۷۳ ۔ متعہ
ہمارا عقیدہ ہے کہ:وقتی شادی ایک شرعی کام ہے جسے اسلامی فقہ میں ”متعہ“ کہتے ہیں ۔شادی دو قسم کی ہے ایک دائمی شادی جس میں وقت معین نہیں ہوتا اور دوسری متعہ جس کی مدت طرفین کے توافق سے معین ہوتی ہے۔
یہ شادی دائمی شادی کے ساتھ بہت سے مسائل میں مشابہت رکھتی ہے ۔مثلا حق مہر،عورت کا ہر مانع سے خالی ہونا وغیرہ ،نیز اس شادی سے پیدہ ہونے والے بچے انہی احکام کے حامل ہیں جو دائمی شادی سے پیدہ ہونے والے بچے رکھتے ہیں ۔جدائی کے بعد عدت پوری کرنے کا مسئلہ مشترک ہے۔یہ سب چیزیں ہمارے نزدیک مسلم ہیں ۔دوسرے لفظوں میں متعہ اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ ایک قسم کی شادی ہے۔البتہ دائمی نکاح اور متعہ میں کچھ فرق بھی ہیں اور وہ یہ کہ متعہ میں عورت کا نفقہ شوہر پر واجب نہیں ہے اور میاں بیوی ایک دوسرے کی میراث کے حقدار نہیں ہوں گے۔(لیکن ان کے بچے والدین اور ایک دوسرے کی میراث کے حقدار ہوں گے )۔
بہر حال ہم نے یہ حکم قرآن مجید سے لیا ہے ،جو فرماتا ہے کہ(
فما استمتعتم به منهنّ فاتوهنّ اجورهنّ فریضة
)
یعنی جن عورتوں سے تم متعہ کرتے ہوں ان کا حق مہر تم کو ادا کرنا ہوگا (سورئہ نساء آیت ۲۴) بہت سے مشہور محدثین اور عظیم مفسرین نے تصریح کی ہے کہ یہ آیت متعہ کے متعلق ہے ۔
تفسیر طبری میں اس آیت کے ذیل میں متعہ سے متعلق بہت سی احادیث بیان کی گئی ہیں،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت متعہ کے بارے میں ہے اور پیغمبر اکرم (ص) کے بہت سے صحابیوں نے اس پر گواہی دی ہے ۔(تفسیر طبری ،جلد ۵ صفحہ ۹)
تفسیر الدرّالمنثور اور سنن بیہقی میں بھی اس سلسلہ میں بہت سی روایات نقل کی گئی ہیں ۔(الدر المنثور،جلد ۲ صفحہ ۱۴۰ اور سنن بیہقی جلد ۷ صفحہ ۲۰۶)
صحیح بخاری ، مسند احمد،صحیح مسلم اور دوسری بہت سی کتابوں میں ایسی احادیث موجود ہیں ،جو نبی اکرم (ص) کے دور میں متعہ کی موجودگی پر دلیل ہیں ،اگر چہ اسکی مخالف روایات بھی موجود ہیں۔(مسند احمد،جلد ۴ صفحہ ۴۲۶ ،صحیح بخاری ،جلد ۷ صفحہ ۱۶ اور صحیح مسلم ،جلد ۲ صفحہ ۱۰۳۳ ،باب نکاح المتعہ)
بعض سنای فقہاء قائل ہیں کہ نبی اکرم (ص) کے دور میں نکاح متعہ رائج تھا ۔ اس کے بعد یہ حکم منسوخ ہو گیا ،جبکہ نعض یہ کہتے ہیں کہ یہ حکم آنحضرت (ص) کی زندگی کے آخر تک باقی تھا اور جناب عمر نے یہ حکم منسوخ کیا۔ حضرت عمر کا یہ قول ”’متعتان کانتا علیٰ عهد رسول الله و انا احرمهما و اعاقب علیها:متعةالنسآء و متعة الحجّ
“‘یعنی پیغمبر اکرم کے دور میں دو متعہ جائز تھے اور میں انہیں حرام قرار دیتا ہوںاور ان پر سزا دوں گا ۔ان میں سے ایک عورتوں سے متعہ اور دوسرا متعةالحج (حج کی ایک خاص قسم ) ہے۔( یہ حدیث اسی عبار ت یا اس سے ملتی جلتی عبارت کے ساتھ سنن بیہقی،جلد ۷ صفحہ ۲۰۶ اور دوسری بہت سی کتابوں میں آئی ہے”الغدیر“کے مصنف نے کتب صحاح اور مسند ست ۲۵ احادیث نقل کی ہیں ،جو یہ بتاتی ہیں کہ اسلامی شریعت میں متعہ حلال ہے اور پیغمبر اکرم (ص)، خلیفہ اول اور حضرت عمر کے دور کے کچھ حصہ میں اس پر عمل ہوتا رہا ہے۔پھر خلیفہ دوم نے اپنی عمر کے آخری دور میں اس پر پابندی لگا دی ۔ الغدیر جلد ۳ صفحہ ۳۳۲)
اس بات میں شک نہیں ہے کہ بہت سے دوسرے احکام کی طرح اس اسلامی حکم میں بھی اہل سنت کے راویوں کے درمیان اختلاف ہے۔بعض اس بات کے قائل ہیں کہ یہ نبی اکرم (ص) کے دور میں نسخ ہو چکا ہے ۔بعض خلیفہ دوم کے دور میں اس کے نسخ کے قائل ہیں اور بعض مکمل طور پر اسکا انکار کرتے ہیں ۔ فقہی مسائل میں اس طرح کا اختلاف موجود ہے،لیکن شیعہ فقہاء میں اسکے جائز ہونے پر اتفاق رائے ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ آنحضرت (ص) کے دور میں نسخ نہیں ہوا اور آنحضرت (ص) کی رحلت کے بعد نسخ نا ممکن ہے۔
بہر حال میرا عقیدہ ہے کہ:اگر متعہ سے غلط استفادہ نہ کیا جائے تو یہ ان جوانوں کے سلسلہ میں بعض معاشرتی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے جو دائمی شادی نہیں کر سکتے۔یا جو تجارتی،اقتصادی ،تعلیمی یا دیگر وجوہات کے باعث کچھ عرصہ کے لئے اپنے گھر والوں سے دور رہتے ہیں ۔متعہ کی مخالفت اس طرح کے افراد میں برائی کا راستہ کھول دے گی۔خاص کر ہمارے دور میں جس میں مختلف اسباب کی وجہ سے دائمی نکاح کی عمر بڑھ گئی ہے اور دوسری طرف سے جنسی شہوت کو ابھارنے والے اسباب بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔ اگر اس راستہ پر پابندی لگا دی جائے تو ےقینی طور پر برائی کا راستہ کھل جائے گا ۔
ہم یہ بات دوبارہ دہراتے ہیں کہ ہم اسلامی حکم سے ہر طرح کے غلط استفادہ کرنے،اسے شہوت پرست افراد کے ہاتھ کا کھلونا قرار دینے اور عورتوں کو بدکاری کی طرف دھکیلنے کے مخالف ہیں۔لیکن کسی قانون سے بعض شہوت پرست افراد کے غلط فائدہ اٹھانے کے بہانے خود اس قانون پر پابندی نہیں لگنی چاہئے بلکہ اس کے غلط استعمال پر پابندی لگنی چاہئے۔
۷۴ ۔ تاریخ تشیع
ہمارا عقیدہ ہے کہ:تشیع کی بنیاد پیغمبر کے دور میں آنحضرت کی احادیث کے باعث پڑی ۔ اس مطلب پر ہمارے پاس برے واضح ثبوت موجود ہیں ۔
بہت سے مفسرین نے اس آیت کریمہ(
انّ الّذین آمنوا وعملوا الصالحات اولٰٓئک هم خیر البریة
)
یعنی جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے وہ (خدا کی ) بہترین مخلوق ہیں ( سورئہ بینة ،آیت ۷) کے ذیل میں پیغمبر اکرم (ص) کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام اور ان کے شیعہ ہیں ۔
نشہور مفسر سیوطی نے درالمنثور میں ابن عساکر سے اور اس نے اجبر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ ہم پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ علی (ع) ہماری طرف آئے ۔جب آنحضرت (ص)کی نگاہ ان پر پڑی تو آپ نے فرمایا۔”والّذینفسی بیده انّ هٰذا و شیعته هم الفائزون یوم القیامة
“‘یعنی اس ذات کی قسم جس کے قبضئہ قدرت میں میری جان ہے ،بے شک یہ اور اسکے شیعہ ہی قیامت کے دن کامیاب ہیں۔اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی(
انّ الّذین آمنوا وعملوا الصالحات اولٰٓئک هم خیر البریة
)
اس کے بعد جب حضرت علی علیہ السلام جب اصحاب کی محفل میں آتے تھے تو وہ یہ کہتے تھے ”جاء خیر البریّة“‘خدا کی مخلوق کی سب سے بہترین فرد آگئی۔(الدر المنثور ،جلد ۶ صفحہ ۲۷۹)
”ابن عباس “۔”ابو حریرہ “،”ابن مردویہ“اور ”عطیہ عوفی“ سے بھی یہی بات (مختصر سے فرق کے ساتھ)منقول ہے۔(مزید معلومات کے لئے پیام قرآن جلد ۹ صفحہ ۲۷۹ اور ما بعد کی طرف رجوع کریں )۔
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ علی(ع) سے محبت رکھنے والوں کے لئے لفظ ”شیعہ“کا انتخاب نبی اکرم (ص) کے دور میں ہی ہو گیا تھا ۔ یہ نام انہیں پیغمبر اکرم (ص) نے عطا کیا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ عصر خلفاء یا عصر صفویہ میں انہیں یہ نام ملا ہو۔
اگر چہ ہم دوسرے اسلامی فرقوں کا احترام کرتے ہیں اور انکے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ پر حج ادا کرتے ہیں اور اسلام کے مشترکہ اہداف کے لئے تعاون کرتے ہیں ،لیکن اس کے باوجود ہمارا عقیدہ ہے کہ علی (ع) کے ماننے والے بعض خصوصیات کے حامل ہیں اور ان پر نبی اکرم (ص) کی خاص توجہ اور نظر کرم تھی۔اسی لئے ہم نے اس مکتب کی پیروی اختیار کی ہے۔
شیعوں کے بعض مخالفین اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ مذہب شیعہ اور عبد اللہ ابن سبا کے درمیا رابطے کی کڑیاں ملائیں ۔اور وہ ہمیشہ یہ بات کہتے ہیں کہ شیعہ عبداللہ ابن سبا کے پیرو کار ہیں جو حقیقت میں یہودی تھا اور بعد میں اسلام لایا تھا۔یہ بات بہت ہی عجیب ہے کیونکہ شیعوں کی تمام کتابوں کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس مذہب کے ماننے والے اس شخص سے ذرہ برابر لگاؤ نہیں رکھتے ۔ اس کے بر عکس شیعوں کی تمام رجالی کتابوں میں عبد اللہ ابن سبا کو ایک گمراہ اور منحرف شخص قرار دیا گیا ہے ۔ہماری بعض روایتوں کے مطابق حضرت علی (ع) نے اس کے مرتد ہونے کی وجہ سے اسکے قتل کا حکم جاری کر دیا تھا (”تنقیح المقال فی علم الرجال “عبد اللہ ابن سبا کے ذکر میں اور علم رجال میں شیعوں کی دیگر مشہور و معروف کتب کی طرف رجوع کریں )۔
علاوہ از یں تاریخی حوالے سے عبد اللہ ابن سبا کا وجود ہی مشکوک ہے ۔بعض محققین کا خیال ہے کہ عبد اللہ ابن سبا ایک فرضی اور افسانوی شخصیت ہے اور اس نام کا شخص حقیقت میں موجود نہیں تھا۔چہ رسد باین کہ وہ مذہب شیعہ کا بانی ہو۔(کتاب عبد اللہ ابن سبا ، مصنفہ علامہ مرتضیٰ عسکری)بالفرض اگر ہم اس کو ایک فرضی انسان نہ بھی سمجھیں تب بھی ہماری نظر میں وہ ایک گمراہ اور منحرف شخص تھا ۔
۷۵ ۔شیعیت کے مراکز
یہ نکتہ اہمیت کا قابل ہے کہ شیعوں کا مرکز ہمیشہ ایران نہیں رہا بلکہ اسلام کی ابتدائی صدیوںمیں ہی اس کے متعدد مراکز تھے جن میں کوفہ،ےمن اور خود مدینہ بھی شامل ہیں۔شام میں بنی امیہ کے زہریلے پرپگینڈہ کے باوجودبھی شیعوں کے بہت سے مراکز موجود تھے،اگرچہ ان کی وسرت عراق میں موجود شیعہ مراکز کے برابر نہ تھی۔
مصر کی وسیع سر زمین میں بھی ہمیشہ شیعوں کی مختلف جماعتیں آتی رہی ہیں ۔یہاں تک کہ فاطمی خلفاء کے دور میں تو مصر کی حکومت بھی شیعوں کے ہاتھ میں تھی۔(بنی عباس کے دور میں شام کے شیعہ ہول ناک دباؤ کا شکار تھے ۔بنی عباس کے دور میں انہیں آرام نصیب نہیں ہوا۔یہاں تک کہ ان میں سے بہت سے لوگ بنی امیہ اور بنی عباس کے زندانوں میں چل بسے۔کچھ لوگ مشرق کی طرف چلے گئے اور بعض مغرب کی طرف۔ادریس بن عبداللہ بن حسن مصر چلے گئے اور وہاں سے مراکش چلے گئے ۔مراکش کے شیعوں کی مدد سے انہوں نے ادریسی سلسلہ حکومت کی بنیاد رکھی جو دوسری صدی کے آخر سے لیکر چوتھی
صدی کے آخر تک قائم رہی اور مصر میں شیعوں کی ایک اور حکومت بنی ۔یہ لوگ اپنے کو امام حسین علیہ السلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی بیٹی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی اولاد کہتے تھے ۔مصر کے لوگوں میں ایک شیعی حکومت کی تشکیل کے لئے آمادگی پاکر انہوں نے یہ کام کیا ۔چوتھی صدی ہجری ست باقاعدہ طور پر خلفاء کی کل تعداد چودہ ہے۔ان میں سے دس خلفاء کا مرکزحکومت مصر تھا۔تقریبا تین صدیوں تک انہوں نے مصر اور افریقہ کے دوسرے علاقوں میں حکومت کی ۔مسجد جامع الازہر اور الازہر یونیورسٹی انہوں نے بنائی ۔فاطمیوں کا نام فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ماخوز ہے ۔دیکھئے دائرةالمعارف دہخدا ،دائرة المعارف فرید وجدی ،المنجد فی الاعلام ،لفظ ”فطم“و”زہر“۔
اب بھی دنیا کے مختلف ملکوں میں شیعہ مسلمان موجود ہیں ۔مثلا سعودی عرب کے مشرقی علاقہ میں شیعوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور دیگر اسلامی فرقوں سے ان کے اچھے تعلقات ہے۔اگر چہ اسلام کے دشمنوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ شیعہ مسلمانوں اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان دشمنی ،عداوت،بدنیّتی اور غلط فہمیوں کے بیج بوئیں ، ان کے درمیان اختلاف اور جھگڑے کی آگ بھڑکائیں اور دونوں کو کمزور کرتے چلے جائیں ۔
بالخصوص آج جب کہ اسلام ، مادیت کے علم بردار مشرقو مغربی طاقتوں کے مقابلہ میں عالم گیر طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے ا ور دنیا کے لوگوں کو جومادی تہذیبوں سے مایوس ہو گئے ہیں اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔اسلام کے دشمنوں کی امیدوں کا سب سے بڑا سہارا یہ ہے کہ مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرنے اور دنیا میں اسلام کی بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لئے مذہبی اختلاف پھیلائیں اور مسلمانوں کو آپس میں الجھا دیں ۔بے شک اگر تمام اسلامی فرقوں کو ماننے والے بیدارا ور آگاہ رہیں تو اس خطرناک سازش کا سامنہ کر سکتے ہیں ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اہل سنت کی طرح شیعوں کے بھی مختلف فرقے ہیں ۔لیکن سب سے مشہور اور معروف شیعہ اثناء عشری ہیں جن کی تعداد دنیا کے شیعوں میں سب سے زیادہ ہے۔۔اگر چہ شیعوں کی صحیح تعداد اور دنیا کے مسلمانوں میں انکا تناسب واضح نہیں ہے لیکن کچھ اعداد و شمار کے مطابق ان کی تعداد بیس کروڑ کے لگ بھگ ہے ، جو دنیا کی مسلم آبادی کا تقریبا چوتھا حصہ ہے۔