ہمارے عقیدے

ہمارے عقیدے0%

ہمارے عقیدے مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

ہمارے عقیدے

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 14905
ڈاؤنلوڈ: 4057

تبصرے:

ہمارے عقیدے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 14905 / ڈاؤنلوڈ: 4057
سائز سائز سائز
ہمارے عقیدے

ہمارے عقیدے

مؤلف:
اردو

بخش دوم نبوت انبیاء الہی

فلسفہ بعثت انبیاء

ہمارا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم نے انسانوں کی ہدایت اور انھیں کمال و سعادت ابدی تک پہنچانے کے لیے انبیاء و مرسلین کو مبعوث کیاہے، کیونکہ اگر خداوند عالم انھیں نہ بھیجتا تو انسان کے کا مقصد حاصل نہ ہوتا اور وہ گمراہی کے گرداب میں غوطہ ور رہتے اور مقصد خلقت کے برعکس نتیجہ نکلتا:

( رسلا مبشرین ومنذرین لئلایکون للناس علی الله حجة بعد الرسل و کان الله عزیزا حکیما ) ۔

ترجمہ: انبیاء (کو بھیجا) بو حنت بچی دینے جو بشارت اور جہنم سے ڈرانے والے تھے تا کہ لوگوں پر سے حجت تمام ہوجائے ( تا کہ انبیاء لوگوں کو راہ سعادت و کمال دکھائیں اور سب کے لیے اتمام حجت کا سبب ہو) اور یقینا خداوند قدرت اور حکمت والاہے۔(۱)

ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء میں پانچ حضرات اولو العزم اور صاحب شریعت ہیں، جن کے پاس آسمانی کتاب اور نئی شریعت تھی، ان میں سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام ہیں پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام ، اس کے بعد حضرت موسی و حضرت عیسی (ع) اور ان میں آخری حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں۔

( و اذ اخذنا من النبیین میثاقهم و منک و من نوح و ابراهیم و موسی و عیسی بن مریم و اخذنا منهم میثاقا غلیظا ) ۔

اس وقت کو یاو کریں جب ہم نے انبیاء سے عمد لیا اور (اسی طرح) آپ ہے نوح و ابراہیم و موسی و عیسی ہے اور ہم نے ان سب سے محکم عمد لیا ( کہ کا رسالت کی تبلیغ اور آسماین کتاب کی تعلیمات کے لیے سعی کریں)(۲)

( فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل ) ۔

صبر و استقامت سے کام لو جیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر و استقامت سے کام لیا ۔(۳)

ہمارا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام،خاتم الانبیاء اور اللہ کے آخری رسول میں اور ان کی شریعت دنیا کے تمام لوگوں کے لیے ہے اور دنیا کے ختم ہونے تک باقی رہے گی۔ یعنی اسلامی معارف و احکام و تعلیمات میں ایسی جامعیت پائی جاتی ہے کہ انسانوں کی تمام مادی و معنوی ضروریات کو پورا سکے۔ اور نبی اسلام کی بعد جو بھی نبوت و رسالت کا دعوی کرے وہ باطل و بے بنیاد ہے۔

( ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول الله و خاتم النبیین و کان الله بکل شی علیما ) ۔(۴)

محمد (ص) تم میں سے کسی بھی فرد کی منی بوے باپ نہیں ہیں، وہ اللہ کے رسول اور خاتم المرسلین رہیں اور یقینا خداوند پرستی ہے تم میں سے کسی بھی مرد آگاہ ہے۔ ( و جو کچھ نبی اکرم (ص) کے ضروری تھا، خداوند عالم نے ان کے اختیار میں قرار دیا)

____________________

(۱) سورہ نساء آیہ ۱۶۵

(۲)سورہ احزاب آیہ ۷

(۳)سورہ احقاف آیہ ۳۵

(۴) سورہ احزاب آیہ۴۰

۱۳ ۔ ادیان آسمانی کے ماننے والوں کے ساتھ زندگی گزارنا۔

اس کے با وجود کہ ہم اسلام کو اس دور میں خداوندعالم کے حقیقی دین کے طور مانتے میں ۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ دیگر آسمانی ادیان کے پیرو کاروں کے ساتھ (صلح و دوستی و محبت کے ساتھ) زندگی گزارنا حقیقی چاہیے، چاہے وہ اسلامی ممالک میں رہتے ہوں یا غیر اسلامی ممالک میں ، سوائے ان میں سے ایسے لوگوں کہ جو اسلام و مسلمین سے جنگ کرنا چاہتے ہوں۔

لا ینهاکم الله عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین و لم یخرجوکم من دیارکم ان تبرد هم و تقسطوا الیهم ان الله یحب المقسطین

ترجمہ: خداوند عالم تمیں نیکی کرنے اور ایسے لوگوں سے عدالت کی رعایت کرنے سے، جنھوں نے دین کی خاطر تم سے جنگ نہیں کی اور تمیں تمہارے گھر اور وطن سے دور نہیں کیا، منع نہیں کرتا، اس لیے کہ خداوند عالم انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتاہے۔(۱)

ہمارا عقیدہ ہے کہ سلجھی ہوئی باتوں کے ذریعہ ہم حقیقت اور تعلیمات اسلام کو دینا کے تمام انسانوں کے سامنے بیان اور آشکار کرسکتے ہیں، یقینا اسلام میں اس قدر قوی جاذبیت و کشش پائی جاتی ہے کہ اگر اسے اچھی طرح سے بیان کردیا جائے تو وہ بہت بڑی تعداد کو اپنی طرف جذب کرسکتاہے، خاص طور پر آج دینا میں اسلام کا پیغام سننے کے لیے لوگوں کے قلوب آمادہ ہیں۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام کو جبر و زبردستی کے ساتھ لوگوں پر تحمیل نہیں کرنا چاہیے( لا اکر اه فی الدین قد تبین الرشد من الغی ) دین کے قبول کرنے میں کوئی زبر دستی نہیں ہے اس لیے کہ صحیح اور غلط راستے آشکار ہوچکے ہیں۔(۲)

ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام کے جامع اصول و قوانین پر عمل کرکے مسلمان دوسروں کے لیے اسلام کو پیش کرسکتے ہیں۔ لہذا کسی اجبار و تحمیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

____________________

(۱)سورہ ممتحنہ آیہ ۸

(۲)سورہ بقرہ آیہ ۲۵۶

۱۴ ۔ انبیاء کا عمر کے ہر حصہ میں معصوم ہونا۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء الہی معصوم عن الخطا ہیں، عمر کے ہر حصہ میں ( چاہے نبوت سے پہلے کی عمر ہو یا بعد کی) وہ خطا و غلطی و گناہ سے اللہ کی تائید و توفیق سے محفوظ رہتے ہیں، اس لیے کہ اگر وہ گناہ یا خطاء کے مرتکب ہوں تو مقام نبوت پرسے لوگوں کا اعتماد ختم ہوجائے گا اور لوگ انہیں اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ بنانے سے مطمئن نہیں رہیں گے اور انھیں اپنی زندگی کے تمام امور میں اپنا راہنما و آئیذیل نہیں بنا سکیں گے۔

اسی دلیل کے تحت ہمارا عقیدہ ہے کہ اگربعض آیات قرآنی کے ظاہر سے بعض نبیوںکی طرف گناہ کی نسبت دی گئی ہے وہ ترک اول کے طور پر ہیں (یعنی یہ کہ انھوں نے نیک کاموں میں کم درجہ کا کو منتخب کرلیا حالانکہ بھتر یہ ہوتا کہ وہ عالی درجہ کام کا انتخاب کرتے۔ یا دوسری تعبیر کے مطابق جیسے (حسنات الابرار سیئات المقربین ) اچھوں کی نیکیاں (کبھی) مقرب لوگوں کے لیے گناہ کا درجہ اختیار کرلیتی ۔(۱)

____________________

(۱) مرحوم علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں اس جملہ کی نسبت آئمہ علیہم السلا م طرف دی ہے،حالانکہ انھوں نے کسی معصوم کا نام نہیں لیا ہے۔(بحار الانوار جلد ۲۵ صفحہ ۲۰۵) اس لیے کہ ہر انسان سے عمل کی توقع اس کے مقام و مرتبہ کے صاحب سے کی جاتی ہے ۔

۱۵ ۔ وہ سب اللہ کے مطیع بندے ہیں۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کے نبیوں اور رسولوں کا سب سے بڑا افتخار یہ تھا کہ وہ اس کے مطیع و فرمانبردار بندے تھے، یہی دلیل ہے کہ ہم ہر روز اپنی نمازوں میں پیغمبر اکرم (ص) کے بارے میں اس جملہ کی تکرار کرتے ہیں : و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ، میں گواہی دیتاہوں کہ محمد (ص) اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ کسی بھی نبی نے اللہ ہونے کا دعوی نہیں کیاہے اور لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت نہیں دی ہے ۔( ما کان بشر ان یوتیه الله الکتاب و الحکم و النبوه ثم یقول للناس کونوا عبادا لی من دون الله ) ۔

ترجمہ: کسی بھی انسان کے لیے بھتر نہیں ہے کہ خداوند اے آسمانی کتاب اور حکم و نبوت دے اور پھر وہ لوگوں سے کہے کہ خدا کے علاوہ میری عیادت کرو۔(۱)

یہاں تک کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی ہرگز لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت نہیں دی اور ہمیشہ خود کو اللہ کی مخلوق ، بندہ اور رسول ہونے کا اعلان کیا:

( لن یستنکف المسیح ان یکون عبدا الله و لا الملائکه المقربون ) ۔ ہرگز عیسی (ع) کواس بات سے انکار نہیں تھا کہ وہ اللہ کے بندہ ہیں اور نہ ہی مقرب فرشتوں نے کبھی اس بات کی تائید کی کہ وہ اللہ کے بندے نہیں ہیں۔(۲)

عیسائیت کی موجودہ تاریخ بھی گواہی دیتی ہے کہ مسئلہ تثلیث (تین خدا کا عقیدہ رکھنا) یہلی صدی عیسوی میں اس کا وجود نہیں تھا بلکہ یہ عقیدہ بعد میں پیدا ہوا ہے۔

____________________

(۱)سورہ آل عمران آیہ ۷۹

(۲)سورہ نساء آیہ ۱۷۲

۱۶ ۔ معجزات و علم غیب

انبیاء کا بندہ ہونا اس بات سے منافات نہیں رکھتا کہ وہ اذن و فرمان خداوند سے غیب کی ماضی، حال اور مستقبل کی باتوں سے آگاہ نہ ہوں ۔

( عالم الغیب فلا یظهر علی غیبه احدا الا من ارتفی من رسول ) ۔

ترجمہ: پروردگار عالم غیب کا جاننے والا ہے و کسی کو اپنے غیب کے اسرار سے آگاہ نہیں کرتا مگر ان رسولوں کو جنھیں اس نے منتخب کیاہے۔(۱)

ہمیں معلوم ہے کہ حضرت عیسی کی معجزوں میں سے ایک یہ تھا کہ وہ لوگوں کو غیب کی خبر دیتے تھے:

( و انبئکم بما تاکلون و ما تدخرون فی بیوتکم ) ۔ میں تمہیں ان چیزوں کے بارے میں ، جو تم کھاتے ہو اور اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو، خبر دیتاہوں۔(۲)

پیغمبر اسلام (ص) بھی تعلیم الھی کے وسیلہ سے بہت سی پوشیدہ باتوں کو بیان فرمایا کرتے تھے:

( ذلک من ابناء الغیب توحید الیک ) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ پر وحی کرتے ہیں۔

لہذا اس بات میں کوئی منافات نہیں ہے کہ انبیاء الھی وحی کے ذریعہ اللہ کی اجازت سے لوگوں کو غیب کی خبریں دیں اور قرآن مجید کی جن آیات میں نبی اکرم(ص) سے غیب کے علم کی نفی کی گئی ہے: جیسے( و لا اعلم الغیب و لا اقول لکم انی ملک ) ۔ مجھے غیب کا علم نہیں ہے اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میں ملک ہوں۔(۳)

اس سے مراد علم ذاتی و استقلالی ہے وہ علم نہیں ،جو تعلیم الھی کے ذریعہ حاصل ہوتاہے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید کی بعض آیات ،دیگر بعض کی تفسیر کرتی ہیں۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء الھی غیر معمولی کاموں اور اہم معجزات کو اللہ کے اذن سے انجام دیا کرتے تھے اور اس طرح کے کام انجام دینے کا عقیدہ رکھنا ،جو اللہ کے اذن سے ہو، نہ شرک ہے اور نہ ہی مقام عبودیت سے کوئی منافات رکھتاہے۔ حضرت عیسی (ع) قرآن مجید کی صراحت کی مطابق مردوں کو اللہ کے اذن سے زندہ کردیا کرتے تھے، ناقابل علاج بیماروں کو اللہ کے حکم شفاء عطا کیا کرتے تھے:( و ابری الاکمه والابرص و احی الموتی باذن الله ) ۔(۴)

____________________

(۱) سورہ جن آیہ ۲۶، ۲۷

(۲) سورہ آل عمران آیہ ۴۹

(۳)سورہ انعام آیہ ۵۰

(۴) سورہ آل عمران آیہ ۴۹

۱۷ ۔ مقام شفاعت انبیاء

ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء الھی اور ان میں سب سے افضل و برتر پیغمبر اسلام (صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) مقام شفاعت رکھتے ہیں اور گناہ گاروں کے خاص گروہوں کے لیے خداوند عالم سے شفاعت کریں گے۔ یہ شفاعت بھی اذن و اجازہ پروردگار کے ساتھ ہوگی:

( ما من شفیع الا من هو اذنه ) ۔ کوئی بھی شفاعت نہیں کرسکتا مگر وہ جسے اللہ اذن دے گا۔(۱)

( من ذا الذی یشفع عنده الا باذنه ) ۔ کون ہے جو اللہ شفاعت کرے مگر یہ کہ اس کے اذن سے۔(۲)

اور اگر قرآن مجید کی بعض آیات کریمہ میں بطور مطلق شفاعت کی نفی کی گئی ہے اور ارشاد ہو رہاہے:

من قبل ان یاتی یوم لا بیع فیه ولا خلة

انفاق کرو اس دن کے آنے سے پہلے کہ جس دن نہ بیع ہوگی (تا کہ کوئی اینے لیے سعادت و نجات کو خرید کے) نہ دوستی (اور معمولی رفاقت کا کوئی فایدہ نہیں ہوگا) اور نہ شفاعت ۔(۳)

ہمارا عقیدہ ہے کہ مسئلہ شفاعت، انسانوں کی تربیت اور گناہگاروں کو راہ راست پر پلٹانے اور انھیں پاکی و تقوی کی طرف تشویق دلانے ،ان کے دل میں امید زندہ کرنے کے لیے نہایت اہم وسیلہ ہے۔ اس لیے کہ ایسا نہیں ہے مسئلہ شفاعت بغیر کسی حساب و کتاب کے ہو بلکہ یہ صرف ایسے افراد اور لوگوں کے لیے ہے جن میں اس کی شایستگی و اہلیت پائی جاتی ہوگی یعنی ان کے گناہ اس حد تک نہ ہوں کہ ان کا رابطہ شفاعت کرنے والے حضرات سے بالکل ٹوٹ گیاہو۔ مسئلہ شفاعت گناہگاروں میں خوف پیدا کرانے کہ لیے ہے کہ انسان اپنے پیچھے بازگشت کے ایک راستہ کو کھلا رکھے اور شفاعت کی لیاقت و استعداد کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔

____________________

(۱) سورہ یونس آیہ ۳

(۲) سورہ سورہ بقرہ آیہ ۲۵۵

(۳) یہاں شفاعت سے مراد استقلالی اور بغیر اذن والی شفاعت ہے یا ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جن میں شفاعت کی قابلیت ہوگی۔ اس لیے کہ قرآن مجید کی بعض آیات دیگر بعض کی تفسیر کرتی ہیں۔

۱۸ ۔ مسئلہ توسل

ہمارا عقیدہ ہے کہ توسل کا مسئلہ بھی شفاعت کی طرح ہے۔ یہ مسئلہ مادی و معنوی مشکل میں بھنسے ہوئے لوگوں کو امید اور اجازت دیتاہے کہ اولیاء الھی کے دامن کا سہارا لیں تا کہ اللہ تعالی کے اذن سے وہ ان کی مشکلات کو حل کرا دیں۔ یعنی یہ کہ ایک طرف تو وہ خود اللہ کی بارگاہ میں حضور پیدا کریں اور دوسری طرف اولیاء الھی کو اپنا وسیلہ قرار دیں:

( و لو انهم اذ ظلموا انفسهم جاؤک فاستغفروا الله و استغفر لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحیما ) ۔

اگر وہ لوگ خود پر ظلم کرنے اور گناہ کے مرتکب ہونے کے بعد، آپ کے پاس آتے اور اللہ سے طلب بخشش کرتے اور رسول خدا (ص) بھی ان کے لیے طلب غفران کرتے تو خداوند عالم کو معاف کرنے والا اور مھربان پاتے۔(۱)

حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کی داستان میں ہم یہ پڑھتے ہیں کہ وہ سب اپنے والہ سے متوسل ہوئے اور سب نے کہا:

یا ابانا استغفر لنا انا کنا خاطئین۔ اے پدر، ہمارے لیے خداوند سے طلب مغفرت کریں، اس لیے کہ ہم نے خطا کی تھی، بوڑھے باپ (یعقوب نبی) نے ان کے اس درخواست کو قبول کیا اور ان سے مدد کا وعدہ کیا اور کہا: سوف استغفر لکم ربی۔ عنقریب میں تم سب کے لیے بارگاہ خداوندی میں طلب مغفرت کروں گا۔(۲)

یہ آیات اس بات کی گواہ ہیں کہ توسل گذشتہ امتوں میں بھی تھا اور آج بھی باقی ہے۔

ہاں اس عقلی حدسے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور اولیاء خدا کو مستقل اور اذن خداوند سے بے نیاز نہیں سمجھنا چاہیے اس لیے کہ ایسا کرنا مشرک و کفر سبب بن جائے گا۔

اور ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ توسل، اولیاء الھی کی عبادت کی میں تبدیل ہوجائے، ایسا کرنا بھی کفر و شرک ہے ۔ اس لیے کہ وہ ذاتا اور بغیر اذن الھی سود و زیان نہیں پہچا سکتے۔

( قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ماشاء الله ) ۔ کہہ دیجیے کہ میں (حتی) کہ خود کو بھی فایدہ و نقصان نہیں پہچا سکتا مگر یہ کہ خدا ایسا چاہے۔(۳)

غالبا تمام اسلامی فرقوں کی عوام توسل کے مسئلے میں افراط و تفریط سے کام لیتی ہے۔ ایسے لوگوں کی ہدایت و راہنمایی کرنی چاہیے۔

____________________

( ۱) سورہ نساء آیہ ۶۴

( ۲) سورہ یوسف آیہ ۹۷،۹۸

( ۳) سورہ اعراف آیہ ۱۸۸

۱۹ ۔ تمام انبیاء کی دعوت کا مقصد ایک ہے۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء کا ہدف مشترک تھا اور وہ انسانی معاشرہ میں ایمان، خدا و قیامت ، دین کی صحیح تعلیم و تربیت اور اخلاقی اصولوں کی تقویت سے انسانوں کو سعادت تک پہچانا ہے۔ یہی دلیل ہے کہ تمام انبیاء محترم ہیں، قرآن مجید نے ہمیں اس بات کی تعلیم دی ہے:

( لا نفرج بین احد من رسله ) : ہمارے نزدیک انبیاء الھی کے در میان کوئی فرق نہیں ہے۔(۱)

اگر چہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ بشریت اعلی تعلیمات کے لیے بتدریج آمادہ ہوتی گئی اور ان تعلیمات کے عمق میں اضافی ہوتا گیا اور سلسلہ یہاں تک آگے بڑھا کہ آخری اور کامل ترین دین ا،سلام تک آگیا اور خداوند عالم کی طرف سے یہ حکم صادر ہوگیا کہ

( الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا ) ۔ آج میں نے تمہارے دین کو کامل کردیا اور اپنی نعمتوں کو تم پر تمام کردیا اور اسلام کو دین جاوید کے طور پر قبول کرلیا۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیہ ۲۸۵

۲۰ ۔ گذشتہ انبیاء کی خبریں

ہمارا عقیدہ ہے کہ بہت سے نبیوں نے اپنے بعد آنے والے پیغمبروں کی بشارت دی، جیسے حضرت موسی (ع) حضرت عیسی (ع) جنھوں پیغمبر اسلام (ص) کے بارے واضح نشانیوں کی ساتھ خبردی، جو آج بھی ان کی بعض کتابوں میں مندرج ہے:

( الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونه مکتوبا عندهم فی التورات والانجیل-----اولئک هم المفلحون ) ۔

جو لوگ اللہ کے امی (دنیا میں درس نہ پڑھنے والے اگر عالم و آگاہ) رسول کی پیروی کرتے ہیں، و ہی نبی جس کے صفات کو وہ تورات و انجیل جوان کے یاس ہے امین ہوتے ہیںایسے لوگ ہی کامیاب و کامران ہیں۔(۱)

اس بات کی دلیل ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام( ص) کی بعثت سے پہلے یہود کا ایک گروہ مدینہ آیا اور وہ بڑی نے صبری اور بے تابی سے آپ بعثت کا انتظار کر رہے تھے، اس لیے کہ انھوں نے اپنی کتابوں میں پڑھا تھا کہ اس کا ظہور اسی سرزمین سے ہوگا۔ اگرچہ آپ کے مبعوث بہ رسالت ہونے کے بعد ان میں سے بعض ایمان لے آئے اور بعض اپنے فایدوں کی وجہ سے مخالفت پر اترآئے۔

____________________

(۱)سورہ اعراف آیہ ۱۵۷

۲۱ ۔ انبیاء الھی انسانی زندگی کے تمام پہلو کی اصلاح چاہتے تھے۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ آسمانی ادیان جو اللہ کے رسولوں کو دیئے گیے بہ خاص طور پردین اسلام ، وہ صرف انسان کی فردی ا،نفرادی زندگی یا معنوی و اخلاقی مسائل تک منحصر نہیں تھے بلکہ وہ انسان کی معاشرتی زندگی کے تمام پہلووں اور گوشوں پر محیط تھے۔ یہاں تک کہ بہت سے علوم ،جو انسان کی روزمرہ زندگی کے لیے ضروری اور ناگزیر تھے، لوگ آپ سے ان کی تعلیم حاصل کرتے تھے، جس میں بعض کی طرف قرآن مجید میں بھی اشارہ کیا گیاہے۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء الھی کے منجملہ مہمترین اہداف میں سے ایک ہدف، سماج اور معاشرہ میں نظام عدل و انصاف قائم کرنا تھا:

( و لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معهم الکتاب و المیزان لیقوم الناس بالقسط ) ۔

ترجمہ: ہم نے اپنے رسولوں کے روشن دلایل کے ساتھ بھیجا ان کے ساتھ آسمانی کتاب اور میزان (حق کو باطل کی بھجان اور عادلانہ قوانین کو نازل کیا تا کہ (دیناکے) لوگ عدل و انصاف قائم کریں۔(۱)

____________________

(۱)سورہ حدید آیہ ۲۵

۲۲ قومی و نسلی امتیاز کی نفی

ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء الھی مخصوصا پیغمبر اسلام (ص) کسی طرح کے قومی و نسلی امتیاز کو قبول نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی نظر میں دنیاکی ساری نسلیں ، زبانیں ، قومیں اور ملتیں یکسان تھیں۔ قرآن مجید تمام انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے اعلان کرتاہے:

( یا ایها الذین آمنوا انا خلقنا کم من ذکر و انثی و جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند الله اتقاکم ) ۔

اے لوگوں ہم نے تمیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمییں خاندان اور قبیلوں میں قراردیا تا کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو (یہ کوئی امتیاز کا معیار نہیں ہے) ہم اللہ کے نزدیک تم سب سے زیادہ محترم سباسے زیادہ تقوی لوگ ہیں۔(۱) پیغمبر اسلام (ص) کی ایک نہایت معروف حدیث میں اس طرح سے ذکر ہواہے کہ سرزمین منی پر (حج کے موسم میں ) آپ اس حالت میں کہ شتر پرسوار تھے،

لوگوں کی طرف رخ کیا اور یہ حدیث ارشاد فرمائی:

( یا ایها الناس ، الا ان ربکم واحد و ان اباکم واحد، الا لا فضل لعربی علی عجمی، ولا لعجمی علی عربی، ولا لاسود علی احمر، ولا الاحمر ولی اسود، الا بالتقوی ) ۔

اے لوگوں ، جان لو کہ تمہارے پروردگار ایک ہے ، تمہارا باپ ایک ہے، نہ عرب کو عجم پر برتری ہے ، نہ عجم کو عرب دلی نہ سیاہ پوست کو گندمی رنگ والے پر برتری ہے، نہ گندمی رنگ والے کو سیاہ پوست والوں پر، اس برتری کا معیار صرف تقوی ہے۔ کیا میں نے ثم تک پیغام پہچادیا؟ سب نے کیا: ہاں۔ پھر فرمایا ابن بات کو حاضرین غائبین تک پہنچائیں۔(۲)

____________________

(۱) سورہ حجرات آیہ ۱۳

(۲) تفسیر قرطبی ، جلد ۹ صفحہ ۶۱۶۲

۲۳ ۔ اسلام اور انسانی سرشت

ہمارا عقیدہ ہے کہ خداوندعالم پر ایمان ، توحید اور انبیاء کی تعلیمات کے اصول اجمالی اور فطری طور پر تمام انسانوں کی سرشت میں موجود ہیں، انبیاء الھی نے ان پر ثمر تخموں کی آبیاری آب وحی سے کی ہے اور شرک و گمراھی کی جھاڑیوں کو انسان سے دور کیاہے:

( فطرة الله التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق الله ذلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لا یعلمون ) ۔

یہ (پروردگار کا خالص دین) ایسی فطرت ہے جس پر خداوند عالم نے تمام انسانوں کو خلق کیاہے اور خلقت الھی میں کوئی تبدیلی نہیں ہے (امہ پہ فطرت تمام انسانوں میں ثابت ہے) یہ استوار دین ہے مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔(۱)

یہی دلیل ہے کہ تاریخ میں ہمیشہ دین، انسانوں کے در میان رہا اور مورخین کے قول کے مطابق بے دینی و لا دینی ایک امر نادرست اور استثنایی ہے یہاں تک کہ بہت سے ایسے نامور مکتب جو ایک دراز مدت تک سختیوں اور پرو پینگنڈوں کے باعث ضد دین رہے ہیں، مگر انہیں جیسے ہی آزادی حاصل ہوئی، دینداری کی طرف لوٹ آئے ہیں۔

ہاں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بہت سی گذشتہ قوموںکا ثقافتی پچھڑا پن سبب بتنا کہ ان کے عقاید اور دینی آداب خرافات اور بدعتوں کی نذر ہوجائیں اور اس مقام پر ، انبیاء الھی کا کام ایسی بدعتوں اور خرافات سے مقابلہ کر آئینہ فطرت انسان سے غبار باطل کو صاف کرنا ہوتا تھا۔

____________________

(۱) سورہ روم آیہ ۳۰

بخش سوم۔ قرآن اور کتب آسمانی

۲۴ ہمارا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم نے انسانوں کی ہدایت کے لیے متعدد آسمانی کتابوں کو نازل کیا۔

خدا اور عبادت پروردگار میں خطا کا شکار ہوجاتا اور تقوی و اخلاق و تربیت کے اصولوں اور انسانی سماج کے قوانین سے بے بھرہ رہ جانا۔

یہ آسمانی کتابیں باران رحمت کی طرح صفحہ دل بر نازل ہوئیں اور تقوی و اخلاق و معرفت ت خدا و علم و حکمت کے بذر کو انسانی سرشت میں کاشت کرنے کے بعد انھیں پرورش دے کر ثمرہ تک پہچایا۔

( آمن الرسول بما انزل الیه من ربه والمومنون کل آمن بالله و ملائکته و کتبه و رسله ) ۔

ترجمہ: اے پیغمبر، جو کچھ اللہ کی طرف سے ان پر نازل ہوا، سب پر ایمان لائے اور تمام مومنین (بھی) خدا و ملائکہ اور تمام آسمانی کتب اور ان کے لانے والوں پر ایمان لائے۔(۱)

اگرچہ صد افسوس کہ زمانہ گزرنے اور جاہلوں اور نا اھلوں کی دخالت کی وجہ سے بہت سی آسمانی کتا تحریف کا شکار ہوگئیں اور ان میں باطل افکار مخلوط ہوگیے، مگر قرآن مجید بعض دلائل کی وجہ سے جن کا ذکر بعد میں آئے گا، تحریف سے محفوظ رہا اور آفتاب کی طرح ہر زمانہ اور صدی میں نور ا فشانی کرنا رہا اور قلوب کو منور کرتا رہا۔

( قد جائکم من الله نور و کتاب مبین یهدی به الله من اتبع رضوانه سبل السلام ) ۔

خداوند عالم کی طرف سے نور اور کتاب مبین تمہارے پاس بھیجے گیے۔ پروردگار عالم اس کی برکت سے، ایسے لوگوں کو ،جو خوشی سے اس کی پیروی کرتے ہیں، راہ سلامت ( و سعادت ) کی طرف ہدایت کرتا ہے ۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیہ ۲۸۵

۲۵ قرآن مجید، پیغمبر اسلام(ص) کاسب سے بڑا معجزہ ۔

۳۳ ۔ سنت آیمہ اھل بیت علیہم السلام ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید، پیغمبر اسلام (ص)کے مہمترین معجزوں میں ہے، صرف فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ شیرینی بیان اور معانی کے بلیغ ہونے کے لحاظ سے بھی، ان کے علاوہ دوسرے مختلف جہات کے اعتبار سے بھی قرآن مجید اعجاز ی حیثیت رکھتاہے۔ جس کی شرح و تفصیل عقاید و کلام کی کتابوں میں موجود ہے۔

اسی دلیل کے سبب ہمارا عقیدہ ہے کہ کوئی قرآن کی مانند حتی اس کے ایک سورہ کی مثال نہیں لاسکتا ۔قرآن نے بارھا شک و تردید کرنے والوں کو دعوت مقابلہ دی مگر کسی میں اس کی نظیر لانے کی جرات پیدا نہ ہوسکی:

( قل لئن اجتمعت الانس والجن ولی ان یاتوا بمثل هذا القرآن لا یاتون بمثله و لو کان بعضهم لبعض ظهیرا ) ۔

اے بنی کہہ دیجئیے کہ اگر انسان و جنات مل کر اس قرآن کا جواب لانا چاہیں تو بھی اس کا جواب نہیں لاسکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے شریک بن جائیں۔(۱)

( و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورة من مثله وادعوا شهداء کم من دون الله ان کنتم صادقین ) ۔

جو کچھ ہم نے اپنے بندہ (محمد) پر نازل کیاہے اگر اس میں شک و تردید ہے تو (کم از کم) اس جیسا ایک سورہ لے آؤ اور اللہ کے سوا اس کام کے لیے اپنے گواہوں کو دعوت دو اگر تم سچے ہو۔(۲)

اور ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید، زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف یہ کہ کہنہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے اعجازی نکات اور زیادہ آشکار اور اس کی عظمت دنیا والوں پر روشن ہوتی جاتی ہے۔

امام صادق علیہ السلام ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں:

( ان الله تبارک و تعالی لم یجعله لزمان دوزمان و لناس دون ناس فهو فی کل زمان جدید و عند کل قوم غض الی یوم القیامة ) ۔

خداوند متعال نے قرآن مجید کو ایک خاص زمانہ یا گروہ کے لیے قرار نہیں دیاہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ ہر زمانہ میں تازہ اور ہر گروہ کے نزدیک قیامت تک کے لیے با طراوت رہے گا۔(۳)

____________________

(۱) سورہ اسراء آیہ ۸۸

(۲)سورہ بقرہ آیہ ۲۳

(۲)سورہ بقرہ آیہ ۲۳

۲۶ ۔ قرآن مجید میں تحریف نہیں ہوئی ہے ۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ آج دنیا کے مسلمانوںکے پاس جو قرآن مجید ہے ، وہ وہی ہے جو پیغمبر اسلام پر نازل ہوا تھا اور اس میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوئی ہے۔ ابتداء نزول وحی سے ہی اصحاب کا ایک بڑا گروہ ، قرآن مجید کی آیات کو نازل ہونے کے بعد لکھا کرتا تھا اور مسلمانوںکایہ فریضہ تھا کہ شب و روز اس کی تلاوت کریں اور پنج گانہ نماز میں اس کی تکرار کریں ۔ایک عظیم گروہ قرآن مجید کے حافظ اور قاری کی حیثیت رکھتا تھا جس کو اسلامی معاشرہ میں ایک خاص مقام و منزلت حاصل رہی ہے ۔

یہ ساری باتیں اور ان کے علاوہ دوسری باتیں سبب بنیںکہ قرآن مجید چھوٹی سے چھوٹی تحریف و تغییر سے محفوظ رہا ۔

اس کے علاوہ خدا وند عالم نے قرآن مجید کی دنیا کے ختم ہو نے تک حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ذمہ داری کے بعد قرآن مجید میں کسی بھی طرح کی تغییر و تحریف کا ہونا ممکن نہیں ہے۔( انّا نحن نزلنا الذکر و انّا له لحافظون ) ) ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی قطعی طور پر اس کی حفاظت کریں گے۔ بزرگ اسلامی علماء و محققین شیعہ ہوں یا سنی سب اس امر پر متفق ہیں کہ قرآن مجید میں کسی بھی طرح کی تحریف نہیں ہوئی ہے ، سوائے دونوںگروہ کے بعض افراد کے جو بعض روایات کی وجہ سے تحریف کے قائل ہیں حالانکہ دونوںگروہوں کے علماء ان کے نظریہ کو قاطعیت کے ساتھ رد کرتے ہیں اور تحریف کی روایات کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ یا انہیں تحریف معنوی (یعنی آیات قرآن کی غلط تفسیر کرنا)یا تفسیر قرآن کو متن قرآن سے خلط کردینا، جانتے ہیں، اس بات پر دقت ہونا چاہئے۔

ایسے کو تاہ فکر حضرات جن کا تحریف قرآن پر عقیدہ ہے حالانکہ شیعوں اور سنیوں کے بزرگ علماء صریحاً تحریف قرآن کی مخالفت کرتے ہیں ، شیعہ و غیر، گروہ کی طرف اس کی نسبت دیتے ہیں اور ناآگاہانہ طو رپر قرآن مجید کی حیثیت کونقصان پہنچاتے ہیں اور اپنے ان تعصب بھرے عمل سے ، اس مقدس آسمانی کتاب کے اعتبار کو زیر سوال لارہے ہیں اور اس کے تقدس کو مخدوش کر نے کا موقع دشمن کو فراہم کررہے ہیں

جمع آورئی قرآن کے تاریخ سے یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اسلام کے زمانے ہی میں جمع آوری قرآن کے تاریخی عصر پیغمبر میں قرآن کے جمع ہو جانے ، اس کے لئے غیر معمولی اہتمام و انتظام ، مسلمانوں کا کتابت ، حفظ و حفاظت کرنا خصوصاً گروہ کاتبان وحی کا روز اول سے وجود میں آنا ، اس حقیقت کو آشکار کردیتا ہے کہ قرآن مجید میں تحریف ہو نا غیر ممکن امر رہاہے۔

اور اس قرآن کے علاوہ کسی دوسرے قرآن کا وجود نہیں ہے اس بات کی دلیل بالکل واضح ہے اور اس کی تحقیق کے راستے سب کے لئے کھلے ہوئے ہیں اس لئے کہ آج قرآن تمام گھروں ، مسجدوں ، کتب خانوں میں موجود ہے حتی کہ وہ خطی نسخے بھی سینکڑوں سال پہلے لکھے گئے ہیں اور میوزیم میں رکھے ہوئے ہیں سب اس بات کی علامت ہیں کہ یہ وہی قرآن ہے جو جو تمام اسلامی ممالک میں پایا جاتا ہے اور اگر گزشتہ وقتوں میں اس بات کی تحقیق کے وسائل فراہم نہیں تھے تو آج یہ امکان فراہم ہے اور سب کے لئے تحقیق کے راستے کھلے ہیں مختصر جستجو اور تحقیق سے ان باتوں کے بے بنیاد ہونے کی حقیقت آشکار ہو جائے گی۔ فبشّر عبادی الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ ۔ میرے بندوں کو بشارت دیدو کہ جب وہ باتوں کو سنتے ہیں تو ان میں سے بہترین کی پیروی کرتے ہیں آج کے دور میں ہمارے مدرسوں میں علوم قرآنی بطور وسیع تدریس کئے جاتے ہیں مھم ترین بحث جو ان مدرسوں میں ہو تی ہے وہ قرآن مجید میں تحریف و تغیر کا نہیں پایا جانا ہے۔(۱)

____________________

(۱) ہم نے اپنی کتابوں تفسیر و اصول فقہ کے علاوہ تحریف قرآن سے متعلق مفصل بحثیں کی ہیں (کتاب انوار الاصول اور تفسیر نمونہ کی طرف رجوع کریں )