وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ 0%

وہابی افکار کا ردّ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 179

وہابی افکار کا ردّ

مؤلف: شیخ نجم الدین طبسی
زمرہ جات:

صفحے: 179
مشاہدے: 95118
ڈاؤنلوڈ: 4458

تبصرے:

وہابی افکار کا ردّ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95118 / ڈاؤنلوڈ: 4458
سائز سائز سائز
وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

وہابی افکار کا ردّ

(تیرہ موضوعات پر مشتمل مستند کتاب)

مؤلف: شیخ نجم الدین طبسی

مترجم :ناظم حسین اکبر

جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں

۳

مشخصات کتاب

نام کتاب ...................................................................وہابی افکار کا ردّ

نام مؤلف ..................................................................الشیخ نجم الدین طبسی

نام مترجم.....................................................................ناظم حسین اکبر

نظر ثانی .........................................................................محمد عباس ہاشمی

تعداد صفحات ....................................................................۱۹۷

تعداد.............................................................................۳۰۰۰

اشاعت ........................................................................اوّل ،نومبر ۲۰۰۹ئ

کمپوزنگ .......................................................................محمد اسماعیل

ناشر..........................................................ابوطالب اسلامک انسٹیٹیوٹ لاہور

۴

انتساب

ظالم وہابیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے پارا چنار کے بے گناہ مومنین خاص طور پر شہید لائق حسین کے نام

۵

بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم

موضوعات

توسّل

شفاعت

تبرّک

استغاثہ

زیارت قبور

عورت اور زیارت قبور

قبروں پر دعا اور نماز

تعمیر قبور

قبور پر چراغ روشن کرنا

نذر

غیر اللہ کی قسم

جشن منانا

گریہ ومجالس عزا

۶

مقدمہ مترجم

وہابیت مسلمانوں کے سینے پر ایسا ناسور ہے جس کی بد بو سے پوراعالم اسلام سسک رہا ہے ابتداء ہی سے اس فرقہ کا وجود مسلمانوں کے لیے ایک عظیم مصیبت ہے جس کی پشت پناہی سعودی خاندان کررہا ہے ظلم یہ کہ حج جیسی عظیم عبادت کے موقع پر کروڑوں ڈالر خرچ کر کے زائرین خانہ خدا کے عقیدوں کو خراب کیا جاتا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ اکثر مسلمان جہالت و نادانی کی وجہ سے اس گروہ کے عزائم اور نقصانات سے بے توجہی برت رہے ہیں

زیر نظر کتاب ٫٫ وہابی افکار کی ردّ ،، ایک جلیل القدر عالم دین جناب شیخ نجم الدین طبسی دام ظلّہ العالی کی محققانہ تالیف ہے جس میں انہوں نے وہابیت کے انحرافی عقائد کو محکم ادلّہ کے ذریعہ سے ردّ کیا ہے.

ہم تمام مسلمانوں سے یہ التماس کرتے ہیںکہ وہ اس فرقہ کے عقائدکا بخوبی مطالعہ کریں اور ناسمجھ و فریب خوردہ افراد کو آگاہ کریں نیز ان کے ہاتھوں شہید ہونے والے اہل سنت اور شیعہ کے عظیم علماء کی شہادتوں کا دقت کے ساتھ مطالعہ کریں تاکہ خود اور اپنی نوجوان نسل کو اس فکری بیماری سے محفوظ رکھ سکیں

آخر میں دعا گو ہوں کہ خدا وند متعال ہمیں حقیقی معارف اسلام کی صحیح تبلیغ کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین یا ربّ العالمین

والسلام علی من اتّبع الھدی

ناظم حسین اکبر ( ریسرچ اسکالر )

ابو طالب اسلامک انسٹیٹیوٹ لاہور۱۵رمضان المبارک ۱۴۳۰ھ

۷

مقدّمہ مؤلف

خداوند متعال کی بے شمار حمد وثناء اور پیغمبر اسلام حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے خاندان گرامی پر بے نہایت درود و سلام ہو جو انسانوں کو چشمہ فضیلت کی طرف ہدایت وراہنمائی کرنے والے ہیں.

دین مبین اسلام کے نورانی معارف اب بھی آسمان فکر پرروشن ہیںانکی نورانیت ایسی ہے کہ پورے عالم پر چھا جائے گی البتہ حج کے موقع پر ان معارف کا جلوہ الگ طریقہ سے ہوتا ہے جو قابل مشاہدہ ہے ایک گروہ الگ تفکر کے ذریعہ سے ان معارف کے حقیقی چہرے کو بدلنے کی کوشش میں مصروف نظرآتا ہے ۔

اسی سال ۲۰۰۸ئ میں جب حج جیسے نورانی سفر کی توفیق نصیب ہوئی تو اس معنوی سفر میں ایک عجیب اور انتہائی دلچسپ واقعہ پیش آیا جسے اس مقدمہ سے پہلے بیان کر رہا ہوں :

ایک رات ہم چار افراد جس میں علمائے اہل سنت بھی موجود تھے مکہ مکرمہ کے ایک وہابی عالم سے ملاقات کے لیے اس کے پاس پہنچے اگرچہ کوشش یہی رہی کہ دوستانہ فضا بر قرار رہے اور اس دو گھنٹے کی ملاقات میں ایسے ہی ہوا لیکن جیسے ہی بحث و گفتگو کی نوبت آئی تو اس اسّی سالہ وہابی عالم نے شیعوں پر لگائی جانے والی بے بنیاد تہمتوں کو بیان کیا اور خود اس کے بقول ان کا واضح و مستدل جواب لینے کے بعد جو اس کے لیے بھی تعجب آور اور جالب تھا کہنے لگا :کیا تم ایرانی شیعہ اب بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے استغاثہ ( طلب حاجت )کرتے ہو اور کہتے ہو : یا رسول اللہ !

۸

میں نے فورا جواب دیتے ہوئے کہا :صرف ہم ہی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاجت طلب نہیں کرتے بلکہ صحابہ کرام بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاجت طلب کیا کرتے اور یوںہی کہا کرتے تھے.

کہنے لگے : ہاں ، مگر وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں ان سے حاجت طلب کیا کرتے تھے

میں نے کہا : نہیں ، وہ تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد بھی یوں ہی کہاکرتے

اس نے اس کا انکار کرتے ہوئے کہا : ایسی کوئی بات نہیں ہے ! کس دلیل کی بنا پر آپ ایسی بات کی نسبت صحابہ کی طرف دے رہے ہیں ؟

میں نے کہا : ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں اہل ردّہ کے ساتھ جنگ میں لشکر اسلام کا شعار یا محمد اہ تھا

کہنے لگے : یہ بات ثابت نہیں ہے اور اگر ثابت ہے تو دلیل لائیں ؟

میں نے کہا : ابن کثیر جو ابن تیمیہ کے شاگرد تھے ا نہوں نے اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں اس مطلب کو نقل کیا ہے کہنے لگے : وہاں پر تو کوئی ایسا مطلب نقل نہیں ہوا

میں نے کہا : کتاب البدایہ والنہایہ منگوائیں جب کتاب لائی گئی تو میں اس کی چھٹی جلد کھول کر یہ عبارت پڑھنا شروع کی جس میں یہ لکھا تھا :

وکان شعارهم یومئذ یا محمداه !( ۱ ) اس دن ان کا شعار یا محمداہ تھا

____________________

۱۔البدایہ والنہایہ ۶: ۳۲۹، دارالکتب العلمیة بیروت.

۹

جیسے اس وہابی عالم نے اس حقیقت کو دیکھا تو فورا بات بدلتے ہوئے کہا : اس روایت کی سند ضعیف ہے

میں نے کہا : یہ شرک کی تہمت کے علاوہ دوسری بات ہے بنا برایں آپ نے اس کا تاریخ میں ثابت ہونا قبول کر لیا ہے رہا مسئلہ یہ کہ آپ اس کی سند کے ضعیف ہونے کا دعویٰ ر ہے ہیں تو ممکن ہے کہ کوئی شخص آپ کے بر عکس یہ دعویٰ کرے کہ اس کی سند صحیح اور معتبر ہے علاوہ بر ایں اگر استغاثہ وتوسل شرک اکبر ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ابن کثیر۔اگرچہ سند ضعیف ہی کیوں نہ ہو ۔ اس عمل کی نسبت صحابہ کرام کی طرف دے ؟

جیسے ہی بات یہاں تک پہنچی تو اس وہابی عالم کے بیٹے نے ہماری بات کو قطع کرتے ہوئے کہا : پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغاثہ ( طلب حاجت ) شرک نہیں ہے !!

میں نے کہا : پھر ہم پر کیوں اعتراض کرتے ہو ؟

اس وہابی عالم نے بات کا رخ دوسری طرف موڑتے ہوئے ایک اور موضوع پر گفتگو شروع کر دی

۱۰

جو کچھ بیان کیا گیا یہ ایک ایسے وہابی عالم کا طرز تفکر ہے جو وہابیت اور محمد بن عبد الوہاب کے دفاع اور ان کی تعریف میں کتاب تالیف کر چکا یہ تفکر ہر مسلمان کے ذہن میں یہ سوال ایجاد کرتا ہے کہ کیا واقعا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغاثہ وتوسل شرعی اعتبار سے اشکال رکھتا ہے ؟ کیا واقعا استغاثہ کرنے والے کو مشرک ، خارج از دین اور مرتد قرار دے کر اسے قید کر کے چند دن کی مہلت دی جائے تاکہ توبہ کرلے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں اسے پھانسی دے دی جائے ؟!( ۱ )

دوسری جانب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ طریقہ کار زمانہ رسالت( ۲ ) سے لے کر آج تک مسلمانوں کے درمیان رائج ہے البتہ اسی کتاب میں ہم اس موضوع پر مفصل گفتگو کریں گے لیکن یہاں پر بطورنمونہ چند ایک موارد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :

____________________

۱۔اس بارے میں وہابی کہتے ہیں :دعاء النبی صلی الله علیه وآله ونداؤه والاستغاثة بعد موته فی قضاء الحاجات و کشف الکربات شرک أکبر یخرج من ملّة الاسلام سواء کان ذلک عند قبره أم بعیدا عنه ، کأن یقول : یا رسول الله ! أو ردّ غائبی أو نحو ذلک فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳: ۱۷۰ . نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حاجات پوری کروانے یا مشکلات کے حل کے لئے انہیں پکارنا اور ان سے حاجت طلب کرنا شرک اکبر ہے جو انسان کو ملّت اسلام سے خارج کر دیتا ہے چاہے یہ ان کو پکارنا اور ان سے حاجت طلب کرنا ان کی قبر کے پاس ہو یا دور سے مثال کے طور پر کہا جائے: یا رسول اللہ! یا غائب کو واپس لوٹا دے یااسی طرح کے دیگر کلمات

۲۔ المعجم الکبیر ۹: ۳۲.

۱۱

۱۔خلافت عثمان میں صحابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عثمان بن حنیف کا ایک مسلمان کومشکل کے حل کے لیے( قبر) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متوسل ہونے کا حکم دینا.( ۱ )

۲۔ اہل مدینہ کا حضرت عائشہ کے حکم پر باران رحمت کے نزول کے لیے قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متوسل ہونا( ۲ )

۳۔ بعض اصحا ب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خلیفہ دوم کے زمانہ میں قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متوسل ہونا( ۳ )

۴۔۵۳ ہجری اور معاویہ بن سفیان کے زمانہ حکومت میں اہل مدینہ کامعاویہ کی جانب سے منصوب حاکم مدینہ کے ظلم و ستم سے چھٹکارا پانے کی خاطر تین دن تک قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جاکر پناہ لینا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استغاثہ کرنا( ۴ )

۵۔ حنبلیوں کے رہبر ابو علی خلال کا تقریبا ہزار سال پہلے اپنی مشکلات کے حل کی خاطرامام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی قبر سے متوسل ہونا( ۵ )

۶۔ چوتھی اور پا نچویں صدی ہجری میں لوگوں کا بخاری کی قبر سے متوسل ہونا( ۶ )

____________________

۱۔ مسند احمد۴:۱۳۸؛ سنن ترمذی ۵: ۵۶۹؛ سنن ابن ماجہ ۱: ۴۴۱.

۲۔ سنن دارمی ۱: ۱۵۶؛ سبل الھدی والرشاد ۱۲: ۳۴۷.

۳۔ فتح الباری شرح صحیح بخاری ۲: ۵۷۷ ، وفاء الوفاء ۴: ۱۳۷۲

۴۔ مروّج الذہب ۳: ۲۳.

۵۔ تاریخ بغداد ۱: ۱۲۰.۷ ؛

۱۲

واضح ہے کہ اس موضوع پر کتب اہل سنت میں دسیوں بلکہ سینکڑوں نمونے موجود ہیں جنہیں جمع کیا جائے تو کئی جلدوں پر مشمل ایک مستقل کتاب تالیف ہو سکتی ہے

اب ہمارا سوال یہ ہے کہ محمد بن عبد الوہاب جو ۱۱۱۵ہجری میں پیدا ہوا اور ۱۱۴۳ ہجری میں باقاعدہ طور پر اپنے عقائد کا اظہار کیا اور آل سعود کی حمایت اور شمشیر کے زور پر نجد کے بادیہ نشینوں کو اپنے عقائد کی پیروی پر مجبور کیا اس نے اپنے ان عقائد کو کہاں سے لیا اور اسلام کی طرف نسبت دے دی ؟!

البتہ چونکہ وہ ابن تیمیہ کی پیروی کا مدعی ہے لہذا ممکن ہے کہ اس نے ان افکار و عقائد کو اسی سے لیا ہو ، لیکن ہمارا ان دونوں سے یہ سوال ہے کہ کیاجب مسلمان گیارہویںاور بارہویں ہجری میں خلیفہ اول کے زمانہ میں مسیلمہ کذّاب سے جنگ کے لیے جارہے تھے توان کا شعار ( یامحمداہ) نہیں تھا؟!( ۱ )

۔کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سب کافر و مشرک تھے !

۔کیا اہل مدینہ جو زیاد بن ابیہ کے خوف سے تین دن تک قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متوسل ہوتے رہے ، سب مشرک ہو گیے تھے ؟!

مدینہ منورہ میں ہزاروں صحابہ کرام موجود تھے کیا وہ سب قبرپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متوسل ہونے کی وجہ سے مشرک ہو چکے تھے ؟ !

۔کیا زوجہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( حضرت عائشہ ) مسلمانوں کو نزول رحمت کے لئے قبر پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متوسل ہونے کا حکم دینے کی وجہ سے مشرک ہو گئی تھیں(نعوذ بالله من ذلک ) ؟!

۔کیا ابن حبان ، ابو علی خلال ، طبرانی ، ابو الشیخ ، حاکم نیشاپوری ، ابوبکر فقیہ شافعی ،محب الدین طبری اور مذاہب اربعہ کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں علماء اپنی مشکلات کو دور کروا نے کے لئے آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی قبور سے متوسل ہونے کی وجہ سے مشرک ہو گئے تھے ؟

ہاں ، جیسا کہ بیان کیا جائے گا کہ توسل اور استغاثہ کے بہت زیادہ نمونے کتب اہل سنت میں موجود ہیں جو ہمیں اس امر پر مجبور کرتے ہیں کہ اس خطر ناک تفکّر کے بارے میں تحقیق کی جائے اور اس کی حقیقت تک پہنچا جائے

____________________

۱۔ البدایہ والنہایہ ۶: ۳۲۹.

۱۳

چونکہ آج وہابی قبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آئمہ بقیع کے پاس جانے سے سختی سے منع کرتے ہیں انہوں نے ان قبور کو خاک کے ٹیلے میں تبدیل کر دیا ہے اور ان کے زائرین کو گالیاں ، تھپڑ، توہین اور انہیں گرفتار کر کے روحانی و جسمانی اذیتیں پہنچا کر توسل و استغاثہ اور یا رسول اللہ ! کہنے سے روکتے ہیں وہ مسلسل اس جملے کو دہراتے ہوئے یہ شعار بلند کر رہے ہوتے ہیں :

یہ پتھر کے سوا کچھ نہیں اور بوسیدہ ہڈیاں ہیں

کیا واقعا رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آئمہ ہدیٰ ، شھداء اور...شھادت ووفات کے بعد پتھر اور گلی سڑی ہڈیاں ہیں ؟!

خداوند متعال قرآن کریم میں لوگوں کو توبہ اور گناہوں سے بخشش کے لیے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کا حکم فرمارہا ہے :

( ولو أنّهم اذ ظلموا أنفسهم جاؤوک فاستغفروا الله واستغفرلهم الرسول لوجدواالله توّابا رحیما ) ( ۱ )

ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑاہی توبہ قبول کرنے والا مہربان پاتے

کیا خداوند متعال نے لوگوں کو پتھر اور گلی سڑی ہڈیوں کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے ؟! صدر اسلام کے مسلمان( صحابہ و تابعین) جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل بھی کرتے اور ان کے وسیلے سے اپنی حاجات بھی طلب کیا کرتے ، کیا وہ حقیقتا پتھر ، لکڑی اور بوسیدہ ہڈیوں سے استغاثہ کیا کرتے تھے ؟!

____________________

۱۔سورہ نساء : ۶۴.

۱۴

کیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت سے لے کر محمد بن عبدالوہاب کے زمانہ یعنی ۱۱۴۳ھ تک سارا اسلامی معاشرہ مشرک ہو چکا تھا اور صرف محمد بن عبدالوہاب کے پیروکار وہابی ہی حقیقی مسلمان ، خداکے سچے نمائندے ، شعب اللہ المختار اور اس کے برگزیدہ بندے ہیں ؟

کیا حقیقی اسلام کوسمجھنا صرف انہیں میں منحصر ہے ؟ یا یہ کہ حقیقت کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ اسلام سے شکست کھانے والے اسلام کی قیمتی تعلیمات کو مسخ کرنے کی خاطرایسا تفکر پیش کر رہے ہیں .یہ تفکر چہرہ بدل کر اسلام کا اظہار کرتے ہوئے اسلام سے انتقام لینے کے لئے اس طرح کے خطرناک افکار کی ترویج کر رہاہے یہی چیز باعث بنتی ہے کہ ہم اس تفکر کے بارے میں زیادہ سے زیادہ تحقیق کریں تاکہ اس کی حقیقت تک پہنچ سکیں اور یہ جان سکیں کہ یہ نعرے سب سے پہلے کس زبان سے نکلے؟!

جی ہاں! مسند احمد بن حنبل اور الکامل المبرد پر ایک ہی نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوگیا کہ سب سے پہلے یہ نا شائستہ جملے مروان بن حکم اموی سے سنے گئے جب اس نے ایک صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابو ایوب انصاری کو قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا چہرہ رکھنے کی وجہ سے سختی سے پیش آتے ہوئے اٹھا دیا اور قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پتھر سے تعبیر کیا جبکہ ابو ایوب انصاری نے اسے جواب دیتے ہوئے دو بار کہا :

میں پتھر کے پاس نہیں آیا بلکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا ہوں .میں پتھر کے پاس نہیں آیا( ۱ )

مروان کے بعد یہی قبیح جملہ حجاج بن یوسف ثقفی کی زبان پرجاری ہوا جب اسے یہ خبر ملی کہ کوفہ کے کچھ لوگ ایک کاروان کی صورت میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس نے سخت ملامت کرتے ہوئے کہا : یطوفون بأعوادورمة بالیة لکڑیوں اور بوسیدہ ہڈیوں کا طواف کر تے ہیں؟( ۲ )

____________________

۱۔ مسند احمد ۵: ۴۲۲؛ المستدرک علی الصحیحین ۴: ۵۶۰.

۲۔الکامل ۱: ۱۸۵؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۵: ۲۴۲

۱۵

البتہ مروان اموی سے اس کے سوا کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی ؛ اس لیے کہ یہ وہ شخص ہے جس کا تعلق شجرہ ملعونہ سے ہے( ۱ )

وہ اسی حکم بن ابوالعاص کا بیٹاہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ سے نکال دیا تھا امام حسن علیہ السلام کے جنازے پر تیر چلانے والوں کا سردار وہی تھا وہ امام حسن مجتبیٰ ، امیرالمؤمنین علی اور اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیا کرتا اور کہا کرتا :أنتم اهل البیت ملعونون !! تم اہل بیت ملعون ہو

یہی وہ شخص ہے جس نے امام حسین علیہ السلام کے کربلاروانہ ہونے سے پہلے ہی ان کو مدینہ میں قتل کر دینے کا مشورہ دیا تھا( ۲ )

یہ وہی ہے جب جنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام کے لشکر کے ہاتھوں اسیر ہوا تو آنحضرت کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہی تو امیر المؤمنین نے فرمایا :انّها کفّ یهودیة ، ستلقی الأمة منه ومن ولده یوما أحمر .( ۳ )

____________________

۱۔ جامع البیان ۹: ۱۴۱ ؛ عمدة القاری ۱۹: ۳۰؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۶: ۲۸۵.

۲۔ سیر اعلام النبلاء ۳: ۴۷۸؛

۳۔ الطبقات الکبری۵:۳۷ ۳۔نہج البلاغہ،خطبہ ۷۳

۱۶

یہ یہودی ہاتھ ہیں امت اسلام اس اور اس کی اولادسے سرخ دن دیکھے گی

جی ہاں! اس تفکر کا آغاز بنوامیہ سے ہوایعنی وہ جنہوں نے ظلم وتشدد ، شمشیر و خونریزی، بے رحمی و سفاکی کے ذریعے لوگوں اپنا تسلط جمایا اور کئی سال تک اسلام کے نام پر اسلامی عقائد کو مسخ کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی سلطنت کا چراغ بجھ گیا

اب بھی دنیائے اسلام میں جہاں کہیں آتش فتنہ و تفرقہ پایا جاتا ہے اس کے پیچھے اسی تفکر کے پیروکاروں کا ہاتھ اور ان کی منافقانہ سازش کار فرما ہے

البتہ ہمارا مقصد وہابیوں کے ان مظالم کو بیان کرنا نہیں ہے جو انہوں نے طول تاریخ وہابیت میں انجام دیئے ہیں اس لیے کہ اس کے لیے الگ تحریر کی ضرورت ہے اس کتاب میں ہمارا مقصد ان کے باطل افکار اور بے ارزش نظریات کو رد ّ کرنا ہے اس لیے کہ وہ اپنی اس تحریک کے آغاز ہی سے رسوا ہو چکے ہیں یہا ں تک کہ ان ہم پیمان لوگوں نے بھی انہیں رسوا و ذلیل کیا جیسے عبداللہ قصیمی جو کئی سال تک ان کے دستر خوان پر پلتا رہا اور ان کی حمایت میں ( (الثورة الوهابیة البروق النجدیة ، الصّراع بین الاسلام و الوثنیة جیسی کتب تالیف کیں ؛ لیکن جیسے ہی اس گروہ کے موہوم افکار کے بارے میں تحقیق کی تو اس گروہ سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اورهذه هی الأغلال و...جیسی کتب تالیف کر کے اس گروہ کو عام و خاص میں رسوا کیا جو بھی اس کتاب کا مطالعہ کرے اس گروہ کی حماقت ولجاجت اور ان کے غرور و تکبر سے بخوبی آگاہ ہو جائے گا ۔

۱۷

لیکن یقینا عبداللہ قصیمی ہی پہلا اور آخری شخص نہیں ہے جس نے بنو امیہ کے اس باقیماندہ گروہ کو رسوا کیا ہو بلکہ اس سے پہلے اور بعد میں دس ایسی کتابیں لکھی جاچکی ہیں جن میں اس گروہ کی مخالفت کی گئی ہے محمد بن عبدالوہاب کا باپ جو نجد کے حنبلی علماء میں سے تھا اس نے بھی بارہا اپنے بیٹے کی مخالفت کی ، اس کے بھائی سلیمان بن عبدالوہاب نے اس کے خلافالصواعق الالهیه فی الرد علی الوهابیه کے عنوان سے ایک لکھ کر اسے رسواکیا.( ۱ )

حرمین شریفین ( مکہ و مدینہ ) کے علماء جو اس کے معاصر تھے انہوں نے ان سے بحث و مناظرہ کے بعد ان کے دین کا پابند نہ ہونے ، بے دین اور کافرہونے کا فتوٰٰی دیا

امام کعبہ ، شافعی فقیہ و مؤرخ سید احمد زینی دحلان ۱۲۹۹ھ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :

محمد بن عبدالوہاب نے ۱۱۴۶، ۱۱۶۵اور ۱۱۸۶ھ میں حج ادا کرنے کی غرض سے اپنے نمائندوں کو مکہ بھیجا لیکن علماء اہل سنت نے انہیں کافر قرار دیتے ہوئے مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا(. ۲)

____________________

۱۔یہ کتاب ارد و زبان میں ابو طالب اسلامک انسٹیٹیوٹ لاہور کی جانب سے ترجمہ و تحقیق کے ساتھ چھپ چکی ہے.

۲۔ الدر ر السنیة فی الرد علی الوھابیة : ۲۹و۳۰، طبع مصر سال ۱۲۹۹ھ

۱۸

ہم نے اس کتاب میں ان کے عقائد ونظریات کو ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے علمی جوابات بھی نقل کر دیے ہیں تاکہ تمام لوگوں پر یہ واضح ہو جائے کہ ان کے ان افکار کا تعلق نہ تو عقل سے ہے اور نہ ہی نقل سے اور زینی دحلان کے بقول علماء حرمین نے یہ فیصلہ دیا :

وجدوهم ضحکة ومسخرة کحمر مستنفرة فرّت من قسورة ( ۱ )

____________________

۱۔حوالہ سابق

۱۹

انہوں نے مناظرہ کے بعد یہ جان لیا کہ یہ کم عقل لوگ ہیں جو شیروں کے سامنے بھاگ نکلنے والے ہیں.

امید ہے کہ مسلمان بھائی آگاہی اور ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی منافقانہ سرگرمیوں سے بچنے اور انہیں اسلامی معاشرے سے دور رکھنے کی کوشش کریں گے

آخر میں برادر فاضل ودانشمند حجة الاسلا م جناب انصاری اور جناب اسفند یاری کا صمیم قلب سے شکر گذار ہوں جنہوں نے کتابروافدالایمان کا خلا صہ کرنے میں بہت زحمت اٹھائی امید وار ہوں کہ ان دو عزیزوں کی زحمت اور بندہ ناچیز کی کوشش ولی نعمت حضرت مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے لطف و کرم کا باعث بنے گی۔ ان شاء اللہ

قم المقدسہ ۴محرم الحرام ۱۴۳۰ہجری قمری

نجم الدّین طبسی

۲۰