۵۴ ۔صحابہ،عقل اور تاریخ کی عدالت میں
ہمارا عقیدہ ہے کہ:پیغمبر (ص) کے اصحاب میں بڑے عظیم،جاں نثار اور عظمت والے لوگ تھے ۔قرآن و حدیث نے انکی فضیلت میں بہت کچھ بیان کیا ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم تمام اصحاب پیغمبر (ص) کو معصوم سمجھنے لگیں اور کسی استثناء کے بغیر ان کے اعمال کو درست قرار دیں ۔کیونکہ قرآن نے بہت سی آیات (سورئہ توبہ،سورئہ نور ،اور سورئہ منافقین کی آیات)میں ایسے منافقین کا تذکرہ کیا ہے جو اصحاب پیغمبر (ص) میں شامل تھے۔ظاہری طور پر وہ ان کا حصّہ تھے لیکن اس کے باوجود قرآن نے ان کی بہت زیادہ مذمت کی ہے۔دوسری طرف سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے پیغمبر (ص) کے بعد مسلمانوں میں جنگ کی آگ بھڑکائی،انہوں نے وقت کے امام اور خلیفہ کی بیعت توڑ دی اور دسیوں ہزار مسلمانوں کا خون بہایا۔ کیا ہم یہ کہ سکتے ہیںکہ یہ افراد ہر لحاظ سے پاک و منزّہ تھے؟
بالفاظ دیگر نزاع اور جنگ(مثلا جنگ جمل و صفین) کے دونوں فریقوں کو کس طرح صحیح اور درست قرار دیا جا سکتا ہے؟یہ تضاد ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے۔کچھ لوگ اس کی توجیہ کے لئے ”اجتہاد“ کے بہانے کو کافی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک فریق حق پر تھا اور دوسرا خطا کار لیکن چونکہ اس نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا ہے لھذٰا خدا کے نزدیک اسکا عذر قابل قبول ہے،،بلکہ اسکو صواب ملے گا ۔ہمارے لئے اس استدلال کو قبول کرنا مشکل ہے۔
اجتہاد کا بہانہ بنا کر پیغمبر (ص) کے جانشین کی بیعت کیسے توڑی جا سکتی ہے؟ اور پھر جنگ کی آگ بھڑکا کر بے گناہ لوگوں کا خون کیسے بہایا جا سکتا ہے؟اگراجتہاد کا سہارا لیکر اس قدر بے تہاشا خونریزی کی توجیہ کی جا سکتی ہے تو پھر کون سا ایسا کام ہے جسکی توجیہ نہ ہو سکے؟
ہم واضح طور پر کہیں گے کہ ہمارے عقیدہ کی رو سے تمام انسانوں ،یہاں تک کہ پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب کی اچھائی برائی کا سار و مدار انکے اعمال پر ہے۔قرآن کا یہ زرّین اصول(
انّ اکرمکم عند الله اتقٰیکم
)
یعنی خدا کے نزدیک تم سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے(سورئہ حجرات آیت ۱۲) ان کو بھی شامل ہے۔
لھٰذا ہمیں ان کے اعمال سامنے رکھتے ہوئے ان کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا ۔ یوں ہم ان سب کے بارے میں ایک منطقی موقف اختیار کرتے ہوئے کہ سکتے ہیں کہ جو لوگ آنحضرت (ص) کے دور میں مخلص اصحاب کی صف میں شامل تھے اور پیگمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد بھی وہ اسلام کی حفاظت میں کوشاں رہے اور قرآن کے ساتھ اپنے وعدہ کو نبھاتے رہے،ہم ان کو اچھا سمجھتے ہیں اور انکا احترام کرتے ہیں ۔ لیکن جو لوگ آنحضرت لے دور میں منافقین کی صف میں شامل تھے اور انہوں نے ایسے کام کئے جن سے پیغمبر (ص) کا دل دکھایا اور پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد انہوں نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا اور ایسے کام کئے جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے نقصان دہ تھے تو ہم انہیں نہیں مانتے۔ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے(
لا تجد قوما یومنون بالله والیوم الآخر یوآدّون من حآدّالله ورسوله ولوکانوا آبائهم او ابنائهم او اخوانهم اوعشیرتهم اولٰٓئک کتب فی قلوبهم الایمان
)
یعنی آپ خدا اور قیامت پر ایمان لانے والوں کو خدا اور رسول (ص) کے ساتھ نافرمانی کرنے والوں کے ساتھ دوستی کرتے ہوئے نہیں پائیں گے، اگر چہ وہ ان کے باپ ،اولاد ،بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ یہ لوگ ہیں جن کے صفحات قلوب پر اللہ نے ایمان کو لکھ دیا ہے۔(سورئہ مجادلہ ،آیت ۲۲)
جی ہاں ؛جو لوگ پیغمبر (ص) کی زندگی میں یا حضور کی ر حلت کے بعد پیغمبر (ص) کو تکلیف پہونچاتے رہے وہ ہمارے عقیدہ کے مطابق احترام کے قابل نہیں ہیں۔
لیکن یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ پیغمبر (ص) کے بعض اصحاب نے اسلام کی ترقی کے لئے بڑی بڑی قربانیاں انجام دی ہیں ۔ خدا نے بھی ان کی تعریف و تمجید کی ہے۔اسی طرح جو لوگ ان کے بعد آئے یا دنیا کے خاتمہ تک آتے رہیں گے اگر وہ حقیقی اصحاب کے راستہ پر چلتے ہوئے ان ک کے مشن کو آگے بڑھائیں تو وہ بھی تعریف اور تمجید کے لائق ہیں ۔ارشاد ہوتا ہے(
السّابقون الاوّ لون من المهاجرین والانصار والّذین اتّبعوهم باحسان رضی الله عنهم و رضوا عنه
)
یعنی مھاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے اوّلین افراد نیز نیکیوں میں انکی پیروی کرنے والوں سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں ۔(سورئہ توبہ ،آیت ۱۰۰)
یہ ہے پیغمبر اسلام (ص) کے اصحاب کے متعلق ہمارے عقیدہ کا خلاصہ ۔
۵۵ ۔اہل بیت ،علوم پیغمبر (ص) سے ماخوز ہیں
ہمارا عقیدہ ہے کہ :چونکہ متواتر روایات کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) نے ہمیں اہل بیت کے متعلق حکم دیا ہے کہ ہم ان دونوں کا دامن نہ چھوڑیں تاکہ ہم ہدایت پائیں،نیز چونکہ ہم آئمّہ اہل بیت (ع) کو معصوم سمجھتے ہیں ،اس لئے ان کی ہر بات اور ان کا ہر عمل ہمارے لئے حجت اور دلیل ہے ۔اسی طرح ان کی تقریر (یعنی ان کے سامنے کوئی کام انجام پائے اور وہ اس سے منع نہ کریں ) بھی حجت ہے۔بنا بریں قرآن و سنت کے بعد ہمارا ایک فقہی ماخذ آئمہ اہل بیت (ع) کا قول،فعل اور تقریر ہے۔
اور چونکہ متعدد اور معتبر روایات کے مطابق آئمّہ اہل بیت (ع) نے فرمایا ہے کہ ان کے فرامین رسول اللہ (ص) کی احادیث ہیں جو وہ اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہیں ،بنابر ایں واضح ہے کہ حقیقت میں ان کے فرامین پیغمبر (ص) کی روایات ہیں ۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) سے ثقہ اور با اعتماد شخص کی روایت علمائے اسلام کے نزدیک قابل قبول ہے۔
امام محمد بن علی الباقر علیہ السلام نے جابر سے فرمایا(یا جابر انّالو کنّانحدّثکم براٴینا و هو ان ا لکنّا من الهالکین ،ولکن نحدّثکم باحادیث نکنذها عن رسول الله صلّی الله علیه وآله وسلّم
)یعنی اے جابر ؛اگر ہم اپنی رائے اور خواہشات نفسانی کی بناء پر تمہارے لئے کوئی بات بیان کریں تو ہم تباہ ہونے والوں میں شامل ہو جائیں گے ۔ لیکن ہم تمہارے لئے ایسی احادیچ نقل کرتے ہیں جو ہم نے رسول خدا صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے خزانہ کی صورت میں جمع کی ہیں ۔
(جامع احادیث الشیعہ ،جلد ۱ صفحہ ۱۸ از مقدمات ،حدیث ۱۱۶)
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ کسی نے امام (ع) سے سوال کیا اور حضرت (ع) نے جواب دیا ۔ اس شخص نے امام کی رائے تبدیل کرنے کی غرض سے بحث شروع کر دی تو امام صادق (ع) نے فرمایا :(ما اجبتک فیه من شئی فهو عن رسول الله
)یعنی میں نے تجھے جو جواب دیا ہے وہ پیغمبر (ع) سے منقول ہے(اور اس میں بحث کی گنجائش نہیں ہے)۔(اصول کافی ،جلد ۱ صفحہ ۵۸ حدیث ۱۲۱)
قابل غور اور اہم نکتہ یہ ہے کہ حدیث کے سلسلہ میں ہمارے پاس کافی،تحذیب،استبصار، من لا ےحضرہ الفقیہ اور دوسری معتبر کتابیں ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کتابوں میں موجود ہر روایت ہماری نظر میں قابل قبول ہے بلکہ روایات سے متعلق کتب کے ساتھ ہمارے پاس علم رجال کی کتب بھی موجود ہیں ،جن میں ہر طبقہ کے راویان احادیث پر بحث کی گئی ہے۔ ہمارے نزدیک وہ روایت قابل قبول ہے،جس کی سند میں مذکور تمام افراد ثقہ اور قابل اطمینان ہوں ۔لہٰذا ان مشہور اور معتبر کتب میں جو روایات اس شرط کی حامل نہ ہوں وہ ہماری نظر میں قابل قبول نہیں ۔
علاوہ از ایں ممکن ہے کہ کوئی روایت ایسی ہو جس کا سلسلہ سندبھی معتبر ہو لیکن ابتداء سے لے کر آج تک ہمارے بڑے بڑے علماء اور فقہاء نے اسے نظر انداز کیا اور اس پر عمل نہ کیا ہو ا ور انہیں اس میں کچھ دیگر نقائص نظر آتے ہو ں ۔ اس قسم کی روایت کو ہم ”معرض عنھا“ کہتے ہیں ۔ یہ ہماری نظر میں معتبر نہیں ۔
بنابر ایں یہ بات واضح ہے کہ جو لوگ ہمارا عقیدہ جاننے کے لئے فقط اور فقط ان کتب میں موجود کسی ایک روایت یا مختلف روایات کا سہارا لیتے ہیں،بغیر اس کے کہ روایت کی سند کے بارے میں کوئی تحقیق کریں انکا طریقہ کار غلط ہے۔
بعض معروف اسلامی فرقوں میں ”’صحاح “کے نام سے کتابیں موجود ہیں ،جن میں موجود روایات کا صحیح ہونا ان کتابوں کے مصنّفین کے نزدیک ثابت ہے۔ نیز دوسرے لوگ بھی ان روایات کو صحیح سمجھتے ہیں ۔ لیکن ہمارے نزدیک موجود معتبر کتابیں اس طرح نہیں ہیں ۔ یہ ایسی کتابیں ہیں جن کے مصنّفین معروف اور قابل اعتماد شخصیات ہیں ۔ لیکن ان کتابوں میں موجود روایات کی سند کا صحیح ہونا علم رجال کی کتب کی روشنی میں راویوں کی تحقیق پر موقوف ہے۔
مذکورہ بالا نکتے کی طرف توجہ ہمارے عقائد کے متعلق پیدا ہونے والے بہت سے سوالوں کا جواب دے سکتی ہے ۔ جس طرح اس سے بے توجہی ہمارے عقائد کی پہچان کے سلسلے میں بہت سی غلط فہمیوں کو جنم دے سکتی ہے ۔
بہر حال قرآن مجید کی آیات اور پیغمبر اسلام (ص)کی احادیث کے بعد ہماری نظر میں بارہ اماموں (ع) کی احادیث معتبر ہیں ۔ شرط یہ ہے کہ آئمہ علیھم السلام سے ان احادیث کا صدور معتبر طریقہ سے ثابت ہو۔