حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)

حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)0%

حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما) مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)

مؤلف: صباح علي بياتي
زمرہ جات:

مشاہدے: 13107
ڈاؤنلوڈ: 4102

تبصرے:

حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 18 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13107 / ڈاؤنلوڈ: 4102
سائز سائز سائز
حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)

حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)

مؤلف:
اردو

تشیع کا خصوصی مفہوم

حضرت علی کا رسول کے بعد تمام لوگوں پر افضلیت رکھنا نبی اکرم کے صریح نص سے ثابت ہے اور ان کی امامت کے حوالے سے رسول کی حدیث موجودہے اور خدا کا حکم بھی ہے، رسول اکرم کے بعد آپ کی امامت ثابت ہے۔

یہ وہ مفہوم ہے جو عہد رسالت میں موجود تھا جس کو رسول کے بعض قریبی اصحاب نے درک کیا اور دوسرے افراد تک اس کو پہنچایا اور روز و شب کی گردش سے دوام پاتا گیا، یہاں تک کہ آج اس کو حیات جاویدانی مل چکی ہے اور خدا اس کو مزید حیات عطا کرے، اثنی عشری شیعہ حضرات نے اس کو عقیدہ کا جزء جانا ہے جس کو بطور خلاصہ ہم پیش کریں گے۔

اثنا عشری عقیدہ

شیعہ اثنا عشری حضرات اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے امام بارہ ہیں اور وہ یہ ہیں، علی ابن ابی طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن الحسین السجاد، محمد بن علی الباقر، جعفر بن محمد الصادق، موسی بن جعفر الکاظم، علی بن موسیٰ الرضا، محمد بن علی التقی، علی بن محمد النقی، حسن بن علی عسکری، محمد بن حسن المنتظر صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین اور اپنے عقیدہ کے ثبوت میں ان نصوص کو سند بناتے ہیں جو فریقین کے درمیان متفق علیہ ہیں اور ولایت علی ابن ابی طالب جو کہ اللہ و رسول کے حکم سے ثابت ہے ان میں کچھ گذشتہ بحثوں میں گذر چکی ہیں ان میں سے خاص طور سے حدیث غدیر، حدیث ثقلین جس میں رسول اکرم نے اہل بیت سے تمسک کی ضرورت پر نص کے طور پر حکم دیا ہے، بحثوں میں اہل بیت کا تعارف کراچکے ہیں اوران کے بعد بقیہ ائمہ ان کی کل تعداد بارہ ہے۔

اس کے علاوہ وہ نصوص جس کے وہ لوگ تنہا دعویدار ہیں، متفق علیہ اسناد ہیں جو کہ اہل سنت کے بزرگ علماء نے درج کیاہے، ان میں سے بخاری و مسلم ہیں نیز اصحاب صحاح و مسانید اوراحادیث کے معجم مرتّب کرنے والے افراد، نے اس کو نقل کیا ہے۔

بخاری کے الفاظ ہیں کہ: جابر بن سمرہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم کو فرماتے سنا کہ ”بارہ امیر ہوں گے“ اس کے بعد ایک جملہ کہا جس کو میں سن نہ سکا تو میرے والد نے کہا ”وہ سب کے سب قرش سے ہوں گے“ علماء اہل سنت بارہ کی عدد میں متحیر ہوگئے۔

ابن کثیر بارہ ائمہ کے حوالے سے جو کہ سب قریش سے ہوں گے، کہتے ہیں کہ یہ وہ بارہ امام نہیں ہیں جن کے بارے میں رافضی دعویٰ کرتے ہیں، یہ لوگ اس بات کے مدعی ہیں کہ لوگوں کے امور صرف علی ابن ابی طالب سے مربوط ہیں پھر ان کے فرزند حسن اور ان کے عقیدے کے مطابق ان کے سب سے آخر مہدی منتظر جو کہ سامرہ کے سرداب میں غائب ہوئے ہیں اور ان کا کوئی وجود نہیں ہے، نہ ہی کوئی اثر ہے نہ ہی کوئی نشانی، بلکہ ا س حدیث میں جن بارہ کے بارے میں خبر دی گئی ہے وہ چار خلیفہ ابوبکر، عمر،عثمان، علی اور عمر بن عبد العزیز ان دو اقوال کے درمیان اہل سنت کی تفسیر اثنا عشری میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

ابن کثیر نے حدیث کو نقل کرنے کے بعد علماء کے اقوال کو نقل کیا ہے جن میں سے بیہقی بھی ہیں لیکن عدد کے سلسلہ میں غلطی کی ہے اور ان علماء نے خلفاء راشدین کے ساتھ بنی امیہ کے خلفاء کو بھی بیان کیا ہے اور یزید بن معاویہ، ولید بن یزید بن عبد الملک جس کوابن کثیر نے کہا ہے کہ ”یہ فاسق ہے جس کی مذمت میں ہم حدیث پیش کرچکے ہیں“ ان دونوں کواس فہرست میں داخل کرنے میں بہت ساری مشکلات سے دو چار ہوئے ہیں۔

یہ لوگ بارہ کی عدد کو مکمل کرنے کے لئے مجبور ہیں کہ ان میں سے بعض کو حذف کریں کیونکہ لوگوں کا ان افراد پر اجتماع نہیں ہے اور وہ خاطر خواہ نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتے ہیں۔

آخر میں ابن کثیر نے اس بات کا اعتراف کیاہے کہ ابو جلد کی روایت صحت سے قریب ہے کیونکہ ابوجلد وہ شخص ہے جس کی نظر قدیم کتب پر ہے اور توریت میں بھی اس کے معنیٰ کودرک کیا ہے: اللہ نے ابراہیم کو اسماعیل کی بشارت دی اوراس بات کی بھی بشارت دی ہے کہ ان کی نسل پاک سے بارہ عظیم شخصیتوں کو خلق کرے گا۔

اس کے بعد ابن کثیر نے اپنے شیخ ابن تیمیہ حرانی کے قول کو نقل کیا ہے ”جابر بن سمرہ کی حدیث میں انھیں لوگوں کی بشارت دی گئی ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ امت میں فاصلہ فاصلہ سے وجود میں آئیں گے، جب تک ان کی تعداد پوری نہیں ہوگی قیامت نہیں آئے گی۔

یہودیوں میں سے مشرف بہ اسلام ہونے والے وہ افراد غلطی پر ہیں، جن کا خیال ہے کہ رافضی فرقہ جو کہتا ہے وہی ہماری کتابوں میں لکھا ہے لہٰذا رافضیوں کی بات مانو۔( ۵۵ )

ان لوگوں کا اس بات کا اعتراف کہ اہل کتاب نے اپنی کتابوں میں اثنا عشر سے مراد اہلبیت کو بتایاہے جن کو شیعہ حضرات بارہ امام کہتے ہیں کیونکہ یہاں اہل کتاب اسلام میں داخل ہوکر شیعہ کہلائے۔

اور ابن تیمیہ وغیرہ کا یہ خیال درست نہیں کہ وہ خلفاء امت میں فاصلہ فاصلہ سے ہوں گے کیونکہ حدیث میں اس طرح کا کوئی مفہوم نہیں ہے، جب کہ ان افراد کی تعداد خلافت اسلامی کے سقوط سے لے کر اب تک مکمل نہیں ہوئی۔

ابن حجر عسقلانی نے بعض علماء کے آراء کو پیش کیا ہے جس میں سے ابن جوزی اور ابن البطال اوردوسرے افراد ہیں۔

ابن جوزی اس حدیث کے سلسلہ میں کہتے ہیں: اس حدیث کے معنی کے بارے میں بہت طولانی بحث کی اوراس کے تمام مفاہیم پر غور کیا لیکن مجھ کو روایت کا اصل مفہوم معلوم نہ ہوسکا، اس لئے کہ حدیث کے الفاظ مختلف ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں یہ خلط ملط راویوں نے کیا ہے۔( ۵۶ )

اس بات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کا اس حدیث کے بارے میں مضطرب و سرگردان رہنے کا راز یہ ہے کہ اس حدیث میں ”خلیفہ اور امیر“ جیسے الفاظ ہیں، لوگوں نے اس کا مطلب خلفاء بنی امیہ و بنی عباس اور ان کے علاوہ دوسرے سرکش حکمرانوں کو سمجھ لیا اور وہ یہ بھول بیٹھے کہ خلافت و امارت در حقیقت امامت ہے جو کہ حکم واختیار کے حساب سے زیادہ وسعت رکھتا ہے۔

شیعیت کے باقی عقائد حسب ذیل ہیں:

۱ ۔ توحید : یعنی خدا ایک ہے اس کا کوئی شریک و ہم پلہ نہیں، وہ ذاتاً واجب الوجود ہے، نہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا، وہ آفات و نقصان سے منزہ ہے، وہ زمان و مکان میں محدود نہیں، اس کے مثل کوئی چیز نہیں، وہ جسمانیات و حدوث سے پاک و پاکیزہ ہے دنیا و آخرت میں اس کو آنکھیں دیکھ نہیں سکتی، اس کی تمام صفات ذاتی مثلاً: حیات، قدرت، علم، ارادہ اور ان کے مانند دیگر صفات اس کی عین ذات ہیں۔

۲ ۔ عدل: شیخ مفید نے اس اصل کا خلاصہ یوں کیا ہے کہ خدا عادل و کریم ہے اس نے بندوں کو اپنی عبادت کے لئے خلق کیا ہے او ران کو اطاعت کا حکم دیاہے اور گناہ و معصیت سے منع کیا ہے اور اپنی ہدایت سب پر یکساں رکھی ہے، کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ حکم نہیں دیا، اس کی خلقت نہ ہی عبث ہے اور نہ ہی اس میں کسی طرح کی اونچ نیچ ہے، اس کا فعل قبیح نہیں، اعمال میں بندوں کی شرکت سے منزہ ہے ،کسی کو اس کے گناہ کے سوا عذاب نہیں دیتا، کسی بندے کی ملامت نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ کوئی قبیح فعل انجام دے:

( إنَّ اللّٰهَ لا یَظلِمُ مِثقَالَ ذَرَّةٍ فَاِن تَکُ حَسَنَةً یُضَاعِفُهَا وَ یُؤتَ مِن لَّدُنهُ اجراً عَظِیماً ) ( ۵۷ )

اسی جگہ پر دوسرے مذاہب کے سربراہ افراد یہ کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی نیکوکار کو بغیر کسی گناہ کے سزا دے سکتا ہے اور کسی بھی گنہگار پر نعمتیں نازل کرکے جنت میں بھیج سکتا ہے، یہی ہے خدا کی جانب ظلم کی نسبت دینا، اور خدا ان خرافات سے پاک و منزہ ہے۔

معتزلہ نے شیعوں کے اس مسئلہ میں اتفاق رائے کیا ہے اسی سبب سےاصطلاح میں ان دونوں فرقوں کو ”عدلیہ“ کہتے ہیں۔

۳ ۔ نبوت: یعنی مخلوقات کی جانب مبشر و نذیر کی صورت میں انبیاء کی بعثت واجب ہے اور خداوند تعالیٰ نے سب سے پہلے آدم اور آخر میں انبیاء کے سردار، افضل بشر، سید خلائق اجمعین حضرت محمد بن عبد اللہ خاتم النبیین کی صورت میں مبعوث کیا، قیامت تک آپ کی شریعت کا بول بالا رہے گا، آپ خطا و نسیان اور قبل بعثت و بعد بعثت معاصی کے ارتکاب سے محفوظ تھے۔

آپ کبھی اپنی طرف سے کوئی گفتگو نہیں کرتے جب تک وحی الٰہی کا نزول نہ ہو جائے، آپ نے حق رسالت کو مکمل طور پر ادا کیا، مسلمانوں کے لئے حدود شریعت کو بیان کیا، قرآن آپ کے قلب پر نازل ہوا دررانحالیکہ جب وہ قدیم نہیں تھا،کیونکہ قدیم صرف ذات پروردگار ہے، اس کتاب کے سامنے یا پیچھے سے باطل نفوذ نہیں کرسکتا یہ تحریف سے قطعی محفوظ ہے۔

۴ ۔ امامت: امامیہ اس بات کے معتقد ہیں کہ امامت ایک طرح کا لطف الٰہی ہے اور نبی اکرم کے لئے ضروری کہ اس مسئلہ سے تغافل نہ کرے او رنبی اکرم نے غدیر خم میں حضرت علی کی ولایت و امامت کا اعلان کیا تھا اور ان سے تمسک کی سفارش بھی کی تھی اور بہت ساری احادیث میں ان کی اتباع کا حکم دیا تھا جس طرح سے اہلبیت سے تمسک کا حکم دیا تھا۔

۵ ۔ معاد: یعنی روز قیامت تمام مخلوقات زندہ ہو کر واپس آئیں گی تاکہ خدا ہر شخص کو اس کے عمل کے سبب جزا سزا دے سکے، جس نے نیکی کی اس کو جزا دے گا، جس نے برائی کی اس کو سزا دے گا اور شفاعت ایک طرح کا حق ہے جو گنہگار مسلمانوں کے لئے ہوگی اور کفار و مشرکین ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، یہ شیعہ عقائد تھے جن کو نہایت ہی اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے۔( ۵۸ )

یہ درحقیقت ان افراد کے جھوٹے دعوؤں کا جواب تھا جو شیعوں کی جانب نہایت ہی غیر اور اس کے بعد معقول باتوں کی نسبت دی ہے، جیسے خدا کو مجسم بنانا اور دیگر نازیبا الزامات، جن کا مقصد صرف شیعیت کو بدنام کرنا ہے۔

انحرافی پہلو

وفات رسول اکرم کے بعد جو سب سے بڑی مصیبت آئی وہ تھی اجتہادی فکر کی نشو و نما جو کہ شیعی نظریات کو یکسر بدلنے کی کوشش کر رہے تھے خاص طور سے اموی حکمرانوں کے دور سلطنت میں اور ان کے بعد آنے والے ان کے ہم فکر عباسی خلفاء تھے جنھوں نے اس بات کی قسم کھا رکھی تھی کہ شیعیت کی اصلیت کو مختلف وسایل کے ذریعہ بدل دیں گے اور ان کے خلاف فیصلہ کریں گے لیکن جب ان کو یہ مشکل نظر آئی اور تمام ایذاء رسانیاں، قتل و بربریت، تباہی و بربادی، شیعوں کے خلاف، ناکام ہوتی ہوئی نظر آئی، اور ان کے یہ ہتھکنڈے مسلمانوں کے ذہن میں شیعیت کے چہرہ کو مسخ کرنے سے عاجز رہے تو انھوں نے پینترا بدلہ اور شیعیت میں غلط فکروں کو شامل کرنے کی مہم چلائی اور اس زہریلی فکر کی تعلیم عوام میں دینی شروع کی، جس کا اصل مقصد لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھانا تھی کہ شیعہ ان افکار کے حامل ہیں نتیجتاً لوگ ان سے نفرت کرنے لگیں گے اور ان کی عظمت و شوکت میں ا نحطاط آئے گا اور ان کے خلاف فیصلہ کرنا آسان ہوگا یا کم سے کم ان کی حد بندی ہو جائے گی اور ان کی فکری نشوونما میں گراوٹ آئے گی اوراس امر میں حکومت کو کسی قسم کی قوت کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

یہیں سے بعض فاسد نظریات اور منحرف افراد کی ٹکڑی وجود میں آئی، جن کا اسلام سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا، جبکہ اس بات کا گمان کیا جاتا تھا کہ یہ اہلبیت سے منسوب ہیں اور ان کے افکار و افعال شریعت کے زیر سایہ انجام پارہے ہیں اور عوام کے جاہل طبقہ میں اس بات کی تشہیر و ترویج بھی ہو رہی تھی، اس ٹکڑی میں بہت سارے افراد آکر شامل ہوگئے، اور ان کے باطل اہداف کے سیلاب میں اس وقت سارے افراد فکری سیلاب زدگی کے شکار ہوگئے جس کے سبب اہل بیت نے ان انحرافی افکار، باطل عقائد سے لوگوں کو منع کیا تھا، یہاں تک شیعیت اپنے اصلی چہرے اور واقعی راہ و رسم پر گامزن ہوگئی ہر چند کہ مخالفین و معاندین نے اس کے حسین چہرہ کو مسخ کرنا چاہا تھا، جب کہ منحرفین اور گمراہوں کی یہ ناکام کوششیں حالات کے تحت تھوڑی بہت اثر انداز ہوئی تھی۔

منحرفین کی اہم ترین سازش یہ تھی کہ سلاطین دہر نے ان کو خفیہ طور پر استعمال کیا تھا تاکہ ان کے ذریعہ شیعیت میں پھوٹ پڑ جائے اور انھیں ارادوں کے تحت کچھ فرقوں نے جنم لیا جو حقیقی شیعیت سے بالکل جدا تھے، نیز ان فرقوں اور گروہوں میں غلو کرنے والے بھی شریک تھے جو کہ کچھ برے ارادہ و عقائد کے ساتھ مذہب تشیع میں گھس گئے ہم ان کا مختصر سا تعارف کرائیں گے اور اس کے بعد ان کے سلسلہ میں ائمہ ٪ کے آراء و نظریات پیش کریں گے۔

قارئیں محترم! آپ جان چکے ہیں کہ بارہ امام سے تمسک گویا عملی پیروی ہے جن کے بارے میں نص نبوی موجود ہے کہ یہ (اہلبیت ) وہ لوگ ہیں جن سے خدا نے ہر طرح کے رجس کو دور رکھا ہے اور ان کی طہارت کا اعلان کیا ہے۔

اور یہ وہی (عقیدہ) ہے جو شاہراہ نص کی تصویر کشی کرتا ہے اوراس سے جدا ہوکر خط اجتہاد پر جانے نہیں دیتا، مگر یہ کہ بعض افراد اس پر قائم و دائم نہ رہ سکے، درمیان راہ ساتھ چھوڑ کر الگ ہوگئے اور ”زیدیہ، اسماعیلیہ“ فرقوں سے جاملے جو کہ اثنی عشریوں کے کچھ عقیدوں میں تو ساتھ چلے پھر بقیہ عقائد میں ساتھ چھوڑ دیا۔

ان کے عقائد کا خلاصہ آپ کے پیش خدمت ہے:

۱ ۔ زیدیہ، یہ لوگ تمام اصحاب رسول پر حضرت علی کی افضلیت کے قائل ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ابوبکر وعمر کی صحت خلافت کے بھی قائل ہیں اور برتر پر کم تر کے تقدم کو جائز سمجھتے ہیں اور اس بات کے معتقد ہیں کہ حسین بن علی کی امامت کے بعد اولاد حضرت زہرا میں جو شخص بھی عالم، زاہد، شجاع ہو اور تلوار کے ذریعہ قیام کرے اس کو حق امامت حاصل ہے۔

زیدیہ ہی کی ایک شاخ ”جارودیہ“ ہے جو حضرت علی کی افضلیت کے قائل ہیں اور کائنات ہست و بود میں کسی کو بھی ان کے ہم پلہ نہیں سمجھتے اور جو اس بات کا قائل نہ ہو اس کو کافر گردانتے ہیں اور حضرت علی کی بیعت نہ کرنے کے سبب اس وقت پوری امت کفر کی شکار ہوگئی، یہ لوگ حضرت علی کے بعد امامت حضرت امام حسن اور ان کے بعد حضرت امام حسین کا حق سمجھتے ہیں، ان دونوں کے بعد ان کی اولادوں کی کمیٹی کے تحت جو مستحق امامت ہوگا وہی امام ہے۔( ۵۹ )

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ زیدیہ کا عقیدہ شیعیت سے عمومی طور پر تھوڑا بہت میل کھاتا ہے جو کہ ان کو بغدادی معتزلہ اور بعض بصریوں سے جدا کرتا ہے، اس حوالہ سے یہ باتیں گذر چکی ہیں۔

۲ ۔ اسماعیلیہ، یہ وہ لوگ ہیں جو امام صادق کے بعد امامت کو ان کے بیٹے اسماعیل کو امام سمجھتے ہیں جب کہ اسماعیل اپنے باپ (امام صادق ) کی حیات ہی میں گذر گئے اور ان لوگوں نے یہ مان لیا کہ اسماعیل مرے نہیں ہیں اور نہ ہی ان کو موت آسکتی ہے جب تک وہ پوری دنیا پر حکومت نہ کرلیں۔

یہ اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآن کا ظاہر و باطن الگ الگ ہے، لہٰذا سماوات سبع (سات آسمانوں) و الارضون السبع (زمین کے ساتوں طبق) سے مراد، یہ ساتوں امام ہیں (حضرت علی سے لیکر امام صادق کے بعد ان کے بیٹے اسماعیل)، قواعد عقائد آل محمد میں لکھا ہے کہ شریعت کے باطن کو امام اور نائب امام کے سوا دوسرا نہیں جان سکتا، لہٰذا یہ جو حشر نشر وغیرہ کا لفظ استعمال ہواہے یہ سب کے سب رموز و اسرار ہیں اور اس کے بواطن (پیچیدگیاں) ہیں، غسل یعنی امام سے تجدیدعہد، جماع یعنی باطن میں امام سے کوئی معاہدہ نہیں ہے، نماز سے مراد امام کی سلامتی کی دعا، زکوٰة یعنی علم کی نشر و اشاعت اور اس کے حاجت مندوں تک اس کو پہنچانا، روزہ یعنی اہل ظاہر سے ظلم کو چھپانا، حج یعنی علم حاصل کرنا، نبی کعبہ کی مانند ہیں اور حضرت علی اس کے دروازے ہیں، صفا یعنی نبی، مروہ یعنی علی، میقات یعنی امام، لبیک کہنا (دوران حج) بلانے والے کے باطن کا جواب دینا، طواف کعبہ یعنی اہلبیت رسول کے بیت الشرف کا سات چکر لگانا اور ان جیسے بہت سارے عجیب و غریب عقائد کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں۔( ۶۰ )

اگر ہم ان فرقوں کو بغور ملاحظہ کریں تو اس بات کا انکشاف ہوگا کہ وہ شیعیت جس کی بنیاد رسول اکرم نے ڈالی تھی اور آج تک اپنے آب و تاب کے ساتھ پیغام رسالت کی حامل اور اثناعشری عزائم و عقائد کا مرکز ہے ان لوگوں کا شیعہ فرقوں سے کوئی واسطہ نہیں۔

غلو اور غلو کرنے والے!

اس بحث کو چھیڑ نے کا مقصد غلو کرنے والے اوراس کے فرقوں کی نقاب کشائی ہے اور وہ اختلاط جو متقدمین و متاخرین علماء نے اس فرقہ اور شیعیت کے درمیان جان بوجھ کر یا انجانے میں پیش کیا ہے ان کو بیان کرنا مقصود ہے، ان علماء نے غلو کرنے والوں کے بہت سارے عقائد کو شیعہ اثنا عشری فرقہ کی جانب نسبت دی ہے بعض نے ان کو ”رافضی“ کے لفظ سے یاد کیا ہے بظاہر وقت کلام شیعوں سے کنارہ کشی اختیار کی ہے اور ان پر لعن طعن کیا ہے،ان لوگوں نے غلو کرنے والے (فرقہ غالیہ) کے مختلف عقائد اور دوسرے فرقہ کے عقائد کو رافضہ یا روافض کے عقائد کے نام سے یکجا کردیاہے۔

جیسا کہ ابن تیمیہ نے بہتیرے فاسدو باطل عقائد اور عجیب و غریب باتوں کو رافضیوں کے نام ایسا منسوب کیا ہے کہ قاری کے ذہن میں یہ بات ایسے راسخ ہو جائے کہ یہ شیعوں کے عقائد ہیں، لیکن چند صفحات سیاہ کرنے کے بعد کچھ یوں اظہار نظر کرتے ہیں:

”جو بات قابل توجہ ہے وہ یہ کہ شیعوں کی قسموں میں جو لائق مذمت اقوال و افعال جو کہ مذکورہ باتوں سے کہیں زیادہ ہیں یہ سب کے سب نہ ہی شیعہ اثنی عشری فرقہ میں ہیں اور نہ ہی زیدیہ میں، بلکہ ان میں سے زیادہ تر فرقہ غالیہ اور ان کے سطحی افراد میں پائی جاتی ہیں۔( ۶۱ )

مشکل اس بات کی ہے کہ یہ سارے منحرف اور غلاة گروہ اہل بیت سے محبت کا دعویٰ کرتے تھے اور ان خرافاتی گروہ کا مرکز شہر کوفہ تھا اور یہ شر پسند افراد اپنے تمام تر عقائد میراث میں پائے تھے اور اپنے شہر ”مانویہ، ثنویہ“ سے کسب کیا تھا جو کہ مجوسیوں کے تراشیدہ و خود ساختہ عقائد تھے، نیز حلول، اتحاد، تناسخ (آواگون)، جیسے عقائد ہندوستان کے فرسودہ عقائد کا چربہ تھا یااس کے مانند دیگر ممالک جو اسی دسترخوان کے نمک خوار تھے، انھیں سب اسباب کے تحت یہ باطل عقائد فطری طور پر منحرف اور سادہ لوح افراد کے درمیان بہت تیز پھیلے، جب انھوں نے عام مسلمانوں بالخصوص شیعیان کوفہ کو اہلبیت کرام کے لطف و کرم سے فیضیاب ہوتے ہوئے دیکھا تو اپنے آپ کو اہلبیت سے منسوب کردیا اور خود کو ان کا شیعہ ظاہر کیا ،تاکہ لوگوں کے دلی لگاؤ کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں ،جس کے سبب ان کے عقائد کی ترویج میں ان کو آسانی ہوئی۔

جبکہ اہلبیت نے ان خطوط سے لوگوں کو ہوشیار اور مسلمانوں و شیعوں کو غلاة کی مکاریوں سے آگاہ بھی کیا جیسا کہ گذر چکا ہے، مزید کچھ ذکر آئے گا۔

غلو کے سلسلہ میں جو اصل مشکل ہوئی وہ یہ کہ اس کے مفہوم کی حد بندی نہیں ہوئی اور واضح نہ ہوسکا جس کا فطری اثر خلط عقائد ہوا، لہٰذا ان امور کی وضاحت ضروری ہے۔

غلو کے لغوی معنیٰ: قصد و ارادہ کے ساتھ نکلنا اور حد سے بڑھ جانا ہے، لہٰذا ہر وہ چیز جو حد سے باہر نکل جائے وہ غلو ہے۔

ابن منظور کے بقول: اس نے دین و امر میں غلو کیا یعنی، حد سے باہر نکل گیا۔

غلو قرآن کی نظر میں:

( لاتغلوا فی دینکم ) دین میں غلو نہ کرو۔

بعض لوگوں نے کہا: ”فلاں شخص نے اس امر میں غلو کیا“ یعنی وہ حد سے گذر گیا اور تفریط سے کام لیا۔( ۶۲ )

اصطلاح میں اس کی کوئی جامع و مکمل تعریف دستیاب نہ ہوسکی، لیکن علماء کے نظریات و تعریف کی روشنی میں جو کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ:کچھ افراد کے سلسلہ میں قصد و ارادہ کے ساتھ حد سے بڑھ جانا یا ان کو ان کی حیثیت سے زیادہ مرتبہ دینا۔

فضیلت و کمال میں غلو کرنا یعنی اس کو اس حد تک بڑھا دینا کہ نبوت و الوہیت کے مرتبہ تک پہنچ جائے تو اس کو ایک قسم کا غلو کہیں گے۔

بنی امیہ کے دور حکومت میں بعض حدیثیں صرف بغض و حسد کے سبب کچھ اصحاب کی شان میں گڑھ دی گئیں اور ان کا اصل مقصد صرف اہلبیت کے فضائل کو مٹانا اور ان کو ان کے مراتب سے گھٹانا تھا۔

جیسا کہ مدائنی و نفطویہ جیسے علماء اہل سنت نے اس بات کا اعتراف کیا ہے، مثلا عمر بن الخطاب کے فضائل، یا ان لوگوں کا یہ کہنا کہ خدا سارے لوگوں پر اپنا نور آشکار کرتا ہے لیکن ابوبکر پر عنایت خاص تھی، یا یہ کہ آسمان کے فرشتے عثمان سے حیاء کرتے ہیں اس کے علاوہ ام المومنین عائشہ و طلحہ و زبیر کی قصیدہ خوانی، کہ جنھوں نے حضرت علی جیسے واجب الطاعہ امام کے خلاف جنگ کی۔

بعض صوفیوں نے اپنے پروو ں اور مریدوں کے بارے میں نہایت ہی رکیک باتیں مشہور کیں اور ان کو بسا اوقات انبیاء سے بھی بڑھا دیا، اور مذاہب اربعہ کے ماننے والوں نے اپنے اماموں کے لئے تو بہت کچھ تیار کر ڈالا اور ان کی شان میں از حد غلو سے کام لیا۔

روندیہ فرقہ نے بنی عباس کے سلسلہ میں کفر کی حدتک غلو کیا، اس فرقہ نے اس بات کا دعوی کیا ہے کہ ابو ہاشم نے محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب کو وصی بنایا تھا، اس لئے کہ یہ ”شراہ“ نامی مقام جو کہ ملک شام میں ہے، وہیں ان کے پاس مرے تھے اور علی اس وقت چھوٹے بھی تھے لہٰذا وہی امام وہی خدا ہیں وہی ہر چیز کے عالم کل ہیں، جو ان کو پہچان لے وہ جو چاہے انجام دے سکتا ہے، اس کے بعد محمد بن علی نے اپنے بیٹے ابراہیم بن محمد ملقب بہ امام کو وصی بنایا، یہ فرزندان عباسی کی پہلی فرد ہیں جن کو امامت ملی، ابو مسلم خراسانی نے بھی اس بات کا دعویٰ کیاہے۔

اس کے بعد ابراہیم نے اپنے بھائی ابو العباس عبد اللہ بن محمد ملقب بہ سفاح کو وصی بنایا، یہ عباسی سلسلہ کا پہلا خلیفہ تھا، اس نے اپنے زمانے میں اپنے بھائی ابو جعفر عبد اللہ بن محمد منصور کو وصی بنایا اس نے اپنے بیٹے مہدی بن عبد اللہ کو وصی بنایا اس نے ولایت سنبھالتے ہی وصیت کو بدل دیااور اس بات کا منکر ہوا کہ نبی نے محمد بن حنفیہ کو وصی نہیں بنایا تھا، بلکہ رسول نے عباس بن عبد المطلب کو وصی بنایا تھا، کیونکہ عباس رسول کے چچا اور ان کے وارث تھے نیز اور لوگوں کے بہ نسبت زیادہ رسول سے قریب تھے، ابوبکر و عمر و عثمان و علی جو کہ رسول کے بعد خلیفہ رسول بنے یہ سب غاصب تھے اور حکومت کوان سے چھین لیا تھے، اس نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ رسول کے بعد امامت کا حق عباس کا تھا ان کے بعد ان کے وارث، عبد اللہ بن عباس، پھر ان کے بیٹے علی بن عبد اللہ، پھر ابراہیم بن محمد الامام، پھر ان کے بھائی عبد اللہ، پھر ان کے بھائی ابو العباس، پھر ان کے بھائی ابی جعفر منصور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہا۔

عبد اللہ روندی کے بارے میں روندیہ فرقہ کا کہنا ہے: امام، یعنی ہر شیء کا عالم اور وہی خداوند عالم ہے جو ہر ایک کو موت و حیات دینے والا ہے، ابو مسلم خراسانی اللہ کے رسول اور عالم غیب ہیں، ابو جعفر منصور نے ان کو رسالت عطا کی تھی کیونکہ وہ الوہیت کے درجہ پر فائز تھے اور وہ ان کے اسرار و رموز سے واقف تھے، منصور کے رسولوں نے دعوت کا اعلان کیا۔

جب منصور کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو اس نے ایک گروہ کو طلب کیا تو انھوں نے اس بات کا اقرار کیا، اس نے اس بات سے توبہ اور روگردانی کا حکم دیا تو انھوں نے کہا کہ منصور ہمارا خدا ہے وہی ہم کو شہید کرتا ہے، جس طرح سے انبیاء و مرسلین جن کے ہاتھوں وہ چاہتا ہے، شہید کئے گئے، اور ان میں سے بعض کے عمارت ڈھاکر یا غرق کر کے ہلاک کیا، بعض کے اوپر درندے چھوڑ دیئے، بعض کی روحوں کو حادثاتی یا دل بخواہ علتوں سے قبض کرلیا، وہ اپنی مخلوقات کے ساتھ جیسا چاہے برتاؤ کر اسی کو اختیار ہے اس سے کسی بات کا سوال نہیں ہوگا۔( ۶۳ )

اسلام سے قبل ادیان و مذاہب میں بھی غلو پایا جاتا تھا۔

یہودیوں نے حضرت عزیر کی الوہیت کا دعویٰ کیا، جس کو روایات نے بھی بیان کیا ہے اور قرآن نے بھی اس کی عکاسی کی ہے۔

( او کَالَّذِی مَرَّ عَلٰی قَرْیَةٍ وَ هِیَ خَاوِیَةٌ علٰی عُرُوشِهَا قَالَ انیٰ یُحیِی هٰذِهِ اللّٰهُ بَعدَ مَوتِهَا فَامَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ) ( ۶۴ )

(یا اس بندے کے مثال جس کا گذر ایک بستی ہوا جس کے عرش و فرش گر چکے تھے تو اس بندے نے کہا کہ خدا ان سب کو موت کے بعد کیسے زندہ کرے گا تو خدا نے اس بندہ کو سو ( ۱۰۰) سال کے لئے موت دیدی اور پھر زندہ کیا)۔

قرآن کریم نے ان کے خرافاتی نظریہ کو کچھ یوں نقل کیا ہے:

( وَ قَالَتِ الیَهُودُ عَزِیزٌ ابنِ اللّٰهِ ) ( ۶۵ )

(یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں)۔

روایات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ حضرت عزیر کے توسط سے کچھ ایسے معجزات رونما ہوئے جس کے سبب یہودی یہ کہنے لگے کہ ان میں الوہیت پائی جاتی ہے یا اس کا کچھ جزء شامل ہے، یہودیوں کے مثل نصاری کے یہاں بھی ایسے نظریات پائے جاتے ہیں، انھوں نے حضرت عیسیٰ کے سلسلہ میں غلو کیا اوران کی الوہیت کا دعویٰ کیا، قرآن کریم نے گذشتہ آیت میں یہودیوں کے نظریات کے فوراً بعد ان کے نظریات کا تذکرہ کیا ہے:

( وَ قَالَتِ الیَهُودُ عَزَیرٌ ابنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصاریٰ المَسِیحُ ابنُ اللّٰهُ ذٰلِکَ قَولُهُم یُضَاهِئُونَ قَولَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِن قَبلِ قَاتَلَهُمُ اللّٰهُ انّٰی یُؤفَکُونَ ) ( ۶۶ )

(اور یہودیوں کا کہنا ہے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں یہ سب ان کی زبانی باتیں ہیں ان باتوں میں وہ بالکل ان کے مثل ہیں، جو ان کے پہلے کفار کہتے تھے اللہ ان سب کو قتل کرے یہ کہاں بہکے چلے جارہے ہیں)۔

اسی سبب قرآن نے ان کی مذمت کی اور ان باطل خیالات و خرافات کی تنبیہ کی ہے۔

قال اللّٰہ:( یَا اهلَ الکِتَابِ لاتَغلُوا فِی دِینِکُم وَ لاتَقُولُوا علٰی اللّٰهِ إلا الحَقِّ ) ( ۶۷ )

(اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہو)

یہ بات بالکل ممکن تھی کہ غلو مسلمین میں سرایت کر جائے، کیونکہ اہل کتاب کی شر پسندیاں ان کے فاسد و باطل عقائد سے واضح ہیں۔

دوسری جانب وہ دوسری اشرار قومیں جو مجوسیت اور دیگر ادیان سے خارج ہوکر اسلام میں داخل ہوئیں تھیں اور اسلام کا دکھاوا کر رہیں تھیں۔

نیز اہل کتاب اور دیگر افراد جنھوں نے بظاہر اپنی گردنوں میں قلادہ اسلام ڈال رکھا تھا، انھوں نے ضعیف الایمان مسلمانوں کو دھوکہ میں رکھ کر ان کے درمیان غلو جیسے باطل عقیدہ کو خوب ہوا دی، درحقیقت یہ اسلام کو اندر ہی اندر کچل ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔

غلو سے اسلامی فرقے محفوظ نہیں ہیں، ان فرقے کے علماء وغیرہ نے اپنے بزرگوں کی ثنا خوانی میں عقل کی شاہراہ کو چھوڑ دیااور حدود منطق سے یکسر خارج ہوگئے۔( ۶۸ )

۱. بعض افراد کے نظریات:

وہ کہتے ہیں کہ خداوند عالم نے ابو حنیفہ کو شریعت و کرامت سے نوازا ہے ان کی کرامات میں سے یہ ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام ہر صبح ان کے پاس آتے تھے اور احکام شریعت کی تعلیم حاصل کرتے تھے اور یہ سلسلہ پانچ سال تک قائم تھا جب ان کا انتقال ہوگیا تو حضرت خضر نے خدا سے دعا کی، خدایا! اگر تیری بارگاہ میں میری کوئی قدر و منزلت ہے تو اس کے سبب، ابو حنیفہ کو اجازت دیدے تاکہ وہ قبر میں رہ کر حسب عادت مجھے کچھ تعلیم دیتے رہیں اور میں شریعت محمد کی مکمل تعلیم حاصل کرلوں، اللہ نے ان کو دوبارہ زندہ کیا اور حضرت خضر نے ان سے پچیس سال علم حاصل کیا جب حضرت خضر کی تعلیم مکمل ہوگئی تو خدا نے حکم دیا کہ قشیری کے پاس جاؤ اور جو کچھ ابوحنیفہ سے سیکھا ہے ان کو سکھاؤ۔

حضرت خضر نے جو کچھ ابوحنیفہ سے سیکھا تھا قشیری کو سکھایا اس کے بعد انھوں نے ایک ہزار ( ۱۰۰۰) کتاب تصنیف کی، اور یہ جیحون نامی نہر کی آغوش میں بطور امانت رکھی ہے جب حضرت عیسیٰ چرخ چہارم سے آئیں گے تو اسی کتاب کے مطابق فیصلہ کریں گے، اس لئے کہ جس زمانے میں حضرت عیسیٰ آئیں گے سردست شریعت محمدی کی کوئی کتاب مسیر نہ ہوگی حضرت عیسیٰ جیحون کی امانت کو واپس لیں گے وہ قشیری کی کتاب ہوگی،الاشاعة فی الشراط الساعة، ص ۱۲۰ ، الیاقوتہ، ابن الجوزی، ص ۴۵ ۔

ابو حنیفہ کی موت پر جناتوں نے گریہ کیا ان کے پاس ثبوت ہے کہ جس رات ابوحنیفہ مرے تھے اس رات گریہ کی آواز آرہی تھی مگر رونے والا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

ذهب الفقه فلا فقه لکم

فاتقوا اللّٰه و کونوا خلفائ

مات نعمان فمن هذا الذی

یحیی اللیل اذا ما سدنا

(فقہ ختم ہوگئی اب تمہارے پاس کوئی فقہ نہیں تقوی الٰہی اختیار کرو اوران کے خلف صالح بنو۔

نعمان گذر گئے ان کے مثل کون ہوگا جو راتوں کو جاگتا تھا جب رات کی تاریکی پھیل جاتی تھی)

وہ اس بات کے قائل ہیں کہ، احمد بن حنبل امام المسلمین سید المومنین ہیں انھیں کے ذریعہ ہم کو موت و حیات ملتی ہے اور انھیں کے ذریعہ ہمارا معاد ہوگااور جو اس نظریہ کا قائل نہیں ہے وہ کافر ہے ذیل طبقات الحنابلہ، ج ۱ ، ص ۱۳۶ ۔

انھوں نے احمد بن حنبل کے بغض کو کفر اور محبت کو سنت قرار دیا ہے اور اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کسی شخص کو ان کی محبت میں سرشار پاؤ تو سمجھو کہ یہ سنت و جماعت کا پیروکار ہے الجرح و التعدیل، ج ۱ ، ص ۳۰۸ ۔

شافعی کی طرف نسبت دے کر کہتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ جو احمد بن حنبل سے بغض رکھے وہ کافر ہے ان سے کسی نے کہا کہ کیا اس پر کفر باللہ صادق آئے گا؟ تو آپ نے کہا: ہاں جو شخص ان سے بغض رکھے گویا صحابہ سے عناد رکھتا ہے جس نے صحابہ سے دشمنی کی گویا اس نے رسول سے عداوت برتی اور جس نے رسول سے عداوت کی وہ کافر ہے طبقات الحنابلہ، ج ۱ ، ص ۱۳ ۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ احمد ابن حنبل سے بغض رکھنے والا اللہ کا منکر ہے ابن جوزی نے علی بن اسماعیل سے نقل کیا ہے کہ میں نے دیکھا کہ قیامت برپا ہے سارے لوگ ایک پل کے پاس جمع ہیں اور کوئی شخص اس سے گذر نہیں سکتا جب تک اس ایک پروانہ مل نہ جائے کونے میں ایک شخص ہے جو پروانہ عطا کرتا ہے جو اس کو لے کر آتا ہے اس سے گذر جاتا ہے میں نے پوچھا: یہ کوں شخص ہے جو پروانے عطا کرتا ہے؟

لوگوں نے جواب دیا: یہ احمد ابن حنبل ہیں مناقب ابن الجوزی، ص ۴۴۶ ۔

اسود ابن سالم کہتا ہے کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اسود، اللہ نے تم کو سلام کہا ہے اور تم کو پیغام دیا ہے کہ احمد بن حنبل کے ذریعہ امت گناہوں سے بچی ہے لہٰذا تم کیا کر رہے ہم؟ اگر تم ان سے متمسک نہ ہوئے تو تم ہلاک ہو جاو گے ۔

حسن صواف کہتا ہے کہ میں نے خدا کو خواب میں دیکھا اس نے مجھ سے کہا: جس نے احمد بن حنبل کی مخالفت کی وہ مستحق عذاب ہے۔ مناقب احمد بن حنبل، ص ۴۶۶ ۔

ابو عبد اللہ سجستانی کہتا ہے کہ میں نے رسول اکرم کو خواب میں دیکھا اور عرض کی یا رسول اللہ! آپ کے بعد اس امت میں آپ کا خلیفہ و نمائندہ کون ہے تاکہ دین میں اس کی اقتدا کریں؟

تو آپ نے فرمایا: احمد بن حنبل کی پیروی کرو مناقب احمد بن حنبل، ص ۴۶۸ ۔

امام مالک نے خود اپنے خوابوں کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ ”کوئی ایسی رات نہیں بیتی جس میں ہم نے رسول کو نہ دیکھا ہو الدیباج، ص ۲۱ ۔

خلف بن عمر کہتا ہے: میں امام مالک کے پاس گیا تو انھوں نے کہا کہ میرے مصلے کے نیچے دیکھو کیا ہے میں نے اس کے نیچے ایک کتاب پائی انھوں نے کہا:اس کو پڑھو! اس میں وہ سارے خواب ہیں جس کو برادارن نے دیکھا ہے، پھر انھوں نے کہا کہ میں نے ایک رات خواب دیکھا کہ رسول مسجد میں تشریف فرما ہیں اورلوگ ان کے گرد حلقہ بنائے بیٹھے ہیں آپ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: ”ہم نے تم لوگوں سے علم خوشبو چھپالی، اور اب مالک کو حکم دیتا ہوں کہ اس کو لوگوں میں پھیلائیں لوگ وہاں سے یہ کہتے ہوئے اٹھے کہ، اب مالک حکم رسول کے مطابق نفاذ حکم کریں گے“اس کے بعد مالک روئے اور میں ان کے پاس سے چلا آیا۔ مناقب مالک، ص ۸ ، حلیہ الاولیاء، ج ۶ ، ص ۳۱۶ ۔

محمد بن رمح کہتا ہے: کہ میں نے اپنے باپ کے ساتھ حج انجام دیا ابھی میں بالغ بھی نہیں ہوا تھا اور میں مسجد نبی میں قبر رسول و منبر رسول کے درمیان سوگیا میں نے خواب میں دیکھا کہ رسول اکرم عمر و ابوبکر کے شانوں کا سہارا لئے قبر سے باہر آئے میں نے ان سب کو سلام کیا، انھوں نے جواب سلام دیا۔

میں نے عرض کی: یا رسول اللہ ! کہاں جانے کا قصد رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: مالک کے لئے صراط پر کھڑے ہونے جارہا ہوں، میری آنکھ کھل گئی اس کے بعد میں اور میرے والد مالک کے پاس گئے تو کیا دیکھا لوگ ان کے پاس جمع ہیں انھوں نے سب سے پہلے لوگوں کے لئے موطا لکھی ، مناقب مالک، عیسیٰ بن مسعود مرزواوی، ص ۱۷ ۔

محمد بن رمح ہی اس بات کا ناقل ہے کہ میں نے چالیس سال کی عمر میں بھی رسول کو خواب میں دیکھا اور عرض کی: یارسول اللہ! مالک اور لیث نے ایک مسئلہ پر اختلاف کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: مالک میرے جد ابراہیم کے میراث کے وارث ہیں ۔ الجرح والتعدیل، ج ۱ ، ص ۲۸ ۔

بشیر ابن ابی بکر کہتا ہے کہ: میں نے خواب دیکھا کہ میں جنت میں داخل ہوگیاہوں میں نے اوزاعی اور سفیان ثوری کودیکھا لیکن امام مالک نظر نہ آئے، میں نے پوچھا: مالک کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا: مالک کہاں ہیں؟ مالک بلند ہوئے، بلند ہوئے وہ کہتا جارہا تھا کہ مالک ہاں ہیں؟ مالک ہاں ہیں؟ مالک بلند ہوئے جاتے تھے اور اتنی بلندی تک پہنچ گئے کہ اگر دیکھو تو ٹوپی گر جائے الجرح و التعدیل، ج ۱ ، ص ۲۸ ۔

ابونعیم نے ابراہیم بن عبد اللہ سے اسماعیل بن مزاحم مروزی کی بات کو نقل کیا ہے، وہ کہتا ہے: کہ میں نے خواب میں رسول اللہ کو دیکھا تو میں نے سوال کیا یا رسول اللہ! آپ کے بعد کس سے مسائل دریافت کریں؟ تو آپ نے فرمایا: مالک ابن انسحلیة الاولیاء، ج ۶ ، ص ۳۱۷ ۔

مصعب بن عبد اللہ زبیری کہتا ہے کہ: جب ایک شخص رسول کے پاس آیا تو آپ کو فرماتا سنا کہ تم میں مالک کون ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ آپ نے ان کو سلام کیا گلے سے لگایا سینے سے چمٹایا وہ کہتا ہے کہ: خدا کی قسم کل میں نے رسول کو اسی جگہ بیٹھے دیکھا تھا اس وقت آپ نے حکم دیا مالک کو بلاؤ جب آپ آئے تو آپ کے اعضاء کانپ رہے تھے تو آپ نے فرمایا کہ: اے ابا عبد اللہ! تم کو کچھ ایسا نہیں ہونا چاہیئے ہم تمہارے ساتھ ہیں اس کے بعد حکم دیا بیٹھ جاؤ، آپ بیٹھ گئے، پھر حکم دیا اپنا دامن پھیلاؤ آپ نے پھیلایا، رسول نے آپ کے دامن کو مشک سے بھر دیا اور حکم دیا ا سکو سینہ سے لگا لو اور میرے امت میں اس کو تقسیم کرو مصعب کہتا ہے کہ: مالک یہ سن کر بہت روئے اور فرمایاکہ خواب سرور بخش ہوتے ہیں دھوکہ باز نہیں اگر تمہارا خواب صحیح ہے تو یہ وہی علم ہے جس کو خدا نے ہمیں عطا کیا ہے الانتقاء، ص ۳۹ ، شرح مو طا، زرقانی، ج ۱ ، ص ۴

عدوی کہتا ہے کہ: جب ہماری امت و اسلام کے شیخ اللقانی دنیا سے گذر کئے تو بعض متدین افران نے ان کو خواب میںدیکھا کسی نے پوچھا خدا نے کیا برتاؤ کیا ہے تو انھوں نے جواب دیا: جب قبر میں دونوں فرشتوں نے بٹھایا تاکہ سوال کریں اس دم امام مالک تشریف لے آئے اور پوچھا کہ کیا ایسے افراد کے ایمان کے سلسلہ میں بھی سوال کی ضرورت ہے؟ ان سے تم دونوں دور ہو جاؤ دور ہو جاؤ مشارق الانوار، عدی، ص ۲۲۸ ۔

انھیں لوگوں میں سے منقول ہے کہ: رسول اکرم نے مالک کی کتاب کا نام موطا رکھا ہے آپ سے جواب میں سوال کیا گیا کہ لیث و مالک کسی مسئلہ پر اختلاف رائے رکھتے ہیں ان میں کون عالم ہے؟ تو نبی نے فرمایا: مالک میرے جد ابراہیم کے وارث ہیں مناقب مالک، زاوی، ص ۱۸ ۔

اس شخص نے دوبارہ رسول اکرم سے خواب میں پوچھا: کہ آپ کے بعد کس سے مسائل دریافت کریں تو آپ نے فرمایا: مالک ابن انس مناقب مالک زاوی، ۱۸ ، ماخوذ، الامام الصادق و المذاہب الاربعہ، اسد حیدر۔

جیسا کہ اسلام سے پہلے کے ادیان غلو سے محفوظ نہیں رہ سکے چنانچہ ان کے عقائد و نظریات سے واضح ہے،اسی طرح اسلامی فرقے اس کی لپیٹ میں آگئے، مگر یہ کہ بعض مورخین و سیرت نگاروں نے غلو کو صرف ایک فرقہ کی جانب منسوب کردیا کہ فرقہ شیعہ اس میں گرفتار ہے یہ کام اس راہ پر چلتے ہوئے انجام دیا گیا، جس کو شر پسند حکومتوں نے مذہب اہلبیت کے خلاف کئی صدیوں سے قائم کر رکھا تھا۔

جب کہ ہم نے اثنا عشری عقائد کو خلاصہ کے طور پر پیش کیا ہے، توحید، خدا کا پاک و منزہ ہونا جو کہ شیعیت کے اصلی و حقیقی عقائد میں سے ہے اس کو بیان کیا ہے، ہم عنقریب غلو کے سلسلہ میں شیعہ متقدمین و متاخرین و معاصرین علماء کے نظریات کو بیان کریں گے تاکہ غلو و غلاة کے سلسلہ میں شیعہ اثناعشری فرقہ کا نظریہ واضح ہو جائے۔

شیخ مفید کہتے ہیں: غلاة اسلام کا دکھاوا کرنے والے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے امیر المومنین اوران کی اولاد پاک کے سلسلہ میں الوہیت و نبوت کی نسبت دی اور ان کے حوالے سے فضیلت کی وہ نسبت دی جو حد سے گذر جانے والی ہے وہ گمراہ و کافر ہیں، امیر المومنین نے ان کے قتل اور آگ میں جلا دینے کا حکم دیا ہے، ائمہ کرام نے ان کے کفر اور اسلام سے خارج ہونے کا فیصلہ دیا ہے۔( ۶۹ )

شیخ صدوق فرماتے ہیں: غلاة اور مفوضہ کے سلسلہ میں ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ کافر باللہ ہیں یہ لوگ اشرار ہیں جو یہودی، نصاریٰ، مجوسی، قدریہ، حروریہ سے منسلک ہیں یہ تمام بدعتوں اور گمراہ فکروں کے پیروکار ہیں۔( ۷۰ )

محقق حلی کہتے ہیں: غلاة اسلام سے خارج ہیں گو کہ انھوں نے اسلام کا بظاہر اقرا رکر رکھا ہے۔( ۷۱ )

نراقی کہتے ہیں: غلاة کی نجاست میں کسی قسم کا شک نہیں یہ وہ لوگ ہیں جو حضرت علی یا دوسرے افراد کی الوہیت کے قائل ہیں۔( ۷۲ )

دوسری جگہ فرماتے ہیں: ناصبیوں اور خارجیوں کی نماز میت پڑھنا جائز نہیں، اگرچہ اجماع کے حساب سے یہ لوگ اسلام کا اظہار و اقرار کرتے ہیں۔( ۷۳ )

شیخ جواہری کہتے ہیں: غلاة، خوارج، ناصبی اور ان کے علاوہ دیگر افراد جو ضروریات دینی کے منکر ہیں یہ کبھی بھی مسلمین کے وارث نہیں ہوسکتے۔( ۷۴ )

آقا رضا ہمدانی فرماتے ہیں: وہ فرقہ جن کے کفر کا حکم دیا گیا ہے وہ غلاة کا ہے اور ان کے کفر میں شک و شبہ نہیں ہے اس بات کے پیش نظر کہ یہ لوگ امیر المومنین اور دیگر افراد کی الوہیت کے قائل ہیں۔( ۷۵ )

اپنے وقت کے اعلم دوراں السید محمد رضا گلپائیگانی نے مسئلہ ۷۴۸ میں فرمایا:کہ ذبح کرنے والے کے لئے شرط ہے کہ مسلمان ہو یا حکم مسلمان میں ہو یعنی مسلمان نطفہ سے پیدا ہوا ہو کافر، مشرک یا غیر مشرک کا ذبیحہ حلال نہیں ہے بنابر اقویٰ کتابی کا بھی ذبیحہ حلال نہیں ہے، اس میں ایمان کی شرط نہیں ہے۔

تمام اسلامی فرقوں کے ہاتھوں کا ذبیحہ حلال ہے سوائے ناصبیوں کے جن کے کفر کا مسئلہ واضح ہے یہ وہ لوگ ہیں جوعلی الاعلان اہلبیت سے دشمنی کا اظہار کرتے ہیں، ہر چند کہ یہ لوگ اسلام کا دکھاوا کرتے ہیں۔

انھیں کے مانند وہ گروہ بھی ہے جواسلام کا دکھاوا کرتا ہے اور کفر ان کے لئے ثابت ہے، جیسے خوارج اور ناصبی۔( ۷۶ )

یہاں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علماء شیعہ غلاة کے کفر اور ان کی نجاست کا حکم دے چکے ہیں اور ان کے سلسلہ میں فقہی مسائل بھی بیان کردیئے ہیں، مثلاً ان کی نجاست، ان کے ذبیحہ حرام ہے اور یہ مسلمانوں کی میراث نہیں پاسکتے۔

جرح و التعدیل کے شیعہ علماء کا غلاة کے سلسلہ میں موقف نہایت واضح ہے۔

عبد اللہ بن سبا

کشی نے ابن سبا کے حالات میں کہا ہے کہ اس نے ادعائے نبوت کیا اور اس بات کا معتقد تھا کہ علی ہی خدا ہیں،اس سے تین دن تک توبہ کے لئے کہا گیا لیکن اس نے انکار کیا تواس کو مزید ستر آدمیوں کے ساتھ جلا دیا گیا جواس کے نظریہ کے قائل تھے۔( ۷۷ )

شیخ طوسی اورابن داؤد نے کہا ہے کہ، عبد اللہ بن سبا کفر کی طرف پلٹ گیا تھا اور غلو کا اظہار کرتا تھا۔( ۷۸ )

علامہ حلی اس کے بارے میں فرماتے ہیں: (عبد اللہ بن سبا) غلو کرنے والا ملعون تھا امیر المومنین نے اس کو جلا دیا تھا وہ اس بات کا معتقد تھا کہ حضرت علی خدا ہیں اور نبی ہیں، خدا اس پر لعنت کرے۔( ۷۹ )

کشی نے ابان بن عثمان سے نقل کیا ہے کہ میں نے ابا عبد اللہ یعنی امام صادق کو فرماتے سنا، خدا عبداللہ بن سبا پر لعنت کرے وہ حضرت امیر کی ربوبیت کا قائل تھا جبکہ خدا کی قسم آپ خدا کے عبادت گذار خالص بندے تھے، ہم پر جھوٹ باندھنے والوں پر وائے ہو۔

ایک گروہ ہمارے بارے وہ کچھ کہتا ہے جو ہم اپنے بارے میں کبھی نہیں کہتے، ہم ان سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، ہم ان سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔( ۸۰ )

کشی نے امام صادق سے روایت نقل کی ہے، آپ نے فرمایا: ہم اہل بیت صدیق ہیں، ہم ان دروغ باتوں سے محفوظ ہیں جو ہماری جانب جھوٹ کی نسبت دیتے ہیں اور ہماری سچائی کواپنے جھوٹ سے لوگوں میں مشکوک کرتے ہیں، رسول خدا لوگوںمیں سب سے سچے تھے، مجسمہ خیر تھے لیکن مسیلمہ آپ پر جھوٹ باندھتا تھا۔

بعد رسول اکرم حضرت امیر المومنین سب سے بڑے صادق، لیکن عبد اللہ بن سبا نے جھوٹ باتیں ان کی جانب منسوب کیں اوران کی سچائی کو اپنے جھوٹ سے مخدوش کیا اوراللہ پر افتراء پردازی سے کام لیا۔( ۸۱ )

۲ ۔ جو کچھ گذر چکا اس سے اور آگے بحار الانوار میں درج ہے کہ:

امام حسین بن علی مختار ثقفی کے سبب مشکلات سے دوچار ہوئے، پھر امام صادق نے حارث شامی اور بتان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یہ دونوں، حضرت امام سجاد پر جھوٹ باندھا کرتے تھے اس کے بعد مغیرہ بن سعید، بزیع، سری، ابوالخطاب، معمر، بشار الشعیری، حمزہ ترمذی اور صائد نہدی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اللہ ان لوگوں پر لعنت کرے ہم پر ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی جھوٹ باندھنے والا رہا ہے، یا عاجز الرای رہا ہے۔

خدا نے ہم کو ہر جھٹلانے والے کے شر سے محفوظ رکھا اوران کو تہ تیغ کیاہے۔( ۸۲ )

____________________

[۵۵] البدایہ والنہایہ، ج۶، ص۲۷۸، ۲۸۰، ج۲، ص۱۷۶، جناب ہاجرہ سے اسماعیل کی ولادت کے تذکرہ کے ضمن میں

[۵۶] فتح الباری، ج۱۳، ص۱۸۱

[۵۷] اوائل المقالات، ص۲۴

[۵۸] عقائد الامامیہ، شیخ مظفر، ص ۳۶،

[۵۹] تاریخ الفرق الاسلامیہ، الفرق بین الفرق، ص۳۹

[۶۰] قواعد عقائد آل محمد، ص۸، اختصار کے ساتھ

[۶۱] منہاج السنہ النبویہ، ج۱، ص۵۷

[۶۲] لسان العرب، ج۱۵، ص۱۳۲

[۶۳] فرقہ الشیعہ، نوبختی، ص۵۰۔ ۴۶

[۶۴] سورہ بقرہ، آیت ۲۵۹

[۶۵] سورہ توبہ، آیت ۳۰

[۶۶] سورہ توبہ، آیت ۳۰

[۶۷] سورہ نساء، آیت ۱۷۱

[۶۸] آکام المرجان، قاضی شبلی، ص ۱۴۹

[۶۹] تصحیح الاعتقاد، ص۶۳

[۷۰] اعتقادات، ص ۱۰۹

[۷۱] المعتبر، ج۱، ص ۹۸

[۷۲] مستند الشیعہ، ج۱، ص۲۰۴

[۷۳] مستند الشیعہ، ج۶، ص۲۷۰

[۷۴] جواہر الکلام، ج۳۹، ص ۳۲

[۷۵] مصباح الفقیہ، ج۹، ق۲، ص۵۶۸

[۷۶] ہدایة العباد، ج۲، ص۲۱۷

[۷۷] رجال کشی، ج۱، ص۳۲۳، شمارہ ۱۷۰

[۷۸] رجال طوسی، ص ۵۱، رجال ابن داود، ص ۲۵۴

[۷۹] الخلاصہ، ص۲۵۴

[۸۰] رجال کشی، ج۱، ص۳۲۴، شمارہ ۱۷۱

[۸۱] رجال کشی، ج۱، ص۳۲۴، شمارہ ۱۷۴

[۸۲] بحار الانوار، ج۲۵، ص۲۶۳