ہمارے عقیدے

ہمارے عقیدے0%

ہمارے عقیدے مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

ہمارے عقیدے

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 14898
ڈاؤنلوڈ: 4056

تبصرے:

ہمارے عقیدے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 14898 / ڈاؤنلوڈ: 4056
سائز سائز سائز
ہمارے عقیدے

ہمارے عقیدے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب کا نام : ہمارے عقیدے

تالیف : آیت اللہ مکارم شیرازی

اس کتاب کی تالیف کا مقصد

۔ عصر حاضرمیں ہم ایک عظیم تبدیلی کے گواہ ہیں، ایسی تبدیلی جو دنیا کے سب سے بڑے آسمانی دین ،اسلام کے سبب سے وجود میں آئی ہے۔

عضر حاضر میں اسلام نے اک نیاجنم لیا ہے، دنیا کے مسلمان، خواب غفلت سے بیدارہوئے ہیں اور اپنی اصل کی طرف لوٹ رہے ہیں، اوراپنی مشکلات کے حل ،جوانھیں کہیںاور نظر نہیں آئی، اسلامی تعلیمات اور اس کے اصول وفروع میں تلاش کررہے ہیں۔

اس وقت یہ جاننا اہم ہے کہ اس عظیم تبدیلی کی وجہ کیاہے؟ یہ ایک مستقل اور جدا موضوع ہے۔ اس وقت اس کے مہم آثار تمام اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں آشکار ہوچکے ہیں، یہی سبب ہے کہ دنیا کے لوگ اسلام کے بارے میں جاننا چاہتے ہیںکہ آخر تعلیمات اسلامی ہیںکیا؟ اور اسلام کے پیغام میں کیا تازگی ہے؟

عصر حاضر کے ایسے حساس ماحول میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اسلام حقیقی کو بغیر کسی بیچیدگی کے واضح اور آسان پیرایہ میں لوگوں کے سامنے پیش کریں اور اسلام اورمذاہب اسلامی کے سلسلے میں جو ان کی تشنگی ہے اسے دور کریں ،اس لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم خاموش رہیں اور دوسرے ہماری طرف سے باتیں اور فیصلہ کریں۔

۲ ۔ اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اسلام میں بھی دوسرے ادیان کی طرح بہت سے مختلف مذاہب پائے جاتے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک کے اپنے عقیدتی اور عملی خصوصیات ہیں ۔ البتہ یہ اختلافات ہرگزاس حد تک نہیں ہیں کہ ایک دوسرے کی راہ میں مانع ہوسکیں۔ بلکہ وہ سب مل کر اتحاد و ہمدلی کے ساتھ دنیا کے طوفانوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور اپنے مشترک دشمنوں کی سازشوں کو عملی ہونے سے روک سکتے ہیں۔

یقینا اس اتحاد ، اتفاق ، ہم فکری اورہم دلی کو مضبوط کرنے کے لیے ہمیں اصول و ضوابط کی رعایت کی ضرورت ہوگی، جس میں سب سے اہم یہ ہے کہ اسلامی فرقے ایک دوسرے کی معرفت حاصل کریں، ان کی خصوصیات اور امتیازات کو پہچانیں، اس لئے کہ صرف اس پہچان کے ذریعے ہی وہ ایک دوسرے کے سوء ظن سے محفوظ رہ سکتے ہیں ،اورایک دوسرے کی طرف دوستی بڑھاسکتے ہیں ،ایک دوسرے کو پہچاننے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ ان کے عقائد،اصول و فروع ،ان کے معروف و مشہور علماء سے حاصل کریں ۔اسلئے کہ اگر ماہرین سے یہ چیزیں حاصل نہیں کی گئیں یا ایک فرقے کے عقاید کو ان کے دشمنوں سے سن کر حاصل کریں تو یقینا کبھی بھی مقصد تک رسائی حاصل نہیں کر سکیں گے اور حسن ظن ،سوء ظن میں تبدیل ہوجائے گا۔

۳ ۔ مندرجہ بالا دو نکتوں کے پیش نظر ہم نے ارادہ کیاہے کہ اسلامی عقاید اور اس کے اصول و فروع کو شیعہ مذہب کے امتیازات کے ساتھ، اس مختصر سی کتاب میں بیان کریں اور ایسی کتاب تالیف ہو جس میں درج ذیل خصوصیات پائی جاتی ہوں:

۱ ۔ مختصر و مفید تمام مطالب کا احاطہ ہوسکے اور قاری کو ضخیم کتابوں کے مطالعہ کی ضرورت پیش نہ آئے۔

۲ ۔ بحثیں واضح ، روشن اور آسان بیان ہوں، مبھم نہ ہوں اور ایسی باتوں اور اصطلاحوں سے بھی پرہیز کیاجائے جو علمی محافل اور دانشور طبقہ سے مخصوص ہیں۔ہاں یہ اس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ بھاری اصطلاحوں کے استعمال کے بغیر بھی مفاہیم کے عمق و گہرائی میں کمی واقع نہ ہونے پائے۔

۳ ۔ مقصد صرف عقاید بیان کرناہے، ان کی دلیلیں نہیں ،ہاں حساس مواقع پر بحث اور ضرورت کے مطابق کتاب و سنت اورعقل سے دلیلیں پیش کی گئی ہیں۔

۴ ۔ ہر طرح کی خام خیالی، پردہ پوسی اور سوء ظن سے محفوظ رہیں، تا کہ حقایق ان کی اصلی شکل وصورت مین بیان ہوسکیں۔

۵ ۔ تمام مذاہب کے سلسلے میں شایستگی قلم اور ادب و احترام کا لحاظ رکھا جائے۔

یہ کتاب مندرجہ بالا نکات کی رعایت کے ساتھ سفر بیت اللہ ، جو روح و جان کی طہارت و پاکیزگی کا سبب ہے، میں تالیف کی گئی ،اس کے بعد مختلف بزم میں محققین و دانشوروں کے گر وہ نے بحث و مباحثہ کے بعد اسے پایہ تکمیل تک پہنچایاہے۔

امید ہے کہ جس مقصد کے تحت یہ کتاب تالیف کی گئی ہے۔ ہم اس میں کامیاب ہوں اور یہ کتاب ہمارے لے ذخیرہ آخرت بن جائے۔ آخر میں بارگاہ احدیت میں دعا ہے:

( ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی الایمان ان آمنوا بربکم فآمنا ربنا فاغفرلنا ذنوبنا و کفر عنا سیئاتنا و توفنا مع الابرار)

بخش اول۔خداشناسی و توحید

۱ ۔ وجود قادرمطلق

ہمارا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم تمام عالمین کا خالق ہے، اور اس کی عظمت، علم و قدرت کے آثار ،تمام مخلوقات و موجودات جہان میں آشکار و ہویدا ہیں، ہیاں تک کہ ہمارے باطن میں ، تمام جانداروں اور گیاہوں میں ، آسمان کے ستاروں اور تمام عوالم بلکہ تمام ذروں میں ظاہر ہیں۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ جتنا زیادہ اس دنیا اور اس کے اسرار و رموز میں غور وخوض کیاجائے، خداوند عالم کی ذات کی عظمت، اس کے علم و قدرت کی وسعت سے آگاہی میں اضافہ ہو تا جاتا ہے۔ علم و دانش کی ترقی سے اس کے علم و حکمت کے نئے دروا ہوتے ہیں اور ہماری فکر و نظر کی جہتوں میں اضافہ ہوتا جاتاہے۔اور یہ تفکر و تدبر اس کی ذات سے عشق کے زیادہ ہونے کا سبب بنتاہے اور ہر لحظہ ہمیں اس سے قریب اور نزدیک کرتا ہے اور ہم اس کے نورو جلال و جمال میں محو ہوتے رہتے ہیں۔

قرآن مجید میں ارشاد ہواہے:( و فی الارض آیات للموقنین و فی انفسکم افلا تبصرون ) ۔

ترجمہ: اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں، اور خود تمہارے اندر بھی، کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو۔(۱)

( ان فی خلق السماوات والارض واختلاف اللیل والنهارلآیات لاولی الالباب الذین یذکرون الله قیاما و قعودا و علی جنوبهم و یتفکرون فی خلق السماوات والارض ربنا ما خلقت هذا باطلا ) ۔

ترجمہ: بے شک زمین و آسمان کی خلقت لیل ونھار کی آمد ورفت میں صاحبان عقل کے لیے قدرت خدا کی نشانیاں ہیں۔ جو لوگ اٹھتے بیٹھتے، لیٹتے خدا کو یاد کرتے ہیںاور آسمان و زمین کی تخلیق میں غور د فکر کرتے ہیںکہ خدایا تونے یہ سب بےکار پیدا نہیں کیا ہے تو پاک و بے نیاز ہے، ہمیں عذاب خدا سے محفوظ فرما۔(۲)

____________________

(۱) سورہ ذاریات آیہ ۲۰،۲۱

(۲) سورہ آل عمران آیہ ۱۹۰، ۱۹۱

۲ ۔ صفات جمال و جلال

ہمارا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے اور تمام کمالات سے آراستہ ہے، اس کی ذات، کمال مطلق اور مطلق کمال ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہاجائے کہ اس کائنات میں جتنا بھی حسن اور کمال پایا جاتاہے اس کا مبدا و منبع پروردگار عالم کی ذات با برکت ہے۔

( هو الله الذی لا اله الا هو الملک القدوس السلام المومن المهیمن العزیز الجبار المتکبر سبحان الله عما یشرکون هو الله الخالق الباری المصور له الاسماء الحسنی یسبح له ما فی السماوات والارض و هو العزیز الحکیم ) ۔

ترجمہ: وہ اللہ وہ ہے، جس کے سوا کوئی عبادت کے لایق نہیں ہے۔ وہ بادشاہ، پاکیزہ صفات، بے عیب، امان دینے والا ، نگرانی کرنے والا صاحب عزت، زبردست اور کبریائی کا مالک ہے۔ وہ ان تمام باتوں سے پاک وپاکیزہ ہے جو مشرکین کیا کرتے ہیں۔ وہ ایسا خدا ہے جو پیدا کرنے والا ، ایجاد کرنے والااور صورتیں بنانے والا ہے، اس کے لیے بہترین نام ہیںزمین و آسمان کا ہر ذرہ اسی کے لیے محو تسبیح ہے اور وہ صاحب عزت و حکمت ہے۔(۱) یہ اس کی صفات جمال و جلال کے کچھ نمونہ ہیں۔

۳ ۔ خداوند عالم کی ذات پاک و لا محدود ہے:

ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کا وجود، تمام جہات سے لا متناہی ہے، علم و قدرت اورحیات ابدی و ازلی ہونے کے لحاظ سے، یہی دلیل ہے کہ اسے زمان و مکان میں قیدنہیں کیاجاسکتا اس لیے کہ زمان و مکان میں مقید محدود ہوتاہے، اس کے با وجود ، وہ ہر جگہ اور ہر زمانہ میں موجود ہے، اس لیے کہ وہ ہر زمان و مکان سے بالا اور مبرا ہے۔

یقینا وہ ہم سے بے حد قریب ہے وہ باطن میں موجود ہے ، وہ ہر جگہ موجود ہے اس کے با وجود کہ وہ بے مکان ہے :

وهوا الذی فی السماء اله و فی الارض اله و هوالحکیم العلیم

ترجمہ: وہ اللہ وہ ہے جو آسمان و زمین معبود ہے اور وہ حکیم و علیم ہے۔(۲)

( و هو معکم اینما کنتم والله بما تعملون بصیر ) ۔

وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کا دیکھنے والا ہے۔(۳)

یقینا وہ ہم سے خود ہماری بہ نسبت زیادہ قریب ہے، وہ ہمارے باطن میں موجود ہے، وہ سب جگہ حاضر و ناظر ہے جبکہ وہ مکان نہیں رکھتا۔

و نحن اقرب الیه من حبل الورید

ترجمہ: اور ہم اس سے شہ رگ حیات سے زیادہ نزدیک ہیں۔(۴)

هو الاول والآخر والظاهر والباطن و هوبکل شی علیم

وہ ہے ابتدا و آخر، ظاہر و باطن اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔(۵)

اور جو قرآن مجید میں ذکر ہواہے : ذوالعرش المجید (وہ صاحب عرش و صاحب مجد و عظمت ہے۔)(۶)

(عرش اس آیہ کریمہ میں بلند شاہی تخت کے معنا میں نہیں ہے) قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پرذکر ہواہے:

الرحمن علی العرش استوی ۔ (خداوند عالم کا ٹھکانا عرش ہے۔)(۷)

اس آیہ کریمہ کے یہ معنا ہرگزنہیں ہیں کہ وہ ایک مکان میں ہے بلکہ اس کے معنا یہ ہیں کہ خداوند عالم کی حاکمیت تمام عالم مادہ اور جہان ماوراء طبیعت میں قائم ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اگر اس کے کسی خاص مکان کو تسلیم کرلیں تو گویا ہم نے اسے محدود کردیا ہے اور صفات مخلوقات کو اس کے لئے ثابت کردیا ہے اور اسے دوسری تمام اشیاء کی طرح مان لیا ہے جبکہ لیس کمثلہ شی ۔ کوئی بھی شی اس جیسی نہیں ہوسکتی ۔(۸)

( ولم یکن کفوا احد ) ۔اسکی نظیر ملنا محال ہے اس کے لئے نہ کوئی شبییہ ہے نہ کوئی نظیر ۔(۹)

____________________

(۱) سورہ حشر آیہ ۲۳،۲۴

(۲) سورہ زخرف آیہ ۴۸

(۳) سورہ حدید آیہ ۴

(۴) سورہ ق آیہ ۶۱

(۵) سورہ حدیدآیہ ۳

(۶) سورہ بروج آیہ۵۱

(۷) سورہ بقرہ آیہ ۲۵۵، قرآن مجید کی بعض آیتوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی کرسی تمام آسمان و زمین سے بڑی ہے لہذا یہ عرش تمام عالم مادہ سے بڑا ہے۔و سع کرسیه السموات والارض ۔

(۸) سورہ شوری آیہ ۱۱

(۹) سورہ توحید آیہ ۴

۴ ۔ وہ جسم نہیں رکھتا اور ہرگزدکھائی نہیں دے گا۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا وند عالم کو ہرگز آ نکھوںسے نہیں دیکھا جاسکتا، اس لیے کہ آنکھوں سے دکھ جانے کے معنا یہ ہیں کہ وہ جسم ہے، مکان رکھتا ہے، رنگ و شکل و جہت رکھتاہے جب کہ یہ سب مخلوقات کی صفات ہیں اور خداوند عالم بالا و منزہ ہے اس بات سے کہ مخلوقات کے صفات اس کے اندر پائے جائیں۔

خداوند عالم کی رویت کا عقیدہ رکھنا، ایک طرح کا شرک ہے:

( لا تدرکه الابصار و هو یدرک الابصار و هو اللطیف الخبیر ) ۔

ترجمہ: آنکھیںاسے نہیں دیکھتی مگر وہ ہماری آنکھوں کو دیکھتاہے بے شک وہ بخشنے والا اور جاننے والاہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب موسی کی قوم نے بہانہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں: لن نومن لک حتی نری اللہ جہرة ۔ ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لا ئیں گے مگر یہ کہ خداوند عالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔(۱)

حضرت موسی (علیہ السلام ) انھیں کوہ طور پرلے گئے اور خداوند عالم سے بنی اسرائیل کی خواہش کا اظہار کیا اور خداوند عالم کی طرف سے یہ جواب آیا :

( لن ترانی ولکن انظر الی الجبل فان استقر مکانه فسوف ترانی فلما تجلی ربه للجبل جعله دکا و خر موسی صعقا فلما افاق قال سبحانک تبت الیک و انا اول المومنین ) ۔

ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے، ہاںکوہ طور کی طرف نگاہ کرو اگر وہ اپنی جگہ پرثابت رہاتو مجھے دیکھ سکتے ہو اور چونکہ جیسے ہی پروردگار نے کوہ طور پر جلوہ دکھا یاوہ خاک میں تبدیل ہوگیا اور موسی بے ہو ش ہوکر زمین پرگر پڑے، جب ہوش آیا، عرض کیا: پروردگارا تو منزہ ہے اس بات سے کہ آنکھوں سے دکھائی دے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور مومنین میں سے پہلاہوں۔(۲)

اس بات سے ثابت ہوتاسے کہ ہرگز خداوند عالم کو آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ بعض آیات و روایات میں جو خداوند عالم کو آنکھوں سے دیکھنے کا ذکر ہواہے۔ اس سے مراد ، دل اور باطن کی آنکھوں سے دیکھناہے اس لیے کہ آیات قرآن ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں:

القرآن یفسر به بعضه بعضا (۳)

ان الکتاب یصدق بعضه بعضا ۔۔۔(نہج البلاغہ خطبہ ۱۸ ، ایک دوسری جگ ہ پر ارشاد فرماتے ہیں:و ینطق بعضه ببعض و یشهد بعضه علی بعض ۔ خطبہ ۱۰۳)

مولائے کائنات حضرت علی (ع) سے کسی نے دریافت کیا: ( یا امیر المومنین ہل رایت ربک) اے امیر المومنین کیا آپ نے خداوند عالم کو دیکھاہے؟ آپنے فرمایا: (ا اعبد مالا اری ) کیا میں کسی ایسے کی عبادت کروں جسے میں نے دیکھا نہ ہو؟! پھر فرمایا: ( لا تدرکہ العیون بمشاہدة العیان، و لکن تدرکہ القلوب بحقایق الایمان۔ آنکھیں ہرگز اسے دیکھ نہیں سکتیں، ہاں دل کی آنکھیں اسے ایمان کی طاقت سے دیکھ سکتی ہیں۔(۴)

ہمارا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم کی ذات میں مخلوقات کی صفات کا قائل ہونا، جیسے اس کے لئے مکان، جہت، جسم، مشاہدہ اور رویت کا قائل ہونا، اس کی معرفت سے دور ہونے اورشرک میں پڑنے کا سبب ہے، بے شک وہ تمام ممکنات و مخلوقات ان کی صفات سے بالا اور منزہ ہے اور کوئی بھی شی ہرگز اس کی طرح نہیں ہو سکتی۔

۵ ۔ توحید ، تمام اسلامی تعلیمات کی روح ہے۔

ہمارا عقیدہ کہ معرفت خداوند عالم کے باب میں سب سے اہم مسئلہ معرفت توحید (اللہ کو ایک اوریکتا ماننا) ہے۔ توحید صرف اصول دین کا ہی ایک حصہ نہیں ہے بلکہ وہ تمام اسلامی عقاید کی اصل و روح ہے اور نہایت واضح الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتاہے کہ تمام اسلامی اصول و فروع توحید میں مجسم ہوتے ہیں۔ ہر مقام پر گفتگو توحید و یکتا پرستی سے ہوتی ہے۔ وحدت ذات پاک اور توحید صفات و افعال خدا، ایک دوسری تفسیر کے مطابق دعوت تمام انبیاء کاا یک ہونا، دین و آیین الھی کا ایک ہونا، سمت قبلہ اور آسمانی کتاب کا ایک ہونا، انسان کے بارے میں اللہ کے احکام و قوانین کا ایک ہونا، مسلمانوں کا ایک صف میں منظم ہونا ، اور قیامت کے روز سب کا ایک ساتھ جمع ہونا۔

اسی دلیل کی بنیاد پر قرآن مجید توحید الھی سے انحراف اور شرک کی طرف میلان کو ہرگز نا بخشے جا نے و الا گناہ قرار دیتاہے۔

( ان الله لایغفر ان یشرک به و یغفر ما دون ذالک لمن یشاء و من یشرک بالله فقد افتری اثما عظیما ) ۔

ترجمہ: خداوند عالم (ہرگز) شرک کونہیں بخشے گا اور اس سے کم کو جسے چا ہتاہے (لایق سمجھتاہے) بخش دیتا ، اور جو بھی اللہ کے لیے شریک قرار دیتاہے وہ عظیم گناہ کا ارتکاب کرتاہے۔(۵)

( و لقد اوحی الیک و الی الذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک و لنکونن من الخاسرین ) ۔

ترجمہ: آپ پر اور آپ سے پہلے تمام انبیاء پر وحی ہو ئی ہے کہ مشرک بن گئے تو سارے اعمال تباہ ہوجائیں گے اور آپ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔(۶)

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیہ ۵۵

(۲) سورہ اعراف آیہ ۱۴۳

(۳) یہ مشہور جملہ ہے جو ابن عباس سے نقل ہوا ہے، مگر یہ معنا نہج البلاغہ میں حضرت امیر علیہ السلام سے دوسری صورت میں بیان ہوا ہے:

(۴) نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۹

(۵) سورہ نساء آیہ ۴۸

(۶)سورہ زمر آیہ ۶۵

۶ ۔ توحید کی شاخیں:

ہمارا عقیدہ ہے کہ توحید کی بہت سی شاخیں ہیں، جن میں سے مندرجہ ذیل چار سب سے زیادہ اہم ہیں:

الف : توحید ذاتی

یعنی یہ کہ خداوند عالم کی ذات پاک ہے اور وہ اکیلا ہے اور کوئی اس کا شریک و نظیرنہیں ہے۔

ب: توحیدصفاتی

یعنی یہ کہ صفات علم و قدرت و ازلی و ابدی سب اس کی ذات میں جمع ہیں۔ اور یہ صفات اس کی عین ذات ہیں ۔مخلوقات کی طرح نہیں ہے کہ ان کی ساری صفات ایک دوسرے سے الگ اور ان کی ذات سے جدا ہیں ۔البتہ خداوند عالم کی ذات و صفات کا ایک ہونا ایک ایسی بحث ہے جس کے لئے ظرافت اور دقت لازمی ہے۔

ج: توحید افعالی:

یعنی یہ کہ ہر فعل و حرکت جو اس دنیا میں انجام پاتاہے وہ سب پروردگار عالم کی مشیت و ارادہ سے وجود میں آتاہے:

( الله خالق کل شی و هو علی کل شی وکیل ) ۔ خداوند عالم تمام اشیاء کا پیدا کرنے والا اور ان پر حافظ و ناظر ہے۔(۱)

لہ مقالید السموات و الارض ، آسمان و زمین کی چابھیاں اس کے پاس ہیں ۔ ( یعنی اس کے دست قدرت میں ہیں)(۲)

بے شک( لا موثر فی الوجود الا الله ) اللہ تعالی کے سوا کوئی اس جہان ہستی میں موثر نہیں ہے۔

اس بات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنے کام انجام دینے میں مجبور ہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ ہم اپنے ارادے اور فیصلے میں آزاد ہیں( انا هدیناه السبیل اما شاکرا و اما کفورا ) ہم نے اسے (انسان) کو ہدایت کردی (اور اسے راستے دکھا دئیے) چاہے وہ شکر گزار بن جائے(اور قبول کرے) یا انکار کردے (اور طغیان کرے)(۳)

( و ان لیس للانسان الا ما سعی ) انسان جو کچھ حاصل کرتاہے اپنی سعی و کوشش سے حاصل کرتاہے۔(۴)

یہ آیہ کریمہ صراحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے کہ انسان آزاد و خود مختار ہے لیکن چونکہ ارادہ کی آزادی اور کام انجام دینے کی قدرت اللہ تعالی نے ہمیں عطا کی ہے لہذا ہمارے کا م اسی سے نسبت رکھتے ہیں مگر اس سے انجام پانے کام کی ذمہ داری ہم سے ختم نہیں ہوتی۔ اس پر توجہ ہونے چاہئے۔

البتہ اس نے ارادہ کیاہے کہ ہم اپنے اعمال کو آزادی، ارادہ اور اختیار کے ساتھ انجام دیں تا کہ اس کے ذریعہ سے وہ ہمیں آزما سکے اورہمیں کمال کی منزلوں تک پہچا ئے اس لئے صرف ارادے کی آزادی اور اختیار کے ساتھ خداوند عالم کی عبادت اور اطاعت ہی انسان کو کمال تک سکتی ہیں۔ اور مجبوری میں انجام دیئے جالے افعال اور زبردستی کے اعمال نہ کسی انسان کے لیے خوبی کا سبب ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اس کی برائی کی علامت، اگر ہم اپنے افعال کے انجام دینے میں مجبور ہوتے تو نہ انبیاء کی بعثت کا کوئی مفہوم ہوتانہ ہی آسمانی کتابوں کے نازل ہونے کا کوئی مقصد، اور نہ ہی دینی فریقوں اور تعلیم و تربیت کا کوئی فایدہ ہوتا اور جزا و سزا بھی بے معنی و مفہوم ہوجاتے، یہ وہ تعلیمات ہیں جنہیں ہم نے ائمہ اھل بیت علیہم السلام کے مکتب سے حاصل کیاہے، فرماتے ہیں: نہ جبر مطلق صحیح ہے اور نہ تفویض و آزادی مطلق بلکہ ان کے در میان کا راستہ انتخاب کرنا صحیح ہے: (لا جبر و لا تفویض و لکن امر بین الامرین )(۵)

د ۔ توحید عبادت

عبادت ،خداوند عالم سے مخصوص ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، یہ شاخ ،توحید کی سب سے اہم شاخ میں شمار ہوتی ہے اور انبیاء الہی سب سے زیادہ اس پر تاکید کرتے ہیں:

وما امرواالا لیعبدواالله مخلصین له الدین حنفاء----و ذلک الدین القیمه

انھیں (انبیاء) اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اور اپنے دین کو اس کے لیے خالص کریں اور شرک سے باز آئیں، یہ ہے اللہ کا محکم اور پایدار دین۔(۶)

اخلاق و عرفان کے کمال کی منزلیں طے کرنے کے لیے اس سے بھی عمیق توحید کی ضرورت ہوتی ہے، اس راہ میں توحید اس منزل تک پہیچ جاتی ہے جہان انسان صرف اللہ تعالی سے لو لگاتاہے اور ہر مرحلہ پر صرف اسی کو طلب کرتاہے اور اس کے سوا کسی کی فکر اسے مشغول نہیں کرتی اور کوئی بھی شی اسے خدا سے دور کرکے خود میں مشغول نہیں کرتی:

کلما شغلک عن اللہ فھو ضمک۔ ہر چیز جو تجھے خود سے مشغول کردے اور خداوند سے دور کرے ، وہ تیرابت ہے۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ توحید کی شاخیں صرف ان چار تک محدود و منحصر نہیں ہیں بلکہ توحید مالکیت (تمام اشیاء کا مالک خداوند عالم ہے)( لله ما فی السماوات و ما فی الارض ) (۷)

و توحید حاکمیت (قانون بنانے کا حق صرف اللہ تعالی کوہے)( من لم یحکم بما انزل الله فاولئک هم الکافرون ) (۸)

یہ سب توحید کی شاخیں ہیں

____________________

(۱) سورہ زمر آیہ ۶۲

(۲) سورہ زمر آیہ ۶۲

(۳) سورہ انسان آیہ ۳

(۴) سورہ نجم آیہ ۳۹

(۵)اصول کافی جلد ۱،صفحہ ۱۶۰ (باب الجبر والقدر والامر بین الامرین)

(۶) سورہ بینہ آیہ ۵

(۷)سورہ بقرہ آیہ ۲۸۴

(۸) سورہ مائدہ آیہ ۴۴

۷ ۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ توحید افعالی کی اصل و بنیاد اس حقیقت کی تاکید کرتی ہے

ہمارا عقیدہ ہے کہ توحید افعالی کی اصل و بنیاد اس حقیقت کی تاکید کرتی ہے کہ وہ عظیم معجزات و کرامات، جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ظاہر ہوئے ہیں، سب اللہ کے اذن سے تھے، جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے ارشاد ہواہے:( و تبری الاکمه و الابرص باذنی و اذ تخرج الموتی باذنی ) ۔

ترجمہ: پیدا یشی اندھوں اور برص جیسے نا قابل علاج مریضوں کو میرے اذن سے شفا دیتے تھے اور مردوں کو میرے حکم سے زندہ کیا کرتے تھے۔(۱)

اور حضرت سلیمان کے ایک وزیر کے بارے میں ارشاد ہوتاہے:

( قال الذی عنده علم من الکتاب انا اتیک به قبل ان یرتد الیک طرفک فلما رآه مستقرا عنده قال هذا من فضل ربی ) ۔

ترجمہ: وہ جس کے پاس کتاب آسمانی کا علم تھا، کہا: میں آپ کے پلک چھپکنے سے پہلے اسے (ملکہ سبا کے تخت کو) آپ کے پاس لا سکتا یہوں اور جب حضرت سلیمان نے اسے اپنے سامنے مستقر دیکھا تو کہا: یہ میرے اللہ کے فضل (ارادہ ) فضل سے ہے۔(۲)

لہذا اللہ کے حکم سے حضرت عیسی علیہ السلام ناقابل علاج مریضوں کو شفا دیتے اور مردوں کو زندہ کرنے کی نسبت دینا، جیسا کہ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بیان ہواہے، عین توحید ہے۔

____________________

(۱) سورہ مائدہ آیہ ۱۱۰

(۲) سورہ نحل آیہ ۴۰

۸ ۔ اللہ کے فرشتے

ہمارا عقیدہ ہے کہ ملائکہ وجود رکھتے، ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو خاص امرکے لئے مقرر کیا گیاہے، بعض کو ابلاغ و حی پرمامور کیا گیا تھا۔(۱)

ایک گروہ کو انسانوں کے اعمال لکھنے پر مامور کیاگیاہے۔(۲)

ایک گر وہ قبض روح پر مامور ہے۔(۳)

ایک گروہ کو مومنین حقیقی کی مدد پر مامور کیا گیاہے۔(۴)

ایک گروہ کو جنگوں میں مومنین کی مدد کے لیے مامور کیا گیا ہے۔(۵)

ایک گروہ کا کام باغی اور سرکش قوموں پر عذاب نازل کرناہے ۔(۶) ( سورہ ھود آیہ ۷۷ ) اس کے علاوہ کائنات کے دوسرے امور ان کے حوالے کے کیے ہیں۔

چونکہ یہ سارے امور اللہ کے اذن اور حکم اور اس کی نصرت و استعانت سے ملائکہ کے سپرد کے گیے ہیں لہذا اصل توحید افعالی اور توحید ربوبیت سے نہ صرف یہ کہ اس سے کوئی منافات نہیں ہے بلکہ اس پر تاکید بھی ہے۔

اس سے یہ بات بھی روشن اور واضح ہوجاتی ہے کہ چونکہ شفاعت انبیاء و ائمہ و ملائکہ، اللہ کے اذن اور حکم سے ہے لہذا عین توحید ہے ۔( مامن شفیع الا من بعد اذنه ) ۔۔ کوئی بھی شفاعت کرنے والا خدا کے اذن کے بغیر شفاعت نہیں کرسکتا۔(۷)

اس مسئلہ اور مسئلہ توسل کے بارے میں تفصیلی بحث انشاء اللہ نبوت انبیاء کے باب میں آئے گی ۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیہ۹۷۔

(۲)سورہ انفطار آیہ۱۰۔

(۳)سورہ اعراف آیہ۳۷۔

(۴)سورہ فصلت آیہ ۳۰۔

(۵)سورہ اْحزاب آیہ ۹

(۷)سورہ یونس آیہ۳

۹ ۔ عبادت خداوند عالم سے مخصوص ہے۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ عبادت خداوند عالم کی ذات اقدس سے مخصوص ہے۔ (جیسا کہ توحید عبادت کی بحث میں اشارہ ہوا ہے) لہذا جو بھی غیر خدا کی پرستش کرے گا وہ مشرک ہے، تمام انبیاء کی دعوت اسی مسئلہ پر متمرکز ہے۔

( اعبدوا الله مالکم من اله غیره ) ۔ خداوند عالم کی عبادت کرو کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔

یہ بات قرآن مجید میں انبیاء کے حوالے سے کئی بار ذکرہوئی ہے۔(۱)

قابل توجہ ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان ہمیشہ اپنی نمازوں میں سورہ حمد میں ایک مہم اسلامی شعار کے طور پر اس آیہ کریمہ کی تکرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں

( ایاک نعبد و ایاک نستعین ) ۔ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے استعانت و مدد طلب کرتے ہیں۔

واضح ہے کہ آئمہ اللہ تعالی کے اذن سے انبیاء اور فرشتوں کے شفاعت کرنے کا عقیدہ جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا اللہ کے اذن سے ہے ، عبادت کے معنی میں نہیں ہے۔

اسی طرح انبیاء سے متوسل ہونا، اس معنی میں کہ وہ پروردگار عالم سے ان کی مشکلات کے حل کے لئے توسل کریں، یہ بات نہ پرستش و عبادت میں شمار ہوتی ہے اور نہ ہی توحید افعالی و توحید عبادت سے منافات رکھتی ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیل نبوت کی بحث میں آئے گی۔ انشاء اللہ۔

____________________

(۱)سورہ اعراف آیہ ۵۹،۶۵،۷۳،۸۵ و۔۔۔

۱۰ ۔ پروردگار عالم کی حقیقت سب کے لیے پوشیدہ ہے۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ با وجود اس کے کہ خداوند عالم کے وجود کے آثار تمام کائنات پر آشکار و ہویدا ہیں، اس کی حقیقت ذات کسی پر روشن نہیں ہے۔ اور کوئی بھی اس کے حقیقت وجود تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا، اس لیے کہ اس کی ذات تمام جہات سے لا محدود ہے اور انسان ہر لحاظ سے محدود ہے۔ اور محدود کے لیے نامحدود کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے: الا انہ بکل شی محیط لا محدود۔ بے شک وہ تمام شی پر احاطہ و قدرت رکھتاہے۔(۱)

( و الله من ورائهم محیط ) ۔ پروردگار عالم تمام اشیاء پر محیط ہے۔(۲)

حکیم تو اپنی عقل پرناز کرتاہے۔ تیری فکر اس راہ کو طی نہیں کرسکتی اس کی ذات تک خرد پہنچ سکتی ہے۔ اگر خس دریا کی تہہ میں پہنچ جائے تو

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مشہور و معروف حدیث میں ارشاد ہواہے: ما عبد ناک حق عبادتک و ما عرفناک حق معرفتک ۔ ہم تیری عبادت کرسکے اورمعرفت کا کما حقہ حق ادا نہیں کرسکے۔(۳)

واضح رہے کہ اس کہ معنا یہ نہیں ہیں کہ چونکہ ہم اس کے بارے میں علم تفصیلی نہیں رکھتے لہذا علم و معرفت اجمالی بھی حاصل نہ کریں اور صرف معرفت الہی کی باب میں ذکر ہونے والے ان الفاظ پر قناعت کریں جو ہمارے لیے واضح نہیں ہیں۔ یہ وہی نظریہ تعطیل معرفت ہے جسے ہم قبول نہیں کرتے ،اور جس کا عقیدہ نہیں رکھتے۔اس لیے کہ قرآن مجید اور دیگر آسمانی کتابیں سب کی سب اللہ کی معرفت اور شناخت کے لیے نازل کی گئی ہیں۔

اس موضوع کے بارے میں ٹھیروں مثالیں دی جاسکتی ہیں جیسے ہم حقیقت روح کے بارے میں نہیں جانتے کہ کیاہے؟

لیکن اس کے بارے میں اجمالی علم ہمیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ روح وجود رکھتی ہے اور ہم اس کے آثار کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

امام باقر علیہ السلام کی ایک حدیث مین ارشاد ہوا ہے:کلما میتر تموه باوهامکم فی اذن معانیه مخلوق وضوع مثلکم مردود الیکم ۔ ہر وہ چیز جسے انسان فکر و نظرسے اس کے واقعی معنا تک تصور کرسکے وہ آپ کی مخلوق و مصنوع ہوجاتی ہے اور خود اس انسان کے مانند ہے اور وہ تمہاری طرف ہی پلٹنی ہے۔ (اور یقینا خداوند عالم اس سے مبرا و منزہ ہے)(۴)

حضرت امیر المومنین کی ایک حدیث میں معرفت الہی کی دقیق راہ کو نہایت بلیغ و حسین پیرایہ میں بیان کیا گیاہے ارشاد فرماتے ہیں:لم یطلع الله سبحانه العقول علی تحدید صفته، و لم یحجبها امواج معرفته ۔ خداوند عالم نے عقلوں کو اپنی صفات کی حد سے آگاہ نہیں کیا ہے اور (جبکہ) اسی کے با وجود انھیں ضروری ا شناخت و معرفت سے محروم اور محجوب نہیں کیاہے۔(۵)

____________________

(۱) سورہ فصلت آیہ۵۴

(۲)سورہ بروج آیہ ۲۰

(۳) بحار الانوار جلد ۶۸ صفحہ ۲۳

(۴)بحار الانوار جلد ۶۶ صفحہ ۲۹۳

(۵) غرر الحکم

۱۱ ۔ نہ تعطیل صحیح ہے نہ تشبیہ۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ جس طرح سے (تعطیل) یعنی خداوند عالم اور اسکی صفات کی شناخت و معرفت کا حاصل کرلینا صحیح نہیں ہے، اسی طرح سے تشبیہ کے عقیدہ کا قائل ہونا بھی غلط اور شرک آلود ہے، یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس ذات پاک کو بالکل نہیں پہنچان سکتے، اس کی معرفت حاصل کرنے کا ہما رے پاس کوئی راستہ نہیں ہے ، جیسا کہ اسے مخلوقات سے تشبیہ نہیں سکتے۔ ایک راہ افراط پر منتہی ہوئی ہے تو دوسری تفریط پر ،اس نکتہ پر توجہ ہوئی چاہیے۔