۶ ۔ سجدہ اہل بیت علیہم السلام کی نظر میں
شیعوں کے ائمہ معصومین علیہم السلام ایک طرف تو”حدیث ثقلین“ کے مطابق قرین قرآن ہیں کہ جنکی جدائی نا ممکن ہے اور دوسری طرف وہ سنت آنحضرت (ص) اور آپ کی سیرت کو تمام لوگوں سے زیادہ اور بہترطریقہ سے جاننے والے ہیں انھوں نے اپنے اقوال میں اس بات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ، کہ سجدہ فقط زمین اور اس سے اُگنے والی چیزوں پر کرنا جائز ہے ( اور صرف کھانے، پہننے والی چیزوں پر سجدہ صحیح نہیں ہے ) ائمہ اطہار (ع) کی روایات ذکر کرنے سے پہلے بہتر یہ ہے کہ ان دلیلوں کو بیان کر دیا جائے۔ جو عترت رسول کی اتّباع اور ان کی پیروی لاز م ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔
کلام اہل بیت (ع) کی حجت اور انکی اتباع کے واجب ہونے کے دلائل
سنی و شیعہ محدثین کا اتفاق ہے” کہ رسول اکرم (ص) نے اپنے بعد دو عظیم گرانبہا میراث ہمارے درمیان میں چھوڑی ہیں “ اور تمام مسلمانوں کو انکی پیروی کا حکم دیا ہے اور لوگوں کی فلاح اور ہدایت کو انھیں کے ساتھ تمسک ( وابستگی ) میں قرار دی ہے ۱ ۔ اللہ کی کتاب قرآن مجید ۔ ۲ ۔ آپ کے اہل بیت و عترت پاک علیہم السلام اس سلسلہ کی چند حدیثوں کو آپ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے ۔
۱ ۔ ترمذی نے اپنی صحیح میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے اور انھوں نے رسول اکرم (ص) سے روایت نقل کی ہے: میں تمھارے درمیان دو سنگین چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم نے مضبوطی سے انھیں پکڑ ے رکھا تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے۔ ایک کتاب خدا اور دوسرے میری عترت۔
۲ ۔ ترمذی اپنی صحیح میں اس حدیث کو بھی نقل کرتے ہیں : میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا رہوں ، اگر ان کو پکڑے رکھا تو ہر گز میرے بعد گمراہ نہ ہوگے اور ا ن میں سے ہر ایک دوسرے پر برتری رکھتی ہے ، کتاب خدا زمین سے آسمان تک متصل ہے ، اور میری عترت و اہل بیت یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوںگے یہاں تک کہ حوض کوثرپر میرے پاس آپہونچیں ، اس میں غوروفکر کرو میرے بعد انکے ساتھ کیا سلوک و برتاو کروگے ۔
۳ ۔مسلم بن حجاج اپنی صحیح میں رسول اسلام (ص) سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں : اے لوگو! میں انسان ہوں قریب ہے خدا کا بھیجا ہوا فرشتہ( ملک الموت ) میرے پاس آئے اور میں اس کے جواب میں لبیک کہدوں میں تمھارے درمیان دو گراں بہا چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب جس میں نور ہدایت ہے پس اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑلو اور اس سے وابستہ رہنا حضرت (ص) نے یہ فرما کر قرآن سے تمسک کی ترغیب دی پھر فرمایا:اور میرے اہل بیت (ع) ، میں تمہیں اپنے اہل بیت (ع) کے لئے تاکید کرتا ہوں ، میں تمہیں اہل بیت (ع) کے لئے تاکیدکرتا ہوں ،میں تمہیں اپنے اہل بیت (ع) کے لئے تاکید کرتا ہوں ۔
۴ ۔ متعدد محدثین نے آنحضرت (ص) سے نقل فرمایاہے: حضرت (ص) نے ارشاد فرمایا : ” میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ ایک کتاب خدا دوسرے میری عترت ۔ یہ ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے ، یہاں تک کہ ( قیامت میں ) میرے پاس حوض کوثر پر آپہونچیں ۔
مذکورہ روایات کے مضمون پر مشتمل اسقدر زیادہ حدیثیں ہیں جو اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہیں محقق التحر یر سید میر حامد حسین ( ہندی ) رحمۃ اللہ علیہ نے ان روایات بیشتراسنادکو اپنی کتاب عبقات الانوار میں جمع کیا ہے ۔
ان روایات کی روشنی میں یہ صاف ظاہر ہے۔ کہ اہل بیت (ع) کے دامن سے تمسک،اور ان کی اتباع ،قرآن مجید اور سنت پیغمبر (ص) کی پیروی کے مترادف ہے۔ اور ضروریات دین اسلام ہے ۔ لہٰذا ان کے دامن کو چھوڑ دینا ضلالت وگمراہی کا باعث ہے ۔
رسول اسلام (ص) کے فرمان کے مطابق اہل بیت طاہرین (ع) کی اتباع اور انکی پیروی واجب و ضروری ہے ۔
یہیں سے ایک سوال وجود میں آتا ہے۔ کہ پھر وہ اہل بیت پیغمبر (ص) کون لوگ ہیں ؟ کہ جن کی اطاعت حکم رسول کے مطابق ہم واجب ہے۔
لہٰذا اس مسئلہ کی مزیدوضاحت کے لئے روایات کی روشنی میں عترت پیغمبر (ص) کے معنی جستجو کریں گے۔
آنحضرت (ص) کے اہل بیت (ع) کون ہیں ؟
مذکورہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضور سرورکائنات (ص) نے تمام مسلمانوں کو اپنی عترت کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اور ان کو قرآن کریم کے مساوی اور برابر قرار دیا ہے ۔ نیز انہیں اپنے بعد امت کا رہبر قرار دیتے ہوئے واضح طور پر فرمایا: یہ دونوں قرآن و عترت ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے، لہٰذا اہلبیت (ع) وہی حضرات ہو سکتے ہیں جو قول رسول کے مطابق قران کے برابر ہوں اور عصمت کے درجہ پر فائز ہوں ۔چنانچہ ان حضرات کی اچھی طرح معرفت کے لئے ہم کچھ روایتوں کو قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
۱ ۔ مسلم بن حجاج اپنی صحیح میں حدیث ثقلین کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں یزید بن حیان نے زید بن ارقم ( حضرت (ص) کے خاص صحابی ) سے دریافت کیا ہیں: کہ آنحضرت (ص) کے اہل بیت (ع) کون لوگ ہیں ؟ کیا اہل بیت (ع) سے مراد آنحضرت (ص) کی بیویاں ہیں ؟
زید بن ارقم جواب میں فرماتے ہیں :”لا واٴیم اللّه ان المراٴة تکون مع الرجل العصر من الدهر ثم یطلقها فترجع الیٰ اٴبیها وقومهااٴهل بیته اٴصله وعصبته الذین حرموا الصدقة بعده“
۔
نہیں ہر گز ایسا نہیں ہے ۔ خدا کی قسم عورت مرد کے ساتھ کچھ مدت کے لئے رہتی ہے۔ اور اگر مرد اسے طلاق دیدے تو وہ اپنے باپ اور رشتہ داروں کے یہاں واپس چلی جاتی ہے ( لہٰذا اس سے بیوی مراد نہیں ہو سکتی ) بلکہ اہل بیت (ع) سے مراد وہ لوگ ہیں جو حضرت (ص) کے اصل قرابتدارا ور رشتہ دار ہوں ( کہ جدا کرنے سے جدا نہ ہو سکیں ) اور آپ کے بعد ان پر صدقہ حرام ہے ۔
اس روایت سے صاف ظاہرہے کہ عترت ( کہ جن کی پیروی کرنا قران کی پیروی کی طرح واجب ہے ) سے مراد آنحضرت (ص) کی بیویاں نہیں ہیں ۔
بلکہ اس سے مراد وہ حضرات ہیں جو آپ سے جسمانی رشتے اور نسبت کے علاوہ ہے بھر پور معنوی رابطہ بھی رکھتے ہوں ۔ تاکہ قرآن کے برابر ہو کر قرآن کی طرح مرجع خلائق قرار پائیں۔
۲ ۔ پیغمبر اسلام (ص) نے فقط ان کے اوصاف و خصوصیات کو بیان کرنے پراکتفا نہیں کیا ہے بلکہ ان کی تعداد ( کہ بارہ ہونگے ) بھی ذکر فرمائی ہے ۔
مسلم اپنی صحیح میں جابر بن سمرہ سے بیان کرتے ہیں : میں نے آنحضرت (ص) کو فرماتے ہوئے سنا ” کہ اسلام بارہ خلفاء سے مزین ہوگا “ پھر آپنے کچھ کہا جو میری سمجھ میں نہ آسکا۔ تو میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ حضرت (ص) نے اس کے بعد کیا فرمایا ہے ؟ تو انھوں نے جواب میں کہا کہ وہ سب کے سب قریش سے ہوںگے ۔
ایسے ہی مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح میں دوسرے مقام پر رسولخدا (ص) کی یہ حدیث تحریر فرماتے ہیں :”قال رسول اللّٰه (ص)لا یزال امر الناس ما ضیاً ما ولیٰهم اثنا عشر رجلاً
۔
اس وقت تک لوگوں کے تمام کام صحیح طریقہ سے انجام پائیں گے جب تک انہیں بارہ افراد کی ولایت و سرپرستی حاصل رہے ۔
یہ دونوں روایتیں شیعوں کے اس عقیدہ پر دلیل ہیں کہ رسول (ص) کے بعد بارہ امام ہونگے، کیونکہ یہی بارہ امام ہیں جو تمام خلائق کے مرجع اور اسلام کی عزت و شوکت و سربلندی کا سبب ہیں۔ ان کے علاوہ عالم اسلام میں کوئی بھی اس حدیث کا مصداق نظر نہیں آتا ۔
قطع نظر ان ابتدائی تین خلفاء کے کہ جو مسلمانوں کی اصطلاح میں خلفاء راشدین کے نام سے مشہور ہیں ۔ بنی امیہ اور بنی عباس کے یا دوسرے حکمرانوں کی بداعمالیاں جو تاریخ کے دامن میں بد نما داغ کی طرح ثبت ہیںجو اسلام اور اہل اسلام کے لئے باعث ننگ و عار ہیں جنہیں کسی بھی طرح حضور کا خلیفہ قرار نہیں دیا جا سکتا لہٰذا حضور ختمی مرتبت (ص) کے اہل بیت (ع) سے مراد صرف وہی بارہ امام ہیں کہ جن کی شناخت آنحضرت (ص) نے کرا ئی تھی کہ یہ تمام مسلمانوں کی پنا گاہ اور انکا مر کز و مرجع ہیں، سنت رسول (ص) کے محافظ اور آپ کے علوم کے خزانہ دار ہیں ۔ ۳ ۔ حضرت امیر المومنین علی ابن ابیطالب (ع) بھی مسلمانوں کے رہنمااور ہادی کو بنی ہاشم سے ہی جانتے ہیں جو شیعوں کے بار ہ اماموں (ع) کے اوپر محکم دلیل ہے جیسا کہ فرماتے ہیں: ”ان الائمة من قریش فی هذا البطن من بنی هاشم لا تصلح علیٰ من سواهم ولا تصلح الولة من غیرهم
۔“
ائمہ علیہم السلام کو خدا نے قریش اور بنی ہاشم سے قرار دیا ہے ،اور دوسرے حضرات کہ لوگوں پر حکمرانی کا حق نہیں ہے لہذا ان کے علاوہ اور ہر ایک کی حاکمیت بے بنیاد ہے ۔
نتیجہ
ان روایات سے دو چیزوں کی حقیقت روشن ہو تی ہے ۔
۱ ۔ قران کی اطاعت کے ساتھ اہل بیت (ع) (عترت) سے تمسک اور وابستگی اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری بھی واجب ہے ۔
۲ ۔ اہل بیت (ع) جو قرین قرآن اور لوگوں کا مرجع قرار دئے گئے ان کی صفات مندرجہ ذیل ہیں ۔
الف ۔ تمام کے تمام قریش اور بنی ہاشم سے ہیں ۔
ب۔ رسول خدا (ص) سے ان کی ایسی قرابتداری ہے کہ رسول (ص) کی طرح ان پر بھی صدقہ حرام ہے ۔
ج۔ یہ مقام عصمت پر فائز ہیں۔( ورنہ اپنے عمل کی وجہ سے قرآن سے جدا ہو جاتے) اسی لئے رسول اسلام (ص) نے فرمایا: قرآن و عترت ایک دوسرے سے ہر گز جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ ( قیامت میں ) حوض کوثر پر میرے پاس پہونچ جائیں ۔
د۔ یہ تعداد میں بارہ ہیں تاکہ رسول خدا (ص) کے بعد یکے بعد دیگرے مسلمانوں کی ولایت و سرپرستی سنبھالیں ۔
ھ۔ یہ بارہ خلفائے الٰہی ،اسلام کے لئے باعث عزت و سر بلندی و قطب زمین ہیں ۔ان صفات کو مد نظر رکھتے ہوئے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے ۔کہ آنحضرت (ص) کے اہل بیت (ع) اور آپ کی عترت جس کی اتباع و پیروی کا حکم دیا گیا ہے وہ بارہ امام وہی ہیں کہ شیعہ ان کی پیروی و تمسک کر کے فخر کرتے ہیں ۔اور وہ بارہ خلفائے الٰہی یہ ہیں ۔
۱ ۔ حضرت علی بن ابی طالب (ع) (المرتضی)
۲ ۔ حضرت حسن بن علی (ع) (مجتبیٰ )
۳ ۔حضرت حسین بن علی (ع) ( شہید کربلا )
۴ ۔حضرت علی ابن الحسین (ع) (زین العابدین )
۵ ۔حضرت محمد بن علی (ع) (باقر )
۶ ۔حضرت جعفر بن محمد (ع) ( صادق )
۷ ۔ حضرت موسیٰ بن جعفر (ع) (کاظم )
۸ ۔حضرت علی بن موسیٰ (ع) (رضا)
۹ ۔ حضرت محمد بن علی (ع) ( تقی )
۱۰ ۔ حضرت علی بن محمد (ع) ( نقی )
۱۱ ۔حضرت حسن بن علی (ع) ( عسکری)
۱۲ ۔ حضرت امام مہدی (ع) ( قائم )
اسلامی محدثین نے تواتر سے نقل کیا ہے :کہ آنحضرت (ص)نے آپ کو مہدی موعود کے نام سے یاد فرمایا ہے :” صلوٰات اللّٰہ علیھم اجمعین ۔“
۷ ۔ سجدہ ائمہ طاہرین (ع) کی نظر میں
جب اہل بیت (ع) کی حقانیت و وثاقت ہر اعتبار سے ثابت ہو گئی تو ہم اپنے قارئین کی خدمت میں بطور تبرک ان حضرات کی چند احادیث نقل کرنے کا شرف حاصل کر رہے ہیں ۔
۱ ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : زمین اور اس سے اگنے والی چیزوں پر سجدہ جائز ہے ۔ اور کھانے او رپہننے والی اشیاء پر سجدہ صحیح نہیں ہے ۔
۲ ۔ دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : زمین پر سجدہ اللہ کا حکم اور واجب ہے ۔ اور چٹائی پر سجدہ کرنا آنحضرت (ص) کی سنت ہے۔
۳ ۔ امام صادق علیہ السلام اس ضمن میں مزید ارشاد فرماتے ہیں : کہ دوسری کسی چیز پر سجدہ صحیح نہیں سوائے زمین اور اس سے اگنے والی چیزوں کے مگر یہ کہ وہ کھائی جاتی ہو یا وہ روئی وغیرہ ہو (کہ اس پر سجدہ صحیح نہیں ہے )۔
۴ ۔ کتاب وسائل الشیعہ میں ہماری نگاہ اس مقام پر ٹھہرتی ہے کہ اسحاق بن فضیل نے امام جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام سے چٹائی اور بوریا پر سجدہ کرنے کے متعلق دریافت کیا؟ تو امام (ع) نے جواب میں فرمایا: صحیح ہے ،لیکن خود زمین پر سجدہ کرنا مجھے پسندہے ، کیونکہ حضرت رسولخدا (ص) ایسا ہی کرتے اور سجدہ کی حالت میں پیشانی زمین پر رکھتے تھے ، لہٰذا میں وہی پسند کرتا ہوں جو حضرت (ص) پسند فرماتے تھے ۔
۵ ۔ ایک شخص نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا ۔ کیا چٹائی وبوریا اور گھانس پر سجدہ کرنا درست ہے ؟ امام (ع) نے فرمایا: ہاں صحیح ہے ۔
۶ ۔حلبی کہتے ہیں میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے کپڑے، چادر وغیرہ (جو بالوںسے بنی ہو )پر سجدہ کرنے کے متعلق دریافت کیا تو حضرت (ع)
نے فرمایا اس پر سجدہ نہ کرو ۔مگر ہاں اس پر کھڑے رہو اور زمین پر سجدہ کرو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے ، یا پھر اس پر چٹائی پھیلا کر چٹائی پر سجدہ کرو ۔
مذکورہ روایات سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بیت اطہار (ع) کی نظر میں فقط زمین یا جو اس سے اُگے اسی پر سجدہ کرنا صحیح ہے اور کھانے پینے کی چیزوں پر سجدہ کرنا صحیح نہیں ہے۔ جیسا کہ آنحضرت (ص) کی احادیث سے اور آپ کی سیرت اور اصحاب و تابعین کے طور طریقہ سے ہمیں معلوم ہو تا ہے ۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ائمہ اطہار (ع) جو بھی شرعی احکام بیان کرتے ہیں وہی ہے جو رسول خدا (ص) سے حاصل کئے ہیں کیونکہ شیعوں کی نگاہ میں شریعت اور قانون سازی کا حق فقط خداوند متعال کو حاصل ہے، اور پیغمبر (ص) کا کام اس مقدس قانون اور دینی احکام کو لوگوں تک پہنچانا ہے ۔ جیسا کہ واضح ہے کہ رسول خدا (ص) (اور دیگر انبیاء (ع))اللہ اور بندوں کے درمیان وحی اور تشریع (احکام الٰہی)کو پہنچانے کے لئے ایک رابطہ ہیں ۔لہٰذا یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اگر شیعہ اہل بیت (ع) کی احادیث و اقوال کو اپنی فقہ (احکام شرعی)کا منبع و مدرک قرار دیتے ہیں تو یہ فقط اس لئے ہے کہ ان کے اقوال در حقیقت آنحضرت (ص) کی احادیث کی عکاسی کرتے ہیں ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : میرا حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور ان کی حدیث میرے دادا علی بن الحسین (ع) کی حدیث ہے اور ان کی حدیث حسین ابن علی (ع) کی حدیث ہے اور حسین ابن علی (ع) کی حدیث حسن ابن علی (ع) کی حدیث ہے اور حسن ابن علی (ع) کی حدیث امام علی علیہ السلام کی حدیث ہے اور حضرت علی (ع) کی حدیث،کلام رسول خدا (ص) ہے اوررسول خدا (ص) کا کلام ، کلام الٰہی ہے۔
ایک مقام پر کسی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہی سوال کیا تو آپ نے اس کے جواب میں یہ ارشاد فرمایا :”مَهما اٴجبتک فِیهِ بِشَیءٍ فَهُوَ عَن رَسُول اَللّٰه (ص) لسنا نَقُولُ بِرَاٴیناَ مِن شَیءٍ
۔“
”جو میں نے تمھیں جواب دیا ہے وہی رسولخدا (ص)کا جواب ہے ہم اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے ہیں “اس روایت کی روشنی میں دو نکتے بدیہی طور پر واضح ہوتے ہیں :
الف : اہل بیت (ع) کی نظر میں زمین اور جو چیز اس سے اگتی ہے اس پر سجدہ کرنا صحیح ہے (بس شرط یہ ہے کہ وہ کھانے یا پہننے کی نہ ہو) لیکن خاک و مٹی جو زمین ہی کا
ایک حصہ ہے اس پر سجدہ کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے ۔کیونکہ سجدہ کی مصلحت یہ ہے۔ کہ انسان بارگاہ بے نیاز میں سراپا خضوع و تذلل و بردباری کے ساتھ سر بسجود ہوجائے ۔
ب : احادیث و اقوال اہل بیت (ع) ۔ متواتر روایات کے مطابق حجت و معتبر ہیں۔ اور ا ن سے سرپیچی احکام رسول خدا (ص) کی مخالفت ہے ۔ اس لئے کہ رسول خدا (ص) نے حدیث ثقلین اپنی عترت اور اہل بیت (ع) کے کلام و فرمان کی ضمانت خود اپنے اوپر لی ہے ۔ لہٰذا ان کی عترت کے کلما ت، رسول خدا (ص) کے کلام کے سوا کچھ نہیں ہیں ۔
ان تمام بحثوں اور استدلالوںسے چودہویں رات کے چاند کی طرح یہ روشن ہوجاتاہے کہ شیعوں کا زمین یا خاک پر سجدہ کرنا بجا ہے ۔
____________________