وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ 0%

وہابی افکار کا ردّ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 179

وہابی افکار کا ردّ

مؤلف: شیخ نجم الدین طبسی
زمرہ جات:

صفحے: 179
مشاہدے: 95217
ڈاؤنلوڈ: 4461

تبصرے:

وہابی افکار کا ردّ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95217 / ڈاؤنلوڈ: 4461
سائز سائز سائز
وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ

مؤلف:
اردو

سمجھاجائے ؟

پھر رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں:انما الاعمال بالنیات ( ۱ )

بنا بر ایں قضاوت وفیصلے کا معیار نیت قلب ہے نہ کہ ظاہری مشابہت۔

عزامی شافعی اس بارے میں کہتے ہیں : اگر کوئی شخص مسلمانوں کی نیک افراد کیلئے نذروں اور قربانیوں کے مقصد کے بارے میں تحقیق کرے تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ ان کا مقصد اس کے سواکچھ نہیں ہے کہ اس صدقہ یا ہدیہ کا ثواب مردوں کی روح کو پہنچے اور ان کے لئے نفع بخش ہوتاہے ۔( ۱ )

اور پھر غرامی نے اس بات کا بھی اضافہ کیاہے : کہ نذر کے شرعی عمل ہونے کے بارے میں صحیح ومعتبر روایات ہم تک پہنچی ہیں انہی میں سے ایک روایت میں آیا ہے کہ سعد کہتے ہیں :

میں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کیا : میر ی ماں کا انتقال ہوگیا ہے او رمجھے یقین ہے کہ اگروہ زندہ رہتیں تو صدقہ اداکرتیں اور اگر میں ان کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا اسے فائدہ پہنچے گا؟ فرمایا : ہاں ۔ عرض کی کہ کونسی چیز کا صدقہ دینا بہتر ہے ؟

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : پانی ۔

سعد نے ایک کنواں کھودا اور کہا : ھذا لاِ ُم سعدٍ ؟ یہ کنواں سعد کی ماں کیلئے ہے ۔( ۳ )

البتہ اس سلسلے میں ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں نے خطاکی ہے اس لئے کہ وہ یہ دعوی کرتے ہیںکہ جب کوئی مسلمان یہ کہے :( (هذه الصدقة للنبی او للولی تو یہ(لام ) وہی لام ہے جو نذرت للہ

میں ہے ۔

____________________

۱۔صحیح بخاری ۱:۱.

۲۔فرقان القرآن ۱۳۳.

۳۔حوالہ سابق.

۱۴۱

واضح ہے کہ ابن تیمیہ نے غلط راہ اپنائی ہے کہ اسلئے کہ وہ(للہ ) میں لام خداوند متعال سے تقرب حاصل کرنے کے معنی میں ہے جب کہ (للنبی ) او ر(للولی ) میں صدقہ کے مصرف کو بیان کررہی ہے ۔

نذر سے متعلق سیرت مسلمین

پہلے اشارہ کرچکے ہیں کہ سیرت مسلمین یہ رہی ہے کہ وہ نذر کرتے اور اسے پورا بھی کیا کرتے ۔

علمائے اہل سنت میں سے خالدی کہتے ہیں : نبی اللہ یا ولی اللہ کیلئے نذر کرنے کا معنی یہ ہے کہ خداوند متعال کی خوشنودی کی خاطر اس کا ثواب ہدیہ کیاجائے ۔ اور بالکل اسی طرح ہے کہ جیسے کوئی یہ کہے کہ میں نے اپنے مرنے والے (مثلا مردہ باپ ) کیلئے قربانی کی ، یعنی اس کی طرف سے صدقہ دیا ہے( ۱ )

مثال کے طور پر تاریخ میں بیان ہوا ہے کہ شیخ احمد ابن علی بدوی کا ۶۵۷ہجری میں انتقال ہواتواسے(طندتا) میں دفن کی گیا اور اس کی قبر پر بارگاہ بنائی گئی ، اس شخص کی کرامات زبان زد عام ہیں اور لوگ اس کے لئے بہت زیادہ قربانی کرتے ہیں( ۲ )

اس کا مزید نمونہ احمد بن جعفر خزرعی المعروف ابوالعباس کی قبر ہے ۔ وہ مراکش کے رہنے والے ہیں اور ۶۰۱ ہجری میں وفات پائی ۔ اب بھی اس کی قبر زیارتگاہ ہے اور کثیر تعداد میں لوگ وہاں پر زیارت کے لئے جاتے ہیں کہا جاتاہے کہ وہاں پر دعا کا مستجاب ہونا تجربہ شدہ ہے ۔ میں نے بارہا اس قبہ کی زیارت کی ہے ۔ اور اس قبر کی برکت کا ایک بارتجربہ بھی کیا ہے ۔

ابن خطیب سلمانی کہتے ہیں ۔ احمدبُستی کی قبر پر چڑھائی جانے والی منتیں روزانہ ۸۰۰ مثقال خالص سونا

____________________

۱۔صلح الاخوان ۱۰۹؛ الغدیر ۵: ۱۸۲.

۲۔المواہب اللدنیہ ۵:۳۶۴ ؛ شذرات الذھب ۷: ۳۴۶.

۱۴۲

اور کبھی کبھی ایک ہزار دینار تک پہنچ جاتی ہیں(۱ )

وہ اس بارے میں لکھتے ہیں : یہ عمل آج تک جاری ہے ۔ میں نے پانچ سو سے زیادہ مرتبہ اس قبر کی زیارت کی ہے ۔ تیس سے زیادہ راتیں وہاں پہ گزاری ہیں اور اس قبر کی برکات دیکھی ہیں( ۲ )

علماء کے فتاوٰی

نذر کے بارے میں بیان کی جانے والی روایات کی بنا ء پر علمائے اہل سنت نے ا س کے شرعا جائز ہونے کا فتوی ہے ۔

خالدی حدیث ابوداؤد کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : خوارج اس حدیث سے تمسک کرتے ہوئے انبیاء وصالحین کے مقبروں کیلئے نذر کرنے کوجائز نہیں سمجھتے ۔ چونکہ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ انبیاء و صالحین(نعوذ باللہ ) بتوں کی مانند ہیں اور ان کا احترام زمانہ جاہلیت کی عیدوں کی طرح ہے ۔

ہم ان قبیح وشرک آلود کلمات سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں ! یہ فکرخوارج کی گمراہی اور ان کے خرافات کا نتیجہ ہے جو انہوں نے دین کے نام پرشریعت میں داخل کئے اور انبیاء اور اولیائے الہی کو بت کہا جو ان مقدس ہستیوں کی بے احترامی اور جسارت ہے ۔ وہ انتہائی بے ادبی کے ساتھ انبیاء کی تحقیر کرتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص خوارج پر اعتراض کرتا اگرچہ وہ اعتراض اشارے وکنائے کی صورت میں ہوتا تو اسے تکفیر کرتے ، یہاں تک کہ بعض موارد میں تو اس کی توبہ بھی قبول نہ کرتے اور اس کی جان ، مال او ر ناموس مباح قرار دیتے ۔ خوارج ابنیاء واولیاء سے توسل کو عبادت سمجھنے کے باوجود انہیں بت کہا کرتے ۔ لہذا

ذلیل و رسوا ہوئے ۔ خوارج کے جاہل نظریات پر توجہ دینا مناسب نہیں ہے جن کا سر چشمہ ان کی گمراہی

____________________

۱۔نیل الابتھاج ۲: ۶۲؛ الغدیر ۵: ۲۰۴)مولف (نیل الابتھاج

۲۔حوالہ سابق.

۱۴۳

تھی اور خود خداوند متعال دانا ترہے ۔( ۱ )

عزامی شافعی اس سلسلے میں لکھتے ہیں :

بعض متأخر علماء ابن تیمیہ اور اس کے شاگرد وںکے اقوال سے فریب کھا بیٹھے ہیں درحقیقت ابن تیمیہ اور اسکے شاگردوں کے اقوال دین میں فریب کاری اور دھوکہ ہیں.وہ دینی مسائل کا ایسا معنٰی کرتے ہیں کہ کوئی بھی مسلمان اپنی زبان پر ایسے مطالب جاری نہیں کرتا ۔

اگر کوئی شخص مسلمانوں کی انبیاء اور اولیائے الہی کے لئے دی جانی والی نذراور قربانی کے متعلق تحقیق کرے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ ان کا مقصد ان کی جانب سے صدقہ دینا اور ان کی روح کو اس کاثواب ایصال کرنا ہے ۔ علمائے اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ زندہ لوگوں کا مردوں کے لئے صدقہ دیناانہیں فائدہ پہنچاتا ہے اور اس سلسلے میں جو روایات بیان ہوئی ہیں وہ بھی صحیح اور مشہور ہیںلہذا انبیاء علیہم السلام اور اولیائے کرام کے لئے کی جانے والی نذر یا قربانی اور دیگر موارد ان شرعی امور میں سے ہیں جن کا سر چشمہ سیرت مسلمین ہے اور یہ کسی خاص فرقے سے مخصوص نہیں ہیں( ۲ )

____________________

۱۔صلح الاخوان ۱۰۹.

۲۔فرقان القرآن :۱۳۳؛الغدیر ۵: ۱۸۱.

۱۴۴

۱۱۔غیر خدا کی قسم

غیر خدا کی قسم کھانا

جیسا کہ بیان کیا جائے گا کہ قسم ایک عقلی امر ہے جسے قرآن وسنت میں بیان کیا گیا لیکن وہابی غیر خدا کی قسم کھانے سے منع کرتے ہیں ان میں سے بعض تو اسے بطور کلی شرک سمجھتے ہیں اور بعض اسے شرک اصغر کانام دیتے ہیں .ابن تیمیہ کہتا ہے شر ک کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ شرک اکبر : اسکی بھی اقسام ہیں...ان میں سے ایک مخلوق سے توسّل اور شفاعت طلب کرنا ہے

۲۔ شرک اصغر : جیسے ریاکاری ،اور اس کی ایک قسم غیر خدا کی قسم کھانا ہے.

روایت میں ہے کہ عبد اللہ عمر کہتے ہیں: رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

ومن حلف بغیر الله فقد أشرک و ...

جس نے غیر خدا کی قسم کھائی تو اس نے شرک کیا ....شرک اصغر مسلمان کو دین سے خارج نہیں کرتا بلکہ شرک اصغر کے مرتکب کو چاہئے کہ وہ اس سے توبہ کرے ۔( ۱ )

صنعانی اپنی کتاب تطہیر الاعتقاد میں قبروں پر جانے والوں کی طرف شرک کی نسبت دیتے ہوئے کہتا ہے:

وہ غیر خدا کے ناموں کی قسمیں کھاتے ہیں اور اگر یہ لوگ اپنی حقانیت کے لئے خدا کی قسم کھائیں تو ایسی قسم قبول نہیں کرتے ،ہاں اگر اپنے اولیاء میں سے کسی کی قسم کھائیں تو قبول کر لیتے ہیںاور یہ وہی بتوں کی پرستش ہے( ۲ ) ۔

____________________

۱۔رسائل الھدایة:۲۵.

۲۔کشف الارتیاب: ۲۱۹.

۱۴۵

اس نظر یے کا جواب

ہم اس نظریہ کا جواب چند طریقوں سے دیتے ہیں :

اول :یہ کہ غیر خدا کی قسم کھا نا

خود خدا وند متعال ، پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، صحابہ کرام ، تابعین اور تمام مسلمانوں سے ماضی سے لیکر آج تک ثابت ہے۔

الف) آیات میں غیر خدا کی قسم : قرآن کریم میں قسم کے بارے میں متعدد آیات بیان ہوئی ہیں ۔ سورہ عصر کے آغاز ہی میں پڑھتے ہیں :( والعصر ان الانسان لفی خسر ) ( ۱ )

دوسری آیت مجیدہ میں ہے :( العادیات ضبحا ) ( ۲ ) اسی طرح یہ آیت مجیدہ :( والناشطات نشطا ) ( ۳ ) اور سورہ ضحی کی ابتداء میں پڑھتے ہیں:( والضحی واللیل اذا سجی ) ( ۴ ) البتہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں کثرت کے ساتھ غیر خدا سے قسم کھانے کا تذکرہ ہوا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایسی قسم خدا کیلئے جائز ہے لیکن مخلوق کے لئے جایز نہیں تو ہم اس کا جواب یوں دیں گے : کیا خداوند متعال نے مخلوقات کی قسم کھا کر کسی کو اپنا شریک ٹھہرایا ہے ۔ اور شرک اصغر کا مرتکب ہوا ہے ۔ تعالی اللہ عن ذلک ۔ اور اگر غیر خدا کی قسم کھانا شرک اور اس غیر کوخدا سے تشبیہ دینا ہے تو پھر خدا سے بھی اس کا صادر ہونا قبیح ہے ۔

____________________

۱۔سورہ عصر: ۱ اور ۲.

۲۔ سورہ عادیات : ۱.

۳۔سورہ نازعات :۲.

۴۔سورہ الضحی ۱ اور ۲.

۱۴۶

ب)روایات میں غیر خدا کی قسم کھانا:

وایت میں بیان ہوا ہے کہ ایک دن ایک شخص پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا او رسوال کیا : کونسے صدقے کا اجر زیادہ ہے ؟ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

اما وابیک ، لتنبا نه ان تصدق وانت صحیح شحیح تخشی الفقر وتامل البقائ تجھے تیرے باپ کی قسم: تو اس سے باخبر ہونا چاہتاہے کہ توصدقہ دے جبکہ صحیح وسالم ہے ۔ فقر سے ڈرتاہے اور بقاء کی امیدرکھتاہے۔( ۱ )

مزیر ایک روایت میں پڑھتے ہیں :

ایک دن اہل نجد میں سے ایک شخص نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اسلام کے بارے میں چند سوال کئے ۔ تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آخر میں فرمایا: (افلح وابیه ان صدق )اس کے بات کی قسم ! اگر سچ کہے تو کامیاب ہوجائیگا۔( ۲ )

____________________

۱۔صحیح مسلم ۲: ۷۱۶.

۲۔صحیح مسلم ۲:۷۱۶؛ سنن الکبری ۲: ۶۱.

۱۴۷

ایک اعتراض

قسطلانی لکھتے ہیں:ابن عبد البر کہتے ہیں : عبارتافلح وابیه اسکے باپ کی قسم ایک منکراورمجہول حدیث میں بیان ہوا ہے جو معروف نہیں ہے ۔ چونکہ صحاح میں اس حدیث کو مردود شمار کیا گیاہے(۱) ۔

____________________

۱۔ارشاد الساری ۹: ۳۵۷.

۱۴۸

اعتراض کا جواب

حدیثاما وابیک اس حدیث کی تائید کررہی ہے لہذا یہ مردود نہیں ہے ۔ ابن عبدالبر کہتے ہیں : کہا جاتاہے کہااصل میں (افلح والله وابیک تھا اور پھروابی ہ میں تبدیل ہوگیاہے ۔

قسطلانی نے اس کے جواب کو قبول نہیںکیا اور ابوبکر کے قول کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے : بیہقی کا جوا ب مناسب تر ہے کہ ایسے الفاظوابیک ) عربوں کا تکیہ کلام ہے بجائے اس کے کہ وہ اس سے کسی معنی کاقصد کریں ۔ یا یہ کہ در اصلافلح ورب ابیه تھا ۔ اور کثرت استعمال کی وجہ سے لفظرب حذف ہوگیا ہے ۔( ۱ )

سید امین نے اس کے جواب میں کہا ہے ۔

ممکن نہیں ہے کہ عرب کسی لفظ کو اس کے معنی کا ارادہ کئے بغیر استعمال کریں اور جب بھی ایسے الفاظ کا استعمال کیا جائے تومراد قسم کھانا ہے اور (رب ابیک ) کے تقدیر میں ہونے پر بھی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔( ۲ )

قسمِ ابوطالب اور تائیدِ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

نقل کیا گیا ہے : ایک دن حضرت ابوطالب نے اشعار میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں فرمایا :

کذبتم وبیت الله یبزی محمد

ولما نطاعن دونه ونناضل

____________________

۱۔کشف الارتیاب : ۲۷۲.

۲۔حوالہ سابق ۲۷۲.

۱۴۹

انہوں نے اس شعر میں بیت اللہ کی قسم کھائی ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے سنا اور رد نہ کیا( ۱ )

عمل صحابہ

واضح رہے کہ صحابہ کرام بھی غیر خدا کی قسم کھایا کرتے ، نقل کیا گیا ہے کہ عبد اللہ بن جعفر کہتے ہیں جب بھی اپنے چچا حضرت علی سے کسی شے کی درخواست کرتا اور وہ قبول نہ کرتے تو کہتا : (آپکو جعفر کے حق کی قسم )تو وہ قبول کرلیتے ۔( ۲ )

نہج البلاغہ میں بیان ہوا ہے کہ امام علی نے معاویہ کانام ایک نامہ میں لکھا :

ولعمری یا معاویه ! لئن نظرت بعقلک دون هواک لتجدنی ابرء الناس من دم عثمان اے معاویہ ! مجھے اپنی جان کی قسم ! اگر تو خواہشات نفس سے ہٹ کر عقل کی نگاہ سے دیکھے گاتو مجھے خون عثمان میں سب سے زیادہ بری پائے گا۔( ۳ )

روایت میں آیا ہے کہ مسروق نے قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت عائشہ سے خوارج کے بارے میں سوال کیا : تجھے اس صاحب قبر کی قسم ! تم نے خوارج کے بارے میں کیا سنا !

حدیث عبداللہ بن عمر پر اعتراض

اب ہم اس حدیث کی تحقیق کرتے ہیں جسے عبد اللہ ابن عمر نے غیر خدا کی قسم نہ کھانے لئے بیان کیا ہے ۔

____________________

۱۔ایمان ابوطالب ۳۳۹؛ منیة الراغب فی ایمان ابی طالب : ۱۲۲، تالیف آیت اللہ محمد رضا طبسی؛ شرح ابن ابی الحدید ۱۴: ۷۹.

۲۔شرح ابن ابی الحدید ۱۵: ۷۳.

۳۔شرح نہج البلاغہ ، محمد عبدہ ۳: ۷.

۱۵۰

ترمذی نقل کرتے ہیں : ایک دن عبداللہ بن عمر نے سنا کہ ایک شخص کہہ رہاہے :کعبہ کی قسم ! عبداللہ نے اس سے کہا : غیر خداکی قسم مت کھاؤ، میں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا :من حلف بغیر الله فقد کفر

جس نے غیر خدا کی قسم کھائی اس نے کفر کیا۔( ۱ )

اس حدیث میں دو طرح کے اشکا ل پائے جاتے ہیں ۔

۱۔سند کے اعتبار سے

۲۔ دلالت کے اعتبار سے

سند کے اعتبار سے تو اس کے راویوں میں سے ایک روای سلیمان بن حیان ہے ۔ ابن معین اور ابن عدی (اہل سنت کے علمائے رجال ) نے اس کے بارے میں کہا ہے : سلیمان سچا آدمی ہے لیکن اس کی نقل کردہ احادیث حجت نہیں ہیں اس لئے کہ اس کا حافظہ اچھا نہیں تھا اور وہ احادیث کو صحیح نقل نہ کیا کرتا۔

اگراس حدیث کی سند کو مان بھی لیا جائے پھر بھی دلالت کے اعتبار سے اسے شدید کراہت پرحمل کیاجائے گا۔ یا یہ کہ شرک وکفر کی علت یہ ہوسکتی ہے ۔ کہ قسم کھانے والا شخص غیر خدا کے بارے میں خدا والا عقیدہ رکھتے ہوئے قسم کھائے ۔

اس بارے میں قسطلانی کا کہنا ہے : غیر خدا کی قسم کے منع ہونے کے بارے میں شرک وکفر کی تعبیر مبالغہ ہے ۔ کیا منع سے مراد منع تحریمی ہے یا کراہتی ؟

مشہور مالکی علماء لکھتے ہیں : یہ نہی کراہت کوبیان کررہی ہے ۔ جبکہ حنبلی حرمت کے قائل ہیں اکثر شافعی علماء کراہت سمجھتے ہیں اور بعض تفصیل کے قائل ہیں کہ اگر جس اعتقاد کے ساتھ خدا کی قسم کھائی جاتی ہے

____________________

۱۔ارشاد الساری ۹: ۳۵۸ ؛ سنن ترمذی ۴:۱۱۰.

۱۵۱

اسی اعتقاد کے ساتھ غیر خدا کی بھی قسم کھائی جائے تو یہ حرام اور کفر ہے ۔ لیکن اگر فقط مخلوق کے احترام کی بنا پر ہوتو اس سے کفر لازم نہیں آئے گا۔( ۱ )

____________________

۱۔ارشاد الساری ۹: ۳۵۸.

۱۵۲

۱۲۔جشن منانا

جشن منانا

ولادتوں کے موقع پر جشن وسرور کی محافل ومجالس برپا کرنا شرعی اور مباح سیرت بلکہ مسلمانوں کے درمیان رائج امور میں سے ہے جو اب بھی موجود ہے ۔ لیکن وہابی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا میلاد ، اس میں قرآن مجید کی تلاوت ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں اشعار پڑھنا اور مسلمانوں کو کھانا کھلانا ان امور میں سے ہے جن سے منع کیا گیاہے ۔ اس بارے میں ابن تیمیہ کہتاہے ۔

عیدوںکے موقع پر جشن وسرور بدعت ہے اور اس کی کوئی اساس نہیں ہے ۔ سلف میں سے کسی نے بھی ان دنوں میں اجتماعی طور پر عید کے عنوان سے خوشی نہیں منائی اور نہ ہی ان دنوں میں اعمال انجام دیئے ۔ یہ عیسائیعں کا عمل ہے جو وہ حضرت عیسی کی ولادتپر خوشی وجشن مناتے ہیں یا یہودیوں سے لیا گیاہے ۔ ۔۔ اسی طرح میلاد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو عیسائیوں کے عمل سے شباہت رکھتاہے یا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احترام کی وجہ سے ہے۔ اگر یہ عمل خیر محض ہوتایا شرعی طور پر رجحان رکھتاہوتا تو سلف اس کے برپا کرنے میں زیادہ سزاوار تھے ۔( ۱ )

محمد حامد الفقی اس بارے میں اظہار نظر کرتے ہوئے کہتاہے ۔

اولیاء کی وفات کی یاد یا ان کی ولادت کے دن جشن منانا، یہ ان کی پرستش شمار ہوتی ہے اور ایک طرح سے ان کی عبادت اور تعظیم کرناہے ۔( ۲ )

وہابی اس ناجائز تفکر کے لئے چند روایات کا سہار الیتے ہیں :

پہلی حدیث : ابوہریرہ کہتے ہیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

____________________

۱۔اقتضاء الصراط المستقیم : ۲۹۴.

۲۔الملل والنحل ۴:۳۲۰.

۱۵۳

لا تجعلوا بیوتکم قبورا ولاتجعلوا قبری عیدا وصلو ا علی فان صلاتکم تبلغنی حیث کنتم ( ۱ )

اپنے گھروں کو قبریں مت بناؤ اور میری قبر کو عید نہ بناؤ ، بلکہ مجھ پر درود بھیجو اسلئے میں جہاں پہ بھی ہوں تمہارا درود مجھ تک پہنچتاہے ۔

حدیث دوم : پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل ہوا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبر کو عید قرار دینے سے منع کیاہے ۔

اس حدیث پر اعتراضات

واضح رہے کہ اس نظر یہ پر چند اعتراض وارد ہوتے ہیں:

اول: میلاد پیغمر گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جشن منانے اور عبادت کرنے میں فرق ہے چونکہ عبادت میں تین عنصر میں سے ایک کا ہونا ضروری ہے ۔ ۱۔ جس کی عبادت کی جارہی (معبود) ہواس کی الوہیت کا عقیدہ رکھا جائے ۔

۲۔ معبود کے رب ہونے کا عقیدہ رکھا جائے ۔

۳۔ یہ اعتقاد رکھا جائے کہ رب کے افعال خود معبود کے سپرد ہیں۔

جبکہ انصاف یہ ہے کہ جشن برپا کرنے والوں میں سے کوئی بھی ان عناوین کا معتقد نہیں ہے بلکہ وہ اپنے اس عمل کے ذریعہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنی محبت کا ا ظہار کرتے ہیں اور اس محبت ومودت کے اظہار کا حکم قرآن مجیدمیں دیاگیاہے ۔ جہاں پریہ فرمایا :

( قل ان کان آبائکم وابنائکم واخوانکم وأزواجکم وعشیرتکم وأموال اقترفتموها وتجارة تخشون کسادها ومساکن ترضونها أحبّ الیکم من الله ورسوله وجهاد فی )

____________________

۱۔مسند احمد ۲: ۳۶۷.

۱۵۴

( سبیله فتربصواحتٰی یأتی الله بأمره والله لا یهدی القوم الفاسقین ) ( ۱ )

ترجمہ: اے پیغمبر ! تم کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ دادا، اولاد،برادران ازواج ،عشیرہ و قبیلہ اور وہ

اموال جنہیں تم نے جمع کیا ہے اور وہ تجارت جس کے خسارہ کی وجہ سے فکر مندرہتے ہواور وہ مکانات جنہیں پسند کرتے ہو تمہاری نگاہ میں اللہ ، اس کے رسول اور راہ خدامیں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو وقت کا انتظار کرو یہاں تک کہ امر الٰہی آجائے اور اللہ فاسق قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے

اسی طرح پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کا حکم دیا ہے ۔ اور فرمایا:لا یؤمن احدکم حتی اکون انا واهل بیتی احب الیه من نفسه

تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک صاحب ایمان نہیں ہوسکتا جب تک اپنے سے بڑھ کر مجھ سے اور میرے اہل بیت سے محبت نہ کرے ()

دوم: خود ابن تیمیہ کے بقول ہرچیز میں اصل اسکا مباح ہونا ہے ۔ وہ کہتاہے : عادات ورسوم میں اصل ان کا جائز ہونا ہے مگر یہ کہ خداوند متعال کی طرف سے نہی کی گئی ہو۔( ۳ )

بنا بر ایں وہ احادیث جن سے وہابی استناد کرتے ہیں سند ودلالت کے اعتبارسے مخدوش ہیں اور پھر میلا د کے موقع پر منائے جانے والے جشن کے بارے میں نہی بھی فرمائی گئی ہے۔

سوم: یہ کہ اگر فرض کر لیا جائے کہ جشن منانے کے جواز پر کوئی روایت وارد نہیں ہوئی ہے پھر بھی اس کے جواز پر ایک مسلم دلیل موجود ہے اور وہ نص قرآنی کی رو سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت سے محبت ومودت ہے جسے قرآن وسنت نے ان محافل ومراسم کی اصل قرار دیا ہے ۔ اور یہ جشن میلاد

____________________

۱۔ سورہ توبہ : ۲۴.

۲۔الدر المنثور ۴:۱۵۷.

۳۔مجموع الفتاوی ۴: ۱۹۶.

۱۵۵

کے اجتماع اسی اظہار محبت کا مصداق ہیں۔

چہارم: یہ کہ ابن تیمیہ ہر چیز کے حلال وحرام ہونے کا معیار سلف کو قرار دیتاہے ۔ کیا در حقیقت قرآن وسنت معیار ہیں یا عمل سلف؟ اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم دیکھتے ہیں خود سلف بھی مختلف زمانوں میں جشن منایا کرتے۔

علماء کے اقوال کے نمونے

پنجم : علمائے اہل سنت کے اقوال جشن برپا کرنے کے بارے میں مسلمانوں کی سیرت کو بیان کررہے ہیں ۔ جس کے دونمونوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔

۱۔ قسطلانی (متوفی ۹۲۳ھ) کہتے ہیں : مسلمان ہمیشہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت کے مہینے میں جشن مناتے ہیں اور دوسروں کو کھانا کھلاتے ہیں۔

خدا کی رحمت ہو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے میلا د کے موقع پر عید منانے والوں پر جو(اپنے اس عمل سے ) بیمار دلوں کے درد میں اضافہ کرتے ہیں( ۱ )

۲۔ قاضی مکہ مکرمہ حسین بن محمد معروف بہ دیار بکری (م ۹۶۶ھ) اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں : (مسلمان ہمیشہ ماہ میلاد پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں جشن مناتے ہیں ، راتوں کو طرح طرح کے صدقے دیتے ہیں ، لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں مزید برآں حاجتمندوں کی مدد کرتے ہیں اورولادتوں کی مناسبت سے قصیدے پڑھتے ہیں اور ہر زمانہ میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں( ۲ )

ان موارد سے یہ معلوم ہوتاہے کہ مختلف زمانوں میں مسلمانوں کا اس عمل پر اجماع واتفاق رہا ہے ۔

____________________

۱۔المواہب اللدنیة ۱: ۲۷.

۲۔تاریخ الخمیس ۱: ۳۲۳.

۱۵۶

ابن عباد کہتے ہیں : میرے لئے واضح ہے کہ مسلمانوں کی عیدوں میں سے ایک پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت کا دن ہے اورکوئی بھی عمل جشن کے عنوان سے مباح ہے ۔( ۱ )

۶۳۰ھ میں ابوسعید اربلی نے ایسے جشن وسرور کی محافل کو زندہ کرنے میں سب سے سبقت حاصل کی ۔

بعض کا کہنا ہے : سب سے پہلی بار خلیفہ فاطمی (المعجز لدین اللہ ) نے شوال ۳۶۱ھ میں قاہر ہ میں جشن برپا کیا ۔( ۲ )

تھوڑا سا غور کرنے سے معلوم ہوجاتاہے کہ خود قرآن کریم نے پیغمبر گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعظیم وتکریم کا دستور صادر فرمایاہے :

( فالذین آمنوابه و عزّروه و نصروه و اتّبعوا النور الذی اُنزل معه اُولٰئک هم المفلحون ) ( ۳ )

ترجمہ:پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کا احترام کیا اس کی امداد کی اور اس نور کا اتّباع کیا جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے وہی در حقیقت فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں ۔

بنابر این میلاد اور جشن کی محافل کا برپا کرنا دستور قرآنی ہے اور پیغمبر اسلام حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعظیم وتکریم کا مصداق ہے ۔

مذکورہ حدیث پر اعتراض

ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ وہابی جشن ومیلاد کی محافل سے منع کرنے پر دو حدیثوںسے استناد کرتے ہیں پہلی حدیث کو تحقیق کے بعد رد کردیا گیا اور اب دوسری حدیث کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں وہابیوں کا کہنا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:لا تجعلوا قبری عیدا میری قبر کو عید مت بناؤ۔

____________________

۱۔المواسم والمراسم :۲۲.

۲۔ بحوث فی الملل ولانحل ۴:۳۲۳.

۳۔اعراف : ۱۵۷.

۱۵۷

اس حدیث میں مختلف پہلوؤں سے اشکال پائے جاتے ہیں :

۱۔ احمد بن حنبل نے اسی حدیث کو ایک اور عبارت کے ساتھ نقل کیاہے کہ سہیل بن ابو صالح کہتاہے : پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

اللهم لا تجعل قبری وثنا

خدایا ! میری قبر کو بت قرار نہ دینا ۔( ۱ )

قابل ذکرہے کہ ذہبی نے اس حدیث کی سند پر بھی اعتراض کیا ہے ۔( ۲ )

۲۔ یہ حدیث معنی کے اعتبار سے درست نہیں ہے اس لئے کہ عید کا تعلق ایک خاص زمانے سے ہے ۔ جبکہ قبراسم مکان ہے کہاجاتاہے : روز جمعہ عید ہے ۔ روز فطر عید ہے ۔ اس لحاظ سے یہ جملہ (میری قبر کو عید نہ بنانا) ان کے دعوے کے ساتھ سے مناسبت نہیں رکھتا۔

۳۔ اس حدیث کی سند بھی ضعیف ہے ۔ اس لئے کہ جس حدیث میں لفظ (عیدا) ہے اس کے راویوں میں سے ایک عبد اللہ بن نافع ہے ۔ بخاری اسکے بارے میں کہتے ہیں : عبداللہ بن نافع حفظ کردہ احادیث میں سے جنہیں نقل کیا کرتاان میں سے بعض معروف اور بعض منکر ومجہول ہوتیں ۔( ۳ )

ابن حنبل ، عبداللہ بن نافع کے بارے میں کہتے ہیں :

وہ ایک ضعیف شخص تھا ، اہل نظر اورصاحبِ حدیث نہیں تھا ۔( ۴ )

____________________

۱۔ مسند احمد ۲ : ۲۴۶.

۲۔ سیر اعلام النبلاء ۴: ۴۸۴.

۳۔التاریخ الکبیر شمارہ : ۶۸۷.

۴۔میزان الاعتدال ۳: ۲۴۳، تہذیب الکمال ۱۲: ۲۲۳.

۱۵۸

دوسری روایت جس میں لفظ (وثنا ) ہے اس کے راویوں میں سے سہیل بن ابوصالح ہے ۔

اس کے بارے میں ابو حاتم کا کہنا ہے ۔ سہیل کی نقل کردہ احادیث کو لکھا جائے گا لیکن ان سے استناد نہیں کیا جائیگا۔( ۱ )

دوسری جانب علمائے اہل سنت نے اسی حدیث کو نقل کیاہے منذری کہتے ہیں : یہ حدیث انسان کو زیارت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کثرت سے بجالانے کی ترغیب دلاتی ہے ۔ اور کہا ہے : ایسا نہ ہوکہ طول سال میں بعض اوقات پیغمبروں کی زیارت کی جائے جس طرح سال میں ایک یا دو مرتبہ عید آتی ہے اور لوگ جشن منالیتے ہیں( ۲ )

سبکی اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ احتمال پایا جاتاہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ فرمارہے ہیںکہ میری زیارت کیلئے خاص وقت اور خاص زمانہ مت انتخاب کرو جیساکہ بعض مقبروں کی مانند عیدخاص ایام میں زیارت کی جاتی ہے ۔( ۳ )

____________________

۱۔تہذیب التہذیب ۴: ۲۳۱.

۲۔شفاء السقام :۱۷۷.

۳۔حوالہ سابق

۱۵۹

۱۳۔گریہ و مجالس عز

گریہ ومجالس عزا کا برپا کرنا

تاریخ اور روایات یہ بتلاتی ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، صحابہ وتابعین کرام مرنے والوں او رشہداء و۔۔۔ پر گریہ کیا کرتے اور دوسروں کو بھی نہ صرف عزاداری کا موقع دیتے بلکہ انہیں اس عمل پر تشویق بھی کیا کرتے ۔ جیسا کہ حضرت عائشہ نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات پر اپنے منہ پر پیٹا ۔

البتہ طول تاریخ میں بزرگ محدثین کے فراق کی مصیبت میں بھی مجالس برپا کی جاتی رہی ہیں ۔ جس کے چند نمونے یہاں پر ذکر کیے جائیں گے ۔

اسامہ بن زید کہتے ہیں : پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے نواسے کی موت کی خبر سننے کے بعد بعض صحابہ کرام کے ہمراہ اپنی بیٹی کے گھرپہنچے ۔ میت کو ہاتھو ں پر اٹھایا جبکہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور کچھ ورد کررہے تھے ۔( ۱ )

دوسرا نمونہ احمد ابن حنبل یوں نقل کرتے ہیں:

جنگ احد کے بعد پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انصار کی عورتوں سے فرمایا جو اپنے شوہروں پر گریہ کررہی تھیں ۔

ولکن حمزة لا بواکی له لیکن حمزہ پر گریہ کرنے والا کوئی نہیں ۔

روای کہتاہے : پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آرام کیا او رجب اٹھے تو دیکھا عورتیں پہلے حضرت حمزہ پر گریہ کررہی ہیں۔

اس بارے میں ابن عبدالبر کہتے ہیں : یہ رسم اب تک موجود ہے ۔ اور لوگ کسی مرنے والے پر گریہ نہیں کرتے مگر یہ کہ پہلے حضرت حمزہ پر آنسو بہاتے ہیں( ۲ )

____________________

۱۔سنن نسائی ۴: ۲۲.

۲۔الاستیعاب ۱: ۳۷۴.

۱۶۰