ رسول کے پاس بيٹھا ديا آپ کو آشوب چشم کي شکايت تھي لہذا آپ آنکھوں پر ايک معمولي قسم کے کپڑے کي پٹي باندھے ہوئے تھے۔
رسول نے پوچھا: کيا ہوا تمہيں؟
آپ نے کہا: آشوب چشم۔
رسول اسلام نے کہا: قريب آؤ!علي قريب گئے، رسول نے آنکھوں ميں لعاب دہن لگايا، آنکھوں کا درد جاتا رہا،اس کے بعد علم عطا فرمايا، علي اس کو ليکر اٹھ کھڑے ہوئے۔
ان کے جسم پر ايک سرخ رنگ کا لباس تھا آپ گنجان نخلستان سے گذر کر خيبر تک پہنچے، ادھر سے قلعہ کا محافظ مرحب اس حال ميں نکلا کہ اس کے سر پر خود اور خود پر زرد يمني پارچہ کا عمامہ اور عمامہ پر ايک پتھر ميں سوراخ کيا ہوا انڈے کي مانند ايک اور خود، اور وہ خود باختگي ميں رجز پڑھ رہا تھا۔
”قد علمت خيبر اني مرحب
شاکي السلاح بطل مجرب“
”خيبر جانتا ہے کہ ميں مرحب ہوں، اسلحوں سے ليس اور تجربہ کار بہادر ہوں“
امير المومنين نے فرمايا:
انا الذي سمّتني امي حيدره
اکليکم بالسيف کيل السندرة
ليث بغابات شديد قسورة
ميري ماں نے ميرا نام حيدر رکھا ہے، ميں تم لوگوں پر آتش ذوالفقار کي بارش کردوں گا، ميں شير بيشہ شجاعت اور بے خوف بہادر ہوں۔
دونوں سپاہيوں ميں وار کا رد و بدل ہوا اور حضرت علي اس پر حاوي ہوگئے اورايسي کاري ضرب لگائي کہ پتھر سميت خود کو کاٹتے ہوئے ڈاڑھ تک اترگئي اور پھر شہر فتح ہوگيا۔
رسول کے غلام ابي رافع ناقل ہيں کہ جب رسول نے علي کو علم عطا فرمايا تھا تو ميں ان کے ساتھ تھا جب قلعہ کے قريب پہنچے تو قلعہ ميں پناہ گزيں افراد باہر نکل پڑے آپ نے سب کو موت کے گھاٹ اتار ديا۔
يہوديوں ميں سے ايک شخص نے ايسا وار کيا کہ علي کے ہاتھ سے سپر چھوٹ کر گرگئي آپ خيبر کے پاس تھے، بڑھ کر در کو اکھاڑ ليا اور اس کو سپر کے طور استعمال کرنا شروع کرديا، آپ کے ہاتھوں ميں ذرہ برابر لرزہ نہيں تھا جہاد جاري رکھا يہاں تک کہ فتح سے ہمکنار ہوگئے اور جنگ سے فارغ ہونے کے بعد اس کو دور پھينک ديا ميں نے اپنے کو سات افراد کے درميان پايا کہ جن ميں آٹھواں ميں تھا سب نے مل کر ايڑي چوٹي کي طاقت لگادي پھر بھي اس کو ذرہ برابر ہلا نہ سکے۔
محدثين نے بھي اس واقعہ کو نقل کيا ہے، خود حاکم نے حضرت امير سے روايت کي ہے، آپ نے ابي ليليٰ سے فرمايا: اے ابي ليليٰ کيا تم ہمارے ساتھ خيبر ميں نہيں تھے؟
انھوں نے کہا: کيوں نہيں!
آپ نے فرمايا: جب رسول نے ابوبکر کو خيبر ميں بھيجا تو وہ لوگوں کے ساتھ گئے حملہ کيا ليکن (فتح کے بغير) واپس آگئے۔
آپ ہي سے دوسري روايت ہے کہ: رسول نے خيبر ميں عمر کو بھيجا وہ لوگوں کے ہمراہ شہر يا قلعہ خيبر تک گئے جنگ کي، ليکن ان سے جب کچھ نہ بن پڑا تو اپنے اصحاب کے ہمراہ اس حال ميں لوٹے کہ اصحاب ان کي، اور وہ اصحاب کي مذمت کر رہے تھے۔
حضرت علي اور جنگ حنين
جنگ حنين ميں مسلمان اپني کثرت پر بہت مغرور تھے جب رسول نے شہر چھوڑا اس وقت آپ کے ہمراہ دس ہزار فوجي تھے جو فتح مکہ ميں شريک کار تھے اور فتح مکہ کے نو مسلم دو ہزار افراد بھي شانہ بشانہ تھے۔
جب ہوازن اور ان کے حليفوں نے شدت کا حملہ کيا تو اس وقت مسلمانوں کي کثرت کے باوجود ان کي کافي تعداد نے ميدان خالي کرديا۔
اس وقت رسول اپنے اقرباء اور قبيلہ ميں سے نو افراد کے ہمراہ ميدان ميں ڈٹے رہے بقيہ سارے مسلمانوں نے بھاگنے کو ترجيح دي۔
يہ نو افراد رسول کے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے، عباس، رسول کے خچر کو سنبھالے ہوئے تھے اور علي تلوار سونتے ہوئے کھڑے تھے، بقيہ افراد خچر کے آس پاس جمع تھے اور مہاجرين و انصارکا کہيں اتہ پتہ تک نہيں تھا۔
انس راوي ہيں کہ روز حنين عباس بن عبد المطلب، ابوسفيان بن حارث يعني رسول کے چچازاد بھائي کے سوا سارے لوگ رسول کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، رسول نے حکم ديا کہ منادي ندا دے کہ اے اصحاب سورہ بقرہ! اے گروہ انصار! يہ آواز بني حرث بن خزرج ميں گونج رہي تھي جب انھوں نے سني تو پلٹ آئے خدا کي قسم ان کي آوازيں ايسي تھيں، جيسے اونٹني اپنے بچے کو تلاش کرتي ہے،جب وہ لوگ اکٹھے ہوئے تو آتش جنگ بھڑک اٹھي اور رسول نے فرمايا: اب تنور (جنگ) گرم ہوگيا ہے۔
آپ نے سفيد کنکرياں اٹھائيں اور ان کو پھينک ديا اور کہا: رب کعبہ کي قسم دشمن شکست کھاگئے۔
اس دن علي ابن ابي طالب سب سے زيادہ دليرانہ حملہ کر رہے تھے۔
يہ سارے واقعات اس بات کے غماز ہيں کہ علي کي ہي وہ ذات ہے جو ميدان جنگ ميں سب سے آگے آگے رہتي تھي اور انہي کي ذات اس بات کي لياقت رکھتي ہے جو سخت و مشکل لمحات ميں امت کي رہبري کرسکے، جس طرح طالوت نے اپني امت کي قيادت بہترين نصرت کے ساتھ کي تھي، اور جالوت اوراس کے ہوا خواہوں کو سرزمين فلسطين سے کھديڑ ديا تھا، اور صحرا ميں بني اسرائيل کي حيراني و سرگرداني کا خاتمہ کر ديا تھا۔
اختلاف کے اسباب
ہمارا مقصد اس وقت حضرت علي کے فضائل بيان کرنا نہيں ہے بلکہ يہ تو اتنے ہيں جن کو شمار ہي نہيں کيا جاسکتا اوراس موضوع پر تو متعدد کتابيں لکھي جاچکي ہيں ہمارا اصل مقصد ان حقيقي دعووں کي وضاحت ہے جس ميں رسول نے علي کي لياقت و صلاحيت کا اعلان کيا ہے اور امت مسلمہ کي حيات ميں رونما ہونے والے جنگي اور صلحي اہم موارد کا اظہار ہے اور يہ ساري باتيں چچازاد بھائي اوراہلبيت ہونے کي وجہ سے نہيں تھيں جيسا کہ اس کے بارے ميں ہم پہلے ہي تفصيل سے ذکر کرچکے ہيں۔
رسول کا اصلي مقصد فرزندان توحيد کي توجہات اس جانب مبذول کرانا تھي کہ علي اور اہلبيت رسول ان کے بعد مرجعيت اسلامي کي اہلبيت و لياقت رکھتے ہيں، پيغمبر کے کلام کا لب لباب يہ تھا کہ امت مسلمہ اس بات کو تسليم کرے جو اس بات کا سبب بني کہ نظرياتي اختلاف ہو۔
ان ميں سے کچھ ايسے لوگ تھے جو ارادہ نبوت کے سامنے سر تسليم خم کرديئے تھے کيوں کہ شريعت محمدي، وحي سماوي کا پرتو علي تھي، کچھ وہ لوگ تھے جو يہ سونچ رہے تھے کہ رسول اپنے چچازاد بھائي اور اہلبيت کے ساتھ مشفقانہ اور محبتانہ برتاؤ کر رہے تھے اسي کے سبب انھوں نے يہ خيال کرليا کہ حق مشورت رکھتے ہيں بلکہ اعتراض کا بھي حق رکھتے ہيں، اس کا ثبوت بھي موجود ہے جو حسد کے سبب بعض لوگوں کي جانب سے معرض وجود ميں آيا۔
ہماري يہ بات صرف ادعا کي حد تک اور بے بنياد نہيں ہے، بلکہ متواتر روايات اس حقيقت پر گواہ ہيں بريدہ کي گذشتہ روايت آپ نے ملاحظہ فرمائي کہ خاليد بن وليد نے بريدہ کو رسول کے پاس اس لئے بھيجا تھا کہ علي کي شکايت کريں وہ اس موقع کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتا تھا، اسي لئے تو خالد نے بريدہ سے کہا تھاکہ وہ کنيز مال غنيمت کي تھي جو تصرف ميں لائي گئي ہے۔
يہ بات اور واضح ہوجاتي ہے ان اصحاب کے اقوال سے جو بريدہ کو اکسا رہے تھے کہ رسول کے پاس جاکر شکايت کرو تاکہ علي رسول کي نظروں سے گر جائيں پھر رسول غيض و غضب کي صورت ميں باہر آئے تھے اوراصحاب کو مخاطب کرکے فرمايا تھا : ”جس نے علي کو اذيت دي اس نے خود رسول اکرم کو اذيت دي“
جابر بن عبداللہ سے روايت ہے کہ (يوم الطائف) طائف کے روز جب رسول اور علي کي سرگوشي طولاني ہوگئي تو لوگوں کے چہرے پر ناپسنديدگي کے آثار نماياں تھے، لوگوں نے (طنزاً) کہا کہ اس دن تو سرگوشي بہت طولاني ہوگئي۔
رسول نے فرمايا: ميں نے علي سے (نجويٰ) سرگوشي نہيں کي ہے بلکہ اللہ نے ان سے نجويٰ کيا ہے۔
زيد بن ارقم راوي ہيں کہ مسجد نبوي ميں بہت سارے اصحاب کے دروازے کھلتے تھے تو آپ نے فرمايا: ”علي کے علاوہ سب کے دروازے بند کردو“۔
لوگوں نے چہ ميگوئياں شروع کرديں تو رسول کھڑے ہوئے اور حمد و ثنائے الٰہي کے بعد فرمايا: ميں نے علي کے علاوہ سارے دروازوں کو بند کرنے کے لئے کہا تھا تو تم لوگوںنے اعتراض کيا ہے! خدا کي قسم نہ ہي ميں نے کوئي چيز کھلوائي ہے اور نہ ہي بند کرائي ہے بلکہ مجھ کو کسي بات کا حکم ديا گيا تھا جس کو بجالايا ہوں۔
سعد بن ابي وقاص کہتے ہيں کہ ميں اور ميرے ساتھ اور دو افراد مسجد ميں بيٹھے ہوئے علي کے بارے ميں کچھ نامناسب باتيں کہيں اتنے ميں رسول آگئے آپ اس قدر غصہ ميں تھے کہ چہرے سے اس کے آثار نماياں تھے ہم نے اس دن رسول کے غضب سے اللہ کي پناہ مانگي، آپ نے فرمايا: ”تم کو کيا ہوگيا ، آخر ہم سے کيا چاہتے ہو، جس نے علي کو اذيت دي اس نے ہم کو اذيت دي“
خود حضرت امير المومنين ناقل ہيں کہ ہم مدينہ کي گليوں سے گذر کر ايک باغ ميں پہنچے رسول ہمارے ساتھ تھے اور وہ ميرا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں لئے ہوئے تھے، ميں نے کہا: يا رسول اللہ يہ باغ کتنا خوبصورت ہے۔
آپ نے فرمايا: ”جنت ميں ا س سے حسين باغ ہمارے لئے ہے“ جب راستہ ختم ہوا تو رسول نے مجھے گلے سے لگايا اس کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ميں نے عرض کي، يارسول اللہ کيوں رو رہے ہيں؟
آپ نے فرمايا: لوگوں کے دلوں ميں تمہارے لئے کينے بھرے ہيں جو ميرے بعد ظاہر کريں گے۔
جناب امير فرماتے ہيں کہ ميں نے عرض کي: يارسول اللہ ميرا دين سلامت ہے نہ۔؟
آپ نے فرمايا:ہاں تمہارا دين سلامت ہے۔
حيان اسدي سے روايت ہے کہ ميں نے اميرالمومنين کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نے فرمايا کہ رسول نے ميرے لئے فرمايا: ميرے بعد امت تم سے جنگ کرے گي اور تم ميري راہ شريعت پر گامزن ہوگے اور ميري سنت پر جہاد کرو گے جو تم سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرے گا جس نے تم کو ناراض کيا اس نے مجھ کو ناراض کيا اور يہ اس سے خضاب ہوگي۔ ۳#( يعني تمہاري ڈاڑھي تمہارے سر کے خون سے رنگين ہوگي) اہلبيت سے خلافت کو جدا کرنے کا زمينہ فراہم ہوچکا تھا۔
نبوت و خلافت بني ہاشم ميں جمع نہ ہونے کي ايک وجہ حسد تھي جس کو قريش کے سرکردہ افراد کسي صورت ميں جائز نہيں سمجھتے تھے کہ يہ دونوں چيزيں کسي ايک گھر ميں اکٹھا ہو جا ئيں، يہ بات ابن عباس اور خليفہ ثاني کے مذاکرہ سے اور واضح ہوجاتي ہے۔
عبد اللہ ابن عمر راوي ہے کہ ايک دن ميں اپنے والد کے پاس بيٹھا تھا اور کئي افراد ان کے پاس جمع تھے اس وقت شعر کي بات نکل آئي، والد نے کہا کہ سب سے بڑا شاعر کون ہے؟
تو لوگوں نے کئي لوگوں کا نام پيش کيا، اتنے ميں عبد اللہ وارد ہوئے سلام کيا اور بيٹھ گئے، عمر نے کہا کہ باخبر شخص آگيا ہے، عبد اللہ! سب سے بڑا شاعر کون ہے؟
تو انھوں نے کہا: کہ زہير ابن ابي سلميٰ، عمر نے کہا کہ اس کے بہترين اشعار کو سناؤ؟
عبد اللہ نے کہا: کہ امير اس نے بني غطفان جن کو بني سنان کہا جاتا تھا ان کي مدح کي ہے۔
”اگر کرم و سخاوت کے سبب کوئي قوم سورج پر جاکر قيام کرے تو وہي قوم ہوگي جس کا باپ سنان ہے، وہ خود پاک ہے اور اس کي اولاديں بھي طاہر ہيں، اگر امن اختيار کريں تو انسان کامل، اگر بپھر جائيں، تو جنات صفت، اگر علم و تحقيق کا ميدان اختيار کريں، تو دانائے دہر ہيں، اللہ کي دي ہوئي نعمات کے سبب لوگ ہميشہ ان سے حسد کرتے رہے اور مورد حسد واقع ہونے کے سبب اللہ نے ان سے نعمتيں نہيں سلب کيں۔
عمر نے کہا: خدا کي قسم بہت عمدہ ہے اوراس تعريف کا حقيقي مستحق صرف بني ہاشم کا گھرانہ ہے کيونکہ رسول اللہ سے سب سے زيادہ قريب يہي لوگ تھے۔
ابن عباس نے کہا: امير! خدا آپ کا بھلا کرے۔
عمر نے کہا: ابن عباس جانتے ہو لوگوں نے تم کو کيوں اس (خلافت) سے روک ديا؟
عبد اللہ نے کہا: نہيں!
عمر نے کہا: ہم جانتے ہيں!
ابن عباس نے کہا: امير وہ کيا ہے؟
عمر نے کہا: لوگ يہ نہيں چاہتے تھے کہ نبوت و خلافت تم (بني ہاشم) ميں اکٹھا ہوجائے، اور تم لوگوںنے اس مسئلہ ميں بہت غرور و تکبر کا اظہار کيا، قريش نے اس مسئلہ کو خود سے حل کيا اوراس ميں کامياب ہوگئے۔
ابن عباس نے کہا: امير کيا ميري باتوں کوغصہ ہوئے بغير سن سکيں گے؟
عمر نے کہا: جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو۔عبد اللہ نے کہا:
امير جو آپ نے کہا کہ قريش نے کراہت کي ! تو قول پروردگار ہے کہ
(
ذٰلِکَ بِانَّهُم کَرِهُوْا مَا انْزَلَ اللّهُ فَاَحْبَطَ اعمَالَهُمْ
)
خدا نے جو کچھ نازل کيا تھا اس کوان لوگوںنے ناپسند کيا لہٰذا ان کے اعمال حبط (ختم) کرديئے!۔
اور آپ کي يہ بات کہ ہم غرور کر رہے تھے تو اگر ہم خلافت پر فخر کر رہے تھے تو قرابت پر بھي تو ہم نازاں تھے جبکہ ہمارا اخلاق رسول اکرم کے اخلاق سے مشتق تھا کيونکہ خدا نے آپ کے بارے ميں فرمايا:
(
إنَّکَ لَعَلَيٰ خُلُقٍ عَظِيْمٍ
)
اے رسول آپ اخلاق کے بلند ترين مرتبہ پر فائز ہيں۔
دوسري جگہ پر خدا نے آپ کے لئے فرمايا:
(
وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ المُو مِنِينَ
)
اے ميرے حبيب اپنے پيروکاروں سے انکساري سے پيش آئيں۔
آپ نے جو يہ کہا کہ قريش نے چن ليا تو خدا فرماتا ہے کہ:
(
وَ رَبُّکَ يَخْلُقُ مَايَشَاءُ وَ يَخْتَارُ مَاکَانَ لَهُمُ الْخِيَرة
)
اور آپ کا پروردگار جسے چاہتا ہے پيدا کرتا ہے اور پسند کرتا ہے ان لوگوں کو کسي کا انتخاب کرنے کا کوئي حق نہيں ہے۔
اور امير آپ جانتے ہيں کہ خدا نے اپنے بندوں ميں کس کو منتخب کيا اگر قريش ويسے ديکھتے جيسے خدا نے ديکھا ہے تو اپنے فيصلہ ميں صحيح طور سے کامياب ہوتے۔
عمر نے کہا: ابن عباس ذرا متانت سے کام لو، تم بني ہاشم کے قلوب، بغض سے بھرے ہوئے ہيں خاص طور سے قريش کے حوالے سے بالکل کمي نہيں ہے اور يہ ايسا کينہ ہے جو ختم ہونے والا نہيں ہے۔
ابن عباس نے کہا: امير ذرا ٹھہريئے ! آپ نے بني ہاشم کو دھوکے باز کہا ہے ان کے قلوب قلب رسول کا جزء ہيں جس کو خدا نے طاہر اور پاک بنايا ہے وہ اہلبيت رسول ہيں جن کے بارے ميں خدا نے فرمايا:
(
إنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اهلَ البَيتِ وَ يُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيراً
)
جو آپ نے يہ کہا کہ کينہ ہے تو وہ شخص کيسے نہ اس کا شکار ہوگا جس کا حق چھين ليا گيا ہو اور اس کي ملکيت دوسرے کے ہاتھوں ميں ہو۔
عمر نے کہا: ابن عباس تمہارے حوالے سے کچھ بات مجھ تک پہنچي ہے جس کو ميں بيان نہيں کرنا چاہتا کيوں کہ تم ميري نگاہوں ميں گر جاؤ گے!
ابن عباس نے کہا: امير کہيے کيا بات ہے اگر باطل ہے تو ميري مثال اس شخص کي سي ہے جس نے اپنے آپ سے باطل کو جدا کرديا اوراگر حق ہے تو آپ کي نظروں سے گرنے کا سوال ہي نہيں پيدا ہوتا۔
عمر نے کہا کہ ميں نے سنا ہے کہ تم مستقل يہ کہتے پھر رہے ہو کہ يہ امر (خلافت) حسد اور ظلم کي بناء پر تم (بني ہاشم) سے چھين ليا گيا ہے۔
ابن عباس نے کہا: اے امير! آپ کا حسد کے متعلق کہنا تو درست ہے اس لئے ابليس نے آدم سے حسد کيا تھا جس کي بناء پر وہ جنت سے نکال ديا گيا تھا لہٰذا ہم فرزندان آدم محسود (جس سے حسد کيا جاتا ہے) ہيں!
رہي آپ کي ظلم والي بات، تو امير بہتر جانتے ہيں کہ اصلي حقدار کون ہے؟
اس کے بعد کہا کہ اے امير! کيا عرب، عجم پر رسول کے سبب فخر نہيں کرتے؟ اور قريش سارے عرب پر رسول کي بناء پر ناز نہيں کرتے اور ہم سارے قريش کے بنسبت رسول سے زيادہ قريب ہيں۔
عمر نے کہا: اٹھو اور يہاں سے اپنے گھر جاؤ۔
عبد اللہ اٹھے گھر کي طرف چل ديئے اور جب واپس ہوئے تو عمر نے آواز دي، ابن عباس! ميں تيرے بنسبت زيادہ حقدار ہوں۔
عبد اللہ، عمر کي جانب مڑے اور کہا کہ اے امير! ہم تم سے اور پوري امت مسلمہ سے زيادہ رسول کي وجہ سے حقدار ہيں جس نے اس کي حفاظت کي گويا اس نے اپنے حق کي حفاظت کي، جس نے اس کو ضائع کيا گويا اس نے اپنا حق ضائع کرديا۔
اس سے بڑھ کر اس وقت قوم نے جس بات کو دليل بنا کر حضرت علي سے خلافت کو جدا کرديا تھا وہ بات يہ تھي کہ حضرت علي نے اسلام کي عظيم جنگوں ميں مشرکين کے سرداروں کو موت کے گھاٹ اتار ديا تھا جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بظاہر ان کي گردنوں ميں اسلام کا قلادہ پڑا تھا ليکن دلوں ميں جنگوں کے کينے چھپائے ہوئے تھے اور عثمان بن عفان (خليفہ ثالث) نے اس بات کي وضاحت بھي کي ہے۔
ابن عباس نے جيسا کہ روايت کي ہے کہ حضرت علي اور عثمان کے درميان کچھ کلامي ردوبدل ہوئي تو عثمان نے کہا کہ ، قريش تم سے محبت نہيں کرتے تو يہ بات تعجب خيز نہيں ہے کيونکہ آپ نے
جنگ بدر ميں ان کے ستر آدميوں کو قتل کيا ہے ان کے چہرے سونے کي بالياں تھيں ان کو عزت ملنے سے پہلے ہي ان کي ناک رگڑ دي گئي۔
شاہراہ اجتہاد کا استعمال
(نص کے مقابل راہ اجتہاد) کي تدبيريں قوي اور بيخ کن تھي جنھوں نے خلافت کو اہل بيت سے جدا کر ديا اوراس طرح کے مواقع وفات رسول سے قبل اور غدير کے بعد رونما ہونے لگے تھے، يہ بات بالکل روز روشن کي طرح واضح تھي کہ رسول حضرت علي کو اپنے بعد اسلام کا مطلق مرجع و مرکز گردانتے تھے تاکہ اسلامي شہروں کي سياسي، عسکري، اقتصادي، ديني، اور ہر طرح کي ديکھ بھال ميں رسول اکرم کے مکمل جانشين ثابت ہوسکيں۔
جب رسول نے لشکر اسامہ کے ساتھ جنگ ميں شرکت کے مسئلہ ميں بعض لوگوں کي نافرماني اور روگرداني ديکھي تواس بات کا ارادہ کيا چونکہ نبي مرض الموت ميں مبتلا ہيں اور آفتاب رسالت بس غروب ہونے والا ہے اور آپ کا وجود نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گا لہٰذا کوئي شخص ان کا جانشين معين ہوجائے اور پہلے نظريہ کے حامل اصحاب ميں موجودہ صورت حال سے کھلبلي مچي ہوئي تھي، اور رسول جوارِ رب ميں جانے کے لئے اپنے آپ کو تيار کر رہے تھے اور وہ مدينہ منورہ کو ايک دور افتادہ زمين کے لئے ميدان جنگ بنانا چاہتے تھے اور اس کے جنگي نتيجہ سے بالکل بے خبر تھے، اور حضرت علي اور ان کے ہم فکر افراد اس حملہ کے حق ميں نہيں تھے تو ظاہر سي بات ہے کہ ايسے وقت ميں رسول کي ذاتي تدبير کيا تھي؟۔
اور يہ صرف اس لئے تھا کہ يہ مسئلہ مرکز سے دور ہو جائے اور فضا سازگار ہو جائے تاکہ علي کي ولايت کا استحکام آسان ہو جائے اور جب فوج اپني مہم کو سرکر کے واپس آئے گي تو اس وقت مسئلہ خلافت بنحو احسن انجام پذير ہوچکا ہوگا۔
علي کي بيعت ہوچکي ہوگي اور امور اپني جگہ مستقر ہوچکے ہوں گے اس وقت کسي قسم کا اختلاف نہيں رہ جائے گا اطاعت کے سوا کوئي چارہ نہيں رہے گا اور سب اس جھنڈے تلے جمع ہو جائيں گے جہاں لوگ پہلے سے جمع ہيں۔
حزب مخالف (اپوزيشن پارٹي) کے لوگ اس حقيقت کو تاڑ گئے تھے لہٰذا انھوں نے جيش اسامہ کي پيش قدمي ميں ٹال مٹول کر رہے تھے، ہرچند کہ رسول اسامہ کے لشکر کو جلد از جلد روانہ ہونے پر مصر تھے اور بار بار تکرار فرماتے تھے کہ ”انفذ و ابعث اسامہ“ جيش اسامہ کو جلد روانہ کرو، يہ جملہ خود رسول کي بے کيفي کا غماز ہے کيونکہ آپ کي عجلت کے باوجود ان کے تعميل حکم ميں سستي برتي جارہي تھي جبکہ آپ چاہتے تھے کہ مرکز خرافات دور ہوجائے اور يہاں سے چہ ميگوئياں ختم ہو جائيں۔
اس کے بعد رسول نے دوسرا موقف اختيار کيا اور فيصلہ کو قطعي اور حتمي شکل دينے کے لئے اور اپنے بعد علي کو اپنا وزير مقرر کرنے کے لئے ايک تحريري ثبوت مہيا کرنا چاہا جس سے انحراف کا امکان نہيں تھا، لہٰذا اصحاب سے اس بات کي خواہش کي کہ قلم و دوات مہيا کرديں تاکہ ان کے لئے نوشتہ لکھ ديں اور وہ لوگ گمراہي سے بچ جائيں جيسا کہ اس کي خبر گذشتہ بحثوں ميں گذر چکي ہے۔
اجتہادي نقطہ نظر سے اس بات کا انکشاف مشکل نہيں تھا کہ اس تحرير کے معني و مقصد کو سمجھ ليا جائے، کيونکہ رسول بستر موت پر ہيں اور صورت حال کچھ ناگفتہ بہ ہے لہٰذا اس نوشتہ ميں صرف وصيت ہي ہوگي! جس کا پورا پورا يقين پايا جاتا ہے اوراس تحرير ميں رسول کي وصيت ميراث اور اس کے مثل مسائل سے قطعي مربوط نہ ہوگي، کيونکہ رسول کا قول ”لاتضلون بعدہ“ تاکہ اس تحرير کے بعد گمراہي نہ ہو، رسول کا قول صرف امت اور اسلام کے مستقبل سے متعلق تھا کيونکہ شريعت اب مکمل ہوچکي تھي اور خداوند تعاليٰ نے اس بات کي خبر بھي دے دي تھي،
(
ْاليَومَ اکْمَلتُ لَکُم دِينَکُم وَاتمَمتُ عَلَيکُم نِعمَتِي وَ رَضِيتُ لَکُمُ الإسلامَ دِيناً
)
اے رسول، آج کے دن ہم نے آپ کے دين کو مکمل کرديا اور آپ پر نعمتيں تمام کرديں اور آپ کے دين اسلام سے راضي ہوگيا۔
مذکورہ آيت کو حديث رسول کے اس فقرہ ”لاتضلون بعدہ“ سے جو حديث ثقلين سے مربوط ہے کہ ”ما ان تمسکتم بہما لن تضلوا“ جب تک قرآن و اہل بيت سے متمسک رہو گے گمراہ نہيں ہوگے، تقابل کرنے سے يہ بالکل عياں ہوگيا کہ رسول اس وصيت ميں اپنے بعد اہلبيت کے سلسلہ ميں وصيت کرنا چاہتے تھے اور ان کے سربراہ و سردار حضرت علي کے سلسلہ ميں وضاحت کرنا چاہتے تھے، اسي سبب شاہراہ اجتہاد کے سالکين اپني تمام تر قوتوں سميت مقصد رسالت کو مکمل ہونے سے مانع ہوئے اور اس بات تک کا خيال کر بيٹھے کہ رسول مرض کے سبب معاذ اللہ ہذيان بکنے لگے ہيں۔
رسول کے پاس اس نافرماني کا کوئي بدل نہيں تھا جو انھوں نے ناراضگي کا اظہار کيا تھا وہ بھي اس طرح کي مخالفت کي صورت ميں جو انھوں نے انجام ديا تھا سوائے اس کے کہ اس بھرے مجمع ميں يہ کہديں کہ ”قوموا عني“ يہاں سے چلے جاؤ!يہ نتيجہ صرف ہمارے ہي نزديک نہيں ہے بلکہ خود عمر نے اس کي وضاحت کي ہے۔
روايات سے يہ بات بالکل واضح ہے کہ عمر بن الخطاب نے يہ جملہ کہا تھا کہ (نبي ہذيان بک رہے ہيں اور جب بعد کے محدثين نے اس جملہ کي کڑواہٹ کو محسوس کيا تو جملہ کو بدل ديا جس سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ عمر نے کہا کہ آپ پر بخار کا غلبہ ہوگيا تھا
ابن عباس نے عمر سے روايت کي ہے: عمر کے ابتدائے خلافت ميں ان کے پاس گيا تو ان کے سامنے کھجور کے پتوں کي بني ٹوکري ميں کھجور رکھ دي گئي انھوں نے مجھے بھي دعوت دي، ميں نے ايک کھجور اٹھالي، انھوں نے بقيہ ختم کردي اورايک مٹکا جو ان کا مخصوص تھا اس کو ختم کيا اور ہاتھوں کا تکيہ بنا کے ليٹ گئے اور حمد الٰہي کي تکرار کرنے لگے،يکايک مجھ سے مخاطب ہوکر کہا: اے عبداللہ! کہاں سے آرہے ہو؟
ميں نے کہا: مسجد سے۔
پھر پوچھا کہ اپنے چچازاد بھائي کو کس حال ميں چھوڑ کر آئے ہو؟
ميں سمجھا کہ عبد اللہ بن جعفر کے بارے ميں سوال کيا ہے ميں نے کہا: وہ اپنے ہمسن بچوں کے ساتھ کھيلنے ميں مشغول ہے۔
انھوں نے کہا: ميري مراد وہ نہيں ہے بلکہ تم اہل بيت کے سيد و سردار۔
ميں نے کہا: وہ فلاں شخص کے باغ ميں آبياري کر رہے ہيں اور تلاوت قرآن فرماتے جارہے ہيں۔
انھوں نے کہا: عبد اللہ! تمہاري گردن پر قربانيوں کا خون ہوگا اگر تم نے چھپايا، سچ بتاؤ کيا اب کوئي چيز ان کي خلافت ميں باقي رہ گئي ہے!؟
ميں نے کہا: ہاں۔
انھوں نے کہا: کيا وہ يہ خيال کرتے ہيں کہ رسول خدا نے ان کے لئے کوئي نص بيان کي ہے؟
ميں نے کہا: ہاں، بلکہ اس سے زيادہ، ميں نے اپنے والد سے اس بارے ميں سوال کيا ، جس بات کے وہ (علي ) مدعي تھے؟
تو انھوں نے کہا: ہاں۔
عمر نے کہا: علي کے بارے ميں رسول کے قول ميں کئي رخ پائے جاتے تھے اور کوئي بطور حجت پيش نہيں کرسکتے اور نہ ہي وہ قابل قبول عذر ہوں گے، وہ خود حالات کے تحت علي کے سلسلہ ميں اپنے قول ميں توقف فرماتے تھے۔
رسول آخري وقت ميں علي کے نام کو معين کردينا چاہتے تھے مگر ميں نے اسلام کي حفاظت کے پيش نظر اس کام کو ہونے نہيں ديا، نہيں بالکل نہيں، قسم ہے رب کعبہ کي کبھي بھي علي کي ذات پر قريش اتفاق کر ہي نہيں سکتے، اور اگر علي کو قريش کا حاکم بنا بھي ديتے تو عرب چار سمتوں سے ان کي مخالفت کرتے۔
رسول خدا اس بات کو قطعي سمجھ گئے تھے کہ ميں ان کے دل کے راز سے واقف ہوں لہٰذا انھوںنے اس سے پرہيز کيا اور خدا نے حتمي فيصلہ پر دستخط ہونے سے گريز کيا۔
____________________