۶۹ ۔دونمازوں کو ساتھ پڑھنا
ہمارا عقیدہ ہے کہ : نمازظھر و عصر یا مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھنا جائز ہے(اگرچہ انہیں انہیں الگ الگ وقت میں پڑھنا افضل اور بہتر ہے) ہمارا عقیدہ ہے کہ :نبی اکرم (ص)کی طرف سے دو نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت ان لوگوں کی حالت کے پیش نظر ہے جو مشکلات سے روبرو ہیں۔
صحیح ترمزی میں ابن عباس سے یوں منقول ہوا ہے کہ”’جمع رسول الله (ص)بین الظهر والعصر و بین المغرب والعشاء بالمدینةمن غیر خوف والمطر،قال تقول لابن عباس ما اراد بذٰلک ؟قال اراد ان لا یحرج امته
“‘یعنی مدینہ میں پیغمبر اسلام (ص) نے ظھر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں بھی اکٹھی پڑھیں حالانکہ نہ کوئی خطرہ تھا اور نہ بارش تھی ۔ابن عباس سے دریافت کیا گیا کہ اس کام سے آنحضرت کا کیا مقصد تھا ؟ تو اس نے جواب دیا تاکہ اپنی امت کو مشکل میں نہ ڈالیں(یعنی جس مقام پر دو نوں نماز وں کو ایک ساتھ پڑھنا زحمت کا باعث ہو وہاں اس اجازت سے فائدہ اٹھایا جائے)(سنن ترمزی ،جلد ا صفحہ ۳۵۴ باب ۱۳۸ اور سنن بیہقی،جلد ۳ صفحہ ۶۷ ۔)
خاص کر موجودہ دور میں جب کہ معاشرتی زندگی خاص کر کارخانوں اور مصروف صنعتی مراکز میں بڑی پیچیدہ شکل اختیار کر چکی ہے اور پانچ الگ الگ اوقات میں نماز کی پابندی کی شرط کے باعث بعض لوگوں نے نماز کو بالکل ہی چھوڑ دیا ہے ۔ پیغمبر اسلام (ص) نے یہ جو اجازت عطا فرمائی ہے اس سے استفادہ کرتے ہوئے نماز کو زیادہ پابندی سے ادا کیا جا سکتا ہے۔
۷۰ ۔خاک پر سجدہ
ہمارا عقیدہ ہے کہ :مٹی یا زمین کے دوسرے اجزاء پر سجدہ کرنا چاہئے یا ان چیزوں پر جو زمین سے اگتی ہوں جیسے درختوں کے پتے اور لکڑی نیز دیگر پودوں پر سوائے ان چیزوں کے جو کھائی جاتی ہیں یا پہننے کے کام آتی ہیں۔
لہذٰا قالین وغیرہ پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ہم مٹی پر سجدہ کرنے کو سب چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں ،اسی لئے آسانی کی وجہ سے بہت سے شیعہ سانچے میں ڈھلے ہوئے پاک مٹی کا ایک ٹکڑا اپنے پاس رکھتے ہیں جسے سجدہ گاہ کہتے ہیں اور اس پر سجدہ کرتے ہیں ۔یہ پاک بھی ہے اور مٹی بھی۔
اس سلسلہ میں ہماری دلیل نبی اکرم (ص) کی یہ مشہور حدیث ہے۔-”جعلت لی الارض مسجدا و طهورا
“ہم یہاں لفط مسجد کو ”سجدہ کی جگہ“کے معنی میں لیتے ہیں ۔ یہ حدیث اکثر کتب صحاح اور دوسری کتابوں میں نقل ہوئی ہے۔(بخاری نے اپنی صحیح میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے باب التےمم (جلد ا صفحہ ۹۱) میں ،نسائی نے اپنی صحیح میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے باب التےمم بالصعید میں اسے ذکر کیا ہے۔مسند احمد میں یہ حدیث ابن عباس سے منقول ہے ۔دیکھئے جلد ۱ صفحہ ۳۰۱ ،شیعہ کتب میں بھی پیغمبر اکرم (ص)سے یہ روایت مختلف اسناد کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اس حدیث میں مسجد سے مراد سجدہ کی جگہ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد نماز کی جگہ ہے۔ اور یہ ان لوگوں کے عمل کی نفی کرتی ہے جو صرف ایک مخصوص مقام پر نماز پڑھتے ہیں ۔لیکن اس بات کے پیش نظر کہ یہاں طہور یعنی ”تےمم کی مٹی“کی بات آئی ہے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں اس مسجد سے مراد سجدہ کی جگہ ہے۔یعنی زمین کی مٹی طہور بھی ہے اور سجدہ کرنے کی جگہ بھی۔
اس کے علاوہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے بہت سی روایات منقول ہیں جن میں مٹی اور پتھر وغیرہ کو سجدہ کی جگہ قرار دیا گیا ہے۔
۷۱ ۔انبیاء اورآئمہ (ع)کے مزاروں کی زیارت
ہمارا عقیدہ ہے کہ:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،آئمہ اہل بیت علیہم السلام ،عظیم علماء ،دانشمندوں اور راہ حق کے شہیدوں کے مزارات کی زیارت سنت موکدہ ہے۔
اہل سنت کی کتابوں میں نبی اکرم (ص) کے روضہ مبارک کی زیارت کرنے کے بارے میں بے شمار روایات موجود ہیں ۔شیعہ کتابوں میں بھی یہ بات مذکور ہے۔اگر ان روایتوں کو اکٹھا کر دیا جائے تو ایک الگ کتاب بن سکتی ہے۔(ان روایات سے آگاہی حاصل کرنے ،اسی طرح زیارت کے سلسلہ میں بزرگوں کے کلمات اور حالات دیکھنے کے لئے الغدیر ،جلد ۵ ،صفحہ ۹۳ تا ۲۰۷ کی طرف رجوع کریں ۔)
ہر دور میں تمام بڑے علماء اور لوگوں کے طبقوں نے اس کو اہمیت دی ہے۔کتابیں ان لوگوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہیں۔جو رسول اکرم (ص)یا دوسرے بزرگوں کے مزاروں کی زیارت کے لئے جاتے تھے۔(ان روایات سے آگاہی حاصل کرنے نیز زیارت کے بارے میں بزرگوں کے اقوال اور حالات کے مطالعہ کے لئے سابقہ ماخز کی طرف رجوع کریں۔)بہر حال یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس مسئلہ پر تمام مسلمانوں کا اجماع اور اتفاق ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ زیارت اور عبادت کے درمیان فرق کو نہیں بھولنا چاہئے ۔عبادت و پرستش خدا کے لئے مخصوص ہے جبکہ زیارت کا مقصد بزرگان دین کا احترام ،ان کی یاد کو زندہ رکھنا اور خدا کے حضور ان سے شفاعت طلب کرنا ہے۔یہاں تک کہ بعض روایات کے مطابق آنحضرت (ص) اہل قبور کی زیارت کے لئے جنت البقیع جاتے اور ان کے لئے رحمت اور مغفرت کی دعا فرماتے تھے۔(یہ روایات صحیح مسلم ،ابو داؤد ،نسائی ، مسند احمد ،صحیح ترمذی اور سنن بیہقی میں دیکھی جا سکتی ہیں۔)
بنابر ایں اسلامی فقہ کے نقطئہ نظر سے اس کام کے جواز میں کسی شخص کو شک نہیں کرنا چاہئے ۔
۷۲ ۔مراسم عزا داری کا فائدہ
ہمارا عقیدہ ہے کہ-:شہدائے اسلام بالخصوص شہیدان کربلا کی عزاداری اور ان کا سوگ منانے کا مقصد ان کی یاد کو زندہ رکھنا اور اسلام کی راہ میں ان کی قربانیوں کا پرچار ہے۔اسی لئے ہم مختلف دنوں بالخصوص عاشور کے ایام (محرم کے پہلے دس دن )میں عزا داری مناتے ہیں جو رسول کی بیٹی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلام کے لخت جگر ،بہشت کے جوانوں کے سردار (”الحسن والحسین سيدا شباب اهل الجنة
“حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔یہ حدیث صحیح ترمذی جلد ۲ صفحہ ۳۰۹،۳۰۷ ، میں ابو سعید خدری اوٖر حذیفہ سے منقول ہے۔نیز صحیح ابن ماجہ باب فضائل اصحاب رسول اللہ (ص) مستدرک الصحیحین ،حلیةالاولیاء ،تاریخ بغداد ،اصابة ابن حجر ،کنز العمال ،ذخائر اعقبی اور دوسری بہت سی کتابوں میں مذکور ہے۔)امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے ایام ہیں۔ہم ان کی زندگی اور ان کے کارناموں کا ذکر کرتے ہیں ،ان کے اہداف پر بحث کرتے ہیں اور ان کی پاک روحوں پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔
ےزید ایک فاجر،خود سراور اسلام سے بیگانہ شخص تھا ۔لیکن بد قسمتی سے اسلامی خلافت پر قابض تھا ۔امام حسین علیہ السلام نے سن ۶۱ ہجری میں اس کے خلاف قیام کیا۔اگر چہ وہ اور ان کے تمام ساتھی عراق میں کربلا نامی سرزمین پر شہید کر دئے گئے اور انکی خواتین قیدی بنا لی گئیں لیکن انکے خون نے اس دور کے تمام مسلمین میں ایک حیرت انگیز جزبہ اور ولولہ پیدا کر دیا۔بنی امیہ کے خلاف ےکے بعد دیگر بغاوتیں ہونے لگیں۔ان بغاوتوں نے بنی امیہ کے ظلم وستم کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔آخر کار انکا ناپاک وجود ختم ہو گیا ۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ واقعہ عاشورہ کے بعد بنی امیہ کی حکومت کے خلاف جتنی بغاوتیں ہوئیں سب کا عنوان ”الرضا لآل محمد “اور ”يالثارات الحسین “کے نعرے تھے ۔یہاں تک کہ ان میں سے بعض نعرے تو بنی عباس کے ابتدائی دورر حکومت میں بھی بلند ہوتے رہے۔(ابو مسلم خراسانی جس نے عباسی حکومت کا خاتمہ کیا،اس نے مسلمانوں کی بعد ہم دردیاں حاصل کرنے کے لئے الرضا لآل محمد کا نعرہ لگایا ۔کامل ا بن اثیر ،جلد ۵ صفحہ ۳۷۲ ۔توابین کا قیام بھی”یا لثارات الحسین “کے نعرہ سے شروع ہوا۔الکامل ،جلد ۴ صفحہ ۱۷۵ ۔مختار ابن ابو عبیدہ ثقفی کا قیام بھی اسی نعرہ کے ساتھ ہوا تھا،جلد ۴ صفحہ ۲۸۸ ۔بنی عباس کے خلا ف جن لوگوں نے قیام کیا ان میں سے ایک حسین ابن علی شہیدفتح ہیں۔انہوں نے اپنا مقصد ایک جملے میں اس طرح بیان کیا ۔”و ادعوکم الیٰ الرضا من آل محمد “یعنی مین تمہیں آل محمد کی خوشنودی حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔مقاتل الطالبین ،صفحہ ۲۹۹ اور تاریخ طبری ،جلد ۸ صفحہ ۱۹۴)
امام حسین علیہ السلام کا خونچکاں قیام آج ہم شیعوں کے لئے ہر قسم کی استبدادیت یا سینہ زوری اور ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک نمونئہ عمل اور لا ئحہ عمل کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ ”ھیھات منّاالذلّة“(ہم ہر گزذلت قبول نہیں کرتے )اور ”انّ الحیاة عقیدة و جھاد “(زندگی ایمان اور جھاد ہے) کے نعروں نے،جو کربلا کی خونین تحریک کا عطیہ ہےںہماری ہمیشہ مدد کی ہے تاکہ ہم ظالم اور جابر حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور سےد الشہدا ء امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی پیروی کرتے ہوئے ظالم کے شر کو دفع کریں ۔(انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران میں یہ نعرہ ہر طرف دکھائی دیتے ہیں )۔
مختصر یہ کہ شہدائے اسلام خاص کر شہدائے کربلا کی یاد تازہ کرنے سے ہمارے اندر عقیدہ اور ایمان کی راہ میں شہادت ،ایثار ،شجاعت اور فداکاری کا جزبہ ہمیشہ بیدار رہتا ہے ۔ یہ ہمیں عذت سے زندہ رہنے اور ظلم کے آگے سر نہ جھکانے کا درس دیتا ہے۔ یہ ہے ان واقعات کو زندہ رکھنے اور ہر سال عزاداری کا سلسلہ باقی رکھنے کا فلسفہ ۔
ممکن ہے بعض لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ ہم عزاداری کے مراسم میں کیا کرتے ہیں اور وہ اسے ایک ایسا تاریخی واقعہ سمجھے کہ جس پر عرصہ سے فراموشی کی گرد و غبار پڑی ہو۔لیکن ہم خود جانتے ہیں کہ ان واقعات کی یاد زندہ رکھنے سے ہمارے کل ،آج اور آئندہ کی تاریخ پر کیا اثرات مترتب ہوئے ہیں اور ہوں گے۔
غزوہ احد کے بعد سےد الشہداء حضرت حمزہ پر پیغمر اکرم ْ(ص) اور مسلمانو ں کے سوگ منانے کا واقعہ تاریخ کی سب مشہور کتابوں میں درج ہے ۔ رسول اکرم (ص) انصار کے ایک گھر کے پاس سے گزر رہے تھے ۔ آپ (ص) نے گریہ اور نوحہ کی آواز سنی۔ آپ کی آنکھیں بھی برسنے لگی اور چہرئہ اقدس سے آنسوں بہنے لگے ۔ آپ (ص) نے فرمایا : لیکن حمزہ پر کوئی رونے والا نہیں ہے۔سعد بن معاز نے جب یہ بات سنی تو وہ قبیلہ بنی عبد الاشہل کے بعض لوگوں کے پاس گئے اور انکی عورتوں کو حکم دیا :آنحضرت (ص) کے چچا کے گھر جاؤ اور سےد الشہدا ء حمزہ کا سوگ مناؤ(کامل ابن اثیر ،جلد ۲ صفحہ ۱۶۳ و سیرہ ابن ہشام ،جلد ۳ صفحہ ۱۰۴) ۔
واضح ہے کہ یہ کام حضرت حمزہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ باقی تمام شہداء کے معاملہ میں بھی اس پر عمل کرنا چاہئے ۔ہمیں چاہئے کہ موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے انکی یاد زندہ رکھیں اور اس طریقہ سے مسلمانوں کی رگوں میں نیا خون دوڑاتے رہیں ۔اتفاقا آج جب کہ میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں عاشورہ کا دن ہے( ۱۰ محرم الحرام ۱۴۱۲ ہجری)۔
آج پورے عالم تشیع میں سچ مچ ایک عظیم ولولہ موجزن ہے۔جوان ،نوجوان اور بوڑھے سب مل کر سیاہ کپڑے پہنے ہوئے امام حسین (ع) اور شہدا ء کربلا کا سوگ منا رہے ہیں ۔ ان سب کے دلوں اور ذہنوں میں ایک ایسا انقلاب برپا ہے کہ اگر انہیں اسلام کے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لئے کہا جائے تو سب اسلحہ اٹھا کر میدان میں اتر جائیں گے اور کسی قسم کی قربانی اور جاں نثاری سے دریغ نہیں کریں گے۔گویا سب کی رگوں میں شہادت کا خون دوڑ رہا ہے اور اس وقت اور اس گھڑی حضرت امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں کو اسلام کی قربان گاہ کربلا میں اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔
ان پر شکوہ مراسم میں جو ولولہ انگیز اشعار پڑھے جاتے ہیں وہ استعمار اور استکبار کے خلاف دندان شکن نعروں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ ہم ظلم کے سامنے نہ جھکنے اور ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دینے کا اعلان کر رہے ہیں ۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ :یہ ایک عظیم معنوی سرمایہ ہے جس کی حفاظت کرنی چاہئے اور اسلام ،ایمان اور تقویٰ کی بقا کے لئے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔