حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)

حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)0%

حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما) مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)

مؤلف: صباح علي بياتي
زمرہ جات:

مشاہدے: 13127
ڈاؤنلوڈ: 4107

تبصرے:

حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 18 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13127 / ڈاؤنلوڈ: 4107
سائز سائز سائز
حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)

حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)

مؤلف:
اردو

چوتھی فصل

مسیر تشیع

امام حسین کی شہادت کے بعد ائمہ ٪نے اس بات کو بخوبی درک کرلیا کہ ابتدائی گروہ کے جانے بعد اب صرف یہی باقی ہیں اور ان میں عقیدتی وہ پختگی نہیں آئی ہے جو قیام کی مطلوبہ اہلیت کی حامل ہو اور اس کو حاصل کرنے کے لئے جسمانی قربانی بہت پیش کی ہے، لہٰذا انھوں نے ادھر سے رخ موڑ لیا، ایک نئی چیز کی جانب وہ تھی شیعوں کی ثقافتی تربیت ان کے قلب و دماغ میں عقیدوں کی پختگی اور انحرافی راہوں سے ان کی حفاظت، جو کہ عباسی سلاطین کے دور حکومت اور زیر سایہ جنگی صورت میں جنم پائی تھی، لہٰذا امام سید سجاد نے اس تحریک کو اسلام کی حقیقی تعلیم کی صورت میں لوگوں تک پھیلانا شروع کردیا اور ایسے محافظین کی تربیت شروع کی جو اسلام کی راہ و رسم کو زندہ رکھ سکیں اور سنت نبوی کو اجاگر کرسکیں، ہر چند کہ شہادت امام حسین کے بعد بہت ہی مشکل کام تھا اور اموی سلطانوں نے شیعوں پر عرصہ حیات تنگ کر کے ان کو بہت گھٹن میں مبتلا کردیا تھا اور اہل بیت کی نقل و حرکت پر گھات لگائے تھے، سید سجاد کی تحریک بعض مشکلات کے روبرو تھی ،جب آپ کے فرزند امام محمد نے امامت سنبھالی تو حالات کچھ بہتر ہوئے، اس وقت اموی حکمرانوں کی گرفت تھوڑی ڈھیلی پڑ رہی تھی اور امام کو اتنی مہلت مل گئی کہ گذشتہ دنوں کے بنسبت شیعوں کوجمع کر کے علوم اسلامی کو ان تک پہنچا سکیں، جب ان کے فرزند امام صادق کا دور امامت آیا تو اموی حکومت کا سورج بس غروب کے پردے میں جانے ہی والا تھا اور جابر سلطانوں کی ساری مشغولیت خانہ جنگیوں کو کچلنا رہ گئی تھی، عباسی خلفاء کی سلطنت کا طلوع امام صادق کے لئے سنہری موقع تھا کہ وہ علوم اسلامی کو دل بخواہ کیفیت میں لوگوں تک منتقل کرسکیں۔

آپ مسجد نبوی میں تشریف فرما ہوتے اور مختلف شہروں سے طلاب علوم آپ کے گرد حلقہ بنا لیتے، ان کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی تھی یہ واقعاً شیعوں کے لئے ایک طلائی فرصت تھی کہ امام سے ملاقات کرسکیں اور علوم آل محمد سے سیراب ہو سکیں، ان کے مقابل ان انحرافیوں کا مکتب و مرکز تھا جن کے بانی اموی سلاطین تھے وہ اپنی فکروں کو فروغ دینے میں دن ورات مشغول تھے۔

ائمہ اہلبیت ٪ مسلحانہ انقلاب سے دوری اختیار کرچکے تھے جو حکومت کی بیخ کنی کرے، اس لئے کہ اس وقت شیعوں کی تعداد اتنی نہیں تھی جو مقصد کو حاصل کرسکے اور انقلاب کی ذمہ داری کو سنبھال سکے اور جن قربانیوں کی ضرورت تھی ان کو پیش کرسکے، اس وقت ثقافت و تعلیم کی جانب رخ موڑ دینا کامیاب نہ ہونے والے انقلاب سے کہیں بہتر تھا، اور اس بات کی پوری تائید حضرت زید بن علی کا مسلحانہ انقلابی اقدام ہے جو انھوں نے اموی سلاطین کے خلاف کیا تھا اور ان کے قتل پر ختم ہوگیا تھا اوراہل کوفہ نے ان کا ساتھ اسی طرح چھوڑ دیا جس طرح ان کے آباء و اجداد کے ساتھ غداری کی تھی۔

یہ اس بات کی غماز ہے کہ وہ لوگ خیمہ انقلاب کی حفاظت کی بالکل صلاحیت و لیاقت نہیں رکھتے تھے۔

عباسی حکمرانوں کی ابتدائی زندگی میں نسبتاً سہولت تھی اور یہ موقع شیعہ حضرات کے لئے غنیمت تھا تاکہ اہل بیت سے علوم اسلامی کو حاصل کرسکیں خاص طور سے امام صادق جن کی وجہ سے مذہب اہل بیت مذہب جعفری کہلایا۔

ہاں یہ اور بات ہے کہ اس طلائی فرصت کو اس وقت گہن لگ گیا جب لوگوں کا ہجوم در اہلبیت پر دیکھا تو عباسیوں کو بہت قلق ہوا، خاص طور سے اس عباسی دعوت کی حقیقت واضح ہوگئی جس کی بنیاد ظاہراً اس بات پر تھی کہ آل محمد کے پسندیدہ شخص کی طرف لوگوں کو دعوت دی جائے۔

جب لوگوں کے سامنے ان کی اس دعوت نامہ کی قلعی کھل گئی اور لوگوں کی شورش اور آل محمد کے جھنڈے تلے جمع ہونے سے خائف ہوگئے، تو ائمہ اور ان کے ساتھیوں پر سختی شروع کردی، اور سادات کرام کی جانب سے اٹھنے والے ہر انقلاب کو نہایت بیدردی کے ساتھ دبا دیا۔

شیعوں پر شکنجے کس دیئے ائمہ کرام پر کڑی نظر رکھنی شروع کردی حد یہ کہ برسہا برس کے لئے زندانوں میں قید کردیا، جیسا کہ رشید نے امام موسیٰ کاظم کے ساتھ کیا، یا ان کے آبائی وطن مدینہ منورہ سے جبراً نکال کر ان کو عباسی حکومت کے دار السلطنت میں رہنے پر مجبور کیا، جیسا کہ امام رضا کے بعد باقی تمام ائمہ،امام حسن عسکری تک، سب کے ساتھ یہی برتاؤ کیا۔

وہ زمانہ بہت ہی سخت تھا عباسی حکمرانوں نے جو پہرہ بٹھایا تھا ان دنوں کوئی شیعہ آزادانہ طور پر اپنے امام سے ملاقات نہیں کرسکتا تھا، یہ زمانہ چلتا رہا یہاں تک کہ امام حسن عسکری کو یرغمال بنالیا جب ان کو حضرت حجت کی ولادت کی خبر ہوئی، جو کہ الٰہی تدبیر کے سبب لوگوں کی نگاہوں سے غائب رہے، آپ کی غیبت صغریٰ تقریباً ستر ( ۷۰) سال کے عرصہ پر محیط تھی، آپ اور آپ کے شیعوں کے درمیان رابطہ نواب اربعہ ”جو کہ ان کی وکالت کا کام کرتے تھے“ ان کے ذریعہ رہا، یہاں تک کہ غیبت کبریٰ کا زمانہ شروع ہوگیا، اہل بیت کے بعد شیعہ مراجع کرام، علمی ، دینی، سیاسی طور پر مکمل مرکز قرار پائے۔

اسلامی فرقے اور غالیوں کے انحرافات

تشیع کی راہ کبھی بھی مشکلات و سختیوں سے خالی نہیں رہی، جیسا کہ گذر چکا ہے کہ سلاطین، شیعوں اور ان کے اماموں پر بہت سختی کرتے تھے اور یہ حضرات مجبور تھے کہ تقیہ کی صورت میں زندگی بسر کریں اور ائمہ ٪ بھی ہمیشہ حقائق کو علی الاعلان بیان نہیں کرسکتے تھے کیونکہ موجودہ حکومت مد مقابل کھڑی تھی، ایسے حالات میں شیعوں پر سختی اور دباؤ کا خطرہ تھا، انھیں اسباب کے سبب اس وقت کے بعض شیعہ حیران و سرگرداں ہوگئے تھے، ایسے وقت میں بعض روحانی مریض اور گنجلگ مقاصد کے علم بردار افراد نے ان پر غلبہ حاصل کرلیا، اس کا دوسرا سبب ان عوام کا علم سے ناواقفیت تھی، جو مسیر تشیع سے انحراف کا مکمل سبب بنی اور بعد میں آنے والے مسلمین پر اثر انداز ہوئی اور خوراج، معتزلہ، جہمیہ، مرجئہ اور ان کے مانند فرقوں کی صورت میں وجود میں آئے۔

یہ سب آیات الٰہیہ کی غلط تاویل کرنے اور احادیث نبوی کی غلط تشریح کرنے کے سبب ہوا، اس کے علاوہ خطرناک مسئلہ بعض مسلمان نما افراد کا اہل کتاب اور دوسرے مذاہب کے افراد کے ہاتھوں کھلونا بننا تھا جس کے سبب اسرائیلیات داخل ہوئیں اور مسلمانوں کو ان کی تعلیم بھی دی گئیں جن دنوں حدیث کو گڑھا جارہا تھا ان دنوں یہ اتفاقات وجود میں آئے۔

جو چیز دوسرا رخ اختیار کر گئی وہ یہ تھی کہ ان میں سے بعض افراد نے احادیث کی تخلیق اور آیات قرآنی کی غلط تاویل، صرف اپنے مذہب کی تقویت کے لئے کیا، یہ سب اس لئے ہوا کہ بعض افراد اپنے دعویٰ میں حد سے گذر گئے اور اس بات کا دعویٰ کر بیٹھے کہ انھیں کا وہ واحد فرقہ ہے جو حق و حقیقت سے لبریز ہے اور بقیہ سارے فرقے گمراہی میں غرق ہیں۔

اس تنگ و تاریک نظریہ کے تحت تمام مسلمانوں کے کفر اوران کے خون حلال ہونے، ان کی نسلوں کو ختم کرنے، ان کی عورتوں کو کنیز بنالینے کی گونج بہت دور تک سنائی دی نیز ان فرقوں کے بیچ کلامی جنگیں بھی بہت ہوئیں اور انھیں عصبیت کے سبب بہت سارے مفاہیم گڈمڈ ہوگئے اور اصطلاحات گنجلک اور بہت ساری ایسی چیزوں کا نام رکھ دیا گیا جن سے ان کا کوئی ربط نہیں تھا۔

اس مسئلہ کے تحت مذہب اہل بیت بڑی مشکل سے دوچار ہوا، ایسے میں بہت سارے فرقے اور فاسد عقائد کے دہشت گرد، مذہب حق میں گھس گئے اس کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی صرف یہ کہ و ہ لوگ ولایت اہل بیت کے نام لیوا تھے ہر چند کہ یہ لوگ اہل بیت کے مطمع نظر کے یکسر مخالف تھے، ان میں سے ”غالیوں“ کا گروہ ہے جن کو ائمہ اہلبیت کی جانب نسبت دیدی گئی ہے جب کہ ان کو شریعت و عقل اور خود ائمہ ٪ نے قبول نہیں کیا ہے۔

ان تمام اسباب کے تحت نیز حکومت ہاتھ آنے کے لئے جنگ کے سبب مفاہیم خلط ملط ہوگئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرقوں کے صاحب کتاب مولفین کے نظریات کے درمیان بڑی معرکہ آرائی ہوئی ہے خاص طور سے شیعوں کے سلسلہ میں، ان مولفین کی آراء جو شیعوں کی تعداد کے سلسلہ میں ہے بالکل اتفاق نہیں پائیں گے، کچھ نے گھٹا کے تین کردیا، کچھ نے بیس سے زیادہ شمار کردیا اور اسی طرح کی کھینچا تانی لگی رہی ہے ان میں سے بعض ایسے فرقے ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، بعض مولفین نے شخص کو فرقہ کی صورت میں پیش کردیا ہے۔

ہشامیہ، یونسیہ، زراریہ، یہ سب فرد تھے لیکن شہرستانی، صاحب کتاب (ملل و نحل) نے ان سب کو فرقہ کے طور پر ذکر کیا ہے اور ان کے خاص نظریات کو پیش کیا ہے، بعض مولفین نے دوسرے مذہب کی تحقیر کے لئے اور علم و فضل سے خالی ہونے کے لئے بہت عصبیت سے کام لیا ہے۔

جیسا کہ بغدادی کہتا ہے کہ خدا کے فضل و کرم سے خوارج، رافضی، جہمیہ، قدریہ، مجسّمہ اور سارے گمراہ فرقوں میں نہ ہی کوئی فقہ و رایت و حدیث کا امام ہے اور نہ ہی لغت و علم نحو کا عالم و امام، نہ ہی غزوات و تاریخ و سیرت کا لکھنے والا ہے اور نہ ہی وعظ و نصیحت کہنے والا، اور نہ ہی تفسیر و تاویل کا امام موجود ہے بلکہ ان سارے علوم کا اعم و اخص طور پر جاننے والے صرف اہل سنت و الجماعت میں موجود ہیں۔( ۴۴ )

ان ساری باتوں کو صرف عناد، دشمنی، کدورت اور کٹ حجتی پر محمول کیا جاسکتا ہے کہ وہ دوسرے افراد میں آثار اسلامی کے معلومات کا سرے سے انکار کرتے ہیں، جبکہ علماء اسلام کے حدیثی، تاریخی، تالیفات ہر فرقہ میں موجود ہیں جس کی گونج سارے کائنات میں ہے۔

بطور نمونہ وہ مولفین جنھوں نے اس میں خلط ملط کیاہے، جیسی کہ وہ تقسیم جس کو ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری متوفی ۳۲۴ ھء نے اپنی کتاب ”مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین“ میں فرقہ شیعہ کو پہلے بنیادی طور پر تین قسموں پر تقسم کیا ہے، پھر اس میں دوسرے فرقہ کی شاخ نکالی ہے، اس کے بعد ”غلو“ کرنے والوں کو پندرہ فرقوں میں تقسم کیا ہے، پھر امامیہ کا تذکرہ کیا ہے اور ان کو رافضہ کے نام سے یاد کیا ہے پھر ان کو چوبیس ( ۲۴) فرقوں میں تقسیم کیا ہے، کیسانیہ کو انھوں نے امامیہ میں شریک و شمار کیا ہے، درحقیقت یہ ”غلاة“ کا ایک فرقہ ہے امامیہ سے ان کا کوئی سرو کار نہیں، پھر زیدیہ کا تذکرہ کیا ہے اور ان کو تین گروہوں میں تقسیم کیاہے، جارودیہ، بتریہ، سلیمانیہ پھر ان گروہوں کو دوسرے گروہوں میں تقسیم کیاہے، اکثر افراد نے غلطی کی ہے اور سلیمانیہ کو زیدیہ کے فرقوں میں شمار کیا ہے، جب کہ ان کے سارے عقائد اہل سنت و الجماعت سے بہت زیادہ مشابہ ہیں۔

افسوس اس بات پر ہے کہ اس عصر کے اکثر مولفین نے اس روش کی مکمل پیروی کی اور ان گذشتہ کتابوں پر اندھا بھروسہ کیا اور تحقیق و تفحص سے بالکل کام نہیں لیا، کسی فرقہ یا گروہ کے مبانی و مصادر کی طرف بالکل رجوع نہیں کیا تاکہ ان گروہ کے ذمہ داروں کی زبان سے ان کے عقائد کو جان سکیں، بلکہ مخالف فرقہ کے مقالات پر تکیہ کیا اور جو کچھ انھوں نے جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کردیا اس کو آنکھ بند کر کے قبول کرلیا۔

ان ساری باتوں کو پیش کرنے کا ہمارا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم اصل شیعیت کے وجود کو جان سکیں جو کہ ہمارا اصل موضوع ہے یعنی (شیعیت کی نشو و نما) لہٰذا ہم اس بات کی حتی الامکان کوشش کریں گے کہ زمانوں کا اصل اثر ثابت کرسکیں جو شیعیت پر بیتے ہیں اور اس حقیقت سے پردہ اٹھا سکیں جس کو صاحبان کتب نے ڈالا ہے اور شیعہ عقائد میں ان تمام خرافات کو شامل کردیاہے جو ان کے عقائد سے بالکل میل نہیں کھاتے اور نہ ہی شیعہ حضرات ان عقائد کو کسی بھی رخ سے قبول کرتے ہیں۔

لہٰذا ہم پہلے مفہوم تشیع کو بیان کریں گے اس کی بعد اس کے اہم بنیادوں کو وضاحت کے ساتھ پیش کریں گے اس کے بعد شیعہ اور ان کے ائمہ کے موقف کو غلو اور غلاة (غلو کرنے والوں) کے سلسلہ میں عرض کریں گے۔

مفہوم تشیع

صاحبان کتب نے شیعہ اور تشیع کے بارے میں متعدد لفظوں میں تعریف کی ہے ان میں سے اہم نظریات کو پیش کر رہے ہیں:

۱ ۔ ابو الحسن اشعری: جن لوگوں نے علی کا ساتھ دیا اور ان کو تمام اصحاب رسول پر برتر جانتے ہیں، وہ شیعہ ہیں۔( ۴۵ )

۲ ۔ ابن حزم مفہوم تشیع کے بارے میں کہتا ہے: شیعہ کا نظریہ ہے کہ علی رسول کے بعد افضل امت اورامامت کے حقدار ہیں اور ان کے بعد وارث امامت، ان کے فرزند ہیں، درحقیقت یہی شیعہ ہیں، ہر چند کہ مذکورہ باتوں کے سلسلہ میں مسلمانوں کا اختلاف ہے اور ان عقائد کا مخالف شیعہ نہیں ہوسکتا۔( ۴۶ )

۳ ۔ شہرستانی نے کچھ یوں تعریف کی ہے: شیعہ وہ ہیں جو خاص طور سے علی کے حامی رہے اور اس بات کے معتقد ہیں کہ ان کی امامت و وصایت نص اور رسول کی وصیت سے ثابت ہے چاہے ظاہری ہو یا باطنی اور اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کی اولادوں کے علاوہ دوسرا حقدار نہیں، اگر امامت دوسرے کے پاس گئی تو یقینا ظلم کا عمل دخل ہے یا تقیہ کے سبب ہے اور اس بات کے قائل ہیں کہ امامت کوئی مصلحتی عہدہ نہیں ہے جو امت مسلمہ کے ہاتھوں طے پائے اور امت کے انتخاب سے امام معین ہو جائے، بلکہ یہ ایک اصولی مسئلہ ہے یہ رکن دین ہے خود رسولوں کے لئے بھی اس مسئلہ میں تساہل و سہل انگاری جائز نہیں اور نہ ہی وہ امت کے ہاتھوں (انتخاب امام) کا فیصلہ سپرد کرسکتے ہیں۔

آگے کہتے ہیں: شیعہ امامت کی تعیین و تنصیص کے قائل ہیں اور انبیاء کے مانند (امام کے لئے) صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے پاک اور معصوم ہیں، تولی و تبریٰ کے بھی قولی فعلی، عقیدتی قائل ہیں مگر یہ کہ تقیہ کے سبب ایسا نہ کرسکیں۔( ۴۷ )

۴ ۔ محمد فرید وجدی: شیعہ وہ ہیں جو علی کی امامت کے مسئلہ میں ان کے ہمراہ رہے اور اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ امامت ان کی اولادوں سے جدا نہیں ہوسکتی، وہ اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ امامت کوئی مصلحتی مسئلہ نہیں ہے جس کو امت کے اختیار و انتخاب پر چھوڑ دیا جائے، بلکہ یہ ایک اصولی مسئلہ ہے یہ رکن دین ہے، ضروری ہے کہ رسول اکرم کی اس مسئلہ پر نص صریح موجود ہو۔

شیعہ کہتے ہیں کہ ائمہ کرام صغیرہ و کبیرہ گناہ سے معصوم ہیں اور تولی و تبریٰ کے قولی و فعلی معتقد ہیں مگر ظالم کے ظلم کے سبب یہ عمل تقیہ کی صورت میں انجام دیا جاسکتا ہے۔( ۴۸ )

۵ ۔ شیعہ مولفین حضرا ت نے، شیعہ کی تعریف یوں کی ہے:

نوبختی: پہلا فرقہ شیعہ ہے جو حضرت علی کا حامی تھا اور ان کو حیات رسول اور وفات رسول کے بعد شیعیان علی کہا جاتا ہے، یہ لوگ حضرت سے بے پناہ عشق اوران کی امامت کے اقرار کے سبب مشہور تھے اور وہ افراد مقداد، ابن الاسود، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، جندب بن جنادہ غفاری، عمار یاسر تھے، او روہ لوگ جو ان کی مودّت علی کے سلسلہ ان کی تائید کرتے تھے اور سب سے پہلا گروہ جو شیعہ کے نام سے معروف ہوا وہ یہی تھا، اس لئے کہ تشیع (شیعہ) کا نام بہت پرانا ہے شیعہ ابراہیم، شیعہ موسیٰ، عیسیٰ اور دیگر انبیاء کرام۔( ۴۹ )

۶ ۔ شیخ مفید، شیعہ کی کچھ یوں تعریف کرتے ہیں: شیعہ وہ ہیں جو علی کے حامی اور اصحاب رسول پر ان کو مقدم جانتے ہیں اور اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ رسول کی وصیت اور تائید پروردگار کے تحت امام ہیں، جیسا کہ امامیہ اس بات کا راسخ عقیدہ رکھتے ہیں اور جارودیہ صرف بیان کرتے ہیں۔( ۵۰ )

۷ ۔ شیخ محمد بن حسن طوسی، وہ نص و وصیت سے کلام کو مربوط کر تے ہوئے تشیع کے عقائد کو مربوط کرتے ہوئے کہتے ہیں: علی مسلمانوں کے امام، وصیت رسول اورارادہ خدا کے سبب ہیں، پھر نص کو دو قسموں پر تقسیم کرتے ہیں: ۱ ۔ جلی ۲ ۔ خفی

نص جلی :اس کو شیعہ امامیہ نے تنہا نقل کیا ہے اور جن اصحاب نے ان حدیثوں کو نقل کیا ہے وہ خبر واحد سے کیا ہے۔

لیکن نص خفی کو شیخ طوسی نے نقل کیا ہے کہ اس کو سارے فرقوں نے قبول کیاہے گو کہ اس کی

تاویل اور مراد معنی میں اختلاف کیا ہے اوران کی اس بات سے کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔

طوسی نے سلیمانیہ فرقہ کو زیدیہ شیعی فرقہ سے جدا کیا ہے کیونکہ وہ لوگ نص کے قائل نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ امامت شوریٰ (کمیٹی کے انتخاب) کے ذریعہ طے ہوسکتی ہے اور اگر دو نیک کسی پر ایک ساتھ اتفاق رائے کرلیں تو بھی امامت ممکن ہے، مفضول کو بھی (فاضل کے ہوتے ہوئے) امامت مل سکتی ہے۔

صالحہ، بتریہ، زیدیہ فرقہ کا بھی امامت کے سلسلہ میں سلیمانیہ ہی کی مانند نظریہ ہے شیخ طوسی نے سلیمانیہ کے نظریہ کو مذکورہ بالا فرقوں کے نظریات پر منطبق کیا ہے۔( ۵۱ )

یہ وہ آراء و نظریات تھے جو مفہوم تشیع کے سلسلہ میں قدیم اور معاصر دونوں فرقوں کے علماء نے پیش کیئے، ہم ان نظریات کی روشنی میں یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ مفہوم تشیع کے لئے دو اصطلاحیں ہیں: ۱ ۔ تشیع کے عمومی معنی، ۲ ۔ تشیع کے خصوصی معنیٰ۔

جو شخص بھی اس موضوع کو جاننا چاہتا ہے اس کے لئے مفہوم بہت گنجلک ہوگیاہے ، مذکورہ آراء ونظریات جو پیش کئے گئے ہیں ان کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جن لوگوں نے مفہوم تشیع کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے انھوں نے تشیع کے صرف خصوص مفہوم کو بیان کیا ہے عمومی مفہوم سے بالکل سرو کار نہیں رکھا، لہٰذا ہم اس بات کی کوشش کریں گے کہ دونوں کو تقسیم کر کے اصل مسئلہ کی وضاحت کردیں۔

تشیع کا عمومی مفہوم

۱ ۔ یہ کہ علی کو صرف عثمان پر افضل جاناہے ابوبکر و عمر سے افضل نہیں جانتے، تو اس طرح کی شیعیت میں اصحاب و تابعین اور تبع تابعین کا بہت بڑا گروہ شامل ہو جائے گا جیسا کہ شمس الدین ذہبی نے ”ابان بن تغلب“ کے حالات میں جن لوگوں نے ان کے شیعہ ہونے کے بارے میں کہا ہے اس سلسلہ میں اظہار خیال کرتے ہیں کہ؛ بدعت دو طرح کی ہوتی ہے، بدعت صغریٰ جیسے شیعوں کی بدعت، یا شیعوں کی بدعت جس میں غلو و تحریف نہ ہو، تو اس میں تابعین اور تبع تابعین جو صاحبان دین زہد و ورع ہیں ان کی کثیر تعداد شامل ہے، اگر ان افراد کی حدیثوں کو غیر قابل قبول مانا جائے تو تمام احادیث و آثار نبوی ختم ہو جائیں گے اور یہ بہت بڑا نقصان ہوگا، غلو کرنے والے شیعہ گذشتہ زمانے میں تھے اور ان کی شناخت یہ ہے کہ وہ لوگ، عثمان، زبیر، طلحہ، معاویہ اور وہ گروہ جنھوں نے علی سے جنگ کی ان پر لعن طعن کے قائل تھے۔( ۵۲ )

۲ ۔ وہ لوگ جو اس بات کے قائل ہیں کہ علی تمام اصحاب پر فضیلت و برتری رکھتے تھے جن میں ابوبکر و عمر شامل ہیں، لیکن اس اعتراف کے ساتھ کہ ان دونوں (ابوبکر و عمر) کی خلافت صحیح تھی اور علی اور کسی ایک کے لئے بھی کوئی نص نہیں تھی جو علی کی خلافت پر دلالت کرے۔

بغدادی فرقہ معتزلہ اور بعض بصریوں نے اس کی مزید وضاحت کی ہے۔

ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ کے شروع ہی میں اس بات کی تفصیل پیش کردی ہے کہ ہمارے تمام شیوخ رحمھم اللّٰہ خواہ وہ متقدمین ہوں یا متاخرین بصری ہوں یا بغدادی سب نے اس بات پر اتفاق کیاہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کی بیعت صحیح اور شرعی تھی گو کہ نص (نبوی یا الٰہی) کے تحت نہ تھی، بلکہ اختیار پر منحصر تھی جواجماع او رغیر اجماع کے ساتھ واقع ہوئی امامت تک رسائی کا یہ بھی ایک راستہ ہے ،خود تفضیل کے سلسلہ میں اختلاف نظر ہے۔

بصری، قدماء میں سے جیسے ابوعثمان، عمروبن عبیدہ، ابی اسحاق، ابراہیم بن یسار النظام، ابوعثمان عمرو بن بحر ابی حظ، ابو معن ثمامہ ابن اثرس، ابو محمد ہشام بن عمور فوطی، ابی یعقوب یوسف بن

عبد اللہ الشحام اور دوسرے افراد کا کہنا ہے کہ ابوبکر حضرت علی سے افضل تھے، اور ان لوگوں نے افضلیت کی ترتیب مسند خلافت پر آنے کی ترتیب سے مرتب کی ہے۔

بغدادی تمام متقدمین و متاخرین شخصیتوں مثلاً، ابی سہل بشر بن المعتمر، ابی موسیٰ بن صبیح، ابی عبد اللہ جعفر بن مبشر، ابی جعفر اسکافی،ابی الحسین خیاط، ابی القاسم عبد اللہ بن محمود بلخی اور ان کے شاگردوں کا کہنا ہے کہ حضرت علی ابوبکر سے افضل تھے( ۵۳ )

بصریوں میں اس نظریے کے قائل ابوعلی محمد بن عبد الوہاب جبائی آخری فردہیں، اور یہ (توقف آراء) کرنے والے افراد سے پہلے تھے، یہ حضرت علی کی تفضیل کے قائل تھے مگر اس کی صراحت نہیں کی، جب انھوں نے تصنیف کی تو ان تصانیف میں توقف فرمایا اور یہ کہہ کر اکتفا کی کہ اگر حدیث طیر صحیح ہے تو حضرت علی افضل ہیں۔( ۱)

(۱)ابن کثیر نے البدایة والنہایة، ج۷، ص۳۸۷، پر کہا ہے کہ اس حدیث کے سلسلہ میں لوگوں نے کتابیں تحریر کی ہیں پھر ان روایات کو درج کیاہے جس میں یہ حدیث ذکر ہے ترمذی نے اپنے اسناد کے ساتھ انس سے روایت کی ہے کہ رسول کے پاس ایک (بھنا ہوا) پرندہ تھا تو آپ نے فرمایا: ”اللّٰهم ائتنی باحب خلقک الیک یاکل معی من هذا الطیر “ خداجو تیرے نزدیک سب سے محبوب ہو اس کو میرے پاس بھیج دے تاکہ اس پرندہ کے گوشت میں میرا سہیم ہوسکے حضرت علی اس وقت تشریف لائے اور رسول خدا کے ساتھ شریک ہوئے اس کے بعد ابن کثیر نے متعدد روایات کواس موضوع سے متعلق مختلف طرق سے ذکر کیا ہے اس کے بعد کہا ہے کہ ان کی تعداد نوے (۹۰) سے زیادہ ہے اور کہا کہ اس حدیث سے متعلق مستقل کتابیں تحریر کی ہیں جن میں سے ابوبکر بن مردویہ، حافظ ابوظاہر، محمد بن احمد بن حمدان ہیں جس کو ہمارے شیخ ابو عبد اللہ ذہبی نے ذکر کیا ہے ابی جعفر بن جریر طبری کی ایک مستقل جلد کتاب دیکھی ہے جس میں تمام طرق اور الفاظ حدیث کو ذکر کیا ہے لیکن قاضی ابی بکر باقلانی متکلم کی ایک کتاب دیکھی اس کی سند میری نظر میں ضعیف ہے، ہر چند کہ اس حدیث کو متعدد طرق سے نقل کیا گیاہے پھر بھی اس کی صحت میں نظریات مختلف ہیں اس حدیث کی رد کی اصل وجہ ہے کہ مسلمانوں کے عام فرقوں کے عقیدہ کے خلاف ہے اور وہ یہ کہ علی کا تمام اصحاب پر افضلیت رکھنا کیونکہ یہ حدیث رسول کے بعد تمام کائنات میں علی کو افضل ثابت کرتی ہے۔۔۔

قاضی القضاة نے ابوالقاسم کی کتاب المقالات کی شرح میں لکھا ہے کہ ابو علی نے آخری وقت میں علی کی افضلیت کا اقرار کیا ہے، اور یہ بات انھوں نے سماعی (سن کر) نقل کیاہے ان کی تصنیفات میں اس کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے۔

دوسری جگہ قاضی القضاة کہتے ہیں: جب ابو علی کا وقت احتضار تھا تو انھوں نے اپنے بیٹے ابوہاشم کو اشارہ سے بلایا جب کہ ان کی آواز میں رعشہ تھا، ابوہاشم کو بہت سارے راز ودیعت کئے جن میں سے حضرت علی کے افضلیت کا بھی مسئلہ تھا۔

جو افراد حضرت کی افضلیت کے قائل تھے ان میں بصریوں میں سے شیخ ابو عبد اللہ حسین بن علی بصری تھے جنھوں نے حضرت علی کی افضلیت پر تحقیق کی تھی اور اس پر مُصِر بھی تھے اوراس حوالے سے مستقل ایک کتاب بھی تالیف کردی۔

بصریوں میں سے جو حضرت علی کی افضلیت کے قائل تھے، وہ قاضی القضاة ابوالحسن عبد الجبار بن احمد ہیں۔

ابن متویہ نے علم کلام کی کتاب (الکفایہ) میں قاضی القضاة سے نقل کیا ہے کہ وہ ابو بکر و علی کی افضلیت کے مسئلہ پر توقف کرنے والوں میں سے تھے انھوں نے اس پر کافی طویل احتجاج کیا ہے لہٰذا یہ دو مذہب ہیں جس کو آپ نے درک کیا۔

اس حدیث کو متعدد محدثین نے مختلف الفاظ میں ذکر کیا ہے جیسے ترمذی، حدیث ۳۷۲۱ ، طبری، ج ۱ ، ص ۲۲۶ ، ج ۷ ، ص ۹۶ ، ج ۱۰ ، ص ۳۴۳ ، ذہبی، میزان عدالت، ص ۲۸۰ ، ۲۶۳۳ ، ۷۶۷۱ ، ۸۵۰۶ ، ابن حجر، لسان العرب میں، ج ۱ ، ص ۷۱ ، ۸۵ ، کنز العمال، ۴۶۵۰۷ ، ۳۹۶۴ ، مشکوٰة، ۶۰۸۵ ، مجمع الزوائد، ج ۹ ، ص ۱۲۵ ، الاتحاف، ج ۷ ، ص ۱۲۰ ، تذکرة، ۹۴۹۴ ، تاریخ دمشق، ج ۵ ، ص ۲۲۲ ، ج ۷ ، ص ۳۴۲ ، تاریخ جرجان، ص ۱۷۶ ، ان کے علاوہ دیگر کتب بھی ہیں جن میں اس حدیث کا تذکرہ ہے۔

بزرگوں کی ایک کثیر تعداد نے ابوبکر و علی کی افضلیت پر اظہار نظر سے توقف کیا ہے، اس بات کا ادعا ابو حذیفہ، واصل بن عطاء اور ابو ہذیل محمد بن ہذیل علاف نے کیا ہے جو کہ متقدمین میں سے ہیں، در آں حالیکہ ان دونوں نے ابوبکر و حضرت علی کے درمیان افضلیت پر توقف کیا ہے لیکن حضرت علی کو عثمان پر قطعی طور پر افضل جانتے ہیں۔

جو لوگ توقف کے قائل ہیں ان میں سے ابوہاشم عبد السلام بن ابی علی، شیخ ابو الحسین محمد بن علی بن طیب بصری ہیں۔

ابی الحدید کہتے ہیں: لیکن ہم لوگ اسی نظریہ کے قائل ہیں جس کو ہمارے بغدادی شیوخ نے اختیار کیاہے یعنی حضرت کا افضل ہونا، اور کلامی کتابوں میں ہم نے افضل کے معنیٰ کو ذکر کیا ہے۔

افضل سے مراد کثرت ثواب یا کثرت فضیلت و اوصاف حمیدہ کا حامل ہونا ہے، ہم نے وہاں ذکر کیا ہے کہ آپ دونوں معنیٰ میں افضل تھے۔( ۵۴ )

____________________

[۴۴] الفرق بین الفرق، ص ۲۸۲

[۴۵] مقالات الاسلامیین، ج۱، ص۶۵، طبع قاہرہ، ۱۹۵۰ءء

[۴۶] الفصل فی الملل و الاھواء والنحل، ج۲، ص۱۱۳، طبع بغداد

[۴۷] ملل و نحل، ص ۱۳۱

[۴۸] دائرة المعارف القرن العشرین، ج۵، ص۴۲۴

[۴۹] فرقہ شیعہ، ص ۱۷

[۵۰] ھویة التشیع، الشیخ احمد وائلی، ص ۱۲، من موسوعة العتبات المقدسہ المدخل، ص۹۱

[۵۱] ڈاکٹر عبد اللہ فیاض، تاریخ امامیہ، ص ۳۳۔ ۳۲

[۵۲] میزان الاعتدال، ج۱، ص۶

[۵۳]

[۵۴] شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۷