تیسری فصل
آغاز تشیع
مسلک اجتہاد جو کہ وصیت و تعلیمات نبوی کے مقابل کبھی بھی سرتسلیم خم کرنے کے قائل نہیں تھا، اس کے مقابل ایک فرمانبردار گروہ وہ ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ نبی اکرم کے تمام احکامات کا مطیع ہونا چاہئے وہ جس امر سے بھی متعلق ہو، چاہئے وہ احکامات شریعت ہوں یا رحلت رسالت کے بعد امور کی انجام دہی، لہٰذا کچھ مردان خدا نے نص کی پیروی کے مسلک کی بنیاد رکھی اوران کی تعداد شاید دس سے زیادہ نہ ہو، لیکن بعد میں افراد ان کے گروہ میں شامل ہوتے چلے گئے۔
ظاہر سی بات ہے کہ نص کی اتباع میں شریعت کے وہ امور جن میں ان کا موقف دینی مرجعیت اور رسول کے بعد سیاسی مراحل سے متعلق ہے ان میں رسول سے مدد طلب کی ہوگی، اور انھوں نے ولایت و شخصی اختیارات میں شخصی اجتہاد نہیں کیا ہوگا، اور یہ ایسا گروہ ہے جس پر نصوص نبوی کی تائید ہے حضرت علی کے مانند حسین وجامع کمالات شخص کے لئے جو نفسانی اور اخلاقی صفات کے حامل ہیں تاکہ یہ عظیم منصب صحیح جگہ مستقر ہوسکے جس پر وہ پیغام متوقف ہے جس کے قوانین رسول نے مرتب کئے اور اس کی بنیاد ڈالی۔
لہٰذا رسول کے بعد آنے والے شخص پر لازم ہے کہ اس مرکز کی حفاظت کرے اوراس کو ان مخالف آندھیوں سے بالکل محفوظ رکھے جو تبدیلی زمان اور مرور ایام کے سبب طویل سفر میں درپیش ہوسکتی ہیں، خاص طور سے مسلمانوں کا وہ دور، جن کا زمانہ عہد ماضی سے بہت قریب ہے، اور ہجرت رسول کے بعد نفاق کی ریشہ دوانیوں کی شدت کے وقت، اور بعض افراد کا مسلمین و مشرکین کے بیچ پیس دینے والی جنگ کے کینوں کے سبب متحد ہونا جن میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو فتح مکہ کے بعد شریک اسلام ہوئے ہیں اور یہ وہ وہی لوگ ہیں جن کو رسول نے (طلقاء) آزاد شدہ کہا ہے، اور مال وغیرہ کے ذریعہ ان کی قلبی مدد کی تھی۔
اس بات کے پیش نظر کی تھی کہ مسلمانوں کے خلاف جو ان کے دلوں میں کینے چھپے ہیں وہ ختم ہو جائیں اور بعض لوگوں کے دلوں میں جو حب دنیا اور اس کی رنگینیوں سے دلچسپی رکھتے تھے وہ بجھ جائیں۔
نبی اکرم یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ سرداران قریش جو کچھ ان کے ہاتھ میں تھا (سرداری قوم) اس کو چھوڑ نے کے بعد بادل نخواستہ اسلام میں شامل ہوئے ہیں اور سردست ان کے پاس اس نئے اسلام کو اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا جبکہ اسلام ایک عظیم دین ہے پھر بھی وہ اس کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں تھے۔
اس کے علاوہ آئندہ دنوں میں جزیرہ عرب کے باہر کی اسلام دشمن طاقتیں مسلسل ڈرا رہیں تھیں اور اس کا نظیر صاحب قوت و قدرت حکومتیں تھیں۔
اور یہ بالکل فطری بات تھی کہ اس کا سبب مسلمانوں کا تحول ان حکومتوں کے لئے اور حیرت انگیز تھا جو حکومتیں اپنے آس پاس کے لوگوں کو ڈرا دھمکا رہیں تھیں ہر چند کہ ان کی گیدڑ بھبھکی کے مقابل مسلمانوں کے پاس حفاظت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
لہٰذا نص کی مکمل پیروی، اس اجتہادی روش کے سامنے جو نص شرعی اور نص نبوی کے مقابل علم بغاوت بلند کئے ہے، مدد کی خواہاں ہے جبکہ ایک لحاظ سے نص شرعی و نبوی کا مرکز حضرت علی ہیں اور دوسرے لحاظ سے وجود ظاہری میں اس نبوی موقف کے مصداق بھی حضرت علی ہی ہیں۔
رسول خدا نے فرمایا:
”مَن اطاعنی فقط اطاع اللّٰه و مَن عصانی فقد عصی اللّٰه و مَن اطاع علیاً فقد اطاعنی و مَن عصی علیاً فقد عصانی
“
جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور جس نے علی کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
”انا و علیّ حجة اللّٰه علی عباده
“
ہم اور علی بندگان خدا پر حجت خدا ہیں۔
قال رسول اللہ:
”اُوحِیَ اِلَیَّ فی علیّ ثلاث، انه سید المسلمین، امام المتقین، قائد الغرّ المحجّلین
“
اللہ نے علی کے سلسلہ میں میرے پاس تین چیزوں کے بارے میں وحی نازل کی کہ: ۱ ۔وہ سید المسلمین ۲ ۔امام المتقین ۳ ۔قائد الغر المحجلین ہیں۔
قال النبیّ : ”علیّ مع الحق والحق مع علی و لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامة
“
علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر ہم سے ملاقات کریں گے۔
اور آپ کا قول حضرت علی کے بارے میں گذر چکا ہے کہ ”الحق مع ذا الحق مع ذا
“
یہ اور اس کے مثل نصوص نبوی سے ان اصحاب نے یہ جانا کہ رسول اکرم نے اس عظیم امر کو علی کے لئے ثابت کیا ہے یہ وہ ہیں جو حق کے ساتھ ہیں اور حق پر ہیں اور ان دونوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ بات گذر چکی ہے کہ رسول نے قرآن و اہلبیت کو ایک دوسرے کا ساتھی و ہمنوا بتایا ہے اوراس بات کی ضمانت لی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہونے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ حوض کوثر پر ہم سے ملاقات کریں گے۔
اس کے بعد یہی بات حضرت علی سے مخصوص کی اور فرمایا: ”علی مع القرآن والقرآن مع
فخر رازی کہتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب ہمیشہ بسم اللہ کو بآواز بلند کہا کرتے تھے اور یہ بات تواتر سے ثابت ہے اور جو کوئی بھی دین میں علی کی اقتدا کرے گا وہ ہدایت یافتہ ہے اور اس بات کی دلیل رسول کا یہ قول ہے: ”اللّٰهم ادر الحق مع علیّ حیث دار
“ خدایا حق کو اس طرف موڑ جدھر علی جائیں تفسیر کبیر، ج ۱ ، ص ۲۰۴ ، باب الجہر بالبسملة
علی، لن یفترقا حتی یردا علی الحوض
“
جب قرآن حق ہے اوراس میں شک و شبہ کی گنجائش بھی نہیں ہے اور علی قرآن کے ساتھ ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ علی حق کے ساتھ ہیں اور بالکل واضح ہے کہ علی حق پر ہیں لہٰذا ان کی اتباع اسی طرح واجب ہے جس طرح حق کی اتباع واجب ہے۔
یہ وہ اہم دلائل ہیں اس گروہ کے جواتباع نص کو واجب کہتے ہوئے علی سے تمسک کو ضرورت دین سمجھتے ہیں اور ان کی مخالفت کو ناجائز،اور ان کا موقف حیات رسول ہی میں سب پر واضح تھا۔
محمد کرد علی کہتے ہیں: کہ عصر رسول ہی میں بزرگ صحابہ کرام ولایت علی کے حامی تھے، جیسا کہ سلمان فارسی کہتے ہیں کہ ہم نے رسول کی بیعت مسلمین کے اتحاد، علی ابن ابی طالب کے امام اور ان کی ولایت کے لئے کیا تھا۔
انھیں کے مانند ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ لوگوںکو پانچ چیزوں کا حکم دیا گیا تھا انھوں نے چار کو اپنایا اور ایک کو چھوڑ بیٹھے جب ان سے ان چاروں کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا کہ: نماز، زکاة، ماہ رمضان کا روزہ اور حج۔
پوچھا گیا وہ کیا چیز ہے جس کو چھوڑ دیا گیا: تو کہا کہ ولایت علی بن ابی طالب ، پوچھنے والے نے کہا کہ کیا یہ بھی ان چیزوںکے ہمراہ فرض تھی۔
توابوسعید نے کہا: ہاں۔
اور انھیں کے ہمرکاب تھے، ابوذر غفاری، عمار بن یاسر، حذیفہ بن الیمان و ذو الشہادتین خزیمہ بن ثابت، ابو ایوب انصاری، خالد بن سعید بن العاص، قیس ابن سعد ابن عبادہ۔
اور اس حقیقت کی جانب ڈاکٹر صبحی صالحی مائل ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ خود حیات رسول
میں شیعہ گروہ موجود تھا جو پروردہ رسول حضرت علی کے تابع تھے، ابوذر غفاری، مقداد بن الاسود، جابرابن عبد اللہ، ابی ابن کعب، ابوطفیل عامر بن واثلہ، عباس بن عبد المطلب اور ان کے سارے فرزند، عمار بن یاسر ابو ایوب انصاری یہ سب شیعیان علی تھے۔
کلمہ(شیعہ) کی اصطلاح بھی کوئی نئی نہیں ہے بلکہ رسول کے حیات مبارک کے آخری دنوں میں رائج ہوئی ہے جیسا کہ بعض افراد کا نظریہ ہے بلکہ رسول کی زندگی کے ابتدائی دنوں میں اور آخری ایام میں اس لفظ کی تکرار فرماتے تھے تاکہ علی کی پیروی کرنے والوں پر دلالت کرے اوران کواس بات کی بشارت دی کہ وہ حق پر ہیں اور کامیاب ہیں اور وہ خیر الناس ہیں۔
مفسرین و حافظین قرآن نے یہ بات لکھی اور کہی ہے کہ جب یہ آیت(
ان الذین آمنوا و عملوا الصالحات اولٰئک هم خیر البریة
)
، ایمان دار اور نیک عمل انجام دینے والے یقینا بہترین گروہ ہیں، نازل ہوئی تو رسول نے فرمایا: ”انت یا علی و شیعتک
“
اے علی! وہ نیک گروہ (خیر البریہ) تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔
سیوطی نے کہا کہ ابن عساکر نے جابربن عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ ہم سب رسول کے پاس بیٹھے تھے اور علی وارد ہوئے تو رسول نے ان کودیکھ کر فرمایا: ”والذی نفسی بیده ان هذا و شیعته لهم الفائزون یوم القیامة
“ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بیشک یہ (علی) اور ان کے شیعہ کامیاب ہیں اور آیت نازل ہوئی:(
ان الذین آمنوا وعملوا الصالحات اولٰئک هم خیر البریة
)
، جب کبھی علی آتے تواصحاب رسول بے ساختہ کہہ اٹھے خیر البریہ آگئے اور ابن عدی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو رسول نے علی سے کہا: ”ہو انت و شیعتک یوم القیامة راضین مرضین“ وہ تم اور تمہارے شیعہ ہیں جو روز محشر خدا سے اور خدا ان سے راضی ہے، ابن مردویہ نے اسی آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ رسول نے کہا: ”انت و شیعتک موعدی و موعدکم الحوض اذا جائت الامم للحساب تدعون غراً محجّلین“ تم او رتمہارے شیعوں اور میری وعدہ گاہ حوض کوثر ہے جب امتیں حساب کتاب کے لئے آئیں گے تو تم کو نوارنی پیشانی والے ”غر المحجّلین“ کہہ کے پکارا جائے گا۔
راستہ کی نشاندہی
وہ اصحاب جو شیعیان علی تھے ان کا نظریہ یہ تھا کہ خلافت بنی ہاشم اور ان کے سردار سے خارج نہیں ہے اور اس پر رسول کی تاکید بھی ہے اور مستقل لوگوں کو اس بات پر اکسایا ہے کہ علی اور اہل بیت رسول سے متمسک رہیں، لیکن سقیفائی حادثات نے حالات کو یکسر بدل دیااور علی اور ان کے حامیوں کے لئے یہ بہت بڑا المیہ تھا، جبکہ کوئی ایک بھی ان کے ہم پلہ نہ تھا، علامات و نشانیوں کے باوجود اجتہادی مسلک کے پیرو اس مسئلہ (خلافت) میں ارادہنبوت کے حامی نہیں تھے ان کے سرداروں میں سے ایک نے ا بن عباس سے صراحتاً کہا: قریش اس بات سے کترا رہے ہیں کہ نبوت و خلافت خاندان بنی ہاشم میں جمع ہو جائے۔
اور سارے حادثات اسی ناپسندیدگی کے باعث وجود میں آئے جس کے آثار سقیفہ بنی ساعدہ کی صورت میں نمودار ہوئے۔
اس مسلک کے ارادے کے اثرات حضرت علی کے پیروؤں پر پوشیدہ نہیں تھے بلکہ ان افراد کے بیچ ایسے باشعور افراد تھے جواس بات کو بخوبی درک کر رہے تھے کہ قریش کی ساری کوشش اس بات کی ہے کہ اس (خلافت) کو سردار قریش اور ان کے فرزندوں سے چھپالیا جائے جیسا کہ براء بن عازب نے بیان کیا کہ: میں ہمیشہ بنی ہاشم کا دوست تھا جب رسول کی وفات ہوئی تو مجھ کو اس بات کا ڈر پیدا ہوا کہ قریش کہیں بنی ہاشم سے خلافت کو ہتھیا نہ لیں، اس وقت میری کیفیت ایک حواس باختہ شخص کی سی تھی، اور رسول کی وفات کے سبب میں بہت غمزدہ تھا میں بنی ہاشم کے پاس آمد و رفت کر رہا تھا تو وہ حجرہ رسالت میں جمع تھے اور میں قریش کے بزرگوں کا جائزہ لینے جارہا تھا، اور عمر و ابوبکر کی وفات کے وقت بھی میں اسی کیفیت میں تھا، اتنے میں کسی کہنے والے نے یہ آواز لگائی! لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہیں، دوسرے نے ہانک لگائی کہ ابوبکر کی بیعت کرلی گئی۔
تھوڑی ہی دیر میں کیا دیکھا کہ ابوبکر دکھائی دیئے اور عمر بن الخطاب ابوعبیدہ جراح اور سقیفائی گروہ ان کے ساتھ تھا وہ سب ایک کمر بند کا تنگ گھیرا بنائے تھے اور جو کوئی بھی ادہر سے گذرتا تھا اس کوزبردستی پکڑ کر لاتے تھے اور ابوبکر کے سامنے پیش کرتے تھے اور اس کے ہاتھ کو بڑھا کر ابوبکر کی بیعت لے لیتے تھے وہ چاہے راضی ہو یا نہ ہو۔
میں مبہوت رہ گیا دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا، اوربے تکان بھاگتا ہوا محلہ بنی ہاشم آیا تو دروازہ بند پایا میں نے دروازے کو بہت زور سے کھٹکھتایا اور چیخا کہ لوگوں نے ابوبکر ابن ابی قحافہ کی بیعت کرلی ہے تو ابن عباس نے اندر سے آواز دی روز قیامت تک تمہارے ہاتھ بندھے رہیں، میں نے تم لوگوں کوایک بات کا حکم دیا تھا مگر میرے حکم کی نافرمانی کی! میں اس وقت عجیب کیفیت میں مبتلا ہوگیا اور رات میں مقداد، سلمان، ابوذر، عبادہ بن صامت، ابا الہیثم بن تیہان، حذیفہ بن الیمان کو دیکھا کہ وہ لوگ اس امر (خلافت) کو مہاجرین کی شوریٰ کے درمیان پیش کر کے اس کا حل تلاش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سقیفہ کے حادثہ اور ابوبکر کی اچانک بیعت سے علی کے طرفداروں کا موقف بیش از پیش واضح ہونے لگا۔
یہ تو بہت چھوٹی سی بات تھی جس کو براء نے بیان کیا، اس کے بعد دوسرے بہت سارے مراحل ایک ناآگاہ اور اچانک بیعت کے سبب وجود میں آئے اسی حوالے سے سلمان نے کہا کہ: تم لوگوں نے ایک بوڑھے کا انتخاب کرلیااور اپنے نبی کے اہل بیت کو چھوڑ دیا اگر تم اہلبیت رسول کو اپنا رہنما بناتے تو تم لوگوں میں کسی دو کے درمیان بھی کسی قسم کا اختلاف پیدا نہ ہوتا اور ان کی ہمراہی میں خوشحالی کی زندگی بسر کرتے۔
جب لوگوں کی اکثریت نے ابوبکر کی بیعت کی اور ابوبکر و عمر دونوں نے اس مسئلہ پر بڑا زور دیا اور شدت بھی برتی، تو اس وقت ام مسطح بن اثاثہ باہر نکلیں اور قبر رسول پر کھڑے ہوکر یہ اشعار پڑھے:
آپ کے بعد ایسے حادثات پےش آئے کہ اگر اپ زندہ ہوتے تو وہ وجود میں نہ آتے، ہم نے آپ کو اس طرح کھودیا جس طرح زمین میں بڑے بڑے قطروں والی بارش سما جاتی ہے، آپ کی قوم میں تفرقہ پڑگیاہے لہٰذا ان کی طرف نظر عنایت کیجئے۔
گذشتہ بیان میں حادثات سقیفہ میں براء ابن عازب کا بیان گذر چکا ہے کہ انھوں نے اصحاب سے ملاقات کی اور بات یہاں ان کے قول پر ختم ہوئی تھی کہ: میں دل شکستہ ہوا، جب رات ہوئی تو میں نکل پڑا جب مسجد میں داخل ہوا تو مجھ کو اس وقت مسجد سے رسول کے تلاوت قرآن کی آواز کا گمان ہوا، میں اپنی جگہ ٹھٹک گیا، باہر بنی بیانہ کے کشادہ مکان میں آیا تو وہاں میں نے کچھ لوگوں کو سرگوشی کرتے پایا، جب میں ان کے پاس گیا تو وہ سب خاموش ہوگئے میں پلٹ پڑا۔
ان لوگوں نے مجھے پہچان لیا میں نے کسی کو نہیں پہچانا، انھوں نے مجھے آواز دی، میں ان کے پاس گیا، تو کیا دیکھا کہ مقداد بن الاسود، عبادہ بن صامت، وہاں موجود ہیں اور حذیفہ ان سب سے مخاطب ہوکر کہہ رہے ہیں کہ وہ اس امر (خلافت) کو حاضرین کی شوریٰ (کمیٹی) کے سامنے پیش کریں گے۔
اس کے بعد کہا: ابیّ بن کعب کے پاس چلتے ہیں وہ امت کے ارادوں سے قطعی واقف ہے، براء کہتے ہیں کہ ہم سب ابیّ بن کعب کے پاس گئے اور دق الباب کیا وہ دروازے کے پیچھے آیا اور پوچھا کون؟
مقداد نے کہا: ہم ۔
اس نے کہا: کیا بات ہے؟
مقداد نے کہا: دروازہ کھولو کچھ اہم بات پر گفتگو کرنی ہے جس کے لئے محفوظ جگہ ضروری ہے۔
اس نے کہا: ہم دروازہ نہیں کھولیں گے میں سمجھ گیا تم لوگ کس لئے آئے ہو؟ تم لوگ اس معاملہ( بیعت) پر نظر ثانی کرنا چاہتے ہو؟
ہم سب نے ایک زبان ہوکر کہا: ہاں۔
اس نے پوچھا: کہ کیا حذیفہ تم لوگوں کے ساتھ ہیں؟
ہم سب نے کہا: ہاں۔
اس نے کہا حذیفہ کی بات آخری ہوگی، خدا کی قسم میں دروازہ کھول رہا ہوں تاکہ حالات معمول پر رہیں اس کے بعد جو حالات پیش آئیں گے وہ ان سے بدتر ہوں گے اور ہم خدا سے اس کا گلہ کرتے ہیں۔
ابیّ ابن کعب اس راز کو اپنے سینہ میں لئے پھرتا رہا برسوں بعد اس کو فاش کرنا چاہا، اے کاش! اس کو موت ایک دن کی مہلت دیدیتی۔
علی بن صخرہ سے روایت ہے کہ : میں نے ابی ابن کعب سے کہا کہ اصحاب رسول آپ کا کیا حال ہے؟ ہم دور سے آئے ہیں آپ سے خیر کی امید رکھتے ہیںکہ آپ ہمارے ساتھ نرمی برتیں گے۔
انھوں نے کہا کہ خدا کی قسم اگر اس جمعہ تک زندہ رہا تو تم لوگوں کو ایک راز بتاؤں گا جس کے برملا کہنے پر تم لوگ چاہے زندہ رکھو یا مجھے قتل کردو۔
روز جمعہ میں گھر سے نکلا تو کیا دیکھا کہ مدینہ کی گلیوںمیں لوگوں کا سیلاب امڈ آیا ہے میں نے پوچھا کہ، کیا ہوا؟تو لوگوں نے بتایا کہ سید المسلمین ابیّ ابن کعب کا انتقال ہوگیا۔
ابن سعد راوی ہیں کہ خدا قسم میں اخفاء راز میں اس دن جیسا دن نہیں دیکھا جیسا اس شخص نے راز کو چھپایا تھا۔
حاکم کی روایت ہے کہ ابیّ بن کعب نے کہا کہ اگر میں اس جمعہ تک زندہ رہا تو وہ بات بتاؤں گا جو رسول اکرم سے سنا ہے اور اس کو بتانے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کروں گا۔
مشہور مورخ یعقوبی کہتے ہیں کہ مہاجرین و انصار میں بہت سارے افراد نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا اور علی کی طرف مائل ہوئے من جملہ عباس بن عبد المطلب، فضل بن عباس، زبیر بن العوام، خالد بن سعید، مقداد بن عمرو، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار بن یاسر، براء بن عازب، ابیّ بن کعب۔
شاید اسی کے سبب بعض محققین اور مستشرقین کا خیال خام ہے کہ سقیفہ کے حادثہ کے بعد تشیع وجود میں آئی ہے، مغربی مورخ گولڈ شیارڈ کہتا ہے کہ خلافت کی مشکل کے وقت بزرگ اصحاب کے درمیان اس فرقہ (شیعیت) نے وجود پایا، اور اس گروہ نے خلفاء ثلاثہ ابوبکر، عمر، عثمان، کے انتخاب کی ملامت کی، جو کہ خاندان رسالت سے کسی قسم کی کوئی قربت نہیں رکھتے تھے او راسی سبب اس گروہ نے حضرت علی کو اس خلافت کے لائق جانتے ہوئے ان کو صاحب فضیلت جانا اور علی کو رسول کے قریب ترین لوگوں میں شمار کیا اور جو چیز اس میں مزید فضیلت کا سبب بنی وہ دختر رسول حضرت فاطمہ کا شوہر ہونا تھااور اس گروہ کو سنہری موقع نہ مل سکا جس میں اپنی بات ببانگ دہل کہہ سکیں۔
خالد بن سعید بن العاص کو رسول اکرم نے کسی کام کے لئے بھیجا تھا جب رسول کی وفات ہوگئی اور لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کر لی تو اس وقت واپس آیا جب اس سے بیعت طلب کی گئی تو اس نے انکار کردیا۔
عمر نے کہا: چھوڑ دو میں اس کو دیکھ لیتا ہوں۔
ابوبکر نے ان کو روکا، اسی طرح ایک سال کا عرصہ بیت گیا۔
ابوبکر جارہے تھے وہ اپنے دروازے پر بیٹھا تھا، خالد نے ابوبکر کو آواز دی، ابوبکر آپ کو بیعت چاہیئے؟
انھوں نے کہا: ہاں۔
اس نے کہا: آؤ، وہ آئے اور خالد نے ابوبکر کی بیعت اپنے دروازے پر بیٹھے بیٹھے کرلی۔
حضرت علی کے طرفداروں کی یہ رسہ کشی ان دنوں تک چلی، جس دن تک عثمان کی زمامداری کا اعلان نہیں ہوگیا، جب تک عثمان کی تولیت کا اعلان ہوتا ان دنوں تک اصحاب علی کا موقف سب پر واضح ہوگیا تھا تیسرے دن جس دن تک عمر نے لوگوں کو مشورہ کی اجازت دی تھی وہ آخری دن تھا۔
عبد الرحمن بن عوف نے کہا: اے لوگو! مجھے ان دو لوگوں یعنی عثمان و علی کے بارے میں مشورہ دو۔
عمار بن یاسر نے کہا: اگر تم یہ چاہتے ہو کہ لوگوں کا اختلاف نہ ہو تو علی کی بیعت کرو۔
مقداد نے کہا: سلمان سچ کہتے ہیں اگر تم نے علی کی بیعت کی تو ہم بسر و چشم اس امر میں تمہاری اتباع کریں گے۔
عبد اللہ بن ابی شرح
نے کہا:اگر تم چاہتے ہو کہ قریش اختلاف رائے نہ کریں تو عثمان کی بیعت کرو۔
عبد اللہ بن ربیعہ مخزومی نے کہا: اس نے سچ کہا اگر تم نے عثمان کی بیعت کی تو یہ تمہارے ساتھ ہیں۔
عمار بن یاسر نے ابن ابی سرح کو بہت برا بھلا کہا اور کہا کہ تو کب سے اسلام کا خیر خواہ ہوگیا؟
بنی ہاشم اور بنی امیہ میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں تو عمار کھڑے ہوئے اور کہا: اے لوگو! خدا نے تم کو اپنے نبی کے ذریعہ سرفراز کیا اپنے دین کے سبب تم کو صاحب عزت بنایا آخر کب تک تم مسئلہ خلافت میں اہل بیت سے روگردانی کرتے رہوگے۔
ابن عبد البر عبد اللہ ابن ابی سرح کے حالات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ فتح مکہ سے پہلے ایمان لایا تھا اور ہجرت کر گیا تھا اور رسول کے پاس وحی کی کتابت کرتا تھا پھر مرتد ہوگیا اور مشرک ہوگیا اور قریش مکہ کے پاس رہنے لگا اور کہتا پھر تا تھا کہ میں جیسے چاہتا تھا ویسے محمد کو گھما دیتا تھا علی (عزیز حکیم) لکھتے تھے تو میں نے کہا یا (علیم حکیم) تو انھوں نے کہا کہ دونوں صحیح ہے فتح مکہ کے وقت رسول نے اس کے قتل کا فرمان جاری کیااور فرمایا تھا کہ اگر کعبہ کے پردے کے پیچھے بھی چھپے تو بھی قتل کردو، کیونکہ اس نے عبد اللہ بن خطل، مقیس بن حبابہ کو قتل کیا تھا یہ وہاں سے بھاگا اور عثمان کے پاس جاکر پناہ لی یہ عثمان کا رضاعی بھائی تھا عثمان کو اس کی ماں نے دودھ پلایا تھا، عثمان نے اس کو چھپا دیا او رجب مکہ کی فضا پر امن ہوگئی تو عثمان رسول کے پاس لیکر آئے اور اس کی امان چاہی رسول بہت دیر تک خاموش رہے اس کے بعد کہا: ”بہتر ہے“ جب عثمان چلے گئے تو رسول نے موجودہ لوگوں سے کہا کہ میں صرف اس لئے خاموش ہوگیا تھا کہ اتنے میں ایک شخص اس کی گردن اڑادے انصار میں سے ایک نے کہا: آپ نے اشارہ نہیں کیا؟ آپ نے فرمایا: یہ رسالت کے شایان شان نہیں استیعاب، ج ۳ ، ص ۵۰ ، رقم ۱۵۷۱
بنی مخزوم سے ایک شخص نے کہا کہ اے فرزند سمیہ! تم اپنی حد سے باہر نکل گئے ہو تم کون ہوتے ہو جو قریش کو اپنے میں سے اپنا حاکم معین کرنے سے روکو۔
سعد نے کہا: اے عبد الرحمن! اپنے کام کر گذرو، اس سے پہلے کہ لوگوں میں فتنہ برپا ہوجائے، اس وقت عبد الرحمن نے حضرت علی کے سامنے شیخین (ابوبکر و عمر) کی پیروی کی تجویز رکھی تو آپ نے فرمایا: کہ میں اپنے ذاتی فیصلہ پر عمل کروں گا (ان دونوں کی اتباع نہیں کروں گا) جب عثمان کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی تو انھوں نے قبول کرلی اوران کی بیعت کرلی گئی۔
حضرت علی نے فرمایا: یہ پہلا دن نہیں ہے جب تم لوگ ہمارے خلاف اکٹھے ہوئے ہو لہٰذا میرا راستہ صبر جمیل کا ہے اور اللہ تمہارے بیان کے مقابلہ میں میرا مددگار ہے بخدا تم نے خلافت ان کے حوالے اسی لئے کی تھی تاکہ وہ اس کو تمہارے حوالہ کردیں، اور خدا ہر روز ایک نئی شان والا ہے۔
عبد الرحمن نے کہا: اے علی ! ان لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھریئے گا وہ اس بات کا ارادہ کئے تھا کہ عمر ابوطلحہ کو حکم دے تاکہ اپنے مخالف کی گردن اڑادیں، اتنے میں حضرت علی اٹھ کھڑے ہوئے اور کہتے ہوئے نکل آئے کہ عنقریب مقررہ مدت پوری ہو جائے گی۔
عمار نے کہا: اے عبد الرحمن! خدا کی قسم تم نے اس ذات کا ساتھ چھوڑا ہے جو حق کے ساتھ بہترین فیصلہ کرنے والا تھا اور معاملات میں حق و انصاف سے کام لیتا تھا۔
مقداد نے کہا: خدا کی قسم اہل بیت رسول میں رسول کے بعد اس شخص کے مثل کسی کو نہیں پایا۔
قریش پر تعجب کا مقام ہے! کہ انھوں نے اس شخص کو چھوڑ دیا جس سے بہتر کسی کو عدل کے ساتھ فیصلہ کرنے والا، اعلم اور متقی میں نہیں جانتا، خدا کی قسم اے کاش میرا کوئی مددگار ہوتا۔
عبد الرحمن نے کہا: اے مقداد! تقویٰ الٰہی اختیار کرو مجھے خوف ہے کہ تمہارے خلاف فتنہ نہ برپا ہوجائے۔
جب عثمان کی تولیت کا مسئلہ ختم ہوگیا تو دوسرے دن مقداد نکلے اور عبد الرحمن بن عوف سے ملاقات ہوگئی تو اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا: اگر تو نے رضایت پروردگار کی خاطر یہ کام انجام دیا ہے تو خدا تجھ کو اجر دے اور اگر حصول دنیا کی خاطر یہ ڈھونگ رچایا ہے تو خدا تیرے مال دنیا میں بہتات کرے۔
عبد الرحمن نے کہا: سنو! خدا تم پر رحمت نازل کرے، سنو! مقداد نے کہا: میں بالکل نہیں سنوں گا اوراس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا، اور وہاں سے حضرت علی کے پاس گئے اور کہا کہ آپ قیام کریئے ہم آپ کے شانہ بشانہ رہیں گے۔
حضرت امیر نے فرمایا: ”کس کے ساتھ مل کر جنگ کریں؟“
عمار یاسر آئے اور آواز دی کہ: اے لوگو! اسلام کا فاتحہ پڑھو، کیونکہ نیکیاں ختم ہوگئیں اور منکرات جنم لے چکے ہیں۔
خدا کی قسم اگر میرے مددگار ہوئے توان سب سے جنگ کرتا، خدا کی قسم اگر کوئی ایک بھی ان سے جنگ کرنے کو تیار ہو تو میں اس کی دوسری فرد ہوں گا۔
اس وقت حضرت امیر نے فرمایا: اے ابو الیقطان! خدا کی قسم ان لوگوں کے خلافت میں اپنا مددگار نہیں پا رہا ہوں میں نہیں چاہتا کہ تم لوگوں پر اس چیز کو تحمیل کروں جس کی تم لوگ طاقت نہیں رکھتے۔
یہاں سے علی کے چاہنے والوں کی اکثریت میں اضافہ ہونے لگا بلکہ بسا اوقات تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ حق کو آزاد کرانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں ان سب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔
اگر حضرت امیر ان افرادکی باتوں کو مان لیتے تو حکومت ہاتھ آجاتی، لیکن حضرت کی دور رس
نگاہیں ان خطرات پر تھیں جو ان کے بعد سر اٹھاتے اور خط خلافت کے راہرؤں کے دلوں سے خوب
واقف تھے وہ لوگ ذکر مولائے کائنات کے سبب اکثریت کا اندازہ لگا رہے تھے اور اس بات کی وضاحت جندب بن عبد اللہ ازدی کی اس روایت سے ہو جائے گی۔
جندب کہتے ہیں: کہ میں مسجد رسول میں داخل ہوا تو کیا دیکھا ایک شخص زانو کے بل بیٹھا ہے اور ایسے فریاد کر رہا ہے جیسے اس کی دنیا لٹ گئی ہو اور کہتا جاتا ہے کہ تعجب ہے قریش پر کہ انھوں نے اہلبیت رسول سے خلافت رسول کو دور کردیا جبکہ اہلبیت رسول میں وہ شخص موجود ہے جو اول المومنین، رسول کا چچازاد بھائی، سب سے بڑا عالم، دین الٰہی کا فقیہ اعظم، اسلام کا ان داتا،راہوں کا واقف، صراط مستقیم کا ہادی ہے، قریش نے خلافت کو ہادی، رہبر، طاہر، نقی سے دور کرلیا ان لوگوں نے امت کی اصلاح کی فکر نہیں کی اور نہ ہی مذہب کا بھلا چاہا، بلکہ ان لوگوں نے دنیا کو مقدم کر کے آخرت کو پس پشت ڈال دیا، خدا قوم ظالمین کو اپنی نعمتوں سے دور رکھے۔
میں تھوڑا اس کے قریب گیا اور کہا کہ خدا تم پر رحمت نازل کرے تم کون ہو؟ اور یہ شخص کون ہے؟ اس شخص نے کہا: میں مقداد بن عمرو اور یہ علی بن ابی طالب ہیں۔
جندب کہتے ہیں، میں نے کہا: تم اس اس امر کے لئے قیام کرو تاکہ میں تمہاری مدد کرسکوں؟
اس شخص نے کہا:اے میرے بھتیجے یہ ایک یا دو آدمیوں کا کام نہیں ہے، میں نکل کر باہر آیا اورابوذر سے ملاقات ہوئی میں نے سارا ماجرا بیان کیا، توانھوں نے کہا: بھائی مقداد نے سچ کہا ہے۔
پھر میں عبد اللہ بن مسعود کے پاس آیا اور سارا ماجرا بیان کیا تو انھوں نے کہاکہ مقداد ہم کو بتا چکے ہیں اور ہم نے اس کوشش میں کوتاہی نہیں کی۔
ابن ابی الحدید نے تھوڑے اختلاف کے ساتھ اس روایت کو بیان کیا ہے
خلافت عثمان میں اس کے بعد بہت سارے واقعات رونما ہوئے جو لوگوں کی ناراضگی کا سبب بنے اور نئی حقیقتوں کو دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں کھل گئیں اور عثمانی سیاست کے خلاف یہ اختلاف شروع ہوا اور بڑھتے بڑھتے ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا اور لوگوں کو اس بات کا احساس ہوگیا جو خطا انھوں نے حضرت علی کے حق میں کی تھی ۔
اور اس راہ میں لوگوں نے اس بات کو درک کیا کہ علی اور اہلبیت سے روگردانی کے بہت گہرے نتیجے نکلے۔
علی کے ابتدائی شیعہ، عمار، ابن مسعود، ابوذر غفاری، راہ راست کے قیام اور حق کو اصلی مرکز تک پلٹانے میں پیش پیش تھے اور ان کی دعوت پر ایک کثیر تعداد گوش برآواز ہوگئی اور بہت تیزی کے ساتھ کلامی رد و بدل اسلحہ کی صورت میں خلیفہ ثالث کے خلاف تبدیل ہوگئی۔
حذیفہیمانی جو کہ علی کے پہلے درجہ کے شیعہ تھے وہ بستر موت پر تھے، جب ان سے خلافت کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ میں وصیت کرتا ہوں کہ عمار کی پیروی کرنا۔
لوگوں نے کہا: وہ علی سے جدا نہیں ہوئے۔
حذیفہ نے کہا: حسد جسم کو ہلاک کردیتا ہے! علی سے قربت کے سبب تم لوگوں کوعمار سے نفرت ہے، خدا کی قسم عمار سے علی افضل ہیں مٹی اور بادل میں کتنا فرق ہے عمار احباب میں سے ہیں۔
حذیفہ جانتے تھے کہ اگر وہ لوگ عمار کے ساتھ رہیں گے تو وہ علی کے ساتھ تو ہیں ہی۔
جب حذیفہ کو یہ معلوم ہوا کہ حضرت (ذی قار نامی مقام پر) پہنچ گئے ہیں اور لوگوں کو جنگ کے لئے آمادہ کر رہے ہیں تو اپنے ساتھیوں کو طلب کیا اور ان کو ذکر خدا، زہد دنیا اور آخرت کی طرف رغبت کی دعوت دی اور کہا کہ امیر المومنین جو کہ سید المرسلین کے وصی ہیں ان سے ملحق ہو جاؤ اور حق یہی ہے کہ ان کی مدد کرو۔
حذیفہ فتنہ کے خطرہ سے خائف تھے اور لوگوں کو حضرت کی ولایت کی دعوت دے رہے تھے جن دنوں شیعیان علی کو دعوت دی جارہی تھی اور یہ بات کہی کہ جو گروہ علی کی ولایت کی دعوت دے اس گروہ سے متمسک ہو جاؤ کیونکہ وہ حق اور راہ ہدایت پر ہیں۔
ابوذر مسجد میں بیٹھ کر کہا کرتے تھے کہ، محمد علم آدم اور انبیاء کے جملہ فضائل کے وارث ہیں اور علی ابن ابی طالب وصی محمد اور وارث علم محمد ہیں، اے نبی کے بعد سرگرداں امت! اگر تم لوگوں نے اس کو مقدم کیا ہوتا جس کو خدا نے مقدم کیا اور اس کو مؤخر کیا ہوتا جس کو خدا نے مؤخر کیا اور اہل بیت رسول کی ولایت و واراثت کا اقرار کیا ہوتا تو ہر طرف و ہر طرح سے خوشحال رہتے، ولی خدا اپنے حق سے محروم نہ رہتا، نیز و اجبات الٰہی پر عمل ہوتا اور کوئی دو فرد بھی نہ ملتی جو حکم الٰہی میں اختلاف نظر رکھتے اور اہلبیت کے پاس تم کو قرآن و سنت کا علم مل جاتا، مگر جو تم لوگوں نے کیا سو کیا، اپنے کرتوتوں کی سزا بھگتو، عنقریب ظالمین کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس صورت میں پلٹائے جائیں گے۔
عدی بن حاتم کہتے تھے کہ، خدا کی قسم اگر علم کتاب (قرآن) اور سنت نبوی کی بات ہے تو وہ یعنی علی تم لوگوں میں ان دونوں کے بہترین عالم ہیں، اگر اسلام کی بات ہے تو یہ رسول کے بھائی اور مرکز اسلام ہیں اگر زہد و عبادت محور ہے تو لوگوں میں ان کا زہد نمایاں اور عبادت آشکار ہے، اگر عقل اور مزاج معیار ہے تو لوگوں میں عقل کل اور مزاج کے اعتبار سے کریم النفس انسان ہیں۔
بیعت کے بعد وہ اصحاب جو حضرت علی کے خط تشیع پر گامزن تھے وہ پیغام جاری و ساری اور بڑھتا جارہا تھا اور روز بروز اس کے دائرہ اطاعت میں وسعت آتی جارہی تھی اس میں اصحاب و تابعین شامل ہو رہے تھے، لہٰذا ہم حضرت علی کے روز بیعت، مالک اشتر کو یہ کہتے ہوئے نہیں بھول سکتے کہ، اے لوگو! یہ وصی اوصیاء، وارث علم انبیاء، عظیم تجربہ کار، بہترین دین داتا، جس کے ایمان کی گواہی کتاب نے دی اور رسول نے جنت کی بشارت دی، جس پر فضائل ختم ہیں، متقدمین و مؤخرین نے ان کے علم ، فضل اور اسلام میں سبقت پر شک نہیں کیا ۔
مالک اشتر نے اہل کوفہ کی نیابت میں حضرت علی کی بیعت کی، طلحہ و زبیر نے مہاجرین و انصار کی نیابت میں بیعت کی، ابو الھیثم بن تیہان، عقبہ بن عمرو اور ابو ایوب نے مل کر کہا: ہم آپ کی بیعت اس حال میں کر رہے ہیں کہ انصار و قریش کی بیعت ہماری گردنوں پر ہے (ہم ان کی نمایندگی کر رہے ہیں)۔
انصار کا ایک گروہ اٹھا اور گویا ہوا، ان میں سب سے پہلے ثابت بن قیس بن شماس انصاری جو کہ رسول کے خطیب تھے کھڑے ہوئے اور کہا کہ: خدا کی قسم اے امیر المومنین! اگرچہ انھوں نے آپ پر خلافت میں سبقت حاصل کرلی، لیکن دین الٰہی میں پہل نہ کرسکے گو کہ انھوں نے کل آپ پر سبقت حاصل کرلی، لیکن آج آپ کو ظاہری حق مل گیا، وہ لوگ تھے اور آپ تھے لیکن کسی پر بھی آپ کا مقام پنہاں نہیں تھا، وہ جس کا علم نہیں رکھتے تھے اس میں آپ کے محتاج تھے، اور آپ اپنے بے کراں علم کے سبب کبھی کسی کے محتاج نہیں رہے۔
اس کے بعد خزیمہ بن ثابت انصاری ذوالشہادتین (جن کی ایک گواہی دو کے برابر رسول خدا نے قرار دی تھی) کھڑے ہوئے اور عرض کی: یا امیر المومنین ہم نے خلافت کو آپ کے علاوہ کسی کے حوالے سے قبول نہیں کیا، آپ کے سوا کسی کے پاس نہیں گئے، اگر ہم سچے ہیں تو آپ ہماری نیتوں سے بخوبی واقف ہیں، آپ لوگوں میں ایمان پر سبقت رکھتے ہیں، احکام الہٰی کے سب سے بڑے عالم ہیں، رسول خدا کے بعد مومنین کے مولا ہیں، جو آپ ہیں وہ، وہ کہاں! اور جو وہ ہیں، وہ آپ جیسے کہاں!
صعصعة بن صوحان کھڑے ہوئے اور عرض کی: خدا کی قسم اے امیر المومنین! آپ نے خلافت کو زینت بخشی ہے خلافت نے آپ کی زینت میں کوئی اضافہ نہیں کیا، آپ نے خلافت کو بلندی عطا کی اس نے آپ کو رفعت نہیں دی، یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ خلافت آپ کی محتاج ہے۔
سخت ترین مرحلہ!
عثمان کے روح فرسا دوران خلافت کے اختتام کے بعد شیعیان علی کے عروج کا زمانہ تھا، لوگوں کی ہجومی اور ازدحامی بیعت نے حضرت علی کو سریر آراء سلطنت کیا اور زمام حکومت آپ کے سپرد کی، جس کی منظر کشی خود امیر المومنین نے یوں کی ہے ”لوگوں کا ازدحام مجھ پر ایسے ٹوٹ پڑا جیسے پیاسے اونٹ کا غول گھاٹ پر ٹوٹ پڑتا ہے گویا ان کے چرواہے نے ان کو آزاد اور بے مہار چھوڑ دیا ہو لگتا تھا کہ یہ بھیڑ مجھے یا میرے کسی فرزند کو ختم کرڈالے گی۔
مگر اس محبت کا دکھاوا اس وقت بالکل بدل گیا جب بعض اصحاب نے حضرت علی سے گفتگو کی اور علی نے اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ ہم قانون حکومت کو فرمان رسول کے مثل بنانا چاہتے ہیں یعنی سب لوگ عطا و بخشش میں مساوی ہیں اور کسی قسم کا امتیاز نہیں رکھتے، اور یہ وہی کیفیت تھی جس کی بنیاد عمر نے رکھی تھی اور یکسر بدل ڈالا تھا اور عثمان نے آکر من و عن اس کی پیروی کی تھی خاص طور سے عثمان کے وہ اہلکار جو بداخلاقی کے شکار تھے ان کی معزولی (ایک اہم مسئلہ تھا) لہٰذا تنور جنگ بھڑک اٹھا اور حضرت کی خلافت کے آخری لمحات تک جو تقریباً پانچ برسوں پر مشتمل تھا شعلہ ور رہا۔
اور یہ پیس دینے والی جنگوں کی خلیج، جمل و صفین کے دنوں تک باقی رہی اور ان جنگوں نے اکثریت کواپنی لپیٹ میں لے لیا حضرت کے مخلص اور صحیح عقیدے کے شیعہ صرف انگشت شمار ہی رہ گئے، صرف تھوڑے سے افراد کے سوا سب حالات کے تیز دھارے میں بہہ گئے، اور حالات بہت ہی غیر مساعد ہوگئے اور جو بچ گئے ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں تھی جو اتباع و پیروی و اخلاص میں کھرے اتریں، جنگ نے ان سب کو بدبیں کردیا تھا، جس کے سبب جنگ بندی کی پہلی دھوکہ باز آواز پر ان لوگوں نے لبیک کہا (اور جنگ بند کردی) جب امیر المومنین نے اس سازش کا پردہ چاک کر کے ان کو ان کے ارادوں سے باز رکھنا چاہا، تو ان لوگوں نے مخالفت کی اس حد پر قدم رکھ دیا تھا کہ حضرت علی کے قتل، یا دشمن کے سپرد کرنے کی دھمکی تک دے دی تھی، ان کی نیتوں کے پیش نظر عقب نشینی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، کیا یہ لوگوں کے روگردانی کی انتہا نہ تھی۔
کیونکہ انھوں نے واقعہ تحکیم کے سلسلہ میں بہت جلد ندامت و خطا کا اظہار کیا تھا اور اکثریت کی بقاء پر اس امر کا علاج سوچا اور اپنے نفسوں سے کیئے وعدہ کی وفا چاہی یعنی جنگ میں واپسی، ان افراد کی گر گٹ کے مانند آراء کی تبدیلی، اس بات کی غماز ہے کہ یہ لوگ صاحبان بصیرت نہیں تھے اور نہ ہی حضرت علی کے شیعہ تھے بلکہ انھوں نے علی کی شیعیت کا خول چڑھا رکھا تھا اور ان کے عقیدوں میں کسی قسم کی پختگی نہیں تھی اور ان کی یہ حرکتیں اجتہادی اصحاب کی راہ و روش کی مکمل پیروی تھی، جو اولی الامر حضرات کے حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے تھے اور اس اجتہادی اسلحہ کی ضرب اتنی کاری تھی کہ ذات رسالت کے حکم کا انکار ممکن بنا ڈالا۔
اس باغی گروہ کی سرکشی، مزید پیچیدہ ہوگئی جب خود امیر المومنین کواسی دو راہے پر لاکر کھڑا کر دیا کہ آپ ان مخالفین سے جنگوں کا سلسلہ شروع کریں جنھوں نے کچھ علاقوں میں فساد مچا رکھا تھا اور بے گناہوں کو قتل کیا تھا۔
اور نتیجہ اس وقت زیادہ ہی جان لیوا ہوگیا کیونکہ اس جنگ نے آپ کے چاہنے والوں کی قوت کو مضمحل کردیا اور روز بروز وہ سستی و تساہلی کے شکار ہونے لگے اور جہاد کی جانب امیر المومنین کا رغبت دلانا بے سود ہوگیا، جو لوگ آپ کے خاص شیعہ بچ رہے تھے ان کے ارادوں کے تجدید کی ضرورت تھی، اوراس وقت تو قیامت کبریٰ ٹوٹ پڑی جب ایک جہنمی نے آپ کو عبادت کی حالت میں محراب میں شہید کر دیا۔
تاکہ خالص شیعہ کے تربیتی مرکز کو ختم کرسکیں اس سبب آپ کے بڑے فرزند حضرت حسن مجتبیٰ کے پاس ان کے دور حکومت میں قیام کے اس عظیم بوجھ کو اٹھانے کے لئے کوئی سہارا نہیں تھا۔
صحیح اور راسخ عقیدوں کے مالک افراد کا بالکل فقدان تھا نیز بچے ہوئے افراد کی اکثریت نے بھی ساتھ چھوڑ دیاتھا، لہٰذا حسن مجتبیٰ نے جب یہ درک کرلیا کہ اس کیفیت میں اور ان لوگوں کی ہمراہی میں جنگ کو طول دینا معقول نہیں تو ان کے پاس معاویہ ابن ابی سفیان سے صلح کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا۔
معاویہ کے زمام حکومت سنبھالنے کے سبب تشیع بہت ہی اختناقی دور میں داخل ہوگئی، اب معاویہ نے شیعوں کو ظلم کی آخر ی حدوں سے کچلنے اور انتقام کی صورت شروع کردی، اور شیعوں کے بہت تھوڑے سے افراد کے سوا کوئی نہیں بچا، معاویہ نے حجر بن عدی جیسے اور ان کے ساتھیوں کو تراش ڈالا اور قتل کر ڈالا، اپنے بیس سالہ دور حکومت میں بقیہ افراد پر عرصہ حیات تنگ کردیا، اور اذیت کی تمام صورتوں کو ان پر روا جانا۔
ابن ابی الحدید معتزلی نے مدائنی کی ”الاحداث“ نامی کتاب سے یوں نقل کیا ہے کہ: معاویہ نے ۴۱ ھ ء میں اپنے اہلکاروں اور گماشتوں کو یہ لکھ بھیجا کہ ابوتراب اوران کے گھرانے کے جو فضائل ہیں میں ان سے بَری و منکر ہوں، یہ پیغام پاتے ہی ہر شہر و گوشہ و کنار میں ہر منبر پر زبان دراز خطیب چڑھ دوڑے اور علی اوران کی آل پاک پر لعن و طعن شروع کردیا، اس دوران سب سے زیادہ روح فرسا حالات سے اہل کوفہ گذر رہے تھے۔
کیونکہ یہ آپ کے شیعوں کا مرکز تھا، ان پر زیاد بن سمیہ کو مامور کردیا اور بصرہ کی حکومت کو اس سے ضم کردیا، اس نے شیعوں کی چھان بین شروع کردی یہ علی کے شیعوں سے بخوبی واقف تھا کیونکہ حضرت علی کے دور خلافت میں ان لوگوں کے ساتھ رہ چکا تھا لہٰذا جس کو جہاں کہیں دشت و جبل میں پایا موت کے گھاٹ اتار دیا، ان کو ڈرایا دھمکایا، ان کے ہاتھ پیر کاٹ دیئے، آنکھیں پھوڑ دیں، کھجوروں پر سولی دی، عراق سے نکال باہر کیا، اس وقت کوئی بھی سرشناس افراد میں سے نہیں بچا۔
معاویہ نے اپنی حدود مملکت کے چار گوشوں میں یہ لکھ بھیجا کہ مبادا آل علی اور محبان علی کی گواہی کو قبول کیا جائے، عثمان کے چاہنے والوں اور ان کے فدائیوں کو سرآنکھوں پر بٹھاؤ، اور جو لوگ عثمان کے فضائل و مناقب کو بیان کرنے والے ہیں ان کو اپنی مجلسوں کی زینت بناؤ ان کواہمیت دو، انعام و اکرام سے نوازو، اور ان افراد کی فہرست باپ اور قبیلوں کے نام کے ساتھ ہم تک ارسال کرو یہ دھندا شروع ہوا اور دن ورات عثمان کے فضائل کی تخلیق شروع ہوگئی، کیونکہ معاویہ نے اپنے اہلکاروں کو آب و دانہ خیمہ و چادر، خراج (کی معافی) اور عرب میں اس کو اور اس کے خاندان والوں کو فوقیت کی لالچ دی تھی، لہٰذا ہر نگری میں یہ بدعت شروع ہوگئی گھر اور گھر کے باہر اس بدعتی آندھی کی مبالغہ آرائی شروع ہوگئی، اب کیا تھا معاویہ کے اہلکاروں میں، جس کسی کا نام عثمان کے قصیدہ خوانوں کی فہرست میں آجاتا اس کی کایا پلٹ جاتی، اس کا نام مصاحبوں میں شامل، تقرب و شفاعت میں داخل، اور وہ سب اس میں داخل ہوگئے۔
اس کے بعد معاویہ نے دوسرا پلندہ تیار کیا اور اہلکاروں کو روانہ کیا کہ!، عثمان کے فضائل قرب و جوار شہر و دیہات میں اٹے پڑے ہیں”بس“ جیسے ہی میرا خط تم لوگوں کو ملے اصحاب اور گذشتہ دونوں خلیفہ (ابوبکر و عمر) کے فضائل کے لئے لوگوں کو تیار کردو، اور کسی بھی شخص کو ابوتراب کی فضیلت میں حدیث نہ بیان کرنے دو، بلکہ اس حدیث کو اصحاب کی شان میں مڑھ دو، کیونکہ یہ فعل میرے نزدیک محبوب، میری آنکھوں کی ٹھنڈک، نیز ابوتراب اور ان کے شیعوں کو کچل دینے کا سامان ہے، معاویہ نے عثمان کی فضیلت و منقبت کے لئے ان لوگوں پر بہت زور دیا تھا۔
اس کا یہ پلندا لوگوں کے سامنے پڑھا گیا جس کے سبب اصحاب کی فضیلت میں فوراً سے پیشتر بہت ساری حدیثیں تخلیق کردی گئیں جن کی کوئی حقیقت نہیں تھی اور لوگوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، یہاں تک کہ اس مہم میں منبروں کا دھڑلے سے استعمال کیا گیا، اور یہ ذمہ داری معلمین کے حوالے کردی گئی، انھوں نے ان کے بچوں اور نوجوانوں کو کافی مقدار میں سکھایا اور قرآن کی مانند اس کی روایت اور تعلیم دی، حد یہ کہ ان کی لڑکیوں، عورتوں، خادموں اور ہرکاروں کو اس کی مکمل تعلیم دی گئی، اور ان لوگوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اس کے بعد حدود مملکت کے تمام شہروں کے لئے صرف ایک تحریر لکھی: ”دیکھو جس کے بھی خلاف یہ ثبوت مل جائے کہ یہ علی اوراولاد علی کا چاہنے والا ہے اس کا نام دفتر سے کاٹ دو اور وظیفہ بند کردو“
اس کے ساتھ ایک ضمیمہ بھی تھا ”جس کسی کو بھی ان سے میل جول رکھتے پاؤ اس کی بیخ کنی کردو اور اس کا گھر ڈھا دو“
اب اس سے زیادہ اور مشکل دور عراق میں نہیں آسکتا تھا خاص طور سے کوفہ میں، حد یہ کہ اگر کسی شخص کے بارے میں مطمئن ہونا چاہتے تھے کہ یہ علی کا شیعہ ہے یا نہیں؟ تو اس کے گھر میں جاسوس کو چھوڑ دیتے تھے، وہ شخص اپنے غلام و خادم سے ڈرتا تھا جب تک اس سے مطمئن نہیں ہوجاتا تھا کسی قسم کے راز کی بات نہیں کرتا تھا۔
من گڑھت حدیثوں کی بھرمار اورالزامات کی بارش ہوگئی اوراس (جرم) میں فقیہوں، قاضیوں اور امیروں کے ہاتھ رنگین تھے۔
سب سے بڑی مصیبت تو یہ تھی کہ جو قاریان قرآن اور رواویان حدیث تھے اور وہ لوگ جو تقویٰ و زہد کا اظہار کرتے تھے، انھوں نے بھی حدیث کی تخلیق میں خاطر خواہ حصہ لیا تاکہ امیر شہر کی نگاہوں میں باوقار اور ان کی نشستوں میں مقرب، مال دو دولت کے حصہ دار اور مکانوں کے مالک بن جائیں، حد یہ کہ یہ خودساختہ حدیثیں جب ان متدین افراد کے ہاتھوں پہنچیں جو جھوٹ اور بہتان کو حرام گردانتے تھے تو انھوں نے بے چوں و چرا ان کو قبول کرلیں اوران کو حق اور سچ سمجھتے ہوئے دوسروں سے نقل بھی کیں، اگر وہ یہ جانتے کہ یہ باطل ہیں تو نہ ہی اس کو نقل کرتے اور نہ ہی اس کی حفاظت کرتے۔
یہ سلسلہ حضرت حسن مجتبیٰ کی شہادت تک چلتا رہا، ان کے بعد تو فتنہ و بلا میں اضافہ ہوتا گیا اور علی کے حامیوں میں سے کوئی ایسا نہیں تھا جواپنے جان و مال اور شہر بدر ہونے سے خائف نہ ہو۔
امام حسین کی شہادت کے بعد حالات نے دوسرا رخ اختیار کرلیا اورعبد الملک بن مروان امیر بنا اس نے شیعوں پر سختی شروع کردی اور حجاج بن یوسف ثقفی کو ان پر مسلط کردیا، بس کیا تھا زہد کے ڈھونگی، اصلاح ودین کے بہروپیئے، علی کے بغض اور دشمنان علی کی محبت، اور عوام میں جو بھی یہ دعوی کرتا کہ ہم بھی علی کے دشمن ہیں ان سے دوستی کے سبب مقرب بارگاہ ہوگئے، اور شہ کی مصاحبی پر اترانے لگے، اس کے بعد خاندان بنی امیہ کے گرگوں کی ثنا خوانی، فضائل بیانی اور یاد ماضی کی روایتوں میں اضافہ شروع ہوگیا، دوسری طرف حضرت علی کی ہجو، عیب تراشی اور طعن و تشنیع کا دروازہ کھلا رہا۔
ایک شخص حجاج بن یوسف کے سامنے آکے کھڑا ہوا، کہا جاتا ہے کہ اصمعی عبد الملک بن قریب کا دادا تھا، وہ چیخا، اے امیر! میرے گھر والوں نے مجھے چھوڑ دیا ہے او رمجھے علی کہہ کر پکارتے ہیں میں مجبور و لاچار شخص ہوں، میں امیر کی عنایتوں کا محتاج ہوں، حجاج اس پر بہت ہنسا اور بولا کہ: تمہارے اس توسل حاصل کرنے کے لطف میں تم کو فلاں جگہ کا حاکم بناتا ہوں۔
ابن عرفہ جو کہ نقطویہ کے نام سے مشہور ہیں اور بزرگ محدثین میں ان کا شمار ہوتا ہے اس خبر سے متعلق تاریخ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ: اصحاب کی شان میں گڑھی جانے والی اکثر حدیثیں بنی امیہ کے دور حکومت کی ہیں ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے تخلیق کی گئیں ہیں کیونکہ فرزندان امیہ یہ سونچ رہے تھے کہ اس کے سبب بنی ہاشم کو ذلیل کردیں گے۔
جیسا کہ ابن ابی الحدید نے دوسری روایت حضرت امام باقر سے روایت کی ہے: جواسی معنی کی عکاسی کرتی ہے، آپ نے اپنے کچھ اصحاب کو مخاطب کر کے فرمایا: اے فلاں! قریش نے ہم پر کیا کیا مصیبتیں نہیں ڈھائیں اور ہمارے شیعوں نے کیسے کیسے ظلم نہیں برداشت کئے۔
لوگوں سے رسول اللہ نے قبض روح کے وقت فرمایا تھا: ”ہم (اہل بیت) لوگوں میں سب سے برتر ہیں“ قریش نے ہم سے روگردانی کرلی یہاں تک کہ خلافت اپنے محور سے ہٹ گئی اور انصار کے مقابل ہمارے حق و حجت پر احتجاج کیا، اس کے بعد قریش ایک کے بعد دوسرے کی طرف اس کو لڑھ کاتے رہے یہاں تک کہ ایک بار پھر ہم تک واپس آئی پھر ہماری بیعت توڑ دی گئی، ہمارے خلاف علم جنگ بلند کردیا گیا اور اس خلافت کا مالک و پیشوا مشکلات و پریشانیوں میں گھٹتا رہا یہاں تک کہ شہادت اس کا مقدر بن گئی، پھر ان کے فرزند حسن کی بیعت کی گئی اور عہد و پیمان کئے گئے لیکن ان کے ساتھ عہد شکنی کی اور ان کو تسلیم کرادیا گیا۔
اہل عراق نے ان کے خلاف بغاوت کی اور خنجر کا وار کیا، ان کا لشکر تتر بتر ہوگیا، ان کی اولاد کی ماؤوں کے زیورات چھین لئے گئے۔
جب معاویہ سے صلح کی تو حسن اور ان کے فرزندوں کا خون محفوظ ہوا، ان کی تعداد بہت ہی کم تھی اس کے بعد اہل عراق نے حسین کی بیس ہزار کی تعداد میں بیعت کی، لیکن اپنی بیعتوں سے منحرف ہوگئے اوران کے خلاف نکل پڑے جب کہ ان کی گردنوں میں حسین کی بیعت کا قلادہ پڑا تھا۔
پھر بھی حسین کو شہید کرڈالا اس کے بعد ہم اہلبیت ہمیشہ پستے رہے اور رسوا ہوتے رہے ہم دور، امتحان میں مبتلا، محروم و مقتول، خوف زدہ، ہمارا اور ہمارے محبوں کا خون محفوظ نہیں رہا، دروغ بافوں اور ملحدوں نے جھوٹ اورالحاد کے سبب اپنے امیروں، شہر کے بدکردار قاضیوں اور بد دین اہلکاروں کی قربت حاصل کی، انھوں نے جھوٹی اور من گڑھت حدیثوں کا جال بنا، او رہماری طرف ان چیزوں کی نسبت دی جن کو نہ ہم نے کہا تھا اور نہ ہی انجام دیا تھا یہ سب، صرف لوگوں کو ہمارا دشمن بنانے کے لئے کیا گیا، اور سب سے بڑا اور برا وقت حسن مجتبی کی شہادت کے بعد معاویہ کے دور خلافت میں آیا تھا، ہر شہر میں ہمارے شیعہ قتل کئے جارہے تھے، صرف گمان کے سبب ان کے ہاتھ پیر کاٹ دیئے گئے! جو کوئی بھی ہماری محبت یا تعلقات کا اظہار کرتا اس کو یا قید کردیتے یا اس کا مال لوٹ لیتے یا اس کا گھر ویران کردیتے، یہ کیفیت روز بروز بڑھتی گئی یہاں تک کہ قاتل حسین، عبید اللہ بن زیاد کا زمانہ آیا ، اس کے بعد حجاج آیا اس نے ہر طرف موت کا بازار گرم کردیا، ہر گمان و شک کی بنیاد پر گرفتار کرا لیتا (زمانہ ایسا تھا کہ) اگر ایک شخص کو زندیق و کافر کہتے تو برداشت کرلیتا بجائے اس کے کہ اس کوعلی کا شیعہ کہا جائے، حد یہ کہ وہ شخص جو کہ مستقل ذکر الٰہی کرتا تھا شاید سچا تقویٰ ہو، مگر وہ عجیب و غریب حدیثوں کو گذشتہ حاکموں کی فضیلت میں بیان کرتا تھا جب کہ خدا نے ان میں سے کسی ایک شیء کو خلق نہیں کیا تھا، اور نہ وجود میں آئی تھی وہ لوگوں کی کثرت روایت کو سبب حق سمجھتا تھا اور نہ ہی جھوٹ کا گمان تھا اور نہ ہی تقویٰ کی۔
یہ دونوں عظیم اور بھروسہ مند عبارتیں بنی امیہ کے دوران حکومت میں شیعوں کی حقیقی کیفیت کی عکاس ہیں، جبکہ اموی حکومت سوا سو سال ( ۱۲۵) پر محیط ہے، لیکن عباسی حکام نے آل محمد کی رضا کا ڈھونگ رچایا تھا اور ان کے فرزندوں کے دعویدار بن کر اموی حکومت کا تختہ پلٹ کر انقلاب لانا چاہا تھا لیکن انھوں نے چچازاد بھائی ہونے کے باوجود اہلبیت کے ساتھ غداری کی۔
ہر چند کہ اموی عہد کے آخری ایام اور عباسی حکومت کے ابتدائی دنوں میں اہلبیت اور ان کے شیعوں کے لئے تھوڑا سکون کا سانس لینے کا موقع ملا تھا، مگر عباسی خلفاء اس جانب بہت جلد متوجہ ہوگئے، خاص طور سے منصور کے زمانے میں تشیع کی مقبولیت اہلبیت کے گرد حلقہ بنانے کے سبب تھی اور جب انھوں نے یہ محسوس کیا تو ابتدائی شعار کی خول اتار دیئے اور اموی ظالم و جابر حکومت کہ جس کو ظلم کے سبب ختم کیا تھا اس سے آگے نکل گئے اہلبیت اور ان کے شیعوں پر سختی شروع کردی، جس کے سبب گرد و نواح سے انقلاب کی آواز اٹھنے لگی جس میں علوی سادات کرام شریک کار تھے جن میں سے محمد بن عبد اللہ بن حسن بن علی ملقّب بہ نفس ذکیہ پیش پیش تھے جنھوں نے عباسی خلیفہ منصور کے نام ایک خط روانہ کیا تھا جس میں اس بات کا اشارہ تھا کہ تم لوگوں نے اہلبیت سے قربت ثابت کر کے اموی حکومت کیسے ہتھیایا ہے اور حکومت ہاتھ آتے ہی ان کو برطرف کردیا، وہ کہتے ہیں کہ حق یہ ہے کہ یہ ہمارا حق ہے، تم نے اس کو ہمارے واسطہ سے حاصل کیا ہے اور ہمارے شیعوں کی مدد سے تم نے خروج کیا تھا ہماری فضیلت کے سبب اس کے حصہ دار بنے ہو، ہمارے باپ علی (ابن ابی طالب) وصی اور امام تھے ان کی اولادوں کے ہوتے ہوئے تم اس (خلافت) کے وارث کیوں کر بن بیٹھے، تم اس بات کو بخوبی جانتے ہو کہ اس کا حقدار ہمارے سوا کوئی نہیں کیونکہ حسب و نسب اور اجدادی شرف میں کوئی ایک بھی ہمارے ہم پلہ نہیں۔
ہم نہ ہی فرزندان لعنت خوردہ، نہ ہی شہر بدر اور نہ ہی آزاد شدہ ہیں، بنی ہاشم میں قرابت داری کے لحاظ سے ہم سے بہتر نہیں جو قرابت سابقہ اسلامی اور فضل میں بہتر ہو، اللہ نے ہم میں سے اور ہم کو چنا ہے، محمد ہمارے باپ اور نبیوں میں سے تھے، اور اسلاف میں علی اول مسلمین ہیں، نبی کی ازواج میں سب سے افضل خدیجہ طاہرہ تھیں جنھوں نے سب سے پہلے قبلہ رخ ہوکر نماز ادا کی، رسول کی نیک دختر حضرت فاطمہ زہرا تھیں جو خواتین بہشت کی سردار ہیں، اسلام کے دو شریف مولود حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔
جب منصور نفس ذکیہ کو گرفتار نہ کرسکا تو اس نے کینہ کے تیروں کا رخ ان کے خاندان اور اہل قبیلہ کی جانب کردی، منصور نے ان کے ساتھ جو برتاؤ کیا اس کو جاحظ نے یوں نقل کیا ہے:
منصور فرزندان حسن مجتبیٰ کو کوفہ لے گیا اور وہاں لے جا کر قصر ابن ہبیرہ میں قید کردیا اور محمد بن ابراہیم بن حسن کو بلاکر کھڑا کیا او ران کے گرد دیوار چنوا دی او راسی حال میں چھوڑ دیا یہاں تک وہ بھوک و پیاس کی شدت کے سبب جان بحق ہوگئے اس کے بعد ان کے ساتھ جو فرزندان حسن تھے ان میں سے اکثر کو قتل کردیا۔
ابراہیم ا لفہر بن حسن بن حسن بن علی ابن ابی طالب کو زنجیروں میںجکڑ کر مدینہ سے انبار لے جایا گیا، اور وہ اپنے بھائیوں، عبد اللہ اور حسن سے کہہ رہے تھے کہ ہم بنی امیہ کے خاتمہ کی تمنا کر رہے تھے اور بنی عباس کی آمد پر خوش ہو رہے تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ہم اس حال میں نہ ہوتے جس میں اس وقت ہیں۔
نفس ذکیہ کے انقلاب کو کچل دینے کے بعد اور مدینہ میں ان کے قتل اور ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ کے قتل کے بعد ”جنھوں نے بصرہ میں قیام کیا تھا اور کوفہ کے نزدیک باضری نامی مقام پر جاں بحق ہوئے تھے“ جس کو لوگ بدر صغریٰ بھی کہتے تھے۔
عباسی حکام کے خلاف انقلابات بپا ہوتے رہے ، محمد بن جعفر منصور کے زمانے میں علی بن عباس بن حسن بن حسن بن علی ٪ نے قیام کیا، لیکن اس علوی انقلابی کو دستگیر کرنے میں کامیاب ہوگیا، حسن بن علی کی سفارش پر ان کو آزاد کردیا لیکن شہد کے شربت میں زہر دیدیا گیا جس نے اپنا کام کردیا، چند دن نہیں بیتے تھے کہ وہ مدینہ کی طرف چل پڑے لیکن ان کے جسم کا گوشت جابجا سے پھٹ گیا تھا اور اعضائے بدن جدا ہوگئے تھے اور مدینہ میں پہنچ کر تین دن بعد انتقال ہوگیا۔
موسی ہادی خلیفہ کے زمانے میں حسین بن علی بن حسن بن حسن بن علی ابن ابی طالب ٪ نے قیام کیا او ران کا یہ قیام فخ نامی مقام پر ان کے قتل کے ساتھ ختم ہوگیا، وہ شہید فخ کے نام سے مشہور ہیں،ہادی کے بعد جب رشید حاکم ہوا تو اس نے یحییٰ بن عبد اللہ بن حسن کو گرفتار کراکر زندہ دیوار میں چنوا دیا۔
جب مامون نے حکومت سنبھالی تو علویوں سے محبت کا دکھاوا کیا اور علی بن موسیٰ الرضا کو بلاکر جبراً ولی عہدی دی اس کے بعد زہر دے کر شہید کرا دیا۔
عباسی حکمرانوں کی عادات قبیحہ جڑ پکڑ گئیں اور ائمہ علیہم السلام کو اس کا نشانہ بنایا اور زندہ و مردہ سب پر ظلم کیا۔
چنانچہ متوکل نے قبر امام حسین پر ہل چلوا دیئے اور پانی بھروا دیا اور لوگوں کو آپ کی زیارت سے منع کردیا بلکہ مسلح افراد کے ذریعہ ناکہ بندی کرادی کہ کوئی شخص بھی امام حسین کی زیارت کو نہ جائے اور اگر جائے تو فوراً اس کو گرفتار کر لیا جائے۔
متوکل نے اہلبیت کے خلاف قید و بند کی سیاست اختیار کی، عمر بن الفرج کو مکہ و مدینہ کا مختار کل بنادیا، اور فرزندان ابوطالب پر کڑا پہرہ بٹھا دیا کہ یہ لوگوں سے میل جول نہیں رکھ سکتے اور لوگوں پر پابندی لگادی تھی کہ ان کے ساتھ حسن رفتار نہ کریں اور کوئی اس وقت ایک شخص بھی کسی قسم کی معمولی سی بھی ان کی اطاعت نہیں کرسکتا تھا، مگر یہ کہ سختی جھیلے اور نقصان اٹھائے، بلکہ انتہا یہ تھی کہ سیدانیوں کی ایک جماعت کے پاس صرف ایک پیراہن ہوتا تھا جن میں باری باری نماز ادا کرتی تھیں اس کے بعد اس پر پیوند لگا تی تھیں اور چرخہ کے پاس سر برہنہ بیٹھ جاتی تھیں۔
جب مستعین باللہ حاکم ہوا تو اس نے یحییٰ ابن عمر بن حسین کو قتل کردیا، جن کے بارے میں ابوالفرج اصفہانی نے کہا ہے کہ: وہ بہادر، دلیر، قوی الجثہ، نڈر، جوانی کی غلطیوں سے پاک شخص تھا اس کا مثل نہیں مل سکتا، جب ان کا سر بغداد میں لایا گیا تو اہل بغداد مستعین کے خلاف چیخنے لگے، ابوحاتم علی بن عبد اللہ بن طاہر داخل ہوئے اور کہا کہ: اے امیر! میں تجھے اس شخص کی موت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اگر رسول خدا زندہ ہوتے تو ان کو اس حوالے سے تعزیت پیش کرتا، یحییٰ کے دوستوں کو قیدی بنا کر بغداد میں لایا گیا، اس سے قبل کسی اسیر و قیدی کارواں کو اس بدحالی اور بگڑی کیفیت میں نہیں دیکھا گیا تھا، وہ لوگ ننگے پیر زبردستی پھرائے جارہے تھے اگر ان میں سے کوئی پیچھے رہ جاتا تواس کی گردن اڑادی جاتی تھی۔
کئی صدی تک شیعوں نے چین کا سانس نہیں لیا، مگر جب بہائی حکمراں کا دور ۳۲۰ ھء میں آیا اور انھوں نے بعض اسلامی ممالک کی باگ ڈور سنبھالی تو سکون ملا، یہ اخلاق کے بہت اچھے تھے، انھیں کے دور حکومت میں شیعی ثقافت نے نمو پائی، یہاں تک سلجوقیوں کا دور آیا اور وہ ۴۴۷ ھء میں بغداد کے حکمراں بن گئے ان کا سردار طغرل بیگ تھا اس نے شیعہ کتب خانہ کو نذر آتش کا حکم دے دیا اور شیعوں کے مرجع شیخ طوسی جس کرسی پر بیٹھ کر درس دیا کرتے تھے، اس کو بھی جلوایا، اس کتب خانہ کو بھی نذر آتش کردیا ،جسے ”ابونصر سابور بن اردشیر “نے مرتب کیا تھا جو بہاء الدولہ البویھی کے وزیر تھے، وہ وقت بغداد میںعلم کا دور تھا، اس وزیر جلیل نے کرخ میں اہل شام کے محلہ میں ۳۸۱ ھ ء میں ہارون کے بیت الحکمہ کی مانند اس کتب خانہ کو بنایا تھا یہ بہت اہمیت کا حامل کتب خانہ تھا، اس وزیر نے اس میں ایران و عراق کی ساری کتابیں جمع کردی تھیں، اہل ہند، چین، روم کے مولفین کی کتابوں کو جمع کردیا تھا ان کی تعداد تقریباً دس ہزار تھی جو عظیم آثار اور اہم سفر ناموں پر مشتمل تھی، اس میں موجود اکثر کتابیں مولف کی ہاتھوں کی لکھی ہوئی اصل خط میں تھیں، ان کتب میں ابن مقلة کے ہاتھوں کا لکھا مصحف بھی تھا۔
یاقوت حموی اس کتاب خانہ کی تعریف میں کہتا ہے کہ: پوری دنیا میں اس سے بہتر کتابیں نہیں تھیں اس کی ساری کتابیں معتبر ذمہ داروں کے خط اوراصول تحریر پر مشتمل تھیں۔
خلافت عثمانیہ (ترکیہ) کے زمانے میں بھی شیعوں پر کچھ کم مظالم نہیں ڈھائے گئے، سلیم عثمانی بادشاہ کے، کان خبر چینوں نے بھر دیئے کہ آپ کی رعایا میں مذہب شیعیت پھیل رہی ہے اور بعض افراد اس سے منسلک ہو رہے ہیں، سلیم عثمانی نے ان تمام افراد کو قتل کا حکم صادر کردیا جو اس مذہب شیعہ میں شامل ہو رہے تھے۔
اس وقت تقریباً چالیس ہزار افراد کا قتل عام کیا گیا۔
شیخ الاسلام نے فتوی دیا کہ ان شیعوں کے قتل پر اجرت ملے گی اور شیعوں کے خلاف جو جنگ کو ہوا دے گا اس کو بھی انعام دیا جائے گا
ایک شخص نے شیخ نوح حنفی سے شیعوں کے قتل اور جنگ کے جواز کا مسئلہ پوچھا تھا اس کے جواب کے تحت شہر حلب میں ہزاروں لوگوں کو قتل کردیا گیا، اس خود باختہ مفتی نے اس کے جواب میں لکھا کہ: خدا تمہارا بھلا کرے تم جان لو کہ وہ (شیعہ) لوگ کافر، باغی، فاجر ہیں، ایک قسم کے کفار باغی، دشمنان خدا، فاسقین، زندیق و ملحدین جمع ہوگئے ہیں۔
جو شخص ان کے کفر و الحاد اور ان کے قتل کے وجوب و جواز میں ڈانواں ڈول ہو، وہ بھی انھیں کے مثل کافر ہے، آگے کہتا ہے کہ: ان اشرار کفار کا قتل واجب ہے، چاہے توبہ کریں یا نہ کریں، ان کے بچوں اور ان کی عورتوں کو کنیز بنانے کا حکم ہے۔
یہ تو تاریخ میں سے بہت کم ہے جس کو شیعیت نے تاریخ کی مشکلات و پریشانیوں کو جھیلا ہے، ہم نے صرف بطور اختصار پیش کیا ہے ان اسباب سے پردہ اٹھانے کے لئے جس کا بعض حکومتیں دفاع کرتی ہیں اور جو لوگ شیعیت کے چہرے کو خاطر خواہ لبادہ میں لپیٹ کر لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں اس لئے کہ شیعیت ہمیشہ تاریخ کے ظالم و جابر بادشاہوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی ہے، جیسا کہ انھوں نے ہم کو ایسے فکر ی مقدمات فراہم کئے کہ شیعہ کئی حصوں میں تقسیم ہو جائیں، ظاہر سی بات ہے ان اقدامات کے تحت بہت سارے لوگ اندھیرے میں رہ گئے او روہ اقدامات و اسباب جو انحراف کی نشو و نما کے لئے اس میں داخل کئے گئے تھے تاکہ لوگ اصلی خط شیعیت سے منحرف ہو جائیں، بعض اسباب کے تحت منحرفین اور وسواسی لوگ صفوف شیعہ میں داخل ہوگئے اور بعض نے فاسد عقائد کا اظہار اور باطل نظریات کواس سے ضم کردیا تاکہ شیعیت کا حقیقی چہرہ لوگوں کے سامنے بدنام ہو جائے۔
جو ظالم حکمرانوں کے لئے ایک موقع تھا اور اس اصلی انقلابی اسلامی تحریک کے خلاف ان ظالموں کی مدد تھی، یہ اسلامی خط اس دین کا محافظ تھا جس کو رسول عربی لے کر آئے تھے اور اہل بیت کرام کو ا سکی حفاظت پر مامور کیا تھا جو کہ رسول کے بقول قرآن کے ہم پلہ تھے۔
____________________