• ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6062 / ڈاؤنلوڈ: 3069
سائز سائز سائز
کربلا کی خاک پر سجدہ

کربلا کی خاک پر سجدہ

مؤلف:
اردو

۶ ۔ سجدہ اہل بیت علیہم السلام کی نظر میں

شیعوں کے ائمہ معصومین علیہم السلام ایک طرف تو”حدیث ثقلین“ کے مطابق قرین قرآن ہیں کہ جنکی جدائی نا ممکن ہے اور دوسری طرف وہ سنت آنحضرت (ص) اور آپ کی سیرت کو تمام لوگوں سے زیادہ اور بہترطریقہ سے جاننے والے ہیں انھوں نے اپنے اقوال میں اس بات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ، کہ سجدہ فقط زمین اور اس سے اُگنے والی چیزوں پر کرنا جائز ہے ( اور صرف کھانے، پہننے والی چیزوں پر سجدہ صحیح نہیں ہے ) ائمہ اطہار (ع) کی روایات ذکر کرنے سے پہلے بہتر یہ ہے کہ ان دلیلوں کو بیان کر دیا جائے۔ جو عترت رسول کی اتّباع اور ان کی پیروی لاز م ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔

کلام اہل بیت (ع) کی حجت اور انکی اتباع کے واجب ہونے کے دلائل

سنی و شیعہ محدثین کا اتفاق ہے” کہ رسول اکرم (ص) نے اپنے بعد دو عظیم گرانبہا میراث ہمارے درمیان میں چھوڑی ہیں “ اور تمام مسلمانوں کو انکی پیروی کا حکم دیا ہے اور لوگوں کی فلاح اور ہدایت کو انھیں کے ساتھ تمسک ( وابستگی ) میں قرار دی ہے ۱ ۔ اللہ کی کتاب قرآن مجید ۔ ۲ ۔ آپ کے اہل بیت و عترت پاک علیہم السلام اس سلسلہ کی چند حدیثوں کو آپ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے ۔

۱ ۔ ترمذی نے اپنی صحیح میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے اور انھوں نے رسول اکرم (ص) سے روایت نقل کی ہے: میں تمھارے درمیان دو سنگین چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم نے مضبوطی سے انھیں پکڑ ے رکھا تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے۔ ایک کتاب خدا اور دوسرے میری عترت۔(۱)

۲ ۔ ترمذی اپنی صحیح میں اس حدیث کو بھی نقل کرتے ہیں : میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا رہوں ، اگر ان کو پکڑے رکھا تو ہر گز میرے بعد گمراہ نہ ہوگے اور ا ن میں سے ہر ایک دوسرے پر برتری رکھتی ہے ، کتاب خدا زمین سے آسمان تک متصل ہے ، اور میری عترت و اہل بیت یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوںگے یہاں تک کہ حوض کوثرپر میرے پاس آپہونچیں ، اس میں غوروفکر کرو میرے بعد انکے ساتھ کیا سلوک و برتاو کروگے ۔(۲)

۳ ۔مسلم بن حجاج اپنی صحیح میں رسول اسلام (ص) سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں : اے لوگو! میں انسان ہوں قریب ہے خدا کا بھیجا ہوا فرشتہ( ملک الموت ) میرے پاس آئے اور میں اس کے جواب میں لبیک کہدوں میں تمھارے درمیان دو گراں بہا چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب جس میں نور ہدایت ہے پس اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑلو اور اس سے وابستہ رہنا حضرت (ص) نے یہ فرما کر قرآن سے تمسک کی ترغیب دی پھر فرمایا:اور میرے اہل بیت (ع) ، میں تمہیں اپنے اہل بیت (ع) کے لئے تاکید کرتا ہوں ، میں تمہیں اہل بیت (ع) کے لئے تاکیدکرتا ہوں ،میں تمہیں اپنے اہل بیت (ع) کے لئے تاکید کرتا ہوں ۔(۳)

۴ ۔ متعدد محدثین نے آنحضرت (ص) سے نقل فرمایاہے: حضرت (ص) نے ارشاد فرمایا : ” میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ ایک کتاب خدا دوسرے میری عترت ۔ یہ ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے ، یہاں تک کہ ( قیامت میں ) میرے پاس حوض کوثر پر آپہونچیں ۔(۴)

مذکورہ روایات کے مضمون پر مشتمل اسقدر زیادہ حدیثیں ہیں جو اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہیں محقق التحر یر سید میر حامد حسین ( ہندی ) رحمۃ اللہ علیہ نے ان روایات بیشتراسنادکو اپنی کتاب عبقات الانوار میں جمع کیا ہے ۔

ان روایات کی روشنی میں یہ صاف ظاہر ہے۔ کہ اہل بیت (ع) کے دامن سے تمسک،اور ان کی اتباع ،قرآن مجید اور سنت پیغمبر (ص) کی پیروی کے مترادف ہے۔ اور ضروریات دین اسلام ہے ۔ لہٰذا ان کے دامن کو چھوڑ دینا ضلالت وگمراہی کا باعث ہے ۔

رسول اسلام (ص) کے فرمان کے مطابق اہل بیت طاہرین (ع) کی اتباع اور انکی پیروی واجب و ضروری ہے ۔

یہیں سے ایک سوال وجود میں آتا ہے۔ کہ پھر وہ اہل بیت پیغمبر (ص) کون لوگ ہیں ؟ کہ جن کی اطاعت حکم رسول کے مطابق ہم واجب ہے۔

لہٰذا اس مسئلہ کی مزیدوضاحت کے لئے روایات کی روشنی میں عترت پیغمبر (ص) کے معنی جستجو کریں گے۔

آنحضرت (ص) کے اہل بیت (ع) کون ہیں ؟

مذکورہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضور سرورکائنات (ص) نے تمام مسلمانوں کو اپنی عترت کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اور ان کو قرآن کریم کے مساوی اور برابر قرار دیا ہے ۔ نیز انہیں اپنے بعد امت کا رہبر قرار دیتے ہوئے واضح طور پر فرمایا: یہ دونوں قرآن و عترت ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے، لہٰذا اہلبیت (ع) وہی حضرات ہو سکتے ہیں جو قول رسول کے مطابق قران کے برابر ہوں اور عصمت کے درجہ پر فائز ہوں ۔چنانچہ ان حضرات کی اچھی طرح معرفت کے لئے ہم کچھ روایتوں کو قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

۱ ۔ مسلم بن حجاج اپنی صحیح میں حدیث ثقلین کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں یزید بن حیان نے زید بن ارقم ( حضرت (ص) کے خاص صحابی ) سے دریافت کیا ہیں: کہ آنحضرت (ص) کے اہل بیت (ع) کون لوگ ہیں ؟ کیا اہل بیت (ع) سے مراد آنحضرت (ص) کی بیویاں ہیں ؟

زید بن ارقم جواب میں فرماتے ہیں :”لا واٴیم اللّه ان المراٴة تکون مع الرجل العصر من الدهر ثم یطلقها فترجع الیٰ اٴبیها وقومهااٴهل بیته اٴصله وعصبته الذین حرموا الصدقة بعده“ ۔(۵) نہیں ہر گز ایسا نہیں ہے ۔ خدا کی قسم عورت مرد کے ساتھ کچھ مدت کے لئے رہتی ہے۔ اور اگر مرد اسے طلاق دیدے تو وہ اپنے باپ اور رشتہ داروں کے یہاں واپس چلی جاتی ہے ( لہٰذا اس سے بیوی مراد نہیں ہو سکتی ) بلکہ اہل بیت (ع) سے مراد وہ لوگ ہیں جو حضرت (ص) کے اصل قرابتدارا ور رشتہ دار ہوں ( کہ جدا کرنے سے جدا نہ ہو سکیں ) اور آپ کے بعد ان پر صدقہ حرام ہے ۔

اس روایت سے صاف ظاہرہے کہ عترت ( کہ جن کی پیروی کرنا قران کی پیروی کی طرح واجب ہے ) سے مراد آنحضرت (ص) کی بیویاں نہیں ہیں ۔

بلکہ اس سے مراد وہ حضرات ہیں جو آپ سے جسمانی رشتے اور نسبت کے علاوہ ہے بھر پور معنوی رابطہ بھی رکھتے ہوں ۔ تاکہ قرآن کے برابر ہو کر قرآن کی طرح مرجع خلائق قرار پائیں۔

۲ ۔ پیغمبر اسلام (ص) نے فقط ان کے اوصاف و خصوصیات کو بیان کرنے پراکتفا نہیں کیا ہے بلکہ ان کی تعداد ( کہ بارہ ہونگے ) بھی ذکر فرمائی ہے ۔(۶)

مسلم اپنی صحیح میں جابر بن سمرہ سے بیان کرتے ہیں : میں نے آنحضرت (ص) کو فرماتے ہوئے سنا ” کہ اسلام بارہ خلفاء سے مزین ہوگا “ پھر آپنے کچھ کہا جو میری سمجھ میں نہ آسکا۔ تو میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ حضرت (ص) نے اس کے بعد کیا فرمایا ہے ؟ تو انھوں نے جواب میں کہا کہ وہ سب کے سب قریش سے ہوںگے ۔

ایسے ہی مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح میں دوسرے مقام پر رسولخدا (ص) کی یہ حدیث تحریر فرماتے ہیں :”قال رسول اللّٰه (ص)لا یزال امر الناس ما ضیاً ما ولیٰهم اثنا عشر رجلاً ۔(۷)

اس وقت تک لوگوں کے تمام کام صحیح طریقہ سے انجام پائیں گے جب تک انہیں بارہ افراد کی ولایت و سرپرستی حاصل رہے ۔

یہ دونوں روایتیں شیعوں کے اس عقیدہ پر دلیل ہیں کہ رسول (ص) کے بعد بارہ امام ہونگے، کیونکہ یہی بارہ امام ہیں جو تمام خلائق کے مرجع اور اسلام کی عزت و شوکت و سربلندی کا سبب ہیں۔ ان کے علاوہ عالم اسلام میں کوئی بھی اس حدیث کا مصداق نظر نہیں آتا ۔

قطع نظر ان ابتدائی تین خلفاء کے کہ جو مسلمانوں کی اصطلاح میں خلفاء راشدین کے نام سے مشہور ہیں ۔ بنی امیہ اور بنی عباس کے یا دوسرے حکمرانوں کی بداعمالیاں جو تاریخ کے دامن میں بد نما داغ کی طرح ثبت ہیںجو اسلام اور اہل اسلام کے لئے باعث ننگ و عار ہیں جنہیں کسی بھی طرح حضور کا خلیفہ قرار نہیں دیا جا سکتا لہٰذا حضور ختمی مرتبت (ص) کے اہل بیت (ع) سے مراد صرف وہی بارہ امام ہیں کہ جن کی شناخت آنحضرت (ص) نے کرا ئی تھی کہ یہ تمام مسلمانوں کی پنا گاہ اور انکا مر کز و مرجع ہیں، سنت رسول (ص) کے محافظ اور آپ کے علوم کے خزانہ دار ہیں ۔ ۳ ۔ حضرت امیر المومنین علی ابن ابیطالب (ع) بھی مسلمانوں کے رہنمااور ہادی کو بنی ہاشم سے ہی جانتے ہیں جو شیعوں کے بار ہ اماموں (ع) کے اوپر محکم دلیل ہے جیسا کہ فرماتے ہیں: ”ان الائمة من قریش فی هذا البطن من بنی هاشم لا تصلح علیٰ من سواهم ولا تصلح الولة من غیرهم ۔“(۸)

ائمہ علیہم السلام کو خدا نے قریش اور بنی ہاشم سے قرار دیا ہے ،اور دوسرے حضرات کہ لوگوں پر حکمرانی کا حق نہیں ہے لہذا ان کے علاوہ اور ہر ایک کی حاکمیت بے بنیاد ہے ۔

نتیجہ

ان روایات سے دو چیزوں کی حقیقت روشن ہو تی ہے ۔

۱ ۔ قران کی اطاعت کے ساتھ اہل بیت (ع) (عترت) سے تمسک اور وابستگی اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری بھی واجب ہے ۔

۲ ۔ اہل بیت (ع) جو قرین قرآن اور لوگوں کا مرجع قرار دئے گئے ان کی صفات مندرجہ ذیل ہیں ۔

الف ۔ تمام کے تمام قریش اور بنی ہاشم سے ہیں ۔

ب۔ رسول خدا (ص) سے ان کی ایسی قرابتداری ہے کہ رسول (ص) کی طرح ان پر بھی صدقہ حرام ہے ۔

ج۔ یہ مقام عصمت پر فائز ہیں۔( ورنہ اپنے عمل کی وجہ سے قرآن سے جدا ہو جاتے) اسی لئے رسول اسلام (ص) نے فرمایا: قرآن و عترت ایک دوسرے سے ہر گز جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ ( قیامت میں ) حوض کوثر پر میرے پاس پہونچ جائیں ۔

د۔ یہ تعداد میں بارہ ہیں تاکہ رسول خدا (ص) کے بعد یکے بعد دیگرے مسلمانوں کی ولایت و سرپرستی سنبھالیں ۔

ھ۔ یہ بارہ خلفائے الٰہی ،اسلام کے لئے باعث عزت و سر بلندی و قطب زمین ہیں ۔ان صفات کو مد نظر رکھتے ہوئے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے ۔کہ آنحضرت (ص) کے اہل بیت (ع) اور آپ کی عترت جس کی اتباع و پیروی کا حکم دیا گیا ہے وہ بارہ امام وہی ہیں کہ شیعہ ان کی پیروی و تمسک کر کے فخر کرتے ہیں ۔اور وہ بارہ خلفائے الٰہی یہ ہیں ۔

۱ ۔ حضرت علی بن ابی طالب (ع) (المرتضی)

۲ ۔ حضرت حسن بن علی (ع) (مجتبیٰ )

۳ ۔حضرت حسین بن علی (ع) ( شہید کربلا )

۴ ۔حضرت علی ابن الحسین (ع) (زین العابدین )

۵ ۔حضرت محمد بن علی (ع) (باقر )

۶ ۔حضرت جعفر بن محمد (ع) ( صادق )

۷ ۔ حضرت موسیٰ بن جعفر (ع) (کاظم )

۸ ۔حضرت علی بن موسیٰ (ع) (رضا)

۹ ۔ حضرت محمد بن علی (ع) ( تقی )

۱۰ ۔ حضرت علی بن محمد (ع) ( نقی )

۱۱ ۔حضرت حسن بن علی (ع) ( عسکری)

۱۲ ۔ حضرت امام مہدی (ع) ( قائم )

اسلامی محدثین نے تواتر سے نقل کیا ہے :کہ آنحضرت (ص)نے آپ کو مہدی موعود کے نام سے یاد فرمایا ہے :” صلوٰات اللّٰہ علیھم اجمعین ۔“

۷ ۔ سجدہ ائمہ طاہرین (ع) کی نظر میں

جب اہل بیت (ع) کی حقانیت و وثاقت ہر اعتبار سے ثابت ہو گئی تو ہم اپنے قارئین کی خدمت میں بطور تبرک ان حضرات کی چند احادیث نقل کرنے کا شرف حاصل کر رہے ہیں ۔

۱ ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : زمین اور اس سے اگنے والی چیزوں پر سجدہ جائز ہے ۔ اور کھانے او رپہننے والی اشیاء پر سجدہ صحیح نہیں ہے ۔(۹)

۲ ۔ دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : زمین پر سجدہ اللہ کا حکم اور واجب ہے ۔ اور چٹائی پر سجدہ کرنا آنحضرت (ص) کی سنت ہے۔(۱۰)

۳ ۔ امام صادق علیہ السلام اس ضمن میں مزید ارشاد فرماتے ہیں : کہ دوسری کسی چیز پر سجدہ صحیح نہیں سوائے زمین اور اس سے اگنے والی چیزوں کے مگر یہ کہ وہ کھائی جاتی ہو یا وہ روئی وغیرہ ہو (کہ اس پر سجدہ صحیح نہیں ہے )۔(۱۱)

۴ ۔ کتاب وسائل الشیعہ میں ہماری نگاہ اس مقام پر ٹھہرتی ہے کہ اسحاق بن فضیل نے امام جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام سے چٹائی اور بوریا پر سجدہ کرنے کے متعلق دریافت کیا؟ تو امام (ع) نے جواب میں فرمایا: صحیح ہے ،لیکن خود زمین پر سجدہ کرنا مجھے پسندہے ، کیونکہ حضرت رسولخدا (ص) ایسا ہی کرتے اور سجدہ کی حالت میں پیشانی زمین پر رکھتے تھے ، لہٰذا میں وہی پسند کرتا ہوں جو حضرت (ص) پسند فرماتے تھے ۔(۱۲)

۵ ۔ ایک شخص نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا ۔ کیا چٹائی وبوریا اور گھانس پر سجدہ کرنا درست ہے ؟ امام (ع) نے فرمایا: ہاں صحیح ہے ۔(۱۳)

۶ ۔حلبی کہتے ہیں میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے کپڑے، چادر وغیرہ (جو بالوںسے بنی ہو )پر سجدہ کرنے کے متعلق دریافت کیا تو حضرت (ع)

نے فرمایا اس پر سجدہ نہ کرو ۔مگر ہاں اس پر کھڑے رہو اور زمین پر سجدہ کرو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے ، یا پھر اس پر چٹائی پھیلا کر چٹائی پر سجدہ کرو ۔(۱۴)

مذکورہ روایات سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بیت اطہار (ع) کی نظر میں فقط زمین یا جو اس سے اُگے اسی پر سجدہ کرنا صحیح ہے اور کھانے پینے کی چیزوں پر سجدہ کرنا صحیح نہیں ہے۔ جیسا کہ آنحضرت (ص) کی احادیث سے اور آپ کی سیرت اور اصحاب و تابعین کے طور طریقہ سے ہمیں معلوم ہو تا ہے ۔

ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ائمہ اطہار (ع) جو بھی شرعی احکام بیان کرتے ہیں وہی ہے جو رسول خدا (ص) سے حاصل کئے ہیں کیونکہ شیعوں کی نگاہ میں شریعت اور قانون سازی کا حق فقط خداوند متعال کو حاصل ہے، اور پیغمبر (ص) کا کام اس مقدس قانون اور دینی احکام کو لوگوں تک پہنچانا ہے ۔ جیسا کہ واضح ہے کہ رسول خدا (ص) (اور دیگر انبیاء (ع))اللہ اور بندوں کے درمیان وحی اور تشریع (احکام الٰہی)کو پہنچانے کے لئے ایک رابطہ ہیں ۔لہٰذا یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اگر شیعہ اہل بیت (ع) کی احادیث و اقوال کو اپنی فقہ (احکام شرعی)کا منبع و مدرک قرار دیتے ہیں تو یہ فقط اس لئے ہے کہ ان کے اقوال در حقیقت آنحضرت (ص) کی احادیث کی عکاسی کرتے ہیں ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : میرا حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور ان کی حدیث میرے دادا علی بن الحسین (ع) کی حدیث ہے اور ان کی حدیث حسین ابن علی (ع) کی حدیث ہے اور حسین ابن علی (ع) کی حدیث حسن ابن علی (ع) کی حدیث ہے اور حسن ابن علی (ع) کی حدیث امام علی علیہ السلام کی حدیث ہے اور حضرت علی (ع) کی حدیث،کلام رسول خدا (ص) ہے اوررسول خدا (ص) کا کلام ، کلام الٰہی ہے۔(۱۵)

ایک مقام پر کسی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہی سوال کیا تو آپ نے اس کے جواب میں یہ ارشاد فرمایا :”مَهما اٴجبتک فِیهِ بِشَیءٍ فَهُوَ عَن رَسُول اَللّٰه (ص) لسنا نَقُولُ بِرَاٴیناَ مِن شَیءٍ ۔“(۱۶)

”جو میں نے تمھیں جواب دیا ہے وہی رسولخدا (ص)کا جواب ہے ہم اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے ہیں “اس روایت کی روشنی میں دو نکتے بدیہی طور پر واضح ہوتے ہیں :

الف : اہل بیت (ع) کی نظر میں زمین اور جو چیز اس سے اگتی ہے اس پر سجدہ کرنا صحیح ہے (بس شرط یہ ہے کہ وہ کھانے یا پہننے کی نہ ہو) لیکن خاک و مٹی جو زمین ہی کا

ایک حصہ ہے اس پر سجدہ کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے ۔کیونکہ سجدہ کی مصلحت یہ ہے۔ کہ انسان بارگاہ بے نیاز میں سراپا خضوع و تذلل و بردباری کے ساتھ سر بسجود ہوجائے ۔

ب : احادیث و اقوال اہل بیت (ع) ۔ متواتر روایات کے مطابق حجت و معتبر ہیں۔ اور ا ن سے سرپیچی احکام رسول خدا (ص) کی مخالفت ہے ۔ اس لئے کہ رسول خدا (ص) نے حدیث ثقلین اپنی عترت اور اہل بیت (ع) کے کلام و فرمان کی ضمانت خود اپنے اوپر لی ہے ۔ لہٰذا ان کی عترت کے کلما ت، رسول خدا (ص) کے کلام کے سوا کچھ نہیں ہیں ۔

ان تمام بحثوں اور استدلالوںسے چودہویں رات کے چاند کی طرح یہ روشن ہوجاتاہے کہ شیعوں کا زمین یا خاک پر سجدہ کرنا بجا ہے ۔

____________________

(۱)صحیح ترمذی ، کتاب المناقب ، باب مناقب اہل بیت النبی (ص) ، ج/۵ طبع بیروت ، ص/ ۶۶۲ ، حدیث ۳۷۸۶۔”یا ایهّا النّاس انّی قد ترکت فیکم ما ان اٴخذتم به لن تضلوا کتاب اللّٰه وعترتی اهل بیتی

(۲)مدرک سابق ، ص/ ۶۶۳ ، حدیث ۳۷۸۸۔

(۳) صحیح مسلم ، جزء ۷ باب فضائل علی ابن ابی طالب (ع) ، ط مصر ، ص/ ۱۲۲ ۔ ۱۲۳ ۔

(۴) مستدرک حاکم ، جزء ۳ ص/ ۱۴۸ ۔ الصواعق المحرقۃ ، باب ۱۱ فصل اول ص/ ۱۴۹ اور اسی طرح کے مضمون پر مشتمل دیگر احادیث درج ذیل کتابوں میں بھی دیکھی جاسکتی ہے :” مسند احمد ، جزء ۵ ص/ ۱۸۲ و ۱۸۹ ۔ ” کنز العمال ، جزء اول ، باب الاعتصام بالکتاب و السنۃ ، ص/ ۴۴ ۔

(۵)صحیح مسلم ، جزء ۷ باب فضائل علی ابن ابی طالب ، ط مصر ، ص/ ۱۲۳ ۔

(۶)صحیح مسلم ، ج/۶ ص/ ۳ ، ط مصر۔

(۷) گذشتہ حوالہ۔

(۸) نہج البلاغہ (صبحی صالح) ، خطبہ ۱۴۴۔

(۹) وسائل الشیعہ ، ج/ ۳ ص/ ۵۹۱ ، کتاب الصلۃ ، ابواب ما یسجد علیہ ، حدیث ۱۔ ”السجود لا یجوز الا علی الارض او علی ما انبتت الارض الا ما اکل او لبس

(۱۰)وسائل الشیعہ ، ج/۳ ص/ ۵۹۳ ، کتاب الصلۃ ابواب ما یسجد علیہ ، حدیث ۷۔ ”السجود علی الارض فریضة وعلی الخمرة سنة

(۱۱)وسائل الشیعہ ، ج/۳ ص/ ۵۹۲ و بحار الانوار ، ج/ ۸۵ ص/ ۱۴۹ ۔ ”لا یسجد الا علی الارض او ما اٴنبتت الارض الا الماکول و القطن و الکتان

(۱۲) وسائل الشیعہ ،ج/۳ ص/ ۶۰۹۔ ”وعن اسحاق بن الفضیل انه ساٴل اٴبا عبد اللّٰه عن السجود علی الحصیر و البواری ، فقال : لاباس وان یسجد علی الارض اٴحب الیّ ، فان رسول اللّٰه (ص) کان یحبّ ذلک ان یمکن جبهته من الارض ، فانا احب لک ما کان رسول اللّٰه (ص) یحبه

(۱۳)وسائل الشیعہ ، ج/۳ ص/ ۵۹۳ ۔”۔۔۔۔ان رجلاً اٴتی ابا جعفر ( الامام الباقر) وساٴله عن السجود علی البوریا و الخصفة و النبات ، قال : نعم

(۱۴)وسائل الشیعہ ، ج/۳ ص/ ۵۹۴ : ”عن ابی عبد اللّٰه قال ساٴلته عن الرجل یصلی علی البساط و الشعر و الطنافس قال : لا تسجد علیه وان قمت علیه و سجدت علی الارض فلاباٴس ، وان بسطت علیه الحصیر و سجدت علی الحصیر فلا باٴس

(۱۵)جامع احادیث الشیعۃ، ج۱ ص ۱۲۷۔”حدیثی حدیث ابی (ع) و حدیث ابی (ع) حدیث جدی (ع) و حدیث جدی (ع) حدیث الحسین (ع) و حدیث الحسین (ع) حدیث الحسن (ع) و حدیث الحسن (ع) حدیث امیر المومنین (ع) و حدیث امیر المومنین (ع) حدیث رسول اللّٰه (ص) و حدیث رسول اللّٰه (ص) قول اللّٰه عز و جل

(۱۶) جامع احادیث الشیعۃ ج۱ ص۱۲۹ ۔

۸ ۔ مجبوری کی حالت میں سجدہ

گذری ہوئی بحثوں اور دلیلوں سے بہت حد تک یہ واضح ہو گیا کہ انسان کو اختیاری حالت میں زمین ( اور جو چیز اس سے اگتی ہے ) پر ہی سجدہ کرنا چاہئے کیونکہ:

۱ ۔ زمین اور سطح زمین پر سجدہ کرنا سنت نبی (ص) اور آپ کا حکم ہے ۔

۲ ۔ زمین پر سجدہ کرنا آنحضرت (ص) کی سیرت اور عملی روش ہے ۔

۳ ۔ زمین پر سجدہ کرنا حضور (ص) کے اصحاب کے حکم کے مطابق ہے ۔

۴ ۔ زمین پر سجدہ کرنا سیرت صحابہ اور تابعین اور صدر اسلام کے مسلمانوں کا وطیرہ ہے ۔

۵ ۔ زمین پر سجدہ کرنا ،اہل بیت اطہار (ع)کا حکم ہے ۔

۶ ۔ زمین پر سجدہ کرنا حضور کی عترت پاک (ع) کی سیرت عملی ہے ۔

یہاں پر ایسی روایتوں کو بیان کرناچاہتا ہوں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان جب بالکل تحمل نہ کر سکے جیسااتنی شدید گرمی یاایسی شدید سردی ہو کہ جو ناقابل برداشت ہویاکسی دوسرے معقول و شرعی عذر کی بنا پر لباس کے کناروں یا کپڑے کے ٹکڑوں پر سجدہ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔

جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ روایات اضطراری حالات میں زمین کے علاوہ دوسری چیز پر سجدہ کرنے کو درست کہتی ہیں لیکن مسلمانوں ( اہل سنت ) نے ایسی حدیثوں سے یہ گمان کیا ہے کہ یہ احادیث و روایات تمام حالات کے لئے ہیں یعنی چاہے کوئی عذر ہو یا نہ ہو جب بھی کپڑوں اور اس جیسی چیزوں پر سجدہ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ ان لوگوں نے آنحضرت (ص) کی سنت اور آپ کے اصحاب کی سیرت کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے یہ کہا-: انسان کے لئے فقط زمین اور جو چیز اس سے اگتی ہے اس پر سجدہ کرنا ضروری نہیں ہے ، بلکہ ہر حال میں ان چیزوں کے علاوہ شئے پر بھی سجدہ کرنا صحیح ہے ، جیسے قالین ،کپڑا اور دوسری کھانے کی چیزیں ، اسی لئے ضروری ہے کہ ہم ان روایات کو بھی بیان کردیں جو حالت اضطرار پر بالصریح دلالت کرتی ہیں ، تاکہ اس مسئلہ کی حقیقت ہر شخص پر کچھ اور واضح ہو جائے ۔

۱ ۔ ابو عبد اللہ بخاری اپنی صحیح میں اس روایت کو انس سے نقل کرتے ہیں: (بلکہ انھوں نے اپنی کتاب میں پورے ایک باب کو شدید گرمی میں لباس پر سجدہ کرنے کے بارے مخصوص کیا ہے ) انس کہتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ (ص) کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے تو ایک شخص گرم زمین پر سجدہ نہ کرسکا تو اس نے لباس پھیلا کر اس پر سجدہ کیا ۔

۲ ۔ بخاری دوسرے مقام پر انس سے ہی نقل کرتے ہیں ، ہم گرمی کے موسم میں آنحضرت (ص) کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ۔اور گرم زمین کی تاب نہ لا کر اپنے کپڑوں پر سجدہ کر تے تھے تاکہ اس سے محفوظ رہ سکیں ۔(۱)

۳ ۔ مسلم بن حجاج مذکورہ روایت کو اس طرح نقل کرتے ہیں ، جب ہم گرمی کے موسم میں آنحضرت (ص) کے پیچھے نماز پڑھتے اور ہم میں سے کوئی گرم زمین پر سجدہ نہ کرسکتا تو کپڑا پھیلا کر اس پر سجدہ کر لیتا تھا ۔(۲)

۴ ۔ مسلم بن حجاج دوسرے مقام پر ایک صحابی سے اس طرح نقل کرتے ہیں: ہم شدید گرمی میں آنحضرت (ص) (ص)کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے (اتفاق ) سے ایک شخص جلتی زمین پر پیشانی نہ رکھ سکتا تھا تو اس نے اپنے لباس کو پھیلا کر اس پر سجدہ کیا ۔(۳)

ان روایات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ انسان اضطراری حالت میں زمین کے علاوہ دوسری چیزوں پر سجدہ کر سکتا ہے ، اس لئے کہ روایت کی تعبیر یہ ہے کہ” شدید گرمی یا کڑاکے کی ٹھنڈک“ جیسا کہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ صدر اسلام میں مسلمان گرمی کی تاب نہ لا کر کپڑوں پر سجدہ کر لیا کرتے تھے تا کہ پیشانی سوزش زمین سے محفوظ رہ سکے ۔(۴)

اسی لئے ابن حجر مکی کہتے ہیں : مذکورہ روایات اس نکتہ کی طرف آگہی کرتی ہیں کہ سجدہ میں اصل یہ ہے کہ پیشانی زمین پر رکھا جائے کیونکہ لباس وغیرہ پر سجدہ کرنا (مجبوری کی حالت ) اور طاقت نہ ہو نے کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔(۵)

حالت اضطرار کا حکم اہل سنت کی کتابوں سے مخصوص نہیں ہے۔بلکہ یہ حکم ہماری کتابوں میں بھی موجود ہے۔ کہ شدید گرمی اور کڑاکے کی ٹھنڈک میں جب انسان زمین پر سجدہ کرنے سے معذور ہو تو کپڑے وغیرہ پر سجدہ کر سکتا ہے ۔

صاحب وسائل الشیعہ نے اپنی کتاب میں مکمل ایک باب ” جواز السجود علیٰ الملابس وعلیٰ ظہر الکف فی حال الضرورۃ “(حالت ضرورت میں کپڑے اور ہاتھ کی ہتھیلی پر سجدہ کرنا جائز ہے ) کے نام سے قائم کر رکھا ہے۔اور ائمہ طاہرین (ع) کی روایتوں کو اس میں تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ ان میں بعض احادیث کو قارئین کرام کے سامنے بطور تبرک پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں ۔

۱ ۔عیینہ کہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ اگر میں شدید گرمی میں مسجد جاوں اور (گرم ) پتھر پر سجدہ کرنے سے دل مائل نہ ہو تو کیا میں کپڑا پھیلا کراس پر سجدہ کر سکتا ہوں؟امام (ع) نے فرمایا:ہاں کوئی حرج نہیں ہے۔(۶)

۲ ۔قاسم بن فضیل کہتے ہیں : میں نے امام رضا (ع) سے کہا میری جان آپ پر فدا ہو کیا کوئی شخص گرمی و سردی سے بچاؤ کے لئے آستین پر سجدہ کر سکتا ہے ؟ امام (ع) نے جواب میں فرمایا: ہاں کوئی حرج نہیں ہے ۔(۷)

۳ ۔ کچھ شیعوں نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ اگر ہم ایسی جگہ ہوں جہاں شدید ٹھنڈک کی بنا پر پانی جم کر برف ہو گیا ہو تو کیا ہم ( نماز میں ) اس پر سجدہ کر سکتے ہیں ؟ امام (ع) نے فرمایا : نہیں بلکہ برف سے (بچاؤ ) کے لئے روئی یا کتان رکھ لو ۔(۸)

نتیجہ

انسان تمام احادیث سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے ۔

۱ ۔ اختیاری اور امکانی صورت میں ضروری ہے کہ زمین اور گھانس پر سجدہ کیا جائے۔اور یہی حکم اس وقت ہے جب کسی کا عذر بر طرف ہوجائے ۔

۲ ۔ صرف اضطراراورعذر کی صورت میں ہی لباس کے کناروں پر سجدہ کرنا صحیح ہے ، جیسے شدید گرمی و سردی وغیرہ میں۔

اسی لئے شیعہ حضرات اہل بیت اطہار (ع) اور سنت رسول اکرم (ص) اور سیرت مسلمان صدر اسلام و تابعین کی روش کی پیروی و اتباع کرتے ہوئے زمین کے اجزاء پتھر اور مٹی پر سجدہ کرتے ہیں ۔ اور کپڑا یا لباس اور کھانے وغیرہ کی چیزوں پر سجدہ کرنے سے اجتناب کرتے ہیںاورفروتنی و انکساری کی بنا پر مٹی پر سجدہ کرنے کو اور دوسری تمام چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں ۔ اسی لئے ائمہ طاہرین (ع) اور صحابہ و تابعین کی تاسی و پیروی کرتے ہوئے وہ پاک و پاکیزہ مٹی کو سجدہ کے لئے اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ تاکہ اس پر سجدہ کر کے درگاہ خدائے لایزال میں خضوع و انکساری و خاکساری کی علیٰ منازل کو درک کرسکیں ۔

واضح ر ہے کہ فقط یہ طریقہ شیعہ حضرات سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اہل سنت کی مشہور شخصیتوں نے بھی اسی راستے کو اختیار کیا ہے لہٰذا نمونے کے طور پر انکے چند بزرگانوں کا اجمالی تذکرہ کیا جا رہا ہے ۔

۱ ۔ اسلامی مورخین و محدثین نے نقل کیا ہے کہ عمر بن عبد العزیز ( اموی خلیفہ) فقط چٹائی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ تھوڑی مٹی بھی اس پر رکھتا اور نماز میں اس پر سجدہ کیا کرتا تھا ۔(۹)

۲ ۔صاحب فتح الباری عروہ بن زبیر سے نقل کرتے ہیں کہ وہ زمین کے علاوہ اور کسی چیز پر سجدہ کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے ۔(۱۰)

۳ ۔ جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوا ہے کہ صاحب ( الطبقات الکبریٰ ) کہتے ہیں: مسروق بن اجدع ( تابعی ) سفر میں ایک کھپرے کا ٹکڑا ساتھ رکھتے تھے تاکہ کشتی میں اس پر سجدہ کر سکیں ۔(۱۱)

اس بنا پر شیعوں کا یہ طریقہ کہ ہمیشہ زمین اور اس سے اگنے والی چیزوں (جو کھانے اور پہننے والی نہ ہو ) پر سجدہ کرنا اور پاک و پاکیزہ اور مقدس مٹی کودرگاہ خدا میںتذلل و فروتنی کے لئے تمام چیزوں پر ترجیح دینا نہ فقط یہ کہ یہ شرک وغیرہ سے دورہے بلکہ توحید اور خدا پرستی کے بالکل مطابق ہے اور اس کے مقابلہ میں جو بھی نظریات پائے جاتے ہیں وہ سب بے بنیاد اور بدعت ہیں۔ ان اقوال و نظریات کے باطل ہونے کے لئے مذکورہ دلیلوں کی روشنی میں سنت اور سیرت آنحضرت (ص) اور اقوال و سیرت صحابہ کرام و تابعین عظام اور اہل بیت اطہار (ع) کی عملی زندگی کافی ہے اور مندرجہ ذیل روایت اسکی بہترین گواہ ہے۔

حافظ ابوبکر بن ابی شیبہ ، اپنی کتاب ( المصنف ) ج/ ۲ میں سعید بن مسیب و محمد بن سیرین سے نقل کرتے ہیں :کہ نماز ( طنفسۃ) چادر پر پڑھنا نئی چیز بدعت ہے اور رسول خد ا (ص) سے سند صحیح کے ساتھ روایت منقول ہے: کہ نئی چیز کا دین میں داخل کرنا بد ترین چیز ہے ۔ اور ہر نئی چیز کا دین میں داخل کرنا بدعت ہے۔(۱۲)

____________________

(۱) صحیح بخاری ج۱ ص۱۴۳ ، ۱۰۷ اور دوسری جگہ پر ص۱۰۱ ۔ اور جلد ۲ ص۸۱ پرنقل کرتے ہیں کہ : ”کنا اذا صلینا خلف رسول اللّٰه (ص) بالظهائر، فسجدنا علی ثیابنا اتقاء الحر

کنا نصلی مع النبی (ص) فی شدة الحر فاذا لم یستطع احدنا ان یمکن جبهته من الارض بسط ثوبه فسجد علیه“

(۲) سیرتنا و سنتنا ص/ ۱۳۱بحوالہ مسلم۔ ”کنا اذا صلینا مع النبی (ص) فلم یستطع احدنا ان یمکن جبهته من الارض من شدة الحر طرح ثوبه ثم سجد علیه

(۳) سیرتنا و سنتنا ص/۱۳۱۔ ”کنانصلی مع رسول اللّٰه فی شدة الحر فاذا لم یستطع احدنا ان یمکن جبهته من الارض بسط ثوبه فسجد علیه

(۴)الفتح ج/۱ ص/ ۴۱۴ ۔ ”وفیه اشارة الی ان مباشرة الارض عن السجو هو الاصل لانه علق بعدم الاستطاعة

(۵)سیرتنا و سنتنا ، ص/ ۱۳۱ بحوالہ نیل الاوطار ۔ ”الحدیث یدل علی جواز السجود لاتقاء حر الارض ، وفیه اشارة الی ان مباشرة الارض عند السجود هی الاٴصل ، لتعلیق بسط ثوب بعدم الاستطاعة

(۶) وسائل الشیعہ ج/۳ ، کتاب الصلۃ ، ابواب ما یسجد علیہ ، باب ۴ ، حدیث ۱ ۔ ”قلمت لاٴبی عبد اللّٰه علیه السلام : ادخل المسجد فی الیوم الشدید الحر فاکره ان اصلی علی الحصی ، فاٴبسط ثوبی فاٴسجد علیه ؟ قال : نعم لیس به باٴس “

(۷) گذشتہ حوالہ، حدیث ۲۔ ”قلت للرضا علیه السلام : جعلت فداک ، الرجل یسجد علی کمه من اذی الحر و البرد ؟ قال: لاباس به

(۸) گذشتہ حوالہ، حدیث ۷۔ ”قلت لاٴبی جعفر علیه السلام : انا نکون بارض باردة یکون فیها الثلج افنسجد علیه ؟ قال: لا ولکن اجعل بینک و بینه شیئاً قطناً او کتاناً

(۹) فتح الباری ، ج/۱ ص/ ۴۱۰ و شرح الاحوذی ، ج/۱ ص/ ۲۷۲ ۔ ”عمربن عبدالعزیزالخلیفة الاموی کان یکتفی بالخمرة،بل یضع علیهاالتراب ویسجد علیه

(۱۰) گذشتہ حوالہ ۔ ”روی عن عروه بن الزبیر انه کان یکره الصلة علی شیء دون الارض

(۱۱) الطبقات الکبریٰ ، ج/۶ ص/ ۷۹ طبع بیروت ، مسروق بن اجدع کے احوال میں ۔ ”کان مسروق اذا خرج یخرج بلبنة یسجد علیها فی السفینة

(۱۲)سیرتنا و سنتنا ، ص/ ۱۳۴ : ”وقد اخرج الحافظ الکبیر الثقة ابوبکر بن ابی شیبة باسناده فی المصنف فی المجلد الثانی عن سعید بن المسیب وعن محمد بن سیرین : ان الصلة علی الطنفسة محدث ، وقد صح عن رسول صلی الله علیه وآله وسلم قوله : ” شر الامور محدثاتها ، وکل محدثة بدعة