ہمارے عقیدے

ہمارے عقیدے0%

ہمارے عقیدے مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

ہمارے عقیدے

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 14906
ڈاؤنلوڈ: 4057

تبصرے:

ہمارے عقیدے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 14906 / ڈاؤنلوڈ: 4057
سائز سائز سائز
ہمارے عقیدے

ہمارے عقیدے

مؤلف:
اردو

۲۷ ۔ قرآن اور انسانی زندگی کی مادی و معنوی ضروریات

ہمارا عقیدہ ہے کہ جو کچھ انسانی زندگی کی مادی و معنوی ضروریات ہیں ان کے اصول و کلیات قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں نظام حکومت اور مسائل سیاسی دوسرے کے ساتھ معاشرتی روابط ، اصول معاشرت ، جنگ و صلح عدالتی و اقتصادی مسائل وغیرہ ان کے اصول و کلیات بیان ہوئے ہیں جن پر عمل سے ہماری زندگی کے مسائل حل اور بہتر ہو سکتے ہیں

ترجمہ آیت : ہم نے اس کتاب کو تم پر نازل کیا جو تمام چیزوں کے بارے میں بیان کرنے والی ہے اور مسمانوں کے لئے ھدایت و بشارت ہے اور مسلمانوں کو حکم دیتی ہے کہ اپنی حکومت کی زمام خود سنبھالیں اور بلند پایہ اسلامی اقدار کو اس کی مدد سے زندہ کریں اور اسلامی سماج کی اس طرح سے تربیت ہو کہ تمام لوگ عدل و انصاف کی راہ پر گام زن ہو جائیں اور دوست و دشمن سب کے ساتھ عدل و انصاف کرنے کا نظام قائم ہو جائے ۔

( یا ایها الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شهداء لله و لو علی انفسکم اووالدین و الاقربین ) ۔

اے ایمان لانے والوں عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے قیام کرو اور خدا کے لئے شھادت دو اگر چہ وہ تمہارے یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے لئے نقصان کا باعث ہو۔

( ولا یجرمنکم شنئان قوم علی ان الا تعدلوا اعدلو ا هوا اقرب للتقوی ) ۔

ہر گز ایسا نہ ہو کہ کسی گروہ سے دشمنی تمہیں گناہ وبے انصافی تک لے جائے عدل و انصاف کرو کہ وہ تقوی اور پرھیزگاری سے زیادہ نزدیک ہے ۔

اس دلیل کی وجہ سے ہمارا عقیدہ ہے کہ ہرگز اسلام حکومت و سیاست سے جدا نہیں ہے ۔

۲۸ ۔ تلاوت تدبر و تفکر اور عمل

ہمارا عقیدہ ہے کہ تلاوت قرآن افضل ترین عبادتوں میں سے ہے کم عبادتیں ہیں کہ جو اس کے پائیہ منزلت تک پہونچ سکتی ہیں اس لئے کہ یہ تلاوت فکر کو الھام بخشنے والا ، قرآن میں تدبر اور تفکر کرنے اور نیک و صالح اعمال کا سرچشمہ ہے ۔

قرآن پیغمبر اسلام کو خطاب کرکے فرماتا ہے :

( قم اللیل الا قلیلاً ،نصفه او انقص منه قلیلاً او زد علیه و رتّل القرآن ترتیلاً ) ۔

شب میں کم عبادتیں کریں آدھی رات (بیدار ہوں) یا اس سے پہلے کی بیداری کو کم کریں یا بڑھائیں اور تلاوت قرآن مجید کو دقت اور فکر کے ساتھ تلاوت کریں قرآن تمام مسلمانوں کو خطاب کر کے فرماتا ہے : جہاں تک ممکن ہو سکے قرآن کی تلاوت کیا کرو ۔قرآن کی تلاوت تا حد امکان کرو ۔

ہاں لیکن جیسا کہ بیان کیا گیا قرآن کی تلاوت اس میں اور اس کے معنی میں تفکر و رتدبر کا سبب ہونا چاہئے اور یہ تفکر و تدبر اس پر عمل کرنے کے لئے مقدم ہونا چاہئے( افلا یتدبرون القرآن ام علی قلو بهم اقفالها ) ۔ کیا وہ قرآن میں تفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر مہر لگ گئی ہے۔

( و لقد یسرنا القرآن للذکر فهل من مذکر ) ۔ ہم نے قرآن مجید کو یاد آوری کے لئے آسان کر دیا ہے آیا کوئی ہے جو اس پر عمل کرے۔(۱)

ہذا کتاب انزلناہ مبارک فاتبعوہ یہ پر برکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ نازل کیا ہے لہذا اس کی پیروی کریں لہذا وہ لوگ جو قرآن کی تلاوت اور حفظ پر قناعت کر تے ہیں اور اس کی آیات میں غورو فکر نہیں اور اس کے معنا پر عمل نہیں کرتے ، اگر چہ انہوں نے تین میں سے ایک رکن پر عمل کیا ہے لیکن دو زیادہ اہم رکن سے محروم رہے ہیں اور عظیم خسارہ اٹھایا ہے ۔

____________________

(۱) بدیہی اور واضح ہے اگر تفسیر بہ رای کرنے والا شخص صحیح و سالم ایمان کا مالک ہو تا تو کلام خداکو اسی معانی و مفاھیم کے ساتھ قبول کرلیتا اور اسے اپنے میل اور ھوا وھوس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کرتا ۔

۲۹ ۔انحرافی بحثیں

ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن میں غورو فکر و تدبر اور ان پر عمل سے لوگوں کومنحرف ہمیشہ نا محسوس سازشوں کا جال بچھایا گیا ہے ، حکام بنی امیہ اور بنی عباس کے دور میں کلام الھی کے حاد ث یا قدیم ہو نے کی بحث کو ہوا دی گئی اور مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا یا گیا اس بحث کے نتیجہ میں مسلمانوں کا کافی خون بہا ، آج سب پر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ یہ بحث اصلااپنے صحیح مفہوم کے الحاظ سے کسی نزاع کاباعث نہیں بنتی اس لئے کہ اگر کلام الھی سے مراد حروف و نقوش و کتابت و کاغذ کو لیا جائے تو واضح ہے کہ یہ سب حادث ہیں اور اس سے مراد اسکے وہ معانی ہوں میں ہیں تو بے شک علم خدا اسکی ذات کی طرح قدیم اور ازلی ہے مگر ظالم حاکموں اور خلفاء نے مسلمانوں کو سالہا اس میں مشغول رکھا اور آج بھی کچھ لوگ ہیں جو چاہتے ہیںکہ دشمن اور دوست نما دشمن پہ پروپیگنڈے کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو ہر طرح سے قرآن مجید غورو فکر اور اس پر عمل سے روکا جائے ۔

۳۰ ۔ تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط

ہمارا عقیدہ ہے کہ الفاظ قرآن کریم کو اس کے عرفی معانی پر حمل کرنا چاہئے مگر یہ کہ آیت کے ظاہر و باطن میں قرینہ عقلی یا نقلی پایا جاتا ہو کسی دوسرے معنا پر دلالت رکھتا ہو (البتہ مشکوک قرائن پر اعتماد سے پرہیز کرنا چاہئے ) اور آیات قرآنی کی اندازہ اور گمان کے تفسیر نہیں کرنی چاہئے ۔

مثلاًاگر قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے( و من کان فی هذه اعمی فهو فی الآخرة اعمی ) ) جو اس دنیا میں نابینا ہے وہ آکرت میں بھی نابینا اور گمراہ ہو گا ۔ اس بات کا یقین ہے کہ یہاں لفظ اعمی سے مراد ظاہر نابینائی نہیں ہے جو اس کے لغوی معنا ہیں اس لئے کہ بہت سے نیک اور پاک لوگ ایسے بھی ہیں جو ظاہراً نابینا ہیں تو یہا ں پر اس سے مراد باطن کی نابینائی اور گمراہی ہے ۔

یہاں پر قرینہ عقلی کا وجود اس تفسیر کی طرف راہنمائی کرتا ہے اسی طرح سے قرآن مجید میں اسلام دشمن گروہ کے بارے میں ارشاد ہوا ہے :

( صم ٌ بکمٌ عمیٌ فهم لا یعقلون ) وہ لوگ گونگے بہرے اور اندھے ہیں اسی وجہ سے کچھ نہیں سمجھتے ۔

آشکار اور واضح ہے کہ ظاہری اعتبار سے وہ لوگ گونگے ، بہرے اور اندھے نہیں تھے بلکہ یہ ان کے باطنی اوصاف تھے اس آیة کریمہ کی یہ تفسیر ہم نے قرینہ حالیہ کی بنیاد پر کی ہے ۔

قرآن مجید خدا وند عالم کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے بل یداہ مبسوطتان اللہ کے دونو ں ہاتھ کشادہ ہیں یا دوسرے مقام پر ارشاد ہوا ہے :( و اصنع الفلک باعیننا ) (اے نوح ) ہماری آنکھوں کے سامنے کشتی بناؤ ۔

ہرگز ان آیات کا یہ مطلب نہیں ہے جہ خدا وند عالم آنکھ ،کان، اور ہاتھ جیسے اعضاء جسم رکھتا ہے ، اس لئے کہ جسم اجزاء سے تشکیل پاتا ہے اور سے زمان و مکامن جھت کی ضرورت ہوتی ہے اورا س کا انجام فنا ہو جانا اور مٹ جانا ہے اورخدا وند متعال ان صفات جسمانی اور مادہ سے منزہ و مبرّا ہے ۔ لہذا یداہ (ہاتھو ں ) سے مراد اللہ تبارک و تعالی کی قدرت کاملہ ہے جس نے تمام عالمین کو اپنے قبضئہ قدرت میں لے رکھا ہے اور عین (آنکھوں ) سے مراد تمام اشیاء اور مخلوقات کے بارے میں علم و آگاہی رکھنا ہے ،۔

ان اسباب کی بناء پر ہم ہرگز مندرج بالا تعبیرات کے سلسلہ میں ( چاہے وہ صفات خدا کے باب میں ہوں یا اس کے علاوہ ۔ہم جمود و رکود اختیار نہیں کرتے اور قرائن عقلی اور نقلی کو نظر انداز نہیں کرتے اس لئے کہ دنیا کے تمام سخن پرور اور سخنوران قرائن پر تکیہ کر تے ہیں اور قرآن مجید نے بھی اس طریقہ اور روش کی تایید کی ہے وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ ہم نے تمام انبیاء کو ان کے قوم کی زبان کے ساتھ مبعوث کیا ہے

۳۱ ۔ تفسیر بہ رای کے خطرات

ہمارا عقیدہ ہے کہ تفسیر بہ رای قرآن کے وجود کے لئے سب سے خطرناک چیز ہے جسے اسلامی روایات میں گناہ کبیرہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور تفسیر بہ رای کرنے والا بارگاہ قرب خداوند ی سے مردود ہو جاتا ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ خداوند نے ارشاد فرمایا کہ ما امن بی من فسّر برایہ کلامی ۔ جس نے میرے سخن کی اپنے میل اور من سے اپنے ھوای نفس کے مطابق تفسیر کی وہ ایسا ہے کہ گویا مجھ پر ایمان ہی نہیں لایا۔

بہت سی معروف مشہور کتابوں میں (جیسے صحیح ترمذی و سنن نسائی و سنن ابی داوود )( یہ حدیث پیغمبر اسلام سے نقل ہو ئی ہے آپ نے فرمایا :من قال فی القرآن برایه او بما لا یعلم فلیتّبوء مقعده فی النار ۔ جس نے قرآن مجید کی تفسیر اپنے ھوا و ھوس اور میل کے مطابق کی یا نہ جاننے کے باوجود اس بارے میں اپنی رای کا اظہار کیا ، اس کا مقام اور ٹھکانا جہنم ہے۔

تفسیر بہ رای سے مراد یہ ہے کہ انسان قرآن مجید کو اپنی تمایلات اور شخصی عقیدہ یا گروہی عقیدہ کے مطابق معنا و تفسیر کرے یا ان پر تطبیق کرے حالانکہ اس پر کوئی قرینہ یا شاھد موجود نہ ہو ایسا کرنے والا وقعیت میں قرآن کے حضور میں تابع اور اس کا مطیع نہیں ہے بلکہ وہ قرآن کو اپنا تابع بنانا چاہتا ہے اور اگر وہ قرآ ن مجید پر کاملا ً ایمان رکھتا تو ہر گز ایسا نہیں کرتا ۔ اگر تفسیر بہ رای قرآن کے بارے میں ہوتی رہی تو بلا شبہ پوری طرح سے اس کا اعتبار ختم ہوجائے گا اور جب ہر شخص اپنی میلان کے مطابق اس کے معنا اور تفسیر کرنے لگے گا تو ہر باطل عقیدہ قرآن کے اوپر تطبیق دیا جانے لگے گا ۔

لہذا تفسیر بہ رای یعنی قوانین و مقررات علم لغت اور ادبیات عرب ، فھم اھل زبان کے خلاف قرآن مجید کی تفسیر اور اسے اپنے باطل گمان اور خیالات و رای اور تمایلات شخصی و گروہی کے مطابق تطبیق دینا ، قرآن مجید میں معنوی تحریف کا سبب ہو جائے گا ۔ تفسیر بہ رای کی کئی شاخیں ہیں ان میں سے ایک آیات قرآن کے ساتھ جدا جد نا برتاؤ کرنا ہے ، اس معنا میں کہ انسان مثلاً شفاعت و توحید و امامت وغیرہ کی بحث میں صرف ان آیات کا انتخاب کرے جو اس کے نظریہ کے موافق ہو ں اور ان آیات کو جو اس کے مزاق سے موافقت نہ رکھتی ہوں اور دوسری آیات کی تفسیر کر سکتی ہوں انھیں نظر انداز کرے یا ان کی بحث سے سرسری اور بے توجھی سے گزرجائے ۔

خلاصہ کلام یہ کہ : جس طرح سے الفاظ قران کریم کے بارے میں جمود اختیار کرنا اور معتبر وعقلی و نقلی قرینوں پر توجہ نہ کرنا ایک طرح سے انحراف ہے تفسیر بہ را ی بھی اسی طرح کا انحراف شمار کی جائے گی جبکہ دونوں ہی قرآن کی اعلی و مقدس تعلیمات سے دوری کا سبب بنتا ہے یہ نکتہ غور طلب ہے ۔

۳۲ ۔ سنّت کا منبع اللہ کی کتاب ہے

ہمارہ عقیدہ ہے کہ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ (کفانا کتاب اللہ ) ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے اور احادیث اور سنّت نبوی کہ جو تفسیر و تبیین و حقائق قرآن فہم ناسخ و منسوخ ، خاص و عام قرآن کے بارے میں یا تعلیمات اسلامی سے مربوط ہیں جو اصول و فروع دین سے متعلق ہیں۔ انھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ قرآن مجید کی آیات سنّت پیغمبر اور ان کے کلمات و افعال مسلمانوں کے لئے اصلی منبع قرار دئے گئے ہیں ۔( وما اتاکم الرسول فخذوه و ما نهاکم عنه فانتهوا ) جو کچھ رسو ل خدا تمہارے لئے لائے (اور تمہیں اس کا حکم دیا اسے لے لو(اور اس پر عمل کرو ) اور جس چیز سے منع کیا ہے اسے چھوڑ دو ۔

( وما کان لمومن ولا مومنة اذا قضی الله و رسوله امراً ان یکون لهم الخیرة من امرهم و من یعص الله و رسوله فقد ضلّ ضلا لا مبیناً ) ۔

کسی بھی مومن مرد و عوررت کو یہ حق حاصل نہیں ہے جب اللہ یا نبی کسی اور کو لازم کہین اس کے سامنے اختیار رکھتا ہو (اللہ کے حکم کے سامنے) اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے وہ کھلم کھلا گمراہی میں گرفتار ہو چکا ہے ۔

جوہ لوگ سنّت نبوی کی پرواہ نہیں کرتے اصل میں وہ قرآن مجید کو نظر انداز کرتے ہیں حالانکہ واضح اور بدیھی ہے کہ سنت پیغمبر کو معتبر طرق سے ثابت ہونا چاہئے اور ہر حدیث کو کوئی بھی آنحضرت کی طرف نسبت دیدے قبول نہیں کرنا چاہیے ۔

حضرت علی علیہ السلام اپنی ایک حدیث میں ارشاد فر ماتے ہیں :و لقد کتاب علی رسول الله حتی قاما خطیباً فقال: من کذب علیٌ متعمداً فلیتّبو ء مقعده من النار ۔نبی اسلام کے زمانے میں آپ کی طرف جھٹی نسبتیں دی گئی یہاں تک کہ آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ پڑھنے کے بعد فرما یا :جو بھی جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی نسبت دے گا اسے اپنے مقام جہنم کے لئے تیار ہوجانا چاہئے ۔ اسی معنی کی ایک حدیث صحیح بخاری میں بھی نقل ہوئی ہے ۔

۳۳ ۔ سنت آیمہ اھل بیت علیہم السلام

ہمارا عقیدہ ہے کہ احادیث آیمہ علیہم السلام بھی حکم پیغمبر کی طرح واجب الاطاعت ہیں اس لئے کہ اولاً : معروف و مشہور و متواتر حدیث جو اکثر شیعہ و سنی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ان میں اس معنا کی تصرہح ہوئی ہے ، صحیح ترمذی میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا :

یا ایها الناس انی قد ترکت فیکم ما ان اخذ تم به لن تضلوا کتاب الله وعتری اهل بیتی ۔ اے لوگوں میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر ان سے متمسک رہے تو ہر گز گمراہ نہیں ہو گے ایک اللہ کی کتاب دوسرے میرے اھل بیت ۔(۱)

ثانیاً ۔ائمہ اھل بیت اپنی تمام حدیثوں کو نبی اکرم سے نقل کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جو ہم کہتے ہیں وہ ہمارے باپ دادا سے ہم تک پہونچی ہے ۔

یقینانبی اسلام مسلمانوں کی آیندہ کی مشکلوں کو سیکھ رہے تھے لہذا آپ نے مشکلوں کے لئے حل بتا دیا دنیا کے ختم ہونے تک آنے والی مشکلات کا حل قرآن و اھل بیت کے دامن سے تمسک اختیار کرنے میں ہے ۔

کیا ممکن ہئے کہ ہم اس حدیث کو جو اس قدر اہمیت کی حامل ہےھاور اتنے قوی محتوی اور سند کی مالک ہ ے اسے نظر انداز کیا جائے اور سرسری طور پر اسے پڑھ کر گزر جائیں ۔ اسی دلیل کی بنیاد پر ہمارا عقہدہ ہے کہ اگر اس مسئلہ کے بارے میں توجہ دی گئی ہوتی تو آج مسمانوں کی بعض مشکلیں جو عقاید و فقھی مسائل سے متعلق ہین نہ ہو تی ۔

____________________

(۱) صحیح ترمذی جلد ۵ ،ص ۶۶۲ ،باب مناقب اہل بیت النبی حدیظ ۷۸۱ ۳ اس ھدیث کی متعدد سندوں کا ذکر امامت کی بحث میں آئے گا ۔