۴ ۔ حکم رسول خدا (ص) زمین پر سجدہ کرو
حضور اکرم (ص) سے منقول بہت زیادہ روایتیں اس دلالت کرتی ہیں کہ آنحضرت (ص) مسلمانوں کو زمین پر سجدہ کرنے کا حکم دیتے تھے جس کے ثبوت کے لئے چند احادیث کو قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔
۱ ۔ زوجہ رسول (ص) ام سلمہ نقل کرتی ہیں :کہ آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا: اپنے چہرے کو اللہ کی عبادت کے لئے زمین پر رکھو ۔
۲ ۔ صاحب المصنف، خالد جہمی سے نقل کرتے ہیں-- - : پیغمبر (ص) نے صہیب کو دیکھاکہ خاک پر سجدہ کرنے سے گریز کر رہا ہے تو آپ نے فرمایا :اے صہیب! اپنے چہرے کو زمین پر رکھ ۔
۳ ۔ کتاب ارشاد الساری میں ہے کہ پیغمبر ختمی مرتبت (ص) نے معاذ سے یہ فرمایا :” اپنے چہرے کو خاک پر رکھا کرو“
۴ ۔ کنز العمال، الاصابہ، اور اسدا لغابہ میں منقول ہے کہ پیغمبر (ص) نے ( رباح نامی شخص سے) فرمایا : اے رباح اپنی پیشانی خاک پر رکھا کرو ۔
اسی کے مثل اور بہت کثرت سے روایات فریقین ( سنی و شیعہ ) کی کتابوں میں موجود ہیں جن میں لفظ ۔
” ترب “ ( جو ارشاد پیغمبر (ص) میں ذکر ہوا ہے ) سے دو باتیں واضح ہوجاتی ہیں ۔
۱ ۔انسان کو چاہئے کہ سجدہ کی حالت میں پیشانی ” تراب “ خاک پر رکھے
۲ ۔ حضور (ص) کا حکم ہے کہ زمین پر سجدہ کرو۔ جس پر تمام حالات میں عمل ضروری ہے ا س لئے کہ” ترب “ تراب سے بنایا گیا ہے جسکے معنی ہیں خاک(مٹی) اور حضرت (ص) نے اسکو امر کے طور پراستعمال کیا ہے یعنی خاک پر پیشانی رکھو ۔ خاک پر سجدہ کرنے کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان نہایت فروتنی و خضوع کے ساتھ درگاہ خدا میں اپنے سر کو سجدہ میں رکھ دے یہ روش انسان کو تکبر و غر ور اور خودپسندی و سرکشی سے نجات دلاتی ہے ۔
حضور سرورکائنات (ص) نے ارشاد فرمایا :جب بھی تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے ،اپنی پیشانی اور ناک کو زمین پر رکھے تاکہ خدا کے سامنے انسان کی ناتوانی اور ذلت و کمزوری ظاہر ہوسکے ۔
سجدے کی حالت میں عمامہ ہٹانے کا حکم
زمین پر سجدہ کرنے کے دلائل میں سے حضور ختمی مرتبت (ص) کا وہ حکم بھی ہے جو آپ نے سجدہ کی حالت میں پیشانی سے دستار ہٹانے کے بارے میں دیا تھا، محدثین نے کثرت سے ایسی حدیثوں کو ذکر کیا ہے جو یہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت (ص) نے ان لوگوں کو جو حالت سجدہ میں (عمامہ ) پگڑی کے کناروں کا سہارا لیا کرتے تھے ، ان کو سختی سے منع فرمایا ،لہٰذا قارئین محترم کی سہو لت کے لئے چند روایتوں کو بطور تبرک پیش کرتے ہیں ۔
۱ ۔ صالح سبائی کہتے ہیں: کہ رسول خدا (ص) نے اپنے پہلو میں ایک شخص کو سجدے کی حالت میں پیشانی پر عمامہ باندھے ہوئے دیکھا تو اس کی پیشانی سے عمامہ ہٹا دیا ۔
۲ ۔ عیاذ بن عبد اللہ قرشی کہتے ہیں : حضرت (ص) نے ایک شخص کو عمامے کے کناروں پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اپنے عمامے کو اتار دے اور پھر پیشانی کی طرف اشارہ فرمایا ۔
۳ ۔ کنز العمال اور سنن بیہقی میں امیر المومنین علی (ع) سے منقول ہے کہ جب بھی تم میں کوئی نماز پڑھنا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ سجدہ میں پیشانی سے عمامہ کو ہٹالے ۔
۴ ۔ بحار الانوار میں دعائم الاسلام سے یہ نقل ہے کہ روایات میں ذکر ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے نماز پڑھنے والوں کو کپڑے اور عمامہ کے کناروں پر سجدہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
ان تمام روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت (ص) کے زمانہ میں بھی کپڑوں پر سجدہ کرنا ممنوع اور زمین پر سجدہ کرنا واجب تھا ۔ اس لئے اگر کوئی شخص پگڑی یا دامن کے کناروں پر سجدہ کر تا تھا تو اسکو آنحضرت (ص) اس کام سے منع فرماتے تھے ورنہ اگر سجدہ تمام چیزوں پر صحیح ہوتا تو آنحضرت (ص) کی طرف سے ایسی نہیں اور ممانعت نہ ہوئی ہوتی۔
سجدہ حضور (ص) کی نگاہ میں
تمام مسلمانوں کو یقین ہے کہ نبی کریم (ص) تمام لوگوں سے افضل و برتر ہیں اور آپ (ص) کا طور طریقہ ، رفتارگفتار و اخلاق بھی دنیا کے تمام لوگوں سے اچھا اور پسندیدہ ہونا چاہئے تاکہ ہر کلمہ گو کے لئے ان کی سیرت صاف و شفاف پانی کی طرح صاف اور روز کی طرح روشن اور اندھیری رات میں روشن چراغ کے مانند فروزاں رہے اور ہر انسان اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں اس پاک و پاکیزہ سیرت سے درس حاصل کرسکے جیساکہ قرآن مجید آنحضرت (ص) کے اخلاق حسنہ کی توصیف اسطرح کر رہا ہے ۔
(
لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰهِ اُسوَة حَسَنَة لِمَن کَانَ یَرجُوا اللّٰه والیَومَ الآخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰه کَثِیراً
)
۔
”مسلمانوں تمہارے واسطے تو خود رسول ایک اچھا نمونہ تھے ( مگر ہاں ) یہ اس شخص کے واسطے ہے جو خدا اور روز آخرت کی امید رکھتا اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہو “
لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہر چیز کی طرح زمین پر سجدہ کے مسئلہ میں بھی آنحضرت (ص) کی سیرت اور آپکی روش کی پیروی کریں اور انکے طریقہ کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں ۔ لہٰذا اب احادیث کی روشنی میں اہل سنت کی کتابوں سے ہم حضرت (ص) کی عملی سیرت بیان کر رہے ہیں ۔
جو روایات اس بارے میں موجود ہیں ان سے استفادہ ہوتا ہے کہ آنحضرت (ص) زمین اور اس سے اگنے والی چیزیں جیسے گھانس یا چٹائی وغیرہ پر سجدہ کیا کرتے تھے ۔ شیعہ حضرات نے جو راہ اختیار کی ہے ، یہ وہی راستہ جو نبی کریم (ص) اور آپ کے اہل بیت (ع) کی پیروی سے حاصل ہوا ہے اس بنا پر ہم متعلقہ روایتوں کو دو حصوں میں بیان کریں گے۔
پہلا حصہ : وہ حدیثیں جنمیں یہ ذکر ہوا ہے کہ آنحضرت (ص) زمین اور خاک وغیرہ پر سجدہ کرتے تھے ۔
دوسرا حصہ : وہ حدیثیں جنمیں یہ ذکر ہے کہ آنحضرت (ص) گھانس اور اس سے بنی ہوئی چیزیں جیسے چٹائی وغیرہ پر سجدہ کرتے تھے ۔
پہلی قسم کی روایتیں : اس قسم کی چند روایتوں کو آپکی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے ۔
۱ ۔ وائل بن حجر کہتے ہیں : کہ حضرت (ص) جس وقت سجدہ کرتے تھے تو اپنی پیشانی اور ناک کو زمین پر رکھا کرتے تھے ۔
۲ ۔ ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر (ص) نے پتھر پر سجدہ کیا ہے ۔
۳ ۔ ام المومنین عائشہ سے منقول ہے کہ میں نے کبھی بھی حضرت (ص) کو (سجدہ کی حالت میں) پیشانی پر کوئی چیز رکھتے نہیں دیکھا ۔
حضرت عائشہ کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت (ص) نے ہمیشہ زمین پر سجدہ کیا اور جو بھی چیز زمین اور پیشانی کے درمیان فاصلہ ہو ئی اس سے اجتناب فرمایا ہے۔
۴ ۔ احمد بن شعیب نسائی اپنی سنن میں ابو سعید خدری ( نبی (ص) کے صحابی ) سے نقل کرتے ہیں : کہ میں نے اپنی ان دونوں آنکھوں سے آنحضرت (ص) کی پیشانی اور ناک پر پانی اور مٹی کے اثرات دیکھے ہیں ۔
اس مضمون سے ملتی جلتی متعدد حدیثیں صحیح بخاری ،سنن بیہقی ، سنن ابی داود وغیرہ میں بھی وارد ہوئی ہیں ۔
ان جیسی دیگر حدیثوں سے بخوبی روشن ہوتا ہے کہ آنحضرت (ص) بارش کے موسم میں بھی ( دیگر تمام چیزوں پرسجدہ کرنے بجائے ) زمین پر سجدہ کرنے کو ترجیح دیتے تھے ۔ جیسا کہ بیان ہوا پانی اور مٹی کے اثرات آپکی پیشانی مقدس پر نقش ہو جاتے تھے ۔
۵ ۔ صاحب مجمع الزوائد ،ابن زہرہ سے نقل کرتے ہیں :کہ ایک دن بارش کے موسم میں آنحضرت (ص) نے ایسا سجدہ کیا کہ پانی اور مٹی کے اثرات کو میں نے ان کی پیشانی پر مشاہدہ کیا ۔
اور دوسری روایتیں ایسی بھی وارد ہوئی ہیں :کہ آنحضرت (ص) شدید جاڑے یا بارش کے موسم میں اپنی عبا یا لباس کوفقط اپنے ہاتھوں یا پیروں کی جگہ رکھتے تھے۔ ان احادیث سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ آپ (ص) حالت اضطرار ( جیسے شدید جاڑے اور برسات کے موسم ) میں بھی اپنی پیشانی اور زمین کے درمیان کسی کپڑے وغیرہ سے فاصلہ نہیں قرار دیتے تھے ۔ کیونکہ ہمیں ایسی کوئی حدیث دیکھنے کو نہیں ملی جس میں یہ ذکر ہو کہ حضرت (ص) نے جاڑے اور بارش کی وجہ سے پیشانی پر عمامہ باندھ کر نماز پڑ ھی ہے۔
۶ ۔ابن عباس کہتے ہیں : میں نے دیکھا کہ رسولخدا (ص) صبح کی ٹھنڈک ، سفید چادر میں ( لپٹے ہوئے ) نماز پڑھ رہے تھے ، اور اسی عبا کے ذریعہ اپنے ہاتھو ں اورپیروں کو اس شدید سردی اور زمین کی ٹھنڈک سے بچاتے تھے ۔
۷ ۔دوسرے مقام پر کہتے ہیں : میں نے آنحضرت (ص) کو بارش کے موسم میں( نماز کی حالت میں) دیکھا کہ آپ سجدہ کرتے وقت گیلی مٹی سے بچنے کیلئے اپنے دونوں ہاتھوں کو عبا پر رکھ لیا کرتے تھے۔
۸ ۔ابن ماجہ اپنی سنن میں عبداللہ بن عبد الرحمن سے نقل کرتے ہیں:کہ رسول خدا (ص) ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمارے ساتھ مسجد بنی عبد الاشہل میں نماز پڑھی سجدہ کی حالت میں دونوں ہاتھوں کو چادر پر رکھ لیا کرتے تھے ۔
۹ ۔اسی طرح چند واسطوں کے ذریعہ ثابت بن صامت سے یہ نقل کرتے ہیں کہ پیامبر گرامی (ص) مسجد بنی عبد الاشہل میں عبا اوڑھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے سجدہ کی حالت میں ٹھنڈے پتھروں سے اپنے ہاتھوں کو محفوظ رکھنے کے لئے انھیںچادر پر رکھ لیا کرتے تھے۔
دوسری قسم کی روایتیں : یہ وہ روایتیں ہیں جو یہ بیان کرتی ہیں کہ” حضرت گھانس یا اس سے بنی ہوئی چیزیں جیسے چٹائی وغیرہ پر سجدہ ادا کرتے تھے“ اس طرح کی روایتوں کو سنی اور شیعہ دونوں علمائوں نے اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ۔ یہاں ۱ پر ہم اہلسنت کی معتبر کتابوں سے کچھ حدیثوں کو پیش کررہے ہیں۔
۱ ۔ ابو سعید کہتے ہیں :میں حضور کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ چٹائی پر نمازپڑھ رہے تھے ۔
۲ ۔ انس بن مالک و ابن عباس اور آنحضرت (ص) کی بعض بیبیاں جیسے ام المومنین عائشہ جناب و ام سلمہ و حضرت میمونہ نے روایت کی ہے کہ پیغمبر (ص) خمرہ (ایک قسم کی چٹائی ہے جو کھجور کے پتوں سے بنائی جاتی ہے ) پر سجدہ کرتے تھے۔
۳ ۔ ابو سعید خدری سے یہ بھی نقل ہے کہ :میں نے آنحضرت (ص) کو چٹائی پرنماز پڑہتے ہوئے اور اسی پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
۴ ۔ فتح الباری میں زوجہ رسول عائشہ سے مروی ہے کہ آنحضرت (ص) کے پاس ایک چٹائی تھی جسے بچھا کر آپ اسکے او پر نماز پڑھا کرتے تھے ۔
۵ ۔ بحار الانوار میں حضرت علی بن ابی طالب (ع) سے منقول ہے : کہ آنحضرت (ص) نے چٹائی پر نماز پڑھی ۔
۶ ۔ انس کہتے ہیں حضور اکرم (ص) خمرہ ( چٹائی) پر نماز پڑھتے اور اسی پر سجدہ کیاکرتے تھے ۔
۷ ۔ صحیح مسلم اور دوسری کتابوں میں انس سے منقول ہے کہ آنحضرت (ص) سب سے زیادہ خوش اخلاق تھے ،اگرکبھی نماز کا وقت ہوتا اور آپ ہمارے گھرمیں ہوتے تو حکم کرتے کہ زمین پر بچھی چٹائی کو صاف کریں اور پانی چھڑکیں پھر آپ نماز پڑھاتے تھے اور ہم آپکی امامت میں نماز پڑھتے تھے وہ چٹائی کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی تھی ۔
۸ ۔ مسلم بن حجاج و احمد بن حنبل و ابو عبد اللہ بخاری اور دوسرے علماء نے نقل کیا ہے کہ انس بن مالک کہتے ہیں: ” وہ چٹائی جو پرانی ہونے کی وجہ سے کالی ہو گئی تھی میں نے اسے پانی سے صاف کیا اور اس وقت حضرت (ص) نے اس پر کھڑے ہو کر نماز پڑھی“ ۔
۹ ۔مسلم بن حجاج اپنی صحیح میں نقل کرتے ہیں : کہ ابو سعید خدری کہتے ہیں :میں آنحضرت (ص) کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ آپ نماز میں مشغول ہیں اورجس چٹائی پر نماز پڑھ رہے ہیں اسی پر سجدہ (بھی) کر رہے ہیں ۔
۱۰ ۔ انس بن مالک سے روایت ہے ، پیغمبر (ص) جب کبھی ام سلیم کی ملاقات کے لئے تشریف لاتے اور نماز کا وقت ہو جاتا تو ہمارے فرش پرکہ جو چٹائی کا تھا پانی چھڑک کر نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے ۔
مندرجہ ذیل روایات کی روشنی میں حضرت رسو ل خدا (ص) کی سیرت اور آپ کا وطیرہ کھل کر سامنے آجاتا ہے ، کہ آپ ہمیشہ زمین( مٹی) اور گھانس یا جو چیزیں اس سے بنائی جاتی ہے جیسے چٹائی وغیرہ پر سجدہ کیا کرتے تھے ، اوردوسرے یہ کہ ان روایات میں کہیں بھی نہیں ملتا کہ آنحضرت (ص) نے کسی کھائی اور پہنے جانے والی چیزوں پر سجدہ کیا ہو ۔
یہ وہی طریقہ ہے جس کو شیعہ حضرات نے اختیار کیا ہے ، اور وہ اسی کے اوپر گامزن ہیں اس لئے کہ شیعہ حضرات وحی الٰہی اور قرآن مجیدکے بعد سرورکائنات اور ائمہ اطہار (ع) کی سنت و سیرت کے پابند ہیں اور تمام مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی پیروی کریں اور ان کے حدود سے خارج نہ ہوں ۔
____________________