غلاة کے سلسلہ میں اہل بیت اور ان کے شیعوں کا موقف
پیغمبر اسلام نے اصحاب کرام کو اپنی امت میں رونما ہونے والے فتنوں سے باخبر کردیا تھا، انھیں امور میں سے ایک وہ راز تھا جس سے حضرت علی کو آگاہ کیا تھا کہ ایک قوم تمہاری محبت کا اظہار کرے گی اوراس میں غلو کی حد تک پہنچ جائے گی اور اسی کے سبب اسلام سے خارج ہوکر کفر و شرک کی حدوں میں داخل ہو جائے گی۔
احمد بن شاذان سے اپنی اسناد کے ساتھ روایت ہے کہ امام صادق نے آباء و اجداد سے انھوں نے حضرت علی سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا: اے علی تمہاری مثال ہماری امت میں حضرت عیسیٰ کی سی ہے ان کی قوم نے ان کے بارے اختلاف رائے کر کے تین گروہ بنالیا تھا، ایک گروہ مومن، وہ ان کے حواری تھے، دوسرا گروہ ان کا دشمن جو کہ یہودی تھے، تیسرا گروہ ان کا تھا جنھوں نے غلو کیا اور حد ایمان سے باہر نکل گئے، میری امت تمہارے بارے میں تین گروہ میں تقسیم ہوگی، ایک گروہ تمہارے شیعہ اور وہی مومنین ہیں، دوسرا گروہ تمہارے دشمن جو شک کرنے والے ہیں تیسرا گروہ تمہارے بارے میں غلو کرنے والے اور وہ منکرین کا گروہ ہوگا، علی جنت میں تم، تمہارے شیعہ، اور تمہارے شیعوں کے دوست مستقر ہوں گے، اور تمہارے دشمن اور غلو کرنے والے جہنم میں پڑے ہوں گے۔
غلاة کے بارے میں امیر المومنین کا موقف
حضرت امیر نے غلو کرنے والوں پر بہت پابندی لگائی ان پر لعنت بھیجی ان پر سختی کی ان سے برائت اختیار کی۔
ابن نباتہ سے روایت ہے کہ، امیر المومنین نے فرمایا: خدا یا میں غلو کرنے والوں سے ایسے ہی دور و بری ہوں جس طرح حضرت عیسیٰ نصاریٰ سے بری تھے، خدایا ہمیشہ ان کو ذلیل خوار کر او ران میں سے کسی ایک کی نصرت نہ فرما۔
آپ نے دوسری جگہ فرمایا: ہمارے سلسلہ میں غلو سے پرہیز کرو، کہو کہ ہم پروردگار کے بندے ہیں، اس کے بعد ہماری فضیلت میں جو چاہو کہو۔
امام صادق سے روایت ہے کہ: یہودی علماء میں سے ایک شخص امیر المومنین کے پاس آیا اور کہا: اے امیر المومنین! آپ کا خدا کب سے ہے؟
آپ نے فرمایا: تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے، میرا خدا کب نہیں تھا؟جو کہ یہ کہا جائے کہ کب تھا! میرا رب قبل سے قبل تھا جب قبل نہ تھا، بعد کے بعد رہے گا جب بعد نہیں رہے گا، اس کی کوئی غایت نہیں اوراس کی غایت و انتہا کی حد نہیں، حد انتہا اس پر ختم ہے وہ ہر انتہا کی انتہا ہے۔
اس نے کہا: اے امیر المومنین کیا آپ نبی ہیں؟
آپ نے فرمایا: تجھ پر وائے ہو میں تو محمد کے غلاموں میں سے ایک غلام ہوں۔
آپ نے فرمایا: حلال و حرام ہم سے دریافت کرو لیکن نبوت کی نسبت نہ دینا۔
غلاة اور امام زین العابدین کا موقف
آپ نے فرمایا: جو ہم پر دروغ بافی کرے خدا کی لعنت ہو اس پر میں نے عبد اللہ ابن سبا کے بارے میں سوچا تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اس نے بہت بڑی چیز کا دعویٰ کیا اس کو کیا ہوگیا تھا، خدا اس پر لعنت کرے، خدا کی قسم حضرت علی خدا کے نیک بندے، رسول خدا کے بھائی تھے، ان کو کوئی بھی فضیلت نہیں ملی مگر اطاعت خدا و رسول کے سبب، اور رسول خدا کو کرامت سے نہیں نوازا گیا مگر اطاعت خدا کے باعث۔
امام سجاد نے ابو خالد کابلی کو امت میں ہونے غلو سے باخبر کیا جس طرح سے یہود و نصاریٰ نے کیا تھا، آپ نے فرمایا: یہودی عزیر سے محبت کرتے تھے لہٰذا ان کے بارے میں وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو کچھ نہیں کہنا چاہیئے تھا، لہٰذا عزیر نہ ان میں سے رہے اور نہ وہ عزیر میں سے رہے، نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ سے محبت کی اور وہ سب کھ کہا جو ان کے شایان شان نہیں تھا، نہ ہی عیسیٰ ان میں سے رہے اور نہ وہ عیسیٰ سے رہے اور ہم بھی اس بدعت کے شکار ہوئے ہمارے چاہنے والوں میں سے ایک گروہ ہمارے بارے میں وہ باتیں کہے گا جو یہود نے عزیر کے لئے کہا اور نصاریٰ نے عیسیٰ کے لئے کہا، لہٰذا نہ وہ لوگ ہم میں سے ہیں اور نہ ہم ان لوگوں میں سے۔
غلاة اور امام محمد باقر کا موقف
زرارہ نے امام محمد باقر سے نقل کیا کہ آپ کو فرماتے سنا، خدا بنان کے بیان پر لعنت کرے،
خدا بنان پر لعنت کرے، اس نے میرے باپ پر دروغ بافی کی، میں گواہی دیتا ہوں کہ میرے والد علی بن الحسین عبد صالح تھے۔
غلاة اور امام صادق کا موقف
امام صادق کے دور میں غلاة کا مسئلہ بہت بڑھ گیا تھا، انھیں کے پیش نظر امام نے اپنے شاگردوں کے درمیان مختلف علوم کی نشر و تعلیم شروع کردی، آپ کی آواز و تحریک آفاقی ہوگئی اور آپ کے شاگرد و پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا، لوگوں کو ان علوم سے آگاہ کرنے لگے جس سے وہ بالکل جاہل تھے، اور جو کچھ اپنے آباء اور رسول اکرم سے سینہ بہ سینہ ملا تھا اس کو لوگوں کے دلوں تک منتقل کرنے لگے، اس کے سبب سطحی اور سادہ لوح افراد یہ سمجھے کہ امام غیب کا علم رکھتے ہیں اور غیب کا علم رکھنے والا الوہیت (خدائی) کے درجہ پر فائز ہوتا ہے، بعض فتنہ پرور افراد نے سادہ لوح افراد کو آلہ کار بنایا تاکہ لوگوں کے عقائد کی تخریب کے سلسلہ میں اپنے اغراض کو پورا کرسکیں جو ان کا اصلی مقصد تھا، یہ کام خاص طور سے ان لوگوں سے لے رہے تھے جو ابھی ابھی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور ان کا تعلق سوڈان، زط وغیرہ سے تھا، جو اپنے ساتھ اپنے میراثی عقائد لیکر آئے تھے، اس طرح سے بعض مادی او ر روحانی احتیاج کے پیش نظر غلو کو اپنایا اور صراط حق و مستقیم سے دور ہوگئے اورامام صادق کے بارے میں طرح طرح کے خرافات پھیلانے لگے۔
مالک ابن عطیہ نے امام صادق کے بعض اصحاب سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک دن امام صادق بہت غیظ وغضب کی کیفیت میں باہر آئے اور آپ نے فرمایا: میں ابھی اپنی ایک حاجت کے لئے باہر نکلا، اس وقت مدینہ میں مقیم بعض سوڈانیوں نے مجھ کو دیکھا تو ”لبیّک یا جعفر بن محمد لبیّک“ کہہ کر پکارا، تو میں اپنے گھر الٹے پیر لوٹ آیا اور جو کچھ ان لوگوں میرے بارے میں بکا تھا اس کے لئے بہت دہشت زدہ تھا، یہاں تک کہ میں نے اپنی مسجد جاکر اپنے رب کا سجدہ کیا اور خاک پر اپنے چہرے کو رگڑا اور اپنے نفس کو ہلکا کر کے پیش کیا، اور جس آواز و نام سے مجھے پکارا گیا تھا اس سے اظہار برائت کیا، اگر حضرت عیسیٰ اس حد سے بڑھ جاتے جو خدا نے ان کے لئے معین کی تھی آپ ایسے بہرے ہوگئے ہوتے کہ کبھی نہ سنتے، ایسے نابینا بن جاتے کہ کبھی کچھ نہ دیکھتے، ایسے گونگے بن جاتے کہ کبھی کلام نہ کرتے، اس کے بعد آپ نے فرمایا: خد اابو الخطاب پر لعنت کرے اور اس کو تلوار کا مزہ چکھائے۔
ابوعمرو کشی نے سعد سے روایت کی ہے کہ، مجھ سے احمد بن محمد بن عیسیٰ ، انھوں نے حسین ابن سعید بن ابی عمیر سے اور انھوں نے ہشام بن الحکم سے انھوں نے امام صادق سے روایت کی کہ امام نے فرمایا: خد ابنان، سری، بزیع پر لعنت کرے، وہ لوگ سرتا پا انسان کی حسین صورت میں درحقیقت شیطان دکھائی دیتے تھے۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے آپ سے عرض کی کہ وہ اس آیت(
هُوَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ إلٰهٌ وَ فِی الارضِ إلٰهٌ
)
وہ، وہ جو زمین و آسمان کا خدا ہے کی یوں تاویل کرتا ہے کہ آسمان کا خدا دوسرا ہے اور جو آسمان کا خدا ہے و زمین کا خدا نہیں ہے، اور آسمان کا خدا زمین کے خدا سے عظیم ہے، اور اہل زمین آسمانی خدا کی فضیلت سے آگاہ ہیں اوراس کی عزت کرتے ہیں، امام صادق نے فرمایا: خدا کی قسم ان دونوں کا خدا صرف ایک و اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں و ہ زمینوں اور آسمانوں کا رب ہے، بنان جھوٹ بول رہا ہے خدا اس پر لعنت کرے اس نے خدا کو چھوٹا کر کے پیش کیا اور اس کی عظمت کو حقیر سمجھا ہے۔
کشی نے اپنے اسناد کے ساتھ امام صادق سے روایت کی ہے کہ، آپ نے اس قول پروردگار(
هَل انَبِّئُکُم علٰی مَن نُنَزِّلُ الشَّیَاطِینَ، نُنَزِّلُ عَلٰی کُلِّ افّاکٍ اثِیمٍ
)
کیا ہم آپ کو بتائیں کہ شیاطین کس پر نازل ہوتے ہیں، وہ ہر جھوٹے اور بدکردار پر نازل ہوتے ہیں، کے بارے میں فرمایا: کہ وہ (جھوٹے و بدکردار) لوگ، سات ہیں: مغیرہ بن سعید، بنان، صائد، حمزہ بن عمار زبیدی، حارث شامی، عبد اللہ بن عمرو بن حارث، الو الخطاب۔
کشی نے حمدویہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے یعقوب نے، انھوں نے ابن ابی عمیر سے، انھوں نے عبد الصمد بن بشیر سے، انھوں نے مصادف سے روایت کی ہے، جب کوفہ سے کچھ لوگ آئے
تو میں نے جاکر امام صادق کو ان لوگوں کے آمد کی خبر دی، آپ فوراً سجدے میں چلے گئے اور زمین سے اپنے اعضاء چپکا کر رونے لگے، اورانگلیوں سے اپنے چہرہ کو ڈھانپ کر فرمارہے تھے، نہیں بلکہ میں اللہ کا بندہ اس کا ذلیل و پست ترین بندہ ہوں اور اس کی تکرار کرتے جارہے تھے جب آپ نے سر اٹھایا تو آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا جو آنکھوں سے چل کر ریش مبارک سے بہہ رہا تھا، میں اس خبر دینے پر نہایت شرمندہ تھا، میں نے عرض کی: یابن رسول اللہ! میری جان آپ پر فدا ہو، آپ کو کیا ہوا، اور وہ کون ہیں؟۔
آپ نے فرمایا: مصادف! عیسیٰ کے بارے میں نصاریٰ جو کچھ کہہ رہے تھے اگر اس کے سبب وہ خموشی اختیار کرلیتے تو ان کا حق تھا کہ اپنی سماعت گنوا دیتے، بصارت دے دیتے، ابو الخطاب نے جو کچھ میرے بارے میں کہا اگر اس کے سبب سکوت کرلوں اوراپنی سماعت و بصارت سے چشم پوشی کرلوں تو یہ میرا حق ہے۔
شیخ کلینی نے سدیر سے روایت کی ہے کہ، میں نے حضرت امام صادق کی خدمت میں عرض کی کہ ایک گروہ ہے جو اس بات کا عقیدہ رکھتا ہے کہ آپ ہی خدا ہیں، اور اس کے ثبوت میں اس آیت(
هُوَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ إلٰهٌ وَ فِی الارضِ إلٰهٌ
)
کو ہمارے سامنے تلاوت کرتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: سدیر! میری سماعت و بصارت، گوشت و پوست اور رُواں رُواں ان لوگوں سے بیزار ہے او رخدا بھی ان سے بیزار ہے، وہ لوگ میرے او رمیرے آباء و اجداد کے دین پر نہیں ہیں خدا کی قسم روز محشر خدا ان لوگوں کو ہمارے ساتھ محشور نہیں کرے گا مگر یہ کہ وہ لوگ غضب و عذاب الٰہی کے شکار ہوں گے۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کی: اے فرزند رسول خدا ! ایک گروہ ایساہے جو اس بات کا معتقد ہے کہ آپ رسولوں میں سے ہیں اوراس آیت کی تلاوت کرتے ہیں:
(
یَا ایُّهَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطِّیبَاتِ وَ اعْمَلُوا صَالِحاً إنِّی بِمَاتَعمَلُونَ عَلِیمٌ
)
”اے میرے رسولو! پاکیزہ غذا ئیں کھاؤ اور نیک اعمال انجام دو کہ میں تمہارے نیک اعمال سے خوب باخبر ہوں“
آپ نے فرمایا: اے سدیر! میری سماعت و بصارت، گوشت و پوست، خون ان لوگوں سے اظہار برائت کرتا ہے، ان سے اللہ اور ان کا رسول بھی اظہار برائت کرتے ہیں یہ لوگ میرے اور میرے آباء و اجداد کے دین پر نہیں خدا کی قسم روز محشر خدا ان لوگوں کو ہمارے ساتھ محشور نہیں کرے گا مگر یہ کہ وہ لوگ عذاب و غضب الٰہی کے شکار ہوں گے۔
راوی کہتا ہے، میں نے عرض کی: فرزند رسول خدا پھر آپ کیا ہیں؟
آپ نے فرمایا: ہم علم الٰہی کے خزانہ دار، احکام الٰہی کے ترجمان اور معصوم قوم ہیں، اللہ نے ہماری اطاعت کا حکم دیا ہے، اور ہماری نافرمانی سے منع کیا ہے، ہم زمین پر بسنے والے اور آسمان کے رہنے والوں کے لئے حجت کامل ہیں۔
مغیرہ بن سعید غلو کرنے والوں کے گروہ کی ایک فرد تھا جو سحر و جادو کے ذریعہ سطحی اور عام فکر کے حامل لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتاتھا پھر ان لوگوں کے لئے ائمہ اہل بیت کے حوالے سے غلو کو آراستہ کردیتاتھا امام صادق نے اس غالی شخص کی حقیقت اپنے اصحاب کے سامنے واضح کردی۔
ایک دن اپنے اصحاب کو مخاطب کرکے فرمایا: خدا مغیرہ بن سعید پر لعنت کرے اوراس یہودیہ پر لعنت کرے جس سے وہ مختلف قسم کے جادو، ٹونے اور کرتب سیکھتا تھا، مغیرہ نے ہماری جانب جھوٹ باتوں کی نسبت دی جس کے سبب خدا نے اس سے نعمت ایمان کو لے لیا ایک گروہ نے ہم پر جھوٹا الزام لگایا خدا نے ان کو تلوار کا مزہ چکھایا خدا کی قسم ہم کچھ نہیں صرف اللہ کے بندے ہیں اس نے ہم کو خلق کیا اورانتخاب کیا ہم کسی ضرر و فائدہ پر قدرت نہیں رکھتے اگر کچھ (قدرت) ہے تو رحمت الٰہی ہے اگر مستحق عذاب ہوئے تو اپنی غلطیوں کے سبب ہوں گے۔
خدا کی قسم! خدا پر ہماری کوئی حجت نہیں اور نہ ہی خدا کے ساتھ کوئی برائت ہے، ہم مرنے والے ہیں قبروں میں رہنے والے محشور کیئے جانے والے، واپس بلائے جانے والے، روکے جانے والے اور سوال کیئے جانے والے ہیں، ان کو کیا ہوگیا ہے خدا ن پر لعنت کرے، انھوں نے خدا کو اذیت دی اور رسول اکرم کو قبر میں اذیت دی اور امیر المومنین و فاطمہ زہرا، حسن، حسین، علی بن الحسین، محمد بن علی ٪ کو اذیت دی۔
آج کل تمہارے درمیان میں ہوں جو رسول اکرم کا گوشت پوست ہوں، لیکن راتوں کو جب کبھی بستر استراحت پر جاتا ہوں تو خوف و ہراس کے عالم میں سوتا ہوں، وہ لوگ چین و سکون کے ساتھ خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں اور میں خوف و ہراس کی زندگی بسر کر رہا ہوں۔
میں دشت و جبل کے درمیان لرزہ براندام ہوں، میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جو کچھ میرے بارے میں بنی اسد کے غلام اجرع براد، ابوالخطاب نے کہا: خدا اس پر لعنت کرے، خدا کی قسم اگر وہ لوگ ہمارا امتحان لیتے اور ہم کو اس کا حکم دیتے تو واجب ہے کہ اس کو قبول نہ کریں، آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ لوگ ہم کو خائف و ہراس پارہے ہیں؟ ہم ان کے خلاف اللہ کی مدد چاہتے ہیں اور ان سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔
میں تم سب کو گواہ بناکر کہتا ہوںکہ میں فرزند رسول خدا ہوں اگر ہم نے ان کی اطاعت کی تواللہ ہم پر رحمت نازل کرے اوراگر ان کی نافرمانی کی تو ہم پر شدید عذاب نازل کرے۔
امام صادق نے غلاة کی جانب سے دی گئی ساری نسبتوں کی نفی کی ہے، مثلاً علم غیب، خلقت، تقسیم رزق وغیرہ۔
ابی بصیر سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق سے عرض کی، یابن رسول اللہ! وہ لوگ آپ کے بارے میں کہتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: کیا کہتے ہیں؟ میں نے عرض کی کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ بارش کے قطرات، ستاروں کی تعداد،درختوں کے پتوں، سمندر کے وزن، ذرات زمین کا علم رکھتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! سبحان اللہ! خدا کی قسم خدا کے علاوہ کوئی بھی ان کا علم نہیں رکھتا۔
آپ سے کہا گیا کہ فلاں شخص، آپ کے بارے میں کہتا ہے کہ، آپ بندوں کے رزق تقسیم کرتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: ہم سب کا رزق صرف خدا کے ہاتھوں میں ہے، مجھ کو اپنے اہل و عیال کے لئے کھانے کی ضرورت پڑی تو میں کشمکش میں مبتلا ہوا، میں نے سوچ بچار کے ذریعہ ان کی روزی فراہم کی اس وقت میں مطمئن ہوا۔
زرارہ سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق سے عرض کی کہ عبد اللہ بن سبا کے فرزندوں میں سے ایک تفویض کا قائل ہے!
آپ نے فرمایا: تفویض سے کیا مراد ہے؟
میں نے کہا: کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے محمد و علی کو خلق کیا اس کے بعد سارے امور ان کو تفویض (حوالے) کردیئے، لہٰذا اب یہی لوگ رزق تقسیم کرتے ہیں اور موت و حیات کے مالک ہیں۔
آپ نے فرمایا: کہ وہ دشمن خدا جھوٹ بولتاہے، جب تم اس کے پاس جانا تو اس آےت کی تلاوت کرنا:
(
امْ جَعَلُوا لِلّٰهِ شُرَکَاءِ خَلَقُوا کَخَلقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلقُ عَلَیهِم قُلِ اللّٰهُ خَالِقُ کُلِّ شَیءٍ وَ هُوَ الوَاحِدُ القَهَّارُ
)
(یا ان لوگوں نے اللہ کے لئے ایسے شریک بنائے ہیں جنھوں نے اس کی طرح کائنات خلق کی ہے اور ان پر خلقت مشتبہ ہوگئی ہے کہہ دیجئے کہ اللہ ہی ہر شی کا خالق ہے وہی یکتا اور سب پر غالب ہے۔
میں واپس گیا اور جو کچھ امام نے کہا تھا وہ پیغام سنا دیا تو گویا وہ پتھر کی طرح ساکت رہ گیا یا بالکل گونگا ہوگیا۔
مفضل راوی ہیں کہ امام صادق نے ہم سے اصحاب خطاب اور غلاة کے حوالے سے فرمایا: اے مفضل! ان کے ساتھ نشست و برخاست نہ کرو ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان سے میل جول نہ رکھو، نہ ان کے وارث بنو اور ان کو اپنا وارث بناؤ۔
غلاة اور امام موسیٰ کاظم کا موقف
اپنے آباء و اجداد کی مانند امام موسیٰ کاظم بھی غلاة سے دوچار رہے، جنھوں نے ان کے اور ان کے آباء و اجداد کے بارے میں بہت ساری باتیں کیں جن کی تائید الٰہی کلام سے نہیں ہوتی۔
امام موسیٰ کاظم کے عہد امامت میں خطرناک غلو کرنے والا، محمد بن بشیر تھا یہ امام کا صحابی تھا، پھر غالی ہوگیا یہاں تک کہ امام کی شہادت کے بعد آپ کی ربوبیت کا قائل ہوگیا اور خود کو نبی گرداننے لگا۔
محمد بن بشیر قتل ہوا اور اس کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ وہ شعبدہ باز اور جادوگر تھا، وہ واقفیہ فرقہ کے افراد کے سامنے اس بات کا اظہار کرتا تھا کہ میں نے علی بن موسیٰ پر توقف کیا ہے یہ حضرت امام موسیٰ کاظم کی ربوبیت کا قائل اور اپنی نبوت کا مدعی تھا۔
اس کے فاسد عقیدوں کی اتباع لوگوں کے ایک سادہ لوح گروہ نے کی، جس کو اس نے دھوکا دے رکھا تھا اور وہ لوگ محمد بن بشیر کے عقیدہ کی طرف منسوب ہونے کے سبب ”بشیریہ“ کے نام سے مشہور ہوئے۔
ان کے باطل عقائد میں سے یہ تھا کہ وہ عبادات جو ان پر فرض ہیں اور ان کا ادا کرنا واجب ہے، وہ یہ ہیں: نماز، روزہ، ادائیگی خمس، لیکن زکوٰة، حج اور دوسری ساری عبادات ان سے ساقط ہیں۔
یہ لوگ امام کے تناسخ (آواگون) کے قائل ہیں یعنی سارے ائمہ کا ایک جسم ہے صرف ایک دوسرے پیکر میں زمانے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔
وہ لوگ اس نظریہ کے قائل تھے کہ وہ سب چیزوں کے درمیان ایک دوسرے کے شریک ہیں، کھانا، پینا، مال و دولت، عورتیں ، یہ لوگ لواط (اغلام بازی) کو مباح جانتے تھے اور اس عقیدہ پر قرآن کی یہ آیت پیش کرتے تھے:
(
او یُزَوِّجُهُم ذُکرَاناً وَّ إنَاثاً
)
(یا پھر بیٹے اور بیٹیاں دونوں کو جم کردیتا ہے)
جب امام موسیٰ کاظم کی شہادت واقع ہوئی تو ان لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ وہ مرے نہیں ہیں،نگاہوں سے غائب ہوگئے ہیں اور وہ وہی مہدی ہیں، جن کی بشارت دی گئی ہے، انھوں نے امت میں اپنا خلیفہ محمد بن بشیر کو قرار دیا ہے اور ان کو اپنا قائم مقام بنایا ہے۔
کشی نے علی بن حدید مدائنی سے روایت کی ہے کہ میں نے ابا الحسن اول یعنی امام کاظم سے ایک شخص کو سوال کرتے سنا کہ ”میں نے سنا ہے کہ محمد بن بشیر کہتا ہے کہ آپ موسیٰ بن جعفر نہیں ہیں جو کہ ہمارے امام اور خدا اور ہمارے درمیان حجت ہیں۔
وہ کہتا ہے کہ امام نے فرمایا: خد اس پر لعنت کرے (تین بار تکرار کی) خدا اس کو لوہے کی گرمی کا مزہ چکھائے خدا اس کو بری طرح قتل کرے۔
میں نے عرض کی: فرزند رسول میں آپ پر فدا ہوں، جب میں نے آپ کا یہ حکم اس کے بارے میں سنا تو کیا اب اس کا خون ہم پر مباح نہیں ہے جس طرح سے رسول و امام پر سب و شتم کرنے والے کا خون حلال ہے۔
تو آپ نے فرمایا: ہاں! خدا کی قسم تم پر اس کا خون حلال ہے اور جو کوئی بھی اس کے حوالے سے یہ بات سنے اس پر بھی اس کا خون حلال ہے۔
میں نے عرض کی: کہ کیا آپ پر سب و شتم کرنے والا نہیں ہے؟
آپ نے فرمایا: یہ خدا و رسول و میرے اجداد اور مجھ پر سب و شتم کرنے والا ہے، اس سے بڑھ کر سب و شتم کرنے والا کون ہوگا؟ اور اس پر کون سبقت حاصل کرسکتاہے؟
میں نے عرض کی، اگر میں اس سے برائت میں خوف نہ کروں اور چشم پوشی کرلوں اور اس حکم پر عمل نہ کروں اور اس کو قتل نہ کروں تو آپ کی نظر میں مجھ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
آپ نے فرمایا: تم پر بہت بڑا گناہ ہوگا اور اس کی شدت میں کمی نہیں آئے گی۔
کیا تم نہیں جانتے کہ روز قیامت شہداء میں سب سے بلند پایہ وہ ہوگا جو اللہ و رسول کی مدد کرے گا اور ظاہر و باطن میں خدا و رسول کا مدافع ہوگا۔
امام موسیٰ کاظم نے محمد بن بشیر پر لعنت کی ہے اور اس کے حق میں بددعا کی ہے۔
کشی نے علی بن حمزہ بطائنی سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابا الحسن موسیٰ سے سنا کہ ”خدا محمد بن بشیر پر لعنت کرے اس کو لوہے کے مزے کو چکھائے اس نے مجھ پر جھوٹ باندھا، خدا
اس سے بری ہے او رمیں بھی اس سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں، خدایا! جو کچھ ابن بشیر نے میرے بارے میں کہا ہے میں تیرے لئے اس سے برائت کا اظہار کرتا ہوں۔
خدایا! مجھ کو اس سے نجات دے، اس کے بعد فرمایا: ”اے علی! جس کسی نے جان بوجھ کر ہم پر جھوٹ الزام لگانا چاہا ہے خدا نے اس کو تلوار کا مزہ چکھایا ہے۔
ابومغیرہ بن سعید نے ابو جعفر پر جھوٹا الزام لگایا تھا خدا نے اس کو تلوار کا مزہ چکھایا، ابوخطاب نے میرے باپ پر جھوٹاالزام لگایا تھا، خدا نے اس کو تلوار کا مزہ چکھایا، محمد بن بشیر خدا اس پر لعنت کرے، اس نے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا تھا، میں اس سے خدا کی پناہ مانگتاہوں، خدایا! محمد بن بشیر نے جو کچھ میرے بارے میں کہا ہے میں اس سے اظہار برائت کرتا ہوں، خدایا! اس کے شر سے محفوظ رکھ، خدایا! محمد بن بشیر رجس نجس سے دور رکھ، شیطان اس کے باپ کے ساتھ اس کے نطفہ میں شریک تھا۔
خدا نے امام کاظم کی دعا قبول کی، علی بن حمزہ کہتے ہیں کہ جس بری طرح محمد بن بشیر کو قتل کیا گیا، میں نے ک سی کو نہیں دیکھا، خدا اس پر لعنت کرے۔
غلاة اور اما م رضا کا موقف
غلاة سے جنگ اور ان کے باطل عقائد کے بطلان کے سلسلہ میں ان کو برملا کہنے اوران سے لوگوں کو دور رکھنے کے سلسلہ میں امام رضا اپنے آباء و اجداد کے نقش قدم پر ہوبہو چلے۔
حسین بن خالد صیرفی سے روایت ہے کہ امام رضا نے فرمایا: ”جو تناسخ (آواگون) کا قائل ہے وہ کافر ہے، اس کے بعد فرمایا: خدا غلو کرنے والوں پر لعنت کرے، آگاہ رہو! کہ یہ یہودی تھے، نصاریٰ تھے، مجوسی تھے، قدریہ، مرجئہ و حروریہ (خوارج) تھے “۔
اس کے بعد فرمایا: ان کے ساتھ نشست و برخاست رکھو نہ ان سے دوستی کرو، ان سے برائت اختیار کرو، خدا ان سے بری ہے۔
امام رضا غلاة کو تمام فاسد اور تحریف شدہ ادیان و مذاہب کی بدترین فرد سمجھتے تھے۔
آپ اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے”خدا یا! میں تما م قوت و طاقت سے اظہار برائت کرتا ہوں تیرے سوا کوئی قدرت و طاقت نہیں، خدایا! وہ لوگ جنھوں نے ہمارے بارے میں اس بات کاا دعا کیا جس کے ہم حقدار نہیں،ان سے تیری پناہ مانگتے ہیں، خدا وہ بات جس کو ہم نے اپنے بارے میں کبھی نہیں کہا اور لوگ ہماری جانب منسوب کرتے ہیں اس سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔
خدایا! امر خلقت تیرا حق ہے، ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی مد دچاہتے ہیں، خدایا! تو میرا اور میرے اولین و آخرین آباء و اجداد کا خالق ہے، خدایا! ربوبیت صرف تیرا حق ہے، الوہیت صرف تجھ کو زیب دیتی ہے۔
نصاریٰ پر لعنت ہو جنھوں نے تیری عظمت کو گھٹایا اور ان لوگوں پر لعنت ہو جنھوں نے تیری عظمت کے خلاف لب کھولے۔
خدایا! ہم تیرے بندے ہیں اور تیرے بندوں کی اولاد ہیں، خدایا! اپنی جان کے نفع و نقصان پر گرفت نہیں رکھتے، موت و حیات اور قبر سے اٹھائے جانے پر ہماری گرفت نہیں۔
خدایا! جن لوگوں نے ہمارے بارے میں خیال کیا کہ ہم خدا ہیں تو ہم ان سے اسی طرح بری ہیں جس طرح عیسیٰ ابن مریم نصاریٰ سے بری تھے۔
خدایا! میں نے ان کے باطل عقائد کی کبھی دعوت نہیں دی، خدایا! ان کی باتوں کے سبب مجھ سے بازپرس نہ کرنا اور وہ لوگ جو خیال کرتے ہیں اس کے سبب ہماری مغفرت فرما،(
رَبِّ لاتَذَر عَلٰی الارضِ مِنَ الکافِرِینَ دَیَّاراً ، إنَّکَ إن تَذَرهُم یُضِلُّوا عِبَادَکَ وَ لایَلِدُوا إلا فَاجِراً کفاراً
)
(پروردگار! اس زمین پر کافروں میں سے کسی بسنے والے کو نہ چھوڑنا کہ تو اگر انہیں چھوڑ دے گا تویہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور فاجر و کافر کے علاوہ کوئی اولاد بھی نہ پیدا کریں گے)۔
ابو ہاشم جعفری سے روایت ہے کہ میں نے امام رضا سے غلاة اور مفوضہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: غلاة کفار ہیں اور مفوضہ مشرک ہیں، جو کوئی بھی ان کے ساتھ رفت و آمد رکھے، کھانا پینا رکھے، صلہ رحم کرے، شادی کرے، یا ان کی لڑکی اپنے گھر میں لائے، یا ان کی امانت رکھے، یا ان کی باتوں کی تصدیق کرے، یا صرف کسی ایک کلمہ سے ہی ان کی مدد کرے، وہ اللہ و رسول اور ہم اہلبیت کی ولایت سے خارج ہو جائے گا۔
امام رضا نے غلاة کے اصل ظہور کی اہم علت کو بتایا،ابراہیم بن ابی محمود نے امام رضا سے روایت کی ہے:اے ابن ابی محمود! ہمارے مخالفوں نے ہماری فضیلت میں روایات گھڑھی اوران کی تین قسمیں ہیں، ۱ غلو ۲ ہمارے امر میں کمی، ۳ ہمارے دشمنوں کی عیب جوئی ، جب ہمارے بارے میں لوگوں نے غلو کو سنا تو ہمارے چاہنے والوں کی تکفیر کی اور ان لوگوں نے ہمارے شیعوں کی جانب ہماری ربوبیت کے قائل ہونے کی نسبت دی ، جب ہماری کمی کو سنا تو اس کے معتقد ہوگئے اور جب ہمارے دشمنوں کی عیب جوئی سنی تو انھوں نے ہم کو نام بنام دشنام دیا۔
خدا نے فرمایا:(
وَ لاتَسُبُّوا الَّذِینَ یَدعُونَ مِن دُونِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْواً بِغَیرِ عِلمٍ
)
(اورخبردار تم لوگ انھیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کہہ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سوچے سمجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے۔
اے ابن ابی محمود! جب لوگ ادھر ادھر کے نظریات کے معتقد ہو جائیں تو اس وقت تم ہمارے راستے پر قائم رہنا اس لئے کہ جو ہمیں اپنائے گا ہم اس کو اپنائیں گے اور جو ہم کو چھوڑ دے گا ہم اس کو چھوڑ دیں گے۔
امام رضا نے واضح کردیا کہ غلاة کس طرح عام شیعوں کی جانب غلو منسوب کرنے کا سبب ہوئے، اسی سبب ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر فرقوں کے مولفین، غلو کے صفات کو مطلقاً شیعوں او رخصوصاً امامیہ کی جانب نسبت دیتے ہیں، وہ لوگ ان احادیث پر بھروسہ کرتے ہیں جن کوغلاة نے لوگوں کے درمیان رائج کر رکھا تھا لہٰذا اہل سنت افراد نے یہ سمجھ لیا کہ یہ روایات شیعہ طریقوں سے وارد ہوئیں ہیں اورغلو کو شیعوں کی جانب منسوب کردیا۔
جیسا کہ بعض مولفین بالکل فاش غلطی کے شکار ہوگئے اورتجسیم و تشبیہ کی نسبت شیعوں کی طرف د ے بیٹھے، جبکہ ہم نے اصول عقائد شیعہ میں اس بات کی مکمل وضاحت کردی ہے اورتوحید کی بحث میں یہ بات کہی ہے کہ تشبیہ و تجسیم کے سلسلہ میں شدید مخالف ہیں اور خدا کوان سب چیزوں سے بہت دور جانا ہے۔
امام رضا نے اپنے اس آنے والے قول میں اس بات کی اور وضاحت کردی ہے
آپ نے فرمایا: جن لوگوں نے تشبیہ اور جبر کی باتوں کو گڑھ کر ہم شیعوں کی جانب منسوب کردیا ہے وہ غلاة ہیں جنھوں نے عظمت پروردگار کو گھٹایا ہے، جو ان لوگوں سے محبت کرے گا وہ ہمارا دشمن ہے جو ان سے نفرت کرے گا وہ ہمارا محبوب ہے، جو ان سے لگاو رکھے گا وہ ہمارا دشمن ہے، جو ان کو دشمن ہے وہ ہمارا چاہنے والا ہے، جو ان سے صلہ رحم کرے وہ ہم سے جدا ہوگا، جو ان سے جدا ہوگیا وہ ہم سے مل گیا، جس نے ان سے جفا کی اس نے ہمارے ساتھ حسن رفتار کیا، جس نے ان کے ساتھ حسن رفتار کیا گویا اس نے ہم پر جفا کی، جس نے ان کا اکرام کیا اس نے میری توہین کی، جس نے ان کی توہین کی اس نے میری عزت کی، جس نے ان کو قبول کیا اس نے ہماری تردید کی اور جس نے ان کی تردید کی اس نے ہم کو قبول کیا، جس نے ان کے ساتھ حسن رفتار کیا اس نے ہمارے ساتھ سوء ادب سے کام لیا، جس نے ان سے بدخلقی سے برتاو کیا اس نے ہمارے ساتھ خوش خلقی کی، جس نے ان کی تصدیق کی اس نے ہم کو جھٹلایا اور جس نے ان کو جھٹلایااس نے ہماری تصدیق کی، جس نے ان کو عطا کیا گویا ہم کو محروم کردیا، اور جس نے ہم کو عطا کیا گویا ان کو محروم کیا، اے ابن خالد، جو بھی ہمارا شیعہ ہوگا کبھی بھی ان کو اپنا ولی و مددگار قرار نہیں دے گا۔
غلاة اور امام علی بن محمد ہادی کا موقف
امام ہادی بھی غلاة کے اس گروہ سے دوچار ہوئے جو ائمہ کی ربوبیت و الوہیت کے قائل تھے، اور ان کے زمانے کے غلاة کا سردار محمد بن نصیر غیری تھا، اور نصیری فرقہ اسی جانب منسوب ہے، اور ایک قلیل گروہ نے اس فرقہ کی پیروی کی ہے، جن میں نمایاں فارس بن حاتم قزوینی اور ابن بابا قمی ہے۔
کشی نے لکھا ہے کہ: ایک فرقہ محمد بن نصیر غیری کی رسالت کا قائل ہے اور وہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی و رسول ہے اور اس کو علی بن محمد ہادی نے رسالت بخشی ہے، حضرت امیر کے بارے میں تناسخ کا قائل تھا اور غلو کرتا تھا اور اس بات کا دعویٰ کرتا تھا کہ ان میں ربوبیت پائی جاتی ہے۔
وہ کہتا تھا کہ: تمام محارم مباح ہیں، مرد کا مرد کے ساتھ نکاح ہوسکتا ہے وہ اس نظریہ کا موجد و قائل تھا کہ فاعل و مفعول دونوں لذات میں سے ایک ہیں اور خدا نے ان میں سے کسی ایک کو حرام نہیں قرار دیا۔
محمد بن موسیٰ بن حسن بن فرات اس کے نظریہ کی حمایت کرتا ہے، وہ کہتا ہے کہ بعض لوگوں نے محمدبن نصیر کو علی الاعلان اغلام بازی کی کیفیت میں دیکھا ہے اور اگر اس کے غلام نے اس فعل سے انکار کیا تو اس نے یہ نظریہ قائم کیا کہ یہ لذتوں سے ایک ہے! یہ درحقیقت خدا کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے اور جبر و رکاوٹ کو ختم کرنا ہے۔
نصر بن صباح کہتے ہیں کہ: حسن بن محمد معروف بہ ابن بابا، محمد بن نصیر غیری، فارس بن حاتم قزوینی، ان تینوں پر امام علی نقی نے لعنت بھیجی ہے۔
ابو محمد فضل بن شاذان نے اپنی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ ابن باباء قمی مشہور جھوٹوں میں سے تھا۔
سعد کہتے ہیں کہ مجھ سے عبیدی نے بتایا کہ ابتدائے دور میں امام علی نقی نے میرے پاس ایک خط لکھا کہ ”میں فہری، حسن محمد بن بابا قمی، ان دونوں سے اظہار برائت کرتا ہوں لہٰذا تم بھی ان دونوں سے بیزار ہو جاو ، میں تم کو اور اپنے چاہنے والوں کو ان دونوں سے خبردار کرتا ہوں، ان دونوں پر اللہ کی لعنت ہو یہ ہمارے نام پر لوگوں سے کھا رہے ہیں، یہ دونوں اذیت دینے والے اور فتنہ پرور ہیں خدا ان دونوں کواذیت دے، خدا ان دونوں کو فتنہ کی رسّی میں جکڑ دے، ابن بابا (قمی) یہ خیال کرتا ہے کہ میں نے اس کو نبوت دی ہے اور وہ رئیس ہے اس پر خدا کی لعنت ہو، شیطان نے اس کو مسخر کر کے اس کا اغوا کرلیا ہے، اس پر بھی خدا کی لعنت ہو جو ان کی باتوں کو قبول کرے۔
اے محمد! اگر تم اس بات پر قدرت رکھتے ہو کہ پتھر سے اس کا سر کچل دو تو ایسا کر گذرو کیونکہ اس نے مجھ کو اذیت دی ہے، خدا اس کو دنیا و آخرت میں اذیت دے“
کشّی نے ابراہیم بن شیبہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے امام علی نقی کو خط لکھا کہ ”آپ پر ہماری جان فدا ہو، ہمارے یہاں کچھ لوگ ہیں جو آپ کی فضیلت کے سلسلے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں جن کے سبب دل ٹیڑھے اور سینہ تنگ ہوگیاہے اوراس حوالہ سے حدیث بھی بیان کرتے ہیں ہم اس کو قبول نہیں کرسکتے ہیں جب تک کہ تائید الٰہی نہ ہو اور ان کی تردید بھی مشکل امر ہے کیونکہ ان کی نسبت آپ کے آباء و اجداد کی جانب ہے لہٰذا ہم لوگوں نے ان حدیثوں پر توقف کیا ہے۔
وہ لوگ اس قول خدا(
إنَّ الصَّلٰوٰةَ تَنهیٰ عَنِ الفَحشَاءِ وَ الْمُنکَرِ
)
اور(
وَ اقِیمُوا الصَّلوٰةَ وَ آتُوا الزَّکوٰة
)
کی تاویل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو نہ ہی رکوع کرے اور نہ سجدہ، اور زکوٰة کے بارے میں بھی یہی نظریہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں نہ ہی درہموں کی تعداد ہے اور نہ ہی مال کی ادائیگی مراد ہے، اور اسی طرح واجبات و مستحبات اور منکرات کے بارے میں کہتے ہیں کہ اور ان سب کو اسی حد تک بدل ڈالا ہے جس طرح میں نے آپ سے عرض کی۔
اگر آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ آپ کے چاہنے والے ان خرافات سے سلامت رہیں جو ان کو ہلاکت و گمراہی کی جانب لے جارہی ہیں” وہ لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اولیاء (الٰہی) ہیں اور اپنی اطاعت کی دعوت دیتے ہیں“ ان میں سے علی بن حسکہ، اور قاسم یقطینی ہیں، ان ان لوگوں کی باتوں کو قبول کرنے کے سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟۔
امام نے جواب میں تحریر فرمایا کہ: اس کا ہمارے دین سے کوئی سروکار نہیں لہٰذا اس سے پرہیز کرو۔
سہل بن زیاد آدمی راوی ہیں کہ ہمارے دوستوں نے امام علی نقی کے پاس خط لکھا: اے میرے مولا و آقا! آپ پر ہماری جان فدا ہو، علی بن حسکہ آپ کی ولایت (نیابت) کا دعویٰ کرتا ہے اور کہتا پھرتا ہے کہ آپ اول و قدیم ہیں اور وہ آپ کا نبی نمائندہ ہے اور آپ نے لوگوں کو اس بات کی طرف دعوت دینے کا حکم دیا ہے، وہ یہ خیال کرتا ہے کہ نماز، حج، زکوٰة، اور یہ سب کے سب آپ کی حقیقت و معرفت ہیں اور ابن حسکہ کی نبوت و نیابت جس کا وہ مدعی ہے اس کو قبول کرنے والا مومن کامل ہے اور حج و زکوٰة و روزہ جیسی عبادات اس سے معاف ہیں، اور شریعت کے دیگر مسائل اور ان کے معانی کو ذکر کیا ہے جو آپ کے لئے ثابت ہوچکا ہے اور بہت سارے لوگوں کا میلان بھی اس جانب ہے، اگر آپ مناسب سمجھتے ہیں تو کرم فرما کر ان کا جواب عنایت فرمائیں تاکہ آپ کے چاہنے والے ہلاکت سے بچ سکیں۔
امام نے جواب میں تحریر فرمایا: ابن حسکہ جھوٹ بولتا ہے اس پر خدا کی لعنت ہو، تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ میں اس کو اپنے چاہنے والوں میں شمار نہیں کرتا، اس کو کیا ہوگیا ہے؟! اس پر خدا کی لعنت ہو۔
خدا کی قسم خدا نے محمد اکرم اور ان سے ماقبل رسولوں کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ دین نماز، زکوٰة ، روزہ، حج اور ولایت ان کے ہمراہ تھی، خدا نے خدا کی وحدانیت کے سوا کسی چیز کی دعوت نہیں دی اور وہ خدا ایک و لاشریک ہے، اسی طرح ہم اوصیاء (الٰہی) اس بندہ خدا کے صلب سے ہیں کبھی خدا کا شریک نہیں مانتے مگر ہم نے رسول کی اطاعت کی تو خدا ہم پر رحمت نازل کرے اوراگر ان کی خلاف ورزی کی تو خدا عذاب سے دوچار کرے، ہم خدا کے لئے حجت نہیں ہیں بلکہ خدا کی حجت ہم اور تمام مخلوقات عالم پر ہے۔
وہ جو کچھ کہتا ہے ان سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں اور اس قول سے دوری اختیار کرتے ہیں خدا ان پر لعنت کرے ان سے دوری اختیار کرو، ان پر عرصہ حیات تنگ کردو اور ان کو کبھی گوشہ تنہائی میں پاو تو پتھر سے ان کا سر کچل دو۔
ان باتوں سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ دینی فرائض جیسے نماز، روزہ، زکوٰة، حج، وغیرہ سے فرار کرنا غلو کی ایک قسم ہے۔
امام صادق نے غلاة کی بدنیتی کو اس وقت واضح کردیا تھا جب آپ کے اصحاب میں سے کسی نے لوگوں کے اس قول کے بارے میں سوال کیا تھا کہ ”حضرت امام حسین شہید نہیں ہوئے اور انھوں نے لوگوں پر اپنے امر کو پوشیدہ رکھا“ یہ ایک طویل حدیث ہے، یہاں تک اس صحابی نے امام سے سوال کیا، اے فرزند رسول ! آپ کے شیعوں میں سے کچھ لوگ جو یہ خیال رکھتے ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
آپ نے فرمایا: وہ لوگ ہمارے شیعوں میں سے نہیں ہیں، میں ان سے اظہار برائت کرتا ہوں، انھوں نے عظمت الٰہی کو چھوٹا کر کے پیش کیا اور اس کی کبریائی کا انکار کیا وہ مشرکت و گمراہ ہوگئے ہیں وہ لوگ دینی فرائض سے فرار اور حقوق کی ادائیگی سے دور ہیں۔
ان سب (کلمات) سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ائمہ کرام نے غلو اور غلاة کے خلاف کتنی سخت اور فیصلہ کن جنگ کی ہے، اور ان کی بدنیتی اور ناپاک ارادوں سے نقاب کشائی کی ہے، اور اپنے شیعوں کو ان سے دور رکھا ہے جیسا کہ امام صادق نے اپنے چاہنے والے کو نصیحت کی ہے، آپ فرماتے ہیں: ”اپنے جوانوں کو غلاة سے دور رکھو! کہیں ان کو برباد نہ کردیں، کیونکہ غلاة مخلوقات الٰہی کے لئے ایک قسم کے شر ہیں انھوں نے عظمت الٰہی کو گھٹایا ہے، اور بندگان خدا کی ربوبیت کا دعویٰ کیا ہے، خدا کی قسم غلاة، یہود و نصاریٰ و مجوس و مشرکین سے بدتر ہیں
اس کے بعد امام نے فرمایا: اگر غلو کرنے والا ہماری طرف رجوع کرے تو اس کو ہرگز قبول نہیں کریں گے لیکن اگر ہماری شان کم کرنے والا اگر ہم سے (توبہ کے بعد) ملحق ہونا چاہے تو اس کو قبول کرلیں گے، کہنے والے نے آپ سے کہا کہ ایسا کیسے؟۔
تو آپ نے فرمایا: اس لئے کہ غلو کرنے والا نماز و روزہ و حج و زکوٰة کے ترک کی عادت ڈال چکا ہے لہٰذا وہ اس عادت کو چھوڑ نہیں سکتا اور خدا کی بندگی و اطاعت کی طرف کبھی بھی پلٹ کر نہیں آسکتا، لیکن مقصر (کمی کرنے والا) جب حقیقت کو درک کر لے گا تو عمل واطاعت کو انجام دے گا۔
وہ خطوط جن کو بعض افراد ائمہ کرام کے پاس غلاة کے سلسلہ میں ائمہ کا موقف جاننے کے لئے ارسال کرتے تھے اور ان کی باتوں کو امام کے سامنے پیش کرتے تھے اور شیعوں میں ان کے افکار کے فروغ و انتشار سے کبیدہ خاطر تھے، یہ تمام خط و کتابت اس لئے تھی کہ وہ مخلص شیعہ حضرات غلاة کی ناپاک فکروں سے دین کی حفاظت چاہتے تھے اور یہ افراد غلاة کے مد مقابل پورے اعتماد کے ساتھ کھڑے تھے ان سے مناظرہ کرتے تھے اور اکثر ان کو محکم دلیلوں سے خاموش بھی کرتے تھے اور انھوں نے ان غلاة کا بائیکاٹ کرنے میں اپنے اماموں کے حکم کی مکمل اطاعت کی ہے، جب کہ وہ دور عصبیت کا دور تھا اور ظالم و جابر سلاطین کا ظلم زوروں پر تھا اور انھوں نے ان (شیعوں) پر عرصہ حیات تنگ کردیا تھا۔
ان شیعوں کے فرائض میں یہ تھا کہ اپنے دین، عقیدہ کا دفاع کریں اور اسلام کی حمایت ان انحرافات سے کریں جو غلاة کی صورت وجود میں آئے تھے اور لوگوں کو ان سے دور رکھیں، خود ان پر کڑی نظر رکھیں، ان کے جھوٹ، خرافات اور عیبوں کو برملا کریں۔
اور یہ سب اس وقت میں کرنا تھا جب ان غلاة کے خلاف حد کافی قدرت و طاقت نہیں رکھتے تھے، ان کے پاس اس حد تک آزادی بھی نہیں تھی کہ حقیقی اسلام کے عقائد کی تعلیم دے سکیں، جبکہ اس وقت اُموی، عباسی، اور دیگر فرقہ غلو کے نظریات اور انحرافات کو مسلمانوں کے درمیان دھڑلے سے پھیلا رہے تھے۔
ان تمام باتوں کے باوجود پروردگار کے رحم و کرم کے ہمراہ شیعوں کی انتھک کوششیں اور اسلام حقیقی کی دفاع میں ائمہ کرام کی ناقابل شکست جنگیں رنگ لائیں اور اسلام انحرافاتی ہتھکنڈوں سے محفوظ رہا۔
____________________